چھوٹے بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ نبی کریمﷺ کا برتاؤ

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اُس اللہ رب العالمین کے لئے ہیں ہم اُس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اُسی سے مدد مانگتے ہیں،اُس سے مغفرت طلب کرتے ہیں ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے نفس کی بُرائی سے اور اپنے اعمال سے پناہ چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دے تو اُسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور وہ جسے گمراہ کردے تو اُسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔

بہت زیادہ دُرود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کےآل و اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین پر۔

حمد و ثنا کے بعد!

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے۔

ہر حال میں اُس کی نگرانی کا احساس اپنے دل میں قائم رکھو۔

اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی میں دو گمزوریوں کے درمیان میں قوت رکھی ہے۔اور یہی قوت زندگی کا ستون اور آخرت کا ثمرہ ہے۔نوجوانی کی زندگی میں کمزوری کے بعد قوت آتی ہے جس میں عظائم پروان چڑھتے ہیں اور انسان کے اندر بلند ہمتی آتی ہے۔ اور ہر دور میں نوجوانوں کا بڑا کردار رہا ہے، چنانچہ ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں اُن کی قوم نے کہا:

قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ

الانبیاء – 60

بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکره کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم (علیہ السلام) کہا جاتا ہے۔

اور یحیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا

مریم – 12

اور ہم نے اسے لڑکپن ہی سے دانائی عطا فرما دی۔

ابن ِ کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کے بارےمیں فرماتے ہیں: یعنی ہم نے اُسے نوعمری ہی میں سوجھ بوجھ ،علم ،سنجیدگی،عظم و حوصلہ اور خیر کے کاموں کے لئے پہل کرنے ،اُن پر جمے رہنے اوراُن کے لئے کوشش کرنے جیسی خوبیاں عطا کردی تھیں۔

اصحاب کہف کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى

الکھف – 13

وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار  پر ایمان لے آئے  اور ہم نے اُنہیں مزید رہنمائی بخشی۔

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے کہا کہ وہ نوجوان تھے کیونکہ کے بوڑھوں کی بہ نسبت نوجوان حق زیادہ قبول کرتے ہیں اور زیادہ ہدایت یافتہ وہ ہی لوگ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ اسی طرح روزِ قیامت جن سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے نیچے جگہ عطا فرمائےگا اُن میں وہ نوجوان بھی ہوگا جس کی جوانی اللہ تعالیٰ کی طاعت میں گزری ہوگی۔

چھوٹے اور نوجوان صحابہ کرام کےساتھ ہمارے نبی کریم ﷺ کا برتاؤ سیرت کا اہم ترین پہلو ہے۔ آپ ﷺ اُن کے ساتھ تواضع کے ساتھ پیش آتے، اُن کے ساتھ بیٹھتے،اُن کی زیارت کرتے، اُن کو سکھاتے اور اُن کی حوصلہ افزائی کرتے، چنانچہ اُن کے درمیان سے عظیم ترین نسل تیار ہوکرنکلی۔ نبی کریم ﷺ کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ’’ جب آپ ﷺ کا گزر بچوں کے سامنے سے ہوتا توآپ ﷺ اُنہیں سلام کرتے تھے‘‘۔ صحیح مسلم


یہ بھی پڑھیں: شفقت و نرمی


یہ بھی پڑھیں: جارِحانہ روّیے کی مذمت


ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم ﷺ کا بچوں کو سلام کرنا آپ ﷺ کے عظیم اخلاق، بلند  کردار  اور تواضع کا مظہر ہے۔ نبی کریم ﷺ چھوٹے اور نوجوان صحابہ کرام کو تعلیم دینے کے بڑے حریص تھے۔جند بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے  پاس تھے اور اُس وقت ہم لوگ بلوغت کو پہنچنے والے تھے۔ اُس وقت ہم نے قرآن سے پہلے ایمان سیکھ لیا تھا،پھر جب ہم نے قرآن پڑھا تو ہمارے ایمان میں مزید اضافہ ہوگیا۔ سنن ابن ماجہ

