پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں بلندی والے اور ارض و سماء کے ر ب کےلئے ہیں جس نے خیر و برکت کا باعث نیکیوں کا حکم دیا اور ہلاکت و بربادی اور نحوست و شر پر مشتمل حرام چیزوں سے منع فرمایا۔میں اپنے رب کی ظاہری اور پوشیدہ تمام نعمتوں پر اس کا شکر بجالاتا ہوں جنہیں اُس کےسوا کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی دسچا معبود نہیں اور وہ انتہائی خوبصورت ناموں اور کامل ترین صفات میں منفرد ذات ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بلاشبہ ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ اُس کے بندے تمام مخلوق سے برتر بندے ذات ِ باری تعالیٰ کے تائید یافتہ رسول ہیں ۔
اے اللہ ! اپنے بندے اور رسول ﷺ اور اُن کی آل پر اور بھلائیوں کی طرف سبقت لےجانے والے آپ ﷺ کے صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و ثنا کے بعد!
اللہ کی عداوت و ناراضگی والے کام چھوڑدو اور اُس کی رضا مندی کے ذریعے تقویٰ اختیار کرو۔کیونکہ متقیوں کا انجام انتہائی شاندار اور فساد اور شر پسند لوگوں کا انجام انتہائی درد ناک ہے۔چنانچہ راہِ نجات پر چلنے والوں کے ساتھ رہتے ہوئے نافرمانوں کی رفاقت چھوڑ دو۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمَن يُطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا ﴿٦٩﴾ ذَٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللهِ عَلِيمًا
النساء – 69/70
اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے، وه ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں ۔ یہ فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کافی ہے اللہ تعالیٰ جاننے والاہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَن يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا
الجن – 23
(اب) جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے۔
اے مسلمانو! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیااور شرعی احکامات کی پابندی کے ذمہ داران کی ہر ضرورت اس میں مہیا فرمادی جیسے خوراک ،اسبابِ زندگی ،شاندار لباس ،خوبصورتی کا ساز و سامان،مال و دولت اور چوپائے وغیرہ۔پھر اس کائنات اوراس کی ہر چیز کو مخلوق کے فائدے اور اصلاح اور ان کی زندگی کی اُس وقت تک بقا کے لئے مسخر کردیا جو مدت اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرر ہے اور جس سے تجاوز محال ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
الملک – 15
وه ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست ومطیع کردیا تاکہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ (پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ
الاحقاف – 3
ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی تمام چیزوں کو بہترین تدبیر کے ساتھ ہی ایک مدت معین کے لئے پیدا کیا ہے۔
اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ ﴿٥﴾ وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ ﴿٦﴾ وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنفُسِ ۚ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿٧﴾ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
النحل – 5/6/7/8
اسی نے چوپائے پیدا کیے جن میں تمہارے لیے گرمی کے لباس ہیں اور بھی بہت سے نفع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں۔ اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر ﻻؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی۔ اور وه تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں جہاں تم بغیر آدھی جان کیے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ یقیناً تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے۔ گھوڑوں کو، خچروں کو، گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وه باعث زینت بھی ہیں۔ اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں۔
اور فرمایا:
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
