کورونا وبا! گزشتہ سال ہمارے حالات اور ہمارے گناہ
گزشتہ ایک سال انسانی تاریخ میں اپنے ان مٹ اثرات کی بدولت ہمیشہ یادگار رہے گا، پوری دنیا اپنی تمام تر ترقی و ٹیکنالوجی کے باوجود ایک عالمی وبا کا شکار ہوئی ،پورا عالم انسانی خوف کا شکار تھا ، کاروبارِ دنیا تھم کر رہ گیا ، ایک ان دیکھے جرثومے نے ایسی دہشت پھیلائی کہ لوگ گھروں میں محصور ہوگئے، میڈیکل سائنس کی بلندی کے دعویداروں نے گھٹنے ٹیک دیئے، انسانوں کا ایک دوسرے سے دور رہنا ہی علاج ٹھہرا۔
ہم اس معاملے کو کچھ بھی کہہ لیں ، ایک عالمی وبا یا ایک عالمی سازش، بہرحال یہ ایک آزمائش تھی ، ایک فساد و فتنہ تھا،جس نے انسانی زندگی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا، یہ اللہ کا امر تھا جو ہوکر رہتا ہے، ایسا ہوا کیوں ؟ اس کی وجہ قرآن نے کچھ یوں بیان کی ہے:
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
الروم – 41
“خشکی اور سمندرمیں لوگوں کے اعمال کی وجہ سے فساد برپا ہوگیا ہے تاکہ اللہ لوگوں کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں”۔
یقیناً یہ ہمارے گناہ ہی ہیں جو اللہ کے عذاب کا باعث بنتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ہمیں بار بار اپنے گناہوں سے رجوع کا موقع فراہم کرتا ہے، اور یقیناً بڑے خوش نصیب ہیں جو ان موقعوں سے سیکھتے ہیں، اللہ کی طرف رخ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسے افراد میں شامل فرمائے۔
بیماری بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور شفا بھی وہی دیتا ہے، اور یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ہر بیماری کا علاج بھی نازل فرمایا ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
ما أنْزَلَ اللَّهُ داءً إلَّا أنْزَلَ له شِفاءً
“اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نازل نہیں کی جس کی دوا نازل نہ کی ہو”1
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بدولت حالیہ وبا کا علاج بھی دریافت ہوچکا ہے، جو کہ ویکسین کی صورت میں ہے ، یہ اقدامی علاج کی صورت ہے ، یعنی بیماری لگنے سے تحفظ کا ذریعہ ، یہ علاج کی ایک جدید شکل ہے لیکن اس کا تصور کافی قدیم ہے، اس طریقہ علاج میں انسان کے خود کار مدافعتی نظام کو اس قدر طاقتور بنا دیا جاتا ہے کہ وہ جسم میں اس بیماری کو جگہ بنانے ہی نہیں دیتا، اور یوں انسان اس بیماری کا شکار ہونے سے بچ جاتا ہے، دور حاضر کی کئی بیماریوں خصوصا وبائی امراض کا علاج ویکسین ہی کے ذریعہ کیا جاتا ہے، جیساکہ پولیو، سوائن فلو وغیرہ اس کی معروف مثالیں ہیں۔
ویکسین کے تعلق سے دنیا بھر کے بہت سے افراد شک و شبہ میں مبتلا ہوتے ہیں، بعض حضرات اس کو کسی سازش کا حصہ سمجھتے ہیں، بعض اس کی تیاری میں کسی حرام اجزاء کے شامل ہونے کی بنا پر اس کو حرام سمجھتے ہیں، اور یہ شکوک وشبہات خصوصا کورونا ویکسین کے حوالہ سے بہت سے افراد کے ذہنوں میں موجود ہیں۔اور چونکہ جلد یا بدیر کوروناویکسین کا یہ سلسلہ ہر عام و خاص تک ضرور پہنچے گا لہذا اس معاملہ کو جدید سائنسی تحقیق کے معتبر ذرائع اور شرعی دلائل کی روشنی میں پرکھنا ضروری ہے تاکہ اس کی حلت و حرمت اور نفع و نقصان واضح ہو اور ایک عام مسلمان اس حوالہ سے علی وجہ البصیرہ کو ئی فیصلہ کر سکے۔
آئندہ سطور میں ہم عمومی ویکسین کی شرعی حیثیت اور خصوصا کورونا ویکسین کی حلت و حرمت کا جائزہ جدید میڈیکل سائنس و شرعی دلائل کی روشنی میں پیش کریں گے۔