نبی کریم ﷺ اُن کے دلوں میں عقیدے کو پیوست کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: ایک دن میں سواری پر نبی کریم ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے لڑکے ! میں تمہیں کچھ باتیں سکھاتا ہوں، تم اللہ تعالیٰ کو یاد رکھو ،اللہ تمہاری حفاظت فرمائےگا،تم اللہ کو یادرکھو تم اُسے اپنے سامنے پاؤگے، جب تمہیں کچھ مانگنا ہو تو اللہ سے مانگواور جب تمہیں مدد کی ضرورت ہو تو اللہ سے مدد طلب کرو۔سنن ترمذی

اُنہیں نرمی کے ساتھ مختلف اندازمیں تعلیم دیا کرتے تھے،کبھی آپ ﷺ اُن کا ہاتھ پکڑ کر سکھایا کرتے تھے جیسا کہ معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:’’میں تم سے محبت کرتا ہوں‘‘۔ تومعاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں بھی آپ ﷺ سے محبت کرتا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں  کچھ ایسے کلمات نہ سکھاؤ جنہیں تم ہرنماز کے بعد کہا کرو؟ اُنہوں نے کہا: جی ہاں! ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم یہ دُعا پڑھا کرو: اے اللہ ! تو اپنے ذکر و شکر اور اچھی عبادت پر میری مدد فرما۔ صحیح بخاری

اور اسی طرح کبھی اُن کی ہتھیلیوں کو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھ کر سکھاتے جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے میری ہتھیلیوں کو اپنی ہتھیلیوں کے درمیان رکھ  کرمجھے اُسی طرح سے تشہد سکھایا جیسے آپ ﷺ ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے۔متفق علیہ

اور بسااوقات آپ ﷺ اُن کا کندھا پکڑ کر اُنہیں سکھاتے تھے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے میرا کندھا پکڑا اور فرمایا کہ: تم دنیامیں ایسے رہو گویا کہ تم  اجنبی یا مسافر ہو ۔ صحیح بخاری

اسی طرح آپ ﷺ کے ساتھ تعلیم کا معاملہ یہ تھا وہ آپ ﷺ کے پاس آتے اور کہتے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ مجھے سکھادیجئے ۔تو آپ ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ رکھ اور فرمایا کہ : تم سکھائے ہوئے غلام ہو۔اور وہ اس اُمت کے بہت بڑے قراء میں سے تھے۔

اسی طرح نبی کریم ﷺ اُنہیں صبر اور بردباری کےساتھ تعلیم دیتے تھے جیسا کہ جناب جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ ہمیں تمام معاملا ت میں اسی طرح استخارہ کرنا سکھاتے تھےجس طرح کہ آپ ﷺ ہمیں قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔صحیح بخاری

نبی کریم ﷺ چھوٹے اور نوجوان صحابہ کرام سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ بڑے صحابہ کی موجودگی میں بھی اُنہیں سواری پر اپنے پیچھے بٹھاتے تھے، چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پرعرفہ سے مزدلفہ تک اسامہ رضی اللہ عنہ سواری پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھے تھے پھر مزدلفہ سے منیٰ جاتے ہوئے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھایا۔ متفق علیہ

نبی کریم ﷺ اُنہیں عبادت پر ابھارتھے  جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب چھوٹے تھے تو آپ ﷺ نے اُن سے کہا:عبداللہ کیا ہی بہترین آدمی ہے اگر وہ رات  کی نماز پڑھنے لگے ۔ اُس کے بعد سے عبد اللہ رضی اللہ عنہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔متفق علیہ

نبی کریم ﷺ بہت پیار سے اُن کی رہنمائی فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نے خُریم الاسدی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے خُریم ! تم کیا ہی بہترین آدمی بن جاؤ اگر تم دوعادتیں چھوڑ دو۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ! وہ دوعادتیں کیا ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر پہننا اور لمبے بال رکھنا۔ یہ سُن کر خُریم رضی اللہ عنہ نے دونوں چیزوں کو چھوڑ دیا۔مسند احمد

