مسلمانوں پرمصیبتیں اور تقدیر الہی پر ایمان

Musalmanon-par-musibaten-.aur-taqdeer-e-ilahi-par-iman

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ تعالی ہی کے لیے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بلند و برتر ذات اللہ رب العزت کی ذات ہے کہ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول اور برگزیدہ نبی ہیں. اے اللہ ! رحمتیں اور سلامتی نازل فرما. آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر, آپ کی آل اور آپ کے پرہیز گار اصحاب پر. اللہ کے بندوں ! میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا  وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ

الطلاق2

اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہو گا۔

 اور دوسری جگہ فرمایا :

وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّه مِنْ اَمْرِه یُسْرًا

الطلاق4

اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا

 اور مزید فرمایا:

وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یُكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّاٰتِه وَ یُعْظِمْ لَه اَجْرًا

الطلاق5

اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اسے بڑا اجر عطا کر دے گا

 ایمان کے بنیادی اصولوں اور بڑے ارکان میں سے اللہ تعالی کی تقدیر اور اس کے فیصلوں پر ایمان لانا ایک اہم رکن ہے ہر چیز اللہ سبحانہ و تعالی کی قدرت علم کامل اور نافذ ہونے والی مشیت کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوتی ہے اور وہی ہر چیز کا خالق ہے اس نے ہر چیز کو لکھ رکھا ہے. خواہ وہ واقع ہو چکی ہے یا واقع ہونے والی ہے. تو ہر مسلمان کے لیے واجب اور ضروری ہے کہ وہ تقدیر کے تمام فیصلوں پر ایمان رکھے خواہ وہ فیصلے خیر پر مبنی ہوں یا شر پر، میٹھے ہوں یا کڑوے، نفع بخش ہوں یا نہ ہوں چنانچہ تمام واقعات اللہ سبحانہ و تعالی کی تقدیر، فیصلوں، ارادے اور تصرف سے ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں اس کی بادشاہت میں وہی کچھ ہوتا ہے جس کا وہ ارادہ کرتا ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ

القمر50

 بے شک جو بھی چیز ہے ہم نے اسے ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا ہے.

وہ مصائب اور مصیبتیں جن کا شکار خلق خدا ہوتی ہے. وہ بھی اپنے اندر ربانی حکمتیں سموئے ہوتی ہیں. جن کا ادراک انسان کو نہیں ہوتا لوگوں کے قلوب و اذہان ان کا احاطہ نہیں کر پاتے. اللہ تعالی کے فیصلوں میں بے شمار حکمتیں اور بے مثال مصلحتیں پناہ ہوتی ہیں. کیونکہ تقدیر، پروردگار کے صفت اور اس کے ان افعال کی طرح ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں. تقدیر کے تمام فیصلے سراپا خیر ہوتے ہیں. اور شر صرف اتنی ہی ہوتی ہے جتنی متعین و مقدر ہوتی ہے بس اور مسلمانوں کے بعض ممالک میں تباہ کن زلزلوں، ہلاکت خیز طوفانوں اور جان لیوا سیلابوں کے آنے کی وجہ سے جو مصیبتیں آن پڑی ہیں ان سے ہر مسلمان تکلیف میں ہیں۔ لیکن تقدیر الہی اور اس کے مضبوط و محکم فیصلوں پر اللہ تعالی کی ہی حمد و ثناء ہے۔ اور اسی کا شکر ہے۔ ہم اپنی زبانوں سے وہی کچھ بیان کرتے ہیں جن سے ہمارا پروردگار راضی ہو۔ اللہ تعالی  فوت شدگان  پر رحم و کرم فرمائے۔ زندہ بچ جانے والوں کی مدد فرمائے. انہیں اور تمام مسلمانوں کو مستقبل میں خیر و بھلائی اور خوشیوں کی صورت میں نعم البدل عطا فرمائے. اللہ کے بندوں! مسلمان کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ صبر سے کام لیتا ہے. ثواب کی امید رکھتا ہے تو اس کے لیے بلند و بالا مراتب اور اعلی درجات کی خوشخبری ہے. جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ

البقرۃ155-157

 اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے. وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت آن پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔

ْْاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کا معاملہ بڑا ہی عجیب ہے اس کا ہر معاملہ اس کے لیے بھلائی ہی لاتا ہے اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کو میسر نہیں ہے. اسے خوشی اور خوشحالی ملے تو شکر کر لیتا ہے اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے. اور اگر کوئی نقصان پہنچے تو اللہ کی رضا کے لیے صبر کر لیتا ہے. یہ بھی اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے. ٌٗٗ