ویکسین : طبی تعارف اور شرعی حیثیت۔ (مختلف ویکسین کے متعلق لجنات وعلماء کی آراء)
لفظ Vaccine لاطینی زبان کے لفظ Vacca سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے گائے، اس کی تاریخ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک برطانوی سائنسدان ایڈورڈ جینر نے 1796 میں Smallpox یعنی چیچک کی بیماری کے لئے گائے کی ایک متعدی بیماری Cowpox کا وائرس لے کر پہلی ویکسین بنائی تھی، اور کیونکہ یہ وائرس گائے سے لیا گیا تھآ لہذا اس دوائی کو Vaccine یعنی “گائے سے ماخوذ ” کہا جانے لگا. 2
میڈیکل سائنس میں ویکسین کی مختلف تعریفات ذکر کی جاتی ہیں ، Oxford Dictionary of Biochemistry and Molecular Biology میں ویکسین کی تعریف یوں ذکر کی گئی ہے:
Any preparation of immunogenic material suitable for the stimulation of active immunity in animals without inducing disease. Vaccines may be based on dead or attenuated microorganisms; altered toxins (toxoids); or viruses. 3
یعنی ویکسین سے مراد ایسے مدافعتی مواد کی تیاری جو کسی مرض کا سبب بنے بغیر جانداروں میں موجود مدافعتی نظام کو متحرک کرسکے ۔ ویکسین کسی مردہ یا کمزور جرثوموں ، متغیر زہریلے مادہ، یا وائرس پر مشتمل ہوسکتی ہے۔ اس تعارف سے دو امور واضح ہوتے ہیں :
۱: ویکسین کوئی دوا نہیں ہے ، بلکہ یہ انسانی جسم میں موجود خود کارمدافعتی نظام کو متحرک کرنے کا ذریعہ ہے۔
۲: ویکسین میں کسی بیماری یا اسی بیماری کا جرثومہ یا وائرس ہوسکتا ہے جس سے بچاؤ مقصود ہے۔
ویکسین کی شرعی حیثیت:
جیسا کہ درج بالا تفصیل سے واضح ہوگیا کہ ویکسین ایک اقدامی تحفظ کا ذریعہ ہے ، اور یہ ایک صحت مند آدمی کو آئندہ کے تحفظ کے پیش نظر لگائی جاتی ہے، اور اس میں گویا کہ مرض کو ایک صحت مند آدمی پر پیش کیا جاتا ہے، اس لئے ویکسین کے اس عمل کے متعلق اہل اسلام میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ جہاں تک اقدامی تحفظ کا تعلق ہے تو شریعت کے مقاصد کے پیش نظر ہمیں یہ بات بالکل واضح معلوم ہوتی ہے کہ آئندہ آنے والے نقصان سے اقدامی تحفظ ہمیشہ سے شریعت کا مقصود رہا ہے، چاہے اخروی خسارہ سے محفوظ رہنے کے لئے دنیا میں عمل کرنے کی بات ہو، شیطان سے حفاظت اور دنیاوی آفات سے بچاؤکے لئے صبح و شام کے اذکار ہوں ، بدکاری سے بچنے کے لئے نظروں کا جھکانا ہو، یا حرام سے بچنے کے لئے مشتبہ چیزوں کو ترک کرنے کا بیان ہو، ہمیں ہر معاملہ میں اقدامی تحفظ کا درس دیا گیا ہے، بلکہ کھانے پینے کے معاملہ میں اور علاج کے حوالہ سے بھی نبی کریم کﷺکے فرامین ہمیں یہی تعلیم دیتے ہیں ، جیسا کہ صحیح بخاری میں ایک حدیث مبارک ہے کہ :
مَنْ تَصَبَّحَ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعَ تَمَرَاتٍ عَجْوَةً، لَمْ يَضُرَّهُ فِي ذَلِكَ اليَوْمِ سُمٌّ وَلَا سِحْرٌ
“جس نے ہر دن صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھالیں ، اسے اس دن نہ زہر نقصان پہنچا سکے گا اور نہ جادو “۔4
یعنی زہر اور جادو سے بچنے کے اقدامی تحفظ کے لئے یہ عمل کرنا سنت ہے۔
البتہ جہاں تک بڑی بیماری سے خود کو محفوظ کرنے کے لئے معمولی بیماری از خود لگا لینا، یا زہریلا مواد اپنے جسم میں انجیکٹ کرنے اور اسی طرح کے دیگر نقصان دہ امور کا معاملہ ہےتو اس مسئلہ کی تفصیل اور علماء کی آراء ہم کورونا ویکسین کی شرعی تفصیلات میں ذکر کریں گے ۔ ان شاء اللہ
ویکسین کی تاریخ
