اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت (فضائل، احکام و مسائل)

پہلا خطبہ

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نےقوت اور نصرت کی دعوت دی۔ میں اسی کی تعریف کرتا ہوں اور ہدایت جیسی عظیم نعمت پر بھی اسی کا شکر ادا کرتا ہوں جس (ہدایت) کے ذریعہ اس نے ہمیں اندھیرے سے نکال کر نور ِ ہدایت عطا فرمایا۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، جس نے قرآن مجید نازل  فرماکر ہمیں فرقہ واریت سے بچایا اورمحبت اور الفت عطا کی۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺ اسی کے بندے اور رسول ہیں جو کہ رسولوں میں سب سے افضل ہیں اور بہترین نمونہ ہیں۔ اللہ تعالی ان پر اور ان کی آل پر اور ان کے صحابہ پر  بھی  رحمتیں نازل فرمائے، جن (صحابہ) کے ذریعہ اللہ تعالی نے زمین کو سرکشی اور طغیانی کرنے والے لوگوں سے بچایا۔

حمد و ثناء کے بعد:

میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اللہ  تعالی کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

آل عمران – 102

مومنوں! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور مرنا تو مسلمان ہی مرنا۔

اگر آپ آج کل کے حالات کی طرف نظر دوڑائیں گے تو آپ کوبھلائی اور برائی کے درمیان جنگ اور دفاع  کی صورت حال نظر آئے گی۔اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انسانی زندگی کسی بھی حالت میں آزاد  نہیں۔

اللہ کی ذات کو گالی دینا، نبی علیہ السلام کی مذاق اڑانا، قرآن کی بے حرمتی کرنا، قرآن کا مذاق اڑانا اور مقدس چیزوں کی بے عزتی کرتا۔

اور کچھ مظاہر اس طرح کے ہیں: مسلم ممالک کے خلاف مسلسل خونی جنگیں،  قتل و خونریزی،  تکلیفیں، یتیمی، فقر و فاقہ، بھوک اور غرق، ان حالات میں سچا مسلمان  اپنی ذمہ داری اور کردار ادا کرنے کی فکر کرتا  ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ

الصف – 14

اے ایمان والو! تم اللہ تعالٰی کے مددگار بن جاؤ۔

نصرت ایک دینی فريضہ ہے: اللہ کی نصرت، اللہ کی کتاب کی نصرت، اس کے دین اور رسول کی نصرت، مظلوموں کی نصرت، یتیموں اور فقیروں کی نصرت۔

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:

وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ

الانفال – 72

اور اگر وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم ہے۔ مگر ان لوگوں کے مقابلے میں کہ تم میں اور ان میں (صلح کا) عہد ہو (مدد نہیں کرنی چاہئے) ۔

اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

انصُر أخاكَ ظالِمًا أو مظلومًا

اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔

دین کی نصرت اس کے نشر کرنے اور بلند کرنے سے ہوتی ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم دین کی اس طرح حمایت کریں کہ اس دین کے احکامات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اسے نافذ کریں اور اسکے فضائل بیان کریں، یہی دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راستہ ہے۔

دین کی مدد کرنا  شان و شوکت ، عزت و عظمت ،عالی شان مرتبہ اور بلند مقاصد کی بات ہے۔اور یہ ہر مسلم مرد اور عورت کے لئے ایک وسیع فیلڈ (میدان) ہے، نصرتِ دین کی بنیادگناہوں کو چھوڑنے اور اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ سچا ہونے  پر ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

إنما ينصُرُ اللهُ هذه الأمة بضعيفِها، بدعوتِهم وصلاتِهم وإخلاصِهم

اللہ تعالی اس امت کے کمزور لوگوں کی دعاؤں، نمازوں اور اخلاص کی  وجہ سے ان کی مدد فرماتا ہے۔

اور کبھی بھی نصرتِ  دین کے سلسلے میں کسی بھی اچھے عمل کو معمولی نہ سمجھنا۔

صحیح مسلم  میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لقد رأيتُ رجلاً يتقلَّبُ في الجنةِ في شجرةٍ قطعَها من ظهر الطريقِ كانت تُؤذِي الناس