الجاثیة – 13
اور آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے تابع کر دیا ہے۔ جو غور کریں یقیناً وه اس میں بہت سی نشانیاں پالیں گے۔
اور فرمایا:
وَاللهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللهِ هُمْ يَكْفُرُونَ
النحل – 72
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں۔ کیا پھر بھی لوگ باطل پر ایمان ﻻئیں گے؟ اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے؟
اور فرمایا:
وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ
النحل – 18
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے۔
جب اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پوری کاری گری شان و شوکت اور انتہائی خیر خواہی سے پیدا کیا اور اس سرزمین کی ہر چیز کی تمام ضرورتیں اور قسم و قسم کے بہت سے فائدے اور زندگی کی بقا و ترقی کے اسباب مسخر کئےتو ہمارے رب عزوجل نے ہمیں بتایا کہ اُس نے اس کائنات کو بےکار لاوارث اور ردی نہیں بنایا ۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ ﴿١٦﴾ لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنَاهُ مِن لَّدُنَّا إِن كُنَّا فَاعِلِينَ ﴿١٧﴾ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ
الانبیاء – 16/17/18
ہم نے آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو کھیلتے ہوئے نہیں بنایا ۔ اگر ہم یوں ہی کھیل تماشے کا اراده کرتے تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے، اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے۔ بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے اور وه اسی وقت نابود ہو جاتا ہے، تم جو باتیں بناتے ہو وه تمہاری لئے باعث خرابی ہیں۔
اور فرمایا:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ
المؤمنون – 17
ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں اور ہم مخلوقات سے غافل نہیں ہیں۔
اور فرمایا:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ
ص – 27
اور ہم نے آسمان وزمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا۔
اور فرمایا:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ﴿١١٥﴾ فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ
المؤمنون – 115/116
کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ سچا بادشاه ہے وه بڑی بلندی واﻻ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی بزرگ عرش کا مالک ہے۔
اور فرمایاکہ:
اللهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
الرعد – 2
اللہ وه ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پھر وه عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے، اسی نے سورج اور چاند کو ماتحتی میں لگا رکھا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے، وہی کام کی تدبیر کرتا ہے وه اپنے نشانات کھول کھول کر بیان کر رہا ہے کہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کر لو۔
اور فرمایا:
وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
ھود – 6
زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہےاور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے۔
اور فرمایا:
عَالِمِ الْغَيْبِ ۖ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
سبأ – 3
جو عالم الغیب ہے کہ وه یقیناً تم پر آئے گی اللہ تعالیٰ سے ایک ذرے کے برابر کی چیز بھی پوشیده نہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں بلکہ اس سے بھی چھوٹی اور بڑی چیز کھلی کتاب میں موجود ہے۔
اور فرمایا:
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ كِتَابًا مُّؤَجَّلًا ۗ
آل عمران – 145
بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مرسکتا، مقرر شده وقت لکھا ہوا ہے۔
