تجارت و کاروبار انسانی معاش کی ترقی اور اس کی بقا کا اہم ترین جزو ہے ۔ مرورِ زمانہ کے ساتھ انسان کی طرف سے اختیار کردہ طرز کاروبار میں بھی اختلاف رہا ہے ۔ جیسے جیسے آبادیاں اور ضروریات بڑھتی گئیں طریقہ ہائے تجارت بھی بدلتے رہے ۔مختلف ادوار میں کاروبار کو قائم کرنے اس کوترویج دینےاور لوگوں کی اس تک رسائی آسان بنانے کیلئے ہر دور میں مختلف طریقے استعمال کئے گئے ہیں ۔ سابقہ ادوار میں چونکہ زندگی محدود ہوا کرتی تھی ، اس لئے کاروبار کی تشہیر کا پیشہ کم اہمیت تھا لیکن گذشتہ دو ڈھائی صدیوں سے جب دنیا اتنی پھیل گئی اور ہر ایک کو دوسرے تک رسائی بھی آسان ہوگئی تو بین الاقوامی تجارت نے زور پکڑا جس کا تقاضا یہ تھا کہ دوسرے علاقے کے بسنے والے لوگوں کو اپنی پروڈکٹس سے آگاہ کیا جائے ۔ اس آگاہی کیلئے ایڈورٹائزنگ کے شعبہ کو بے انتہاہ ترقی ملی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک بہت بڑا منافع بخش کاروبار بن گیا ۔ اور دین اسلام چونکہ ہر دور ہر زمانے اور ہر قوم کیلئے ہے ، لہٰذا یہ ممکن نہیں تھا کہ شریعت اسلامیہ کے سنہرے اصول اس نوعیت کے کاروبار سے پہلو تہی اختیار کرتے ۔ زیر بحث تحریر میں ایڈورٹائزنگ اور تشہیر کاشرعی حوالے سے جائزہ لیا جائے گا اور اس ضمن میں شریعت کے زریں اصول بیان کئے جائیں گے ۔ وباللہ التوفیق
ایڈورٹائزنگ کا مفہوم
ایڈورٹائزنگ کیلئے بالعموم ’’ تشہیر ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتاہے ۔لیکن اگر اس لفظ کی باریکی کو دیکھا جائےتو یہ لفظ تشہیر سے بڑھ کر وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے ۔جس میں مصنوعات کی تشہیر کرنا ، فروخت میں اضافہ کرنا، برانڈ سے متعلق لوگوں کے اذہان میں مثبت رائے کوفرغ دینا ، صارفین کے جذبات کا فائدہ اٹھاکر برانڈ خریدنے پر آمادہ کرنا اور اس سے متعلق دیگر لوازمات شامل ہیں ۔
ایڈورٹائزنگ کی اقسام
جدید ایڈورٹائزنگ بنیادی طور پر دوپہلو ؤں پر قائم ہے
(1)تھیم : نت نئے آئیڈیاز کے ذریعے اشتہارات کی تیاری ، میڈیا کے ذریعے ان کاپھیلاؤ ، ان کے ذریعے عوام الناس کے ذہنوں پر مخصوص اثرات مرتب کرنا اور اس طرح اپنے برانڈ کی سیل میں اضافہ کرنا تھیم کہلاتا ہے ۔[1]
(2) اسکیم :اس سے مراد پروڈیکٹ کی فروخت بڑھانے کیلئے کمپنیاں مختلف اسکیمیں متعارف کراتی ہیں جیسا کہ ایک خریدنے پر ایک فری ( BUY ONE GET ONE FREE ) ،یا پھر ایک معینہ مقدار تک خریدنے پر کوئی خاص تحفہ دینے کا وعدہ ، بسکٹ یا پتی کاپیک خریدنے پر ایک کپ فری ،اور اسی طرز کی مختلف اسکیمیں شامل ہیں۔
ایڈورٹائزنگ کے ذرائع
گزشتہ ادوار میں ایڈورٹائزنگ کے ذرائع :
(1)منادی کرانا:
قدیم دور میں یہ طریقہ رائج تھا کہ کسی نے اپنی پروڈکٹ کوبیچنا ہوتا تو وہ بازار میں اس کا اعلان کرتا ۔ بادشاہوں اور امراء کا بھی یہی طرز وطریقہ ہوتا کہ کوئی اہم پیغام عوام الناس کو دینا ہوتا تومنادی کرنے والے کو بھیجتے وہ بازار میں چکر لگاتا جب لوگ اس کے گرد جمع ہوجاتے تو بادشاہ کا پیغام پہنچا دیتا ۔بازاروں کے ساتھ دیگر پبلک مقامات اور خاص تہواروں پر منادی کرنے کا طریقہ بھی عام ہوتا تھا ۔
(2)دلال :
زمانہ قدیم میں دلال متعین ہوتے تھے جو بازاروں میں سامان کی ترویج اور اس کی فروخت کیلئے آوازیں لگاتے اور گاہکوں کو گھیر کر لاتے تھے ۔
(3) ملمع سازی اور چیز کو خوبصورت کرکے خریدار کے سامنے پیش کرنا :
تاکہ گاہک چیز خرید نےمیں دلچسپی لے ۔ زمانہ قدیم کی اس صورت کو بھی ایڈورٹائزنگ کی ایک ابتدائی صورت شمار کیا جاتا ہے ۔
موجودہ دور میں ایڈورٹائزنگ کے ذرائع
سابقہ دور میں رائج طریقہ ہائے ترویج بضاعہ کے ساتھ موجودہ دور میں ایڈورٹائزنگ کا بنیادی ذریعہ میڈیا ہے ۔ جس کی درج ذیل اقسام ہیں ۔
(1) الیکٹرانک میڈیا : جس میں ٹیلی ویژن ، ریڈیو ،سینما وغیرہ شامل ہیں ۔
(2) سوشل میڈیا : انٹرنیٹ اور اس پر قائم سوشل ویب سائٹس وغیرہ
(3) پرنٹ میڈیا : رسائل وجرائد ومجلّات وغیرہ
(4) آؤٹ ڈور میڈیا :جس میں مرکزی شاہراہوں اور پبلک مقامات پر لگائےجانے والے سائن بورڈز، پینافلیکس ، ہورڈنگز ،بل بورڈز اور نیون سائنز شامل ہیں ۔
گزشتہ چند دہائیوں سے مؤخر الذکر دونوں صورتوں نے ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں بے پناہ ترقی کی ہے جس کی بنیادی وجہ ان کے ریٹ کی کمی ہے ۔لیکن یہ دونوں صورتیں اول الذکر صورتوں سے اثرات کے حساب سے نسبتاً کم ہیں ۔
ایڈورٹائزنگ( کاروبار کی تشہیر ) کا شرعی حکم
ایڈورٹائزنگ کاروبار کی ترویج کا ایک اہم ترین حصہ ہے ، اور عصر ِحاضر میں یہ شعبہ ایک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کرچکا ہے ، اس کا تعلق چونکہ تجارت اور معاملات سے ہے اس لئے نوعیت کے اعتبار سے اس کے مسائل بیع وشراء ( خرید وفروخت ) کے ضمن میں آتے ہیں ۔ معاملات کے ضمن میں آنے سے اس کا بنیادی طور پر حکم جواز اور مباح کاہے جب تک کہ کسی خاص دلیل کی رو سے اس کی حرمت واضح نہ ہوجائے ۔ فرمانِ باری تعالی ہے :
﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ﴾
الأنعام: 119
ترجمہ: ’’ حالانکہ جو چیز یں اس نے تمہارے لئے حرام ٹھہرادی ہیں وہ ایک ایک کرکے بیان کردی ہیں‘‘۔
نیز فرمایا :
﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّٰهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ﴾
الأعراف: 32
ترجمہ:’’ آپ ان سے پوچھئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو زینت اور کھانے کی پاکیزہ چیزیں پیدا کی ہیں انہیں کس نے حرام کردیا؟‘‘۔
اورشریعت کا بنیادی اصول ہے کہ:
الْأَصْلَ فِي الْأَشْيَاءِ الْإِبَاحَةُ
چیزوں میں اصل جواز ہے ۔
الْأَصْلُ في الْمَعَامِلَاتُ الْإبَاحَۃُ وَلَاتَحْرِيْم إلَّا بِنَص
معاملات میں اصل اباحت اور جواز ہے ، اور حرمت کیلئے نص (دلیل ) کی ضرورت ہے ۔
کاروباری تشہیر کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ اسلام کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ، شریعت کے مجموعی دلائل چند ضوابط وقواعد، حدو وقیود کے تحت اس معاملے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ لیکن اگر یہ معاملہ اپنی شرعی حدود وقیود سے نکل جائے تو وہ شرعی رو سے ناجائز ہوجاتا ہے ۔
ذیل میں ان دلائل کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن سے کاروباری تشہیر کاجواز ثابت ہوتا ہے ۔
قرآن کریم سے دلائل
فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾
ترجمہ: ’’ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ‘‘ ۔
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ مذکورہ آیت اس امرپر دلالت کرتی ہے کہ بیع عمومی طور پر جائز اور مباح ہے اس پر اور اس کی دیگر صورتوں اور تفصیلات پر حرمت کا حکم لگانے کیلئے دلیل کی ضرورت ہے‘‘[2]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ یہ آیت بیع کے جواز کی بنیادی دلیل ہے ، اہل علم کی مذکورہ آیت کی بابت متعدد آراء ہیں جن میں سب سے صحیح تر رائے یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے جس میں چند تخصیصات بھی داخل ہوتی ہیں ، اس آیت میں ’’بیع‘‘ کا لفظ عام ہے ،جس میں ہر قسم کی بیع شامل ہے ، لیکن شریعت مطہرہ نے چند بیوع کو حرام قرار دیا ہے اور ان سے منع کیا ہے ۔ لہٰذا یہ آیت عمومی طور پر ہر معاملے کی اباحت اور جواز پر دلالت کرتی ہے اور جس مسئلہ میں منع کی دلیل آگئی وہ صورت اس سے خاص ہوجائے گی‘‘۔[3]
کاروباری تشہیر پر جب نظر ڈالیں تو اس کی صورت بھی بیع سے قدرے مختلف نہیں بلکہ عصر حاضر میں تو یہ ایک بہت بڑا منافع بخش کاروبار ہے ۔
سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کاروبار کی تشہیر کے اخلاقی ضابطے میں رہتے ہوئے جواز کے دلائل ملتے ہیں۔
سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:’’ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے تو اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا، آپ نے اس میں نمی محسوس کی تو فرمایا: اے غلہ کے مالک یہ کیا ہے؟ غلہ فروخت کرنے والے نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بارش کی وجہ سے گیلا ہوگیا ہے۔ آپ نے فرمایا تم نے اس بھیگے ہوئے مال کو اوپر کیوں نہیں رکھ دیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں، پھر فرمایا جس نے دھوکہ کیا وہ ہم سے نہیں ‘‘۔ [4]
