کل بنی آدم خطا کی رو سے غلطی کا امکان ،خطا کا امکان بہر صورت رہتا ہے۔ یہ خطا اورغلطی واقعتاً خطا اورغلطی ہی ہو توسوء فہم ،قلتِ مطالعہ یاعدم استقراء و تتبع کی وجہ سے قابلِ معافی ہوگی۔ البتہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیئے کہ سرورق پر تو خطا اورغلطی نمایاں ہو جبکہ پسِ پردہ خود نمائی اور اُمت مسلمہ میں انتشاروافتراق پھیلانا مقصود ہو۔ کیونکہ یہ بہت عظیم گناہ ہے۔
دینی اعتبار سے کسی بھی نظریئے، فکراور سوچ کے لئے سب سے قبل تو شرعی الفاظ کا اعتبار کیا جاتاہے اور پھراس کی تعبیر و تفہیم میں لغت واصطلاح کے ساتھ فہمِ سلف صالحین کو مدِ نظر رکھا جاتاہے۔امام ابن ابی العز نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ:
التعبیرعن الحق بالالفاظ الشرعیة النبوية الالٰہیة،ھو سبیل اھل السنة والجماعة
یعنی حق بات کی تعبیر الفاظِ شرعی نبوی اورالفاظ ِ الٰہی سے کرنا اہلِ السنۃ والجماعۃ کا طریق اورراستہ ہے۔ (شرح عقیدہ الطحاویہ ،ص-51)
ماضی بعید سے چند مثالیں:
سوء فہم یا تعبیر کی غلطی کی مثالیں عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں مل جاتی ہیں مگر چونکہ وہ سب کے سب عادل وعدول تھے تو اُن کی اس تعبیر کو غلطی اور خطا پر محمول کیاگیا۔ مزید کوئی سختی اورسخت فتویٰ صادر فرمانے سے گریز کیا گیا۔ مثلاً
1- سیدنا عروہ رحمہ اللہ کو صفا مروۃ کی سعی میں مغالطہ لگ گیا۔ کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے: “(جو سورۃ البقرۃ میں ہے) صفا اور مروۃ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس لئے جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اُس کے لئے اُن کا طواف کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔”
اللہ کی قسم ! پھر تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہیئے اگر کوئی صفا و مروۃ کی سعی نہ کرے تو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بھانجے تم نے بُری بات کہی۔ اللہ تعالیٰ کا مطلب اگر یہ ہوتا توقرآن میں اترتا
ان لا یطوف بینھما
یعنی اُن کے درمیان سعی نہ کرنے میں کوئی حرج و گناہ نہیں اور پھرسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مکمل تفصیل سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ کو بتائی ۔ جس کی تفصیل صحیح بخاری کتاب الحج وغیرہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
تو یہ معلوم ہوا یہ تعبیروتفہیم کی غلطی تھی جو کہ سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ سے سرزد ہوئی مگراس کی اصلاح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمادی اور اُنہوں نے اس اِصلاحی تفصیل کو قبول بھی فرمالیا تھا۔
2- اسی سلسلے میں دوسری مثال سیدنا قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہوسکتا ھے جب اُنہوں نے اور اُن کے چند ساتھیوں نےشراب پی لی اور پھر جب گرفت کی گئی تو کہنے لگے کہ قرآن میں ہے:
لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