نہ ہی اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنے سوا کسی کے سپرد کیاہے۔ بلکہ اس دکھائی دینے والی کائنا کو اُس نے صرف حق کےلئے ہی پید اکیا ہے۔ اور حق سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا پرچار ، نیکی کے تمام کام اور زمین کی اصلاح و فوائد ہیں۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١﴾ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
البقرۃ – 21/22
اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔ جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کرکے تمہیں روزی دی، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو۔
اور اسی طرح فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ ﴿٥٧﴾ إِنَّ اللهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ
الذاریات – 56/58
میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں۔ نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں نہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی واﻻ اور زور آور ہے۔
اور یقینا ً اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں کو اور خصوصاً سب سے آخر میں اُن کے سردار محمد ﷺ کو نیکی و اطاعت کے ساتھ زمین کی اصلاح کے ساتھ شرک و بدعات کی خرافات سے پاک کرنے کے لیے مبعوث فرمایا۔جیسا کہ فرمایا:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ
النحل – 36
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔
اور فرمایا:
وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا
الاعراف – 56
اور دنیا میں اس کے بعد کہ اس کی درستی کردی گئی ہے، فساد مت پھیلاؤ۔
یعنی نازل شدہ کتابوں اور پیغمبروں کے ذریعے زمین کی اصلاح کے بعد ۔
اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں علیہم الصلاۃ والسلام کو حکم دیا کہ وہ زندگی میں اللہ کی حلال کردہ پاکیزہ چیزوں سے پھر پور استفادہ کریں اور نیکی کے اُن کاموں پر ہمیشگی اختیار کریں جن کے بغیر زمین کی اصلاح ناممکن ہے۔
اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
المؤمنون – 51
اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔
پیغمبروں کے مسلمان متبعین کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کےاس فرمان میں رسولوں کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔ جس میں فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
البقرۃ – 172
اے ایمان والو! جو پاکیزه چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ، پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرتے ہو۔
اور فرمایا:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ
الاعراف – 32
آپ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیا اس طور پر کہ قیامت کے روز خالص ہوں گی اہل ایمان کے لئے، دنیوی زندگی میں مومنوں کے لئے بھی ہیں۔
سو تمام رسولوں علیہم السلام اور اُن کےمسلمان متبعین نے اس کائنا ت کوعمل ِ صالح اور اصلاح کےلئے ایک مناسب وقت اور جگہ سمجھا لہٰذا ہو بھلائیوں اور جنتوں کے حصول میں کامیاب ہوگئے ۔ اور یاد رہے کہ تمام نیک اعمال کا فائدہ صرف نفس کو ہی پہنچتا ہے اور ارکانِ اسلام کے قائم کرنے میں مخلوق کا ہی بھلاہے۔ جبکہ بقیہ تمام عبادات بھی انہیں ارکان کے تحت ہیں۔
اے مسلمان! نیکیوں میں سے کسی چیز کوبھی معمولی ،کمتر اور حقیر نہ سمجھ ، تجھے پتہ نہیں کہ کون سا نیک عمل تیرے لئے جنت میں داخل ہونے کا سبب بن جائے اور تو آگ سےبچ جائے۔جیسا کہ جنابِ جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت بیان کرتے ہیں : آپ ﷺ نے فرمایا: کسی بھی نیکی کو حقیر نہ جانو، اور تمہارا اپنے کسی مسلمان بھائی سے خندہ پیشانی سے ملاقات کرنا بھی نیکی ہے۔ صحیح بخاری و مسلم۔
اسی طرح ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نےفرمایا: ایک آدمی کو جاتےہوئے راستے پر ایک خار دار شاخ ملی جسے اُس نے راستے سے ہٹادیا تو اللہ تعالیٰ نےاُس کے اس عمل کو پسند کرتے ہوئے اِس بندے کو بخش دیا۔ صحیح بخاری و مسلم۔
اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۖ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا
النساء – 40