 میں نے ایک آدمی کو جنت میں کروٹیں لیتے ہوئے دیکھا کیونکہ اس نے راستے کے ایک ایسے درخت کو کاٹا تھا جو لوگوں کو تکلیف دیتا تھا۔

اور صحابہ نے توخدمتِ دین کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور قوتوں کو صرف کردیا ؛ بلال بن ابی رباح رضی اللہ عنہ نے اپنی پیاری اور بلند آواز کے ذریعہ آذان دے کر دین کی خدمت کی۔ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کتابت کے ذریعہ وحی کو محفوظ کیا۔ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نےلشکر کی قیادت کی جنہیں اللہ کی  نکالی (سونتی)  ہوئی تلوار کا لقب ملا۔اور حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ میڈیا کے میدان میں اللہ کے رسولﷺ اوردین کا دفاع کرتے ہوئے اشعار پڑھتے۔ عثمان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے خدمتِ دین کی خاطر اپنا سارا مال خرچ کردیا، کنواں کھدوایا، جیش عسرہ کو تیار کیا، فقراء کی خبر گیری کی۔ اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ میں اللہ کے دین کی دعوت میں مشغول رہے۔اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماتو نصرتِ دین کے ستون اور اسلامی مملکت کے ارکان بن کر رہے۔اللہ تمام صحابہ سے راضی ہوجائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نصرتِ دین کے وسائل بے شمار ہیں، اور وہ سب کے لئے وسیع ہیں، اور جو شخص بھی نصرت دین کے سلسلے میں  تھوڑا حصہ بھی ملائے گا تو وہ اجرِ عظیم کا مستحق ہوگا۔جیساکہ حدیث  میں آیا ہے:

إن اللهَ ليُدخِلُ بالسَّهم الواحِد ثلاثةً الجنة؛ صانِعَه يحتسِبُ في صنعَته الخيرَ، والرامِي به، والمُمِدَّ به

بیشک اللہ تعالی ایک تیر کے ذریعہ تین افراد پر جنت واجب کردیتا ہے: ایک اسکا بنانے والا جوبھلائی کے ارادے سے بناتا  ہے، دوسرا اسے (میدانِ جنگ میں) چلانے والا، تیسرا وہ  شخص جواسے (صحیح جگہ) پہنچائے۔

اور جو شخص اللہ کے دین کی مدد کرنے میں سچا ہوجائے تو اللہ تعالی کی طرف سے اس کے لئے اجر لکھ دیا جاتا ہے اگرچہ وہ یہ کام نہ بھی کرسکے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

إنما الدُّنيا لأربعة نفَر: عبدٍ رزقَه الله مالاً فهو يتَّقِي فيه ربَّه، ويصِلُ فيه رحِمَه، ويعلمُ لله فيها حقًّا؛ فهذا بأفضل المنازِل. وعبدٍ رزقَه الله علمًا ولم يرزُقه علمًا، فهو صادقُ النيَّة، يقول: لو أن لي مالاً لعمِلتُ بعملِ فلانٍ، فهو بنيَّته، فأجرُهما سواء

دنیا میں چار قسم کے افراد ہیں : ایک وہ بندہ جسے اللہ نے مال دیا اور وہ  اس مال کے بارے میں اللہ سے ڈرتا ہے اور صلہ رحمی کرتا ہے،اور جانتا ہے کہ اس میں اللہ کا بھی حق ہے، تو اس کا رتبہ سب سے بلند ہے۔اور ایک وہ شخص جسے اللہ نے علم دیالیکن مال عطا نہیں کیا اور اس کی یہ نیت ہوتی ہے کہ اگر اللہ تعالی مجھے بھی مال دے تو میں فلاں شخص کی طرح (اللہ کے راستے میں ) خرچ کروں گا، اس کی سچی نیت کا عمل اس شخصﷺ کے برابر ہے جو عملی طور پر اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے۔

اللہ کے بندوں!

