اعمال کا بدلہ

پہلا خطبہ :

ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے ، ہم اُس کی حمد بیان کرتے ہیں، اُس سے مدد مانگتے ہیں اور اُسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اپنے نفس کی بُرائیوں اور شر سے اُس کی پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دے اُسے گمراہ کرنے والا کوئی نہیں اور جسے وہ گمراہ کردے اُسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔

دُرود و سلام اور بہت زیادہ سلامتی نازل ہو آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر۔

ما بعد! 

اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور دنیا کے زوال اور اُس کے فنا ہونے کو اورآخرت اوراُس کی ہولناکیوں کو یاد کرو۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

البقرۃ – 281

اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤگے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔

مسلمانو! اللہ تعالیٰ کے ثابت قوانین ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے کائنات کو استوار کیا ہے اور جن کے ذریعے بندوں کے معاملات پختہ کئے ہیں۔ سو آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دستور کو کبھی بدل نہیں پائیں گےاورآپ اللہ تعالیٰ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہیں پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی جاری رہنے والی سنتیں جن میں خلل نہیں ہوسکتا اُن میں سے ایک یہ ہے کہ انسان وہ ہی کاٹے گا جو اُس نے بویا ہے اور اپنے بوئے ہوئے کا پھل اور کام کا نتیجہ ہی حاصل کرے گا۔ اور یہ وہ حقیقت ہے کہ جس پر کتا ب و سنت کے دلائل موجود ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ‎﴿٧﴾‏ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ

الزلزلة – 7/8

جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اُسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بُرائی کی ہوگی  وہ اُسے دیکھ لے گا۔

مزید فرمایا:

مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

المائدۃ – 160

جو شخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور ان لوگوں پرظلم نہ ہوگا۔

حدیث قدسی میں ہے:

اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے گن کررکھتا ہوں پھر میں تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دوں گا۔ سو جو بھلائی پائے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور جو اُس کے خلاف پائے تو وہ خود کوہی ملامت کرے۔

تمہارے لئے پھل وہ ہی ہوگاجو تم نے بویا ہے۔ لہٰذا سمجھدار بنو تاکہ پھل توڑنے کے دن تمہاری آرزوئیں پوری ہوں۔ اور جو بویا ہے اُسے اچھی طرح بو لوتو تم اُسے دنیا و آخرت میں سایہ دار پاؤ گے۔ نہیں تو پھر سزا ور ببول سے بڑھ کر ملامت کا انتظار کرو۔

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک آدمی کا ایک غلام تھا جو اُس کے کھیت میں کام کرتا تھا، تو اُس نے اپنے غلام سے کہا کہ زمین کے اس حصے میں گیہوں بو دو۔ یہ کہ کر وہ چلا گیا اور غلام کو چھوڑ گیا۔ غلام بڑا عقل مند اور ذی ہوش تھا، اُس  نے گیہوں کی جگہ جو بودیئے۔ زمین کا مالک اُس وقت واپس آیا جب فصل استوار ہوگئی اور اُس کی کٹائی کا وقت آگیا ۔ مالک نے دیکھا کہ غلام نے تو جو بویا ہوا ہے،تو اس نے غلام سے کہا کہ” میں نے تو تم سے کہا تھا کہ گیہوں بونا، تم نے یہ جو کیوں بودیا؟” تو غلام نے کہا: مجھے اُمید تھی کہ جو سے گیہوں پیدا ہوگا۔ تو مالک نے کہا: اے بیوقوف! کیا تو یہ اُمید لگاتا ہے کہ جو سے گیہوں پیدا ہوگا؟ تو غلام نے کہا: اے میرے آقا! کیا آپ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں اور اُس کی رحمت کی اُمید رکھتے ہیں؟ آپ اُس کی نافرمانی کرتے ہیں اور اُس کی  جنت کی اُمید کرتے ہیں؟ مالک گھبراگیا، دہشت زدہ ہوگیا اور سمجھ گیا کہ اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جانا ہے، اُس نے کہا: میں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کی اوراُس کی طرف لوٹ آیا۔ پھرغلام سے کہا: تم اللہ کے لئے آزاد ہو۔