مذکورہ بالا روایت سے دو چیزیں واضح ہوئیں :
اول :
پروڈکٹ کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا جواز ۔
دوم :
چیز کو پیش کرتے وقت دھوکہ اور فریب سے کام لینے کی ممانعت ۔
لہٰذا ایڈور ٹائزنگ کے وقت اگر کوئی شخص پروڈکٹ میں کمزوری یا کمی پائے تو اسے نمایاں کر کے بیان کردے ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ مندرجہ بالا روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ یہ حدیث حسن صحیح ہے اہل علم کا اس پر عمل ہے ان کے نزدیک خرید و فروخت میں دھوکہ فریب حرام ہے‘‘۔
دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ قحط سالی اور گرانی کے وقت ایک دفعہ شام سے لوگوں کی ضروریات کی چیزیں جَوْ آٹا وغیرہ لیکر وارد ہوئے ، تو انہوں نے أحجار الزيت نامی جگہ پر پڑاؤ ڈالا اور پھر طبل بجانا شروع کردیا تاکہ لوگوں کو ان کی آمد کا علم ہوجائے ، چنانچہ لوگ ماسوائے گیار ہ یا بارہ افراد کے ان کے طبل کی آواز سن کر اس طرف نکل کھڑئے ہوئے ، دحیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ اس وقت جمعہ کی نماز میں تھے طبل کی آواز سن کر نکل کھڑے ہوئے‘‘ ۔ [5]
مجاہد اور مقاتل کا بیان ہے کہ:
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ دےر رہے تھے کہ دحیہ کلبی سامان ِتجارت لیکر مدینہ میں آن وارد ہوئے ،اس پر ان کے اہل خانہ نے دف بجانا شروع کردیا جس کی آواز سن کر لوگ جمعہ کا خطبہ چھوڑ کر ان کی طرف روانہ ہوگئے ۔ ‘‘[6]
اور ایک روایت میں ہے کہ :’’ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور کہنے لگا کہ دحیہ کلبی سامان تجارت لیکر آئے ہیں ،دحیہ کے گھر والو ں کا یہ معمول ہوا کرتا تھا کہ جب وہ تشریف لاتے تو وہ دف بجاکر ان کا استقبال کرتے ، یہ سن کر لوگ نکل پڑے ‘‘ ۔[7]
مذکورہ بالا مختلف روایات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لوگ تجارتی مال کی آمد کا اعلان اور تشہیر مختلف طریقوں سے کیا کرتے تھے تاکہ لوگ جمع ہوکر اپنی ضرورت کی چیز خرید لیں، ان ذرائع میں طبل یا دف کا بجایا جانا وغیرہ شامل تھا ۔ یہ طریقے زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تجارتی اعلانات اور پروڈکٹ کی فروخت کیلئے استعمال ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں شرعی قباحت نہ پاتے ہوئے لوگوں کو اس سے منع نہیں کیا جو اس بات کی دلیل ہےکہ اپنی پروڈکٹ کی تشہیر شرعی حدود وقیود میں کی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اپنا تجارتی سامان بیچنے کیلئے اسے بازاروں میں سجاتے ، لوگوں کو اس کے خریدنے پر راغب کرنے کیلئے خود یا اپنے ملازموں اور غلاموں سے آوازیں لگواتے ، لہٰذا ان کا اپنے مال کو یوں پیش کرنا اور اس پر منادی کرنا اس کی تشہیر کی ابتدائی صورت تھی جسے ہم ایڈورٹائزنگ کی ابتدائی شکل سمجھ سکتے ہیں ۔ اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہیں کیا یہ اس امر کے جواز کی بڑی قوی دلیل ہے ۔
عقلی دلیل :
شریعتِ اسلامیہ کا سنہری اصول ہے کہ وہ مشقت ،تکلیف وتنگی کے ازالے کیلئے آئی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
﴿وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾
الحج: 78
ترجمہ: ’’ اور اس نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘
دورِ حاضر میں ایڈورٹائزنگ ایک بنیادی ضرورت بن چکی ہے مختلف قسم کی کمپنیوں کا وجود میں آنا ، انواع واقسام کی پروڈکٹس میں آئے روز اضافہ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ ان پروڈکٹس سے صارفین کو مطلع کیا جائے ۔ لہٰذاان کمپنیوں کیلئے ضروری ہوچکا ہے کہ وہ اپنی پروڈکٹس کی خصوصیات کے بارے میں لوگوں کو مطلع کریں اور اگر تاجروں کو اس عمل سے روک دیا گیا تو وہ لوگ تنگی اور تکلیف میں مبتلا ہوں گے، ان کی برانڈز کارخانوں اور گوداموں میں گل سڑ جائیں گی جس سے انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا ۔جو کہ شرعی مقاصد کے خلاف ہے۔ اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کاروبار کی تشہیر ایک جائز عمل ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ جن ذرائع سے اس ایڈورٹائزنگ کو نشر کیا جاتا ہے وہ شریعتِ مطہرہ کے اصولوں اور ضابطوں کے عین مطابق ہوں اور اس کے معیار پر پورے اتریں ۔ان ضابطوں میں چند اہم ترین کا تذکرہ ہم آئندہ سطور میں کرتے ہیں ۔
ایڈورٹائزنگ کے شرعی اصول اورضابطے
سابقہ بحث سے واضح ہوا کہ شریعت مطہرہ میں کاروبار کی تشہیرکرنا اپنی پراڈکٹ اور برانڈ سے متعلق لوگوں کو آگاہی دینا اور گاہکوں کو اس کی خصوصیات سے آگاہ کرنا جائز اور مشروع ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس کیلئے اختیار کیا جانے والاطریقہ اور ذریعہ بھی جائز اور مشروع ہونا چاہئے ۔شرعِ مطہرہ میں چند ایسے ضابطے اور اصول متعین کئے گئے ہیں جن کا خیال کرنے سے ایک مسلمان تاجر ایڈورٹائزنگ کے معاملات میں غیر شرعی چیزوں سے بچ سکتا ہے ۔
پہلا ضابطہ : سچائی اختیار کرنا اور جھوٹ اور مبالغہ آرائی سے پرہیز کرنا
شریعت اسلامیہ کا ایک مسلمان سے تقاضا ہے کہ وہ اپنے تما م معاملات ، اقوال وافعال میں سچائی اختیار کرے ۔دیگر معاملات کی طرح تجارتی معاملات میں اس پر بالخصوص توجہ دلائی گئی اور سچائی پر اجرِ عظیم کی نوید بھی سنائی گئی چنانچہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ‘‘۔[8]
تاجر کو تجارت میں بھی اور اس طرح اپنے مال کی ایڈور ٹائزنگ میں بھی سچائی اختیار کرنی چاہئے ۔
اسماعیل بن عبید بن رفاعہ اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ:’’ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ عیدگاہ کی طرف نکلے تو دیکھا کہ لوگ خرید وفروخت کر رہے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا اے تاجروں کی جماعت !وہ سب رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے اپنی گردنیں اٹھالیں اور آپ کی طرف دیکھنے لگے۔ آپ نے فرمایا :’’تاجر قیامت کے دن نا فرمان اٹھائے جائیں گے البتہ جو اللہ سے ڈرے نیکی کرے اور سچ بولے‘‘ ۔[9]
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ بیچنے والے اور خریدنے والے کو اختیار ہے( بیع فسخ کرنے کا ) جب تک کہ دونوں جدا نہ ہوں
الْبَيِّعَانِ بِالخیارِ مَا لَم يتَفَرَّقَا أَوْ قَالَ حَتَّی يَتَفَرَّقَا
کہا اگر دونوں سچ بولیں اور صاف صاف بیان کریں تو ان دونوں کی بیع میں برکت ہوگی اور اگر دونوں نے چھپایا اور جھوٹ بولا تو ان دونوں کی بیع کی برکت ختم کر دی جائے گی‘‘ ۔[10]
سچائی ایک ایسی صفت ہے جس سے رزق میں برکت اور بڑھوتری ملتی ہے ۔امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ جو انسان اپنا مال لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ فروخت کی جانے والی چیز کے تمام عیوب خفیہ اور ظاہری گاہک کے سامنے بیان کردے ، کوئی چیز چھپائے نہیں اور اگر چھپایا تو وہ ظالم ، خائن اور دھوکے باز ٹھرے گا ۔ ملاوٹ ،خیانت اوردھوکہ دہی حرام عمل ہے۔ایسا کرنے والا فرد معاملے میں خیر خواہی سے کنارہ کشی اختیار کر رہا ہے ۔اور نصیحت وخیر خواہی ایک ضروری اور لازم امرہے۔ اس کی واضح دلیل نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہےسیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’ ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے اور اپنا ہاتھ اس ڈھیر میں داخل کیا تو آپ ﷺ کی انگلیوں کو کچھ تری محسوس ہوئی آپ ﷺ نے فرمایا اے غلے کے مالک یہ تری کیسی ہے؟ یعنی ڈھیر کے اندر یہ تری کہاں سے پہنچی اور تم نے غلہ کو تر کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اس تک بارش کا پانی پہنچ گیا تھا (جس کی وجہ سے غلہ کا کچھ حصہ تر ہو گیا ہے میں نے قصدًا تر نہیں کیا) آپ ﷺنے فرمایا تو پھر تم نے غلہ کو اوپر کی جانب کیوں نہیں رکھا تا کہ لوگ اس کو دیکھ لیتے اور کسی فریب میں مبتلا نہ ہوتے) یاد رکھو جو شخص فریب دے وہ مجھ سے نہیں (یعنی میرے طریقہ پر نہیں ہے) ‘‘۔[11]
جہاں عیوب کو چھپانے سے شریعت نے منع فرمایا وہاں اپنے مسلمان بھائی سے خیر خواہی کرنے، نصیحت کرنے اور اچھا مشورہ دینے کا بھی حکم دیا ۔جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ پابندی کے ساتھ نماز پڑھوں گا زکٰوۃ ادا کروں گا اور ہر مسلمان کے حق میں خیر خواہی کروں گا‘‘[12]