بے شک اللہ تعالیٰ ایک ذره برابر ظلم نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنی کر دیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے۔
چنانچہ اہلِ ایمان نے تو اس دنیا کو نیکیوں کی جگہ اور فرصت سمجھا جبکہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور کفر کرتے ہیں وہ اس کائنا ت کو حوس پرستی اور حرام کاریوں اور مادی فوائد اور دیگر برائیوں کے ارتکاب کا موقع و مقام سمجھتے ہیں ۔اورا للہ کے ساتھ شرک کرنا سب سے بڑا گناہ ہے اور شرک یہ ہے کہ بندہ مخلوق سے دُعا مانگے اِس سے امید رکھے اس پر توکل کرے اس سے استعانت و مدد طلب کرے اور اس کے سامنے اپنے حاجات و مطالبات پیش کرے ،اس سے رزق و مدد چاہے مشکل کشائی اور پریشانی کی دوری کے لئے اِسے پکارے تو یاد رہے کہ یہی سب تو وہ شرک ہے کہ جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ توبہ کے بغیر معاف نہیں کرے گا۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
النساء – 116
اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک مقرر کیا جائے، ہاں شرک کے علاوه گناه جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے واﻻ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔
اور فرمایا:
إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ
المائدۃ – 72
یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے واﻻ کوئی نہیں ہوگا۔
جنابِ ابودرداء رضی اللہ عنہ سے حدیثِ قدسی میں مرفوعاً مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ : میرے اور جن و انس کے مابین یہ ایک بہت بڑی اور عجیب واضح حقیقت ہے کہ ان سب کو پیدا تو میں نے کیا ہے جبکہ یہ عبادت میرے سوا کسی اور کی کرتے ہیں اور روزی اِن کو میں دیتا ہوں اور یہ شکر میرے سوا کسی اور کا کرتے ہیں ۔ بندوں پر تومیری خیر و برکت نازل ہوتی ہے جبکہ میری طرف اِ ن کے یہاں سے شر ہی آتاہے ، میں نعمتیں دے کر ان سے پیار کرتا ہوں اور یہ نافرمانی کے ذریعے مجھ سے نفرت کرتے ہیں ۔(التعریف للحاکم ، مستدرک للبیھقی ،مسند لطبرانی )
شرک کے بعد تمام کبیرہ گناہ اور معصیت اور نافرمانی اور اپنی خرابی کے بقدر بڑے جرائم میں شمار ہوتے ہیں۔اور ہر وہ معصیت جس سے بندے نے اپنے اوپر ظلم کیا اور اُس کا تعلق بندے اور اللہ کے درمیان ہو تو اُس معصیت کو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ البتہ وہ ظلم جو بندوں کے آپس کے مابین ہے انہیں اللہ تعالیٰ تب تک معاف نہیں کرےگا جب تک اُس دن مظلوم کا حق ادا نہ کردیا جائے،جس دن کوئی درھم و دینار نہ ہوگا بلکہ ظالم کی وہ نیکیاں ہوں گی جن سے مظلوم کا حق ادا کیا جائےگا اور اگر اُس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو مظلوم کے گناہ ظلام پر ڈال کر اُسے جہنم رسید کردیا جائےگا۔
جیساکہ ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نےفرمایا:اگر کسی نے اپنے بھائی پر اُس کی عزت و آبرو یا کسی دوسری چیز میں ظلم کیا ہے تو اُسے وہ دن آنے سے پہلے آج ہی اپنے ظلم کو معاف کرالینا چاہیئےجس دن کوئی درھم و دینار نہ ہو گا بلکہ اُس کے اگر کوئی نیکی ہوگی تو اُسکے ظلم کے بقدر لے لی جائےگی اور اگر اُس کے پاس کوئی نیکی نہ ہوگی تو مظلوم کے گناہ اُس پر لاد دئے جائیں گے ۔مسلم و ترمذی۔
ایک دوسری حدیث میں ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آ ﷺ نے فرمایا: روز ِقیامت حقداروں کے حقوق ادا کئے جائیں گے یہاں تک کہ بےسینگ بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیاجائےگا جو اس کی ٹکر کا بدلہ ہوگا۔صحیح مسلم۔
حقوق و ظلم کا بدلہ چکائے بنا اگر کسی کی جاں بخشی ممکن ہوتی وہ نیکوکار مومنوں کی آپس میں ضرور ہوتی مگر ان کےبارے میں ابوسعید الخذری رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مومن جہنم سے چھٹکارا پاجائیں گے لیکن سارا راستہ عبور کرنے کے بعد جنت و دوزخ کے قنطرہ مقام پر انہیں روک لیا جائےگااور پھر دنیا میں ایک دوسرے پر کئے گئے ظلموں کا بدلہ چکایا جائےگا یہاں تک کہ اُن کی مکمل طور صفائی ہوجائےتب انہیں جنت میں جانے کی اجازت دی جائےگی ۔سو اس ذات کی قسم ہےکہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ان میں سے ہر ایک جنت میں اپنے گھر کو دنیاوی گھر سے بھی بہتر طور سے پہچان لےگا۔صحیح بخاری