اللہ کے بندو! ہم اِس فانی دنیا میں ہیں ۔ ہم میں سے بعض وہ ہیں جو اپنے نفس کو بچاتے ہیں اور فائدہ اُٹھا تے ہیں۔ اور ہم سے بعض وہ ہیں جواپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور نقصان اُٹھاتے ہیں۔ اللہ کے نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

ہر انسان صبح اُٹھ کر اپنے نفس کو فروخت کرتا ہےچنانچہ یا تو اُس کوآزاد کرالیتا ہے یا پھر اُس کو ہلاکت میں ڈال لیتا ہے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول یاد رکھئے :

مَّنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ

فصلت – 46

 جو شخص نیک کام کرے گا وه اپنے نفع کے لیے اور جو برا کام کرے گا اس کا وبال اسی پر ہے۔ اور آپ کا رب بندوں پرظلم کرنے والا نہیں۔

تو سوچئے! آپ کسے ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور کس طریقے کی پیروی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لئے کہ جو دنیا میں اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے گا وہ حق کے راستے سے ہرگز منحرف نہ ہوگا اور نہ ہی آخرت کے عذاب سے دوچار ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے: جو میری ہدایت کی پیروی کرے بدبخت نہ ہوگا اور جو میری ہدایت سے منہ پھیرے گا اور اس سے منحرف ہو گا اور اس کی جناب میں جھکنے سے انکار کرے گا اس کے دل کو نہ تو اطمینان حاصل ہوگا اور نہ ہی شرح صدر۔ اس کی گمراہی کی وجہ سے اس کا سینہ تنگ ہو گا اور وہ پریشانی میں رہے گا ہر چند کہ وہ بظاہر تو نعمتوں میں نظر آئے گا، جو چاہے کھائے اور جہاں چاہے رہے۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ

طه – 124

اور جو میری یاد سے روگردانی کرے گا تو اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔

 ان لوگوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا انہوں نے اللہ کے عبادت اور حمد و ثنا چھوڑ کر اس کا ذکر بھلا دیا یا تو اللہ تعالی نے انہیں اپنی توفیق عنایت اور کرم سے سے محروم کردیا اور قیامت کے دن انہیں اپنے عذاب میں چھوڑ دے گا۔

 اللہ کے بندو !جس کی چاہت یہ ہو کہ اس کی کھیتی کا پھل اچھا ہو اور انجام کار قابل تعریف ہو تواسے اپنے دین کو ضرور تھامنا چاہیے اور اس پر ثابت قدم رہنا چاہیئے۔ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔

 لہذا اپنی صحت و سلامتی کی حالت میں اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری کرو کہ تمہاری موت اسی پر ہو، کیونکہ اللہ کریم نے اپنے فضل وکرم سے یہ سنت بنا دی ہے  کہ جو شخص جس چیز پر جئے گا اسی پر اس کی موت ہوگی ، اور جس چیز پر اُس کی موت ہوگی اسی چیز پر اُسے دوبارہ اٹھایا جائے گا ۔اور جس سے سعادت کی خواہش ہو تو اسے وہاں سے طلب کرے کریں جہاں سے پانے کا گمان ہو۔ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