المائدۃ – 93
ایسے لوگوں پر جو کہ ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں اس چیز میں کوئی گناه نہیں جس کو وه کھاتے پیتے ہوں جبکہ وه لوگ تقویٰ رکھتے ہوں اور ایمان رکھتے ہوں اور نیک کام کرتے ہوں پھر پرہیزگاری کرتے ہوں اور ایمان رکھتے ہوں پھر پرہیزگاری کرتے ہوں اور خوب نیک عمل کرتے ہوں، اللہ ایسے نیکوکاروں سے محبت رکھتا ہے۔
مطلب یہ کہ اس آیت سے اُنہیں مغالطہ لگ گیا کہ شاید ہمارے جیسے اہل ایمان کے شراب چکھ لینے میں حرج نہیں۔
امیرعمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ نے بالاتفاق ان کی اس تعبیر کو غلط کہا اور انہیں حد لگانے کا کہا گیا یعنی شراب پینے کی حداورانہیں بتایا گیا کہ یہ آیت تو ان لوگوں کے سوال کا جواب تھا جو یہ پوچھ رہے تھے کی حرمت سے قبل جو شراب پینے والے تھے ان کاحکم کیا ہے۔
تو معلوم ہواسیدنا قدامہ رضی اللہ عنہ سے بھی تعبیر کی غلطی سرزد ہوئی اور پھر اصلاح کی گئی ۔
تو ایسی اور بھی مثالوں کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ ماضی بعید میں بھی تعبیر کی غلطی سرزد ہوئی اور پھر اس کی اصلاح کی گئی تو مسئلہ حل ہوگیا،سیدنا عدی بن حاتم کالےاورسفید دھاگے کو حقیقتاً دھاگہ ہی سمجھ لینا بھی اس تعبیر کی غلطی کی مثالوں میں سے ہے۔
اب آیئے ہمارے اصل موضوع اور عنوان کی طرف کی ’’تعبیر کی غلطی‘‘آج بھی موجود ہے اور اس کی اصلاح کی ضرورت ہے اوراس اصلاح کو اگر قبول کرلیا جائے توبہت سے مسائلِ اختلافیہ حل ہوسکتے ہیں ذیل میں بالترتیب کچھ تعبیرات کی غلطی کی نشاندہی کی جارہی ہے ساتھ ہی اس کی اصلاح کی طرف اشارات بھی ضبط تحریرمیں موجود ہیں۔وباللہ التوفیق
1-اہل السنہ والجماعۃ کون…. ؟
کہا جاتا ہے کہ ہم بریلوی سنی،اھل السنہ والجماعۃ ،دیوبندی کہتے ہیں ہم سنی اھل السنہ والجماعۃ اورشاید ایسا ہی کچھ حنابلہ اورمالکیہ اور شافعیہ سے بھی سننے کو ملے۔
نیز یہ حقیقت ہے کہ پھر ان سب کے الگ الگ نظریات ومعتقدات ان کو درجنوں اور بیسیوں سلسلوں میں تقسیم کردیتے ہیں اور پھر مستزاد یہ کہ ہم پھر بھی اھل السنہ والجماعۃہی رہتے ہیں ۔
مگر یہ سب غلطی تعبیر کی ہی ہے
جب کہ صحیح تعبیر یہ ہے کہ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہے
وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ
[ال عمران:107]
سے مراد اھل السنہ ہیں (تفسیرابن کثیروغیرہ)
تو ثابت ہوا اہل السنہ کا اطلاق سب سے قبل حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر ہوگا کہ ان کے چہرے کل قیامت کے دن روشن وسفید چمک رہے ہونگے تو بتائیے وہ صحابہ رضی اللہ عنھم کون تھے؟ دیوبندی سنی یا بریلوی سنی؟قادری ،نقشبندی،چشتی،سہروردی یا دیگر اھل السنة والجماعة کے نام نہاد متبعین؟؟
امام طحاوی احناف کے سرخیل علماء میں سے ہیں انکی مشہور کتاب ”عقیدہ طحاویہ“اور اس کی شرح میں علامہ ابن ابی العز حنفی نےاھل السنہ والجماعۃ کی کیا تعبیر کی ہے غور کیجئےلکھتے ہیں کہ:
ونتبع السنة والجماعة، ونجتنب الشذوذ والخلاف والفرقة……………….