آپ ﷺ اُن کےساتھ شفقت سے پیش آتے اور اُن کے حالات دریافت کرتے  جیسا کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے ،اُس وقت ہم لوگ قریب قریب ایک ہی عمر کے نوجوان تھے۔ ہم لوگوں نے نبی کریم ﷺ کے پا س بیس راتوں تک قیام کیا تو آپ ﷺ نے خیال کیا کہ شاید ہمیں اپنے گھر والوں کی یاد ستانے لگی ہے تو آپ ﷺ نے ہم سے اپنے گھر کے اُن افراد کے بارے میں پوچھاجنہیں ہم چھوڑ کر آئے تھے،ہم نے آپ کو اُن کے بارےمیں بتایا۔ آپ ﷺ بہت زیادہ شفیق و مہربان تھے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاؤاور جاکر اُنہیں دین سکھاؤ اور ویسے ہی نماز پڑھا کرو جیسے کہ تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔

نبی کریم ﷺ ایک عظیم انسان ہونے کے باوجود بچوں سے مزاح کیا کرتے تھے جیسا کہ محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ نبی کریم ﷺ نے میرے منہ پر کلی کی تھی اور اُس وقت میں پانچ سال کا تھا۔یعنی کہ آپ ﷺ نے اپنے منہ مبارک میں پانی لیا اور اُسے بچے کے چہرے پر ڈال دیا۔متفق علیہ

پھر آپ ﷺ بچوں سے اُن کے پرندوں کے بارےمیں بھی دریافت کرتے اور پیار سے اُنہیں کنیت کے ساتھ پکارتے تھے۔ جناب انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہم میں گھل مل جاتے تھے اور میرے چھوٹے بھائی سے کہا کرتے تھے : اے ابو عمیر ! تمہارا چھوٹا پرندہ کیسا ہے ؟۔متفق علیہ

ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم ﷺ بچوں سے مذا ق کرتے اور اُن کے ساتھ دل لگی کیا کرتے تھے تاکہ اس سلسلے میں بھی اُن کی پیروی کی جاسکے ۔ اور آپ ﷺ کا بچوں سے مذاق کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ نہایت منکسر المزاج اور تکبر سے پاک انسان تھے۔

نبی کریم ﷺ اُن کا ہاتھ پکڑ کر اُنہیں گھر لے جاتے اور اُنہیں کھانا کھلاتے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنے گھر لے گئے ،پھر مجھے روٹی کا ایک ٹکڑا نکال کر دیا۔ صحیح مسلم

اگر چھوٹے بچے گھر میں داخل ہوجاتے تواُنہیں گھر کی بات سننے کی اجازت دیتے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ  مجھ سے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہیں میری طرف سے اس بات کی اجازت ہے کہ تم پردہ اُٹھا کر میرے گھر میں آسکتے ہواور ہماری رازداری کی بات سن سکتے ہو، یہاں تک میں تمہیں گھر میں داخل ہونے سے منع کردوں۔ صحیح مسلم

اسی طرح نبی کریم ﷺ اُن کے ساتھ کھانا کھاتے اوراُنہیں کھانے کے آداب سکھاتے۔ عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے زیرِ تربیت تھا اورکھانا کھاتے وقت میرا ہاتھ پورے برتن میں گھومتا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے غلام ! تم اللہ کا نام لواور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اوراپنے سامنے سے کھاؤ۔ متفق علیہ

آپ ﷺ چھوٹے اور نوجوان لڑکوں کی دعوت بھی قبول فرمالیتے تھے۔ عبداللہ بن بُسر المازنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے نبی کریم ﷺ کے پاس بھیجا تاکہ میں اُنہیں کھانے کی دعوت دوں ، توآپ ﷺ میرے ساتھ آگئے۔ پھر جب میں گھر کے قریب پہنچا تو جلدی سے گھر میں داخل ہوا اور اپنے والدین کو بتایا تو وہ دونوں باہر نکلے ،رسول اکرم ﷺ سے ملاقات کی اوراُن کا استقبال کیا۔ مسند احمد

