سوال : قربانی کے جانور میں کن شروط کا پایا جانا ضروری ہے؟
جواب: قربانی کے جانور میں چھ شرائط کا مکمّل ہونا ضروری ہے:
پہلی شرط : وہ قربانی [بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ] یعنی گھریلو پالتو جانوروں میں سے ہو جو کہ اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری ہیں. فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ
الحج – 34
اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا طریقہ مقرر فرما دیا ہے تا کہ وہ اللہ کے عطا کردہ [بھیمۃ الانعام ] یعنی پالتو جانوروں پر اللہ کا نام لیں۔
اور [بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ] سے مراد اونٹ گائے بھیڑ اور بکری ہیں عرب کے ہاں یہی معروف ہے نیز حسن اور قتادہ سمیت دیگر اہل علم کا بھی یہی موقف ہے ۔
دوسری شرط :
قربانی کا جانور شرعی طور پر معین عمر کا ہونا ضروری ہے ، وہ اس طرح کہ بھیڑ کی نسل میں جذعہ [چھ ماہ کا بچہ ] قربانی کے لئے ذبح ہو سکتا ہے جبکہ دیگر جانوروں میں سے ان کے اگلے دو دانت گرنے کے بعد قربانی ہو گی کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
( مسنہ ) [یعنی جس کے اگلے دو دانت گر گئے ہیں اس ] کے علاوہ کوئی جانور ذبح نہ کرو، تاہم اگر تمہیں ایسا جانور نہ ملے تو بھیڑ کا جذعہ[یعنی چھ ماہ کا بچہ ] ذبح کر لو ) صحیح مسلم ۔
حدیث میں مذکور : “مسنہ” کا لفظ ایسے جانور پر بولا جاتا ہے جس کے اگلے دو دانت گر چکے ہوں یا اس سے بھی بڑے جانور کو “مسنہ” کہتے ہیں جبکہ “جذعہ” اس سے کم عمر کا ہوتا ہے۔
لہذا اونٹ پورے پانچ برس کا ہو تو اس کے اگلے دو دانت گرتے ہیں۔گائے کی عمر دو برس ہو تو اس کے اگلے دو دانت گرتے ہیں۔جبکہ بکری ایک برس کی ہو تو وہ تو اس کے اگلے دانت گرتے ہیں۔اور جذعہ چھ ماہ کے جانور کو کہتے ہیں ، لہذا اونٹ گائے اور بکری میں سے آگے والے دو دانت گرنے سے کم عمر کے جانور کی قربانی نہیں ہوگی ، اور اسی طرح بھیڑ میں سے جذعہ سے کم عمر [یعنی چھ ماہ سے کم ] کی قربانی صحیح نہیں ہوگی ۔
تیسری شرط :
قربانی کا جانور چار ایسے عیوب سے پاک ہونا چاہیے جو قربانی ہونے میں رکاوٹ ہیں:
- آنکھ میں واضح طور پر عیب: مثلاً: جس کی آنکھ بہہ کر دھنس چکی ہو یا پھر بٹن کی طرح ابھری ہوئی ہو ، یا پھر آنکھ مکمل سفید ہو کر کانے پن کی واضح دلیل ہو۔
- واضح طور بیمار جانور: اس سے بیمار جانور مراد ہیں۔ مثلاً: جانور کو بخار ہو جس کی بنا پر جانور گھاس نہ کھائے اور اسے بھوک نہ لگے۔ اسی طرح جانور کی بہت زیادہ خارش جس سے گوشت متاثر ہو جائے یا خارش جانور کی صحت پر اثر انداز ہو۔ ایسے ہی گہرا زخم اور اسی طرح کی دیگر بیماریاں ہیں جو جانور کی صحت پر اثر انداز ہوں۔
- واضح طور پر پایا جانے والا لنگڑا پن: ایسا لنگڑا پن جو صحیح سالم جانوروں کے ہمراہ چلنے میں رکاوٹ بنے۔
- اتنا لاغر کہ ہڈیوں میں گودا باقی نہ رہے: نبی ﷺ سے جب یہ پوچھا گیا کہ قربانی کا جانور کن عیوب سے پاک ہونا چاہیے تو نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا چار عیوب سے: ( وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو، آنکھ کے عیب والا جانور جس کی آنکھ کا عیب واضح ہو، بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو اور وہ کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو) ۔اسے امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
اور سنن میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ ہی سے ایک روایت مروی ہے جس میں ہے کہ نبی ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ( چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں ) اور پھر آگے یہی حدیث ذکر کی ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل (1148) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
لہذا یہ چار عیب ایسے ہیں جن کے پائے جانے کی بنا پر قربانی نہیں ہوگی اور ان چار عیوب کے ساتھ دیگر عیوب بھی شامل ہیں جو ان جیسے یا ان سے بھی شدید ہوں تو ان کے پائے جانے سے بھی قربانی نہیں ہوگی جیسے کہ درج ذیل عیوب ہیں:
- نابینا جانور جس کو آنکھوں سے نظر ہی نہ آتا ہو ۔
- وہ جانور جس نے اپنی طاقت سے زیادہ چَر لیا ہو اس کی قربانی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ صحیح نہ ہو جائے اور اس سے خطرہ ٹل نہ جائے۔
- وہ جانور جسے بچہ جننے میں کوئی مشکل در پیش ہو جب تک اس سے خطرہ زائل نہ ہو جائے۔
- زخم وغیرہ لگا ہوا جانور جس سے اس کی موت واقع ہونے کا خدشہ ہو گلا گھٹ کر یا بلندی سے نیچے گر کر یا اسی طرح کسی اور وجہ سے۔ اس وقت تک ایسے جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس سے یہ خطرہ زائل نہیں ہو جاتا ۔
- دائمی بیمار یعنی ایسا جانور جو کسی بیماری کی وجہ سے چل پھر نہ سکتا ہو۔
- اگلی یا پچھلی ٹانگوں میں سے کوئی ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہو ۔
جب ان چھ عیوب کو حدیث میں بیان چار عیوب کے ساتھ ملایا جائے تو ان کی تعداد دس ہو جائے گی چنانچہ ان کی قربانی نہیں کی جائے گی۔
چوتھی شرط :
وہ جانور قربانی کرنے والے کی ملکیت میں ہو یا پھر اسے شریعت یا مالک کی جانب سے اجازت ملی ہو۔
لہذا جو جانور ملکیت میں نہ ہو اس کی قربانی صحیح نہیں۔ مثلاً: غصب یا چوری کردہ جانور اور اسی طرح باطل اور غلط دعوے سے ہتھیایا گیا جانور۔ کیونکہ اللہ تعالی کی معصیت و نافرمانی کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا ۔
اور یتیم کا سر پرست یتیم کی جانب سے ایسی صورت میں قربانی کر سکتا ہے جب یتیم اپنے مال سے قربانی نہ ہونے پر مایوس ہو جائے اور عرفِ عام میں یتیم کی طرف سے قربانی کرنے کا رواج بھی ہو۔
اسی طرح موکل کی جانب سے اجازت کے بعد وکیل کا قربانی کرنا بھی صحیح ہے ۔
پانچویں شرط :
جانور کا کسی دوسرے کے ساتھ تعلق نہ ہو۔ لہذا رہن رکھے گئے جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی ۔
چھٹی شرط :
قربانی کو شرعاً محدود وقت کے اندر اندر ذبح کیا جائے اور یہ وقت دس ذوالحجہ کو نمازِ عید کے بعد سے شروع ہو کر ایامِ تشریق کے آخری دن سورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے۔ ایامِ تشریق کا آخری دن ذو الحجہ کی تیرہ تاریخ بنتا ہے تو اس طرح ذبح کرنے کے چار دن ہیں یعنی: عید کے دن نمازِ عید کے بعد ، اور اس کے بعد تین دن یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذو الحجہ کے ایام قربانی کے دن ہیں۔
سوال: قربانی كے جانور كون سے ہیں ؟
وہ جانور جن پر بهيمة الأنعام کا اطلاق ہوتا ہے وہی قربانی کے جانور ہیں ۔ یعنی آٹھ قسم کے جانور{بهيمة الأنعام} میں داخل ہیں جن کی قربانی جائز ہے۔ ان میں بکرا، بھیڑ، گائے اور اونٹ کا نر و مادہ شامل ہے۔کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُواْ اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِّن بَهِيمَةِ الاَنْعَامِ
الحج – 34
اورہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پراللہ تعالی کا نام لیں جواللہ تعالی نے انہیں دے رکھے ہیں ‘‘ ۔
اور آیت میں : {بهيمة الأنعام} سے مراد اونٹ، گائے، بھیڑ بکرے ہیں۔ عرب کے ہاں بھی یہی معروف ہے اور سیدنا حسن اور قتادہ رحمهما اللہ وغیرهما نے بھی یہی کہا ہے ۔
سوال : کیا بھینس کی قربانی قرآن و سنت سے ثابت ہے؟
جواب : قربانی کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلنا مَنسَكًا لِيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعامِ
الحج – 34
“اور ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کی جگہ مقرر کی تھی تاکہ جو جانور اللہ تعالیٰ نے ان کو مویشی چوپایوں میں سے دئیے تھے ان پر اللہ کا نام ذکر کریں۔”
اس آیت کریمہ میں قربانی کے جانوروں کے لیے {بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ} کے الفاظ ذکر کیے ہیں اور انعام سے مراد یہاں پر اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکری ہیں۔