اس کے بعدسیدنا جریر رضی اللہ عنہ کا طرز عمل یہ ہوا کرتا تھا کہ وہ اپنی چیز کی کمزوریاں کھول کر رکھ دیتے ،پھر کہتے کہ اگر لینی ہے تو لے لو ورنہ چھوڑ دو ، ان سے کہا گیا کہ اگر تم نے اس طرح کیا تو تمہاری چیز فروخت ہی نہیں ہوگی ! فرمانے لگے
إِنَّا بَايَعَنَا رَسُولَ اللهِﷺ عَلَى النُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ
إحياء علوم الدين للغزالي : 2/69
’’ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر مسلمان کے حق میں خیر خواہی کرنے کی بیعت کی ہے‘‘ ۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ شریعتِ اسلامیہ نے تو یہاں تک تعلیم دی کہ اگر فروخت کنندہ اور خریدار کے علاوہ کوئی تیسرا شخص بھی اس عیب کو دیکھ لے تو اس پر بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو اس سے آگاہ کرے ۔ یزید ابن ابی مالک فرماتے ہیں کہ:’’ ہمیں ابو سباع نے بیان کیا کہ میں نے واثلہ بن اسقع کے گھر سے ایک اونٹنی خریدی ، جب میں خرید کر جانے لگا تو دیکھا کہ واثلہ رضی اللہ عنہ اپنا کپڑا گھسٹتے ہوئے آ رہے ہیں آتے ہی کہنے لگے : اے عبد اللہ ! کیا تم نے اونٹنی خریدی ہے ؟ میں نے کہا ہاں ، کہنے لگے کیا اس بیچنے والے نے اس میں جو عیب ہے تمہیں بتایا ہے ؟ میں نے کہا اس میں کون سا عیب ہے ؟ کہنے لگے کہ ہاں موٹی تازی ہے صحت مند ہے ! پھر فرمایا کیا تم اس پر سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہو یا ذبح کرنے کیلئے لی ہے ؟ میں نے کہا کہ : نہیں بلکہ میں نے حج کے ارادے سے لی ہے کہ اس پر سوار ہوکر حج کیلئے جاؤں گا ، کہنے لگے : اس اونٹنی کی ایڑی میں نقب ہے ، کہتے ہیں : یہ بات سن کر وہ فروخت کرنے والا کہنے لگا : اللہ تمہاری اصلاح کرے تم تو میرا سودا خراب کر رہے ہو ۔ اس پر واثلہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ :
لَا يَحِلُّ لأحدبِيعَ شَيْئًا إِلَّا يُبَيِّنَ لَهُ مَا فِيهِ، وَلَا يَحِلُّ لِمَنْ يَعْلَمُ ذَلِكَ إِلَّا بَيِّنَهُ
’’ کسی کیلئے یہ حلال نہیں کہ جب وہ چیز بیچے، اس میں موجود عیب واضح طور پر بیان نہ کردے ، اور اس شخص کیلئے بھی جائز نہیں کہ جو اس عیب کو جانتا ہو وہ اسے بیان نہ کرے ‘‘ ۔ [13]
فقہاء نے بھی اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی ہے کہ اگر کوئی بائع کسی شخص کو بغیر عیب کی نشاندہی کئے اپنی چیز فروخت کر دیتا ہے ، اور خریدار کواس عیب کا بعد میں علم ہوتا ہے تو یہ بیع تو صحیح ہوگی لیکن خریدار کو اختیار ہے وہ چاہے تو وہ چیز اس عیب کے ساتھ بخوشی قبول کرے یا پھر تاجر کو دوبارہ واپس لوٹا دے اور بیع فسخ کرکے اپنی قیمت واپس لے لے۔اس ضمن میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :’’ ایک شخص نے غلام خریدا اسے کام میں لگایا پھر اس میں عیب دیکھا تو واپس کر دیا ، اس پر فروخت کنندہ کہنے لگا کہ ’’ اس نے میرے غلام کو کام میں لگا کر فائدہ اٹھایا ہے اس کی اجرت ؟‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
الغلة بالضمان
کہ نفع وفائدہ ضمانت کے ساتھ مربوط ہے ( جو ضامن کو ملے گا )۔[14]
مندرجہ بالا دلائل سے نمایاں ہوا کہ ایڈورٹائزنگ کرنے والے کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ سچائی کا دامن نہ چھوڑے کہ کہیں ان معاملات میں نہ پڑ جائے جن سے شریعت اسلامیہ نے منع فرمایا ہے ، مگر المیہ یہ ہے کہ آج کے دور میں ایڈورٹائزنگ میں محض سچ کو چھپایا یا غلط بیانی سے کام نہیں لیا جاتا بلکہ اس سے بڑھ کر مبالغہ آرائی کی انتہا کردی جاتی ہے ۔ ایک شیمپو بیچنے والی کمپنی شیمپو کی اتنی توصیفات بیان کرتی ہے کہ جیسے اس میں ہر مرض کا علاج ہے لیکن استعمال کے بعد اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلتے بلکہ الٹا نقصانات اور منفی پہلو بھی سامنے آتے ہیں ۔جس سے خریدار کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ، بد اعتمادی کا سلسلہ چل نکلتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بھروسے کی فضا ناپید ہوجاتی ہے ، جوکہ کاروبار کی ترقی ، برکت اور کامیابی کیلئے انتہائی ضروری ہے ۔ اکثر اوقات ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ایک شخص اپنی جمع پونجی لگا کر چیز خریدتا ہے لیکن پھر بھی وہ کوس ہی رہا ہوتا ہےکہ میرے ساتھ فراڈ ہوگیا ، میں لٹ گیا لیکن کیا کیا جائے یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے !
؎ شکوہ کریں تو کس سے شکایت کریں تو کیا ۔۔۔۔۔۔
؎ حرفِ دروغ ،غالب شہر خدا ہوا
شہروں میں ذکر حرفِ صداقت کریں تو کیا
دوسرا ضابطہ : حرام کردہ چیزوں کی ایڈورٹائزنگ نہ کی جائے
اس میں ایڈورٹائزنگ کمپنیاں اورمتعلقہ تمام ادارے اس کی پاسداری کریں حرام چیز کا نہ ایڈ تیار کیا جائے ، نہ اس کی تشہیر کے لئے جگہ دی جائے اور نہ ہی اسے نشر کیا جائے ، جس چیز کا استعمال گناہ ہے یقیناً اس کی ترغیب دینا بھی گناہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو تمام لوگ جرم میں برابر کے شریک ہوں گے ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾
المائدة: 2
ترجمہ: ’’ نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘
آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :’’ بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کر دیتے ہیں تو اس کی قیمت سے فائدہ اٹھانا بھی حرام فرما دیتے ہیں‘‘ ۔[15]
عصر حاضر میں حرام شدہ چیزوں کی ایڈورٹائزمنٹ کی چند صورتیں :
ایسے اشتہارات تیار کرنا جن میں سگریٹ نوشی اور شراب ومنشیات کی ترویج شامل ہو یہ حرام ہے ۔
ایسے بینکوں کے ایڈ تیار کرنا یا تشہیر کرنا جو سودی لین دین کرتے ہیں ۔
موسیقی ، فلم، ٹی وی اور اسیٹج ڈراموں ودیگر ایسے پروگراموں کی تشہیر کرنا جن میں فحاشی بے حیائی ، اور اخلاقی استحصال شامل ہوتا ہے ۔
فحش سائٹوں پر اپنے ایڈ دینا ۔
جوا، بدکاری وفحاشی کی ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کرنا وغیرہ ۔
تیسرا ضابطہ : تشہیر کسی ایسے مواد پر مشتمل نہ ہو جو شہوانیت اور جنسی جذبات کو ابھارے
شریعتِ اسلامیہ حیا وشرم، عفت وعفاف اور حسن اخلاق کو اختیار کرنے کا حکم دیتی ہے ۔
غیر محرم سے خلوت اور اختلاط ، نمائشِ بدن ، اور ایسے کام بجا لانا جس سے لوگوں کے شہوانی اور جنسی جذبات ابھریں اس سے منع کیا گیا ہے ۔ کیونکہ اس طرح کی تشہیر اور اعمال میں معاشرے کی تباہی ، اخلاق کی تباہی اور فحاشی کو پروموٹ کرنے کا عندیہ موجود ہے اس لئے شریعت اسلامیہ نے ایسے اعمال سے سختی سے منع فرمایا ہے ۔ لیکن اگر آج کی ایڈورٹائزنگ پر نظر ڈالی جائے وہ چاہے آڈیوکی صورت میں ہوں یا ویڈیویا پرنٹ کی صورت میں ان کا اخلاقی گراف اتنا گر چکا ہے کہ الحفیظ والامان !عورت کو ایک مہرہ بنا کر استعمال کیا جاتاہے، اسے پروڈکٹ متعارف کرنے کےلئے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اس کی تکریم وعزت کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں ۔
مگر شریعت مطہرہ نے انسان کی تکریم کی ہے اسے عفت وحیا کا درس دیا ہے فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلٰى كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا﴾
الإسراء: 70
ترجمہ: ’’ یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ‘‘۔
ہمارے معاشرے کا گراف کس حد تک گر چکا ہے اس کا اگر مشاہدہ کرنا ہے تو سائن بورڈز ، ٹی وی اشتہارات اور ہوڈنگز سے بخوبی ہوجاتا ہے کہ کیسے جنسی جذبات کو ہوا دی جارہی ہے ۔ فجور وفحاشی اور بے حیائی انتہا کو پہنچ چکی ہے ، ملبوسات کا اشتہار ہو ، شیمپو کا اشتہار ہو ، صابن یا صرف ہو ، کھانے پینے کی اشیاء سب پر نیم برہنہ عورتیں براجمان ہوتی ہیں ۔ جس سے عیاں ہوتا ہے عورت کو نیم برہنہ کئے بغیر کوئی پروڈکٹ فروخت ہو ہی نہیں سکتی!اس طرح کی حیا باختہ تشہیر محض پروڈکٹ پر منفی اثرات نہیں ڈالتی بلکہ معاشرے سے عفت وعصمت حیا وپاکدامنی کا جنازہ نکل جاتاہے ۔ عورت ایک آلہ ترویج بضاعت بن چکی ہے ۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کے بارے میں فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿إِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ أَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾
النور: 19