جب نبی کریم ﷺ کو کسی چھوٹے صحابی کی بیماری کے بارے میں پتہ چلتا تو آپ ﷺ اُس کی عیادت کرنے جاتے ،زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ مجھے رمد یعنی آنکھ کی بیماری لاحق ہوگئی تو نبی کریم ﷺ نے میری عیادت کی ۔ مسند احمد

نبی کریم ﷺ اُن میں سے ہر ایک کی مہارت اور دلچسپی کا جائزہ لیتے ،پھر اُس  کے مطابق اُن کی ایسی رہنمائی فرماتے جو خود اُن کے لئے اور اُمت کے لئے مفید ہو،چنانچہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ آئے تو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو دیکھا جو اُس وقت پندرہ سال سے کم تھے، اُن کی تحریر بہت اچھی تھی تو اُن کو کاتبین وحی میں شامل کرلیا، اسی طرح اُن کے اندرذہانت و فطانت کو محسوس کیا تو اُنہیں یہودیوں کی زبان سیکھنے کا حکم دیا تاکہ وہ اُن کی زبان میں لکھی باتوں کا ترجمہ کرسکیں۔ زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے لئےاُن کی زبان سیکھی اور پندرہ دن  ہی میں میں نے اُن کی زبان میں مہارت حاصل کرلی۔ پھر جب یہود نبی کریم ﷺ کو کوئی خط لکھتے تو میں وہ خط آپ ﷺ کو پڑھ کر سناتا اورآپ ﷺ کی طر ف سے اُن کوجواب دیتا۔ مسند احمد

نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کو چھوٹے صحابہ سے قرآن سیکھنے پر ابھار تے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : تم لوگ چار لوگوں سے قرآن سیکھو،ابن اُم ِ عبد یعنی ابن مسعود،معاذ بن جبل ،ابی بن کعب اور حذیفہ کے غلام سالم  سے ۔متفق علیہ

آپ ﷺ اُنہیں ابھارنے اوراُن کے مقام و مرتبے کا اظہار کرنے کے لئے اُن کی تعریف کرتے ۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ کے غلام سالم چھوٹے بچے تھے اور وہ بہت خوبصورت آوازمیں قرآن کی تلاوت کرتے تھے، جب آپ ﷺ نے اُن کی قراءت سنی تو فرمایا: تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے میری اُمت میں ایسا انسان پیدا فرمایا۔ سنن ابن ماجہ

اور جب معاذ رضی اللہ عنہ کے اند ر فقاہت محسوس کی تو فرمایا: معاذ بن جبل لوگوں میں حلا ل وحرام کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔ مسند احمد

آپ ﷺ چھوٹے اور نوجوان صحابہ کرام سے محبت کا اظہار فرماتے اوراِس کے ذریعے اُنہیں پکارتے تاکہ خود اُنہیں اور دوسرے لوگوں کو اُن کی قدر و منزلت کے بارے میں علم ہو۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: یہ میرے نزدیک سب سے محبوب انسانوں میں سے ہے اور اُس کا بیٹا اُسامہ بھی میرے نزدیک سب سے محبوب لوگوں میں سے ہے۔ متفق علیہ

اسی طرح جب آپ ﷺ نے انصار کی عورتوں اور بچوں کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھاتو فرمایا: تم لوگ میرے نزدیک سب سے پسندیدہ لوگوں میں سے ہو۔ متفق علیہ

چھوٹے صحابہ کرام سے محبت و شفقت کرتے ہوئے اُن کے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی کی دُعا کرتے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے سینے سے لگایااور فرمایا: اے اللہ ! تو اسے قرآن سکھادے ۔ صحیح بخاری

اور انس رضی اللہ عنہ کے لئے دُعا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ ! تو انہیں کثرت سے مال و اولاد عطا فرما اور اُس میں برکت عطا فرما۔متفق علیہ

اُن پر اعتما د و بھروسہ کرتے ہوئے اُنہیں خصوصی طور پر کچھ راز کی باتیں بتاتے۔انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم ﷺ نے ایک راز بتایا تو میں نے کسی کو بھی نہیں بتایا یہاں تک  کہ مجھ سے میری والدہ اُمِ سلیم رضی اللہ عنہا نے بھی اُس راز کے بارے میں پوچھا تو میں نے اُن کو بھی نہیں بتایا۔ متفق علیہ