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ {بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ} کی تشریح میں رقم طراز ہیں۔
“انعام سے مراد یہاں اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکری ہے اور {بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ} سے مراد انعام ہی ہے یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کہتے ہیں صلاۃ الاولیٰ اور مسجد الجامع ۔”1
نواب صدیق حسن خان رقم طراز ہیں:
“{الْأَنْعَامِ} کی قید اس لیے لگائی گئی کہ قربانی {الْأَنْعَامِ} کے سوا اور کسی جانور کی درست نہیں اگرچہ اس کا کھانا حلال ہی ہو ۔2 مزید فرماتے ہیں۔ {بَهِيمَةِ} {الْأَنْعَامِ} سے اونٹ اور گائے اور بکری مراد ہیں۔3
{الْأَنْعَامِ} کی تشریح میں قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وهي الإبل والبقر والغنم
“{الْأَنْعَامِ} سے مراد اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہیں۔”4
مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ {بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ} سے مراد اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکری ہیں اور انہی کی قربانی کرنی چاہیے۔ بھینس ان چار قسم کے چوپایوں میں نہیں۔
علامہ سید سابق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ولا تكون إلا من الإبل والبقر والغنم، ولا تجزئ من غير هذه الثلاثة يقول الله سبحانه (لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)
قربانی اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکری کے علاوہ جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وہ یاد کریں اللہ تعالیٰ کا نام اس چیز پر جو اللہ نے انہیں مویشی چوپایوں میں سے عطا کیا۔”
یہی موقف حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ اہلحدیث 2/426 میں اختیار کیا ہے۔
بھینس كی جنس گائے سے ہونا علماء کے نزدیک مختلف فیہ ہے لہذا احتیاط کا تقاضا اور راجح یہی موقف ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے بلکہ مسنون قربانی اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکری سے کی جائے کیونکہ جب یہ جانور موجود ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے مشتبہ امور سے اجتناب کرنا ہی افضل و بہتر ہے ۔
سوال : بے نمازی کی قربانی کا کیا حکم ہے ؟
جواب : بے نمازی کا کوئی بھی عمل اس کیلئے فائدہ مند نہیں ہے اور نہ ہی اسکے اعمال قبول کئے جاتے ہیں۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
“نماز کے بغیر روزے کا بالکل بھی فائدہ نہیں ہوگا اور نماز کے بغیر روزہ درست ہی نہیں ہے چاہے انسان نیکی کے جو بھی اعمال کرلے تو اسے بے نمازی ہونے کی وجہ سے کچھ بھی فائدہ نہیں دیں گے کیونکہ جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ کافر ہے اور کافر کا عمل قبول نہیں ہوتا لہذا نماز کے بغیر روزے کا کوئی فائدہ نہیں”۔5
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جو شخص روزہ رکھتا ہے لیکن نماز نہیں پڑھتا اس سے روزہ قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ کافر اور مرتد ہے۔ اس کی زکاۃ، صدقات کوئی بھی نیکی قبول نہیں کی جائے گی۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ
التوبة – 54
ان کے صدقات کی قبولیت کے سامنے صرف یہی بات آڑے آئی کہ انہوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ نمازوں کیلئے صرف سستی کرتے ہوئے آتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں تو انکے دل تنگی محسوس کرتے ہیں۔
چنانچہ اگر کافر سے دوسروں پر خرچ کی شکل میں کیا گیا احسان قبول نہیں ہو سکتا تو عبادت جو کہ محض ذاتی فعل ہے بالاولی قبول نہیں ہوگی۔ اس بنا پر جو شخص روزے رکھتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا تو وہ –نعوذ باللہ – کافر ہے۔ اسکے روزے اور دیگر تمام کی تمام عبادت باطل ہیں، قبول نہیں کی جائیں گی”۔6
چنانچہ اگر تارکِ نماز قربانی کرنا چاہتا ہے تو اس پر ضروری ہے کہ پہلے نمازیں ترک کرنے سے توبہ کرے اور اگر وہ اپنی روش پر ڈٹا رہتا ہے تو اسے اپنی قربانی پر ثواب نہیں ملےگا اور نہ ہی قبول ہوگی اور اگر اس نے خود اپنے ہاتھ سے قربانی ذبح کی تو وہ مردار ہوگی جسے کھانا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ مرتد کا ذبیحہ مردار اور حرام ہے۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
جو شخص نماز نہیں پڑھتا اسکے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور نہیں کھایا جائے گا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس لئے کہ یہ حرام ہے اور اگر یہودی یا عیسائی ذبح کر دے تو وہ ہمارے لئے حلال ہے۔ تو اس طرح سے –نعوذ باللہ- بے نمازی کا ذبیحہ یہودی اور عیسائی کے ذبیحہ سے بھی زیادہ خبیث ہے”۔7
سوال: قربانی كے جانور كے اوصاف كيا ہیں ؟
جواب : قربانی کے جانور کے اوصاف کے متعلق سیدنا ابو سعید خدری رضی الله عنہ بیان فرماتے ہیں :
ضَحَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ , فَحِيلٍ يَأْكُلُ فِي سَوَادٍ , وَيَمْشِي فِي سَوَادٍ , وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ “
(صحيح، ابن ماجة : 3128)
رسول اللہ ﷺ نے سینگ والے ایک نر مینڈھے کی قربانی کی۔ وہ سیاہی میں کھاتا تھا، سیاہی میں چلتا تھا اور سیاہی میں دیکھتا تھا ۔
مطلب یہ ہے کہ اس کے آنکھ کے اطراف میں کالا رنگ تھا اور اسی طرح اس کے پیروں میں اور دم کے پاس کے حصے میں اور پیٹ پر کالا پن موجود تھا۔ الغرض ہر اعتبارسے اچھا جانور لیں، قیمتی اور بھاری بھرکم اور خوبصورت جانور کا انتخاب کریں۔
سوال: قربانی كے جانور كس عمر كے ہونے ضروري ہیں ؟
جواب : قربانی کے جانور کی عمر جانور کی نسل کے اعتبار سے مختلف ہے۔ چنانچہ بھیڑ کی نسل میں جذعہ ہونا چاہیے یعنی: جو کم از کم آدھا سال مکمل کر چکا ہو۔ اگر ایک سال مکمل ہو تو زیادہ بہتر ہے)۔ اور بھیڑ کے علاوہ دیگر جانوروں (اونٹ ، گائے ، بکرے) میں سے ثنیہ (مُسِنَّہ) ہونا ضروری ہے کیونکہ نبیﷺ کا فرمان ہے: مُسِنَّہ ( یعنی دو دانت والا ) کے علاوہ کوئی اور ذبح نہ کرو لیکن اگر تمہیں مسنہ نہ ملے تو بھیڑ کا جذعہ ذبح کرلو‘‘۔8
مُسِنَّہ: ثنیہ ( یعنی دو دانت والا ) اور اس سے اوپر والی عمر کا ہوتا ہے اور جذعہ اس سے کم عمر کا ۔ لہٰذا:
اونٹ: پورے پانچ برس کا ہو تو وہ ثنیہ کہلائے گا ۔
گائے: کی عمر دو برس مکمل ہو تو وہ ثنیہ کہلائے گی ۔
بکری: جب ایک برس کی مکمّل ہو تو وہ ثنیہ کہلائے گی ۔
جذعہ: (باختلاف العلماء) کم از کم آدھا ورنہ ایک سال مکمل کرنے والے جانور کو کہتے ہیں ۔
لہذا اونٹ، گائے اور بکرے میں ثنیہ سے کم عمر کے جانورکی قربانی نہیں ہوگی اوراسی طرح بھیڑ میں سے جذعہ سے کم عمر کے جانور کی قربانی صحیح نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم۔9
سوال : قربانى كا جانور گر گيا اور مرنے سے قبل اسے ذبح كر ليا گيا تو كيا يہ قربانى شمار ہو جائے گى؟
جواب : اگر جانور نماَزِ عيد سے قبل ذبح كيا ہے تو يہ قربانى نہيں ہوگى كيونكہ قربانى كے ليے شرط يہ ہے كہ وہ قربانى كے ايام اور وقت ميں ذبح كى جائے اور وہ عيد كا دن اور اس كے بعد تين دن ہيں۔ چنانچہ سیدنا جندب بن سفيان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں عيد الاضحى كى نماز ميں نبى كريم ﷺ كے ساتھ حاضر ہوا۔ جب نبى كريم ﷺنے نمازِ عيد پڑھا لى تو ايك ذبح شدہ بكرى ديكھى تو نبى اکرم ﷺ نے فرمايا: جس نے بھى نمازِ عيد سے قبل بكرى ذبح كى تو وہ اُس كى جگہ ایک اور بكرى ذبح كرے اور جس نے ذبح نہيں كى وہ اللہ تعالى كا نام لے كر ذبح كرے”۔10
تو اس بنا پر اگر يہ جانور قربانى كا تھا تو اس كے بدلے اور ذبح كرنا ہو گا۔