اللہ کے رسول ﷺ کی مدد کا تذکرہ قرآن مجید میں اس انداز سے ہوا ہے:

فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

الاعراف – 157

سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں۔

اللہ کے رسول ﷺ کی نصرت کے بعض وسائل یہ ہیں: ان کی سنت کو  پھیلانا، اور ان کی فرماں برداری کرنا، اور ان کی اقتداء  کی حرص رکھنا۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

النساء – 65

سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔

اور یہ باتیں بھی ان کی نصرت میں آتی ہیں کہ آل بیت سے محبت کرنا اور ان کی عزت کرنا، اور ان کے فضائل کا اعتقاد رکھنا، اور نبی علیہ السلام کی  محبت  بٹھانے کے لئے اپنی اولاد کی تربیت کرنا، اور ان کی دعوت کی خوبیاں بیان کرنا، اور نبی علیہ السلام اور ان کی سیرت کے بارے میں اٹھنے والے شبہات اور من گھڑت عقائد کو مٹانا۔ اور سیرت النبی ﷺ کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنا۔

اور دنیا کے کونے کونے میں مظلوموں کی مدد کرنا چاہئے، اور مظلوم کا حق ہے کہ اس کی مدد کی جائے، اور ظالم کے ہاتھ کو پکڑنا چاہئے تاکہ وہ ظلم سے بچ جائے، اور کتنے ہی مسلمان ایسے ہیں جو محتاج  و  پریشان ہیں، ظلم و ستم کی وجہ سے  ان کے دل دہل چکے ہیں ، اور (یاد رہے کہ ) ظالم،  اس کا مددگار اور  اس سے محبت کرنے والا یہ سب (گناہ میں ) برابر کے شریک ہیں۔

اللہ کے رسول ﷺ نےمسلمانوں کی مدد کو چھوڑنے سے منع فرمایا ہے۔

المُسلمُ أخو المُسلم؛ لا يظلِمه، ولا يُسلِمه

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ وہ اس پر ظلم کرے اور نہ ہی اُسے کسی ظالم کے رحم و کرم پر چھوڑے۔

اس کا مطلب ہے کہ اسے مصیبت  میں مبتلا  نہ کرے اور نہ ہی اسے اس  حالت میں چھوڑے، اور نہ ہی خود پیچھے ہٹے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ

الانفال – 73

کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہوگا اور زبردست فساد ہو جائے گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ  کفار ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، اور اے مسلمانو! اگر تم نے ایک دوسرے کی مدد نہ کی تو زمین میں بہت بڑا فتنہ و فساد برپا ہوجائے گا۔

اسلامی بھائیوں!

اپنے اقوال اور اعمال کے ذریعہ مظلوموں کو سہارا دے کر ان کی مدد کریں، اور شام، اور برما وغیرہ میں تو مظلوموں کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ہم ان کی آہ و بکا سن رہے ہیں، اور ہمارے کانوں میں ان کی مدد مانگنے کی آوازیں گونج رہی ہیں، اور ان کا بہتا ہوا خون ہمیں نظر آرہا ہے۔ اور ان کی کھال جھڑتی ہوئی نظر آرہی ہے،  ایسے بگڑے ہوئے جرائم اور اجتماعی تباہ کاریاں ہیں جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی: جسموں کو جلا ڈالا، دلوں کا خون نکال لیا، ہزاروں لوگوں کو بے گھر کردیا، خوف و ہراس پھیلا یا ہوا ہے،بچوں کو قتل کردیا، جائیداد  کو تباہ کردیا، ہری بھری فصلیں  اجاڑ ڈالیں۔

ہائے افسوس! اس عالم پر جس کا ضمیر مردہ ہوچکاہے کہ وہ اس ظلم  و ستم کی سپورٹ کررہا ہے۔

اللہ کے بندوں! مدد کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو انفاق(خرچ کرنے) کی ترغیب دلانا؛  مسلمان اپنے مال سےدوسرے مسلمان بھائیوں کی غم کساری کرے، اور جود و سخاوت کو اپنائے، محتاجوں کو کھانا کھلائے، قیدیوں کو آزاد کرائے اور بیماروں کا علاج کرائے۔

اللہ کے بندوں!