آپ ﷺ بڑے بڑے امو ر کی ذمہ داری بھی اُن کے سپرد کرتے، چنانچہ عتاب بن اُسید رضی اللہ عنہ کو مکہ کا والی بنایا اور اُنہوں نے سن آٹھ ہجری میں مسلمانوں کے لئے حج کا انتظام وانصرام کیا۔ اُس وقت اُن کی عمر بیس سال سے کم تھی۔ ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کے بعد جن لوگوں نے سب سے زیادہ حدیثیں بیان کیں اُن کی تعداد پانچ ہے۔ اُنس ،جابر، عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر اورعائشہ رضی اللہ عنہم ۔ اوریہ سب کے سب کم عمر صحابہ کرام میں سے تھے۔

آپ ﷺ چھوٹے چھوٹے امورمیں بھی صحابہ کرام سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ واقع افک کے موقع پر وحی رک گئی تو آپ ﷺ نے مشورے کے لئے علی بن ابی طالب اور اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بُلا بھیجا۔ متفق علیہ

نبی کریم ﷺ اپنی مجلس میں بڑے صحابہ کرام کی موجودگی میں بھی چھوٹے صحابہ کرام کی تعظیم کرتے اوراُن کے مقام ومرتبے کو بُلند فرماتے۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی تو آپ ﷺ نے اُس میں سے پیا، آپ ﷺ کے دائیں جانب ایک بچہ تھا اور بائیں جانب بڑے لوگ بیٹھے تھے، تو آپ ﷺ نے بچے سے کہا کہ کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں پہلے اِن لوگوں کو دوں؟ تو بچے نے کہا : اللہ کی قسم نہیں! میں آپ ﷺ سے ملنے والے حصے میں کسی کو ترجیح نہیں دوں گا۔ تو رسول اکرم ﷺ نے پیالہ اُن کے ہاتھ پر رکھ دیا۔متفق علیہ

اگر بچوں یا نوجوانوں پر کوئی مصیبت آتی تو نبی کریم ﷺ اُس کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انصار کے ستر نوجوان تھے جنہیں قراء کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ مسجد ہی میں رہتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اُن تمام لوگوں کو ایک مہم پر روانہ کیا لیکن بئر معونہ کے حادثے میں سب شہید کردئے گئے تو نبی کریم ﷺ نے اُن کے قاتلین پر پندرہ دن تک فجر کی نماز میں بددُعا کی ۔ متفق علیہ

عمومی طور پر جن صحابہ کرام نے پہلے پہل اسلام قبول کیا اوراسلام کے ابتدائی مرحلے میں آپ ﷺ کی مدد کی ،اُن کی عمریں آٹھ سال سے تیرہ سال کے درمیان تھیں، جیسے علی ،طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنھم ۔ جب قریش نے آپ ﷺ کو مکہ سے باہر نکالنے کا ارادہ کیا تو مدینہ سے انصار آئے اوراُن میں آدھے لوگ چھوٹے یعنی کم عمر تھے اور انہوں نے عقبہ کے پاس دومرتبہ بیعت کی، اُن میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ اور نبی کریم ﷺ نے اپنی ہجرت سے پہلے ایک کم عمر نوجوان مسعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ بھیجا تاکہ وہ اہلِ مدینہ کو قرآن اور دین سکھائیں، اور اُنہوں نے اپنی ہی طرح ایک نوجوان اسعد بن ضرارہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں قیام فرمایا۔

جب نبی کریم ﷺ نے ہجرت کا ارادہ کیا توعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو جو کہ ایک نوجوان تھے حکم دیا کہ وہ آپ ﷺ کے پاس موجود لوگوں کی امانتیں لوٹانے کے بعد ہی ہجرت کریں۔ اور نبی کریم ﷺ کی ہجرت کے موقع پر چھوٹے اور نوجوان صحابہ کرام نے آپ کا تعاون کیا۔ چنانچہ غارِ ثور میں جب آپ ﷺ اپنے ساتھی کے ساتھ چھپے ہوئے تھے تو عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہما غار میں آتے اور اُنہیں اہلِ مکہ کی خبریں پہنچایا کرتے تھے۔

