انسان کی قدر و منزلت

پہلا خطبہ:

 ہر قسم کی تریف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے ہے جس نے اپنی قدرت سے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اُس نے اپنے پندوں کے درمیان روزیوں میں تفاوت برتااو رجسے چاہا اُسے شرف و منزلت سے نوازا ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سواکوئی معبودِ حقیقی نہیں ، وہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں  اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔آپ اشرف المخلوقات ہیں ۔درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر ، آپ ﷺ کی آل پر اور اصحاب پر ۔بے شمار درود و سلام نازل ہو۔

اما بعد!

اے لوگو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو کہ اللہ رب العالمین کا تقویٰ ہی نجا ت کی اصل ہے ۔

اے مسلمانو! انسان کا کیا حال ہوگاجب وہ اپنا راستہ بھٹک جائے اوراُس مقصد کو فراموش کردے جس کےلئے اُسے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ اُس شخص کی طرح ہوگا جس کی حالت کے بارے میں اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا:

وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا

الکھف – 28

اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا۔

اُس نے اللہ سے غفلت برتی تو اللہ تعالیٰ نے اُسے یہ سزا دی کہ اپنے ذکر سے اُسے غافل کردیا ۔ وہ دین اور اپنے رب کی عبادت کے بجائے دنیا میں مشغول کردیا گیا،اپنے نفس کی پیروی کرنے لگا چنانچہ نفس نے جو بھی چاہا اُس نے اسی بات کی پیروی کی اگرچہ اُس میں نفس کی ہلاکت و نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ یوں وہ اُس شخص کی طرح ہواجس کی مذمت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ

الجاثیة – 23

بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے۔

لہٰذا اُس کےسارے اعمال بےوقوفی اور بُرائی سے عبارت رہے۔یہ بات کہی گئی ہے کہ جس نے اپنے معاملے کو ضائع کردیا گوئی اُس نے ہرمعاملے کو ضائع کیا ،جس نے اپنی قیمت نہ جانی اُس نے کوئی قیمت نہ جانی ، اسی لئے ہر آدمی کو دیکھنا چاہیئے کہ اُس کی قدر و قمیت کیا ہے ،اُس کا کام کیا ہے اور کس کام کو وہ بہتر طریقے سےکرنا جانتا ہے ،وہ کتنا حوصلہ مند  ہےاور یہ کہ اُس کےتقاضے کیا ہیں؟۔

اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ نے اُس آدمی کے درمیان فرق رکھا ہے جو اس جلدی والی دنیا کو طلب کرتاہے ،اُس کےلئے کام کرتا ہےکوشش کرتا ہے ،جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اُس کی امید نہیں رکھتا ۔دوسری وہ آدمی جو آخرت کو چاہتا ہے اور اُسے طلب کرتاہے اوراُس کے لئے عمل کرتاہے ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا

الاسراء – 18

جس کا اراده صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائده) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بال آخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وه برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا ۔

اور فرمایا:

وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ‎﴿٦﴾‏ يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ

الروم – 6/7

لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ وہ تو صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر کو ہی جانتے ہیں اور آخرت سے بالکل ہی بے خبر ہیں۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے اُن کے بارے میں بیان کیا  کہ وہ نہیں جانتے جبکہ وہ دنیاوی زندگی کے ظواہر کو جاننے والے ہوسکتے ہیں۔بسااوقات اُن میں سے ایک شخص بہت سے معارف اور دنیاوی علوم کے میدان  میں صاحب ِ تجربہ بھی ہوسکتاہے۔اسی لئے حسن بصر رحمہ نے فرمایا:”اللہ کی قسم تم میں سے کوئی دنیاوی علم میں اس مقام کو پہنچ جاتاہے کہ وہ درھم کو اپنے ناخن پر پلٹتا ہے اور تمہیں اُس کا وزن تک بتادیتا ہے پر دوسری طرف یہ اُسے ٹھیک سے نماز پڑھنی بھی نہیں آتی”۔ اور بعض سلف نے کہا : “لوگ اپنی معیشت اور دنیا کے معاملے کو جانتے ہیں  کہ کب کھیتی کریں گے اور کب کاٹیں گے ،کیسے پودالگائیں گے اور کیسے کاٹیں گے “۔