ترجمہ :’’جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے ‘‘ ۔
اسلام نے تو عورت کی آواز تک کو حسّاس قرار دیا ہے کہ جس سے برائی کے طالب لوگوں کی امیدیں وابستہ ہوجاتی ہیں اس لئے فرمایا :
﴿يَا نِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا﴾
الأحزاب: 32
ترجمہ : ’’ اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو‘‘۔
اور پردے اور حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾
الأحزاب: 59
ترجمہ : ’’ اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے‘‘ ۔
چوتھا ضابطہ :اپنی پروڈکٹ کی ترویج کیلئے دیگربرانڈز کی مذمت نہ کی جائے
اسلام نے جن اخلاقِ فاضلہ کی تعلیم دی ہے اس میں نمایاں اخلاق یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنے دوسرے بھائی کیلئے ہمیشہ مثبت اور اچھی سوچ رکھنی چاہئے ، ایثار اور قربانی کے جذبہ سے سرشار رہنا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ باہمی تعلق ومحبت کو فروغ دینے کی تعلیم دی ہے فرمان باری تعالی ہے :
﴿وَالَّذِيْنَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِيْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّـمَّآ أُوتُوْا وَيُؤْثِرُونَ عَلٰى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُّوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾
الحشر: 9
ترجمہ : ’’ اور (ان کے لئے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب اور با مراد ہے‘‘ ۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ کوئی بھی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسندنہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔ [16]
ہاں منافست اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے سے شریعت نے منع نہیں کیا لیکن یہ ضابطہ مقرر کردیا کہ اس منافست اور رسہ کشی میں کسی دوسرے مسلمان بھائی کی ساکھ مجروح نہیں ہونی چاہئے اور نہ اس کو کسی قسم کا نقصان پہنچنا چاہئے ۔تاکہ معاشرے میں الفت ومحبت کی فضا پروان چڑھے اور بغض وحسد کی فضا معدوم ہو ۔ لیکن دور حاضر میں بالعموم تب تک اپنی پروڈکٹ کو کامیاب تصور نہیں کیا جاتا جب تک دوسروں کی پروڈکٹ کے نقائص بیان نہ کردئے جائیں تقابل کے بغیر اپنی تشہیر کو نامکمل سمجھا جاتا ہے دوسرے کو خراب کہہ کر خود کو صحیح ثابت کرنے کا طریقہ بہت رواج پا چکا ہے ۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ
’’ نہ کسی کو نقصان دو نہ تمہیں نقصان دیا جائے ‘‘ ۔ [17]
اس لئے ایک مسلمان اور مومن تاجر کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی پروڈکٹ کی ایڈورٹائزنگ کرے لیکن دوسرے مسلمان بھائیوں کی تنقیص کئے بغیر اور ان کی چیزوں سے مقارنہ کئے بغیر ورنہ کہیں اس حدیث کی ضمن میں نہ آجائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے‘‘۔[18]
ہمارے معاشرہ میں عموماً جو اشتہارات نظر سے گذرتے ہیں اس میں اس طرح کے القابات جلی حروف میں ہوتے ہیں ’’اس میں جو مزہ ہے وہ کسی اور میں کہاں ‘‘بے شمار طریقوں سے تقابل پیش کیا جاتا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ اسلامی طرز تشہیر کا اصول ہے جبکہ مغربی ایڈورٹائزمنٹ میں تو نہ صرف کہ اس قسم کی تنقیص وتجریح کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ تقابلی اشتہارات کو سب سے زیادہ کامیاب تصور کیا جاتا ہے ۔
پانچواں ضابطہ : ایسے اشتہارات سے پرہیز کرنا جو اسلامی عقائد ونظریات سے متصادم ہوں
عقیدہ مسلمان کی زندگی کا سب سے اہم ترین سرمایہ ہے ، اس کے بغیر ایمان اور اسلام کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے ، لہٰذا کسی بھی ایسی پروڈکٹ کی تشہیر نہ کی جائے جس سے مسلمان کے اخلاق اور اس کا عقیدہ متاثر ہو ۔ اس میں سب سے بنیادی چیز غیراللہ کے عرس واعیاد کیلئے اپنا پلیٹ فارم مہیا کرنا ، بروشر شائع کرنا ، یا ایسے حیا باختہ مشاعروں کی تشہیر کرنا جس میں تمام اخلاقی واعتقادی حدوں کو پامال کردیا جاتاہے ، یا ایسے پروگراموں یا جرائد میں اشتہار دینا جن میں علم نجوم سے متعلق یا غیبی معاملات سے متعلق بحث کی جاتی ہو ۔
چھٹا ضابطہ : اعلانات میں فضول خرچی نہ کی جائے
آج کے دور میں کمپنیاں ایڈورٹائزنگ پراتنی خطیر رقم خرچ کرتی ہیں کہ جس کا اثر قیمت کی گرانی پر منتج ہوتا ہے ۔ یہ فعل فضول خرچی کے ضمن میں آتا ہے اور فضول خرچی اسلام میں قطعا جائز نہیں فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿وَلَا تُسْرِفُوْٓا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ﴾
الأنعام: 141
ترجمہ : ’’اور بے جا خرچ نہ کرو۔ کیونکہ اللہ اسراف ( فضول خرچ )والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
نیز فرمایا :
﴿وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (26) إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (27)﴾
الإسراء: 26 – 27
ترجمہ : ’’ اور فضول خرچی نہ کرو۔بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے‘‘۔
کوئی کہنے والا یہ کہہ سکتا ہے کہ بھائی اس میں فضول خرچی کہاں ہے بلکہ تاجر تو جو خرچ کرتا ہے اس کا منافع اسے مل جاتا ہے ۔ لیکن حقیت یہ ہے کہ تاجر کی ایڈورٹائزنگ کی مکمل قیمت گاہک کو ادا کرنی پڑتی ہے ، جس سے کساد بازاری کی فضا عام ہوتی ہے اور غریب لوگوں کیلئے خریداری مشکل سے مشکل تر ہوجاتی ہے ۔ اور معاشرے پر اس کے انتہائی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ مومن کو تو چاہئے کہ وہ ہمیشہ لوگوں کیلئے بھلائی کے پہلو پر سوچے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب وہ شخص ہے جو لوگوں کو زیادہ نفع اور فائدہ پہنچائے ، اور اعمال میں سب سے پسندیدہ عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ہے جس میں ایک بندہ اپنے مسلم بھائی کو کوئی خوشخبری دے ، یا اس سے کوئی تکلیف دور کرے ، یا اس کا قرض ادا کردے ، یا اس کی بھوک مٹادے ، اور میں ایک مسلمان بھائی کی ضرورت کو پورا کروں یہ مجھے مسجد میں ایک مہینے کے اعتکاف کرنے سے زیادہ پسند ہے ، اور جس نے اپنے غصے پر قابو پالیا ، اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کو چھپائے گا ، جس نے غصہ کو پیا اگرچہ وہ اس کو نافذ کرنے پر قادر تھا ، اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کے دل کو رضا سے بھر دے گا اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے چلا تاکہ اسے ثابت قدم کردے ، اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت ثابت قدم رکھے گا جس دن بہت سے قدم ڈگمگائیں گے ، اور بد اخلاقی مسلمان کے عمل کو ایسے تباہ کردیتی ہے جیساکہ سرکہ شہد کو ‘‘ ۔[19]
قیمتوں کی گرانی سے معاشرے کے متوسط اور نچلے طبقے پر بوجھ بڑھ جاتا ہے ۔ اور چیزیں ان کی قوت خرید سے باہر ہوجاتی ہیں ۔جس سے معاشرہ میں عدم توازن کی فضا پیدا ہوتی ہے ۔
ساتواں ضابطہ : صارفین کے جذبات کو اپیل کرنے سے گریز کیا جائے
شریعتِ اسلامیہ میں تجارت کے حوالے سے یہ ضابطہ دیا گیا ہے کہ وہ فریقین کی باہمی رضامندی پر مبنی ہونی چاہئے ۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ﴾
النساء 29
رضا کیلئے ضروری ہے کہ انسان مکمل طور پر فکری وجسمانی لحاظ سے آزاد ہو اسے کسی چیز کے سودے پر حسی یا معنوی طور پر مجبور نہ کیا جائے ۔ اکراہ اور مجبوری عمومی طور پر دو طرح سے ہوتی ہے ۔ ایک تو کسی انسان کو جسمانی طور پر کسی دباؤ کے تحت کوئی چیز خریدنے پر مجبور کیا جائے ۔ یہ صورت تو موجودہ تجارت میں تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے لیکن دوسری قسم یہ کہ انسان کو مسمرائز (Mesmerize ) اور ہپناٹائز ( Hypnotize ) کرکے کوئی چیز خریدنے پر مجبور کیا جائے ۔ یعنی ہمیں ترغیب اور اکراہ میں فرق کرنا چاہئے محمد مبشر نذیر صاحب رقمطراز ہیں :
