نقد و ادھار سودے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

نهى النبي صلى اللّٰہ عليه وسلم عن بيعتين في بيعة واحدة

سنن ترمذی :کتاب البيوع ، باب ماجاء فی النهي عن بيعتين فی بيعة.

یعنی ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سودوں میں ایک سودے سے منع فرمایا ہے۔‘‘

اسی طرح مسند احمد میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کے الفاظ یہ ہیں :

 “نهى رسول اللّٰہ صلى اللّٰہ عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة ۔”

مسند احمد 1، 3774/ 657۔( حسن)

یعنی’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع فرمایا ہے‘‘۔

ان ا حادیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ قیمت کے فرق کے ساتھ نقد و ادھار بیع جائز نہیں ۔لہٰذا ہم بتوفیق اللہ و عونہ اس حدیث کی توضیح و تشریح کرتے ہوئے اس مسئلے کے حکم کو ائمہ سلف کے اقوال کی روشنی میں واضح کریں گے۔

 اولاً :یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ نقد و ادھار بیع میں قیمت کا فرق شرعا ًبلا کسی کراہت کے حسب ذیل وجوہ کی بناء پر جائز و حلال ہے ۔

(1)شرعا ایسی کوئی نص نہیں جس میں نقد و ادھار ایک ہی قیمت پر فروخت کرنے کا حکم دیا گیا ہو ۔

(2)شرعا نقد بیع میں منافع کو متعین (fixed)نہیں کیا گیا ،تو ادھار میں نقد والے منافع کو متعین کر دینا بلا دلیل ہو گا جو کہ صحیح نہیں ہے۔

(3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام آپس کی تجارت میں نقد وادھار کے لئے ایک ہی قیمت رکھتے تھے اسکاصراحۃ ً یا اشارۃ ً کہیں کا ذکر ملتا ہو ،راقم کی نظر سے نہیں گذرا۔

ان نکات کو سمجھنے کے بعد اب ہم مذکورہ بالاروایتوں ( جن کی بناء پر بعض اہل علم یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ نقد و ادھار کا ریٹ ایک ہی ہونا چاہئے)کی صحیح توضیح و مفہوم اہل علم کے اقوال کی روشنی میں بیان کرتے ہیں ، تا کہ مسئلہ سمجھنا مزید آسان ہو جائے ۔نیز اس مسئلے کی توضیح مختلف جہات سے ہدیہ قارئین ہے۔

اولا: اس روایت میں ایک ہی چیز کی بیع دو سودوں کے ساتھ یا دو شرطوں کے ساتھ منع کی جا رہی ہے۔ جبکہ نقد بیچی جانے والی چیز نقد میں ایک بیع ہے اور وہ جائز ہے ۔اسی طرح ادھار بیچی جانے والی چیز ادھار میں ایک بیع ہے اور وہ بھی جائز ہے ۔

بیک وقت دونوں کا ریٹ بتا دیا جائے اور مشتری وہ چیز اس بات کی وضاحت کئے بغیر لے جاتا ہے کہ سودا نقد ریٹ پر ہو یا ادھار پر تو یہ بیع جہالت ثمن ہونے کے سبب منع ہے یہی اسکی توضیح متعدد علماء نے کی ہے :

(1) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وقد فسر بعض أهل العلم، قالوا: بيعتين في بيعة، أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة، وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس  إذا كانت العقدة على أحد منهما۔

سنن ترمذی:357/4،

’’بعض اہل علم نے اس حدیث کی یہ وضاحت کی ہے کہ ایک سودے میں دو سودوں کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کہے کہ میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس درہم کا اور ادھار میں بیس درہم کا بیچتا ہوں اور کسی ایک بیع کو طے نہ کرے پس جب ان دونوں میں کسی ایک بیع کو طے کر دے گا تو پھر کوئی حرج نہیں ورنہ جہالت ثمن کی وجہ سے جائز نہیں‘‘۔