اور مدد کے سلسلے  میں آگاہ کرناایک مؤثر پیغام ہے، مسلمانوں کو اللہ کی یاد دلاتا ہے، ایمان  کو مضبوط کرتا ہے، امت کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے، روح کو جگاتا ہے اور ہمتوں کو بڑھاتا ہے۔

آگاہی کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں  کے غصب شدہ معاملات کو بیان کرنا تاکہ حق غالب آجائے اور باطل نیست و نابود ہوجائے۔

صحیح مسلم کی حدیث ہے :

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کوحسان رضی اللہ عنہ سے  یہ  فرماتے ہوئے سنا:

إن روحَ القُدُس لا يزالُ يُؤيِّدُك ما نافَحتَ عن الله ورسولِه

بیشک روح قدس (جبرائیل علیہ السلام ) اس وقت تک آپ کی مدد کرتے رہیں گےجب تک اللہ اور رسول ﷺ کی حمایت کرتے رہیں گے۔

اللہ کے بندوں!

نصرت کا ایک طریقہ یہ بھی ہے : دعا کے ذیعہ مدد کرنا، اور یہ سب سے اہم ، مفید اور قوی وسیلہ ہے، اور اسے چھوڑنے پر مسلمان کی چھوٹ نہیں ہوگی۔اور یہ ایک ایسا مؤثر وسیلہ ہے کہ جس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں،قرآن مجید نے بھی اس کی تاثیر کی نشاندہی کی ہے۔

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ (9) فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ (10) فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ (11) وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ

القمر – 9/12

ان سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندے کو جھٹلایا تھا اور دیوانہ بتلا کر جھڑک دیا گیا تھا ۔ پس اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں بےبس ہوں تو میری مدد کر۔ پس ہم نے آسمان کے دروازوں کو زور کے مینہ سے کھول دیا۔ اور زمین سے چشموں کو جاری کر دیا پس اس کام کے لئے جو مقدر کیا گیا تھا (دونوں) پانی جمع ہوگئے۔

اور ہمارے پیارے رسول ﷺ قنوت میں ان  ظالموں کا نام لے لے کر بد دعا کیا کرتے تھے جو مسلمانوں پر ظلم کرتے اور انہیں تکلیف دیتے۔

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا

الاسراء – 56

کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔

مکر و فریب کرنے والے کتنا ہی مکر کرلیں، شرارت اور سرکشی کرنے والے  جتنا بھی  فریب کرلیں اور تباہی کرنے والے جتنی بھی پلاننگ کرلیں، مستقبل اسی دین کا ہے۔

اللہ کے رسولﷺکا فرمان ہے:

بشِّر هذه الأمةَ بالسَّنَاءِ والرِّفعَةِ والنُّصرةِ والتمكينِ في الأرض

اس امت کو ترقی، بلندی ، مدد اور زمین میں حکمرانی کرنے کی خوشخبری دے دیں۔

وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

التوبة – 32

اور اللہ تعالٰی انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر ناخوش رہیں۔

اللہ مجھے اور آپ سب کو قرآن  عظیم میں برکت عطا فرمائے، اور مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات اور حکمت والے ذکر سے نفع پہنچائے۔ میں اپنی یہ بات کہہ رہا ہوں ، اور اللہ رب العزت سے اپنے لئے اور آپ سب کے لئے مغفرت مانگتا ہوں، بیشک وہ ہی بہت مغفرت کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو بہت عظمت اور فضل والا ہے، میں اسی کی تعریف کرتا ہوں اور اسی کا شکر ادا کرتا ہوں، وہی بہت  حکمتوں والا اوربہت جاننے والا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، پچھلے اور اگلے سب کا معبود ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں ہدایت اور واضح نور کے ساتھ بھیجا گیا، اللہ ان پر اور ان کی آل پر اور ان کے تمام صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے۔

حمدو ثناء کے بعد:

میں آپ سب کو مجھ سمیت اللہ کے ڈر کی نصیحت کرتا ہوں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

الاحزاب – 70/71

اے ایمان والو! اللہ تعالٰی سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو ۔ تاکہ اللہ تعالٰی تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔

۱ـ ہر ایک کی زندگی محفوظ

مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنے سےکتنی ہی  زندگیوں کو نجات ملتی ہے، ممالک کوحمایت ملتی ہے، ارکان کو تقویت ملتی ہے، اور اللہ تعالی کی  طرف سے مدد اور حفاظت حاصل ہوتی ہے۔اور  اسی نصرت کی وجہ سے بلاد و عبادپر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ

محمد – 7

 اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا  اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔

۲ـ اللہ کی مدد کی ضمانت

نبی علیہ السلام نے فرمایا:

ومن فرَّجَ عن مُسلمٍ كُربةً فرَّجَ الله عنه بها كُربةً من كُرَب يوم القيامة، واللهُ في عون العبدِ ما كان العبدُ في عون أخيه، والرَّاحِمون يرحمُهم الرحمن وهذا الجزاءُ من جنسِ العمل.

جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت دور کرے گا اللہ تعالی اس کے بدلے قیامت کے دن اس کی مصیبت دور فرمائے گا۔ اور اللہ تعالی اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔

اور یہی مکافأت عمل  ہے۔(اچھائی  کے بدلے میں اچھائی ملتی ہے)۔

۳ـ لوگوں کی مدد کرنا اللہ کو بہت پسند ہے

نصرتِ دین اللہ کے یہاں  سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

أحبُّ الناسِ إلى الله أنفعُهم للناس، وأحبُّ الأعمال إلى الله سُرورٌ تُدخِلُه على مُسلمٍ، أو تكشِفُ عنه كُربةً، أو تطرُدُ عنه جوعًا، أو تقضِي عنه دَينًا

اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ترین لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو سب سے زیادہ  نفع پہنچانے والے ہوں۔ اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جو آپ کسی مسلمان کو دیں، یا اس کی کوئی پریشانی دور کردیں، یا اس کی بھوک کو مٹادیں، یا اس کا قرض ادا کردیں۔

آگاہ رہو اور ہدایت کے رسول ﷺ پر درود بھیجو، تمہیں اللہ نے اس کا حکم  قرآن مجید میں دیا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وأزواجه وذرِّيَّته كما صلَّيتَ على آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد

یا اللہ! محمدﷺ اور ان کی ازواج مطہرات اور ان کی اولاد پر برکتیں نازل فرما جس طرح تونےابراہیم علیہ السلام کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو بہت تعریفوں والا اور بزرگی والا ہے۔

یا اللہ! اور چاروں خلفائے راشدین : ابوبکرو عمر، عثمان و علی اور نبی کی آل اور تمام صحابہ سے راضی ہوجا۔اور اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے!   ان کے ساتھ ساتھ اپنے فضل و کرم  اور مہربانی سے ہم سے بھی راضی ہوجا۔.

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، یا اللہ!  اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، یا اللہ!  اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ اور شرک اور مشرکوں کو رسوا کردے۔ اور اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

یا اللہ! اس ملک سمیت تمام مسلم ممالک  کو امن و سکون کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! جو بھی ہمارے اور دیگر مسلمانوں کے ممالک کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے تو اسی  برائی میں اسے مبتلا کردے، اور اے دعاؤں کو بخوبی سننے والے!   اس کی سازش کو اسی کی ہلاکت کا سبب بنادے۔

یااللہ! شام میں  ہمارے  بھائیوں کی حفاظت و مدد فرما۔ یا اللہ! شام اور برما میں   ہمارے  بھائیوں کی حفاظت فرما۔

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب!  اپنی نصرت کے ذریعہ ان کی مدد فرما۔اور اپنی تائید کے ذریعہ ان کی تائید فرما۔  یا اللہ!  یا رب العالمین!  ان کا مؤید اور حامی و ناصر ہو جا۔

یا اللہ! ان کے دلوں میں الفت پیدا فرمادے، اور ان کی صفوں میں اتحاد پیدا فرمادے، اور اے سب سے طاقتور اور ہمیشہ غالب رہنے والے!  ان کی باتوں میں اتفاق پیدا فرمادے،بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت کا اور ہر اس قول و عمل کا سوال کرتے ہیں جو جنت میں جانے کا سبب بنے۔ اور  ہم آگ سے اور  ہر اس قول و عمل سے تیری پناہ مانگتے ہیں جو آگ میں جانے کا سبب بنے۔