’’ ہمارے معاشرے میں پراڈکٹس کے فوائد بتلاکر ان کو خریدنے کی ترغیب پیدا کرنے کا کام بھی کیا جاتاہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ زیادہ زور اس بات پر ہے کہ لوگ اپنی عقل ودانش کے تحت تجزیہ کرکے نہیں بلکہ اپنے جذبات کے ہاتھوں ان پروڈکٹس کو خریدنے پر مجبور ہوجائیں ۔ اس مقصد کے لئے ہر برانڈ کو کسی مخصوص جذبے مثلاً دوستی ، عشق ومحبت ، مامتا ، اپنائیت ، ذہنی سکون، ایڈونچر حتی کہ جنسی خواہش کے ساتھ وابستہ کردیا جاتا ہے ۔ جن افراد میں یہ جذبات شدت سے پائے جاتے ہیں ، اشتہارات ان کے انہی جذبوں میں تحریک پیدا کرتے ہیں اور اس کے ذریعے انہیں اپنا برانڈ خریدنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ ان اشتہارات کو بار بار دکھا کر ، انہیں میوزک اور نغموں کے ذریعے ذہنوں میں اتار کر ، اور ان میں نت نئی ورائٹی پیدا کرکے انہیں زیادہ سے زیادہ دلچسپ بنا کر ان جذبات کی شدت(Jingles )میں اور اضافہ کیا جاتا ہے ‘‘۔[20]
لہٰذا لوگوں کی عقلوں کو زیر قبضہ کرکے ، خریداری کے سحر میں گرفتار کرکے ان سے مرضی کی قیمیتں اینٹھنا اور انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی خریدنے پر مجبور کرنا اسلامی روح سے متصادم ہے ۔
اس کے منفی اثرات کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ دنیا میں آئے روز سطح غربت بڑھتی جا رہی ہے جبکہ انسان ہر طرف پر تعیش سامان خریدنے کی فکر میں لگا ہوا ہے ۔جس کے گھر میں کھانے کو آٹا نہیں وہ بھی اعلیٰ قسم کے موبائل فونز رکھتا ہے ۔ انواع واقسام کا فرنیچر خریدنے اور سامانِ تعیش رکھنے کا متمنی ہوتا ہے ۔ یہ اسی سحر کا نتیجہ ہے جو ان اشتہارات کے ذریعے لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔
ایڈورٹائزنگ کیلئے انعامی اسکیموں کا اعلان اور گفٹ دینے کا اہتمام کرنا
عصر حاضر کی مارکیٹ میں انعامات کوپروڈکٹ کی سیل بڑھانے میں مرکزی کردار سمجھا جاتا ہے ، بڑی بڑی کمپنیاں ان مقابلوں میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کودتی ہیں ، گاہکوں کو بھی ان انعامات کی چکاچوند کھینچ لاتی ہے ۔ ایڈورٹائزنگ میں انعامات کے طریقہ کار کو انتہائی سریع النتائج اور سریع التاثیر سمجھا جاتا ہے ۔
اگر ان انعامی اسکیموں پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو عمومی طور پر دو اقسام ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔
پہلی قسم :
ایسی انعامی اسکیم جس میں شریک لوگوں کو کوئی نہ کوئی کام سر انجام دینا ہوتا ہے ، یعنی کمپنی اپنے صارف سے کوئی نہ کوئی کام کراتی ہے اس کے بعد انہیں انعامات دئے جاتے ہیں ۔ جیسا کوئز
مقابلے،پزل گیمز ، پروڈکٹ کے خصوصیات سے متعلق سوالات وغیرہ ،یا کسی جملے کو مکمل کرنا ، یا املائی غلطیوں کو درست کرنا وغیرہ وغیرہ پھر جوابات وصولی کے بعد کامیاب امیدوار کا نام بذریعہ قرعہ اندازی اعلان کیا جاتا ہے ۔ اس مسئلے کو اگر شرعی نوعیت سے دیکھا جائے تو اس کی دو صورتیں بنتی ہیں ۔
(1) کمپنی مقابلے میں شرکت کیلئے کسی چیز کے خریدنے کی پابند نہ کرے ۔ بغیر کسی شرط کے وہ کوپن تقسیم کئے جائیں کہ کوئی بھی شخص اس میں حصہ لے سکتا ہے ۔
(2)کمپنی یا مقابلے کا انعقاد کرنے والی شخصیت اپنی پروڈکٹس میں سے کسی چیز کے خریدنے کو لازم قرار دے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ کمپنی کہے کہ ہم اس مقابلے میں حصہ لینے کا کوپن صرف اسی شخص کو دیں گے جو ہماری فلاں چیز خریدے گا ۔ یا پھر وہ ایسے نہ کہیں بلکہ ایسا کریں جیسا کہ بہت سے ادارے کرتے ہیں کہ کوپن بیچے جانے والی چیز کے اندر ہی ہوتے ہیں جسے نکال کر فل کرکے بھیجاجاتا ہے ۔ بالعموم اس طرح کے مقابلے پرنٹ میڈیا اخبارات ورسائل میں بکثرت دیکھے جاسکتے ہیں ۔
دوسری قسم :
ایسا انعامی مقابلہ جس میں مقابلہ میں شریک افراد کو کچھ بھی نہ کرنا پڑے ۔ ان کی کسی قسم کی صلاحیت صرف نہ ہو ۔
اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مقابلہ منعقد کرنے والی جہات لوگوں میں خاص نمبرز پر مبنی کوپنز تقسیم کرتے ہیں اگر وہ قرعہ اندازی میں شامل ہونا چاہتے ہیں پھر ایک تاریخ کا اعلان کردیا جاتا ہے کہ فلاں تاریخ کو قرعہ اندازی ہوگی اور بذریعہ قرعہ اندازی اتنے افراد کو جن کا نمبر نکلا انعامات دئے جائیں گے ۔ اس قسم کے مقابلوں کی آسانی اور جاذبیت کے باعث اکثر کمپنیاں اس قسم کے ہی مقابلے کراتی ہیں اور لوگوں کو بھی یہی آسان لگتے ہیں کہ بغیر کسی ذہنی وجسمانی مشقت کے ٹوکن حاصل کرکے اگر کوئی انعام نکل آیا تو وارے نیارے ہوجائیں گے ۔
اس قسم کی بھی ذیلی دو صورتیں بنتی ہیں ۔
(1)مقابلے میں شرکت کیلئے کمپنی کی کسی پروڈکٹ خریدنے کی شرط نہ ہو ۔
(2)مقابلے میں شرکت کیلئے پروڈکٹ خریدنے کی شرط لگائی جائے ۔
مسائل مذکورہ بالاکا شرعی نوعیت سے جائزہ
اہل علم نےمقابلوں کو عمومی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔
پہلی قسم :
ایسے مقابلے جو معاوضہ( انعام ) کے ساتھ بھی جائز ہیں اور بغیر معاوضے کے بھی ۔
مقابلوں کے حوالے سے اسلام کا جو عمومی نقطہ نظر ہے یہ تین چیزوں اونٹوں کی دوڑ، تیر اندازی، گھڑ دوڑ میں مقابلوں کے اجراء کو فقہاء نے اجماعا جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ اس مقابلے کی انعامی رقم کسی تیسرے فریق کی طرف سے ہو نہ کہ مقابلے میں شریک فریقوں کی جانب سے ۔[21]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے :
لَا سَبَقَ إِلَّا فِي خُفٍّ، أَوْ نَصْلٍ، أَوْ فِي حَافِرٍ
ابوداؤد : کتاب الجهاد ، باب في السبق ، الترمذي : کتاب الجهاد ، باب ماجاء في الرهان والسبق . النسائي : کتاب الخيل ، باب السبق . ابن ماجه: کتاب الجهاد ، باب السبق و الرهان .
’’مسابقت کے ساتھ مال لینا حلال نہیں مگر اونٹ ، یا گھوڑے دوڑانے میں اور تیر اندازی میں ‘‘ ۔
اہل علم نے مذکورہ بالا حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ مقرر کیا کہ حدیث میں مذکور تینوں چیزوں میں مقابلے منعقد کرانا جائز ہیں بلکہ مطلب شرعی ہیں ۔
دوسری قسم :
ایسے انعامی مقابلے جو واجبات کی ادائیگی سے غافل کردیں ، یا ان میں حرام چیز کی آمیزش ہوجائے ایسے مقابلے بالکل ناجائز ہیں ۔
اہل علم کا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ ہر وہ چیز جو انسان کو واجب کی ادائیگی سے مشغول کردے ، غافل کردے ، یا کھیل تماشے اور غفلت میں ڈال دے یا ہر وہ چیز جس میں حرام کی آمیزش ہوجائے اس میں مقابلے کا انعقاد کرنا ناجائز ہے ۔[22]
اس طرح کے مقابلے سورہ مائدہ میں فرمان باری تعالیٰ کی روشنی میں حرام وناجائز قرار پائیں گے ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (90)إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ (91)﴾
المائدۃ: 90 – 91
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو ۔شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کہ ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالٰی کی یاد سے اور نماز سے تمہیں باز رکھے ۔ سو اب بھی باز آجاؤ۔‘‘
تیسری قسم :
انعامی مقابلوں کی تیسری قسم ایسے مقابلے جن میں کوئی معاوضہ یا انعام مقرر نہیں ہوتا ۔ اس قسم کے مقابلوں پر بھی اہل علم کا اجماع ہے کہ کوئی بھی ایسا مقابلہ جس پر معاوضہ وانعام نہ رکھا گیا ہو ، اور اس میں نفع ہو نقصان کا اندیشہ نہ ہو ، یا نقصان ِغالب نہ ہو تو ایسے مقابلے منعقد کرنا جائز ہے ۔[23]
جیسے دوڑ کا مقابلہ ، کشتی رانی ، سوئمنگ وغیرہ کے مقابلے ہیں ۔[24]
مقابلوں کی مندرجہ بالا انواع واقسام کے ذکر کے بعد ایک اختلافی صورت بچتی ہے اور وہ یہ کہ ان انعامی مقابلوں کے انعقاد کا کیا حکم ہے جن میں نص وارد نہیں ہے اور نہ ہی اس نص میں مذکور مفہوم کا اس پر اطلاق ہوتا ہے ، اور وہ معاوضہ اور انعام کی بنیاد پر منعقد کرائے جاتے ہیں ؟ کیا شرعی نقطہ نگاہ سے ایسے مقابلے منعقد کرائے جا سکتے ہیں یا نہیں ؟جیسا کہ آج کل کے تجارتی انعامی مقابلے ہیں اس مسئلہ میں فقہاء واہل علم کی دو آراء سامنے آتی ہیں :
پہلی رائے : حنفیہ ،[25]مالکیہ [26]شافعیہ [27]حنابلہ[28]اور امام ابن حزم ظاھری [29]کا موقف ہے کہ ایسے انعامی مقابلوں کا انعقاد جائز نہیں ۔
دوسرا قول :
بعض مالکیہ [30]کی رائے ہے کہ اس طرح کے مقابلوں میں انعام متعین کرنا اور مقابلے منعقد کرانا جائز ہے لیکن بشرطیکہ یہ انعام کوئی تیسرا فریق مقرر کرے نہ کہ مقابلے میں شریک فریق ۔
فریق اول کے دلائل : پہلی دلیل :
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ :
لَا سَبَقَ إِلَّا فِي خُفٍّ، أَوْ نَصْلٍ ، أَوْ فِي حَافِرٍ
ابوداؤد : کتاب الجهاد ، باب في السبق ، الترمذي : کتاب الجهاد ، باب ماجاء في الرهان والسبق . النسائي : کتاب الخيل ، باب السبق . ابن ماجه: کتاب الجهاد ، باب السبق و الرهان .