شارح لکھتے ہیں: السنہ سے مراد رسول اللہ ﷺکا طریقہ مبارکہ ہے اور الجماعة سے مراد جماعة المسلمین ہے جوکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اورتابعین ہیں ۔یاد رہے امام طحاوی 321 ھ میں فوت ہوئے اور جب کہ شارح عقیدۃ طحاویه امام ابن ابی العز 792 ھ میں فوت ہوئے تو بتائیےانہوں نے اھل السنة والجماعۃ کی کیا تعبیر کی؟ اور موجود ومروّجہ دستار وپگڑیاں کس دور کی ہیں اور ان کا خود کو اھل السنة والجماعة کہنا کیا صحیح تعبیر ہے؟
نہیں یقیناً نہیں تو پھر یہ رانگ نمبر ہوا نا……………….؟
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
اھل السنة والجماعةکا مذھب قدیم و معروف ہے اور یہ امام ابو حنیفہ و امام مالک وامام شافعی وامام احمدرحمھم اللہ اجمعین کی تخلیق سے بھی پہلے کا مذھب ہے اور یہ مذھب صحابہ ہے جو انہوں نے اپنے نبی ﷺ سے حاصل کیارحم اللہ اجمعین تھا ۔(منھاج السنة)
غور کیجئے آٹھویں صدی میں شیخ الاسلام یہ فرمارہےہیں اور یہی اھل السنة والجماعة کی صحیح تعبیر ہے ،تو پھرغور کیجئے آج کے نام نہاد سنی واھل السنة والجماعة ثم الدیوبندیه والبریلویة کا خُود کواس نام سے موسوم کرنا صحیح تعبیرہے ؟نہیں قطعاً نہیں ۔
صحابہ رضی اللہ عنھم واتباع صحابہ حنفی تھے ،نہ مالکی تھے، نہ شافعی تھے، نہ حنبلی تھے نہ ان کے ہاں دیوبندی ،بریلوی اور حیاتی ومماتی کی کوئی تقسیم تھی، بلاشبہ آج اہل السنة والجماعة کی تعبیر بدل دی گئی ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیه نے بھی اہل السنة والجماعة کی ایک تعبیر پیش کی اور آپ جناب والہ پانچویں صدی ہجری کے انتہائی ولی صفت عابد و زاہد شخصیت ہیں ۔
شیخ جیلانی رحمہ اللہ اپنی ”غنیة الطالبین “ میں لکھتے ہیں کہ:
مومن پر لازم ہے کہ وہ سنت اورجماعت کولازم پکڑے اورسنت وہ طریقہ ہے جو رسول اللہﷺ کا طریقہ ہے اورجماعت وہ صحابہ کرام کا طریقہ ہے جو بالخصوص خلفائے راشدین کے عہد میں اختیار کیا گیا پھر ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
اھل بدعت کی کچھ نشانیاں ہیں جن سے پہچان لئے جاتے ہیں وہ اہل الاثرپرتنقید کرتے ہیں اور ان کے بُرے بُرے نام رکھتے ہیں۔
جبکہ اہل سنہ کا صرف ایک ہی نام ہے اوروہ ہے ” اصحاب الحدیث “ اور پھر آخری مباحث میں لکھتے ہیں کہ یہ وہ تالیف ہے کہ جس کے باب” معرفة الصانع والاعتقاد علی مذهب اہل السنة والجماعة“ میں ہم نے اختصار واستطاعت سے کام لیا ہے۔
غور کیجئے شیخ جیلانی رحمہ اللہ نے اہل السنۃ والجماعۃ کی جو تعریف کی ہے وہ بھی پانچویں صدی ہجری میں تو بتائے آج 1856 اور1857 والے خُود کو کس طرح اہل السنة و سنی کہلواتے ہیں۔
لہذا مان لیجئے کہ آج اہل السنة والجماعة کی تعریف وتعبیرغلط ہو چکی ہے۔
2-لفظ مولیٰ اور مولانا کے استعمال کو شرک سے تعبیر کرنا
یہ بھی تعبیر کی غلطی کی ایک شکل ہے اور بے جا تشدد کی مثال ہے کہ اس لفظ کے استعمال کو صراحتاً شرک قرار دے ڈالنا۔فانا للہ و انا الیه راجعون
جب کہ سب طالب علم اور سب علماء جانتے ہیں کہ اسم ایک ہو جانے سے مُسمّی ایک نہیں ہوتا یا یُوں کہیں کہ ہمیشہ اس طرح لازم نہیں آتا فقط لفظی اشتراک کو لیکر مُسمّی کو ایک قرار دینا یا اس اشتراک لفظی کی بنیاد پر کچھ الفاظ کے استعمال کو شرک قراردینا یقیناً ضلالت کا راستہ ہے۔
