عشرہ ذو الحجہ کی فضیلت :
اللہ کے رسول ﷺ نے عشرہ ذو الحجہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کے نزدیک ذو الحجہ کے دس دنوں میں عملِ صالح کرنے سے زیادہ محبوب کسی اور دن میں عمل صالح کرنا نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا : اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں مگر ہاں ! ایسا آدمی جو اپنی جان ومال کے ساتھ نکلا ہو اور اس میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ آئے۔1
بال و ناخن کاٹنا:
جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ ذو الحجہ کا چاند دیکھنے (سے پہلے اپنے جسم کے مطلوبہ جگہ کے بال صاف کرلے اور ناخن تراش لے اور ذو الحجہ کا چاند نکلنے ) کے بعد اپنے بال و ناخن نہ کاٹے۔ فرمانِ رسول ﷺ ہے: جو شخص ذو الحجہ کا چاند دیکھ لے اور قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بال و ناخن نہ کاٹے۔2
یومِ عرفہ کا روزہ:
ذو الحجہ کی نویں تاریخ عرفہ کا دن ہے۔ حج نہ کرنے والے کے لئے اس دن روزہ رکھنا مسنون ہے۔ اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی ﷺ نے فرمایا: عرفہ کے دن کا روزہ گذشتہ و آئندہ دو سال کے (صغیرہ) گناہ ختم کر دیتا ہے۔3
دس ذو الحجہ (عید کا دن) کے أعمال:
دسویں ذو الحجہ کوعید کا دن ہے اس دن بالخصوص بہت سے أعمال مسنون ہیں:
1- غسل کرنا
2- صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنا
3- خوشبو لگانا
4- بغیر کچھ کھائے ہوئے عید گاہ جانا اور واپس آکر قربانی کا گوشت کھانا
5- بڑے، بوڑھے، بچوں، عورتوں یہاں تک کہ حیض و نفاس والی خواتین کو بھی عید گاہ لے جانا (البتہ عذر والی عورتیں نماز میں شامل نہ ہوکر صرف دعا میں شامل رہیں گی)۔
6- عید گاہ میں نماز ادا کرنا۔ اگر عذر ہو تو مسجد میں بھی ادا کرنا جائز ہے
-7عید کی نماز میں جلدی کرنا ویسے اس کا وقت طلوعِ شمس کے بعد سے لیکر زوال تک ہے۔
نمازِ عید کا طریقہ:
عید کی نمازسے پہلے کوئی سنت نماز نہیں ہے اور نہ ہی بعد میں اور عید کی نماز کے لیے نہ اذان کہی جائیگی اور نہ اقامت۔
عید کی نماز دو رکعتوں پر مشتمل ہے۔ یہ نماز بارہ (12) زائد تکبیروں کے ساتھ پڑھی جائیگی۔ پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیریں قرأت سے پہلے کہی جائیں گی۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ أعلی یا سورہٴ ق اور دوسری میں سورہ غاشیہ یا سورۃ القمر پڑھنا سنت ہے اور خطبہ عید نماز کے بعد دیا جائے گا۔4
عید کے دنوں میں کھیل کود :
عید میں جائز کھیل کود اور اسلامی نغمے پڑھنا درست ہے البتہ خوشی کو بنیاد بناکر شریعت کے دائرے سے باہر نکل کر کسی بھی عمل کے کرنے کا دینِ اسلام میں کوئی جواز نہیں۔
تکبیرات کہنا:
” 9 نویں ذو الحجہ کی صبح سے لیکر 13 تیرہویں ذو الحجہ کی عصر تک ” تکبیرات پڑھنا چاہیے اور تکبیرات کے الفاظ یہ ہیں:
اَللّٰہُ أکْبَرْ اَللّٰہُ أکْبَرْ لاَ اِلٰه اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ أکْبَرْ اَللّٰہُ أکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدِ
تہنیت (مبارکباد دینا):
عید کی مبارکباد (تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْکَ) کے ذریعہ دینی چاہئے کیونکہ سلف صالحین سے یہی ثابت ہے۔5
قربانی کا حکم:
قربانی کا ثبوت قرآن وحدیث اور اجماعِ أمت سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿١﴾ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿٢﴾ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ
الكوثر – 1/3
اے نبی ﷺ یقینا ہم نے آپ کو (حوض) کوثر عطا کیا تو آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے۔
مدنی زندگی میں نبی ﷺ نے برابر قربانی کی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے کی۔6 اور اس کے بعد سے لیکر آج تک أمت برابر اس پر عمل پیرا ہے۔
قربانی کا جانور:
قرآنِ کریم نے چار قسم کے جانوروں کا ذکر کیا ہے جن کی قربانی کی جائے گی:
اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ جو صحیح سالم ہوں اور مسنہ (دو دانت والا) ہوں مگر بھیڑ سال بھر یا اس سے کم کا بھی جائز ہے۔7۔
اسی طرح قربانی کے جانوروں کا درج ذیل عیوب سے پاک ہونا ضروری ہے:
(1) ایسا جانور جس کی ایک آنکھ کی بصارت (نظر) بالکل غائب ہو۔ دونوں آنکھوں کا اندھا بدرجہ اولیٰ جائز نہیں۔
(2) ایسا بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو۔
(3) ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن بالکل نمایاں ہو۔
(4) ایسا جانور جو نہایت ہی بوڑھا یا کمزور ہو اور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو۔
قربانی کا وقت:
اس کا وقت نمازِ عید کے بعد سے لیکر عید کے چوتھے دن 13 تیرہویں ذو الحجہ غروبِ آفتاب تک ہے ۔ اگر کوئی نمازِ عید سے قبل قربانی کرے گا تو وہ قبول نہیں ہوگی۔8
قربانی کے جانور میں حصے:
اونٹ یا گائے اگر ہدي کے لئے ہوں تو سات افراد کی طرف سے جائز ہوں گے۔9 اور اگر أونٹ یا گائے قربانی کے لئے ہوں تو اونٹ میں دس افراد کی بھی شرکت جائز ہے۔10
اور اگر قربانی کا جانور بکری یا بھیڑ ہو اور گھر کے ذمہ دار کی طرف سے ذبح کیا جائے تو پورے گھر کی طرف سے کافی ہوگا۔
قربانی کا گوشت:
قربانی کا گوشت خود کھائیں ، دوسروں کو بھی کھلائیں اور ذخیرہ اندوزی بھی جائز ہے۔11
البتہ اس کا بیچنا اور اس سے قصاب کو مزدوری دینا جائز نہیں ہے۔
ذبح کا طریقہ:
اگر آدمی میں قربانی کا جانور ذبح کرنے کی صلاحیت ہو تو خود ذبح کرے ورنہ کسی دوسرے مسلمان سے ذبح کروائے ، ذبح سے قبل چھری تیز کرے اور جانور کو بائیں پہلو پر لٹائے، چھری کو اس کی نظروں سے اوجھل رکھے اور ذبح کرتے وقت یہ دعاء پڑھے:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَهُ وَبِذَلِکَ أمِرْتُ وَأنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ، اَللّٰھُمَّ اِنَّ ھَذَا مِنْکَ وَلَکَ
(جس کی طرف سے قربانی کرنی ہے اس کا نام لے ) اور ” بسم اللہ اللہ اکبر” کہتا ہوا تیزی سے چھری حلقوم پر چلائے۔
وآخرُ دعوانا ان الحمدُ للہ ربّ العالمین
—————————————————————————————