اللہ سے عافیت و سلامتی طلب کریں

پہلا خطبہ

ہر قسم کی تعریف  اللہ کے لئے ہےجو عزت و جلال والا ہے، گناہوں کو بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، بہت  طاقتور ہے، ہر غنیمت و فضل عطا کرنے والا،  مصیبت و تنگدستی کو دور کرنے والا، میں اللہ سبحانہ وتعالی کی بھرپور نعمتوں ، اس کے وسیع کرم اور عظیم نشانیوں پر اس کی تعریف کرتا ہوں، اورمیں گواہی دیتا ہوں اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں،اول و آخر، ظاہر و پوشیدہ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، انہیں اللہ نے انسانوں اور جنات کے لئے(نیک اعمال پر جنت کی) خوشخبری دینے والا اور(برے اعمال پر عذاب سے)  ڈرانے والا،اللہ  کے حکم سے اس کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ  بنا کر بھیجا ہے، اللہ ان پر اور ان کے پاکیزہ گھر والوں پر اور صحابہ کرام پر اور تابعین پر اورقیامت تک جو اُن کے نقش قدم پر چلے ان سب پر رحمتیں بھیجے اور برکتیں نازل فرمائے،اور بہت زیادہ سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و ثناء کے بعد!

ایک حقیقت

اے لوگوں!

میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، آپ سب اس دنیا میں (اللہ کے حکم کے) تابع اور مکلف ہیں،(کبھی)  آزمائشیں ہیں تو  کبھی  فوتگیاں۔اور آپ کو وقتا فوقتا نعمتیں ملتی رہتی ہیں،  ایک نعمت ملتی ہے تو   کبھی دوسری  نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں، کسی کی پیدائش ہے تو کبھی کسی کی وفات،ایک نئی چیز حاصل ہوتی ہے تو دوسری چیز پرانی ہوجاتی ہے۔اور اصل لوگ (صحابہ اور تابعین) تو گزر چکے ہیں ہم تو ان کی (نسل ، اولاد یا بعد میں آنے والے لوگ) فرع ہیں،اور اصل  (سلف صالحین کے جانے کے بعد)کے بعد فرع کی بقاء کہاں ہے؟

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ

الرعد – 26

اور دنیا کی زندگی آخرت (کے مقابلے) میں (بہت) تھوڑا فائدہ ہے۔

محنت کا پھل

اے لوگو!

بیشک انسانوں کومحنت اور مشقت  کا حکم دیا گیا ہے، اور اللہ نے انہیں تکلیف میں پیدا کیا ہے، ہر شخص   جاتا ہے  اور اپنے نفس کا سودا کرتا ہے یا تو اسے (جہنم کی آگ سے) آزاد کرلیتا ہے یا اسے ہلاک کردیتا ہے۔

اور لوگ یا تو محنت کرکے عیش و آرام کی زندگی گزارتے ہیں یا (محنت کو چھوڑ نے کی وجہ سے)  تکلیف میں ہی رہتے ہیں۔ کہیں تو محنت کے کاموں میں اتنےسست ہوجاتے ہیں کہ رسوائی کا شکار ہوجاتے ہیں اور کہیں  فوائد کو دیکھ کر اتنے چاک و چوبند (چست) ہوجاتے ہیں کہ سرکشی پر اُتر آتے ہیں۔

عقلمندی کا ثبوت

اور ان میں عقلمند وہ ہے جو نہ ہی بھٹکتا ہے اور نہ ہی سرکشی پر آتا ہے۔ اورہمیشہ گھبراہٹ کو کنٹرول میں  رکھتا ہے۔ اپنی دونوں حالتوں کو قابو میں رکھتا ہے۔ اور اپنے آپ کو اپنے خالق و مولا کے دروازے کی طرف لے کر جاتا ہے،اس سے اپنے دین، دنیا، اہل اور مال میں معافی اور عافیت (سلامتی) مانگتا ہے۔