اس حوالہ سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ویکسین طریقہ علاج کی دریافت یورپ نے کی تھی جیسا کہ ویکسین کے تعارف میں ایک برطانوی سائنسدان ایڈورڈ جینر کا تذکرہ گزرا ہے کہ اس نے چیچک کی ویکسین دریافت کی تھی ، جب کہ خود اہل مغرب کے کئی محققین نے اس دعو ی کی تردید کی ہے، بلکہ اس دریافت کا سہرا ابتدائی طور پر چینی باشندوں کے پاس ہے، اور اس دریافت کو مزید ترقی اور عروج مسلمانوں نے دیا، جیسا کہ برطانوی سائنسدان گیرتھ ولیم Gareth Williams نے اپنی کتاب Angel of Death جو کہ چیچک کی تباہ کن تاریخ پر مشتمل ہے میں ذکر کیا ہے کہ معروف برطانوی مصنفہ اور شاعرہ Lady Mary Montague لیڈی مونتاج نے پہلی دفعہ چیچک کی ویکسین کا مظاہرہ سنہ ۱۷۱۷ء میں ترکی استنبول میں خلافت عثمانیہ کے شاہی طبیبوں کے ہاتھوں دیکھا جب ان کے شوہر برطانیہ کے سفیر کے طور پر استنبول میں موجود تھے اور ۱۷۱۸ء میں انہوں نے اپنے پانچ سالہ بیٹے کو چیچک کی ویکسین بھی لگائی۔ 5
اور یہ بات لیڈی مونتاج نے اپنے کئی دوستوں کو خطوط کے ذریعہ بھی بتائی تھی۔ 6
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جدید دنیا میں ویکسین کا تصور سب سے پہلے مسلمانوں نے دیا اور طویل عرصہ کے بعد یہ تصور یورپ پہنچا، اور پھر یہ طریقہ علاج متعدد بیماریوں خصوصا وبائی امراض کے لئے استعمال ہونے لگا۔
کورونا ویکسین کی شرعی حیثیت :
ویکسین کے حوالہ سے بات ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ اس طریقہ علاج کا شرعی تصور موجود ہے، البتہ ویکسین میں شامل اجزاء اور ویکسین کے اثرات کے تعلق سے کافی شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں جو کہ اس کی شرعی حیثیت کو متاثر کرتے ہیں۔ اور یہی اعتراضات کورونا ویکسین پر بھی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کورونا ویکسین کی مختلف اقسام ہیں ، جو کہ مختلف طریقہ کار کے ذریعہ بنائی جاتی ہیں۔ ابھی تک کورونا ویکسین کی چار اقسام سامنے آئی ہیں:
- WHOLE VIRUS VACCINE
- NON-REPLICATING VIRAL VECTOR
- PROTEIN SUBUNIT
ان تینوں اقسام میں مکمل وائرس انتہائی کمزور صورت میں یا وائرس کا کچھ حصہ جسم میں داخل کیا جاتا ہے تاکہ جسم کا خود کار مدافعتی نظام اس کے خلاف متحرک ہوجائے اور آئندہ کے لئے جسم میں ایک دفاعی نظام تشکیل پا جائے۔ زیادہ تر ویکسین انہی اقسام پر مبنی ہوتی ہیں، اور چونکہ اس میں کسی حد تک وائرس کسی نہ کسی صورت میں ہوتا ہے اس لئے اس کے سائیڈ ایفیکٹ بھی ہوتے ہیں ، اور اس میں ایسے مشتبہ عناصر جو خنزیر یا کسی اور حرام جانور سے ماخوذ ہوں اس کی موجودگی بھی ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں جو چائینز ویکسین لگائی جارہی ہے وہ انہی اقسام پر مشتمل ہے۔
4. RNA or mRNA VACCINE
اس ویکسین کو genetic messenger بھی کہا جاتا ہے، اس میں وائرس موجود نہیں ہوتا بلکہ انسانی جسم کے خلیات کے لئے معلومات ہوتی ہیں جس کی بنیاد پر مدافعتی نظام اس وائرس کے خلاف دفاعی نظام تشکیل دیتا ہے۔ کورونا سے بچاو کے لئے سب سے پہلے جو ویکسین بنائی گئی وہ اسی طریقہ کار کے ذریعہ بنائی گئی تھی جسے Pfizer-BioNTech نامی کمپنی نے بنایا تھا۔ ۔7
اس ویکسین میں چونکہ وائرس موجود نہیں ہوتا اس لئے اس کے سائیڈ ایفیکٹ بھی بہت کم ہوتے ہیں اور چونکہ یہ ایک مصنوعی انداز سے بنائی جاتی ہے اس لئے اس میں حرام اجزاء و عناصر کی شمولیت کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔بلکہ امریکی ادارہ FDA نے اس ویکسین کے اجزاء کی جو فہرست جاری کی ہے اس کے مطابق اس میں بظاہر کسی حرام عنصر کی شمولیت نظر نہیں آتی۔ 8