سوال: كيا جانور كا خصی ہونا قربانی كے لئے عيب ہے؟
جواب : جانور کا خصی ہونا عیب نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
كانَ إذا أرادَ أن يضحِّيَ، اشتَرى كبشينِ عظيمينِ، سَمينينِ، أقرَنَيْنِ، أملَحينِ موجوءَينِ، فذبحَ أحدَهُما عن أمَّتِهِ، لمن شَهِدَ للهِ، بالتَّوحيدِ، وشَهِدَ لَهُ بالبلاغِ، وذبحَ الآخرَ عن محمَّدٍ، وعن آلِ محمَّدٍ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ ۔
(صحيح ابن ماجه: 2548)
رسول اللہ ﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو بڑے، موٹے، سینگ دار، چتکبرے، خصی کئے ہوئے مینڈھے خریدتے، ان میں سے ایک اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے ذبح فرماتے جو اللہ کی توحید اور آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں اور دوسرا محمد ﷺ اور آلِ محمد ﷺ کی طرف سے ذبح فرماتے۔
سوال: قربانی كے جانور ميں كون سے عيب نا قابلِ قبول ہيں؟
جواب : نبی کریم ﷺ سے جب یہ پوچھا گیا کہ قربانی کا جانور کن عیوب سے صاف ہونا چاہیے تو نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے فرمایا :
(قربانی کا جانور) چارعیوب سے (پاک ہونا چاہیے): وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو، آنکھ کے عیب والا جانورجس کی آنکھ کا عیب واضح ہو ، بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو اور وہ کمزور و ضعیف جانور جس کا گودا ہی نہ ہو (ایسے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے)۔11
سوال: قربانی كے جانور ميں كون سے عيب كراہت كے ساتھ قابلِ قبول ہيں؟
جواب : کان کٹے یا سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں ۔ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قربانی ہو جائے گی لیکن مکروہ ہے کیونکہ یہ جانور ناقصُ الخلقت ہے۔12
سوال : قربانی کے جانور کا خون اگر کپڑے پر لگ جائے تو کیا نماز ہو جاتی ہے؟
جواب: قربانی کے جانور کا خون اگر کپڑے پر لگ جائے تو نماز ہو جاتی ہے۔ اس بارے میں وہ واقعہ جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب “إذا ألقی علی ظهر المصلي قذرٌ أو جيفةٌ” کے تحت ذکر کیا ہے کہ عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیت اللہ کے پاس نماز ادا کر رہے تھے اور ابو جہل اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا ’’ کاش کوئی آج بنو فلاں کے جو اونٹ نحر ہوئے ہیں ان کی بچہ دانی لا کر محمد ﷺ کی پیٹھ پر ڈال دے‘‘ (والعیاذ باللہ) بچہ دانی میں خون وغیرہ بھی ہوتا ہے پھر ظالموں اور بدبختوں نے ایسا ہی کیا لیکن آپ ﷺ نے اپنی نماز مکمل کی۔
سوال: بکرا یا گائے قربانی کیلئے خریدی اور وہ جانور کھو گیا یا مر گیا تو کیا کرنا چاہئے؟ بکرے کے عوض بکرا خریدے یا گائے میں حصہ ڈالے؟ یا قربانی ہوگئی؟
جواب: قربانی ہوگئی۔ اس کے عوض بکرا خریدنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہاں! مزید ثواب کیلئے کرے تو کوئی حرج بھی نہیں۔13
سوال: قربانی كا جانور عيب دار ہو جائے تو كيا بدل دينا جائز ہے ؟
جواب : اگر وہ ( قربانی کا جانور ) عیب دار ہوگئی اور اسے ذبح کر دیا تو اس کی قربانی ہو جائے گی۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں اس کی مثال یہ ہے کہ :
ایک شخص نے قربانی کا جانور خریدا اوراس کی تعیین کے بعد پھر اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور وہ صحیح جانوروں کے ساتھ چلنے سے قاصر ہوگیا تو اس حالت میں وہ ذبح کرے تو یہ قربانی ادا ہو جائے گی۔ اس لیے کہ جب اس کی تعیین کر دی گئي تو وہ اس کے پاس امانت ہوگئی جس طرح کہ کوئی چيزامانت رکھی جاتی ہے اور جب وہ امانت ہے اور یہ اس میں عیب بھی اس کے فعل سے پیدا نہیں ہوا یا اس کی زيادتی سے نہيں تو اس پر کوئي ضمان نہيں اور یہ قربانی ادا ہو جائے گي۔14
سوال : اگر قربانی سے قبل [بسم الله والله أکبر ] پڑھنا بھول گئے تو قربانی پر کوئی اثر ہوگا یا نہیں ؟
جواب : اگر قربانی سے قبل [بسم الله والله أکبر] پڑھنا بھول گئے تو قربانی پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ ان شاء اللہ۔ البتہ بحکمِ باری تعالی:
فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ
الانعام – 118
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ
الانعام – 112
ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر’’بسم اللہ واللہ اکبر‘‘ نہ پڑھنے سے قربانی نہیں ہوگی۔واللہ اعلم
سوال: "بسم اللہ و اللہ اکبر" قصائی کہے گا یا قربانی کرنے والا ؟
جواب: جانور ذبح کرتے ہوئے اس شخص کا “بسم اللہ و اللہ اکبر” پڑھنا معتبر ہوگا جو ذبح کر رہا ہے۔ یعنی قصاب اور قصائی وغیرہ جو ذبح کرتے ہیں وہ تسمیہ پڑھیں۔ قربانی کے مالک کی طرف سے پڑھی ہوئی تسمیہ معتبر نہیں ہے۔15
سوال: کیا ذبح کرتے وقت یہ کہنا کہ "یہ قربانی فلاں کی طرف سے ہے" واجب ہے؟
جواب: ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الف: ذبح کرتے وقت یہ کہنا کہ “یہ قربانی فلاں کی طرف سے ہے” افضل ہے۔
ب: اور اگر کوئی نا کہے تو نیت ہی کافی ہوگی۔16
سوال : حاملہ جانور کی قربانی کا کیا حکم ہے ؟
جواب : حاملہ جانور کے پیٹ میں موجود بچہ اُس کی ماں کو ذبح کرنے سے حلال ہو جائے گا۔17 مذکورہ حدیث کی روشنی میں واضح ہوا پیٹ میں موجود بچہ ہر حال میں حلال ہے۔ نیز مذکورہ حدیث کی روشنی میں جانور کے حاملہ ہونے کا علم ذبح سے پہلے ہو جائے تو اُس کے بعد بھی اُس کی قربانی صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔
سوال: قربانی كے جانور ميں شركت كا كيا حكم ہے؟
جواب : اگر اونٹ يا گائے كى قربانى ہو تو اس ميں حصہ ڈالا جا سكتا ہے ليكن اگر بكرى اور بھيڑ يا دنبہ كى قربانى كى جائے تو پھر اس ميں حصہ نہيں ڈالا جا سكتا اور ايك گائے يا ايک اونٹ ميں سات حصہ دار شريك ہو سكتے ہيں۔ صحابہ كرام رضى اللہ عنہم سے حج يا عمرہ كى ھدى ميں ايک اونٹ يا گائے ميں سات افراد كا شريك ہونا ثابت ہے۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں: ہم نے حديبيہ ميں رسول كريم ﷺ كے ساتھ ايك اونٹ اور ايك گائے سات سات افراد كى جانب سے ذبح كى تھى “۔18
اور ايک روايت ميں ہے كہ جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
ہم نے رسول كريم ﷺ كے ساتھ حج كيا اور ايک اونٹ اور ايک گائے سات افراد كى جانب سے ذبح كی “۔
اور ابو داود كى روايت ميں ہے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم ﷺنے فرمايا:
“گائے سات افراد كى جانب سے ہے اور اونٹ سات افراد كى جانب سے”۔19
امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں رقمطراز ہيں:
“ان احاديث ميں قربانى كے جانور ميں حصہ ڈالنے كى دليل پائى جاتى ہے اور علماء اس پر متفق ہيں كہ بكرے ميں حصہ ڈالنا جائز نہيں اور ان احاديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ ايک اونٹ سات افراد كى جانب سے كافى ہوگا اور گائے بھى سات افراد كى جانب سے اور ہر ايک سات بكريوں كے قائم مقام ہے حتى كہ اگر محرم شخص پر شكار كے فديہ كے علاوہ سات دم ہوں تو وہ ايک گائے يا اونٹ نحر كر دے تو سب سے كفایت كر جائے گا ” انتہى مختصرا۔
اور مستقل فتوى كميٹى سے قربانى ميں حصہ ڈالنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
“ايک اونٹ اور ايک گائے سات افراد كى جانب سے كفایت كرتى ہے چاہے وہ ايک ہى گھر كے افراد ہوں يا پھر مختلف گھروں كے اور چاہے ان كے مابين كوئى قرابت و رشتہ دارى ہو يا نہ ہو كيونكہ نبى كريم ﷺ نے صحابہ كرام كو ايک گائے اور ايک اونٹ ميں سات افراد شريک ہونے كى اجازت دى تھى اور اس ميں كوئى فرق نہيں كيا ” انتہى۔20
اور ” احكام الاضحيۃ ” ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
“اور بكرى ايک شخص كى جانب سے كفایت كرے گى اور اونٹ يا گائے ان سات افراد كى جانب سے كافى ہے جن كى جانب سے سات بكرياں كفائت كرتى ہيں ” انتہى.
