گزشتہ دنوں ہندوستان کی انتہائی متعصب حکمران جماعت بی جے پی یعنی مودی سرکار کی دو شیطان صفت ، انتہاپسند عہدیداروں ملعون نوپور شرما اور ملعون نوین کمار کی جانب سے ایک ٹیلی ویژن چینل پرایک میزبان کے ساتھ بحث وتکرار کے دوران پیغمبراسلام ﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں توہین آمیز اورنازیبا تبصرے کیے گئے اور ان توہین آمیز تبصروں کے ذریعے پیغمبر اسلام ﷺ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور واقعہ معراج کے تعلق سے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے ان کی کردارکشی کی گئی اور اسلام ، نبی کریم ﷺ اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کا مظاہرہ کیا گیا، اس ہرزہ سرائی اور گستاخی کی جتنی بھی مذمت کی جائے، نہایت ہی کم ہے۔
انبیاء کرام کی گستاخی کی تاریخ
اگرقرآن مجید کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ انبیاء کرام اور رسولوں کی گستاخی ، توہین ،تمسخر اور ان سے دشمنی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ جب سے کفار ، مشرکین اور منافقین کا ناپاک وجود اس کائنات میں ہے ، تب سے یہ خبیث لوگ اس قبیح عادت میں ملوث رہے ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ ﴿١٠﴾ وَمَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
الحجر – 10/11
آپ سے پہلے ہم نے سابقہ قوموں میں بھی رسول بھیجے تھے اور ان کے پاس جو بھی رسول آیا اس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
الأنعام – 10
آپ سے پہلے بھی رسولوں سے مذاق کیا جاچکا ہے۔ پھر ان تمسخر کرنے والوں کو اسی عذاب نے آگھیرا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے ۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا
الفرقان – 31
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرموں میں سے کوئی نہ کوئی دشمن بنایا اور تیرا رب ہدایت دینے والا اور مدد کرنے کیلئے کافی ہے۔
گستاخانہ جسارتوں کے مقاصد
جب ہم اسلام دشمنوں کے ان ناپاک اقدامات اور گستاخانہ تبصروں اور جسارتوں کے محرکات اور اسباب پر غور کرتے ہیں تو ان کے درج ذیل مقاصد سامنے آتے ہیں ۔
- اسلام کے خلاف عداوت اور نفرت کا اظہار کرنا
- اسلام پسند لوگوں کے ذہنوں کو اسلام سے بد ظن کرنا ۔
- مسلمانوں کو اشتعال دلاکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا کہ مسلمان دہشت گرد اور شدت پسند ہیں۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے پھیلتے ہوئے فکری و نظری اثرات کو روکنے کے لئے یہ طریق کا ر بڑا کار گرثابت ہوتا رہا ہے۔ اس طریقے میں کفار کی تسلی بھی ہو جاتی ہے ان کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار بھی ہو جاتا ہے اور اسلام و مسلمانوں کے بارے میں منفی تاثر بھی قائم ہونے لگتا ہے۔ دور حاضر میں یہ حملہ زیادہ موثر اور تباہ کن ثابت ہورہاہے، کیونکہ مسلمان بطور امہ کمزور ہیں معاشی و سیاسی طور پر منتشر ہیں اور عددی اعتبار سے قابل ذکر ہونے کے باوجود حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔
گستاخانہ حربوں کے جواب میں مسلمانوں کا کردار کیسا ہو؟
۱۔ مسلمان اپنے رسول کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کو اپنائیں اور نبی پاک کی سیرت کو عام کریں ، مسلمان جدید وسائل کو بروئے کار لاکر نبی پاک ﷺ کے اسوہ و سیرت طیبہ کو بیان کریں اور خوب دنیا میں پھیلائیں تاکہ دنیا کو معلوم ہوسکے کہ جس نبی کی اہانت کی جارہی ہے اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔
۔ اللہ تعالی سے سچی محبت اور گہرا تعلق قائم کرئیں تاکہ ان گستاخ لوگوں کو مسلمانوں کی بد دعا ئیں لگ جائیں۔
۳۔ مسلمان نبی پاک ﷺ کی سنت کو اپناکر اپنی اصلاح کرلیں، جب مسلمان اپنی اصلاح کرلیں گے تومسلمانوں ایک قوت ہوگی اور مسلمانوں قوت ان گستاخوں کی کمزوری ہوگی ۔
جب مسلمان نبی کریم ﷺکی سنت پر عمل نہیں کریں گے تو کمزور پڑ جائیں گے اورمسلمانوں کی کمزوری اسلام دشمنوں کی قوت ہوگی ، جب وہ اپنے آپ کو طاقتور محسوس کریں گے تو ہر طریقے سے مسلمانوں کو پریشان کرنے کی کوشش کریں گے، اور دین اسلام کو بدنام کرنے کے لئے اس قسم کے ہتھکنڈے اپنائیں گے۔ ا للہ تعالی نے ایک نظام اور قانون مسلمانوں کودیا ہے اسی میں مسلمانوں کی بہتری اور قوت ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا
النسا؍ – 66
اگر یہ لوگ صرف میرے رسول کی نصیحت کو اپنالیں تو ہر قسم کی خیر بھی دوں گا اور دشمن کے مقابلے میں ثابت قدمی بھی عطا کردوں گا ۔
کائنات کی سب سے محترم شخصیت
رب العزت نے اس کائنات کے اندر تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ مکرم ، محترم اورمعظم انسان کو بنایایا ہے ، چنانچہ اللہ کا تعالیٰ کا ارشاد ہے :
قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ أَسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ
ص – 75
فرمایا اے ابلیس! تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس کے لیے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ؟ کیا تو بڑا بن گیا، یا تھا ہی اونچے لوگوں میں سے ؟
خَلَقْتُ بِيَدَيَّ
ص – 75
اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ میں نے انسان کو اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے ۔ اس سے بڑھ کر انسان کی عزت اور مقام اور کیا ہوگا ۔ اور پھر تمام انسانوں میں انبیاء اور رسولوں کو بہت بلند وارفع مقام عطا فرمایا ہے ۔اور ان تمام رسولوں اور نبیوں میں آخری نبی محمد مصطفی ﷺ کی ذات اقدس کو سب سے زیادہ اعلی وارفع اور سب سے بلند وبالا مقام عطا فرمایا۔ چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے کہ :
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
الشرح – 4
ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا۔
یعنی جہاں اللہ کا نام آتا ہے وہیں آپ ﷺ کا نام بھی آتا ہے۔ مثلاً اذان، نماز اور دیگر بہت سے مقامات پر، گزشتہ کتابوں میں آپ ﷺ کا تذکرہ اور صفات کی تفصیل ہے، فرشتوں میں آپ ﷺ کا ذکر خیر ہے، آپ ﷺ کی اطاعت کو اللہ نے اپنی اطاعت قرار دیا اور اپنی اطاعت کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی اطاعت کا بھی حکم دیا ۔اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ آپ ﷺ کی شان میں کوئی گستاخی کرنے اور آپ ﷺ کے ذکر کو ملیامیٹ کرنے کی جو کوئی بھی کوشش کرے گا ، ہم اس سے نمٹ لیں گے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔
إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ
الحجر – 95
کہ آپ ﷺ کی شان میں جو گستاخی کرنےوالوں سے ہم خود نمٹ لیں گے۔
اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کے اندر کفارِ قریش کے پانچ سردار (1) عاص بن وائل سہمی (2) اسودبن مُطَّلِب (3) اسود بن عبدیغوث (4) حارث بن قیس اور ان سب کا افسر (5) ولید ا بنِ مغیرہ مخزومی ، یہ لوگ نبی کریم ﷺ کو بہت ایذا دیتے اور آپ ﷺ کا مذاق اڑایا کرتے تھے، اسودبن مُطَّلِب کے خلاف نبی کریم ﷺ نے دعا کی تھی کہ یارب! اس کو اندھا کردے۔ ایک روز تاجدارِ رسالت ﷺ مسجدِ حرام میں تشریف فرما تھے کہ یہ پانچوں آئے اور انہوں نے حسبِ دستور طعن اور مذاق کے کلمات کہے اور طواف میں مشغول ہوگئے۔ اسی حال میں حضرت جبریل امین علیہ السلام نبی کریم ﷺکی کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے ولیدبن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اور عاص کے قدموں کی طرف اور اسود بن مطلب کی آنکھوں کی طرف اور اسود بن عبدیغوث کے پیٹ کی طرف اور حارث بن قیس کے سر کی طرف اشارہ کیا اور کہا : میں ان کا شردفع کروں گا۔ چنانچہ تھوڑے عرصہ میں یہ لوگ ہلاک ہوگئے۔
ولید بن مغیرہ تیر فروش کی دوکان کے پاس سے گزرا تو اس کے تہہ بند میں ایک تیر کی نوک چبھ گئی ، لیکن اُس نے تکبر کی وجہ سے اس کو نکالنے کے لئے سر نیچا نہ کیا، اس سے اس کی پنڈلی میں زخم آیا اور اسی میں مرگیا۔
عاص بن وائل کے پاؤں میں کانٹا لگا اور نظر نہ آیا، اس سے پاؤں ورم کرگیا اور یہ شخص بھی مرگیا ۔
اسود بن مطلب کی آنکھوں میں ایسا درد ہوا کہ دیوار میں سر مارتا تھا اسی میں مرگیا اور یہ کہتا مَرا کہ مجھ کو محمد ﷺ نے قتل کیا۔
اور اسود بن عبدیغوث کو ایک بیماری اِسْتِسْقَاء لگ گئی ، کلبی کی روایت میں ہے کہ اس کو لُولگی اور اس کا منہ اس قدر کالا ہوگیا کہ گھر والوں نے نہ پہنچانا اور نکال دیا، اسی حال میں یہ کہتا مرگیا کہ مجھ کو محمد ﷺ کے رب العزت نے قتل کیا ۔
اور حارث بن قیس کی ناک سے خون اور پیپ جاری ہوا ،وہ اسی میں ہلاک ہوگیا انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔1
اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو اپنی زندگی میں ہی سزا دی اور نبی ﷺ کے سامنے بتا دیا کہ ہم نے ان کا یہ حشر کر دیا ہے ، اور روز قیامت تک جو کوئی نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرے گا ، یقینا رب العزت اسے ہر گز معاف نہیں کرے گا اور سزا ضرور دے گا ، نبی كریم كی گستاخی كرنے والے دنیا اور آخرت دونوں میں ذلیل وخوار هوں گے، جیساكه فرمان الہی ہے :
إِنَّ الَّذينَ يُؤذونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِى الدُّنيا وَالآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُم عَذابًا مُهينًا
الأحراب – 57
بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا ہے۔
امت مسلمہ کا عقیدہ
سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت وعقیدت مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزء ہے اور کسی بھی شخص کاایمان اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک رسول اللہ ﷺ کو تمام رشتوں سے بڑھ کر محبوب ومقرب نہ جانا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کاشروع دن سے ہی یہ عقیدہ ہےکہ نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی سے محبت وتعلق کےبغیر ایمان کا دعویٰ باطل اور غلط ہے۔ہر دو ر میں اہل ایمان نے آپ ﷺ کی شخصیت کے ساتھ تعلق ومحبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔اور اگر تاریخ کے کسی موڑ پرکسی بد بخت نے آپ ﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شتم رسول ﷺ کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا۔
مسلمان کیلئے نبی ﷺ کی ذات سب سے مقدم
مسلمانوں کا نبی کریم ﷺ سے جو ربط اور تعلق ہے، وہ تعلق تمام دوسرے انسانی تعلقات سے بالا تر ہے۔ دنیا کا کوئی رشتہ اُس رشتے سے اور کوئی تعلق، اس تعلق سے جو نبی کریم ﷺ اور اہل ایمان کے درمیان ہے ، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نبی کریم ﷺ مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں ، لہٰذا وہی سب سے زیادہ قریب بھی ہیں یہاں تک کہ جان سے بھی زیادہ قریب، سب سے زیادہ حقدار اور ولی بھی ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ
الأحزاب – 6
نبی تو مومنوں کے لیے ان کی اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہے اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔
یعنی ایک مسلمان پر دوسروں کے جو حقوق ہیں انہیں ادا کرنے کے حوالے سے دیگر تمام انسانوں کے مقابلے میں رسول کریم ﷺ زیادہ قریب ہیں۔
اس آیت کی تشریح درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ما مِن مُؤْمِنٍ إلَّا وأنا أوْلَى النَّاسِ به في الدُّنْيا والآخِرَةِ، اقْرَؤُوا إنْ شِئْتُمْ: {النبيُّ أوْلَى بالمُؤْمِنِينَ مِن أنْفُسِهِمْ} [الأحزاب: 6]، فأيُّما مُؤْمِنٍ تَرَكَ مالًا فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَن كانُوا، فإنْ تَرَكَ دَيْنًا، أوْ ضَياعًا فَلْيَأْتِنِي فأنا مَوْلاهُ.
صحیح البخاری – 4781
میں دنیا اور آخرت میں ہر مومن کا سب سے زیادہ قریبی اور عزیز ہوں، اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو:
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ
تو جس مسلمان کا انتقال ہو جائے اور مال چھوڑے تو وہ اس کے عصبہ (یعنی وارثوں) کا ہے اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں کہ میں ان کا مددگار ہوں۔
نبی کریم ﷺ کی تمام بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں
دوسرا حکم جو مذکورہ آیت کریمہ میں بیان ہوا ، اس کا تعلق امہات المومنین کے حوالے سے ہے. اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی تمام بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں. چوں کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کو مومنوں کی مائیں کہا گیا، لہٰذا امہات المومنین کی تعظیم و حرمت میں اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہونے میں وہی مقام ہے جو سگی ماں کا ہے۔
اس آیت نے ازواج مطہرات کو صراحتاً امت کی مائیں اور رسول اللہ ﷺ کو اشارتاً امت کے روحانی باپ قرار دے دیا،یعنی لوگوں میں ماں کے لیے جو احترام اور تقدس اور بزرگی کے جذبات پائے جاتے ہیں، اس سے بھی زیادہ نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے لیے تقدس واحترام کا جذبہ ہونا چاہیے۔
رسول پاک ﷺ سے محبت رکھنا ہی عین ایمان ہے
نبی ﷺ سے محبت کے بغیر ایمان بھی مکمل نہیں ہوتا یعنی رسول پاک ﷺ سے محبت رکھنا ہی عین ایمان ہے، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
لَا يُؤْمِنُ أحَدُكُمْ، حتَّى أكُونَ أحَبَّ إلَيْهِ مِن والِدِهِ ووَلَدِهِ والنَّاسِ أجْمَعِينَ
صحیح بخاری – 15
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو میری محبت، اولاد، والدین اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔
کامل مسلمان کون ہے ؟ !
حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
كُنَّا مع النَّبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وهو آخِذٌ بيَدِ عُمَرَ بنِ الخَطَّابِ، فَقالَ له عُمَرُ: يا رَسولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أحَبُّ إلَيَّ مِن كُلِّ شَيْءٍ إلَّا مِن نَفْسِي، فَقالَ النَّبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: لَا، والَّذي نَفْسِي بيَدِهِ، حتَّى أكُونَ أحَبَّ إلَيْكَ مِن نَفْسِكَ، فَقالَ له عُمَرُ: فإنَّه الآنَ، واللَّهِ، لَأَنْتَ أحَبُّ إلَيَّ مِن نَفْسِي، فَقالَ النَّبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: الآنَ يا عُمَرُ.