اللہ تعالی کی صفت ہے رووف، رحیم، حلیم، علیم، شہید، مؤمن، وکیل، اول ،آخر، وغیرہ وغیرہ۔اور یہی اسماء و صفات مخلوق کے لئے بھی مستعمل ہے فقط لفظی اشتراک ہے نہ کہ مُسمّی کو ایک قرار دینا ،انہیں صفات متعدیہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
لفظ ’’مولانا‘‘ دو لفظوں کا مرکب ہے ایک مولیٰ اوردوسرا ضمیر جمع متکلم ’’نا‘‘ یعنی ہمارا مولٰی یہ لفظِ مولٰی واحد ہے اس کی جمع موالی آتی ہے کتب لغت میں اس کے بہت سے معنی لکھےگئے ہیں۔ جیسے رب ،مالک، سردار، آزاد کرنے والا، مدد کرنے والا، ہمسایہ حلیف ،غلام اورآزاد کیا ہوا۔ قرآن و سنت میں موقعہ ومحل دیکھ کراس کا مناسب معنی لیا جاتا ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنی الجامع الصحیح میں کتاب التفسیر کے تحت
’’باب قولہ ولكل جعلنا موالي مما ترك الوالدان والاقربون‘‘
قائم کرکے اس لفظ کی تفصیل لکھ رکھی ہے۔
ولی اور مولٰی کا مادہ اور معنی ایک ہی ہے جس طرح قرآن و حدیث میں اللہ اور اللہ کے علاوہ کے لیے یہ استعمال ہوا ہے بالکل اسی طرح لفظ مولٰی بھی استعمال ہوا ہے۔
تو ثابت ہوا لفظ ولی، مولٰی یا مولانا کئی معنوں میں مستعمل ہے اور جب یہ اللہ کے لیے خاص ہے ہی نہیں تو دوسروں کے لیے استعمال کرنے سے شرک کیونکر لازم آسکتا ہے؟
قرآن میں مستعمل الفاظ ذرا دیکھئے
يَدْعُو لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ لَبِئْسَ الْمَوْلَىٰ وَلَبِئْسَ الْعَشِيرُ
[13الحج]
مَأْوَاكُمُ النَّارُهِيَ مَوْلَاكُمْ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
[الحدید:15]
وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ
[النحل:76]
يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ
[الدخان:41]
فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ
[التحریم:04]
وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي
[مریم:05]
وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ
[النساء:33]
فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ
[الأحزاب:05]
درج بالا تمام آیات میں مولٰی مختلف معانی رکھتا ہے اور موقع ومحل سیاق و سباق اور قرائن ما قبل وما بعد کو سامنے رکھ کر اس کا معنیٰ متعین کیا جاتا ہے ۔
اور یہاں شرک کا کوئی پہلو نہیں پایا جاتا اور حیران کن بات یہ ہے کہ لفظ ولی اور وکیل وغیرہ پر تو کوئی اعتراض نہیں، جب کہ یہ دونوں الفاظ بھی مخلوق کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر لفظ مولٰی ومولانا پر ہی اعتراض آخر کیوں ؟
یہ ہے تعبیر کی غلطی
احادیث مبارکہ میں لفظ ولی ، مولٰی، موالی ،مولانا کے اللہ کے علاوہ مخلوق کے لیے استعمال ہونے کی بلامبالغہ درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں مثلا نبی علیہ السلام نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ
انت اخونا و مولانا
سیدنا علی کو کہا تھا
من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ
المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی الشریف کی جلد نمبر7صفحہ نمبر333 سے اگلے دو تین صفحے مسلسل دیکھیں ہیں تو آپ کو لفظ مولٰی جس کی جمع موال یا موالی آتی ہے اس کی درجنوں مثالیں ملیں گی ،جواحادیث مبارکہ میں موجود ہیں،وہاں ہرہرحوالہ بھی مکتوب ہے ۔