يعنى سات حصے ہونگے۔
سوال : كيا قربانى كا جانور فروخت كيا جاسكتا ہے؟
اگر انسان قربانى كى نيت سے كوئى جانور خريدے تو پهر اسے فروخت كرنا درست نہيں كيونكہ اب وہ جانور اللہ تعالىٰ كا ہو چكا ہے اب اسے صرف اللہ كے ليے قربان كرنا ہى ضرورى ہے جيسے وقف شدہ مال كو نہ فروخت كرنا جائز ہے نہ ہبہ كرنا جائز ہے اور نہ ہى وراثت ميں تقسيم كرنا جائزہے بلكہ اسے اللہ ہى كے ليے صرف كرنا ضرورى ہے۔efn_note](مسلم :4224) [/efn_note]
ہاں اگر اسے فروخت كرنے سے مقصود اسے تبديل كرنا ہے تو درست ہے۔ مثلا: اگر كوئى شخص بكرى خريد لايا ہے ليكن پهر وہ اسے فروخت كر كے گائے خريدنا چاہتا ہے تو يہ درست ہے كيونكہ يہ افضل قربانى كى طرف پيش رفت ہے- اور اس صورت ميں بھی فروخت كرنا جائز ہے كہ اگر جانور خريدنے كے بعد علم ہو كہ يہ بيمار ہے يا اس ميں كوئى ايسا نقص ہے جس كى وجہ سے يہ قربانى كے قابل نہيں تو اسے فروخت كر كے دوسرا جانور خريدا جا سكتا ہے۔
سوال: كيا مشترکہ جانور كا سات حصہ ہونا ضروری ہے؟
جواب : مشترکہ جانور کا سات حصے ہونا ضروری نہیں ہے ۔ بڑے جانور میں سات افراد سے کم (پانچ، چار، تین اور دو افراد ) کی شرکت جائز ہے تاہم جتنے افراد ہوں ان میں سے کسی کا بھی حصہ ایک سے کم نہ ہو۔
سوال : قربانى كتنے دنوں تک كى جاسكتى ہے؟
جواب : عيد الاضحى اور اس كے بعد تين دن یعنى تيرہ 13/ذو الحجہ كى شام تك قربانى كى جاسكتى ہے كيونكہ عيد الاضحى كے بعد 11،12،13 ذو الحجہ كے دنوں كو ايامِ تشريق كہتے ہيں–21
اور تمام ايامِ تشريق كو ذبح كے دن قرار ديا گيا ہے جس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے: (عن جبير ين مطعم عن النبي ! :كل أيام التشريق ذبح) “تمام ايام تشريق ذبح كے دن ہيں-” 22
سوال : ہدیہ و تحفہ میں دیا گیا قربانی کا جانور یا پیسے کا کیا حکم ہے ؟
آج کل صاحبِ حیثیت و ثروت لوگ یا خیراتی ادارے جانور خرید کر یا اس کی قیمت مستحقین میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ وہ بھی قربانی کرسکیں۔ ایسی قربانی کا جانور یا پیسہ مستحقین کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ کی توفیق سے ہدیہ کرنے والے اور قربانی کرنے والے دونوں کو اجر و ثواب ملے گا۔نبی ﷺ نے بھی صحابہ کو قربانی عطا فرمائی تھی۔ عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:
نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم کئے ۔ سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ آیا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میرے حصہ میں تو ایک سال سے کم کا بچہ آیا ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم اسی کی قربانی کر لو۔23
سوال: قربانی كا وقت كب سے كب تک ہے؟
یہ وقت دس ذی الحجہ کو نمازِ عید کے بعد سے شروع ہو کر ایامِ تشریق (13،12،11) کے آخری دن (13 ذو الحجہ، بقرعید کے چوتھے دن) کےسورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے تو اس طرح قربانی و ذبح کرنے کے چار دن ہیں۔ عید کے دن نمازِ عید کے بعد اوراس کے بعد تین دن یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذو الحجہ کے ایام ۔ لہذا جس نے بھی مذکورہ وقت کے درمیان قربانی کی تو اُس کی قربانی صحیح ہوگی ۔
سوال: قربانی کا جانور ذبح کرنے كے آداب اور طريقہ كيا ہے؟
جواب : قربانی کے جانور ذبح کرنے کے آداب میں درج ذیل باتوں پر خاص توجہ دی جائے ۔
- جانور ذبح کرنے والا عاقل و بالغ مسلمان ہو۔
- قربانی کے جانور کو گھسیٹ کر ذبح کرنے کی جگہ نہ لایا جائے۔
- ذبح سے قبل اسے پانی پلانا۔ یہ امور صحیح مسلم ’’ کتا ب الصيد والذبائح ‘‘ میں موجود روایت سے ثابت ہوتے ہیں۔
- جانور کو ذبح کرنے سے پہلے چھری کو خوب تیز کر لیا جائے24
- جانور کے سامنے چھری تیز نہ کیا جائے25
- جانور کو قبلہ رخ کرلینا بھی محبوب عمل ہے اور آداب میں شامل ہے26
- اونٹ کے علاوہ دوسرے جانور کو لٹا کر ذبح کرنا27
- ذبح کرتے وقت ذبیحہ کے پہلو پر قدم رکھنا28
- جانور ذبح کرنے سے پہلے دعا پڑھنا29
- عيد گاہ ميں قربانى كى جائے كيونكہ رسول اللہ ﷺ كا يہى معمول تھا جيسا كہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں كہ:
كان رسول الله ﷺ يذبح وينحر بالمصلى
صحیح بخاری – 5552
“رسول الله ﷺ قربانى کا جانورعید گاہ میں ذبح اور نحر كيا كرتے تھے-“
- اونٹ کو کھڑے کھڑے نحر کرنا۔30
نبی کریم ﷺ کے عمل کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب آپ ﷺ نے اونٹ ذبح کئے تو کھڑے نحر فرمایا تھا۔31
سوال: كيا قربانی كا جانور خود ذبح كرنا ضروری ہے؟
جواب : افضل یہ ہے کہ انسان خود ذبح کرے. اگر کسی کو وکیل بنا دے تو بھی جائز ہے. نبی کریم ﷺ نے خود اونٹ (نحر) ذبح فرمائے. باقی کو ذبح کرنے کے لئے حضرت علی کو مقرر فرمایا جو اس بات کی دلیل ہے کہ کسی دوسرے کو بھی ذبح کرنے کے لئے مقرر کیا جا سکتا ہے۔32
سوال: كيا عورت كے لئے قربانی كا جانور ذبح كرنا جائز ہے؟
جواب : خواتین بھی قربانی کا جانور ذبح کر سکتیں ہیں۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو حکم دیتے کہ وہ اپنی قربانیاں خود ذبح کریں‘‘۔33
سوال: كيا قربانی كے وقت كوئی مخصوص دعا ہے؟
جواب : قربانی ذبح کرتے وقت تکبیر پڑھنا اور دیگر دعائیں پڑھنا سنت سے ثابت ہے ۔ تکبیر ان الفاظ میں پڑھی جائے: ’’بسم اللہ واللہ اکبر‘‘۔34
اور مندرجہ ذیل دعا پڑھنا سنت سے ثابت ہے :
إنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَاْلأَرْضِ حَنِيْفًا وَمَآ أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ، إِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلهِ رَبِّ العَالَمِيْنَ، لَاشَرِيْكَ لَهُ وَ بِذالِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ، بِاسْمِ اللهِ وَ اللهُ أَكْبَرُ۔أَللّٰهُمَّ هٰذَا مِنْكَ وَ لَكَ أَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ (وَمِنْ أَهْلِ بَيْتِيْ)”۔35
سوال: كيا ذبح كے وقت قربانی كرنے والے كا نام لينا ضروری ہے؟
جواب : اجتماعی قربانی کی صورت میں ذبح کرتے وقت حصہ دار شریک افراد کا نام لینا ضروری نہیں بلکہ نامزدگی ہی کافی ہے اور ان کی موجودگی بھی ضروری نہیں۔ اس سلسلہ میں ایک روایت جو نقل کی جاتی ہے کہ تمام شریک افراد ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑیں اور آخری ساتواں شخص چھری چلائے۔ یہ روایت سنداً صحیح نہیں ہے بلکہ کئی روایات میں گائے میں سات افراد اور اونٹ میں دس افراد کی شرکت کا ذکر آیا ہے۔ ان روایات کا تقاضہ یہ ہے کہ نامزدگی کفایت کر جائے گی البتہ نام لینا مستحب ہے۔ والله أعلم بالصواب۔
سوال: كيا ايک بكری يا ايک حصہ پورے گھر والوں كی طرف سے جائز ہے؟
جواب : جی ہاں! ایک فرد کی جانب سے ایک جانور کی قربانی پورے گھرانے کو کفایت کر جاتی ہے: قربانی کا ایک جانور خواہ بکرا/بکری ہی کیوں نہ ہو ایک گھرانہ کے تمام افراد کی طرف سے کافی ہے۔36
ایک گھرانے کا مطلب یہ ہے کہ گھر کے تمام افراد قربانی کرنے والے کے ساتھ ہی رہتے ہوں اور قربانی کرنے والا ان سب کے خرچہ کا ذمہ دار ہو نیز وہ سارے رشتہ دار ہوں۔ جس کا چولہا الگ ہو وہ الگ قربانی کرے گا۔
عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھیں؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا۔ وہ لوگ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ (کثرتِ قربانی پر) فخر کرنے لگے اوراب یہ صورت حال ہوگئی جو دیکھ رہے ہو۔37
سوال: كيا والدين سے الگ رہنے والے بيٹے كی ايک قربانی سب كی طرف سے كافی ہوگی؟
جواب: اگر ایک ہی خاندان کے لوگ رہائش اور نفقہ میں اکٹھے ہوں تو انہیں ایک ہی قربانی کافی ہوگی۔
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
“اگر خاندان کے افراد زیادہ ہوں اور سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں تو ان سب کی طرف سے ایک ہی قربانی کافی ہوگی اور اگر ایک سے زائد قربانی کریں تو یہ افضل ہے”۔38