النحل – 98

جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے۔

 اللہ کے بندے! یہ بات ایسی ہی ہے جیسے کہی گئی ہے آپ کا نٹے بو کرانگورحاصل نہیں کرسکتے اور جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک قابل شخص گناہوں میں ڈوبا رہے، لگاتار گناہ کرے اور توبہ بھی نہ کرے لیکن کامیابی اور گناہوں کی بخشش کی امید کرے؟ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بندہ اپنے رب سے رشتہ توڑ لے نماز نہ پڑھے اور اپنے آقا کی فرمانبرداری نہ کرے اور یہ چاہے کہ اس کا سینہ کھول دیا جائے اور اس کی زندگی خوشگوار ہو؟ اور یہ کہ ہم میں سے ایک شخص اپنے رب کو خلوتوں میں اپنی طرف دیکھنے والوں میں سے سب سے بے وقعت بنائے جب کہ وہ لوگوں سے ڈرے کہ اس کی کوئی لغزش پکڑی نہ جائے؟ اور کیسے امید لگانے والا اپنے رب سے امید لگائے کہ وہ اسے عافیت سے نوازے ، شرور اور آفات سے اس کی حفاظت فرمائے جبکہ وہ فتنوں سے بچنے کے لئےاورمصبتوں اور تکلیفوں کے وقت ثابت قدمی کے اسباب بھی اختیار نہ کرے؟ اور کیسے کسی آسان چیز سے آزمایا جانے والا آدمی اللہ کی تقدیراور اس کی آزمائش سے ناراض ہو جاتا ہے اور اس کو بھول جاتا ہے جس میں وہ جی رہا ہوتا ہے اور یہ کہ وہ کس قدر اللہ تعالی کی نعمتوں اور نوازشوں میں ڈوبا ہوا ہے اور لوگوں کے ساتھ ہمیشہ برا سلوک کرتا ہے اور پھر اس بات کا خواہش مند رہتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور اس کے ساتھ خوش گفتاری سے پیش آئیں؟ اور کیسے ایک آدمی ملامت کرتا ہے کہ لوگوں نے اس کے حقوق ہضم کرلیے اور یہ لوگ کوتاہی کرنے والے ہیں جبکہ کہ وہ خود ان کے حقوق کے معاملے میں کوتاہی کا شکار ہے جب کہ وہ لوگ اس کی نظر میں انصاف کرنے والے ہیں؟ اور کیسے کوئی ماں باپ کا نافرمان اپنے والدین کے ساتھ نافرمانی کرتا ہے اوراس کے بعد یہ امید لگاتا ہے کہ اس کے بچے اور اس کے ماتحت لوگ اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں گے؟ اور کیسے شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے ساتھ برے سلوک کی شکایت کرتے ہیں جبکہ ممکن ہے کہ خلل شکایت کرنے والے کے اخلاق اور عادات و اطوار میں ہو؟ اور کیسے ایک ذمہ دار شخص اپنی اولاد کی تربیت میں غفلت کا مرتکب ہوتا ہے، ان کو نصیحت اور ان کی رہنمائی پر توجہ نہیں دیتا پھر جب وہ اس کا احسان بھولتے اور نافرمان ہو جاتے ہیں تو تعجب کرتا ہے؟ کیسے ایک کثیرالاولاد آدمی اپنا مال آسائشوں اور بے فائدہ چیزوں میں استعمال کر کے برباد کر دیتا ہے اور پھر لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے کہ جس سے اپنی ضرورت اور خرچ کو پورا کرے؟ کس طرح کھانے پینے کا کوئی شوقین کھانے پینے میں شریعت کے آداب کے برخلاف اسراف سے کام لیتا ہے ہے اور پھر اپنی ناسازیئ صحت اور شدت بیماری کی شکایت کرتا ہے؟ ہمیں اللہ رب العالمین علیم بصیر کے اس قول کو یاد رکھنا چاہیے:

وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوعَن كَثِيرٍ

الشوریٰ – 30

 تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے گئے کرتوت کا بدلہ ہے اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔

 جزا عمل سے مشروط ہے تو جو بھلائی بوئے گا وہ بھلائی کو ہی کاٹے گا اور جو برائی کو بوئے گا وہ برائی ہی کاٹے گا۔

اے اللہ کے بندو! ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے لئے اس دنیا میں بھلائی بوتے ہیں اوراُسے اپنے لیے آگے پیش کرتے ہیں  تو بھرپور اور بڑا فائدہ حاصل کرتے ہیں اور اپنے پیچھے پکے ہوئے  پھل اور وسیع سایہ چھوڑ کر کوچ کرتے ہیں جس سے ان کے بعد آنے والے اور پیچھے رہنے والے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے، اس آیت پر غور کرو:

وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا

الکھف – 82

 ان کا باپ بہت نیک شخص تھا۔

ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ نیک آدمی اپنی ذُرّیتوں میں باقی رہتا ہے یا آخرت میں اس کی عبادت کی برکت شامل ہوتی ہے اور یہ بھی ہے کہ وہ ان کے حق میں سفارش کرے گا اور جنت میں اُن کا درجہ بلند کیا جائے گا۔

 اللہ کے بندے !تیرے لیے یہ لائق بات ہے کہ تو اللہ سے دعا کرے کہ تیرے بعداللہ تعالی تیرا ذکرِ جمیل اور اچھی بات کو باقی رکھے جس کے ذریعے تو یاد کیا جائے اور بھلائی میں تیری پیروی کی جائے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے دُعا کی :

وَاجْعَل لِّي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ

الشعراء – 84

اور میرا ذکرِ خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی رکھ۔

اور دیکھ کے تو اپنے بعد برے عمل میں سے کیا باقی چھوڑ رہا ہے۔ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے:

وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ

یٰس – 12

اور ہم لکھتے جاتے ہیں وه اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وه اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔

یعنی وہ بھلائی اور برائی جسے انہوں نے اپنی زندگی میں انجام دیا اور وہ اعمال جنہیں وہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے۔

 اللہ کے بندو! آدمی اپنے عمل میں گناہ پر پکڑا جائے گا۔ہم آج جو بو رہے ہیں کل اسے کاٹیں گے اس لئے  خواہش نفس کی پیروی اور لگاتار گناہ کرنے سے بچیں۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جن پر اللہ کے حرمت کی پامالی کرنے کی وجہ سے عذاب، رسوائی اور سزا آگئی۔ اور کتنے ایسے تھے کہ وہ عافیت میں چھپے ہوئے تھے اور ان کے گناہ پوشیدہ تھے، پھر انہوں نے گناہوں کا اعلان کیا اور اپنے گناہوں سے اللہ تعالی کو چیلنج کیا تو اللہ تعالی نے ان کو بےعزت کردیا، ان کا پردہ فاش کر دیا اور اُن کے گناہوں کو ظاہر کر دیا۔

اور کچھ ایسے ہیں کہ انہوں نے ظالم کو بد دعا دی تو اللہ تعالی نے ظالم کو تباہ کردیا یا اس سے انتقام لیا اور اسے ہلاک کردیا۔ اور اسی طرح ہر آدمی اپنے افعال کا بدلا پاتا ہے۔ اور جو کوئی برائی بوئے گا تو وہ نتیجے میں پشیمانی ہی پائے گا۔ ہم سے ہمارے رب کا یہ قول کبھی اوجھل نہ رہے:

 جو شخص کوئی برائی کرے گا تو وہ اس کی سزا پائے گا۔

اللہ کے بندو! ہمیں غفلت سے بچنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ہم راہ راست پر ہیں اور اپنے معاملے کی واضح دلیل پر ہیں ۔یہ جو ہمارے آگے ہے ہم اس سے غفلت میں ہیں اور یہ کہ ہم اُن اعمال کے مطابق بدلے سے نوازے جائیں گے۔

 امام ابن قیم رحمہ اللہ کا بیان ہے: “بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ انہیں نعمتوں سے نواز کرے مہلت دی گئی ہے لیکن انہیں اس کا ادراک نہیں۔ وہ لوگ جاہلوں کی تعریف سے فتنے میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالی نے ان کی ضرورتوں کو پورا کر دیا ہے اور ان پر پردہ رکھا ہوا ہے تو وہ اس سے دھوکے میں ہیں، اور اکثر مخلوق کا حال یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ تینوں چیزیں سعادت وکامرانی کی علامت ہیں اور یہی ان کا مبلغ علم ہے۔”