صحیح بخاری – 6632
ایک مرتبہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ساتھ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا: “تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ! اللہ کی قسم ! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا عمر! اب بات بنی، یعنی اب تم کامل مسلمان ہو)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَنَا أَوْلَى بكُلِّ مُؤْمِنٍ مِن نَفْسِهِ
صحیح مسلم – 867
چنانچہ اس قربت، محبت اور اولویت کا تقاضا یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کا حق تمام ایمان والوں پر سب سے زیادہ ہے تو ان کی محبت بھی اہل ایمان کے دلوں میں سب سے زیادہ ہونی چاہیے.. یہاں تک کہ اپنی ذات سے، اپنے ماں باپ سے، اپنی اولاد سے بلکہ تمام انسانوں سے زیادہ محبت رسول اللہ ﷺ کی ذات سے کرنا لازم ہے ۔ جیساکہ پیش کردہ احادیث میں بیان ہوچکا ہے۔
لہذا جس ذات سے جتنی محبت ہوتی ہے اس کی عزت وناموس اس کے لیے اتنی ہی اہم ہوتی ہے، جو سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے اس کے ناموس کے تحفظ کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار رہتا ہے.. رسول اللہ ﷺ کی ذات چونکہ اہل ایمان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اس لیے محبت کے تقاضے کے عین مطابق حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین نے محبت رسول اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوکر سرفروشی اور جاں سپاری اور فدائیت کے ایسے انمٹ نقوش قائم کیے ہیں جو قیامت تک کے لیے مشعل راہ ہیں۔
رسول اللہ کو تکلیف پہنچانے والوں کا انجام
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَن يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ
التوبة – 63
کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرے اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہ بہت بڑی رسوائی ہے ۔
یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اہانت و تحقیر اور اس کے محارم کے ارتکاب کی جسارت کر کے وہ اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہوجائےتو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور اس میں وہ ہمیشہ رہے گا، یہ بڑی رسوائی کی بات ہے کیونکہ وہ دائمی نعمتوں سے محروم ہوگئے اور بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب حاصل کرلیا۔
إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ كُبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَقَدْ أَنزَلْنَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ
المجادلة – 5
بلاشبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ اسی طرح ذلیل کیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل كیے جاچکے ہیں۔ اور ہم نے واضح احکام نازل کردیئے ہیں اور انکار کرنے والوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔
﴿یُحَادُّوْنَ﴾ حاد کا لغوی مفہوم : حد النظر بمعنی تیز نظر سے گھورنا ۔ اور حادَّ سے مراد ایسی مخالفت اور دشمنی ہے جس سے انسان غضب ناک ہو کر مقابلہ اور انتقام پر تل آئے۔ مخالفت کی ابتدائی شکل تو یہ ہے کہ انسان اللہ کا حکم تسلیم نہ کرے۔ دوسرا اقدام یہ ہے کہ انسان اللہ کے احکام کا مذاق اڑانا شروع کردے اور تیسرا اقدام یہ ہے کہ اللہ کے قانون یا سزا یا تعزیر کے بجائے کوئی دوسری سزا یا تعزیر مقرر کرلے اور اللہ کے احکام کو نظر انداز کر دے۔ یا اس کی مخالفت میں آکر شرعی احکام کو مصلحت پر مبنی ہونے کے بجائے اسے معاشرہ کے لیے نقصان دہ یا غیر مہذب ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ یہ سب صورتیں حادَ کے ضمن میں آتی ہیں۔2