اور خود Pfizer نے اپنی ویب سائٹ پر اس بات کا دعوی کیا ہے کہ اس کی ویکسین میں کسی جاندار سے اخذ کردہ عناصر شامل نہیں ہیں۔
عمومی طور پر ویکسین میں حرام اجزاء کی شمولیت یا تو براہ راست ہوتی ہے کہ خنزیر کے جسم سے کشید کردہ اجزاء ویکسین میں شامل کردئیے جائیں ، جیساکہ Porcine gelatin اکثر ویکسین میں شامل کیا جاتا ہے، یا بسا اوقات ویکسین میں شامل کردہ بعض عناصر کی تیاری کے مراحل میں کہیں خنزیر یا حرام جانوروں سے ماخوذ عناصر استعمال ہوتے ہیں، جیسا کہ بعض عناصر کی تیاری میں enzyme استعمال ہوتا ہے جو کہ اکثر خنزیر سے کشید کردہ ہے۔ اور کورونا ویکسین میں دونوں طرح کے حرام اجزاء کی شمولیت کا قوی امکان ہے۔ اور یہ امکان اس وقت زیادہ قوی ہوجاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان ویکسین کو ایجاد کرنے والی کمپنیوں نے ان کے اجزاء کی تفصیلات آج تک مہیا نہیں کی ہیں، اور گزشتہ سالوں میں جو ویکسین تیار ہوتی رہی ہیں ان میں حرام اجزاء کی شمولیت واضح ہے ، خاص طور پر سوائن فلو اور Rota virus کی ویکسین اس کی بڑی مثال ہیں۔
اب ایک مسلمان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کورونا ویکسین میں حرام اجزاء کی شمولیت ہو تو اسے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ایک صحتمند آدمی کو جان بوجھ کر خود کو بیماری لگانا شرعی اعتبار سے درست ہے یا نہیں ۔ایک بات تو واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حرام اشیاء سے علاج کرنے سے منع فرمایا ہے ، آپ ﷺکا فرمان ہے :
لاَ تَدَاوَوْا بِحَرَامٍ
حرام چیز کے ساتھ علاج مت کرو۔9
اس طرح کی اور کئی احادیث ہیں جن میں آپ ﷺ نے حرام سے علاج کی ممانعت فرمائی ہے۔ اسی لئے علماء کرام نے اس طرح کی ادویات اور ویکسین جن میں حرام اجزاء شامل ہوں ان کے حوالہ سے مختلف شرعی وفقہی اصول وقواعد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تحقیقات پیش کی ہیں ۔اور بنیادی طور پر دو موقفات سامنے آئے ہیں۔ بعض نے اسے استحالہ کی بنیاد پر حلال قرار دیا ہے اور بعض علماء و فتاوی کمیٹی نے فقط ضرورت و مجبوری کے تحت اجازت دی ہے۔ آئندہ سطور میں ہم انہی اصول وقواعد کو سامنے رکھتے ہوئے کورونا ویکسین کی شرعی حیثیت پر گفتگو کریں گے۔
پہلا قاعدہ: استحالہ۔ PHYSICAL AND CHEMICAL TRANSFORMATION
استحالہ کا بنیادی شرعی مفہوم یہ ہے کہ حرام و نجس چیز اپنی ماہیت و حالت کو تبدیل کر کے ایک حلال و پاک چیز کی ماہیت و حالت میں اس طرح بدل جائے کہ پہلی ماہیت کی کوئی صفت اور علامت یا کیفیت اس میں موجود نہ ہو، بلکہ اس کا نام ہی تبدیل ہو کر رہ جائے۔10یہ تبدیلی فطری طریقہ سے بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ شراب کا خود بخود سرکہ میں بدل جانا اور یہ تبدیلی کسی انسان کی مداخلت کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے کہ شراب میں کوئی ایسا کیمیکل ڈال دیا جائے جس سے وہ سرکہ میں بدل جائے۔
شراب کا خود بخود سرکہ بن جانے کی صورت میں اس کے حلال ہونے پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔11کیونکہ نبی کریم ﷺنے سرکہ کو بہترین کھانا قرار دیا ہے،12اور سرکہ بننے کے مراحل میں سرکہ سے پہلے پھلوں کے اس رس میں کسی حد تک نشہ موجود ہوتا ہے جو کہ Ethanol کی صورت میں ہوتا ہے اور جب یہ ethanol اپنی ماہیت تبدیل کر کے acetic acid میں بدل جاتا ہے تو پھلوں کا یہ رس سرکہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے اوراس میں سے نشہ ختم ہوجاتا ہے۔البتہ اگر یہ تبدیلی کسی انسان کی مداخلت کا نتیجہ ہو تو اس میں علماء کا اختلاف ہے جس کی تفصیل آئندہ سطور میں ذکر ہوگی۔