فطرتی تقاضہ

کیونکہ عافیت کو ترجیح دینا اس فطرت  کا تقاضا ہے جو اللہ نے انسانی نفس میں رکھی ہے؛ اور مصیبت و تکلیفوں  کو صرف وہی پسند کرتا ہےجس کا مزاج خراب ہوچکا ہو اور دل پر مہر  لگ چکی ہو۔

عافیت کی اہمیت

عافیت کی اہمیت کا اندازہ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جودین یا دنیا کی کسی نعمت سے محروم ہو، اور جب تک انسان عافیت میں رہتا ہے اسکی قدرو قیمت کا احساس(اندازہ)نہیں ہوتا،اور جب اس سے محروم ہوجاتا ہے تب اسے (اسکی اہمیت کا) اندازہ ہوتا ہے۔اور عافیت کا لباس ہی دین اور دنیا کا سب سے خوبصورت لباس ہے، اسی کی بدولت دنیا کی زندگی بھی خوبصورت ہوجاتی ہے اور  آخرت بھی سنور جاتی ہے۔

اللہ سے عافیت مانگیں

محمد مصطفی ﷺ نے اپنی امت پر رحم کرتے ہوئے اور انکی خیرخواہی چاہتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی ہے:

«سلُوا اللهَ العفوَ والعافيةَ؛ فإن أحدًا لم يُعطَ بعد اليقين خيرًا من العافية»؛ رواه أحمد.

رواه أحمد

اللہ سے معافی اور عافیت مانگیں؛ کیونکہ یقین کے بعد عافیت سے بہتر  کوئی نعمت نہیں۔

اور نبی ﷺ نے صرف اپنی امت کو ہی (عافیت کا) حکم نہیں دیا بلکہ خود بھی بارہا عافیت کی دعاءئیں  کرتے رہے تاکہ امت اس  عظیم نعمت کی قدر جان لے۔

عافیت کے لئےنبی ﷺیہ دعاء کیا کرتے تھے :

«اللهم إني أسألُك العافيةَ في الدنيا والآخرة، اللهم إني أسألُك العفوَ والعافية في ديني ودنياي وأهلي ومالي .. الحديث» .

رواه أبو داود وغیره

یا اللہ! میں تجھ سے دنیا اور دین میں عافیت کی دعاء کرتا ہے، یا اللہ میں تجھ سے معافی اور اپنے دین، دنیا، اہل اور مال میں  اور عافیت مانگتا  ہوں۔

ابن جزری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :

“من أُعطِيَ العافية فازَ بما يرجُوه ويُحبُّه قلبًا وقالَبًا، ودينًا ودُنيا، ووُقِيَ ما يُخافُه في الدارَيْن”.

جسے عافیت مل گئی وہ اس چیز کو حاصل کرکے کامیاب ہوگیا جس کی وہ  دین و دنیا میں دل و جان سے چاہت اور تمنی  کرتا ہے۔اور وہ اس برائی سے بھی محفوظ ہوگیا جس سے دنیا و آخرت میں ڈر ہے۔

عافیت کا مکمل ہونا ضروری ہے

اللہ کے بندو!

عافیت ایک ایسی قیمتی نعمت ہے جس کے ٹکڑے  یا اس  میں نقص کسی کام کا نہیں ،بلکہ اس کا(دینی و جسمانی طور پر)  مکمل ہونا بہت ضروری ہے۔اسی لئے وہ شخص بہت بڑی غلطی کر رہا ہے جو دین کی عافیت کو چھوڑ کرصرف جسمانی عافیت چاہتا ہے؛ اور جس نے  بھی دینی عافیت کو بھُلا کر صرف جسمانی عافیت کی خواہش رکھی تو اس نے (بھلائی  سے) منہ پھیرنے میں تجاوز کیا اورصحیح راستے سے  ہٹ گیا۔ اور جس نے جسمانی عافیت کو چھوڑ کر صرف دینی عافیت کی خواہش کی تو اس نے اپنے اوپر ظلم کیا،اور بعض اوقات جسمانی کمزوری کی وجہ سے دینی اعمال میں بھی کمی آجاتی ہے۔ اور طاقتور (صحت مند) مومن اللہ تعالی کو کمزور مومن سے زیادہ پسند ہے۔

سعادت مند

اللہ کے بندو!