اور اللہ تعالیٰ نے بعض اقوام کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

ذَلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْمِ

النجم – 30

یہی اُن کے علم کی انتہا ہے۔

یعنی دنیا کی طلب اور اُس کے لئے کوشش کرنا ہی وہ مقصد ہے جس تک وہ پہنچے ہیں۔ اور اُن کے علم کی انتہا یہ ہے کہ اُنہوں نے دنیا کوآخرت پر ترجیح دی ہے ۔

اللہ کے بندو! وہ کیا بنیاد ہے جو لوگوں کےبیچ تفریق کرتی ہے ،اُن کےبیچ مرتبوں کے فرق کا معیار کیا ہے ؟ کیا وہ ہیئت ،شکل و صورت ہے ؟ بالکل نہیں ! اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ھود علیہ السلام کی قوم کو جن خصوصیات سے نوازا تھا جس کا ذکر ھود علیہ السلام کی زبانی قرآن مجید میں اس طرح آتا ہے:

وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً ۖ

الاعراف – 69

اور ڈیل ڈول میں تم کو پھیلاؤ زیاده دیا۔

یعنی جسم ،قوت اور شدتِ پکڑ میں ۔ لیکن اُن کی کوئی قدر و قیمت اور شرف و منزلت نہیں تھی کہ انہوں نے اپنے ر ب کی نعمتوں کا انکار کیا ،اُس کے رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں عذاب کے ذریعے بے نام و نشان کردیا۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا

الاعراف – 40

ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا۔

اور اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے ڈرایا ہےاُن میں منافقین کے ظاہر اور اُن کی ہیئت ،منظر ،اچھی اور بُری گفتگوسے دھوکہ کھانا ہے۔ فرمان ِ باری تعالیٰ ہے: 

وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

المنافقون – 4

جب آپ انہیں دیکھ لیں تو ان کے جسم آپ کو خوشنما معلوم ہوں، یہ جب باتیں کرنے لگیں تو آپ ان کی باتوں پر (اپنا) کان لگائیں، گویا کہ یہ لکڑیاں ہیں دیوار کے سہارے سے لگائی ہوئیں، ہر (سخت) آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہی حقیقی دشمن ہیں ان سے بچو اللہ انہیں غارت کرے کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔

اور آپ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : کہ قیامت کے دن ایک بہت بھاری بھرکم موٹا تازہ شخص آئےگالیکن وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی قدرنہیں رکھے گا۔

اور فرمایا:

فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا

الکھف – 105

پس قیامت کے دن ہم اُن کا کوئی وزن نہ کریں گے ۔

ایسے شخص کی کوئی قدر و قیمت نہیں کہ اُس کا دل ایما ن سے خالی ہے اور آپ ﷺ کا فرمان ہے :

بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور جسموں کو نہیں دیکھتا ، وہ تو تمہارے دلوں اور اعمالوں کو دیکھتا ہے۔

اس کےبالمقابل مثال کےطور پر جلیل القدر صحابی رسول ﷺ عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  کی حالت دیکھو جب بعض صحابہ کرام اُن کی پتلی  پنڈلیوں پر ہنسے تو آپ ﷺ نےفرمایا: اُس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے۔ یہ دونوں پنڈلیا ں میزان میں اُحد پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہیں۔اُن کے بارے میں آتا ہے کہ وہ انتہائی نحیف جسم ،کوتاہ قد، شدید گندمی رنگت اور نازک جسامت کے حامل تھے ۔جب چلتے تھے تو دیکھنے والوں کے برابر ہوتے  تھے لیکن اِن تمام چیزوں نے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایااور نہ اُن کی قدر و قیمت کو کم کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کےنزدیک بڑی قدر و قیمت والے اور قیامت کے دن بُلند شان والے ہیں ۔

صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک آدمی اللہ کے رسول ﷺ کے پاس سے گزرا تو آپ ﷺ نے اپنے پاس بیٹھے ایک شخص سے کہا کہ: اِ س کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اُس نے  جواب دیا کہ یہ تو معزز لوگو ں میں سے ہے، اللہ کی قسم اگریہ کسی کےگھر نکاح کا پیغام بھیجے تو یہ اس قابل ہے کہ اِس سے نکاح کردیا جائے،اگر سفارش کرے تو اِس کی سفارش قبول کی جائے۔راوی بیان کرتے ہیں کہ اللہ رسول ﷺ خاموش ہوگئے۔یہاں تک کہ اُن کےسامنے سے ایک اور شخص گزرا تو آپ ﷺ نے پھر ساتھ بیٹھے شخص سے پوچھا : اِ س کے بارے  میں تم کیا کہتے ہو؟ تو اُس شخص نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول ﷺ یہ تو غریب مسلمانوں میں سے ہے کہ اگر کہیں نکاح کا پیغام بھیجے تو نکاح نہ کیا جائےسفارش کرے  تو سفارش قبول نہ  کی جائے۔ اور اگر کوئی بات کرے تو اُسے نہ سنا جائے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ :یہ شخص اُس پہلے والے شخص سے بہتر ہے گو اُس جیسے آدمی زمین بھر کر ہوں۔

ایسا  ہوسکتا ہے کہ آدمی دنیامیں بلند رتبے کا مالک ہو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہواور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا ہو کہ جس کی کوئی پروا نہیں کی جاتی ،لوگوں کے نزدیک اُس کی کوئی قدروقیمت نہیں لیکن وہ شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت سو سے بہتر ہو۔ اس بات پر آپ ﷺ کی یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کتنے ہی لوگ ہیں جو پرآگندہ بال ہیں ،غبار آلود ہیں،اُن کے جسموں پر بوسیدہ کپڑے ہیں،اُن کی کوئی وقعت نہیں ہوتی،لیکن اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم اُٹھا لیں تو اللہ تعالیٰ اُسے پورا کردیتا ہے۔

اے مسلمانو! کیا لوگوں کی قدر و قیمت کا اندازہ اور اُن کی درجہ بندی اُن کے مال و اولاد او ر اُن کے حسب نسب  سے ہوگی؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی قوم کی مذمت  کی اور فرمایا:

وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا

سبا – 37

اور تمہارے مال اور اوﻻد ایسے نہیں کہ تمہیں ہمارے پاس (مرتبوں سے) قریب کردیں ہاں جو ایمان ﻻئیں اور نیک عمل کریں ان کے لئے ان کے اعمال کا دوہرا اجر ہے ۔

بندہ جن چیزوں سے دھوکہ کھا سکتا ہے کہ اُن  میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے نعمتوں سے نوازے  اور اُس پر نعمتوں کی خوب بارش کرے اور وہ بندہ پھر بھی اپنی نافرمانیوں پرقائم ہواور یہ گمان کرے  کہ اللہ کے نزدیک اُس کی قدر و قیمت ،مقام و مرتبہ ہے جبکہ وہ تو اللہ کی طرف سے  ڈھیل ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: جب تم دیکھوں کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو اُس کی نافرمانیوں کے باوجود اُسے وہ چیز عطا کررہا ہے جو وہ چاہ رہا ہے تو جان لو کہ وہ ڈھیل ہے ۔پھرآپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی :

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ

الانعام – 44

پھر جب وه لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشاده کردئے یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو کہ ان کو ملی تھیں وه خوب اترا گئے ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وه بالکل مایوس ہوگئے ۔

اسی طرح انسان کو حسب و نسب اور رشتے داری فائدہ نہیں پہنچاسکتی  ۔ اللہ کے رسول ﷺ سے رشتے داری کے باوجود ابولھب کے انجام کو دیکھو۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ‎﴿١﴾‏ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ‎﴿٢﴾‏ سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ

المسد – 1/3

ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وه (خود) ہلاک ہو گیا ۔ نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی ۔ وه عنقریب بھڑکنے والی آگ میں جائے گا ۔

ایک عربی شاعر کہتا ہے:

قسم ہے کہ انسان تو اپنے دین ہی سے ہے۔

اسی لئے حسب و نسب  پر بھروسہ کر کے تقویٰ کو مت چھوڑو۔

اسلام نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بلند کیا ۔

اور شرک نے ابو لھب جیسے معزز کو پست کریا۔

آدمی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ تکبر کرے اور اپنے حسب و نسب پر فخر کرے اور دوسرے کو حقیر جانے اور اُس کے نسب پر طعن کرے ۔اُس کے گناہ اور مذمو ہونے کےلئے یہ ہی بہت ہے کہ یہ بات دورِ جاہلیت کی خصلتو ں میں سے ہے ۔

