امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: “امت کی اصلاح آخر میں بھی اسی سے ہوگی، جس سے آغاز میں ہوئی۔” نبی کریم ﷺ کی بعثت جاہلیت کے اندھیرے معاشرے میں ہوئی، وحی اور ہدایت سے وہی معاشرہ بہترین بنا دیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “بہترین لوگ میرا زمانہ ہے، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد آنے والے۔”
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے قبیلہ نہ ہونے کے باوجود مشرکین کے سامنے قرآن پڑھا اور مار سہنے کے باوجود ثابت قدم رہے۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو تپتی ریت پر لٹایا جاتا اور گلے میں رسی ڈال کر گھمایا جاتا، مگر ان کی زبان پر ہمیشہ یہی کلمات ہوتے: “اَحَدٌ اَحَدٌ”۔
آج ہم پر بھی اگر تکالیف کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں تو اکثر ہم صبر و استقامت کے بجائے شکایت اور طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ حالانکہ اصل کامیابی اسی میں ہے کہ ہم صحابہ کرامؓ کی طرح اللہ پر بھروسہ کریں، دین پر ڈٹے رہیں اور آزمائش کو قربتِ الٰہی کا ذریعہ بنائیں۔
آئیے! ہم بھی اپنی مشکلات کو اللہ کے دین پر ثابت قدم رہنے کا ذریعہ بنائیں، تاکہ کل ہم ان عظیم ہستیوں کے نقشِ قدم پر چلنے والوں میں شمار ہوں
(قسط نمبر 5)