ابن جوزی  رحمہ اللہ کے قول کے مطابق سعادت مند وہ ہے :

هو من ذلَّ لله وسألَ العافية؛ فإنه لا تُوهَبُ العافيةُ على الإطلاق؛ إذ لا بُدَّ من بلاءٍ، ولا يزالُ العاقلُ يسألُ اللهَ العافيةَ ليتغلَّبَ على جمهور أحوالِه.

جو اللہ کے سامنے گِڑگِڑا کر عافیت مانگتا ہے،کیونکہ عافیت بِن مانگے نہیں ملتی اور مصیبت تو لازمی آ ہی جاتی ہے۔ اور عقلمند انسان اللہ سے عافیت کی دعاء کرتا  ہی رہتا ہے تاکہ  وہ اپنے تمام معاملات پر مکمل کنٹرول کرسکے۔

عقلمند شخص کی خواہش

اللہ کے بندو!

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق عقلمند وہ ہے:

ومن عُوفِيَ فشكَرَ – عباد الله – أحبُّ إلى كل ذي لُبٍّ من أن يُبتلَى فيصبِر، كما قال أبو بكرٍ – رضي الله عنه -.

جس کی یہی خواہش ہوتی ہےکہ اسے عافیت مل جائے اور وہ اس پر اللہ کا شکر کرے ،نہ کہ وہ  مصیبت میں مبتلاء ہو اور پھراُس پر صبر کرے۔

دینی عافیت کی اہمیت

اللہ کے بندو!

ہر  عام اورمعزز  انسان بصیرت کی نگاہ سے یہ ملاحظہ کرسکتا ہےکہ عموما لوگ جسمانی  عافیت کو بہت اہمیت دیتے ہیں یہاں تک کہ اس نعمت کے حصول کے لئے وقت،محنت،یاددہانی اور دعاؤں میں مصروف رہتے ہیں۔جبکہ دوسری طرف وہ  دینی عافیت  اور دین کے راستے میں آنے والی مصیبتوں اور آفتوں سے سلامتی کے معاملے میں غفلت برتتے ہیں، حالانکہ دین  میں آنے والے فتنے پوری امت کو لے ڈوبتے ہیں۔

اور جب انسان دینی عافیت کو حاصل کرنے میں کوتاہی  کرتا ہے تواس کا مطلب یہ ہوتا ہےکہ وہ اپنے آپ کو ہلاکت  و گمراہی میں ڈال رہا ہے۔ اور جب انسان اپنے رب کی نافرانی کا اعلان کرتا ہےتو اس وقت اسکی ہلاکت و گمراہی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے؛ اللہ  نے تو اس پر پردہ ڈال دیا تھا مگر وہ بندہ خود ہی اپنے آپ کو رسوا کردیتا ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ کی صحیح حدیث ہے:

«كلُّ أُمَّتي مُعافَى إلا المُجاهِرين».

میری امت کے تمام لوگوں کو عافیت مل سکتی ہے لیکن گناہوں کا اعلان کرنے والے ( ہمیشہ عافیت سے محروم رہیں گے)۔

دینی عافیت کی کمی کا سببب

دینی عافیت کا نقصان اللہ کی شریعت کو چھوڑنے سے ہوتا ہے؛ چاہے وہ  ان حیوانی خواہشات کی سرکشی کی وجہ سے چھوڑے  جو گمراہی کے گڑھے تک  یا اس حد تک لے جاتی ہیں جہاں وہ اپنی خواہشات میں اس طرح منہ مارتا ہے جیسا کہ انتہائی پیاسا آدمی پانی پیتا ہے، یا دین میں کسی شبہ کی   وجہ سے : جو حد سے بڑھ کر ان لوگوں کی صفوں تک لے جاتا ہے جوہر (سیدھے) راستہ میں بیٹھ کر اسے ٹیڑھا کرنے کی کوشش میں ایمان والوں کو دھمکیاں دیتے اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔

اور نبی ﷺ نے دینی عافیت کو کمزور کرنے والی چیزوں سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔

صحیح بخاری و مسلم میں نبی ﷺ کا فرمان ہے:

«ستكونُ فتنٌ القاعدُ فيها خيرٌ من القائِم، والقائِمُ فيها خيرٌ من الماشي، والماشي فيها خيرٌ من الساعي، من تشرَّفَ لها تستشرِفه» .

رواه البخاری و مسلم

عنقریب ایسے فتنہ برپا ہوں گےجن میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے زیادہ بہتر ہوگا، اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے زیادہ بہتر ہوگا، اور چلنے والا ڈور کر جانے والے سے زیادہ بہتر ہوگا۔جو ان (فتنوں) میں جھانک کر دیکھے گا وہ اسے گھیر لیں گے۔اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

اور نبی ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کوقنوت میں پڑھنے کے لئے یہ دعاء سکھائی:

«اللهم اهدِني فيمن هدَيت، وعافِني فيمن عافَيت .. الحديث»

رواه أحمد وأصحاب السنن

یا اللہ! مجھے بھی ہدایت یافتہ لوگوں میں سے بنادے، اور  مجھے ان لوگوں میں شامل کرلے جنہیں عافیت دی گئی ۔

دین میں عافیت کی کمی کے مظاہر

دین کی عافیت میں سب سے بڑی کمی یہ ہےکہ  انسان اصلاح کی بجائے فساد برپا کرے، حقیقت پسندی کی جگہ مذاق اڑائے۔امت کے مضبوط قلعہ کی عمارت  بنانے کی بجائےاس کی دھجیاں بکھیردے۔وہ ہمیشہ یا تو  مذاق اُڑاتا ہوا ہی آپ کو نظر آئے گا، یا دین اور فطرت ِ انسانی کو بدلنے کی سازشوں میں مشغول ہوگاتاکہ لوگوں کو غلط راستے پر چلائے اور قیامت تک جو لوگ بھی اس کا بات پر عمل کریں ان سب کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھائے۔

اور بعض احادیث میں ان لوگوں کا بھی تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے  اللہ کی شریعت اور اس کے طور طریقے میں اپنی طرف سے کوئی بھی غلط کام ایجاد کیا اور قیامت تک جو بھی اس برے کام   کو اپنائے گا اس کا گناہ اسے بھی ملےگا جس نے یہ کام شروع کیا۔

اللہ کے رسول ﷺ نے اسی بات کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا:

«ما من نفسٍ تُقتلُ ظُلمًا إلا كان على ابنِ آدم كِفلٌ منها؛ لأنه أولُ من سنَّ القتلَ» .

رواه البخاری ومسلم

کوئی بھی شخص اگر کسی کا قتل کردے تو اس کا گناہ آدم کے بیٹے (قابیل) پر بھی ہوگا، کیونکہ اسی نے سب سے پہلے (ہابیل کو) قتل کیا۔ یہ حدیث بخاری اور مسلم میں ہے۔

اللہ تعالی امام مالک رحمہ اللہ پر رحم فرمائے، انہوں نے اپنے ایک شاگرد کو نصیحت کی:

“لا تحمِلنَّ الناسَ على ظهرِك”؛ أي: لا تحمِل إثمَه بما يُحدِثُه “وما كنتَ لاعبًا به من شيءٍ فلا تلعبنَّ بدينِك”.

لوگوں کو اپنی پیٹھ پر ہرگز نہ اُٹھانا۔یعنی اگر کوئی (دین میں ) بدعت  ایجاد کرتا ہے تو اس کی گمراہی میں تم بھی شامل نہ ہوجانا، اور اگر مذاق کا ارادہ ہو تو دین کی باتوں میں کبھی مذاق نہ کرنا۔

جی ہاں،  اللہ کے بندو!