رواہ مسلم

ْْاللہ کے بندوں! جتنی بڑی مصیبت ہوتی ہے اجر بھی اتنا ہی بڑا ہوتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اجر و ثواب میں اضافہ، آزمائش میں اضافے کے ساتھ ہے یعنی آزمائش جتنی عظیم ہو گی اس کا بدلہ بھی اسی قدر عظیم ہو گا اور اللہ سبحانہ و تعالی جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو انہیں آزمائشون میں مبتلا کر دیتا ہے. پس جو اس میں صبر و رضا کا مظاہرہ کرتا ہے. اس کے لیے اللہ کی رضا ہے. اور جو اس کی وجہ سے اللہ سے ناراضگی اور برہمی کا اظہار کرتا ہے تو اس کے لیے ناراضی ہے.ٗٗ

ترمذی

تو اس لیے تقدیر الہی اور اس کے فیصلوں پر صبر کرنے اور رہنے سے مصیبتیں ہلکی ہو جاتی ہیں. نفوس کو تسلی مل جاتی ہے. اور دلوں کو اطمینان و سکون حاصل ہو جاتا ہے. جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

وَ مَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَه وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ

التغابن 11

اور جو اللہ پر ایمان لے آئے. وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے. اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے

ْْمصیبتوں اور امتحانوں کے وقوع پذیر ہونے میں اللہ سبحانہ و تعالی کی حکمتیں ہوتی ہیں. ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی ان کے ذریعے مسلمان بندے کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور خطاؤں سے درگزر کر دیتا ہے. جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کسی مومن پر کوئی مصیبت آتی ہے حتی کہ وہ کانٹا جو اسے چبتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتا ہے یا اس کی وجہ سے اس کی کوئی غلطی یا گناہ معاف کر دیتا ہے.ٗٗ

 بخاری ومسلم

 کیا کوئی معصوم ہے؟ گناہوں اور غلطیوں سے کوئی پاک اور مبرہ بھی ہے؟ اور وہ کامیابی کتنی عظیم کامیابی ہوگی جب بندہ اپنے پروردگار سے ملے تو اس کے کندھے پر کوئی گناہ نہ ہو اس کا نامہ اعمال گناہوں سے پاک ہو جیسا کہ

ْْ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو جو بھی دائمی مرض، تھکان، پریشانی، صدمہ، تکلیف حتی کہ کوئی بھی غم پہنچتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے. ٗٗ

بخاری ومسلم

ْْنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن مرد اور مومن عورت پر اس کی جان, اولاد اور مال میں مصائب آتے رہتے ہیں. یہاں تک کہ وہ اس حال میں اللہ سے ملتا ہے کہ  اس  پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا ۔ٗٗ

صححہ ترمزی

 اے مسلمان بھائی! اللہ تعالی کی قضا و تقدیر پر صبر کیجئےاور جان لیجئے  کہ اللہ تعالی نے آپ کے لئے کوئی مصیبت کے وقت بھی مکمل خیر و بھلائی اور اچھا انجام تیار کر رکھا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ

الزمر 10

صبرکرنے والوں ہی کو ان کا ثواب بے حساب بھرپور دیا جائے گا۔

ْْنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے اس کی آزمائش کرتا ہے ۔ٗٗ

بخاری

مسلمانوں! مصیبتوں اور آفتوں کے ذریعے آزمائش، اس دنیا کی حقیقت کو آشکار کرنے کی سب سے بڑی چیز ہے. جو کہ آزمائشوں، امتحانوں، سزاؤں کے علاوہ حزن و ملال، غموں اور تھکاوٹوں سے بھری پڑی ہے. اللہ سبحانہ و تعالی نے ان آزمائشوں اور امتحانات کو مسلسل چلے آنے والی ربانی سنتوں میں سے سنت قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةًوَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ

الانبیاء35

اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں آزمانے کے لیے اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

 آخرت والا گھر ہی متقی لوگوں کے لیے صاف شفاف گھر ہے جس میں نہ کوئی تھکان، امتحان اور آزمائش ہوگی اور نہ ہی اس میں غم وغصہ ہوگا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ والی نعمتیں ہوں گی. ہم اپنے اللہ سے اس کے فضل و کرم کا سوال کرتے ہیں

. ارشاد باری تعالی ہے :

وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ

العنکبوت 64

بیشک آخرت کا گھر ضرور وہی سچی زندگی ہے۔کیا ہی اچھا تھا اگر وہ (یہ) جانتے۔

عقل مند انسان وہ ہے جو آخرت کو اس فانی دنیا پر ترجیح دیتا ہے، خوشنصیب ہے وہ شخص جسے آخرت کی فکر لاحق ہوگئ اور اسی کو اس نے اپنا ہدف اور مقصد بنا لیا ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىﭤ

الاعلی16-17

بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔

مصیبتیں اور آزمائشیں بندوں کو خبردار کرتی ہیں کہ وہ کمزور و ناتواں ہیں۔  قوت و طاقت صرف اللہ تعالی ہی کے پاس ہے لہذا ہمیں ان آزمائشوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے جو ہمیں اپنی اوقات یاد دلاتی ہیں اور بندوں کو اس بات کی تو اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنے خالق کے سامنے عاجزی و انکساری  اختیار کریں بھروسہ کرتے ہوئے  اور رغبت رکھتے ہوئے اور اپنے پروردگار کی بندگی سرانجام دیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

وَ مَااَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ

الاعراف 95

اور نہ بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی مگر یہ کہ اس کے لوگوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا کہ وہ کسی طرح عاجزی اختیار کریں۔

اے اللہ! ہم تجھ سے پناہ مانگتے ہیں آزمائش کی مشقت، بد بختی کی پستی، برے خاتمے اور دشمن کے ہنسنے اور خوش ہونے سے۔ اول و آخر تمام تعریفیں اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے ہی ہیں ۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو نیکوکاروں کا ولی اور دوست ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور امانت دار رسول ہیں۔ اے اللہ! رحمتیں، سلامتی اور  برکتیں نازل فرما آپﷺ پر، آپ ﷺکی آل پر ، اور آپ کے تمام اصحاب پر ۔

اللہ تعالی کا اپنے مومن بندوں پر بڑا فضل وکرم، رحمت ہے اور بندوں پر اس کا احسان ہے کہ جب ان پر مصیبتیں اور آزمائشیں آتی ہیں تو وہ ان کی دادرسی یوں کرتا ہے جیسا کہ اس نے اپنے نبی کے ذریعہ اپنے بندوں کو خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

”شہید پانچ قسم کے ہیں: طاعون کی بیماری سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، ڈوب کر مرنے والا، دب کر مرنے والا اور الله كى راہ میں شہید ہونے والا“

بخاری ومسلم

اہل علم نے کہا ہے یہ شہید کی وہ قسمیں ہیں جو معرکہ قتال کہ اندر نہیں بھی لڑتیں لیکن ان کو پھر بھی شہادت کا اجروثواب ملتا ہے، اللہ کے بندوں! نبی کریم ﷺ پر درود و سلام پڑھنے سے زندگی خشگوار اور اعمال کا تزکیہ ہوجاتا ہے اپنی استطاعت کے مطابق جس قدر زیادہ ہو سکے درود و سلام پڑھو۔ بالخصوص اس جمعے والے دن۔ اے اللہ! اپنے نبی محمد ﷺ پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرما۔ خلفاء راشدین سے راضی ہوجا۔ آل بیت اور تمام صحابہ کرام سے بھی راضی ہوجا اور تمام زندہ اور فوت شدہ افراد سے بھی راضی ہو، اے اللہ! ان کے گناہوں کو معاف فرما اور ان کی خطاؤں سے درگزر فرما، اے اللہ! مسلمانوں کو ناپسندیدہ چیزوں اور تکلیفوں سے محفوظ فرما۔ اے اللہ! ہم تیری نعمت کے زائل ہونے سے، تیری دی ہوئی عافیت کے پھر جانے سے، تیری ناگاہانی گرفت سے اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔ اے اللہ! تو ہمارے حاکم، خادم حرمین شریفین کو توفیق سے نواز۔ ان کی عمر دراز فرما اوار ان کے ولی عہد کو بھی توفیق سے نواز۔ ان کا محافظ و مددگار بن جا اور انہیں سیدھے راستے پر قائم و دائم رکھ ۔اے اللہ! مسلمان مردوں اور عورتوں کو معا ف فرما جو ان میں سے زندہ ہیں یا فوت شدہ ہیں۔ اے اللہ! تو ان کو راضی کردے اور ان سے تو راضی ہوجا۔ اے اللہ! ان کے گناہوں سے تو درگزر فرما اور ان کی غلطیوں کو معاف فرما۔ اے اللہ! ان کے ھم وغم، پریشانیوں کو دور کر دے۔ اللہ کے بندوں!  اللہ کا باکثرت ذکر کرو۔ صبح و شام اس کی تسبیحات بیان کرو اور تمام تعریفیں تمام جہاں کے پالن ہار، اللہ کے لئے ہیں

    خطبة الجمعة مسجدالنبويﷺ:

    فضیلة الشیخ ڈاکٹر حسین بن عبدالعزیز آل الشیخ حفظه اللہ

07 ربیع الاول 1445 ھ بمطابق 22 ستمبر 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ

آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