اور جب نبی کریم ﷺ مدینہ پہنچے تو وہاں بچوں نے خوشی اور مسرت کے ساتھ آپ ﷺ کو خوش آمدید کہا۔ براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بچے اور نوکر چاکر راستوں میں پھیل گئے اور یا محمد ! یا رسول اللہ ! کا نعرہ بلند کرنے لگے۔ صحیح مسلم

اور جب نبی کریم ﷺ مدینہ میں آکر بس گئے تو صحابہ کرام مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آگئے جو سب  کے سب نوجوان تھے۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب مدینہ آئے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ آپ ﷺ کے صحابہ کرام میں سے کسی کے بھی بال سفید نہیں تھے۔ صحیح بخاری

غزوہ بدر کے موقع پر جب نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو جنگ پر ابھارا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں  کہ نوجوان تیزی سے نکلے ۔ سنن ابن حبان

اسی طرح غزوہ حنین  کے موقع پر بھی صحابہ کرام بغیر ہتھیارکے نکل گئے۔اپنی وفات سے پہلے آپ ﷺ نے شام میں رومیوں سے لڑنے کے لئے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیااور اُس کا امیر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بنایا،جن کی عمر اُس وقت صرف سترہ سال کی تھی۔چھوٹے صحابہ کرام کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے اس انوکھے برتاؤ کی وجہ سے وہ بھی نبی کریم ﷺ سے دل و جان سے محبت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپ ﷺ کسی سفر سے واپس لوٹتے تو وہ آپ ﷺ کے استقبال میں مدینے سے باہر نکل جاتے تھے۔

سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھےتب میں بھی دوسرے بچوں کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کا استقبال کرنے ثنیۃ الوداع تک گیا تھا۔ صحیح بخاری

وہ لوگو نبی اکرم ﷺ کےگھر میں رات کو قیام بھی کرتے تھے۔ ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺکے ساتھ آ پ کےگھر میں رات کو قیام کرتا تھا۔ میں آپ ﷺ کے لئے وضوء کا پانی اور ضرورت کی دوسری چیزیں لاکر دیتا تھا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے کہا کہ مانگو، تو میں نے آپ ﷺ نے کہا کہ: میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں۔ صحیح مسلم

اور وہ لوگ جب نبی اکرم ﷺ کے گھرمیں سوتے تو کوئی اپنا سر آپ ﷺ کے سر کے ساتھ اُن کے تکیے پر رکھتا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر قیام کیا، وہ فرماتے ہیں کہ میں تکیے کی چوڑائی میں لیٹا اور نبی کریم ﷺ اور اُم المؤمنین رضی اللہ عنہا  تکیے کی لمبائی میں لیٹے۔متفق علیہ

اے مسلمانو! عظیم لوگوں کےاخلاق جس قدر بلند ہوتے ہیں اُس قدر وہ بچوں کے سامنے تواضع سے پیش آتے ہیں اور چھوٹے بچے فطری طور پرایسے شخص سے محبت کرتے ہیں جو اُن سے قریب ہوتے ہیں اور اُن  کو سکھاتے ہیں۔ اور بسااوقات وہ یاداشت اور فہم و فراست میں بڑوں سے بھی سبقت لے جاتے ہیں۔ اور دینِ اسلام چونکہ اُن فطرت کے عین مطابق ہےاس لئے وہ اُسے پسند کرتے ہیں اور اُس کے آداب اور تعلیمات سے بھی محبت کرتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کی سیرت اِس پر اُنہیں مزید مہمیز لگاتی ہے۔اُن کی تحقیر کرنا اور اُن سے اعراض کرنا عقلمند لوگوں کے شایانِ شان نہیں ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا

الاحزاب – 21

یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ میرے اورآپ کے لئے قرآن عظیم کو با برکت اور اُس کی آیات او ر ذکرِ حکیم کو بابرکت و نفع بخش بنائے ۔ اِسی پر اکتفا کرتے ہوئے میں اپنے ، تمہارے اور تمام مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں تو آپ بھی اُسی سے بخشش طلب کریں بلاشبہ وہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں  ،ہم اُسی کا شکر ادا کرتے ہیں اُس کی توفیق و انعامات پر ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں،وہ اکیلا ہے اُس کاکوئی شریک نہیں ،میں اُس کی عظمت بجالاتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ اُس کےبندے اور رسول ہیں۔بہت زیادہ درود و سلام نازل ہوں اُن پر اور اُن کے آل و اصحاب پر۔

اما بعد!

اے مسلمانو! نبی اکرم ﷺ کا طریقہ کامل ترین طریقہ ہے ،اُن کا راستہ سب سے بہتر راستہ ہے اوراُن کا برتاؤ اعلیٰ ترین برتاؤ ہے۔ آج کے چھوٹے بچے ہی اُمت کی اُمید اور ستون ہیں لہٰذا جو نوخیز بچوں کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتا ہے اُسے اس سلسلے میں نبی اکر م ﷺ کے طریقے کو اپنانا چاہیئے کہ کیسے نبی کریم ﷺ اُن کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے۔چھوٹے صحابہ کرام کے ساتھ نبی اکرم کے اچھے برتاؤ کی وجہ سے ہی وہ علم کے علم بردار بن گئے۔اور اُمت نے اُن سے بھرپور فائدہ اُٹھایا،اور بچوں پر اللہ کی توفیق یہ ہے کہ اُن کے لئے کوئی ایسا عالم مسخر کردے جو اُنہیں دین سکھائے اوراُنہیں انبیاء کرام  کے اخلاق سے آراستہ کردے ۔

سرپرستوں کو چاہیئے کہ وہ اس کے لئے کوشش کریں ،پھر جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے نبی کریم ﷺ پر دود و سلام بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

ہماری طرف سے نبی کریم ﷺ اور اُن کے اہلِ خانہ اور اصحاب  پر لاتعدا د و بے شمار درودو سلام ہو ۔

اے اللہ ! تو محمد ﷺ پر اور اُن کی آل پر اسی طرح برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابرھیم علیہ السلام پر اور اُن کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں۔

اے اللہ تو اپنی رحمتیں اپنی برکتیں سید المرسلین،امام المتقین خاتم النبین ،اپنے بندے اور رسول ﷺ پر نازل فرما جو خیر کے امام اور خیر کے قائد ہیں رسول ِ رحمت ہیں ۔

 اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین جو ہدایت کے پیشوا و امام تھے۔  ابو بکر، عمر، عثمان، علی  سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان سے جو دُرست طریقے سے قیامت تک اُن کی پیروی کریں ۔یاکریم یا وہاب۔

اے اللہ ! تو اپنی جود و سخا سے اُن کےساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان، ہمدردی وسخاوت، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیرعطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔ اےاللہ ! تواُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اوراپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اوراُ ن پراستقامت دے۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! ہم پر بارش نازل فرما۔ اے اللہ ! ہم پر بارش نازل فرما۔ اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا۔ تو تم اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرو اور وہ تمہارا ذکر کرے گا۔اورتم اُس کی نعمتوں پر شکر کرو تو وہ تم کو زیادہ دے گا۔ اور یاد رکھو!  جو کچھ تم کرتے ہو اُس سے اللہ تعالیٰ خوب آگاہ ہے۔

خطبة الجمعة مسجدِ نبویﷺ : فضیلة الشیخ عبد المحسن القاسم حفظه اللہ
تاریخ 14جمادی الآخرة 1442هـ بمطابق 11 جنوری 2022

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ جسٹس ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

آپ یعنی جناب عبد المحسن بن محمد بن عبد الرحمن القاسم القحطانی کو پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے گریجویشن کیا اور المعہد العالی للقضاء سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مسجد نبوی کی امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ محکمۃ الکبریٰ مدینہ منورہ میں قاضی (جسٹس ) بھی ہیں ۔