شراب کے علاوہ دیگر حرام و نجس اشیاء کے استحالہ میں علماء کا اختلاف ہے، تاہم استحالہ اگر فطری طریقہ سے ہو تو جمہور علماء نے اس کا اعتبار کیا ہے ،اور یہ موقف احناف14، امام ابن حزم15، شیخ الاسلام ابن تیمیہ16، اور حافظ ابن قیم17رحمہم اللہ کا ہے، اور اسی کے مطابق سعودی عرب کی لجنہ دائمہ18کا فتوی بھی موجود ہے۔
تاہم اگر استحالہ چاہے شراب کا سرکہ میں بدل جانا ہو یا نجس کا حلال میں ، اگر یہ کسی انسان کے ارادہ اور مداخلت کے نتیجہ میں ہوا ہو تو جمہور علماء اس کے حلال و پاک ہونے کے قائل نہیں ہیں، اور یہ موقف امام مالک19، امام شافعی20، امام احمد21، شیخ الاسلام ابن تیمیہ22، اور حافظ ابن قیم کاہے23، بلکہ امام نووی نے اسے علماء کی اکثریت کا موقف بیان کیا ہے، اور اسی کے مطابق سعودی عرب کی لجنہ کبار علماء کا فتوی بھی موجود ہے24۔اور اس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ سے صحابہ کرام نے پوچھا کہ کیا ہم شراب کو سرکہ میں بدل لیں تو آپ ﷺنے اس سے منع فرمایا25۔
البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ چاہے استحالہ فطری ہو یا مصنوعی ہو اس کے ذریعہ حرام چیز حلال ہوجاتی ہے، کیونکہ اس حرام چیز کے حرام ہونے کی علت ختم ہوچکی ہے، اور کسی بھی چیز کا حکم اس کی علت کی بنیاد پر ہی لگتا، ہے تو اگر شراب سے نشہ ختم ہوجائے اور وہ سرکہ میں بدل جائے چاہے وہ فطری طریقہ سے ہو یا مصنوعی طریقہ سے وہ سرکہ حلال و پاک ہوجائے گا۔ اور خاص طور پر اگر عموم بلوی ہو یعنی عوام الناس اس میں مبتلا ہوجائیں تو اس صورت میں بالاولی اس کا حکم حلال کا ہوگا۔26
کورونا ویکسین میں استحالہ کا اطلاق یوں ہے کہ Porcine gelatin اور ایسے بیکٹیریا جو خنزیر سے کشید کردہ enzyme میں پروسیس کیئے جاتے ہیں ، اور اسی طرح خنزیر سے کشید کردہ دیگر اجزاء و عناصر اس transformation سے گزر کر اپنی ماہیت و حالت تبدیل کرچکے ہوتے ہیں ، اور ان میں اب خنزیر کے عناصر کا وجود مٹ چکا ہوتا ہے لہذ ا استحالہ کی بنیاد پر ان کا حکم حلال کو ہوگا۔ یہ فتوی ان علماء کا ہے جو مصنوعی استحالہ کے حلال ہونے کے قائل ہیں، دنیا بھر کی مختلف علماء کمیٹیوں نے یہ فتوی جاری کیا ہے، جن میں :
- متحدہ عرب امارات کی مجلس افتاء۔27
- Islamic Organization for Medical Sciences Kuwait.28
- British Islamic Medical Association.29
- Islamic Religious Council of Singapore شامل ہیں۔30
جبکہ Malaysian National Fatwa Committee کے کئی اراکین و علماء نے ایسی کورونا ویکسین کو حرام اور نجس قرار دیا ہے جس میں خنزیر کے عناصر شامل ہوں چاہے استحالہ کے عمل سے ہی گزرے ہوں ، اور اس کی انہوں نے تین بنیادی وجوہات ذکر کی ہیں:
- شراب کے استحالہ پر ویکسین کے استحالہ کو قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ شراب میں کسی بیرونی حرام چیز کی ملاوٹ نہیں کی جاتی بلکہ وہ خود ہی حرام سے حلال میں تبدیل ہوجاتی ہے، جبکہ ویکسین میں حلال اشیاء میں حرام عناصر کو ملایا جاتا ہے۔
- ویکسین کی تیاری میں استحالہ کی غرض سے حرام و حلال اجزاء کی ملاوٹ دانستہ کی جاتی ہے، جبکہ شریعت نے فقط ایسے استحالہ کا اعتبار کیا جو فطری ہو اور دانستہ ومصنوعی نہ ہو۔