جو شخص بھی دین یا اخلاق میں فتنہ و فساد کی بنیاد رکھتا ہےتو قیامت کے دن اسے اپنے کئے کی سزا تو ضرور   ملے گی  اور اس کے ساتھ ان لوگوں کا گناہ بھی اس کے سر ہوگا جسے اس نے گمراہ کیا۔

باطل کا فریب

ہر اس شخص کو ڈرنا چاہئے جسے باطل کے بناؤ سنگھار اور فتنوں کے حسن  نے دھوکے میں ڈال دیا ہے۔ اور حق تو روشن ہوچکا ہے چاہے اس  پر جتنے بھی پردے ڈال دیئے جائیں ، اورباطل مٹ چکا ہے ، صرف صحراء میں اس جگہ کی طرح ہے جہاں دور سے ایسا لگتا ہے کہ  وہاں پانی ہے حالانکہ وہاں کچھ بھی نہیں تو اس پانی سے پیاس نہیں بجھتی (اسی طرح باطل سے کوئی فائدہ نہیں)، اور اگر ہر پیدل چلنے والا نیچے دیکھ کر چلے تو نہ ہی کانٹا چبھے گا اور نہ ہی وہ گڑھے میں گرے گا (یعنی اگر ہر شخص باطل سے بچنے کی کوشش کرے تو بچ سکتا ہے)

عافیت ایک انمول نعمت اور اس کاشکر

اور جسے عافیت مل گئی اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے،اور جو عافیت مانگتا ہے وہ کبھی نہیں پھسلتا، کیونکہ عافیت انسان کے لئے مشکل اوقات میں ایک مضبوط قلعہ کی مانند ہے۔ اوریقین کے بعد عافیت سے  بہتر کوئی نعمت کسی  کو نہیں ملی۔

اللہ مجھے اور آپ کو قرآن کریم  کی برکتوں سے مالامال فرمائے، اور مجھے اور آپ کو قرآن مجید کی آیات اور ذکر حکیم سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے، میں نے جو کہنا تھا وہ تو کہہ دیا، اگر وہ صحیح ہے تو اللہ  کی طرف سے ہے، اور اگر خطا ہوئی ہے تو وہ میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے، اور میں اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں بیشک وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔

خطبہ ثانیہ

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے  اس کی بھلائی پر،اور اسی کا شکر ہے اسکی توفیق اور احسان پر۔ اوراسکی شان کی تعظیم کرتے ہوئے  میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جو اسکی رضا کی طرف دعوت دیتے ہیں۔

حمد و ثنا کے بعد،

ایک غلط فہمی اور اس کا ازالہ

اللہ آپ سب پر مہربانی کرے!

جان لیں کہ دینی عافیت کو اور سلامتی کو ترجیح دینے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ انسان بھلائی کو چھوڑ کربیٹھ جائے،حالانکہ جو چیز واجب ہے اسے چھوڑناسراسر غلط ہے۔ سلامتی اور عافیت تو فتنہ اور ریا کے موقعہ پر درکار ہوتی ہیں۔

ایک ساتھ دونوں  معاملات جب برابر ہوتے ہیں جب حق کی  بات  میں کوئی شبہہ والا پہلو ہو تو انسان شبہ والی بات کو چھوڑ کر یقینی بات کو اپنا لیتا ہے، اور جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور عزت محفوظ کرلی، اور جس نے شبہات کو اپنایا وہ حرام چیزوں میں پڑگیا۔

امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے :

“إني لأدَعُ ما لا بأسَ فيه خشيةَ الوقوعِ فيما فيه بأسٌ”.

