خطبہ اول:
یقیناً ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اپنے نفسوں کی برائیوں اور برے اعمال سے اس کی پناہ لیتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔
اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو، بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی سچی باتیں کیا کرو تاکہ اللہ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پا لی۔
اما بعد:
واقعی اللہ کا تقویٰ عزت و شان اور فضیلتوں کا تاج اور بلند ترین مقامات و مراتب کا زینہ ہے۔ جس نے اسے تھاما اس نے دین کے مضبوط ترین کڑے کو تھاما اور اہلِ ایمان و صداقت اور یقین کے راستے کی پیروی کی۔
اللہ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ1
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
ایمانی بھائیو! اس انسان کی حقیقی زندگی جسے اللہ نے عزت بخشی ہے اور بقیہ تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے، دلوں اور روحوں کی زندگی ہے، جسموں اور مادیت کی زندگی نہیں۔ اور اس زندگی کا وہ مادہ جس سے روحیں نور و روشنی لیتی ہیں اور دل حیات و رونق حاصل کرتے ہیں، ایمان کی قوت اور اس اللہ سے رشتہ ہے جو طاقت دینے والا اور نعمتوں سے نوازنے والا ہے۔
اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ2
اور کیا وہ شخص جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایسی روشنی بنا دی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے، اس شخص کی طرح ہے جس کا حال یہ ہے کہ وہ اندھیروں میں ہے، ان سے کسی صورت نکلنے والا نہیں۔ اسی طرح کافروں کے لیے وہ عمل خوشنما بنا دیے گئے جو وہ کیا کرتے تھے۔
اکثر لوگ اسباب و ذرائع میں الجھ کر مقاصد سے اور ظاہری چیزوں میں لگ کر اصل چیز سے غفلت برتتے ہیں۔ وہ ذرائع کے خالق اور اس کے مدبر سے غافل رہ جاتے ہیں اور ان کے آسان کرنے والے اور مسخر کرنے والے رب سے غفلت برتتے ہیں۔ اللہ کے کائناتی قوانین میں ذرائع کو اختیار کرنے کی اہمیت، اس کی وحی کی شرعی دلیلوں اور دنیاوی زندگی میں اس کے اثرات کے باوجود مومن انہیں ان کی جگہ پر ہی رکھتا ہے اور انہیں ان کی اس حد سے نہیں بڑھاتا جس پر دین و شریعت نے انہیں رکھا ہے۔ اور نہ اس سے انہیں کم کرتا ہے کہ انہیں دوسروں پر انحصار کرنے والوں اور جاہلوں کی طرح مکمل طور پر چھوڑ دے۔ اسی لیے بندۂ مومن ایمانی حقائق، ربانی ہدایات اور نبوی سنتوں سے غافل نہیں ہوتا۔ یوں وہ شریعت کے اوامر کی بجا آوری اور اپنے مطلب کے حصول، دونوں کو اکٹھا کر لیتا ہے۔
چنانچہ اس کے اعضاء و جوارح ذرائع اختیار کرکے عمل میں منہمک رہتے ہیں اور اس کا دل رب الارباب سے جڑا ہوتا ہے۔ اسی پر بھروسہ کرتا ہے، کسی اور پر نہیں۔ امید و خوف اور اضطرار، توحید و ایمان اور عاجزی و انکساری کے ساتھ اس سے دعا کرتا ہے۔ مقاصد و ذرائع کا یہ ہمہ گیر امتزاج قلبی ایمان اور قدرت والے اللہ سے تعلق اور ذرائع و ظواہر کو اختیار کرنے کا جامع ہے۔ قرآن کریم متعدد جگہوں پر ہمیں دعا اور اللہ کی طرف رجوع کو ظاہری اسباب و ذرائع کے ساتھ جوڑنے کی تعلیم دیتا ہے۔
اللہ کا فرمان:
وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ3
جب ان کا جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو انہوں نے دعا مانگی کہ اے پروردگار! ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے اور قومِ کفار پر ہماری مدد فرما۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس قول پر بھی غور کرو کہ اللہ پر ایمان کے عقیدے کو راسخ کیا جائے، مومن کو یاد دلایا جائے کہ اسے اپنے رب کی حاجت ہے اور ذرائع اور ظاہری چیزوں کو ان کے خالق کے ساتھ جوڑا جائے۔ جس وقت یہ حقیقت عقلوں اور ذہنوں سے غائب ہو جاتی ہے یا کمزور پڑ جاتی ہے تو لوگ حیرت و اوہام کے گڑھوں میں گر جاتے ہیں۔