- ویکسین میں استحالہ مکمل طور پر نہیں ہوتا ، یعنی حرام اجزاء کو لیبارٹری کے تجربات کے ذریعہ باآسانی شناخت کیا جاسکتا ہے، تو اس کا معنی یہ ہوا کہ نجس چیز بعینہ موجود ہے اور اس نے اپنی حالت کو تبدیل نہیں کیا۔31
ان نکات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس استحالہ کا فتاوی کمیٹیوں نے اعتبار کیا ہے اس میں کئی حوالوں سے کمزوری موجود ہے اور اس اصول پر نظر ثانی کی بہت گنجائش ہے۔
دوسرا قاعدہ: استہلاک۔
بعض علماء نے استحالہ کے اصول کے بجائے استہلاک کا اصول پیش کیا ہے، جو کہ استحالہ کی ہی ایک صورت ہے، استہلاک کا مفہوم یہ ہے کہ قلیل حرام میں اس قدر حلال کی اآمیزش کردی جائے وہ حرام اس میں ہلاک یعنی فنا ہوجائے۔اس کی دلیل نبی کریم ﷺکا فرمان ہے : جب پانی دو قلے (تقریبا 230 لیٹر) ہو تو اس کوئی چیز نجس نہیں کرتی۔ یعنی اگر اس پانی میں نجاست گرجائے تو پانی کی یہ کثیر تعداد اس کو پاک کردیتی ہے32، اسی طرح ایک حدیث میں آپ ﷺنے سمندر کے پانی کے متعلق فرمایا : اس کا پانی پاک ہے، اور اس کا مردار حلال ہے33۔ اس کی ایک مثال جو فقہ کی کتابوں اکثر و بیشتر دی جاتی ہے کہ اگر کوئی پانی نجس ہو تو اس میں کثیر تعداد میں پاک پانی کا ملادیا جائے جس وہ نجاست فنا ہوجائے اور پانی کا رنگ ، بو اور ذائقہ بدل کر پاکیزہ ہوجائے۔
ویکسین میں استہلاک کا اصول Islamic Religious Council of Singapore نے پیش کیا ہے ، اور اس اصول کی تطبیق Rota virus کے متعلق اپنے فتوی میں Trypsin solution کے حوالہ سے ذکر کیا ہے، جس میں خنزیر سے کشید کردہ enzyme کی بہت قلیل مقدار جو کہ کمیٹی کے مطابق (0.0001%) فیصد ہوتی ہے۔ لہذا کمیٹی کے مطابق دیگر حلال اجزاء کی کثرت کی بناء پر یہ عنصر فنا ہوجائے گا اور اس کو حلال قرار دیا جائے گا34۔ درج بالا فتاوی کمیٹیوں نے اس اصول کو کورونا ویکسین پر بھی منطبق کیا ہے ، لیکن اس اصول کے عملی تطبیق کے لئے حرام اجزاء کی صحیح مقدار اور حلال اجزاء کی کثیر مقدار کا معلوم ہونا ضروری ہے۔اور یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اس کثیر تعداد کی بنا پر حرام اجزاء تحلیل ہوئے یا باقی رہے؟۔ جبکہ یہ معلومات ابھی تک میسر نہیں ہیں۔ لہذا اس اصول کا بھی کورونا ویکسین کے معاملہ میں استعمال درست نہ ہوگا۔
تیسرا قاعدہ : عند الضرورۃ۔
شریعت کا قاعدہ ہے کہ
الضرورات تبيح المحظورات
یعنی ضرورت حرام چیز کو حلال کردیتی ہے ، اور یہ قاعدہ قرآن مجید کی ان آیات سے ماخوذ ہے جس میں اللہ تعالی نے حرام اشیاء کے تذکرہ کے بعد مجبور کے لئے ان کا استعمال جائز فرمایا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
البقرة – 173
تم پر مرده اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وه چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے پھر جو مجبور ہوجائے اور وه حد سے بڑھنے واﻻ اور زیادتی کرنے واﻻ نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناه نہیں، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے واﻻ مہربان ہے۔
اسی طرح فرمایا:
وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ
الانعام – 119
حالانکہ بلاشبہ اس نے تمھارے لیے وہ چیزیں کھول کر بیان کردی ہیں جو اس نے تم پر حرام کی ہیں، مگر جس کی طرف تم مجبور کردیے جاؤ۔