اور یہ سب استعمالات اللہ تعالی کے علاوہ فقط مخلوق کے لئے ہوئے ہیں لہذا ثابت ہوگیا کہ لفظِ ’’مولانا‘‘ کا استعمال اللہ تعالی کے علاوہ بھی مخلوقات وغیرہ کے لئے کیا جاسکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شرک کا شُبہ
البتہ مخلوقات کیلیےاس لفظ کے استعمال کو شرک کہنا تعبیرکی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔
3-حلیم کو دلیم کہنا
دورِ حاضر میں مشہورومعروف ہونے کا ایسا معصومانہ انداز چل نکلا ہے کہ لیبل اخلاص و خلوص کا لگا لیا جاتا ہے اورپس ِپردہ خُود کو نمایاں کرنا مقصود ہوتا جا رہا ہے ۔
اسی سلسلےکی ایک کڑی یہ ہےکہ گزشتہ سال سے یہ بحث کی جا رہی ہے کہ حلیم( کھانے کی ایک شکل )کو دلیم کہنا چاہیے کیونکہ حلیم تواللہ تعالی کی صفت ہے اورکھانے کی چیز پراس کا اطلاق اللہ تعالی کی گستاخی ہے ۔وغیرہ وغیرہ
حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ حلیم کو دلیم کہنا فقط تعبیر کی غلطی ہے اسم ایک ہوجانےسےمسمی کا ایک ہوجانا لازم نہیں کرتا ۔اللہ کی صفت تو اپنی جگہ موجود ہے اس میں کوئی اشکال نہیں اس کی مثال یُوں سمجھیں کہ اول ،آخر، وکیل، مولٰی رووف ،رحیم، حلیم، علیم، سب اللہ تعالی کی صفات ہیں۔
مگر ان الفاظ کا استعمال مخلوقات کے لئے بھی ہوتا ہے مثلاً آپ کہتے ہیں میں امتحان میں اول آیا، میرا بیٹا اول آیا، جب کہ اول اللہ کی صفت ہے تو یہاں کیوں سمجھ نہیں آرہا کہ یہ لفظ اپنے لئے یا اپنے بیٹے کے لئے استعمال ہو رہا ہے لفظ آخر بھی مخلوق کے لیے دن رات مستعمل ہے میں آخر میں آیا ،وہ آخر میں گیا ۔وغیرہ وغیرہ
رووف و رحیم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے بلاشبہ مگر کیا ایسا نہیں کہ خوداللہ تعالی نے اپنے محبوب پیغمبر کو انہی ناموں سےموسوم کیا ہے ؟
سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو غلام حلیم نہیں کیا گیا؟
سیدنا اسحق علیہ السلام کو،غلام علیم نہیں کہا گیا؟
تو پھر ان الفاظ کو دیگر مخلوقات کیلئے استعمال کرنے سے کیا مانع ہے ؟
لفظ وکیل اللہ کیلئے مستعمل ہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ دن رات عدالتوں میں وکیل ،وکیل صاحب کی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں ؟
تو مان لیجئے کہ حلیم کا اطلاق کھانے کی ڈش پر کیا جا سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں جبکہ یہاں اس کے استعمال کا انکار فقط تعبیر کی غلطی ہے
جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ لفظ “دلیم” کوئی لفظ ہی نہیں رہا ہے۔ہمارے ہاں ایک شیخ نے جذبات میں آکر کہا کہ دنیا کی کسی لغت میں کھانے کی ڈش کو حلیم نہیں کہا گیا۔ وغیرہ وغیرہ
تو ان کیلئے فیروز اللغات(ار دو/ فارسی) کا حوالہ لکھا جاتا ہے کہ کھانے کی ڈش، خوراک جو گوشت اور گندم وغیرہ سے تیار کی جاتی ہے۔ اسے حلیم کہا جاتا ہے . (تحت مادہ ح ل ی )
4-عاشوراء /عاشورہ کو 09 محرم الحرام سے تعبیر کرنا
جی ہاں یہ بھی تعبیر کی غلطی ہے کہ دس محرم الحرام یعنی عاشورہ کو 09 محرم الحرام سے تعبیر کرنا اور فقط 09 محرم کا روزہ رکھنا اور اس پر اصرار کرنا۔
فی زمانہ ہر شخص اپنی ایک انفرادی حیثیت بنانے اور سنوارنے میں لگا ہوا ہے۔ جبکہ مسلمہ حقیقت ہے دین مکمل ہے اس کی تعبیرات بھی مکمل ہیں۔ نماز متعین ہے ،روزہ متعین ہے، زکوہ متعین ہے،حج اور اس کے ارکان متعین ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