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد کوایک ہی قربانی کافی ہے چاہے انکی تعداد زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ [مثلاً] سب بھائی ایک جگہ ہیں اور اکٹھے کھانا تیار ہوتا ہے، ان کا مکان ایک ہی ہے تو انکی قربانی بھی ایک ہی ہوگی چاہے سب کی متعدد بیویاں ہوں۔ اسی طرح والد کا اپنے بیٹوں کیساتھ حکم ہے چاہے اسکے بیٹے شادی شدہ ہوں تو ان کی قربانی بھی ایک ہی ہوگی”۔39
اگر بیٹا اپنے والد کیساتھ ایک ہی مکان میں رہتا ہے تو اس کے والدین سمیت سارے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کافی ہو جائے گی۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
’’ اگر میرے والدین کے ساتھـ میری بیوی ایک ہی گھر میں رہتی ہو تو کیا عید الاضحی میں میرے اور میرے والدین کی جانب سے ایک قربانی کرنا کافی ہوگا یا نہیں‘‘؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“اگر حقیقت اسی طرح ہو جیسا کہ آپ نے والد اور اس کے بیٹے کا ایک ہی گھر میں ہونے کا ذکر کیا ہے تو ایک ہی قربانی آپ کی، آپ کے والد و والدہ اور آپ کی بیوی کی طرف سے کافی ہے اور تم دونوں [ باپ ، بیٹے] کے اہل خانہ کی جانب سے سنت کی ادائیگی کے لئے ایک قربانی کافی ہے”۔40
اور اس بات میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ اپنے والد کو اپنی طرف سے اور تمام اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرنے کیلئے ذمہ داری سونپتے ہوئے قیمت ادا کر دیں تاکہ وہ سب کی طرف سے قربانی کریں۔
ایسے ہی آپ انہیں قربانی کی قیمت تحفۃً بھی دے سکتے ہیں تاکہ وہ اس قیمت سے اپنی طرف سے اور انکے ساتھ رہنے والے اہلِ خانہ [جن میں آپ بھی شامل ہیں] کی جانب سے قربانی کریں۔ اگرچہ افضل یہی ہے کہ قربانی آپ کی طرف سے ہو کیونکہ اصل میں مال آپ کا ہے اور والد صاحب کو جتنی ضرورت ہو آپ انہیں دے دیں۔
اور اگر آپ اپنے گھر میں الگ رہتے ہیں اور آپکے والد الگ گھر میں رہتے ہیں تو پھر آپ اپنی طرف سے اور والد کی طرف سے ایک قربانی نہیں کرسکتے۔ چنانچہ آپ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کریں جبکہ آپ کے والد پر استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں ہوگی۔
سوال: قرض كی ادائيگی اور قربانی ميں سے كس كو ترجيح حاصل ہوگی؟
- قرض كی ادائيگی اور قربانی ميں سے قرض کی ادائیگی كو ترجيح حاصل ہوگی کیونکہ قرض کی ادائیگی واجب ہے جبکہ قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ اس لئے سنت مؤکدہ کو واجب پر ترجیح نہیں دی جائے گی بلکہ جن اہل علم کے ہاں قربانی کرنا واجب ہے ان کے ہاں بھی قرض کی ادائیگی کو ہی ترجیح دی جائے گی کیونکہ ان کے ہاں قربانی اسی شخص پر واجب ہے جو قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اور مقروض شخص کے پاس قربانی کی استطاعت ہی نہیں ہوتی۔
- قرض کی ادائیگی سے واجبات میں کمی ہوگی جبکہ قربانی کرنے سے ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگا اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ واجبات میں کمی کو ذمہ داریوں میں اضافے پر ترجیح دی جاتی ہے۔
- قرض حقوق العباد میں شامل ہے جبکہ قربانی اللہ تعالی کا ایسا مندوب حق ہے جس میں بہت وسعت ہے۔ ایسی صورت میں حقوق العباد کو ترجیح دی جاتی ہے۔
- قرضہ باقی رہنے کی وجہ سے بہت سے خطرات منڈلاتے رہیں گے کیونکہ اگر اللہ تعالی قیامت کے دن مقروض شخص کی طرف سے قرضہ نہ چکائے تو پھر مقروض کی نیکیاں قرض خواہ کو دے دی جائیں گی اور یہ انتہائی خطرناک بات ہے کیونکہ اس دن ہر مسلمان ایک ایک نیکی کے لئے ترسے گا۔
سوال : قرض لیكر یا جو مقروض ہو اس کا قربانی کرنا کیسا ہے ؟
جواب: جس میں قربانی کی وسعت و طاقت ہو وہی قربانی کرے اور جو قربانی کی طاقت نہیں رکھتا اسے رخصت ہے اس لئے قربانی کی خاطر قرض لینا ضروری نہیں۔ جو ہمیشہ سے قربانی کرتے آ رہا ہو اچانک غریب ہو جائے یا قرضے میں ڈوب جائے اسے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور قرض کے بوجھ سے قربانی نہیں کرنا چاہئے بلکہ فراخی و وسعت کے لئے اللہ سے دعا کرنا چاہئے۔ اگر کوئی معمولی طور پر مقروض ہو اور قرض چکانے اور قربانی کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے قربانی کرنی چاہئے۔ اسی طرح اچانک عید الاضحی کے موقع پر کسی کا ہاتھ خالی ہو جائے اور کہیں سے پیسے آنے کی بھی امید ہواور ایسے شخص کو بآسانی قرض مل جائے تو قربانی کرنی چاہئے کیونکہ اس کے پاس پیسہ ہے مگر ہاتھ میں موجود نہیں ہے ۔ واللہ اعلم
سوال : قربانی کرنے والا کس چيز سے اجتناب کرے؟
جواب : شیخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
جب کوئی شخص قربانی کرنا چاہے اورچاند نظرآنے یا ذی القعدہ کے تیس دن پورے ہونے کی بنا پرذی الحجہ کا مہینہ شروع ہو جائے تو قربانی ذبح کرنے تک اس کے لیے اپنے بال اور ناخن یا جلد وغیرہ سے کچھ کاٹنا حرام ہے۔ اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے۔
ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جب عشرہ ( ذی الحجہ ) شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کٹوائے۔41
سوال: قربانی كا گوشت: كيا كرنا چاہئیے ؟
قربانی کرنے والے کے لیے قربانی کا گوشت کھانا اوراسے ھدیہ دینا اورصدقہ کرنا مشروع ہے اس کی دلیل مندرجہ ذیل آیت ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ
الحج – 36
لہذا تم اس میں سے خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کوبھی کھلاؤ ۔
اور ایک دوسرے مقام پرکچھ اس طرح فرمایا :
تم اس میں سے خود بھی کھاؤ اور مسکین سوال کرنے اور سوال نہ کرنے والے کو بھی کھلاؤ۔ اسی طرح ہم نے چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر دیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو ۔
“القانع” وہ محتاج ہے جو سوال کرے اور ” المعتر” وہ ہے جسے بغیر سوال کے عطیہ دیا جائے ۔
سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :
( کھاؤ اور کھلاؤ اور ذخیرہ بھی کرو )۔42
اطعام یعنی کھلانے میں غنی لوگوں کو ھدیہ دینا اور فقراء و مساکین پرصدقہ کرنا شامل ہے ۔
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
( کھاؤ اور ذخیرہ کرو اور صدقہ بھی کرو )۔43
سوال: كيا قربانی كا گوشت تين حصوں ميں تقسيم كرنا ضروری ہے؟
جواب: قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے البتہ مستحسن ضرور ہے۔ قربانی کی اصل کھانا اور کھلانا ہے۔ قربانی کا گوشت خود بھی کھائیں، ذخیرہ و جمع کریں، عزیز و اقارب ، دوست احباب کو ہدیہ بھی دیں اور غربا، مساکین و مستحقین میں صدقہ بھی کریں ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ
الحج – 36
پس ان (کے گوشت) سے کھاؤ اور نہ مانگنے اور مانگنے والے (دونوں) کو کھلاؤ‘‘۔
سوال: كيا كسی غير مسلم كو قربانی كا گوشت دے سكتے ہيں؟
غیر مسلم کو عیدِ قربان کی قربانی کا گوشت دینا جائز ہے اور اگر غیر مسلم آپ کا رشتہ دار یا پڑوسی ہو یا پھر غریب ہو تو خصوصی طور پر انہیں دینا جائز ہے۔
اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
الممتحنة – 8
اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کیساتھ احسان اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے جنگ نہیں لڑتے اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کرتے۔ بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اور عیدِ قربان پر کی جانے والی قربانی کا گوشت انہیں دینا بھی اسی احسان میں شامل ہے جس کی اللہ تعالی نے ہمیں اجازت دی ہے۔
مجاہد سے مروی ہے: عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے گھر ان کے لئے ایک بکری ذبح کی گئی چنانچہ جب وہ تشریف لائے تو انہوں سے پوچھا: کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو اس میں سے تحفہ دیا ہے؟ کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو اس میں سے تحفہ دیا ہے؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا: جبریل مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ اب اسے وارث ہی بنا دے گا۔44