یا اللہ! ہمارے دین کی اصلاح فرما جو ہمارے معاملات میں عصمت (گناہوں سے بچنے) کا باعث ہے۔اور ہماری دنیا کو بھی سنوار دے جو ہمارے لئے ذریعہء معاش ہے۔اور ہماری آخرت بھی بہتر فرما جس میں ہمارا انجام ہے۔

اے اللہ!  اے تمام جہانوں کے رب! ہماری زندگی کوہر بھلائی میں اضافے کا ذریعہ بنادے،اور موت کو ہر برائی سے راحت کاسبب بنادے ۔

یا اللہ! ہماری معاونت فرما،  ہمارے مخالفین کی معاونت نہ کرنا۔ یا اللہ ہماری مدد فرما، ہمارے مد مقابل کی مدد نہ فرمانا۔ اپنا مکر ہمارے حق میں فرمانا، ہمارے خلاف نہ کرنا۔ہمیں ہدایت عطا فرمااور ہدایت کو ہمارے لئے آسان فرما۔حد سے گزر جانے والوں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

یا اللہ! ہمیں اپنا(تیرا) ذکر اور شکر کرنے والا بنادے۔ اپنے سامنے عاجزی و انکساری کرنے والا بنادے۔ اپنے سامنے  گڑا گڑا کر دعائیں کرنے والا اور اپنی ہی طرف لوٹ کر آنے والا بنادے۔

یا اللہ!  یا رب العالمین! ہماری توبہ قبول فرمالے۔ہمارے گناہوں کو دھودے۔ہماری معذرت کومقبول فرمادے۔ ہمارے دلوں کی بیماری کو دور فرمادے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت(نا جائز کاموں  سے بچنے کی توفیق) اور غِنَی (لوگوں کی محتاجگی  سے محفوظ رہنے کی توفیق) مانگتے ہیں یا اللہ ! اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! ہمارے فوت شدہ لوگوں پر رحم فرما،  ہمارے  مریضوں کو شفاء  عطا فرما، ہمارے قیدیوں کو رہا فرما۔ تمام پریشان حال مسلمانوں کی پریشانی دور فرما۔ اور ان کی مصیبتوں کو ٹال دے۔ اور قرض داروں کو قرضہ سے نجات دے۔

اے اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! ہمارے امام کو ہر اس کام کی توفیق عطا فرما جس سے تو  خوش اور راضی ہوتا ہے۔ یا اللہ!  اسے اپنی ہدایت کی توفیق عطا فرما۔ اور اسے اپنی رضا کا باعث بننے والے اعمال کی توفیق عطا فرما۔

اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! تمام مسلمانوں کے اُمراء (امیر المومنین) کواپنی کتاب پر عمل کرنے اور شریعت کو نافذ کرنے  کی توفیق عطا فرما۔

اللهم إنا نسألُك يا الله بأسمائِك الحُسنى، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم أغِثنا، اللهم سُقيا رحمةٍ، لا سُقيا عذابٍ ولا بلاءٍ ولا هدمٍ ولا غرقٍ.

یا اللہ! ہم تیرے پیارے پیارے اور بابرکت ناموں کے وسیلے سے تجھ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ہم پر بارش برسادے، یا للہ! ہم پر بارش برسادے، یا اللہ!  ہم پر بارش برسادے،  یا اللہ!  رحمت والی بارش برسانا، عذاب ، آزمائش، ہلاکت اور غرق کرنے والی نہ ہو۔

اللهم إنا نسألُك رِضوانَك والجنةَ، ونعوذُ بك من سخَطِك ومن النار.

اے اللہ! ہم تجھ سے تیری رضا اور جنت مانگتے ہیں،  اورتیرے غصہ اور آگ سے تیری ہی پناہ مانگتے ہیں۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

الحشر – 10

اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کہیں (اور دشمنی) نہ ڈال  اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

الاعراف – 23

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ 

البقرة – 201

اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے  اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے۔

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النحل – 90

اللہ تعالٰی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے،  وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔

اللہ کا ذکر کرو وہ تمہارا ذکر کرے گا اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو  وہ تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے گا۔ اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

***

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ 

مسجد نبوی کے معروف خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ داکٹر عبدالباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ کا ہے ، جن کے علمی خطبات ایک شہرہ رکھتے ہیں۔