’’مسابقت کے ساتھ مال لینا حلال نہیں مگر اونٹ ، یا گھوڑے دوڑانے میں اور تیر اندازی میں ‘‘ ۔
وجہ استدلال :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انعامی مقابلوں کے انعقاد کو تین چیزوں میں محصور کردیا ہے ۔ اونٹ ، گھوڑے ، اور تیر اندازی ، اگردیگر معاملات میں یہ چیز جائز ہوتی تو ان تینوں کے استثناء کی ضرورت نہ تھی کہ تمام مباح چیزوں میں بغیر عوض مقابلے ویسے ہی جائز ہیں ۔ ہاں اگر کوئی ایسی چیز جو اس حدیث کے مفہوم میں شامل ہو تو اس کے جواز کی اہل علم نے گنجائش نکالی ہے البتہ اس کے علاوہ کسی میں عوض اور انعام مقرر کرنا جائز نہیں ۔کیونکہ نہ تو وہ اس حدیث کی نص میں داخل ہے اور نہ ہی اس کے مفہوم میں پھر یہ کیونکر جائز ہوسکتے ہیں ۔
دوسری دلیل :
اس طرح کے مقابلوں میں انعامات اور عوض کی ادائیگی کو جائز قرار دینے سے اعتراض شرعی جنم لیتا ہے اور وہ یہ کہ لوگ اس کام کو بحیثیت پیشہ اختیار کرلیں گے ۔ بالخصوص اس کام کی سہولت وآسانی کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگ اس میدان میں کود پڑیں گے اور لوگوں کی رغبت اس کام میں بڑھ جائے گی ۔ [31]
لہٰذا اس کام میں پڑنے سے بہت سی دینی ودنیاوی مصلحتوں کے ضیاع کا خدشہ ہے ۔ اس لئے اسےجائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
فریقِ ثانی کے دلائل :
اس رائے کے حامل اہل علم کا کہنا ہے کہ شارع نے ایسے مقابلوں میں انعامات اور معاوضہ لگانے سے منع فرمایا ہے جس میں معاوضہ فریقین میں سے کوئی ایک ادا کرے ۔ کیونکہ اگر ایسا ہوا تو یہ صورت قمار ومیسر کی صورت ہوجائے گی ۔ کیونکہ قمار کی تعریف یہ ہے کہ : ہر وہ معاملہ جس میں انسان داخل ہو اور پھر یا تونفع میں رہے یا نقصان میں‘‘ ۔اور انعامی رقم اگر فریقین میں سے کسی کی طرف سے ہوگی تو ان میں سے ایک نفع میں رہے گااور ایک نقصان میں۔ اس علّت کی بنا پر شریعت نے یہ معاملہ حرام قرار دیا ہے اور اس سے منع فرمادیا لیکن اگر یہ انعام کسی تیسرے فریق کی طرف سے ہوگا اس علّت کے زائل ہونے سے یہ معاملہ جائز ہوجائے گا کیونکہ یہ معاملہ حرام کردہ جوے کی صورت سے نکل جائےگا۔[32]
ترجیح : مندرجہ بالا بحث اور فریقین کے دلائل سے جو بات صحیح ترین معلوم ہوتی ہے وہ جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ اس طرح کے مقابلوں میں انعامات اور عوض مقرر کرنا جائز نہیں ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:” لا سبق الا في خف ، أو نصل ، أو حافر” ۔[33]
’’مسابقت کے ساتھ مال لینا حلال نہیں مگر اونٹ ، یا گھوڑے دوڑانے میں اور تیر اندازی میں ‘‘ ۔ اس مسئلے کی قطعی دلیل ہے ۔
آپ کا یہ فرمانا :” لا سبق” یہ لفظ سیاق نفی میں نکرہ وارد ہوا ہے اور عربی قاعدہ کے مطابق عموم کا فائدہ دیتا ہے ۔ ہاں جہاں چند معاملات میں اہل علم نے اسے جائز قرار دیا ہے وہ اس لئے کہ ان چیزوں کا تعلق جہاد اور جنگی تیاری سے ہے اور یہ چیزیں جنگی تیاری میں ممد ومعاون ثابت ہوتی ہیں اس لئے اسے جائز قرار دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ جو بھی کھیل ہیں ان میں انعامات مقرر کرنا جائز نہیں چاہے ان کی صورت میسر اور قمار سے ملتی ہو یا نہیں کیونکہ حدیث اپنے باب میں قطعی دلیل ہے ۔
یہ جمہور اہل علم کی رائے ہے اور قریب تر اجماع ہے تمام مسالک ومشارب مذاھبِ فقہیہ اس پر متفق ہیں ۔
مشہور حنفی عالم دین ابن عابدین فرماتے ہیں :’’ حدیث میں مذکورہ تینوں اجنا س کے علاوہ کسی چیز میں معاوضہ متعین کرکے مقابلہ کرانا جائز نہیں ‘‘۔[34]
مالکی مذھب کے معروف عالم دین فرماتے ہیں : ’’مقابلوں کے حوالے سے ہم نے جو بھی احکامِ شرعیہ بیان کئے ہیں ، وہ گھوڑے اور سوار کے مابین یا ان دونوں کے درمیان ہیں اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :” لا سبق الا في خف ، أو نصل ، أو حافر” ۔[35]سے مراد ہیں ۔ اس کے ساتھ کسی اور مقابلے کو نتھی کرنا کسی طرح جائز نہیں الا کہ وہ مقابلہ بغیر معاوضہ وانعام کے ہو ، اگر ایسا ہے کہ وہ مقابلہ بغیر انعام کے ہے تو اس میں اگر دشمن پر غلبہ حاصل کرنا ، اور مسلمانوں کے نفع کے حوالے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے تو یہ جائز ہے ۔ ‘‘[36]
مذکورہ بالا حدیث کی تشریح میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ مقابلے صرف انہی چیزوں میں ہو سکتے ہیں جو حدیث میں مذکور ہیں ‘‘ ۔[37]
ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ انعام مقرر کرنا یا معاوضہ مقرر کرنا صرف گھوڑے ، اونٹ ، اور تیر اندازی میں جائز ہے ‘‘ ۔[38]
پراڈکٹ کی ترویج کیلئےتحفہ دینا
پروموشن سکیموں میں ایک سکیم گفٹ دینے کی بھی ہے ۔ مختلف کمپنیاں اپنی پروڈکٹ پر صارفین کو کوئی نہ کوئی گفٹ دیتی ہیں ۔ دیے جانے والے اس گفٹ کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں ۔
یہ گفٹ کسی چیز کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے ۔
اور سروس اور سہولت مہیا کرنے کی صورت میں بھی ۔
فقہاء اور مارکیٹنگ کمپنیوں کی گفٹ کی اصطلاح میں یہی بنیادی فرق ہے ۔ کیونکہ فقہاء کی اصطلاح میں ہدیہ میں سروسز داخل نہیں ہوتیں جبکہ مارکیٹنگ کی اصطلاح میں سروسز ہدیہ میں شامل ہوتی ہیں ۔جیسا کہ بہت سے پیٹرول پمپوں اور گاڑی شورومز والے آئل فری میں چینج کر دیتے ہیں چیز خراب ہونے کی صورت میں ریپئرمفت میں کی جاتی ہے ۔ چیز کو واپس لے لینا۔ اور بہت سی فریج اور الیکٹرانک سامان بنانے والی کمپنیاں ان سامان کے خراب ہونے کی صورت میں ٹھیک کرنے کا ذمہ لیتی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ جبکہ فقہاء کے ہاں سروس وخدمات کو ہدیہ میں شمار نہیں کیا جاتا ۔
فقہی اصطلاح میں ہدیہ کی تعریف :
تَمْلِيكُ عَيْنِ مِنْ غَيْرِعِوَضٍ لِغَيْرِحَاجَۃ الْمَعطي
بدائع الصنائع: 6/ 116 الانصاف :7/134 المحلی :9/124 فتح الجواد : 1/ 625:
کسی بھی شخص کو اس کی ضرورت کے بغیر کسی عین یعنی چیز بغیر معاوضے کے اس کا مالک بنا دینا ۔ یا اس کی ملکیت میں دے دینا ہدیہ کہلاتا ہے ۔ اور سروس چونکہ عین ( چیز ) نہیں بلکہ منفعت ہے لہٰذا اسے فقہاء کے ہاں ہدیہ میں شمار نہیں کیا گیا ۔ سروسز ائمہ ثلاثہ کے ہاں ہبہ منافع میں جبکہ احناف کے ہاں عاریہ میں یا اباحت منافع میں شمار ہوتی ہیں ۔
مارکیٹنگ کی اصطلاح میں ہدیہ ہر وہ چیز ہے جو تاجر حضرات اپنے صارفین کوسامان اور خدمات کی صورت میں بلا معاوضہ فراہم کرتے ہیں ۔
گفٹ کو اگر مارکیٹنگ کی اصطلاح سے دیکھا جائے تو انہیں بحیثیت مجموعی تین اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
پہلی قسم : یادگار ی گفٹ ۔ یہ وہ گفٹ ہیں جو کمپنیاں اپنے ورکرز کو یا صارفین کو خاص مواقع پر فراہم کرتی ہیں، جیسے سال کے اختتام پر کلینڈر دیتی ہیں ، یا قومی دن پر شیلڈ وغیرہ دی جاتی ہے ۔
دوسری قسم : کاروبار کو فروغ دینے کیلئے دیے جانے والے گفٹ ۔
کمپنیوں کی جانب سے دیےجانے والے اس طرح کے گفٹ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔
ہر خریدار کو گفٹ دیا جائے ۔گفٹ چند شرائط سے مشروط ہو ، مثلاً اگر کوئی اتنے کی خریداری کرے گا تو اسے ہدیہ دیا جائے گا ۔
تیسری قسم : ایڈورٹائزنگ تحفے بطور نمونہ ۔ Advertising gifts samples
ان تحائف سے مراد وہ تحائف ہیں جو کمپنیاں ، سپر مارکیٹس ، شاپنگ مالز صارفین میں سیمپل کی غرض سے تقسیم کرتے ہیں یا اس غرض سے تقسیم کرتے ہیں کہ ان کی پروڈکٹس کو فروغ ملے ۔ لوگ اس کا تجربہ کریں استعمال کریں ۔پھر خریدیں ۔[39]
مارکیٹنگ میں دئے جانے والے تحائف کی جملہ صورتوں کا شرعی جائزہ
تحفہ تحائف کو اگر باعتبار اصل دیکھا جائے تو شریعت میں یہ نہ صرف جائز بلکہ احسان واکرام پر مبنی عمل ہے شریعت نے ہدیہ دینے کی ترغیب بھی دی اور اسے محبت والفت کے فروغ کا باعث بتایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
تهادوا تحابوا
أدب المفرد للبخاري : باب قبول الهدية، اس روایت کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے التلخیص الحبیر( 3/69-70) میں حسن قرار دیا ہے ۔
ہدیہ دیا کرو محبت بڑھے گی ۔ بلکہ ہدیہ کو رد کرنے کی بھی ممانعت وارد ہوئی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تردوا الهدية
[40]’’ تحفہ واپس نہ کیا کرو ‘‘ ۔
جہاں تک مارکیٹنگ کیلئے دیےجانے والے تحفوں کا تعلق ہے تو ان کی مذکورہ بالا اقسام کی رو سے جو شرعی صورتیں اور حکم بنتا ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
یادگاری گفٹ کا شرعی حکم :
شرعی نقطہ نگاہ سے یادگاری گفٹ میں کوئی قباحت نہیں بلکہ معاملات کے باب میں اس اصول
الأصل في المعاملات الحل
کو سامنے رکھتے ہوئے اہل علم نے اس کے جائز ہونے کا فیصلہ دیا ہے ۔نیز شریعت کے تحفے کے حوالے سے عمومی دلائل بھی اس کی تائید کرتے ہیں ۔ لیکن اس حوالے سے یہ شرط متعین کی ہے کہ یہ گفٹ ایسا نہ ہو جو بذاتِ خود حرام ہو یا اسے صرف حرام کام میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہو ۔ یا اس کا غالب استعمال حرام میں ہی ہوتا ہو ،تو اس قسم کا تحفہ نہ دینا جائز ہوگا نہ لینا ،جیسے سودی بینکوں کے گفٹ ، سگریٹ ،شراب ، وغیرہ
کیونکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۖ إِنَّ اللّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾
المائدۃ: 02
ترجمہ:’’نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالٰی سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔
کاروبار کے فروغ کے لئے دیے جانے والے گفٹ ۔
یہ گفٹ یا تو سامان کی صورت میں ہوتے ہیں یا سروس اور سہولت کی صورت میں ۔
ایڈورٹائزنگ میں رائج اس قسم کے تحفوں کا جائزہ لینے کے بعد اہل علم نے اس کی درجِ ذیل چند اہم صورتیں ذکر کی ہیں ان میں سے ہر صورت کا شرعی حکم کے ساتھ اجمالا یہاں تذکرہ کیا جاتا ہے ۔
پہلی صورت :تحفے کا کسی چیز یا سامان کی شکل میں ہونا ۔
ایسا گفٹ جس کا خریدار ی سے پہلے وعدہ کیا گیا ہو ، اس کی صورت کچھ یوں ہے کہ کوئی دکاندار یا کوئی فرم اور کمپنی یہ کہتی ہے کہ جو ہماری یہ پروڈکٹ خریدے گا اس کو یہ چیز گفٹ کی جائے گی ۔ اس کےلئے عموما کمپنیاں اور دکاندار دو طریقے استعمال کرتے ہیں ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہر خریدار کو گفٹ دیا جاتا ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ خریداری کی مقدار کا تعین کردیا جاتا ہے کہ جو شخص فلاں شاپنگ سینٹر سے اتنی رقم کی خریداری کرے گا اسے یہ گفٹ دیا جائے گا یا فلاں شخص اتنی کوانٹیٹی میں چیز خریدے گا تو اسے یہ گفٹ ملے گا ۔
اس معاملے کو فقہاء نے
وعد بالهبة
سے تعبیر کیا ہے کیونکہ یہاں پہلے دکاندار وعدہ کر رہا ہے کہ اگر کسی نے خریدا تو اسے یہ چیز دوں گا ، اور اگر پہلے سے وعدہ نہیں کیا بلکہ ،خریدنے کے بعد کچھ گفٹ دے دیا تو اسے
وعد بالهبة
نہیں بلکہ ہبہ کہا جائے گا ۔ اہل علم اس صورت کے جائزہ کے بعد یہ فیصلہ دیاہے کہ خریداروں کو اس طرح کے تحفے دینا جائز ہیں اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ۔کیونکہ معاملات میں اصل جواز ہے ۔
یہاں اہل علم نے یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ اگر کوئی شخص دکان یا کمپنی سے کوئی چیز خرید لیتاہے اسے گفٹ بھی دے دیا جاتا ہے لیکن بالفرض خریدار کو چیز پسند نہ آئی وہ معاہدہ ختم کرکے چیز واپس کرنا چاہتا ہے تو اس صورت میں دکاندار کیلئے خریدار کووہ دیا گیا گفٹ واپس لینا جائز نہیں ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
العائد في هبته کالکلب يقئ ثم يعود في قيئة
صحيح البخاري:كتاب الهبة و فضلها و التحريض عليها باب هبة الرجل لإمراته والمرأة لزوجها.