اور اس لئے کہ نبی ﷺ نے اسماء بنت ابو بکر رضی الله عنہا کو حکم فرمایا تھا کہ وہ اپنی والدہ کا مالی تعاون کر کے انکے ساتھ صلہ رحمی کریں حالانکہ وہ مصالحت [صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ کے درمیان کا عرصہ] کے وقت مشرکہ تھیں”انتہی
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“ایسا کافر جس کیساتھ ہماری لڑائی نہیں ہے مثلا: جس نے ہمارے پاس پناہ لے رکھی ہو یا اسکے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو تو اسے عید قربان کی قربانی اور صدقہ سے دیا جائے گا۔45
سوال: كيا قربانی كا گوشت تين دن سے زياده ركھنا درست ہے؟
جواب: قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ محفوظ ( سٹور) و ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ فرمانِ رسول ﷺ ہے: میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرنے سے منع کیا تھا لیکن اب جتنا ذخیرہ کرنا چاہو کرسکتے ہو‘‘۔46
اور قربانی کی کھال کا مصرف بھی گوشت کی طرح ہی ہے ۔
سوال : عید کی قربانی کرے یا اپنے قریبی رشتہ دار کو علاج کیلئے قربانی کی رقم دے دے؟
جواب : اصولی طور پر قربانی کی رقم صدقہ کرنے سے قربانی کرنا افضل ہے کیونکہ قربانی کرنے سے جانور ذبح کر کے اس کا گوشت صدقہ کیا جاتا ہے اور اس سے قربِ الہی تلاش کیا جاتا ہے۔ نیز اہلِ خانہ اور بچوں سمیت معاشرے میں بھی قربانی جیسے شعار کا احیا ہوتا ہے کیونکہ قربانی بھی اسلام کا شعار ہے۔
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
“مسلمان کا اپنی جانب سے اور اپنے زندہ اہلِ خانہ کی جانب سے قربانی کرنا صاحب استطاعت کیلئے سنتِ مؤکدہ ہے اس لیے قربانی ذبح کرنا قربانی کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے”۔47
لیکن چونکہ قربانی سنتِ مؤکدہ ہے اور اگر رشتہ دار بیمار ہے اور اسے علاج معالجے اور ادویات کی اشد ضرورت ہے تو اس کی بیماری کیلئےعطیہ دینا اور اس کے علاج کیلئے تعاون کی کوشش کرنا قربانی کرنے سے افضل ہے اور اگر مرض کی نوعیت شدید قسم کی ہو اور اس کی اعانت کرنے والا رشتہ دار یا دوست احباب کوئی نہ ہوں تو پھر ان کی مدد کرنا لازمی ہو جائے گا۔
عمران بن مسلم ، سوید بن غفلہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: “اگر میں عید کی قربانی کی رقم کسی یتیم پر خرچ کروں یا خاکسار غریب کو دوں تو یہ میرے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ محبوب ہے”۔48
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اگر معاملہ قربانی کرنے اور کسی غریب کا قرضہ چکانے کے درمیان الجھا ہوا ہو تو پھر غریب کا قرضہ چکانا زیادہ بہتر ہے خصوصاً اگر مقروض شخص قریبی رشتہ داروں میں سے ہو”۔49
سوال : كيا قربانى كا جانور خريدنے كے ليے قرض ليا جا سكتا ہے ؟
جواب : قربانى كا جانور خريدنے كے ليے قرض لينا واجب نہيں كيونكہ قربانى مالدار ہونے كے بغير قربانى واجب نہيں ہوتى اس پر علماء كا اتفاق ہے. البتہ قربانى كا جانور خريدنے كے ليے قرض حاصل كرنا مستحب ہے ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ اگر اسے اميد ہو كہ وہ قرض واپس كر سكے گا۔ مثلا: اگر كوئى شخص ملازم ہے اور اپنى تنخواہ آنے تك قرض حاصل كرلے ليكن اگر اسے قرض كى ادائيگى كى اميد نہيں تو پھر اس كے ليے افضل و اولى يہى ہے كہ وہ قرض حاصل نہ كرے كيونكہ وہ ايسى چيز كے ليے اپنے ذمہ قرض لے رہا ہے جو چيز اس پر واجب ہى نہيں ہے۔
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال كيا گيا:
كيا استطاعت نہ ركھنے والے شخص پر قربانى كرنى واجب ہے اور كيا تنخواہ كى وجہ سے وہ قربانى كرنے كے ليے قرض حاصل كرسكتا ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
“قربانى كرنا سنت ہے واجب نہيں۔ مسلمان شخص كو اگر علم ہو كہ وہ قرض كى ادائيگى كى استطاعت ركھتا ہے تو قربانى كے ليے قرض لينے ميں كوئى حرج نہيں ہے”۔50
سوال : عید کی قربانی میں بیٹے اور بیٹی کے عقیقے کی نیت سے ذبح کرنا کیسا ہے؟
جواب : راجح یہ ہے کہ عقیقے میں شراکت داری جائز نہیں ہے کیونکہ عقیقے میں شراکت کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ عید کی قربانی کے متعلق شراکت کا ذکر ملتا ہے۔ ویسے بھی عقیقہ پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے فدیہ ہوتا ہے اس لیے جس طرح بچہ ایک مکمل جان ہے اسی طرح فدیہ میں ذبح کیا جانے والا جانور بھی مکمل ہونا چاہیے لہذا عقیقے میں مکمل گائے یا مکمل اونٹ یا مکمل بکری ہی ذبح کرنا کافی ہو گا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 428) میں کہتے ہیں: “اونٹ یا گائے سات افراد کی طرف سے قربانی کیلئے کافی ہوتے ہیں لیکن اس میں عقیقہ کو مستثنیٰ رکھا جائے گا کیونکہ عقیقے میں مکمل ایک اونٹ ہونا ضروری ہے لیکن پھر بھی عقیقے میں چھوٹا جانور [بکرا، بکری] ذبح کرنا افضل ہے کیونکہ عقیقے میں بچے کی جان کا فدیہ دینا ہوتا ہے اور فدیہ مکمل جانور سے ہی ممکن ہے۔ لہذا پوری جان کے بدلے میں پورا جانور ذبح کیا جائے گا۔
سوال : چوپائیوں ( بھيڑ، بكرى، گائے اور اونٹ ) كے علاوہ بڑی مچھلی ، گھوڑا ، ہرن، نيل گائے اور جنگلى گائے كى قربانى جائز ہے؟
جواب : بڑى مچھلى يا گھوڑے يا ہرن، نيل گائے یا جنگلى گائے يا مرغى كى قربانى نہيں كى جا سكتى كيونكہ قربانى كى شروط ميں ہے : وہ {بھيمۃ الانعام} ميں سے ہو اور يہ اونٹ، گائے، بكرى كى نوع و اقسام ميں سے ہے كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ
الحج – 34
اور ہم نے ہر امت كے ليے قربانى كا ايك دن مقرر كيا ہے تاكہ اللہ تعالى نے انہيں جو جانور ( بھيمۃ الانعام ) بطور روزى ديا ہے وہ اسے اللہ كا نام لے كر ذبح كريں۔
اور پھر نبى كريم ﷺ اور ان كے كسى صحابى سے بھى ان جانوروں كے علاوہ كسى اور جانور كى قربانى كرنا منقول نہيں ہے۔51
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ” قربانى جائز ہونے كى شرط يہ ہے كہ وہ جانور{ بھيمۃ الانعام} يعنى اونٹ، گائے، بكرى اور بھيڑ ميں سے ہو۔ اس ميں اونٹ، گائے اور بكرى اور بھيڑ اور دنبے كى سب اقسام برابر ہيں۔ ان جانوروں كے علاوہ كسى اور وحشى جانور كى قربانى كرنا جائز نہيں مثلا نيل گائے اور جنگلى گائے اس ميں كسى بھى قسم كا اختلاف نہيں۔ ان جانوروں ميں سے چاہے نر ہو يا مادہ اس ميں ہمارے نزديك كسى بھى قسم كا اختلاف نہيں ہے …
اسى طرح ہرن اور بكرى دونوں كو ملا كر جو نسل پيدا ہو اس كى قربانى كرنا بھى جائز نہيں كيونكہ يہ {بھيمۃ الانعام} ميں شامل نہيں ہوتى”۔52
اور اس ليے بھى كہ قربانى بھى حج ميں قربان كيے والے جانور جسے ھدى كہا جاتا ہے كى طرح ہى ہے اس ليے اس ميں بھى وہى جانور مشروع ہوگا جو رسولِ كريم ﷺ سے مروى ہے اور نبى كريم ﷺ سے كہيں بھى يہ منقول نہيں كہ آپ ﷺ نے اونٹ يا گائے يا بكرى كے علاوہ كوئى جانور قربانى كيا ہو “
سوال : دو الگ الگ گھروں میں رہنے والے بھائی ایک قربانی میں شریک ہو سکتے ہیں؟
جواب : گھر کے افراد میں بیوی، بچے اور اسی طرح وہ رشتہ دار بھی گھر کے افراد میں شامل ہیں جو اسی گھر میں ایک ہی سربراہ کی کفالت میں رہتے ہیں یا پھر کھانے پینے کے اخراجات میں اپنا حصہ ڈال کے ایک جگہ کھاتے پیتے ہیں۔
لیکن جو افراد الگ گھر میں رہتے ہوں یا گھر تو ایک ہو لیکن چولہا الگ ہو تو پھر ایک بکری دونوں کی طرف سے جائز نہیں ہو گی۔ ان کیلئے الگ الگ قربانی کرنا جائز ہے۔
سوال: قربانی ذبح کرتے وقت نیت کے الفاظ کی ادائيگی کرنا کیسا ہے ؟
جواب : نیت کی جگہ و محل دل ہے لہٰذا جو بھی قصد اور ارادہ کرے وہ دل میں ہی ہونا چاہیے اور زبان سے الفاظ کی ادائيگی نہ کرے بلکہ ذبح کرتے وقت ” بسم اللہ اللہ اکبر ” کہے۔ اس کی دلیل بخاری ومسلم کی یہ حدیث ہے: انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنے ہاتھ سے دومینڈھے ذبح کیے اور بسم اللہ اللہ اکبر کہا۔53
اوراس میں کوئی مانع نہيں کہ آپ یہ کہہ لیں اے اللہ! یہ قربانی میرے والد کی جانب سے ہے اور یہ نیت کی الفاظ کی ادائيگی نہيں ۔
كنَّا معَ رسولِ اللهِ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ في سفرٍ ، فحضرَ الأضحى ، فاشترَكنا في الجزورِ عن عشرةٍ ، والبقرةِ عن سبعةٍ.
