منافع خوری کے حوالےسے عرض یہ ہےکہ شریعت نے اس معاملے میں کوئی نصاب مقرر نہیں کیا، نہ ہی کسی قسم کی حدود کا تعین کیا گیا ہے۔کوئی بھی شخص ایک چیز دس روپے کی خریدتا ہے اور پھر اُس چیز کی قیمت بازار میں سو روپے ہوجاتی ہے تو وہ شخص بھی اپنے سامان کو سو روپے یا اس سے زائد میں فروخت کرسکتا ہے۔ شریعت میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ تاجر دس روپے میں خریدی ہوئی چیز کو سو روپے یا ایک سو پچاس روپے میں فروخت نہیں کرسکتا ۔ بلکہ وہ اپنی مصنوعات کو اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت کرسکتا ہے۔لیکن آپ ﷺ نے مسلمانوں کو تجارت کے کچھ آداب سکھائے اورکچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو مسلمانوں کی تربیت میں شامل کیا،جیسے سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ “میں نے رسول اکرم ﷺ سے جن چند چیزوں پر بیعت کی ان میں سے ایک شرط یہ تھی:
النصح لکل مسلم
ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کروں ۔
اور خیر خواہی کیسے ہوتی ہے اس بات کا عملی مظاہرہ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کر کے دکھایا،سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے ایک گھوڑ ے کا خریدنا چاہاتو گھوڑے کے مالک نے اُس گھوڑے کی قیمت دو سو درھم بتائی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا آپ وہ گھوڑا اُس قیمت پر خریدلیتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا ۔ اُس گھوڑ ے کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگیا تھا یہ گھوڑا اِس قیمت سے کہیں زیادہ کا ہے تو آپ نے اُس گھوڑے کے مالک سے کہا کہ تمہیں اِس کی صحیح قیمت کا اندازہ نہیں ہے اس کی قیمت پانچ سو دِرھم ہے لیکن اُس وقت بھی سُودا مکمل نہیں کیا۔ پھر آپ نے اُس گھوڑے کی سواری کی اور اُس کے بعد کہا کہ یہ گھوڑا پانچ سو نہیں بلکہ آٹھ سو درھم کا ہے ۔ اور پھر آپ نے آٹھ درھم میں وہ گھوڑا خریدلیا۔
یہ مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کی ایک عمدہ مثال تھی۔ وہ خیر خواہی جس پر سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے بیعت کی تھی۔
ناجائز منافع خوری کی ایک صورت :
اگر کسی تاجر نے تجار ت کی غرض سے کوئی مال خریدا پھر اچانک کسی وبا ء یا آفت کی وجہ سے اُس کی طلب بھی بڑھ گئی تب اگر اُس نے مسلمانوں کی خیر خواہی کرتے ہوئے اُس چیز کو لوگوں میں کم قیمت میں مہیا کردیا تو یہ اُس کے لئے نیکی اور ثواب کا باعث ہوگا۔ جیسا کہ آج کل کرونا وائرس کی وباء ہے یا کبھی آٹے کا بحران آجاتا ہے تو کبھی چینی کا بحران ہو جاتا ہے ۔ کرونا وائرس میں ماسک کی قلت ہوگئی اور قیمت بھی بڑھ گئی یا دواؤں کی قلت ہوگئی اور قیمت کئی گنا بڑھ گئی جس سے وہ انتہائی مہنگے داموں بیچی جارہی ہیں۔تو یہ خیر خواہی کا معاملہ نہیں ہےکہ ضرورت کے وقت مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیمت کو کئی گنا بڑھا دیا جائے اور یہ جائز بھی نہیں ۔
ناجائز منافع خوری کی دوسری صورت :
اسی طرح ناجائز منافع خوری میں یہ چیز بھی آتی ہے کہ ایک شخص جان بوجھ کر کسی چیز کی ذخیرہ اندوزی کرے تاکہ مارکیٹ میں اُس چیز کی قلت ہوجائے اور پھر وہ ذخیرہ کئے ہوئے مال کو مارکیٹ میں لے آئے اور کئی گنا مہنگے داموں میں بیچے۔اس طرح کی ذخیرہ اندوزی صراحتاًحرام ہے۔البتہ اگر کوئی صرف تجارت کی غرض سے کوئی مال ذخیرہ کرتا ہے اور مارکیٹ میں اُ س کی قیمت خود ہی بڑھ جاتی ہے تو اُس چیز کو مارکیٹ کی قیمت کے مطابق بیچنے میں کوئی حرج نہیں۔لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں خیر خواہی کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بات عملاً ہمیں سکھائی گئی ہے۔ کیونکہ مال کی کثرت کی اہمیت نہیں ہے بلکہ مال میں برکت سب سے اہم بات ہے۔
مال میں کثرت کا فلسفہ :
کوئی شخص دس روپے کی چیز خرید کر سو روپے کی بیچتا ہے لیکن اُ س کے منافع میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی برکت نہیں ہوتی ۔ اور دوسری طرف ایک شخص دس روپے کی چیز خرید کر بیس روپے میں بیچتا ہے لیکن اُس کے منافع میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت ہوجاتی ہے تو یقیناً صاحبِ برکت شخص نے اصل فائدہ حاصل کیا۔ یہ ہی وہ فضل ہے جس کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا اور قرآن مجید میں فرمایا:
فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّـهِ
الجمعة – 10
زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔
اللہ رب العالمین کا فضل کثرت یا اضافے میں نہیں ہے بلکہ برکت میں ہے پھر چاہے وہ چیز تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو جانائز منافع خوری اور حرام تجارت سے محفوظ فرمائے اور حلال تجارت کو اختیار کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے۔ آمین