 میں اپنی بات کہہ رہا ہوں اور میں اللہ تعالی سے اپنے لئے آپ کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے مغفرت طلب کرتا ہوں آپ بھی اسی سے مغفرت طلب کیجیے اور اس کی جناب میں توبہ کیجئے بلاشبہ وہ بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ :

ہر قسم کی تعریف اللہ رب العالمین کے لئے ہے وہ بزرگ و برتر اور بالا ہے۔ اس کے ہم سفر کوئی نہیں اور نہ ہی کوئی اُس کے حکم پر نظر ثانی کرنے والا ہے،اُس کا فیصلہ اٹل ہے۔

 اور درود و سلام نازل ہوں اللہ کے رسول، ہمارے سردار محمد رسول اللہ ﷺ پر، جو مخلوقات میں سب سے افضل ہیں اور خاتم النبیین ہیں۔اور دُرود و سلام نازل ہو آپ ﷺ کی آل پر اور آپ ﷺکے اصحاب پر۔

اما بعد!

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ ‎﴿٥﴾‏ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ ‎﴿٦﴾‏ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ ‎﴿٧﴾‏ وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَىٰ ‎﴿٨﴾‏ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَىٰ ‎﴿٩﴾‏ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ

اللیل – 5/10

جس نے دیا (اللہ کی راہ میں) اور ڈر اپنے رب سے۔ اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا۔ تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے۔ لیکن جس نے بخل سے کام لیا اور لاپرواہی برتی ۔اور نیک بات کی تردید کی۔ تو ہم بھی اس کے لیے تنگی اور مشکل کا سامان میسر کردیں گے۔

 ان آیات میں اس بات پر دلالت موجود ہے کہ نیکی کرنے سے دوسری نیکیوں کی راہ آسان ہوجاتی ہے اور ایک برائی کی انجام دہی دوسری برائی کی طرف لے جاتی ہے اور اللہ تعالی خیر کا ارادہ کرنے والوں کو خیر کی توفیق دیتا ہے۔ اور جو برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے رسوا کر دیتا ہے اور ہر چیز مقررکردہ تقدیر کے مطابق ہوتی ہے۔

مسلمانو! فرق بہت بڑا ہے اور دوری بہت زیادہ ہے، اس کے درمیان جو بھلائی کرتا ہےتو اس کی کاوش اچھی ہوتی ہے اور اس کے درمیان جو برائی کرتا ہے تو اس کی کاوش ناکام ہوتی ہے۔ اللہ کے نبی اکرم ﷺ نے جب بئر معونہ والوں کی طرف 70 قاری قرآن روانہ کئے کہ وہ انہیں قرآن سکھائیں، تووہ لوگ ان کی جان کے درپے ہوئے اور ان سب کو شہید کردیا قبل اس کے کہ وہ اپنی منزل کو پہنچتے۔ اورایک آدمی نے انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے ماموں حرام ابن ملحان پر نیزہ مارا، وہ نیزہ ان کے آر پار ہوگیا۔ اس پرانہوں نے کہا: ہاں رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ اوراللہ تبارک و تعالی نے ان عظیم لوگوں کے سلسلے میں جو شہید کر دیے گئے، قران کریم کی آیات نازل کیں، جن کی تلاوت کی جاتی: ہم اپنے رب سے ملے، وہ ہم سے راضی ہوا اور ہمیں راضی کیا۔ پھر اِن آیات کی تلاوت منسوخ کردی گئی۔

 غور کرو کہ ایک جلیل القدر صحابی ابن ملحان رضی اللہ عنہ شہادت کے کتنے شوقین تھے اور اُسے پاکر وہ کتنا خوش ہوئے۔ اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے اپنے عمل کا بدلہ پایا اور اپنی مراد کو پا لیا۔ اور وہ قراء کرام جو ہدایت پر زندگی بسر کرتے رہے جب وہ اپنے رب سے ملے تو اللہ تعالی نے انہیں عزت بخشی اور ان کا استقبال کیا اور انہیں پورا پورا بدلہ دیا اور ان سے خوش ہوا اور انہیں خوش کردیا۔