صحیح ابن ماجہ – 2553
سوال : قربانى كا گوشت كيسے تقسيم كيا جائے؟
جواب : بعض علماء نے كہا ہے كہ قربانى كا گوشت تقسيم كرنے كا افضل طريقہ يہ ہے كہ گوشت كے تين حصے كيے جائيں – ايك حصہ خود كهايا جائے، دوسرا حصہ اپنے اقرباء اور دوست احباب وغيرہ كو كهلا ديا جائے اور تيسرا حصہ غرباء و مساكين ميں تقسيم كر ديا جائے- امام احمد رحمہ اللہ بھی اسى كے قائل ہيں- ان حضرات كى دليل ابن عمر سے مروى يہ قول ہے كہ انہوں نے كہا كہ: ” قربانيوں كا تيسرا حصہ تمہارے ليے ہے اور تيسرا حصہ تمہارے گھر والوں كے ليے ہے اور تيسرا حصہ مساكين كے ليے ہے-54
اگرچہ علماء نے اس تقسيم كو افضل كہا ہے ليكن يہ تقسيم ضرورى نہيں ہے بلكہ حسب ِضرورت حالات كے مطابق بھی گوشت تقسيم كيا جاسكتا ہے۔ يعنى اگر فقراء و مساكين زيادہ ہوں تو زيادہ گوشت صدقہ كر دينا چاہيے اور اگر ايسا نہ ہو بلكہ اكثر و بيشتر لوگ خوشحال ہوں تو زيادہ گوشت خود بھی استعمال كيا جاسكتا ہے اور اسى طرح آئندہ ايام كے ليے ذخيرہ بھی كيا جاسكتا ہے كيونكہ قرآن ميں مطلقاً قربانى كا گوشت كهانے اور كهلانے كا حكم ديا گيا ہے۔
سوال: قربانى كى كھالوں كا مصرف کیا ہے ؟
جواب: قربانى كى کھالوں كا بھی وہى مصرف ہے جو قربانى كے گوشت كا ہے يعنى جيسے قربانى كا گوشت خود بھی كهايا جا سكتا ہے، دوسروں كو بھی كهلايا جاسكتا ہے اورصدقہ بھی كيا جاسكتا ہے اسى طرح کھال كو خود بھی استعمال كيا جاسكتا ہے، كسى دوسرے كو بھی استعمال كے ليے دى جاسكتى ہے اور صدقہ بھی كى جاسكتى ہے كيونكہ اس كے استعمال كا كوئى الگ طريقہ كتاب وسنت ميں موجود نہيں بلكہ كتب ِاحاديث ميں ہے كہ صحابہ كرام قربانى كے جانور كى کھال كا مشكيزہ بنا كر اسے گھر ميں استعمال كر ليتے تھے۔55
سوال: كيا قربانى كا گوشت يا کھال فروخت كى جاسكتى ہے؟
جواب : نہ تو قربانى كا گوشت فروخت كيا جاسكتا ہے اور نہ ہى اس كى كهال فروخت كى جاسكتى ہے كيونكہ شریعت نے انہيں استعمال كرنے كا جو طریقہ بتلايا ہے فروخت كرنا اس ميں شامل نہيں۔
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ كا فتوى: “من جملہ قربانى كى كسى چيز كو بھی فروخت كرنا جائز نہيں نہ تو اس كا گوشت اور نہ ہى اس كا چمڑا خواہ قربانى واجب ہو يا نفلى ہو كيونكہ وہ ذبح كے ساتھ متعين ہوچكى ہے-56
امام احمد رحمہ اللہ كا فتوى: “وہ اسے (يعنى قربانى كے جانور كو) فروخت نہيں كرسكتا ہے اور نہ ہى اس كى كوئى چيز (گوشت يا كھال وغيرہ) فروخت كرسكتا ہے اور (امام احمد) مزيد فرماتے ہيں كہ ‘سبحان اللہ’ وہ اسے كيسے فروخت كرسكتا ہے جبكہ وہ اسے اللہ تبارك وتعالىٰ كے ليے مقرر كر چكا ہے-57
سوال : کیا قربانى كا گوشت يا كھال قصائى كو بطورِ اُجرت دى جاسكتى ہے؟
جواب : ايسا كرنا جائز نہيں كيونكہ نبى ﷺ نے اس سے منع فرمايا ہے جيسا كہ: “حضرت على رضی اللہ عنہ كہتے ہيں كہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے حكم ديا كہ ميں ان قربانى كے جانوروں كے جهول اور ان كے چمڑے صدقہ كردوں جن كى قربانى ميں نے كردى تھی –58
اور صحيح مسلم ميں ہے كہ: “حضرت على رضی اللہ عنہ سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حكم ديا كہ ميں آپ ﷺ كى قربانيوں كى نگرانى كروں اور ميں ان قربانيوں كا گوشت اور ان كے چمڑے اور ان كى جليں صدقہ كر دوں اور ان سے (كچھ بھی) قصائى كو نہ دوں – “
اور حضرت على رضی اللہ عنہ كہتے ہيں كہ
“ہم اسے (قصائى كو) اپنے پاس سے (معاوضہ) ديا كرتے تھے –59ان احاديث سے معلوم ہوا كہ قربانى كے جانوروں كى ہر چيز حتى كہ جل تك بھی صدقہ كر دى جائے اور قصائى كو ان ميں سے اُجرت ميں كچھ نہ ديا جائے بلكہ اُجرت عليحدہ دينى چاہيے-
سوال: کیا زندہ افراد كى طرف سے قربانى جائز ہے ؟
جواب : اپنے علاوہ ديگر زندہ افراد كى طرف سے قربانى كرنا بالا تفاق جائز و مباح ہے اور اس كى دلیل يہ حديث ہے كہ “حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روايت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے اپنى بيويوں كى طرف سے گائے كى قربانى كى-60 ايك اور حديث ميں ہے: “عطاء بن يسار رضی اللہ عنہ سے روايت ہے كہ ميں نے حضرت ابو ايوب انصارى رضی اللہ عنہ سے دريافت كيا كہ رسول اللہ ﷺ كے زمانے ميں قربانى كيسے ہوتى تھی ؟ تو انہوں نے كہا: نبى كريم ﷺ كے زمانے ميں آدمى اپنى طرف سے اور اپنے گھر والوں كى طرف سے ايک بكرى قربان كرتا تھا۔ وه (اسے) كهاتے اور كهلاتے تھے –61
اس حديث سے ثابت ہوا كہ اگر كوئى زندہ افراد يعنى گھر والے يا دوست احباب وغيره كى طرف سے قربانى كرنا چاہے تو جائز ہے۔
سوال: کیا ميت كى طرف سے قربانى قرآن وسنت سے ثابت ہے ؟
جواب: میت کی طرف سے قربانی جائز ہے۔ اس كى ايك صورت تو يہ ہے كہ قربانى تو زندہ افراد كى طرف سے كى جائے ليكن اس ميں فوت شدگان كو بھی شريك كرليا جائے۔ يہ جائز ہے۔ جيسا كہ رسول کریم ﷺ نے جانور ذبح كرتے وقت فرمايا: ” اللہ كے نام كے ساتھ اے اللہ! محمد (ﷺ) ، آلِ محمد (ﷺ) اور اُمت ِمحمد (ﷺ) كى طرف سے (اسے) قبول فرما-62
سوال: کیا قربانی کو ایامِ تشریق سے مؤخر کیا سکتا ہے ؟
جواب: اگر ایام تشریق سے قربانی کو مؤخر کرنے کا کوئی عذر پیش آ جائے مثلاً: قربانی کا جانور بھاگ جائے اور اس کے بھاگنے میں مالک کی کوئی کوتاہی نہ ہو اور وہ جانور ایامِ تشریق کے بعد ہی واپس ملے یا اس نے کسی کو قربانی ذبح کرنے کا وکیل بنایا تو وکیل ذبح کرنا ہی بھول گیا اور وقت گزر گیا تو اس عذر کی بنا پر وقت گزرنے کے بعد ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح نماز کے وقت میں سویا ہوا یا بھول جانے والا شخص جب سو کر اٹھے یا اسے یاد آئے تو نماز ادا کرے گا بالکل اسی طرح یہ بھی قربانی ذبح کرے گا۔
سوال: قربانی کا افضل وقت کونسا ہے ؟
جواب: ایامِ تشریق کے اندر دن یا رات میں کسی بھی وقت قربانی کی جاسکتی ہے۔ قربانی دن کے وقت ذبح کرنا اولی اور بہتر ہے اور عید والے دن نمازِ عید کے خطبہ کے بعد ذبح کرنا زیادہ افضل اور اولی ہے اور ہر آنے والا دن گزشتہ دن سے کم تر ہوگا کیونکہ جلد از جلد قربانی کرنے میں خیر و بھلائی کے لئے سبقت ہے ” ۔
سوال: كيا قربانی اور عقيقہ دونوں كی نيت سے ایک قربانی يا الگ الگ حصے كافی ہيں؟