آپ ﷺ نے فرمایا: چار چیزیں میری امت میں دورِ جاہلیت میں سے ہیں جنہیں وہ نہیں چھوڑے گی۔

  • حسب و نسب پر فخر
  • نسب پر طعن
  • ستاروں کے ذریعے سے پانی کی طلب
  • اور نوحہ گری

اللہ کے بندو ! ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے آگے جھک جائے۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ثابت قدم رہے اور اپنے حسب و نسب ،مال  اور دوسرے کاموں پر بھروسہ نہ کرے ۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اپنی قوم ،قبیلہ  اور رشتے داروں کو دعوت دی اور کہا:اے عبد مناف کے بیٹو! میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے ذرہ برابر بھی بے نیاز نہیں کرسکتا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے کچھ بھی بے نیاز نہیں کرسکتا۔اے اللہ کے رسول ﷺ کی پھوپھی صفیہ ! میں آپ کو اللہ تعالیٰ سے بالکل بھی بے نیاز نہیں کرسکتا۔اے فاطمہ بنت ِ محمد! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو۔لیکن میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے تمہیں کچھ بھی بے نیاز نہیں کرسکتا۔

اسی طرح اگر آدمی اسلام کے ارکان کو مضبوطی سے نہیں تھامتا  ،اُس کےاحکام پر عمل نہیں کرتا اور اُس کے افکار کو عملا ً نہیں برتتا تو اسلام کی طرف نسبت اُس کے لئے کافی نہیں ہوگی۔

اللہ کے بندو! جو اب تک باتیں ہوئیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی قدر و قیمت نہ تو حسب و نسب ،مال و متا ع نہ اُس کی آرائش ،زیب و زینت اور خوبصورتی سے ہوتی ہےاور نہ ہی اُس کے منصب جاہ و مقام سے ۔ لوگوں کے بیچ باہمی فضیلت کا معیار ایمان اور تقویٰ ہے۔ جیساکہ  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ

الحجرات – 13

 اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔

توپتہ چلا کہ شرف و عزت کی بنیاد تقویٰ ہے ۔یاد رہے کہ دراصل تقویٰ ہی شرف و عزت ہے ۔جبکہ دنیا سے تمہاری محبت ہی ذلت و بیماری ہے ۔متقی بندے میں کوئی کمی نہیں ۔ جب اُس کا تقوی ٰدُرست ہواگرچہ کہ وہ کپڑے ہی کیوں نہ بنتا ہو یا حجامت  ہی کیوں نہ بناتاہو۔

 اللہ کے نزدیک بندے کی قدر و قیمت اور اُس کا دُرست مقام اُس کا ایمان ہے ۔اور جس قدر اُس کےدل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ،اخلاص ،خشوع ،خوف ،امید اور تقویٰ ہے  اور جس قدر اُس کے پاس عمل ہے  جس سے وہ اپنے عقیدے کی دُرستگی،حسنِ سیرت ،استقامت ،دین پر ناز ،اُسے مضبوط تھامنے ،اُس پر ثابت قدم رہنے اور اس کے اُصول و مبادی اور اقدار و اخلاق کی محافظت کو لازم کرتاہے۔

اللہ کے بندو! پیشنگوئیاں آئی ہیں کہ آخری زمانے میں میزان کیسے اُلٹا ہوجائےگا۔اور کیسے وہ معیار خلل کا شکار ہوجائےگاجس سے آدمی کی قدر و قیمت کااندازہ لگایا جاتاہے ۔یہاں تک کہ دنیا دار شخص کےبارےمیں کہا جائےگاکہ وہ کتنا عقلمند ہے،وہ کتنا زِیرک ہے ،وہ کتنا مضبوط ہے ۔جبکہ اُس کے دل میں رائی کے کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔یعنی تھوڑا بھی ایمان نہیں ہوگا۔