اور جب عتیبہ بن ابو لہب نے آپ ﷺ کو گالی دینے، آپ ﷺ کو اذیت پہنچانے اور آپ کی آبرو میں پڑنے اوربھپتیاں کسنے میں ہٹ دھرمی دکھائی تو اس کا انجام گھاٹا تھا۔ سیرت کی روایتوں میں یہ بات مشہور ہے کہ جب وہ تجارت کے قافلوں کے ساتھ شام کے کسی علاقے میں ٹھہرا تو قافلے والوں نے اپنا سامان جمع کیا اور پھر اُس کے بیچ میں عتیبہ کا بستر لگا دیا اور پھر اس کے اردگرد خود سوگئے۔ اس رات شیر نے ان کے ارد گرد چکر لگایا تو عتیبہ کہنے لگا: ہائےمیری ماں کی بربادی! وہ شیر مجھے کھا کر رہے گا جیسا کہ محمد نے مجھے بد دُعا دی تھی۔ پھرپوری قوم کے بیچوں بیچ میں سے شیر اُس پر چڑھ دوڑا۔ اس کا سر پکڑ لیا اور اسے پھاڑ دیا اور عتیبہ بن ابولہب اسی جگہ مر گیا۔

 غور کرو جو نبی اکرم ﷺکا مذاق اڑاتا تھا اور آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا وہ اسی جگہ مر گیا اور کس طرح اللہ تعالی نے اس سے انتقام لیا اور اس کے برے کام کا بُراپھل اُسے مل گیا اور وہ بد ترین بدلے سے دوچار کیا گیا۔ اس طرح ابو لہب پر اللہ تعالیٰ کا عذاب دارز ہوا، اُس نے کھلم کھلا نبی اکرم ﷺ سے دشمنی کی  اور صرف آپ ﷺ کی مخالفت میں ہی آپ ﷺ کے خلاف سازش ،آپ ﷺ کو اذیت پہنچانے اور لوگوں کو آپ ﷺ سے روکنے کےلئے یہ کام کیا اور یہ ہی حال اُس کی بیوی کا بھی تھا۔وہ نبی اکرم ﷺ کی دشمنی میں ابو لہب کی مددگار تھی اور آپ ﷺ کو اپنی زبان سے تکلیف پہنچاتی تھی، آپ ﷺ کو اذیت دیتی تھی اور آپ ﷺ کا مذاق اُڑاتی تھی۔یہ اُس کا نعرہ تھا:

ہم نے مذمم سے نفرت کی اُس کےدین سے انکار کیا اور اُس کی مخالفت کی۔ (نعوذ باللہ من ذالک)

وہ آپ ﷺ کی راہ میں کانٹے رکھا کرتی تھی۔تو بدلہ کیا ہوا؟ غلبہ کس کو حاصل ہوا؟ اس کا جواب اور اس بات کی وضاحت سورہ  مسد میں ہے جس سے یہ واضح ہوا کہ کیسے نامراد ہونے والے دونوں مذموم ابو لہب اور لکڑیاں ڈھونے والی اُس کی بیوی نے اپنے کرتوت اور قبیح جرم کے سبب تباہی و بربادی اور ہلاکت کا پھل پایا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے پیارے نبی محمد ﷺ کو چھوڑنے والا نہیں، وہ تو اُنہیں عزت بخشنے والا،غلبہ دینے والا اور اُن کی مدد کرنے والا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے جنہیں فضیلتوں سے مخصوص کیا تواُس کے ساتھ اُس نے بھلائی کا ارادہ کیا، جیسا کہ خدیجہ راضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ سے فرمایا: جب آپ ﷺ پر پہلی بار وحی نازل کی گئی اور آپ ﷺ کو اپنی جان کا ڈرلگا: ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ ہرگزآپ ﷺ کو رُسوا نہیں کرے گا۔ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا بوجھ ڈھوتے ہیں اور نادار لوگوں کو کما کردیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور نیک کاموں مدد کرتے ہیں۔