(2)یہی توجیہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے منقول ہے:

 إذا قلت: أبِيعك بالنقد إلى كذا، وبالنسيئة بكذا وكذا، فذهب به المشتري، فهو بالخيار في البيعين ما لم يكن وقع بيع على أحدهما، فإن وقع البيع هكذا، فهذا مكروه، وهو بيعتان في بيعة، وهو مردود، وهو الذي ينهى عنه

مصنف عبدالرزاق: 3/138

یعنی ’’جب تو کہے کہ میں تمہیں یہ چیز نقد میں اتنے روپے کی دیتا ہوں اورادھار میں اتنے روپے کی اب خریدار اسے لے گیا پس وہ با اختیار ہے دونوں میں سے کسی ایک بیع کو اختیار کرنے پر۔جب تک کسی ایک بیع پر فیصلہ نہیں ہواہو اگریہ بیع اسی طرح برقرار رہے تو یہ مکروہ ہے اور یہ ایک سودے میں دو سودے کہلائیں گے۔ اور یہ مردود ہے اور اسی سے روکا گیا ہے‘‘۔

(3)امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وتفسير ما نهى عنه من بيعتين في بيعة على وجهين: أحدهما: أن يقول: بعتك هذا الثوب نقدا بعشرة، أو نسيئة بخمسة عشر، فهذا لا يجوز؛ لأنه لا يدري أيهما الثمن الذي يختاره منهما فيقع به العقد، وإذا جهل الثمن بطل البيع

عون المعبود: 9/238

یعنی: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک سودے میں دو سودوں سے منع کیا ہے، اس کی دو صورتیں ہیں :

ایک یہ کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے تمہیں یہ کپڑا نقد میں دس درہم کا اور ادھار میں پندرہ درہم کابیچا ۔ یہ ناجائز ہے اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کس قیمت کو اس نے اختیار کیا ہے ،اورکس پر عقد واقع ہوا ہے ۔لہٰذا جب قیمت مجہول ہو تو بیع باطل ہے‘‘۔

(4)یہی بات امام ابن اثیر رحمہ اللہ نے “النهاية” میں ذکر کی ہے ۔

(5)امام شافعی رحمہ اللہ اس کا معنی تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

ومن معنى نهي النبي صلى اللّٰه عليه وسلم عن بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك داري هذه بكذا على أن تبيعني غلامك بكذا، فإذا وجب لي غلامك وجب لك داري، وهذا يفارق عن بيع بغير ثمن معلوم، ولا يدري كل واحد منهما على ما وقعت عليه صفقته

سنن ترمذی: 4/358.

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سودے میں دو سودوں میں روکنے کا معنی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ میں تمہیں اپنا گھر بیچتا ہوں اتنے کا، اس شرط پر کہ تم اپنا غلام مجھے بیچ دو اتنے کا۔اب جب آپ کا غلام میراہوجائے گا تو میرا گھر آپ کا ہو جائے گا۔اور یہ بیع اس لئے نا جائز ہے کہ یہ بیع ثمن معلوم کے بغیر واقع ہوئی ہے۔(یعنی قیمت کا علم نہیں)اور ان میں سے کوئی نہیں جانتا کس پر انکی بیع واقع ہوئی‘‘ ۔(یعنی قیمت کسی چیز کو ٹھہرایا)

(6)امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کا مصداق ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ۔

و في السنن عن النبی صلی اللّٰہ عليه وسلم أنه قال :”من باع بيعتين في بيعة فله أوكسهما أو الربا فيه عن النبی صلی اللّٰہ عليه وسلم أنه قال إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر و ترکتم الجهاد في سبيل اللہ أرسل اللہ عليکم ذلا لا يرفعه عنکم حتی ترجعوا الی دينکم وهذا کله في بيعة العينة وهو في بيعة

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :

“من باع بيعتين في بيعة ۔۔۔۔”الخ

مجموع الفتاوی: 29/432

(یعنی جو دو بیع کرتا ہے ایک بیع میں پس یا تو وہ کم قیمت لے ورنہ سود ہے )

اذا تبايعتم بالعينة۔۔۔”الخ”

سنن أبي داود: کتاب الاجارۃ، باب النھي عن العینة،حدیث نمبر: 3462

یعنی جب تم

بیع عینه

کرو اور گائیوں کی دموں کوپکڑلو(معنی یہ کہ زراعت کرنے لگ جاؤگے۔)اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت بھیجے گا کہ جو تم پر سے اٹھائی نہیں جائے گی حتٰی کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ آؤ )کے بارے میں ہے۔

اور ’’بيع عينة‘‘ کی تعریف یہ ہے کہ بیچنے والا کوئی چیز ادھار پر مہنگے داموں بیچ کر پھر خود ہی خریدارسے نقد کم قیمت پر خرید لیتا ہے ۔

مثلا زید نے عمرو کو ایک مہینہ کے ادھار پر ایک کار دو لاکھ روپے (200000)میں بیچی اور پھر خود ہی عمرو سے وہ کار نقد میں ایک لاکھ اسی ہزار(180000)میں خرید لی اس حیلہ کے ذریعے بائع کو عین اس کی چیز واپس مل گئی اسی لئے اس کو بیع عینہ کہا جاتا ہے ۔

اورعمرو کو اصل میں رقم کی ضرورت تھی جو ایک بیع کو حیلہ بناکر اس نے حاصل کرلی یہ ایک ہی چیز تھی جس کے دو سودے ہوئےلہٰذا یہ اس بنا پر ناجائز اور حرام ہے۔ناکہ نقد اور ادھار میں قیمت کے فرق کی وجہ سے۔

بیع عینہ کی عصر حاضر میں ایک مروجہ شکل

ہمارے معاشرے میں اس کی ایک شکل جو کثرت سے رائج ہے اور عام طور پر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک شخص رقم کی ضرورت کے پیش نظر اپنا مکان یا دوکان کسی ایسے شخص کو فروخت کردیتا ہے جس کا مقصد بھی رقم انویسٹ کرنا ہوتا ہے اب مکان یا دوکان فروخت کرتے ہوئے وہ یہ ایگریمنٹ کرتا ہے کہ آپ ابھی مجھ سے پچیس لاکھ میں خرید لیں اور دو سال بعد مجھے ستائیس لاکھ میں فروخت کردینا ۔ مزید یہ ہے جب تک میں اس مکان یا دوکان کو فروخت کرنے کے بعد استعمال کروں گا آپ کو ماہانہ دس ہزار روپے بطور کرایہ ادا کروں گا ۔ اس خرید فروخت کے معاملے کو بغور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں رہتی کہ یہاں تجارت ایک بہانہ اور حیلہ ہے حقیقتا ً تو رقم کے عوض رقم حاصل کرنا ہے

گویا ہر ایسی تجارت جس کا مقصد کسی چیز کا فروخت نہیں بلکہ تجارت کو بنیاد بنا کر رقم پر طے شدہ منافع رقم کی صورت میں حاصل کرنا ہو تو یہی صورت

بيع عينة

ہے جو کہ

نهى النبي صلی اللہ علیہ وسلم عن بيعتين في بيعة

کے تحت حرام قرار پاتی ہے۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ

نهی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن بيعتين في بيعة

کا مصداق نقد اور ادھار کو قرار دینے والوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :

و أبعد کل البعد من حمل الحديث علی البيع بمائة مؤجلة و خمسين حالة و ليس ههنا ربا ولا جهالة و غرر ولا قمار ولا شئ من المفاسد فإنه خيره بين أي ثمنين شاء