اللہ کے بندو! مومن کا ارادہ اُس کےعمل سے بڑھ کر پہنچنے والا ہوتاہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایک نیکی کا ارادہ کیا اور اُسے کر نہ سکا  تو اللہ تعالیٰ اُسے اُس کی طرف سے مکمل نیکی لکھتا ہے ۔اور آپ ﷺ نے فرمایا: جس  نے صدق ِ دل سے اللہ تعالیٰ سے شہادت طلب کی  تو اللہ تعالیٰ اُسے شہیدوں کے درجوں تک پہنچاتاہے  اگرچہ کہ وہ اپنے بستر پر ہی مرے ۔اور آپ ﷺ نے فرمایا: ہر وہ شخص جس نے رات میں نماز پڑھنے کا ارادہ کیا پھر نیند کا اُس پر غلبہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اُس کی نماز کا بدلہ اُس کےلئے لکھتا ہے اور اُس کی نیند اُس پر صدقہ ہوتی ہے ۔

اللہ کے بندو! ایک آدمی کی زندگی کی قیمت کیا ہے ۔وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے۔دن  پے درپے آتے جاتے ہیں اور وہ غفلت  و لہو لعب میں پڑا ہو۔نفع بخش چیز کی طلب سے بےنیاز ہوگیا ہو ،اُس چیز کے سیکھنے میں دلچسپی نہ لے جس  کی اُسے ضرورت ہو اور اُس کے بارے میں نہ پوچھے جس میں اُس کی کامیابی و کامرانی  ہو۔ اپنی دنیا کے پیچھے بھاکتا پھرے ۔ نہ اُس کے پاس ذکر ہو ،نہ علم نہ عبادت نہ نیک عمل ،نہ اللہ کے ذکر میں لگنے اور نہ اللہ سے قریب کرنے والی چیزوں میں اُس کی مشغولیت ۔ بس اُس کی اپنی زندگی ،اُس کے دنیاوی اعمال کی خبریں، حسب و نسب پر فخر اور بے بقصد چیزوں میں وقت کا ضیاع ۔ یہی اُس کےپاس ہو۔اسی طرح  برابر نہیں ہوسکتے وہ جو علم حاصل کرتے ہیں ۔ خود نفع اُٹھائیں اور لوگوں کو بھی فیض یاب کریں۔پھر اِسی طرح وہ جو علم حاصل کرتے ہیں کہ فخر کریں ۔وہ برابرنہیں ہوسکتے اُن لوگوں کے رزقِ حلال کماتے ہیں تاکہ اپنی ضرورتوں میں اُس سے فائدہ اُٹھائیں اور اُس کے ذریعے لوگوں سے بے نیاز ہوں اور ضرورتمندوں کی مدد کریں۔پھر وہ جو مال کماتے ہیں کہ اُس کے ذریعے فخر کریں اور ناجائز طریقے سے اُسے خرچ کریں ۔ اور برابرنہیں ہوسکتے وہ جو اولاد طلب کرتے ہیں کہ وہ نیک ذریت  سے نوازے جائیں اور وہ  جو اولاد طلب کرتے ہیں کہ اُن کی کثرت پر نازاں ہوں اور بڑے بنیں۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ

الشوریٰ – 20

جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو  ہم اُسے اُس کی کھیتی میں ترقی دیں گے۔

میں جو کہ رہاہوں وہ تم سن رہے ہو۔ تو میں اپنے لئے اور تمہارے لئے اللہ رب العالمین  سے مغفرت طلب کرتاہوں۔

دوسرا خطبہ:

 ہر قسم کی تعریف اللہ رب العالمین کےلئے ہے۔اللہ تبارک  و تعالیٰ  کی رضا میں ہی سعادت ہے۔اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر میں ہی کامیابی و کامرانی ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ رب العالمین کے سواکوئی معبودِ حقیقی نہیں ۔وہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت کی جاتی ہے  تو اللہ تعالیٰ اُسے  قبول کرتاہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔آپ ﷺ سے بہتر کوئی انسان اس دنیا میں نہیں آیا۔ اور درود و سلام ہوں آپ ﷺ پر ۔

اما بعد!