تو بالکل اسی طرح عاشورہ کا دن اور اس کا روزہ رکھنا بھی متعین ہے۔ جمہور اہل علم کا اتفاق ہے کہ عاشورہ محرم الحرام کا دسواں دن ہے اور یہ عشر سے ماخوذ ہے
اب اگر یہ کہا جائے کہ لفظ عشر سے تو اختلاف نہیں مگر لا صومن التاسع کے الفاظ نبوی روزہ کا تعین09 محرم کے ساتھ کرتے ہیں تو مطلب یہ ہوا عاشورہ کا دن اور اس کا روزہ منسوخ ہو گیا۔
جبکہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ عاشورہ کے روزے کی روایات بطور خبر کے آتی ہیں اور خبر میں بالاتفاق نسخ وارد نہیں ہوتا۔اور نہ کسی اہل علم نے اس کا ذکر کیا حتی کہ ناسخ و منسوخ پر مکمل تصانیف میں بھی ایسا کچھ عاشورہ کے حوالے سے تو نہیں لکھا گیا ہے۔
صحیح تعبیر یہ تھی کہ عاشورہ کو اپنی جگہ رکھ کر یہود کی مخالفت کرواور یہ ایسے ہی ممکن تھی کہ 10 کے ساتھ 09یا دس کے ساتھ 11تاریخ کو جمع کر دیا جائے روزے کے ساتھ اور یہی احادیث کا منشا تھا یہی سلف صالحین نے سمجھا اور سمجھایا اس کے مقابلے میں فقط 09 کا روزہ رکھنے والوں کو سُوء فھم اورقلت مطالعہ کا طعنہ دیا جیسا کہ ابن القیم رحمۃ اللہ وغیرہ سے منقول ہے۔
مگر تعبیر کی غلطی کا کیا کریں جو مصرہے کہ عاشورہ 09 محرم ہے اور اسی کا روزہ رکھنا ہے .. ؟
مثال سے بات کو سمجھئیے
احادیث صحیحہ کی رو سے ہمیں معلوم ہواہے کہ وتر کی نماز کو مثلِ مغرب نہ بنائیں ۔
اب کیا اس کی تعبیر ہوگی کہ وتر کی تعداد یا وقت کو بدل دیا جائے کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری؟
یا پھر نماز وتر ہی کو شجرممنوعہ جان کر ترک کر دیا جائے……؟
یقیناً ان میں سے کوئی بات بھی قابل قبول نہیں بلکہ مشابہت توڑنے کیلئے ضروری ہے کہ تین وترایک التحیات کے ساتھ اکٹھی پڑھ دی جائے تومشابھت ومماثلت ختم ہو جائے گی نہ نسخ کی ضرورت ہے نہ انکار کی۔
بس ایسے ہی عاشورہ کا روزہ ہے نہ دن بدلیں نہ تاریخ بس مقررہ شرعی تاریخ اور دن کو اپنی جگہ رکھ کراس میں ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا جمع کردیں تودین کا حکم بھی پورا ہوگا اورمخالفت یہود بھی ہوگی -فافهم یہ تعبیر صحیح ہوگئی۔ والحمد لله
5-پیاس اور پانی کے بندش کا نعرہ لگا کر سبیلیں لگانا اور شربت پینا
گزرتے اوقات میں بالخصوص شھراللہ المحرم میں یہ بات کی جاتی ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اوران کے اہل خانہ پرکربلا میں پانی بند کر دیا گیا اورپیاس کی شدت سے بچوں کی زندگی ختم ہوگئی۔و غیرہ وغیرہ
غور کیجئے کہ اگر یہ تعبیر صحیح ہے تو محبت اھل بیت کا تقاضہ پھر کیا ہوگا ؟
یہی نہ کہ محبین افسردگی میں بھوکے اور پیا سے رہیں اورانکی پیاس کو یاد کریں۔
بالکل یہی تعبیر صحیح ہو گی کوئی بھی عاقل و فہیم اس کا انکارنہیں کرسکتا اورماضی بعید میں واقعہ کربلا کے قریب کے زمانے میں جو لوگ دعوی محبتِ حسین رضی اللہ عنہ رکھتے تھے اورپھرماتم و جلوس کے بھی دلدادہ تھے تووہ بھوکے بھی رہتے تھےاورپیا سے بھی تاکہ محبت حسین کا حق ادا ہو توپھر وہ صحیح تعبیردے گئے یا آج کے شربت خوراورلنگرلوٹنےوالےڈنگر……؟
یا درکھئے تعبیرات کی غلطیاں ہی سدھار لی جائیں تو امت مسلمہ متحد ومتفق ہوجائے۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کربلا میں پانی کی بیان کی جانے والی بندش کا راوی کون کون ہے اور اسکی استنادی حیثیت کیا ہے ؟
تعبیر کو غلط نہیں صحیح کیجئے
(جاری ہے)