 میں جائز چیزوں کو اس ڈر سے چھوڑ دیتا ہوں کہ ناجائز میں مبتلا نہ ہوجاؤں۔

فساد کے موقعہ پر اہم اصول

اسی لئے  فتنہ و فساد کے وقت  اہل سنت و الجماعت کا  یہ عقیدہ ہے کہ سلامتی کے مدّ مقابل کوئی چیز نہیں(یعنی ان فتنوں سے دور رہنا اور بچ جانا بہت ہی بڑی نعمت ہے)۔ اور  (فتنوں کے وقت الگ) بیٹھ جانا ہی بہتر ہے، البتہ  اگر  شریعت کی واضح اور صحیح نصوص سے ثابت ہوجائے تو حق کا ساتھ دیں اور بغیر کسی تردد کے اہل حق کی مدد کریں۔

اور بعض اہل علم نے اصحابِ کہف کے واقعہ میں بعض مفسرین کی یہ بات نقل کی ہے:

“وفي هذه القصة دليلٌ على أن من فرَّ بدينِه من الفتنِ سلَّمَه الله منها، وأن من حرِصَ على العافيةِ عافاه الله، ومن أوَى إلى الله آواه الله، وذلك حالَ استِحكام الفتنِ أيَّمَا استِحكامٍ”.

 اس قصے میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص اپنے دین کو بچاکر فتنے سے بھاگ جاتا ہے اللہ تعالی اسے اس فتنے سے بچا لیتا ہے، اور جو عافیت کی حرص رکھتا ہے اللہ اسے عافیت دے دیتا ہے، اور جو اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ تعالی اسے پناہ  دے دیتا ہے، اور یہی  حال فتنوں  کا بھی ہے(جو جتنا فتنے کی طرف جائے گا اتنا ہی ہلاکت کے قریب ہوگا)۔

عافیت کا مفہوم

اور غلط سوچ سے بچنا بہت  ضروری ہے کیونکہ بعض  لوگ  عافیت کا غلط مفھوم سمجھ کر دوسروں  کی خیر خواہی کو چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

المائدة – 105

اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔

اور وہ لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے نیکی کی نصیحت اور برائی سے روکنے اور فتنے کے وقت حق بات بتانے کی  ذمہ داری ختم ہوگئی،حالانکہ اس آیت کی یہ مفہوم نہیں ہے۔

جیسا کہ  ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

بل إن المعنى: أنه لا يضرُّ المرءَ ضلالُ غيره، إذا هو اهتدَى وقامَ بما أمرَ الله به تِجاهَ الآخرين؛ من دِلالتهم للحقِّ وتحذيرِهم من الباطِل؛ لأن الهدايةَ بيدِ الله، وما على المرءِ إلا البلاغ، والله الهادي إلى سَواءِ السَّبيل.

بلکہ اس کا مطلب یہ ہے  کہ  اگر انسان خود ہدایت یافتہ ہوجائے اور دوسروں کو بھی حق کی نصیحت کرے اور باطل سے روکےتو کسی کے گمراہ ہونے سے اس  (ہدایت یافتہ) کو نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہےاور ہماری ذمہ داری  لوگوں کو صحیح دین پہنچانا ہے، اور اللہ ہی سیدھے راستے کی ہدایت دینے والا ہے۔

نبی ﷺ پر درود و سلام

اللہ آپ سب پر رحم فرمائے!  سب سے افضل مخلوق اور پاکیزہ انسان محمد ﷺ بن عبداللہ پر درود بھیجیں جوصاحبِ حوض و شفاعت ہیں، اور اللہ نے بھی اس کا حکم دیا ہے اور خود پہل کی ہے، اور اسکے بعد فرشتوں کو حکم دیا جو کہ اسی کے تقدس کی تسبیحات بیان کرتے ہیں، اور اے مومنو!  آپ سب کو بھی یہی حکم دیتے ہوئے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الأحزاب – 56

اے ایمان والو!  ان پر درود و سلام بھیجتے رہو۔

یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمدﷺ پر زیادہ سے زیادہ رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم   کے لئے دعاءئیں

یا اللہ! خلفائے راشدین ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضوان اللہ علیھم اجمعین سے راضی ہوجا اور تمام صحابہ ، تابعین اور ان لوگوں سے بھی راضی ہوجا جو قیامت تک نبی علیہ السلام اورانکے صحابہ کی پیروی کریں گے۔