’’ جو شخص ہدیہ دینے کے بعد واپس مانگتا ہے اس کی مثال اس کتے کی سی ہے جوقئی کرکے اسے دوبارہ چاٹ لے‘‘ ۔
دوسری صورت : تحفہ کسی سہولت یا سروس وغیرہ کی صورت میں ہو ۔
اس قسم کی سروسز کو بھی اہل علم نے جائز قرار دیا ہے ۔ سعودی عرب کی ممتاز علمی شخصیت علامہ صالح عثیمین رحمہ اللہ سے سوال پوچھا گیا کہ : ہماری ایک ٹائر پنکچر اور گاڑیوں کی سروس کی دکان ہے ہم نے چند کارڈ پرنٹ کرائے ہیں جن پر یہ لکھا ہے کہ آئل چینج اور گاڑی کی سروس کے اس طرح کے چار کارڈ جمع کرنے پر ایک گاڑی کی دھلائی اور سروس فری ہے ۔ تو کیا ہمارے اس کام میں کوئی شرعی قباحت ہے ؟ نیز مقابلوں کے حوالے سے آپ کوئی شرعی قاعدہ بھی بیان فرمادیں۔
شیخ رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا :اگراس آفر کی وجہ سے قیمت میں کوئی فرق نہیں پڑتا تو اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے اس حوالے سے شرعی قاعدہ یہ ہے کہ : ہر وہ عقد جس میں انسان سالم(بیچ جائے) ہو یا غانم(کوئی چیز پالے) ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اور اگر وہ یا تو غانم ہو یا غارم(کوئی چیز ہار جائے) تو یہ جائز نہیں ہے ۔‘‘[41]
ایڈورٹائزنگ تحفے بطورنمونہ ۔ Advertising gifts samples کا شرعی حکم
ان تحائف سے مراد وہ تحائف ہیں جو کمپنیاں ، دوکانوں کے مالکان سپر مارکیٹس ، شاپنگ مالز صارفین میں سیمپل کی غرض سے یا اس غرض سے تقسیم کرتے ہیں کہ ان کی پروڈکٹس کو فروغ ملے ۔ لوگ اس کا تجربہ کریں استعمال کریں ،پھر خریدیں ۔
اس قسم کے گفٹ دینے کا مقصد دو طرح کا ہوتا ہے
اول : لوگوں کو نئی پراڈکٹ سے متعارف کرایا جائے ، انہیں اس کے استعمال کا طریقہ بتایا جائے ، اور معلوم کیا جائے کہ کیا یہ پراڈکٹ، جس ضرورت کیلئے تیار کی گئی ہے وہ ضرورت پوری بھی کرتی ہے یا نہیں ؟
دوم : دوسرا مقصد اس کا یہ ہوتا ہے کہ اسے ایک نمونے کے طور پر لوگوں کو دیا جائے کہ اگر وہ ایسی چیز بنواناچاہتے ہیں تو کیسی بنوائیں اس قسم کے نمونےعموماً ان چیزوں کے بارے میں دئے جاتے ہیں جنہیں آرڈر پر تیار کرایا جاتا ہے ۔
شرعی رو سے اس قسم کے تحفوں میں کوئی قباحت نہیں البتہ گفٹ دینے والا اس کو واپس نہیں لے سکتا جیسا کہ اوپر حدیث گذر چکی کہ جو تحفہ دے کر واپس لیتا ہے اس کی مثال کتے کی ہے جو الٹی کرکے چاٹتا ہے ۔
مسئلہ : گفٹ کے حوالے سے ایک صورت مارکیٹ میں یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض لوگ تحفہ میں نقدی بھی دیتے ہیں کہ بعض کمپنیاں یا دوکاندار اپنی پراڈکٹ میں سونےیا چاندی کے سکے ، یا ٹکڑے، یا روپے ڈال دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو خریداری کیلئے ابھارا جا سکے ۔
اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کوئی کمپنی یا تاجر یہ اعلان کرے کہ ہر پیکٹ میں پچاس روپے یا سو روپے کے نوٹ ہیں جو ہر خریدار کیلئے گفٹ ہیں ۔
فقہاء نے اس طرح کے گفٹ سے مشابہ مسئلہ کتب فقہ میں ذکر کیا ہے جسے فقہاء نے ’’ مد عجوة ودرهم‘‘ ایک پاؤ عجوہ اور درہم ۔ کا نام دیا ہے ۔
مذکورہ مسئلے کی شرعی نوعیت اور حکم :ایڈورٹائزنگ کے انعامات کی اس صورت میں فقہاء کا اختلاف ہے ۔ اور یہ اختلاف اسی مذکورہ بالا مسئلہ ’’مدعجوة ودرهم‘‘ کے مسئلہ میں اختلاف پر مبنی ہے ۔
شافعیہ حنابلہ ابن حزم اور عصرِ حاضر کے محققین علماء نے اسے ناجائز قرار دیا ہے ۔ اور یہی صحیح تر رائے ہے ۔ جس کی وجوہات اور دلائل درجِ ذیل ہیں ۔
سیدنا فضالہ بن عبید کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کے سال ایک ہار بارہ دینار میں خریدا جو سونے کا تھا اور اس میں نگینے جڑے ہوئے تھے پھر جب میں نے انہیں الگ الگ کیا (یعنی نگینوں کو سونے سے نکال ڈالا) تو وہ سونا بارہ دینار سے زائد قیمت کا نکلا میں نے اس کا ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ” لا تباع حتی تفصل” ایسا ہار اس وقت تک فروخت نہ کیا جائے تاوقتیکہ سونا اور نگینہ الگ الگ نہ کر لئےجائیں ‘‘ ۔[42]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے ہار کو دیناروں کے بدلے بیچنے سے منع کیا یہاں تک کہ اس میں موجود نگینے الگ الگ نہ کردئے جائیں ، اس سے معلوم ہوا کہ سودی جنس کو اس کے مثل جنس کے ساتھ اس وقت بیچنا منع ہے جب اس کی جنس کے ساتھ کوئی اور جنس بھی موجود ہو ۔
وہ احادیث جن میں سونے کو سونے سے ، یا کوئی بھی دوسری سودی جنس کو اسی جنس کے ساتھ بیچنے سے منع کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر بیچی جائے تو برابر برابر ہو اور نقد ہو ادھار نہ ہو ۔
جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’ تم لوگ سونے کو سونے کے عوض فروخت کرو وزن کر کے برابر برابر اور چاندی کو چاندی کے عوض وزن کر کے برابر برابر پس جس کسی نے زیادہ دیا تو وہ سود ہوگیا‘‘۔[43]
لہٰذا مذکورہ روایات کی روشنی میں اس قسم کے گفٹ دینا جن میں اشیاء کے اندر نقدی رکھی گئی ہو جائز نہیں۔ کیونکہ اس میں سود شامل ہوتا ہے ۔
دوسری صورت یہ کہ : بعض چیزوں میں نقدی رکھی جائے نہ کہ تمام چیزوں میں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بہت سی کمپنیاں یہ آفر کرتی ہیں کہ اس کی اس خاص پروڈیکٹ کے چند پیسز میں کچھ رقم ، یا سونے یا چاندی کے سکے رکھے گئے ہیں جسے خوش نصیب لوگ جیت سکتے ہیں ۔ اس طرح کے انعامات عموما بچوں کیلئے تیار کی گئی ٹافیوں یا چاکلیٹس وغیرہ میں ملتےہیں کہ چیز کے ساتھ دس روپے ، پانچ روپے کے نوٹ بھی ڈال دئے جاتے ہیں ۔
اس قسم کے گفٹ دینا شرعا حرام ہیں۔ کیونکہ اس میں جوا اور دھوکہ شامل ہےکیونکہ ہوسکتا ہے کہ خریدار وہ چیز خریدے ہی اس نیت سے کہ اس میں سے نقدی نکلے گی، یا سونے کا سکہ نکلے گا۔ اگر نکل گیا تو وہ غانم (جیت) ہے اور اگر نہ نکلا تو غارم (نقصان)ہوگا ۔
اس صورت میں بالعموم لوگوں کو یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ یہ جوا کیسے ہو سکتا ہے جس شخص نے چیز خریدی اگر اس کا انعام نہیں بھی نکلتا تو چیز تو وہ استعمال کرے گا ہی ! اس نے چیز کے پیسے دئے تھے جو اس نے استعمال کرلی ۔ لہٰذا اس نے جو قیمت دی ہے وہ چیز کی دی ہے نہ کہ انعام کی ۔ لہٰذا یہاں نفع ، نقصان کا اور جوے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے بلکہ اس معاملے میں بہت سے شرعی اعتراضات وارد ہوتے ہیں جس وجہ سے یہ معاملہ جائز نہیں رہتا ۔
اس طرح کی چیزیں خریدنے والوں کا بنیادی مقصد چیز خریدنا نہیں ہوتا بلکہ ان کا مقصد اس نقدی کا حصول ہے جو اس سامان میں رکھی گئی ہے ۔ لہٰذا اس سے لوگ بلا ضرورت چیز خریدیں گے ، اور اگر اس میں سے انعام نہ نکلا تو غارم(نقصان میں) ہوں گے ۔
اور اگر تمام جزئیات سے یہ جوا نہیں تو اس کے بہت سے پہلو ہیں جو اسے اس طرف لے جاتے ہیں ۔
اول : اس میں جوے کی مشابہت موجود ہے اگرچہ وہ جزوی ہی کیوں نہ ہو ۔ ان تحفوں کی جوے سے بہت گہری مشابہت ہے ۔ اس لئے امام احمد رحمہ اللہ سے بیع مرابحہ کے بارے میں منقول ہے فرماتے ہیں: ’’ اگر فروخت کنندہ یہ کہے کہ میرا سرمایہ اس میں سو روپے ہے میں تجھے اس طرح بیچوں گا کہ ہر دس پر ایک درہم منافع وصول کروں گا ، فرماتے ہیں یہ بیع صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ بیع ایسے ہی ہے جیسے کوئی دراہم کے بدلے دراہم فروخت کرے ‘‘۔[44]