بحوالہ تہذیب السنن شرح ابو داؤد

یعنی یہ حقیقت سے بہت دور کی بات ہے جس نے بھی اس حدیث

نهی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن بيعتين في بيعة

 کو نقد و ادھار بیع کی ممانعت پر محمول کیا ہے۔یعنی ادھار ۱۰۰ میں دیتا ہے اور نقد ۵۰ میں دیتا ہے۔ اسلئے کہ اس (نقد و ادھار )میں نہ سود ہے نہ قیمت کا ابہام ہے نہ دھوکہ نہ کوئی جوا اور نہ ہی کوئی خرابی، بلکہ اس میں بائع نے مشتری کو اختیار دیا ہے کہ جس قیمت پر چاہو خرید لو۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام ابن القیم رحمہ اللہ بھی بیع عینہ ہی کو اسکا مصداق بناتے ہیں۔

نوٹ:موجودہ اسلامی بینکوں میں اجارہ کے غلط و ناجائز ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں بھی ایک بیع میں دو بیع لازم آتی ہے ۔جس طرح کہ مرابحہ ،اجارہ کے بارے میں معلومات رکھنے والوں پر مخفی نہیں ہے۔[1]

ثانیا: ان ائمہ کرام کی توجیہات کو ابو داؤد کی روایت نےمزید واضح کر دیا ہے۔ بلکہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ جس بیع میں نقد و ادھار میں سے کوئی ایک معاملہ طے نہ ہو سکا ہو۔ اسکا شرعا حکم کیا ہے؟اسکو برقرار رکھا جائے یا نہیں؟ ۔حدیث ملاحظہ فرمائیے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

من باع بيعتين في بيعة، فله أوكسهما أو الربا

سنن أبي داود: کتاب الاجارۃ، باب فیمن باع فی بیعة، حدیث نمبر3461

یعنی:جس نے بیچ دیا ایک بیع کو دو سودوں کے ساتھ یا تو وہ کم قیمت لے ورنہ وہ سود ہو گا۔

الحدیث يفسر بعضه بعضا

بعض روایت بعض کی وضاحت کرتی ہیں کے اصول کے تحت، اس روایت پر غور کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہےکہ مذکورہ روایت کو صرف نقد و ادھار کے ساتھ خاص  نہیں کیا جاسکتا کیونکہ روایت میں لفظ

بيعتين

 یعنی دو سودے کرنے کا ذکر ہے ۔جو تمام صورتوں کو شامل ہے جن کا ابھی مختلف فقہاء محدثین کے حوالے سے ذکر ہوا۔لہٰذا حدیث کو صرف نقد و ادھار سے مقید و مخصوص کرنا محتاج دلیل ہے ۔

مذکورہ روایت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ نقد و ادھار بیع جائز ہے ۔ نیز اگر کسی ایک بیع کو طے نہ کیا گیا ہو اور اب بیع کو برقرار رکھا جائے تو کم قیمت پر برقرار رکھا جائے ۔مثلا ایک شخص اگر یہ کہتا ہے کہ میں یہ چیز نقد میں تمہیں 10 روپے میں بیچتا ہوں اور اگر ادھارمیں لو گے تو 15 روپے کی ۔اب ان میں سے کوئی ایک بیع طے نہ ہوئی ہو تو بیع جہالت ثمن کی وجہ مردود ہوگی اور اگر بیع کو برقرار رکھنا ہے تو کم قیمت پر یعنی 10 روپے پر بیع ہوگی، 15 روپے کا مطالبہ سود ہوگا۔

ثالثا :نقد و ادھار بیع کے فرق کو بیع سلم کی روشنی میں بھی سمجھا جا سکتا ہےکہ بیع سلم کا جواز بھی اس امر کی دلیل ہے کہ نقد و ادھار بیع میں قیمت کا فرق جائز ہے ۔

صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے تشریف لائے تو مدینہ کے رہائشی پھلوں کی ایک سال یا دو سال کی پیشگی بیع کیا کرتے تھے ۔اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :

من أسلف في تمر فليسلف في کيل معلوم و وزن معلوم الی اجل معلوم۔

صحیح مسلم :کتاب المساقاۃ، باب السلم، حدیث نمبر:1604

’’جو شخص کھجوروں میں پیشگی بیع کرے اسے چاہئے کہ وہ ادھار بیع کرلے (یعنی قیمت پہلے ہی ادا کر دے )ان شروط کے ساتھ ۔اسکا ماپ تول وزن معلوم ہونا چاہئے۔اسکی ادائیگی کی مدت معلوم ہونی چاہیئے یعنی وہ چیز مشتری کوکب ملے گی ‘‘۔

روایت پر غور کرنے سے واضح ہوا کہ ایک چیز کی کوالٹی ،اسکی مقداراور اسکے قبضہ کا وقت معلوم ہونے کے بعد اسکی پیشگی قیمت ادا کی جا سکتی ہے اور بائع وقت معین پر وہ چیزمشتری کو دینے کا پابند ہوگا ۔

واضح رہے کہ بیع سلم کا تعلق زراعت سے مخصوص ہے ،مطلقاً کسی بھی چیز کی بیع سے نہیں ۔

اب جو شخص قبل از وقت بیع کر رہا ہے کیا وہ بائع کو وہ ریٹ دیگا جو اس وقت مارکیٹ میں ہو گا یا وہ پیشگی رقم دینے میں اپنا فائدہ بھی دیکھے گا یقینا بائع کو جس وقت چیز تیار ہو کر مارکیٹ میں آئیگی اور اسکا جو ریٹ ہو گا وہ ریٹ سال بھر پہلے یا چھ ماہ قبل رقم لینے کی صورت میں اسے نہیں ملے گا تو جب یہاں مشتری کو فائدہ ہو رہا ہے ۔تو ادھار میں زیادہ قیمت کے سبب سے بائع کو فائدہ ہو رہا ہے اور تجارت اسی چیز کا نام ہے ۔لہٰذا دونوں ہی شرعا ًجائز و حلال ہیں ۔

رابعا :نقد وادھار بیع کے فرق کے جواز کو مؤطا امام مالک میں مذکوراس واقعہ کی روشنی میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔کہ:

عن عبيد أبي صالح مولى السفاح أنه قال:” بعت بزاً لي من أهل دار نخلة إلى أجل، ثم أردت الخروج إلى الكوفة فعرضوا علي أن أضع عنهم بعض الثمن، وينقدوني فسألت عن ذلك زيد بن ثابت فقال: “لا آمرك أن تأكل هذا ولا تؤكله

موطا امام مالک: کتاب البیوع، باب ماجاء فی الربا فی الدین

یعنی :عبید ابو صالح (تابعی )کہتے ہیں کہ میں نے کپڑا دار نخلہ (جو مکہ اور طائف کے درمیان مقام ہے )والوں کے ہاتھ بیچا ایک معین مدت کے وعدے پر جب میں کوفہ جانے لگا تو ان لوگوں نے کہا اگر تم کچھ کم رقم کردو تو تمہارا روپیہ ہم ابھی دے دیتے ہیں تو (ابو صالح )نے یہ مسئلہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے معلوم کیا ۔زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہیں اس روپئےکے کھانے اور کھلانے کی اجازت نہیں دیتا ۔(سود کا شائبہ ہونے کے سبب )

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جو عبید ابو صالح کو جو مسئلہ بتاتے ہیں وہ بالکل واضح ہے ۔یعنی ایک ادھار رقم پر سودا طے ہونے کے بعد اب فوری نقد ادائیگی کی صورت میں کچھ رقم کی کمی کا مطالبہ تو رقم سے رقم کو خریدنا ہے اور اس میں سود کا شائبہ ہے ۔اس لئے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے کھانے اور کھلانے سے منع کیا۔

اس اثرکو نقد و ادھار کی بحث میں ذکر کرنے کی غرض یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ سے اتنی بات تو بداھۃً واضح ہوئی ۔کہ جب دار نخلہ والوں نے نقد ادائیگی پر ابو صالح عبید سے رقم کی کمی کا مطالبہ کیا تو انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ نقد و ادھار میں شرعا قیمت میں فرق نہیں ہوتا لہٰذا میں نے نقد والی قیمت ہی تو رکھی تھی ۔اور نہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس سائل ابو صالح سے فرمایا کہ نقد و ادھار میں قیمت کا فرق ہی نہیں ہوتالہٰذا ان مطالبہ کرنے والوں سے کہہ سکتے ہو کہ میں نے تو تمہیں نقد والی قیمت میں چیزیں فروخت کی ہیں ۔

مزید کئی مثالیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نقد و ادھار بیع کی کتب احادیث سے دکھائی جا سکتی ہیں ۔لیکن کہیں بھی یہ صراحت نہیں ملتی کہ وہ مطلقاً ادھار بیع میں بھی وہی قیمت رکھتے تھے جو نقد میں ہوتی تھی ۔

 نقد و ادھار بیع کی قیمت میں فرق اور سلف کامؤقف

* علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

و قالت الشافعية والحنفية و زيد بن علی والمؤيد باللّٰہ والجمهورأنه يجوز

نیل الاوطار: 8/201

یعنی :شوافع ، احناف ،زید بن علی ،مؤید باللہ اور جمہور کا یہی مؤقف ہے۔

* اسی طرح مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔[2]

* مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔ [3]* سیدنذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ بھی اسکے قائل ہیں ۔[4]

* نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔[5]

* مولانا عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کا بھی یہی مؤقف ہے ۔[6]

* اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ سابق مفتی سعودی عرب بھی اسکے جواز کے قائل تھے ۔[7]

* شاہ ولی اللہ کا بھی یہی مؤقف ہے [8]

* مولانا عبدالحئی لکھنوی کا بھی یہی مؤقف ہے ۔[9]

 * شاہ عبدالعزیز کا بھی یہی مؤقف ہے ۔[10]

خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ :

(1 ) نقد و ادھار بیع میں قیمت کا فرق جائز ہے۔

(2 ) اگر نقد و ادھار بیع میں سے کوئی ایک بیع طے نہ ہو تو وہ جہالت ثمن کی وجہ سے ناجائز ہے.

اگر ایسی بیع (جس میں نقد و ادھار بیع میں سے کوئی ایک بیع طے نہ ہو اور مشتری چیز لے کر چلاجائے)کو برقرار رکھا گیا تو پھر دونوں قیمتوں میں سے کم قیمت متعین ہو جائیگی۔

وصلی اللّٰہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ أجمعین


[1] تفصیل کے لئے البیان کی اسی اشاعت خصوصی میں شائع تحریر بعنوان:’’مروجہ اسلامی بینکوں کے ذرائع تمویل کی شرعی حیثیت‘‘ از : عثمان صفدر، صفحہ نمبر137

[2] تحفۃ الأحوذی :باب ماجاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ،حدیث نمبر:1231

[3] 3 عون المعبود:کتاب الاجارۃ، باب فیمن باع بیعتین فی بیعۃ، حدیث نمبر3458

[4] تاویٰ نذیریہ:2/162

[5] روضۃ الندیہ :2/89،

[6] فتاویٰ اہلحدیث:2/263،

[7] فتاوی اسلامیہ :2/442

[8] المسوی شرح مؤطا: باب ماجاء فی الربا فی الدین

[9] مجموع الفتاوی فارسی

[10] فتاوی عزیزیہ

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ مفتی حافظ محمد سلیم حفظہ اللہ

آپ کراچی کی ایک عظیم علمی شخصیت ہیں ، جمعیت اہلحدیث سندھ کے شعبہ مدارس کے مدیر ،نیز المعہد السلفی کراچی میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ جمعیت اہلحدیث سندھ ، المعہد السلفی اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی کے مفتی ہیں۔