مسلمانوں کے لئے دعاءئیں

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔  یا اللہ!  اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ اور  شرک اور مشرکوں کو رسوا کردے۔

یا اللہ! اپنے دین، قرآن، نبیﷺ کی سنت اور مومن  بندوں کی مدد فرما۔

یا اللہ! غمزدہ مسلمانوں کے غم کو ختم فرمادے، پریشان حال لوگوں کی پریشانی  دور فرما، قرض داروں کو قرضے سے نجات عطا فرما۔

اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اپنی رحمت سے  ہمارے مریضوں سمیت تمام مریض مسلمانوں کو شفا عطا فرما۔

یا اللہ! ہم تجھ سے معافی اور عافیت کی دعاء کرتے ہیں، یا اللہ!  اے عزت و جلال والے!  اے ہمیشہ زندہ  رہنے والے! ہم  اپنے دین میں، اور مال میں  اور اہل و عیال میں تجھ سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں ۔

یا اللہ !  اے تمام جہانوں کے رب! ہمارے وطنوں میں ہماری حفاظت فرما، اور ہمارے ائمہ اور حکام کی اصلاح فرما، اور متقی و  پرہیزگار اور رضائے الٰہی کو حاصل کرنے والے  لوگوں کو ہمارا حاکم بنانا۔

یا اللہ! یا حي یا قیوم! ہمارے امیر کو ہر اس قول و عمل کی توفیق دے جس سے خوش اور راضی ہوتا ہے۔

یا اللہ! اے عزت و جلال والی ذات! اس کی مجلس شوری کی اصلاح فرمادے۔

مظلوم مسلمانوں کے لئے دعاءئیں

یا اللہ! ہر جگہ ہمارے کمزور بھائیوں کی مدد فرما۔ یا اللہ! ہر جگہ ان کی بصرت فرما۔ یا اللہ! ظالموں اور سرکشی کرنے والوں کے مقابلے میں ان کی مدد فرما۔.

یا اللہ! اپنے اور ان کے دشمن کے خلاف ان کی مدد فرما۔ یا اللہ! ان کے دشمنوں کا سر نیچا کردے، اور ان کے مکر سے انہی کو ہلاک کردے۔

یا اللہ!  اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اے عزت و جلال والے! ان کی نصرت اور فتح کا فیصلہ جلد ہی  فرمادے۔

بارش کی دعاءئیں

یا اللہ! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ہی غنی ہے اور ہم سب فقیر ہیں، ہم پر بارش برسادے اور ہمیں ناامید نہ کرنا۔

یا اللہ! ہم پر بارش برسادے اور ہمیں ناامید نہ کرنا۔ یا اللہ! ہم پر بارش برسادے اور ہمیں ناامید نہ کرنا۔

یا اللہ! یا ذا الجلال والإکرام! ہم تیری  ہی مخلوق ہیں، ہمارے گناہوں کی وجہ سے اپنے فضل کو نہ روک لینا۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

البقرة – 201

ہمارا رب نہایت پاکیزہ ہے ہر اس عیب سے جو لوگ بیان کرتے ہیں، وہ عزت والا رب ہے، اور رسولوں پر سلامتی ہو، اور ہماری آخری بات یہ ہے کہ ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے۔

***

ترجمہ اردو: شعیب مدنی

مصنف/ مقرر کے بارے میں

  فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم حفظہ اللہ

کعبہ کے ائمہ میں سے ایک نام ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم حفظہ اللہ کا ہے ، جن کی آواز کی گونج دنیا کے ہر کونے میں سنائی دیتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے بڑی صلاحیتوں سے نوازا ، جن میں سر فہرست خوبصورت آواز ہے۔ آپ 19 جنوری 1964 ء کو پیدا ہوئے ، ام القریٰ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اور اب وہیں شریعہ فیکلٹی کے ڈین اور استاد کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