یہاں امام احمد رحمہ اللہ نے ایک روایت میں مرابحہ کی اس صورت کو اس لئے ناجائز قرار دیا کیونکہ اس میں سود سے مشابہت پائی جاتی ہے ۔
دوم : یہ صورت جوے میں ملوث ہونے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔ لہٰذا اصولی قاعدہ ’’ سد الذرائع ‘‘ کے تحت اس صورت کو ناجائز قرار دیا جائے گا
سوم : اس صورت میں غرر(دھوکہ) واضح شکل میں موجود ہے ، خریدار کو یہ پتہ نہیں کہ معاہدہ کس پر مکمل ہوگا صرف سامان پر یا نقد ہدیہ پر ۔ ؟
اسی خدشے کے تحت بیع الحصاۃ [45]، بیع الملامسہ [46]اور بیع المنابذہ [47]سے احادیثِ صریحہ میں منع فرمایا گیا ہے ۔ مذکورہ بالا گفٹ کی صورت بھی ان صورتوں سے ملتی جلتی ہے ۔
چہارم : اس کے جائز قرار دینے سے لوگوں کو بہت سی ایسی چیزیں خریدنے پر ابھارا جا تا ہے جن کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی ، ان کا مقصد محض اس سے تحفہ نکالنا ہوتا ہے اور بلا ضرورت چیزیں خریدنا اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہے جس سے شریعت نے منع فرمایا ہے ۔
[1] ایڈورٹائزنگ کا اخلاقی پہلو سے جائزہ ،محمد مبشر نذیر ص 2
[2] الجامع لأحکام القرآن2/ 306
[3] فتح الباری شرح صحيح البخاري 4/ 357
[4] جامع ترمذی ، صحیح مسلم ، کتا ب الایمان ، باب من غشّ فليس منّا۔
[5] الجامع لأحكام القرآن للقرطبي 9/ 352
[6] الجامع لأحكام القرآن للقرطبي 9/ 353، التحرير والتنوير لإبن عاشور 11 / 228
[7] الجامع لأحكام القرآن للقرطبي 9/ 353، التحرير والتنوير لإبن عاشور 11 / 228
[8] السنن الترمذي : کتاب البيوع ، باب ماجاء في التجار ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ، لیکن شیخ البانی رحمہ اللہ اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں ۔ الغرض مفہوماً یہ روایت صحیح ہے جس کی تائید شریعت کے دیگر بیشمار دلائل سے ہوتی ہے
[9] سنن ترمذی : کتاب البيوع ، باب ماجاء في التجار ، امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے ۔
سنن ابن ماجہ : کتاب التجارات ، باب التوقي في التجارة. شیخ البانی رحمہ اللہ اس روایت کوصحیح قرار دیاہے ۔
[10] صحیح بخاری : كتاب البيوع ، باب إذا بين البيعان ولم يكتما ونصحا . صحیح مسلم : كتاب البيوع ، باب الصدق في البيع والبيان .
[11] صحیح مسلم : كتاب الإيمان ، باب من غش فليس منا
[12] صحیح مسلم : كتاب الإيمان ، باب ، بيان أن الدين النصيحة
[13] مسند امام احمد : حديث واثلة بن الأسقع من الشاميين رضي الله عنه . امام حاکم فرماتے ہیں یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے ۔
[14] سنن ترمذی : كتاب البيوع ، باب في من اشترى عبدا فاستعمله ثم وجد به عيبا ، امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ امام البانی نے اس روایت کو حسن کہا ہے ۔
[15] سنن دارقطني : كتاب البيوع ، إن الله تعالى إذا حرم شيئا حرم ثمنه .
[16] صحیح بخاری : كتاب الإيمان ، باب من الإيمان أن يحب لأخيه ما يحب لنفسه . صحیح مسلم : كتاب الإيمان، باب الدليل أن من خصال الإيمان أن يحب لأخيه المسلم ما يحب لنفسه من الخير .
[17] نن ابن ماجہ : كتاب الأحكام ، باب من بنى في حقه ما يضر بجاره .علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا
[18] صحیح بخاری : كتاب البيوع ، باب لا يبيع على بيع أخيه .
[19] ٔمثال الحدیث: للأ صبھانی، باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم سوء الخلق (یہ حدیث ضعیف ہے)
[20] ایڈورٹائزنگ کا اخلاقی پہلو سے جائزہ ص 4
[21] اس اجماع کیلئے ملاحظہ کیجئے: مختصر الطحاوي لمحمد بن حسن ص 304 ، مختصر إختلاف الفقهاء للجصاص ، 3/ 515التمهيد لابن عبد البر ، 14/ 88 ، مراتب الاجماع ، 183 ، شرح صحيح مسلم ، 13 /14 .
[22] دیکھئے : مجموع الفتاوی ، شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله ، ج32ص 250 اور کتاب الفروسية ، لابن القيم ص 178
[23] اس اتفاق کا ذکر امام نووی نے شرح صحیح مسلم 13/14۔ابن قدامہ نے المغنی 13/407، اور امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری 6/72 میں کیا ہے
[24] دیکھئے : مجموع الفتاویٰ لابن تيمية رحمه الله ج 32ص 227، الفروسية لابن القيم ص 171
[25] بدائع الصنائع :6/206، حاشية ابن عابدين :6/402،403.
[26] 105الذخيرہ للقرافي :3/466القوانين الفقهية: ص
[27] روضة الطالبين10/351
[28] المغني : 13/407منتهى الإرادات :1/ 497
[29] المحلیٰ : 7/ 354
[30] مواهب الجلیل 3/ 393 : حاشية العدوي على مختصر الخليل 3/ 156
[31] الفروسية لابن القيم ص 182
[32] دیکھئے : الفروسية 182
[33] ابوداؤد : کتاب الجهاد ، باب في السبق ، الترمذي ، کتاب الجهاد ، باب ماجاء في الرهان والسبق . النسائي : کتاب الخيل ، باب السبق . ابن ماجه: کتاب الجهاد ، باب السبق و الرهان .
[34] حاشية ابن عابدين 6/ 402
[35] ابوداؤد : کتاب الجهاد ، باب في السبق ، الترمذي ، کتاب الجهاد ، باب ماجاء في الرهان والسبق . النسائي : کتاب الخيل ، باب السبق . ابن ماجه: کتاب الجهاد ، باب السبق و الرهان
[36] الذخيرة للقرافي : 3/466
[37] الأم للشافعي : 4/ 230
[38] عمدة الفقه لإبن قدامة 263
[39] معجم مصطلحات الاقتصاد والمال وادارۃ الاعمال ص 486، الأنشطة الترويجية للشركات السعوديةص 45، 48
[40] مسند أحمد ، 1/404، علامہ ھیثمی نے مجمع الزوائد میں فرمایا’’ رجاله رجال الصحيح ‘‘ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔
[41] اللقاء الشهري مع فضيلة الشيخ محمد صالح العثيمين : اللقاء الأول ، السؤال 20 ص 50، 51
[42] صحيح مسلم : کتاب المساقاۃ ، باب بيع القلادۃ فيها خرز وذهب
[43] صحيح مسلم : كتاب المساقاة ، باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا.
[44] الإنصاف : 4/ 438
[45] بیع حصاة کی صورت یہ ہے کہ خریدار دوکاندار سے کہے کہ جب میں تیری اس چیز یعنی مبیع پر کنکری مار دوں تو سمجھ لینا کہ بیع واجب ہوگئی یا دوکاندار خریدار سے کہے کہ میں نے اپنی چیزوں میں سے وہ چیز تمہیں بیچی جس پر تمہاری پھینکی ہوئی کنکری آ کر گرے یا میں نے یہ زمین وہاں تک تمہارے ہاتھ فروخت کی جہاں تک تمہاری پھینکی ہوئی کنکری جا کر گرے بیع کا یہ طریقہ ایام جاہلیت میں رائج تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
[46] ملامست کا طریقہ یہ تھا کہ ایک شخص کوئی چیز مثلا کپڑا خریدنے جاتا تو کپڑے کو ہاتھ لگا دیتا کپڑے کو ہاتھ لگاتے ہی بیع ہو جاتی تھی نہ تو آپس میں قولی ایجاب وقبول ہوتا تھا۔
[47] منابذت کی صورت یہ ہوتی تھی کہ دونوں صاحب معاملہ نے جہاں آپس میں ایک دوسرے کی طرف کپڑا ڈالا بس بیع ہو گئی مبیع کو دیکھنے بھالنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ یہ بھی ایام جاہلیت میں رائج بیع کا ایک طریقہ تھا لہذا اس کی ممانعت بھی فرمائی گئی