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی عقل سے اس بات پر استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس کے اندر یہ خوبیاں اور قابلِ قدر محاسن رکھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے سعادت کے حسین اسباب میں سے بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی سنت، اُس کی حکمت اور اُس کے عدل میں سے نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو رُسوا کردے بلکہ اللہ تعالیٰ اُسے عزت دے گا اور اُس کی شان بڑھائےگا۔ کیوں کہ بندوں کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے دستور  اور اہلِ خیر کو عزت بخشنے اور اہلِ شر کو ذلیل کرنے کے سلسلے میں وہ بات معلوم ہے کہ جس میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے۔

اوراپنے رب کے حکم میں اپنے نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجو:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اے اللہ نبی پر رحمتیں نازل فرما، اور ان کی بیویوں اور اہل وعیال پر ، جس طرح تو نے ابراہیم کے آل پر نازل کیا تھا، اور محمد پر برکت نازل فرما، اور ان کی بیویوں اور اہل وعیال پر، جس طرح تو نے ابراہیم کے آل پر نازل کیا تھا۔

 اے اللہ! خلفاء راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، علی سے راضی ہو جا، اور تمام صحابہ و تابعین سے، اور قیامت تک ان کی اچھے سے پیروی کرنے والوں سے، اور اپنے عقو، جو وو کرم سے ہم سے بھی، اے ارحم الراحمین۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت دے، اور دین کی حفاظت کر، اس ملک اور تمام مسلم ملکوں کو مامون، محفوظ ، ترقی والا، خو شحال بنادے۔

اے اللہ اے حی و قیوم! ہمارے تمام احوال کو درست کر دے، اور ہمیں ہمارے بھروسے پلک جھپکنے کے برابر بھی نہ چھوڑ۔

اے اللہ! غمزدہ مسلمانوں کے غم کو دور کردے، پریشان حال کی پریشانی مٹادے، قرض داروں سے قرض چکا دے، ہمارے اور مسلمانوں کے پیاروں کو شفا دے۔

اے اللہ! ہر جگہ کے مسلمانوں کے حالات درست کر دے، اپنی رحمت سے، اے ارحم الراحمین۔

اے اللہ! جو ہمارے اور ہمارے ملک اور امن کا برا چاہے اسے اس کی ذات میں مشغول کردے، اس کی چال کو اس کی موت بنادے، اوراسی پر بری گردش ڈال دے، اے رب العالمین۔

 اے اللہ! ہمارے ولی امر خادم حرمین شریفین کو اس کی توفیق دے جسے تو پسند کرتا اور جس سے راضی ہو، ان کی پیشانی کو تقوی اور بھلائی کی طرف موڑ دے۔

 اے اللہ! ان کواوران کے جانشین کوعباد وبلاد کی بھلائی کی توفیق دے۔

اے اللہ! انہیں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت پر بہترین بدلہ دے۔

اے اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی پسندیدہ چیز کی توفیق دے۔

اےاللہ! سرحد پر متعین ہماری فوج کی مدد کر، اپنے اور ان کے دشمن کو برباد کر دے۔

اے اللہ! مسلم نوجوانوں اور دوشیزاؤں کی حفاظت فرما، ان کی امت اور وطن کو ان کے ذریعہ فائدہ پہنچا، ایمان کو ان کے نزدیک محبوب بنادے اور اسے ان کے دلوں میں مزین کردے، انہیں ہدایت یافتہ بنا۔

اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں بھی نیکی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ اللہ ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہمارے عیوب کو چھپا دے، ہمارے معاملے کو آسان کر، اور ہماری نیک تمناؤں تک ہمیں پہونچا دے۔ہمارے رب ہماری دعا قبول کر لے تو سننے جائے والا ہے، ہماری توبہ قبول کرلے، تو توبہ قبول کرنے والا رحم والا ہے۔  

خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ فیصل الغزاوي حفظه اللہ
8جمادی الاول 1444هـ بمطابق 2 دسمبر 2022

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلة الشیخ فیصل الغزاوی حفظه الله