بے چینی، ڈر اور مصیبت کی موجیں انہیں گھیر لیتی ہیں اور اس سے نجات کا کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ دل میں ایمان کا چراغ روشن کیا جائے، اللہ سے رشتہ مضبوط کیا جائے جیسا کہ اس پر وحی کے حقائق دلالت کرتے ہیں اور جس کی عملی تصویر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معطر زندگی کی سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن سنت میں ملتی ہے۔
مومن مرد و خواتین! اللہ پر ایمان، اس سے قلبی رشتہ اور اس پر سچے توکل کے ساتھ اس دنیا میں مومن کے لیے عظیم ترین ذخیروں میں سے ہے دعا کا توشہ لینا اور ہر حال میں بکثرت اللہ کی طرف رجوع ہونا۔ اور جو کوئی اپنی خوشحالی میں اپنے رب کو زیادہ جاننے والا اور اس سے زیادہ ڈرنے والا اور اس سے زیادہ امید کرنے والا ہوگا، اللہ اس کی بدحالی میں اس کے زیادہ قریب اور نزدیک ہوگا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَقَالَ يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ4
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا:’ اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کر و،وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تواللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو توصرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔
یقیناً دعا ایمان کی روشن ترین صورتوں اور بندگی کے سب سے پررونق مظاہر میں سے ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ قَالَ الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ وَقَرَأَ وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِلَى قَوْلِهِ دَاخِرِينَ5
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: “دعا ہی عبادت ہے۔” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: “اور تمہارے رب کا فرمان سرزد ہو چکا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔”
اللہ مجھے اور آپ کو قرآن و سنت میں برکتوں سے نوازے، اپنے تقویٰ کو ہمارے لیے توشہ اور ڈھال بنائے، میں یہ بات کہہ رہا ہوں جو آپ سن رہے ہیں اور میں اپنے لیے اور آپ سب کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں، بے شک وہ بڑا بخشنے والا، بڑا معاف کرنے والا ہے۔
خطبہ ثانی:
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، وہ حمد و ثنا کا مستحق ہے، بہت نوازنے والا اور خوب پردہ پوشی کرنے والا ہے۔ ایسی تعریف جو جاری رہے، جس کا پھل میٹھا ہو اور جس کی روشنی چمکتی رہے۔
اے اللہ! درود و سلام نازل فرما سید الانام اور خاتم الانبیاء ہمارے نبی محمد پر، ان کی آل اور ان کے برگزیدہ صحابہ کرام پر اور ان پر جو قیامت تک ان کی پیروی کریں اور استقامت اختیار کریں جب تک بارش ہوتی رہے اور بجلی چمکتی رہے۔ اے فضل و انعام والے
اما بعد:
مومنوں! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر غور کرنے والا پائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اللہ سے دعا، سوال، استغفار، التجاء، تعلق اور اس کے سامنے تواضع سے معمور ہے۔ آپ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں جو اللہ سے تعلق، اس کے در پر پڑے رہنے اور اس کی پناہ میں جانے سے خالی ہو، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوقات میں اللہ کو سب سے زیادہ جاننے والے اور اپنے مولیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے تھے۔ اسی طرح آپ ﷺ اپنے رب کی کائناتی سنتوں اور اسباب کے پیچھے کارفرما اس کی قدرت کو بھی سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔
بے شک دعا مومن کا وہ ہتھیار ہے جس کی دھار کبھی کند نہیں ہوتی اور جس کے تیر کبھی خطا نہیں کرتے۔ یہ مصیبت و آزمائش میں مومن کا سہارا اور خوشحالی و آسودگی میں اس کا زادِ راہ ہے اور اس کے ذریعے اپنے رب کی بے شمار نعمتوں کا طلب گار ہوتا ہے اور بری تقدیروں کو ٹالنے کی استدعا کرتا ہے۔ چنانچہ تم دعا میں اللہ کے ساتھ اخلاص اختیار کیا کرو، صرف اسی کے ہاتھ میں نوازشوں اور مرادوں کے خزانے ہیں۔ اور صرف وہی ہے جو مصیبتوں اور آفتوں کو دور کرنے پر قادر ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الَّذِي يُرِيكُمْ آيَاتِهِ وَيُنَزِّلُ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ رِزْقًا ۚ وَمَا يَتَذَكَّرُ إِلَّا مَن يُنِيبُ6
وہی ہے جو تمھیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور تمھارے لیے آسمان سے رزق اتارتا ہے اور اس کے سوا کوئی نصیحت حاصل نہیں کرتا جو رجوع کرے۔
سنو، جمعہ کے دن اور دیگر دنوں میں کثرت سے درود و سلام بھیجا کرو مخلوق میں برگزیدہ اور ان کے سردار پر۔ اے اللہ! رحمت، سلامتی اور برکت نازل فرما اپنے بندے اور رسول ہمارے نبی محمد پر، ان کی آل اور ان کے روشن صحابہ کرام پر اور ان پر جو ان کی اچھی طرح سے پیروی کریں اور استقامت اختیار کریں۔ اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، ہر جگہ اور ہر گھڑی ان کے حالات درست فرما دے، اے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے! انہیں اپنے اور ان کے دشمنوں پر غلبہ عطا فرما، یا رب العالمین!
اے اللہ! اس مبارک ملک کو جو تیری وحی کے نزول کی جگہ، تیرے آخری پیغام کی آماجگاہ اور تیرے بندوں کے دلوں کی قرارگاہ ہے، اسے اور تمام مسلم ممالک کو امن و سکون والا بنا، اے سب سے زیادہ کرم فرمانے والے!
اے اللہ! ہمارے حاکم، خادمِ حرمین شریفین شاہ سلمان اور ان کے ولی عہد کو اپنی حفاظت میں رکھ، انہیں اپنی نگرانی میں لے لے اور انہیں اس کام کی توفیق عطا فرما جس میں بندوں اور ملک کی اور شہریوں اور بادیہ نشینوں کے دین اور دنیا کی بھلائی ہو، اے دعا سننے والے! اور جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی ہو، اے سب سے زیادہ کرم فرمانے والے! اور ان دونوں کو حرمین شریفین کی خدمت اور ان کے زائرین کی دیکھ بھال پر دونوں جہانوں میں بہترین بدلہ عطا فرما۔
اے اللہ! ہم تجھ سے وہ بھلائی مانگتے ہیں جسے تو جانتا ہے اور تیری پناہ چاہتے ہیں اس برائی سے جسے تو جانتا ہے اور ہم تجھ سے اس بات کی بخشش مانگتے ہیں جسے تو جانتا ہے، بے شک تو ہی غیبوں کو جاننے والا ہے۔
اللہ کے بندو! اپنے رب کے فضل کو اس کے شکر کے ذریعے قائم رکھو اور اس کے حکم کی پیروی کرکے اس کی نعمت کو باقی رکھو اور اس کے ذکر و دعا سے اپنی زبان کو تر رکھو۔
سبحان ربنا رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین۔
خطیب:فضیلۃ الشیخ الدکتور احمد بن علی الحذیفی:
17 october 2025 25 Rabi uth-Thani 1447
_________________________________________________________________________________________________________