علماء کا موقف ہے کہ چونکہ کورونا میں بھی جان کا خطرہ ہے اور یہ وبا پوری دنیا میں منتشر ہے اور اس کا علاج فی الحال محض ویکسین ہی ہے لہذا ویکسین کا استعمال جائز ہے چاہے اس میں کسی حد تک حرام اشیاء شامل ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ اللہ تعالی نے جان بچانے کے لئے براہ راست خنزیر کھانے کی اجازت دی ہے، لہذا اس جان لیوا بیماری سے بچاو کےلئے ایسی دوا جس میں خنزیر کے کچھ عناصر شامل ہوں اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ موقف متحدہ عرب امارت کی مجلس افتاءٌ35اور مصر کی دا ر الافتاء کمیٹی36کا ہے۔ اور یہ موقف کسی حد تک وجیہ اور قابل التفات ہے۔
خلاصہ کلام :
کورونا ویکسین کی وہ قسم جو RNA کہلاتی ہے وہ شرعی اعتبار سے باقی اقسام سے بہت حد تک بہتر ہے، اگرچہ اس کے پروسیس کےحوالہ سے چند علماء نے سوالات اٹھائے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس میں شبہ نہایت کم ہے، البتہ دیگر اقسام میں عناصر خنزیر و حرام اجزاء کی شمولیت کا قوی امکان ہے بلکہ بعض علماء و ڈاکٹرز حضرات نےشمولیت ثابت بھی کی ہے،ان اقسام کے متعلق علماء کی آراء و موقفات کے مطالعہ و بحث کے بعد جو بات میرے نزدیک راجح اور اطمینان بخش ہے وہ یہ ہے کہ ویکسین کے معاملہ میں استحالہ اور استہلاک کا اصول شرعی و عملی اعتبار سے کافی حد تک کمزور ہے ، اور اس میں بہت سے مخفی پہلو ہیں جن کے بارے میں ہم ابھی آگاہ نہیں ہیں، البتہ ضرورت کے تحت اس استعمال اس شخص کے لئے جائزہے جو جسمانی صحت کے لحاظ سے کمزور ہو اور اس کو دیگر عوارض و بیماریاں بھی لاحق ہوں ۔
ایک اعتراض:
ویکسین کے نتیجہ میں ہونے والے سائیڈ ایفیکٹس کے باوجود ویکسین لگانا اور خود کو دانستہ بیماری لگانا جائز ہے؟
یقینا شریعت نے خود کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ
البقرة – 195
یعنی اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ۔لیکن اگر انسان چھوٹا نقصان اٹھا کر بڑے نقصان سے محفوظ ہوسکتا ہو تو شریعت و عقل اسی کی موافقت کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ علماء نے زہر کے ذریعہ علاج کو جائز قرار دیا ہے ، حالانکہ زہر انسان کے لئے قاتل ثابت ہوسکتا ہے لیکن اگر اس کی تھوڑی مقدار سے اگر کسی بیماری سے شفا مل سکے تو اس میں حرج نہیں ہے، امام شافعی فرماتے ہیں : ایسی دوا جس میں تھوڑا زہر بھی شامل ہو اسے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے ،37اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر کسی جسمانی فائدے کی غرض سے زہر کی کم مقدار کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسی چیز ملالیں جس سے زہر کا اثر کم ہوجائے تو اس کا استعمال جائز ہے”38۔ اور ہم بھی یہ ملاحظہ کرتے رہتے ہیں کہ بہت سی ادویات ایسی ہوتی ہیں جن کے کچھ نہ کچھ سائیڈ ایفیکٹ ہوتے ہیں لیکن اصل بیماری کو ختم کرنے کے لئے ان مضر اثرات کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
کورونا ویکسین کے متعلق دیگر خدشات!:
کورونا وبا کے آغاز سے ہی بہت سے باتیں و افواہیں زبان زد عام ہیں ، کوئی اسے یہودی سازش قرار دیتا ہے کوئی بل گیٹس کا عالمی منصوبہ قرار دیتا ہے ، اور کوئی ون ورلڈ آرڈر کی تکمیل قرار دیتا ہے، اسی طرح کورونا ویکسین کے تعلق سے بھی جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق قسم قسم کی افواہیں گردش میں ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صہیونی منصوبہ جات و سازشوں نے پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے ، اور معاشی نظام سے لے کر سیاسیات، عسکریات، اور میڈیا سے لے کر میڈیکل تک یہ جال پھیلا ہوا ہے، لیکن اول و اہم یہ ہے کہ ہم نہ بھولیں کہ قادر مطلق ذات صرف اللہ کی ہے، جو بندوں کے عزائم کا پابند نہیں ہے، اس کے اپنے ارادے ہیں جو کن فیکون سے پورے ہوجاتے ہیں، اور اللہ تعالی کو کوئی قوت عاجز نہیں کرسکتی ،
وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۙ
التوبة – 2
جان لو تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔
اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ دور فتنوں کا ہے، اس دور میں ہر بات کے حوالہ سے پہلے تحقیق ضرور کرلینی چاہئے اور بغیر کسی دلیل و برہان کے کوئی بات نہیں کرنی چاہئے، کورونا وبا اور اس کی ویکسین کے متعلق باتیں تو بہت سی زبان زد عام ہیں لیکن حقائق و دلائل سے تہی دامن ہیں، بعض باتیں تو نہایت بے سروپا ہیں، لہذا ہمیں اللہ تعالی سے عافیت کا سوال کرنا چاہئے اور معتبر افراد چاہے وہ علماء ہوں یا اطباء ہوں ان کے مشورے و رہنمائی کے مطابق چلنا چاہئے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
- صحیح بخاری ، کتاب الطب ، باب ما أنزل الله داء إلا أنزل له شفاء، 5678۔۔
- https://www.britannica.com/science/vaccine
- Oxford Dictionary of Biochemistry and Molecular Biology (2 ed.), Vaccine
- حیح بخاری ، كتاب الأطعمة ، باب العجوة، حدیث : ۵۴۴۵۔
- Williams G (2010). Angel of Death.
- Lady Mary Wortley Montagu: Selected Letters. Ed. Isobel Grundy. Penguin Books, 1997
- https://www.who.int/news-room/feature-stories/detail/the-race-for-a-covid-19-vaccine-explained
- https://www.fda.gov/media/144414/download
- سنن ابو داود ، كتاب الطب ، باب في الأدوية المكروهة، حدیث : 3874۔ امام البانی فرماتے ہیں : یہ حدیث اپنے شواہد کی بنیاد پر صحیح ہے (التعليقات الرضية على الروضة الندية : (3/154)
- الموسوعة الفقهية الكويتية (3/213)
- جموع الفتاوى، لابن تيميَّة (21/502)
- صحیح مسلم :، كتاب الأشربة ، باب فضيلة الخل والتأدم به، حدیث: 2052۔
- بيين الحقائق للزيلعي (6/220)[/efn_ntoe]مالکیہ13الذخيرة للقرافي (1/188).[/enf__note]بعض حنابلہ،[enf_note]الإنصاف للمرداوي (1/318)
- المحلى۔ (6/100)
- جموع فتاوى ابن تيميَّة (20/522)
- أعلام الموقعين (2/14)
- فتاوى اللجنة الدائمة- المجموعة الأولى۔ (22/299)
- الكافي في فقه أهل المدينة۔(1/443)
- المجموع للنووي (2/576)
- المغني لابن قدامة (9/172)
- مجموع الفتاوى۔ (21/483)
- إغاثة اللهفان۔ (2/11)
- فتاوى اللجنة الدائمة- المجموعة الأولى (22/109)
- صحیح مسلم ، كتاب الأشربة،باب تحريم تخليل الخمر، حدیث : 1983
- حاشیہ ابن عابدین (1/316)
- فتوى مجلس الإمارات للإفتاء الشرعي، رقم (15) لسنة 2020م
- Islamic Organization for Medical Sciences Kuwait (IOMS) (1997). Recommendations of the 9th Fiqh-Medical Seminar.
- https://britishima.org/covid19-vaccine-az/
- https://www.muis.gov.sg/officeofthemufti/Irsyad/Part-11-Religious-position-on-COVID-19-vaccine-English
- Journal of Critical Reviews ,Vol 7, Issue 7, 2020, FATWA DEBATE ON PORCINE DERIVATIVES IN VACCINE
- سنن ابی داود، كتاب الطهارة،باب ما ينجس الماء، حدیث : 63
- سنن ابی داود، كتاب الطهارة،باب ما ينجس الماء، حدیث : 83
- https://www.muis.gov.sg/officeofthemufti/Fatwa/English-Rotavirus-Vaccine
- فتوى مجلس الإمارات للإفتاء الشرعي، رقم (15) لسنة 2020م
- https://www.dar-alifta.org/AR/Viewstatement.aspx?sec=media&ID=7406
- الام (1 / 88)
- تح الباری : (10/248)