احترام انسانیت
احترام انسانیت آج کی دنیا کا اہم ترین موضوع ہے اور قرآن کریم بھی احترام انسانیت کا درس دیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرمِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
الأسراء – 70
اور ہم نے اولاد آدم کو عزت دی ہے اور ان کو بحر و بر میں سفر کے لیے سواری دی ہے اور پاکیزہ چیزیں بطور روزی عطا کی ہے اور اپنی بہت سی مخلوقات پر ان کو فضیلت دی ہے۔
یہ شرف اور فضل، بحیثیت انسان کے، ہر انسان کو حاصل ہے چاہے مومن ہو یا کافر۔ کیونکہ یہ شرف دوسری مخلوقات، حیوانات، جمادات و نباتات وغیرہ کے مقابلے میں ہے۔ اور یہ شرف متعدد اعتبار سے ہے جس طرح کی شکل و صورت، قد وقامت اور ہیئت اللہ تعالٰی نے انسان کو عطا کی ہے، وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں، جو عقل انسان کو دی گئی ہے، جس کے ذریعے سے اس نے اپنے آرام و راحت کے لئے بیشمار چیزیں ایجاد کیں۔ حیوانات وغیرہ اس سے محروم ہیں۔ علاوہ ازیں اسی عقل سے صحیح، مفید و مضر اور حسین قبیح کے درمیان تمیز کرنے پر قادر ہے۔ علاوہ ازیں کائنات کی تمام چیزوں کو اللہ تعالٰی نے انسان کی خدمت پر لگا رکھا ہے۔ چاند سورج، ہوا پانی اور دیگر بیشمار چیزیں ہیں جن سے انسان فیض یاب ہو رہا ہے۔ اور رسول کریم ﷺ نے بھی اپنے عمل سے احترام وتکریم انسانیت کو واضح فرمایا، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ:
إنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مَرَّتْ به جِنَازَةٌ فَقَامَ، فقِيلَ له: إنَّهَا جِنَازَةُ يَهُودِيٍّ، فَقالَ: أَليسَتْ نَفْسًا
صحیح البخاری – 1312
نبی کریم ﷺ تشریف فرما تھےکہ سامنے سے ایک جنازہ گزرا، آپ ﷺاس کے احترام میں کھڑے ہو گئے ۔ جنازہ گزر گیا تو ایک ساتھی نے کہا: اے الله كے رسول ! آپ جس جنازے کے احترام میں کھڑے ہوئے تھے وہ ایک یہودی عورت کا جنازہ تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :کیا وہ انسان نہیں ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان بحیثیت انسان احترام کا مستحق ہے، وہ زندہ ہو یا مردہ، مرد ہو یا عورت اور مسلمان ہو یا کافر۔
اقوام متحدہ کا منشور
احترام انسانیت اقوام متحدہ کا منشور ہے ، اقوام متحدہ کے عالمی منشور کا آغاز بھی انسانیت کی احترام وتکریم سے ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی منشور بھی یہی کہتا ہے، مگر عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں بالخصوص اقوام متحدہ، یورپی یونین اور ہیومن رائٹس کمیشن سے سوال ہے کہ اگر ایک عام انسان کا احترام لازم ہے اور اس کی اہانت جرم ہے ، مگر نسل انسانی کی سب سے زیادہ برگزیدہ شخصیات حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی اہانت کو بین الاقوامی ماحول میں جرم کیوں نہیں تسلیم کیا جا رہا ؟ اور اس کے لیے کوئی قانون کیوں موجود نہیں ہے؟ ۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ جب انبیاء کرام علیہم السلام کی حرمت و ناموس کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قانون کی بات کی جاتی ہے تو انسانی حقوق اور آزادی رائے کا حوالہ دے کر اسے جرائم کی بجائے حقوق کی فہرست میں شامل کر دیا جاتا ہے، یعنی ایک عام شخص کی توہین اور ہتک عزت تو جرم ہے مگر اللہ تعالیٰ کے کسی پیغمبر کی اہانت آزادی رائے کے عنوان سے حقوق میں شمار کی جا رہی ہے جو ظلم اور نا انصافی کی انتہا ہے۔