اللہ کے بندو! جب ہر آدمی  کی قدر و قیمت اِس بات سے طےہوتی  ہے کہ وہ کیا طلب کرتا ہےتو تم دیکھو کہ تم کیا طلب کرتے ہواور کس چیز کی طرف جارہے ہو۔اور اگر تم چاہو کہ اللہ کے نزدیک اپنے مقام کو جانوتو دیکھو کہ تمہارے نزدیک اللہ تعالیٰ کا مقام کیا ہے ۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ جسے یہ جاننا ہو کہ اللہ کے نزدیک اُس کے لئے کیا ہے تو اُسے یہ دیکھنا چاہیئےکہ اُس کے پاس اللہ رب العالمین کے لئے کیا ہے ۔

اللہ کے بندے ! اگر آپ نیک کام کرنے  کا اردہ رکھتے  ہیں تو جلدی کریں ۔اور اگر آپ نے عزم کرلیا ہے تو ثابت قدم رہیں ۔اور اگر بھرپور کوشش کی ہے تو صبر و تحمل  سے کام لیں۔اور جان لیں کہ وہ خوبیوں اور شاندار کارناموں کو نہیں پاسکتا جو شخص تھوڑا حاصل کرنے سے مطمئن اور آخری شئی سے راضی ہو۔ اور یاد رکھئے کہ جنت میں داخلہ صرف اللہ رب العالمین کی رحمت سے ہی ہوگالیکن اہلِ جنت سے مرتبے ،جنت کے مقامات اور درجات  میں باہمی فرق  لوگوں کے ایمان تقویٰ اور نیک اعمال کے حساب سے ہوگا۔اس لئے آدمی کو چاہیئے کہ بلند ہمت رہےاور کوشش کرے ۔تاکہ جنت کے بلند مقامات تک پہنچے اور اُس جال سے بچے  جو اُس کے اور جنت کے بلند مقامات کے حصول کے درمیان میں حائل ہوجاتاہے ۔

اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو اُن خصوصیات سے نوازا ہے جو دوسری امتوں کے لئے نہیں۔یہ دنیا و آخرت میں سب سے بڑی امت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اُس کی قدر و قیمت بلند کی ہے ۔اُسے شرف سے نوازا ہے ، اُسے چنا ہے ۔اور اُسے سب سے اچھی امت بنایا جو لوگوں کےلئے نکالی گئی ہے ۔ اور یہ امت آج بیداری اور سچی واپسی کی ضروتمند ہے ۔بعد اس کےکہ من جملہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ،اپنے نبی ﷺ کی سنت ،سلفِ امت کے طریقے کے  معاملے  میں دور نکل گئی ہے اور دین کو مضبوطی سے تھامنے کا معاملہ کمزور پڑگیا ہے۔ یہ جن شان و شوکت کی چوٹیوں اور عظمت کی بلندیوں پر تھی اُس کے برعکس ہوگئی۔اُس نے اپنی شوکت ،عزت ،قدر و قیمت  اور قوت و ہیبت کو کھودیا۔ اسے یاس و ناامیدی اور ناکامی  و شکست نے کمزور کردیاہے۔ اُس کی ہمت پست ہوگئی۔ اور قوتیں جواب  دے گئیں اور وہ اپنی راہ ،اہداف، اصول  اور قیادت سے پیچھے رہ گئی۔ دوسری امتوں پر بوج بن گئی ۔ سنو یہ اس بات کی بہت زیادہ مستحق ہے کہ وہ اپنے پرانے ماضی اور دُرست تاریخ کی طرف لوٹے۔

یہ بات پوری ہوئی۔ درود و سلام بھیجو خیرالواء ،خاتم الانبیاء  محمد مصطفیٰ ﷺ پر  جس کا تمہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیاہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ محمد اور آلِ محمد ﷺ پر اُسی طرح رحمتیں اور  برکتیں نازل فرماجس طرح  تو نے ابراھیم علیہ السلام اور اُ ن کی آل پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں ۔ یقینا ً تو قابلِ تعریف اور عظمت والا ہے۔

اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان  ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی   سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اورہم سے بھی ۔

 اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔

اے اللہ ! تو بیماریوں ،اورفتنوں سے ہماری حفاظت فرما۔

اے اللہ !  تمام ظاہری و باطنی فتنوں سے ہماری حفاظت فرما۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! تو فلسطین کی اور  اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں  سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔

خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ  فیصل بن جمیل الغزاوی حفظه اللہ
3 صفر 1443هـ بمطابق 10 ستمبر 2021

مصنف/ مقرر کے بارے میں

Islamfort1