لہٰذا اے مسلم! اپنے آپ کو تمام گناہوں سے بچا کر رکھنا اگرچہ وہ تمہاری نظرمیں چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں کیوں کہ اللہ کے یہاں اُن کی بھی باز پرس ہوگی۔جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک عورت ایک بلی کی وجہ سے جہنم رسید ہوئی کیونکہ اس عورت نے اُس بلی کو رسی سے باندھ دیا پھر نہ تو خود اُسے کھانا دیا اور نہ اُسے چھوڑا کہ وہ بلی خود زمین میں سے اپنا کھانا کھاسکے۔صحیح بخاری ومسلم
اور آپ ﷺ نے فرمایا: گناہوں کو حقیر سمجھنے سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ یہ آدمی پر جمع ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اُسے تباہ کردیتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللهِ ۚ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿٥٣﴾ وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿٥٤﴾ وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
الزمر – 53/54/55
(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت واﻻ ہے۔تم (سب) اپنے پروردگار کی طرف جھک پڑو اور اس کی حکم برداری کیے جاؤ اس سے قبل کہ تمہارے پاس عذاب آ جائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جائے۔اور پیروری کرو اس بہترین چیزکی جو تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل کی گئی ہے، اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ قرآن ِ عظیم کو میرے اور تمہارے لئے باعثِ برکت اور اِس کی آیت کو نفع بخش بنائےاور ہمیں سید المرسلین کے طریقے اور دُرست بات سے فیض یاب فرمائے۔اسی پر اکتفا کرتے ہوئے اپنے تمہارے اور تمام مسلمانوں کے لئے تما م گناہوں سے اللہ تعالیٰ کی بخشش طلب کرتاہوں تو تم بھی اُسی سے بخشش طلب کرو۔بےشک وہی غفور رحیم ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ رب العزت کےلئے ہیں جو متقین کا دوست اور اپنی مخلوق سے بے پرواہ ہے۔جسے اطاعت شعاروں کی اطاعت کا کوئی فائدہ نہیں اور نافرمانوں کی نافرمانی سے کوئی نقصان نہیں ۔میں اپنے رب کی ظاہر اور پوشیدہ تمام نعمتوں پر حمد و شکر بجا لاتا ہوں جنہیں اُس کےسواکوئی شمار نہیں کرسکتا ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ، وہ حقیقی بادشاہ اور ظاہر کرنے والا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بلاشبہ ہمارے نبی ،سردار محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ِ امین ہیں ۔
اے اللہ ! اپنے بندے محمد ﷺ اور اُن کی تمام آل و اصحا ب پر درود و سلام نازل فرمااور برکتیں نازل فرما۔
حمد و ثنا کے بعد!
اللہ تعالیٰ سے اُس طرح ڈرو جس طرح کے اللہ سے ڈرنے کا حق ہے اور اسلام کے کڑے کو مضبوطی سے تھام لو۔
اے مسلمانو! جس چیز سے گناہ مٹتے ، نیکیاں بڑھتی ،عملِ صالح کا تزکیہ ہوتا نقائص ِ عبادت دور ہوتے اور شیاطین دھتکارے جاتے ہیں ،بلاشبہ وہ چیز ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے ایمان والوں اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرواور صبح شام اُس کی تسبیح بیان کرو۔
جناب عبد اللہ بن بُسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ اسلام کے احکام و قوانین تو بہت زیادہ ہیں لہٰذاآپ مجھے اِن کا کوئی ایسا مجموعہ بتادیں جس پر میں ڈٹ جاؤں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے ۔رواہ احمد و ترمذی
اے مسلمانو! وہ عظیم ضابطہ و اصول کہ اسلام نے جس کی ترغیب بڑی شدت سے دی ہے وہ ہے اُلفت و محبت اور باہمی اتحاد کی بھر پور کوشش،فرقہ واریت و اختلاف سے اجتناب،امن و امان و استحکام کی بحالی ، صلح صفائی ،درگزر اورانسانی عزت و وقار کا تحفظ،رسہ کشی ،ٹوٹ پھوٹ ،باہمی جھگڑوں اور ناچاقی اور اِس جیسے دوسرے امور سے دوری ۔ہمارے مبارک ملک سعودیہ عرب پر اللہ رب العالمین کا یہ خاص فضل ہے کہ وہ مسلمانو کی یکسوئی ،یکجہتی اور اِن کے باہمی اتحاد پر ہمیشہ زور دیتا اور اِس کا خیال رکھتا ہے ۔
اِ س میدان میں سعودیہ عرب کی کاوشوں کوہمیشہ بڑے فخر سے سراہا گیاہے۔افغانستان میں امن و امان اور استحکام کی بحالی کے لئے مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین پر مسجد الحرام کے پڑوس میں پاکستان اور افغانستان کے علماء دین کےوفود کی موجودگی میں حالیہ تاریخی اسلامی کانفرنس کی شاندار نمائندگی اور سرپرستی اِس بات کی ایک زندہ مثال ہے ۔اس لئے کہ وطنوں اور معاشروں کے اختلافات کو دور کرنے اور اِ ن میں امن و سلامتی کی بحالی کے لئے علماءِ کرام کا کردار انتہائی مؤثر ہوتا ہے ۔
اس کانفرنس سے جو مفید ترین سفارشات و بابرکت آثار پر مبنی آخری اعلامیہ جاری ہوا وہ افغانستان اور اِ س خطے میں امن و امان اور استحکام کی بحالی و قیام کے لئے انتہائی حوصلہ افزاں اور خوش آئند ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں اور بالخصوص خادم حرمین شریفین اور اُن کے وفا شعار و قابل ِ اعتماد ولی عہد کو اِن عظیم و بابرکت کوششوں کا شاندار بدلہ عطا فرمائے۔اسی طرح اس کانفرنس کی کامیابی شرکت کرنے والوں کو بھی جزا ئے خیر عطا فرمائے۔
اللہ کے بندو! بےشک اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندے آپ ﷺ پر دُرود بھیجتے ہیں اے ایمان والوں تم بھی آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایک بار مجھ پر درود بھیجااللہ تعالیٰ اُس کے عوض میں اُس شخص پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
اے اللہ اپنے نبی کریم ﷺ پر اور ان کی آل پر رحمتیں اور برکتیں اُسی طرح نازل فرما جس طرح تو نے ابراھیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں ہیں بے شک تو حمید مجید ہے۔
اے اللہ توچاروں خلفائے راشدین سے راضی ہوجا،جو راہ راست کے امام تھے اور اُن کے ساتھ ساتھ دیگر صحابہ کرام اور اُن کے اصحاب سے اور ہم سب سے راضی ہوجا۔
اے اللہ ! اسلا م اور اہل ِ اسلام کو عزت عطا فرما۔ اے اللہ ! اسلا م اور اہل ِ اسلام کو عزت عطا فرما۔
اے اللہ !کفار اور مشرکین کو ذلیل و رسوا فرما۔ اے اللہ! کفار اور مشرکین کو ذلیل و رسوا فرما۔
اے اللہ ! اپن دین و کتا ب اور نبی ﷺ کی تائید و نصرت اور مددفرما۔
اے اللہ ! ہم تجھ سےسوال کرتے ہیں کہ تو بدعت کو ذلیل و رسوا کردے جو تیرے دین اور تیرے نبی ﷺ کی سنت کی مخالف ہے۔اے اللہ ! قیامت تک تو اِسے ذلیل و رسوا کر۔
اے اللہ ! تو ہمارے اور دیگر مسلمانوں کے فوت شدگان کو بخش دے،ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما اور اُن کی تجاوزات سے درگزرفرما۔
اے اللہ !ہمیں جہنم اور اُس کے قریب لیجانے والے اعمال سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! تو ہمیں جنت میں داخل ہونے کی اور جنت والے اعمال کی توفیق عطا فرما۔
اے اللہ ! ہماری اولاد کو شیطان کے شر سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! تو ہمیں شیاطین اور انس و جن کے شر سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! تمام مسلمانوں کو خبائث سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! ہمیں ہدایت کے بعد گمراہی سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! ہماری سرحدوں کی حفاظت فرمااور اُن کے محافظو ں کی مدد فرما۔
اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجائے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دےاور تمام مسلم حکمرانوں کو خیر اور دُرستگی کی توفیق دے۔
اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا اور وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق حاصل کرو اوراللہ کے عہد کو پورکرو جب تم نے اللہ سے کوئی عہد کیا ہو ، تم اللہ کو یاد کرو اللہ تمہیں یاد کرے گا۔ اس کی نعمتوں پر اس کا شکر بجالاؤتو وہ یقیناً تمہیں نوازے گا۔یقیناً اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
خطبة الجمعة مسجد ِ نبوی، خطیب: فضیلة الشیخ علی الحذیفی حفظه الله
1 ذوالقعدة / 1442 هجری، مطابق 11/ جون /2021 ء