جواب: گائے کا کچھ حصہ عقیقے کی نیت سے اور کچھ حصہ قربانی کی نیت سے ذبح کرنا علمائے کرام کے ہاں اختلافی مسئلہ ہے چنانچہ حنفی اور شافعی فقہائے کرام اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ لیکن راجح یہ ہے کہ عقیقے میں شراکت داری جائز نہیں ہے کیونکہ عقیقے میں شراکت کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ عید کی قربانی کے متعلق شراکت کا ذکر ملتا ہے۔ ویسے بھی عقیقہ پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے فدیہ ہوتا ہے اس لیے جس طرح بچہ ایک مکمل جان ہے اسی طرح فدیہ میں ذبح کیا جانے والا جانور بھی مکمل ہونا چاہیے لہذا عقیقے میں مکمل گائے یا مکمل اونٹ یا مکمل بکری ہی ذبح کرنا کافی ہو گا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 428) میں کہتے ہیں:
اونٹ یا گائے سات افراد کی طرف سے قربانی کیلئے کافی ہوتے ہیں لیکن اس میں عقیقہ کو مستثنیٰ رکھا جائے گا کیونکہ عقیقہ میں مکمل ایک اونٹ ہونا ضروری ہے لیکن پھر بھی عقیقے میں چھوٹا جانور [بکرا، بکری] ذبح کرنا افضل ہے کیونکہ عقیقے میں بچے کی جان کا فدیہ دینا ہوتا ہے اور فدیہ مکمل جانور سے ہی ممکن ہے لہذا پوری جان کے بدلے میں پورا جانور ذبح کیا جائے گا۔
اگر ہم یہ کہیں کہ: اونٹ کی سات افراد کی جانب سے قربانی ہوتی ہے لہذا عقیقے میں اونٹ ذبح کرنے سے سات افراد کا فدیہ ہو جائے گا ؟! [اہل علم کہتے ہیں] کہ عقیقے میں مکمل جانور کا ہونا ضروری ہے اس لیے ساتواں حصہ عقیقے کیلئے صحیح نہیں ہو گا۔
مثال کے طور پر کسی شخص کی سات بیٹیاں ہوں اور سب کی طرف سے عقیقہ کرنا باقی ہو تو وہ شخص ساتوں بیٹیوں کی جانب سے عقیقے کے طور پر ایک اونٹ ذبح کر دیتا ہے تو یہ کفایت نہیں کر ے گا۔
لیکن کیا اگر اس طرح ساتوں بیٹیوں کا عقیقہ نہیں ہوا تو کیا ایک بیٹی کا عقیقہ ہو جائے گا ؟ یا ہم یہ کہیں کہ یہ عبادت شرعی طریقے پر نہیں کی گئی اس لیے یہ گوشت والا جانور شمار ہو گا اور ہر ایک کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے گا ؟ دوسرا موقف زیادہ بہتر لگتا ہے یعنی کہ ہم کہیں گے کہ: اس طرح کسی ایک لڑکی کی طرف سے بھی عقیقہ نہیں ہو گا کیونکہ اس کا طریقہ کار شرعی طریقے کے مطابق نہیں تھا اس لیے اس شخص کو ہر بیٹی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنا ہوگی اور ذبح شدہ یہ اونٹ اس کی ملکیت ہی رہے گا اب وہ اسے جو چاہے کرے اس لیے وہ اس کا گوشت فروخت کر سکتا ہے کیونکہ یہ بطورِ عقیقہ ذبح نہیں ہوا” ۔
سوال: كيا بحالتِ اضطراری قربانی كے جانور كو بيچ كر علاج و معالجہ كرانا جائز ہے؟
جواب: کیونکہ قربانی واجب نہیں ہے اس لیے ضرورت مند شخص جس کے پاس کوئی علاج ومعالجہ کے لیے کوئی اور وسائل نہ ہو تو وہ قربانی کا جانور بیچ سکتا ہے ۔
وصلی اللہ علیٰ نبینا محمد وعلیٰ آله وصحبه وسلم تسلیما کثیرا
- (تفسیر قرطبی : 12/30)
- (ترجمان القرآن ص741)
- (ترجمان القرآن ص727)
- (فتح القدیر 3/451)
- المنتقى من فتاوى الفوزان (39 /16)
- فتاوى نور على الدرب” از: ابن عثيمين (124 /32)
- مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين” (12 /45)
- (صحیح مسلم: 1963)
- (أحكام الأضحية لشیخ ابنِ عثیمین اور فتاوى اللجنة الدائمة :11/377)
- (صحيح بخارى حديث نمبر ( 942 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1960 )
- اسے امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ نے موطا میں براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ۔ اور دیکھیے : سنن ابی داود: 2802، صحیح اور اسے امام البانی رحمہ اللہ نے ’ارواء : 1148‘ میں صحیح کہا ہے)
- ( مجموع الفتاویٰ (25/ 40)
- (مفتی عبدالستار فتاوی ستاریہ : جلد : 1 ، ص : 17) (فتاویٰ علمائے حدیث ، جلد : 13، ص : 47)
- دیکھیں : الشرح الممتع لابن عثیمین ( 7 / 515 ) ۔
- ( اسلام سؤال و جواب: 296337)
- مجموع الفتاویٰ (25-59)
- (سنن الترمذی : باب ما جاء فی ذکاۃ الجنين، رقم الحديث : 1476)
- (صحيح مسلم حديث نمبر: 1318)
- سنن ابو داود حديث نمبر ( 2808 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے۔
- (ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 401)
- (تفسير احسن البيان : ص : 82 ، نيل الاوطار : ج : 3، ص : 490)
- (احمد :ج:4، ص:82، صحيح ابن حبان :3842، صحيح الجامع الصغير :4537)
- (صحيح البخاري:5547)
- (مسلم رقم:1955)
- (صحیح الترغیب رقم:1090)
- (ابو داؤد : 2795سندہ صحیح )
- (مسلم : 1967)
- (بخاری : 5058، مسلم : 1966)
- (ابوداؤد :2795)
- (بخاری : 1712)
- (بخاری : 1712، ابو داؤد : 1796)
- (دیکھئے: حج سے متعلق حضرت جابر بن عبد اللہ (رضی اللہ عنہما) کی لمبی حدیث مسلم : 1218)
- (فتح الباری شرح صحیح بخاری: باب من ذبح ضحيۃ غيرہ)
- (صحیح مسلم:5063)
- اس حدیث کو شیخ البانی نے مشکوۃ کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے اور شعیب ارناؤط نے اس کی تحسین کی ہے۔
- (صحیح ترمذی:1216)
- (صحيح الترمذي:1505)
- (فتاوى اللجنة الدائمة”: 11/ 408)
- (مجموع فتاوى و رسائل ابن عثيمين” (25/ 43)
- فتاوى اللجنة الدائمة” (11/ 404)
- ( مسند احمد اور صحیح مسلم)
- صحیح بخاری
- صحیح مسلم
- (ترمذی: (1943) اسے البانی سے صحیح کہا ہے۔
- مجموع فتاوى ابن باز” (18/48)
- (صحیح مسلم : 5077 سنن ابن ماجہ : 3160)
- فتاوى اللجنة الدائمة” (11 /419)
- مصنف عبدالرزاق(8156)
- مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین” (13 /1496)
- (فتاوى ابن باز( 1 / 37 )
- ديكھيں : فتح القدير(9 / 97 )
- المجموع للنووى( 6 / 364 – 366 )
- صحیح بخاری ،حدیث نمبر ( 5554 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1966 ) مسند احمد ( 3 / 115 ) ۔
- (مزيد تفصيل كيلئے : المغنى لابن قدامہ : ج : 13، ص : 379)
- (مسلم : 5103)
- (المغنى :ج : 13، ص : 382)
- (المغنى :ج : 13، ص : 382)
- (بخارى :1707، كتاب الحج ، باب الجلال للبدن)
- (مسلم : 3180، كتاب الحج )
- (بخارى:5548)
- (ترمذى : 1505)
- (مسلم :5091، كتاب الاضاحى)