مسلمان حکومتوں کی ذمہ داری
ظاہر بات ہے کہ بین الاقوامی اداروں سے اس موقف کو تسلیم کرانا مسلمان حکومتوں کی ہے، او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کی ذمہ داری ہے کہ وہ متعلقہ بین الاقوامی اداروں میں اسے کیس کے طور پر پیش کریں اور اس کے لیے لابنگ اور سفارت کاری کے تقاضے پورے کریں۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ اکثر مسلمان حکومتیں چپ سادھے بیٹھی ہیں ۔ مسلمان حکمران صرف بیان دے رہے ہیں اور تقریریں کر رہے ہیں جبکہ اصل ضرورت متعلقہ بین الاقوامی اداروں میں باقاعدہ کیس پیش کرنے اور اس کے لیے محنت کرنے کی ہے جس کے لیے مسلم حکمرانوں میں سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس لیے مسلمان حکومتوں، او آئی سی اور خاص طور پر پاکستان اور سعودی عرب کی حکومتوں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ زبانی جمع خرچ کرنے کی بجائے اقوام متحدہ، یورپی یونین اور بین الاقوامی حقوق انسانی کمیشن میں باقاعدہ طور پر یہ کیس لڑیں اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کو بین الاقوامی طور پر جرم تسلیم کرائیں۔
مسلمان عوام کی ذمہ داری
دنیا بھر کے مسلمان عوام بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے ایمان و عقیدہ اور غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم از کم ہندوستانی مصنوعات کا منظم طور پر بائیکاٹ ضرور کریں۔ یہ ہمارا محاذ ہے جو اصل میں تو حکومت کو سنبھالنا چاہئے مگر ایسا نہیں ہو رہا، اس لیے ہمیں اس کا اہتمام کرنا چاہئے، یہ بھی ایمانی تقاضہ اور جہاد کا ایک شعبہ ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی گستاخی کے کرنے والے بدبختوں کی بنائی ہوئی چیزیں استعمال نہ کریں اور ان کا تجارتی بائیکاٹ کر کے انہیں پیغام دیں کہ ہم اپنے آقا و مولا ﷺ بلکہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی پیغمبر کی توہین کسی صورت میں برداشت نہیں کر سکتے۔
قانونی و جمہوری ذمہ داریاں
قانونی و جمہوری طور پر ہمارے لیے جو کچھ بھی کرنا ممکن ہو اس میں دریغ نہ کیا جائے، اور جمہوری انداز میں متحد ہو کر ہر قسم کے فروعی اختلاف کو پس پشت ڈال کر، بنیان مرصوص یا سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار بن کر مذھبی شخصیات بالخصوص حضرت رسالت مآب ﷺ کی اہانت وگستاخی پر پھانسی کی سزا کے لیے قانون بنانے کا مطالبہ ملکی طور پر بھی کی جائے اس کے لیے مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے فضا بھی ہموار کی جائے اقوام عالم کو بھی اپنی قلمی، اخلاقی وفکری طاقت سے اس سمت میں قانون سازی کے لیے مجبور کیا جائے… نہیں تو ایسے واقعات آئندہ بھی پیش آتے رہیں گے۔
تمام مسلمانوں سے اپیل ہے کہ اگر آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کے بعد نبی کریم ﷺ سے محبت ہے تو انڈیا کی ہر چیز کا بائکاٹ کرو، ہندوستان کی جو بھی چیز ہمارے ملک میں در آمد ہو رہی ہے، اس سے بائکاٹ کر دیں، اپنے گھروں میں موجود ہندوستانی مصنوعات کو نکال کر پھینک دیں، تو صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ سارے کافر ممالک بھی مرعوب ہوجائیں گے، نبی کریم ﷺ سے اگر سچی محبت اور پیار ہے تو یہ ہمت اور جرأت پیدا کرنی ہوگی کہ تمام ہندوستانی مصنوعات کا مکمل بائکاٹ کر یں، ہم نے اگر اپنا ایمان مکمل کرنا ہے تو نبی کریم ﷺ سے محبت کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین