شہیدِ مظلوم سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ: فضائل اور كارنامے

مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تاریخِ اسلام کی وہ نایاب شخصیت ہے جن کا دورِ خلافت بے مثال اصلاحات، رفاہی مہمات اور اہم دینی خدمات سے عبارت ہے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جہاں حافظِ قرآن، کاتب ِقرآن، جامعِ قرآن، ناشرِِ قرآن، کامل الحیاء و الایمان، صاحب النبی فی الجنان، ذو النورین اور ذو الہجرتین ہونے کا شرف حاصل ہے وہیں آپ کا شمار السابقون الاولون اور عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے ۔ درج ذیل سطور میں آپ کے چند فضائل، مناقب اور كارنامے قدرے تفصیل کے ساتھ پیش خدمت ہیں۔

حضرت عثمان ؓ نبی ﷺ کی دو بیٹیوں کے شوہر

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کائنات کے وہ خوش نصیب انسان ہیں کہ جن کے عقد میں رسول اللہ ﷺ کی  دو بیٹیاں آئیں ۔ آدم علیہ السلام کی پوری اولاد میں کسی کو یہ شرف نہیں ملا جو حضرت عثمان ابن عفان  رضی اللہ عنہ کو ملا ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول دنیا میں تشریف لائے ۔ ان کی بیٹیاں بھی ہوئیں، ان کے بیٹے بھی ہوئے لیکن دنیا کی تاریخ میں کبھی یہ موقع نہیں آیا کہ کسی نبی یا رسول نے اپنی دو بیٹیوں کا نکاح ایک ہی شخص سے کیا ہو۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ موجود نہیں ہے۔ اس شرف کے لیے بھی ربِ کائنات نے اگر منتخب کیا تو حضرت عثمان بن عفان کو کیا۔ چنانچہ پہلے رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں حکمِ الہی سے اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی آپ رضی اللہ عنہ سےکر دی۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی دوسری بیٹی امِ کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی بھی آپ رضی اللہ عنہ سے کر دی۔ اسی لیے آپ کو ذی النورین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔

بیٹیوں کی شادیاں وحیِ الہی کے تحت انجام پائی

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنمہا بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :

مَا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ أُمَّ كُلْثُومٍ إِلَّا بِوَحْي مِنَ السَّمَاءِ1

میں نے ام کلثوم کی شادی عثمان سے آسمانی وحی کے مطابق ہی کی ہے۔

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَوْحَى إِلَىَّ أَنْ أُزَوِّجَ كَرِيمَتَيَّ مِنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ2

اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کے ذریعے بتایا کہ میں اپنی دونوں بیٹیوں کی شادیاں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کر دوں ۔

اگر میری تیسری بیٹی ہوتی

جب حضرت عثمان کے عقد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی وفات پا گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

زوّجوا عثمان، لو كان لي ثالثة لَزوَّجْتُه، وما زوّجتُه إلاّ بالوحي من الله عز وجل3

عثمان کی شادی کرا دو. اگر میری تیسری بیٹی ہوتی تو میں اس کی شادی عثمان سے کرا دیتا میں نے عثمان (رضی اللہ عنہ) سے اپنی بیٹیوں کی شادی اللہ تعالیٰ کی وحی کے تحت کرائی ہے ۔

اگر میری دس بیٹیاں ہوتیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دوسری بیٹی یعنی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی قبر پر کھڑے ہوئے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں اور فرمایا:

لو كن عشرًا لزوجتهن عثمان، وما زوجته إلا بوحي من السماء 4

اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری کا نکاح عثمان سے کر دیتا۔

معجم طبرانی کی ایک روایت میں چند الفاط کے اضافے ساتھ اس طرح آیا ہے کہ:

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری کا نکاح عثمان سے کر دیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں۔5

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کے بعد دوسری بیٹی کو عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دینا اور یہ عزم کرنا کہ دس بیٹیاں ہوتیں تو بھی عثمان کے عقد میں دیتا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر نہایت خوش تھے اور ان کے حسنِ سلوک کے معترف تھے۔

سابقین اولین

آپ کا شمار سابقین اولین صحابہ میں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ آپ ان دس خوش قسمت صحابہ میں سے ہیں جن کو دنیا ہی میں رحمتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جنت کی بشارت ملی ہے۔

نبی کے ساتھی

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جن کو نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ساتھی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

لِكلِّ نبيٍّ رفيقٌ في الجنَّةِ ، ورفيقي فيها عثمانُ بنُ عفَّان6

ہر نبی کا جنت میں ایک ساتھی ہوگا اور میرا جنت میں ساتھی عثمان بن عفان ہیں ۔

امت کے سب سے زیادہ حیاء دار انسان

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أرْأَف أمتي بأمتي أبو بكرٍ ، وأشدُّهم في دينِ اللهِ عمرَ ، وأصدقُهم حياءً عثمانُ

(صحيح الجامع: 868: صحيح )

 ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابو بکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے زیادہ سچی حیاء والے عثمان ہیں۔

نبی ﷺ کے قریبی رشتہ دار

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے قریبی رشتہ دار ہیں کیونکہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کی والدہ عروہ بنت کریز بن ربیعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کی قریبی رشتہ داری کی فضیلت حاصل ہوئی جس طرح آپکو نبی ﷺ کے داماد بننے اور پھر دوست اور ساتھی بننے کی فضیلت حاصل تھی ۔

اولین مہاجر

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

أول من هاجر من المسلمين إلى الحبشة بأهله سيدنا عثمان بن عفان رضي الله تعالى عنه7

ترجمہ: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ سرزمینِ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔

ایک اور مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :

إنهما لأول من هاجر بعد لوط وإبراهيم عليهما الصلاة والسلام8

ترجمہ :حضرت عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت لوط علیہما السلام کے بعد ہجرت فرمائی۔

یعنی پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی پھر جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ۔

ابنِ اثیر لکھتے ہیں :

جب کفارِ قریش نے مسلمانوں پر عرصہِ حیات تنگ کر دیا اور قریش کا ظلم و ستم حد سے تجاوز کر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی ۔ ہجرت کا یہ واقعہ نبوت کے پانچویں سال پیش آیا جس میں 11 مرد اور 4 عورتیں شامل تھیں ۔9

اہل و عیال کے ساتھ ہجرت

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سرزمینِ حبشہ کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلے اور آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کی اہلیہ حضور نبیِ اکرم ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا بھی تھیں پس کافی عرصہ تک ان کی خبر حضور نبیِ اکرم ﷺ کو نہ پہنچی اور آپ ﷺ روزانہ ان کی خبر معلوم کرنے کے لیے باہر تشریف لاتے پس ایک دن ایک عورت ان کی خیریت کی خبر لے کر حضور نبیِ اکرم ﷺ کے پاس آئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : بے شک عثمان حضرت لوط علیہ السلام کے بعد پہلا شخص ہے جس نے اپنی اہلیہ کے ساتھ ﷲ کی راہ میں ہجرت کی۔10

دو مرتبہ ہجرت

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ کی وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے دینِ اسلام کے لیے صرف ایک بار نہیں بلکہ دو مرتبہ ہجرت کی ہے۔ عبیداللہ بن عدی بن خیار بیان کرتے ہیں کہ :

دَخَلْتُ علَى عُثْمانَ، فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قالَ: أمَّا بَعْدُ، فإنَّ اللہَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بالحَقِّ، وكُنْتُ مِمَّنِ اسْتَجابَ لِلہِ ولِرَسولِهِ وآمَنَ بما بُعِثَ به مُحَمَّدٌ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، ثُمَّ هاجَرْتُ هِجْرَتَيْنِ، ونِلْتُ صِهْرَ رَسولِ اللہِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، وبايَعْتُهُ، فَواللہِ ما عَصَيْتُهُ ولا غَشَشْتُهُ حتَّى تَوَفَّاهُ اللہُ

(صحيح البخاري: 3927)

میں عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے حمد و شہادت پڑھنے کے بعد فرمایا : اما بعد ! کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا۔ میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے اللہ اور اسکے رسول کی دعوت پر ( ابتدا ہی میں ) لبیک کہا اور میں ان تمام چیزوں پر ایمان لایا جنہیں رسول اللہ ﷺ لے کر مبعوث ہوئے تھے ۔ پھر میں نے دو ہجرتیں کیں اور حضورِ اکرم ﷺ کی دامادی کا شرف مجھے حاصل ہوا اور حضور ﷺ سے میں نے بیعت کی ۔ اللہ کی قسم ! میں نے آپ ﷺ کی نہ کبھی نا فرمانی کی اور نہ کبھی آپ سے دھوکہ بازی کی یہاں تک کہ آپ کا انتقال ہو گیا ۔

ہجرت اور جنگِ بدرکی اہمیت

اسلام کی تاریخ میں سب سے زیادہ اگر کسی چیز کو اہمیت حاصل ہے تو دو چیزوں کو ہے۔ ایک ہجرت اور ایک جنگِ بدر ہے۔ قرآن نے کہا کہ وہ لوگ کہ جنہوں نے ہجرت کی، اللہ کے لیے مال، اولاد، وطن کو چھوڑا۔ کائنات کا کوئی مسلمان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

( سورہ التوبہ:100)

ترجمہ: اور مہاجرین اور انصار میں سے وہ اولین لوگ جنہوں نے ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں دوسروں پر سبقت کی اور وہ دوسرے لوگ جنہوں نے ان سابقین کی اخلاص کے ساتھ پیروی کی اللہ ان سب سے راضی ہوگیا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوگئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا  وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ  وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ۔

(سورۃ الحدید:10)

تم میں سے کوئی اس کے برابر نہیں ہوسکتا جس نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا اور جہاد کیا وہ لوگ درجہ میں ان سے زیادہ اونچے ہیں جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا اور اللہ نے ہر ایک سے جنت کا وعدہ کیا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کی پوری خبر رکھتا ہے۔

یعنی جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے ہجرت کی آنے والی نسلیں ہی نہیں بلکہ نبی ﷺ کے صحابہ بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

اسلام کے پہلے سفیر

صلحِ حدیبیہ کے موقع پر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اسلام کے پہلے سفیر بن کر مکہ تشریف لے گئے اور جب یہ افواہ پھیل گئی کہ کفارِ مکہ نے حضرت عثمان کو شہید کر دیا ہے تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے اس بات پر بیعت لی کہ عثمان کے خون کا بدلہ لینا ہے اور کفارِ مکہ سے اس پر جنگ کی جائے گی۔ سب لوگ اس عہد پر جمے رہے۔ یہ بیعتِ رضوان کے نام سے تاریخِ اسلام میں معروف ہے۔

عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیعتِ رضوان کا حکم دیا گیا تو عثمان بن عفان رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد بن کر اہلِ مکہ کے پاس گئے ہوئے تھے۔ بیعت لیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا :

هذِه يَدُ عُثْمانَ. فَضَرَبَ بها علَى يَدِهِ، فقالَ: هذِه لِعُثْمانَ.

(صحيح البخاري: 3698)

 یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ اور پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ پر مار کر فرمایا: یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔

بیعتِ رضوان ایک ایسی بیعت تھی جو صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے لی گئی ۔

بیعتِ رضوان کی فضیلت

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا يَدْخُلُ النارَ أحدٌ ممَن بايعَ تحتَ الشجرةِ.

(صحيح أبي داود: 4653 : صحيح

ان لوگوں میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہو گا جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی (یعنی صلح حدیبیہ کے وقت بیعتِ رضوان میں شریک رہے)

یہ وہ عظیم بیعت تھی جس پر خود رب العزت کی طرف سے خوشنودی کا اظہار کیا گیا اور قرآنِ پاک میں آیت نازل فرما دی :

لَّقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا

( سورۃ فتح :18)

یقیناً اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پس وہ جان گیا اس اخلاص کو جو ان کے دلوں میں تھا اس لئے ان پر سکون و اطمینان نازل کیا اور بطورِ جزا ایک قریبی فتح سے نوازا۔

یہ آیت ان اصحابِ بیعتِ رضوان کے لیے رضائے الٰہی اور ان کے پکے سچے مومن ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے جنہوں نے حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے اس بات پر بیعت کی کہ وہ قریشِ مکہ سے لڑیں گے اور راہِ فرار اختیار نہیں کریں گے۔

بیعتِ رضوان میں شریک صحابہ کی فضیلت

قرآنِ مجید کے علاوہ صحیح احادیث میں بھی بیعتِ رضوان میں شریک صحابہ کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے۔ ذیل میں چند احادیث درج کی جاتی ہیں: ۔ 1۔ عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما  کو یہ کہتے سنا کہ:

قالَ لَنَا رَسولُ اللہِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَومَ الحُدَيْبِيَةِ: أنتُمْ خَيْرُ أهْلِ الأرْضِ. وكُنَّا ألْفًا وأَرْبَعَ مِئَةٍ، ولو كُنْتُ أُبْصِرُ اليومَ لَأَرَيْتُكُمْ مَكانَ الشَّجَرَةِ.

( صحیح البخاري: 4154 )

 ترجمہ: حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا :  تم زمین والوں میں سب سے بہتر ہو۔ اور (اس وقت) ہم چودہ سو تھے اور اگر آج مجھے دکھائی دیتا ہوتا تو میں تمہیں اس درخت کی جگہ دکھاتا۔

2۔  ام مبشر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا :

لَا يَدْخُلُ النَّارَ، إِنْ شَاءَ اللہُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ أَحَدٌ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا تَحْتَهَا

( صحیح مسلم: 2494 )

 ’’ان شاء اللہ اس درخت والوں میں سے کوئی بھی آگ میں داخل نہیں ہو گا جنہوں نے اس کے نیچے بیعت کی۔‘‘

3۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حاطب رضی اللہ عنہ کا ایک غلام حاطب رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر آیا اور کہنے لگا : ’’یا رسول اللہ! حاطب ضرور آگ میں داخل ہو گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

كَذَبْتَ لَا يَدْخُلُهَا فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ

(صحیح مسلم: 2495)

ترجمہ: تو نے غلط کہا وہ آگ میں داخل نہیں ہو گا کیونکہ اس نے تو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کی ہے۔‘‘

4۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

كُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وَ أَرْبَعَ مِائَةٍ فَبَايَعْنَاهُ وَعُمَرُ آخِذٌ بِيَدِهِ تَحْتَ الشَّجَرَةِ وَهِيَ سَمُرَةٌ  

(صحیح مسلم: 1856 )

ہم حدیبیہ کے دن چودہ سو تھے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور عمر رضی اللہ عنہ درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور وہ کیکر کا درخت تھا۔‘‘

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جنگِ بدر کےغازی

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنی بیوی اور نبی کریم ﷺ کی بیٹی (رقیہ رضی اللہ عنہا) کی شدید بیماری کی وجہ سے غزوۂِ بدر میں شامل نہ ہو سکے تو نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن لك أجر رجل ممن شھد بدراً وسھمه

(صحیح البخاری: 3130)

تیرے لیے بدر میں حاضر ہونے والے آدمی کے برابر اجر اور مالِ غنیمت ہے۔

عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے مالِ غنیمت میں حصہ

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جنگِ بدر میں حاضر نہ ہوئے تھے (اس کی وجہ یہ تھی کہ) آپ رضی اللہ عنہ کے عقد میں حضور نبی اکرم ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور وہ اس وقت بیمار تھیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

 اے عثمان بے شک تیرے لیے ہر اس آدمی کے برابر اجر اور اس کے برابر (مال غنیمت کا) حصہ ہے جو جنگِ بدر میں شریک ہوا ہے۔11

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بدر کے مالِ غنیمت کو تقسیم کیا تو ایک حصہ اٹھا کر الگ رکھ دیا ۔ صحابہ کرام نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! یہ سارے حصے آپ نے انکو عطا کیے جنہوں نے جہاد کیا تلوار سے لڑے لیکن یہ کس کا حصہ ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ اس کا حصہ ہے جس کو عرش والے نے بدر کا غازی قرار دیا ہے۔

اولین بحری جہاز بنوانے والے

حضرت عثمان رضی اللہ مسلمانوں کے وہ پہلے حکمران ہیں جنہوں نے اپنے دورِ خلافت میں بحری جہاز بنانے کا حکم صادر کیا۔ جب رومی سلطنت کے غنڈے مسلمانوں کی سرحدوں پر بحری جہازوں میں سوار ہو کر حملے کرنے لگے اور مسلمانوں کے ساحلی شہروں کو آگ لگانے لگے تو آپ نے اپنے کمانڈر امیر المؤمنین معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ ایک سال کے اندر مسلمانوں کا بحری لشکر تیار کیا جائے ۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابھی ایک برس بهی نہیں گزرا تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کے حکم پر بحیرہِ عرب میں مسلمانوں کے چودہ سو جنگی جہاز گشت کر رہے تھے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی دنیا کا کوئی بھی کارخانہ ایک سال کے اندر اتنے بحری جہاز نہیں بنا سکتا جتنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بنائے گئے تھے۔

چنانچہ پہلا اسلامی بحری بیڑا 28 ہجری میں بحری لشکر کے امیر عبداللہ بن قیس الحارثی کی قیادت میں قبرص پر چڑھائی کرنے کے لیے روانہ ہوا اور مسلمانوں نے اس کی قیادت میں قبرص پر امن کے ساتھ قبضہ کر لیا۔ اس اسلامی بیڑے نے پچاس جنگیں لڑیں ۔ ان میں سے کسی ایک جنگ میں انہیں شکست نہیں ہوئی اور انکا کوئی سپاہی شہید نہیں ہوا۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ماہر جرنیل کی حیثیت سے مجاہدینِ اسلام کے لیے جنگی بیڑے بنائے، مجاہدین کو بحری جنگ کے حربے سکھائے گئے ، اس طرح بحیرهِ روم کی موجوں پر اسلام کا پرچم لہراتے ہوئے رومیوں پر اس طرح شب خوں مارا کہ ان کی قوت و طاقت کو تہس نہس کر دیا جس کے نتیجے میں فرانس و یورپ کے کئی ممالک اسلام سے واقف ہوئے اور سندھ، مکران، طبرستان و کابل سمیت متعدد ایشیائی ممالک حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔

جمعہ کی دوسری اذان

نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں جمعہ کے لیے ایک اذان دی جاتی تھی۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت آیا اور مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا تو آپ کے حکم سے دوسری اذان شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ اس اذان کے متعلق فرماتے ہیں:

فثبت الأمر علی ذلك12

یعنی اذان کا یہ طریقہ مستقل طور پر رائج ہو گیا۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جامعِ قرآنِ کریم

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنَّ هذا القُرْآنَ أُنْزِلَ علَى سَبْعَةِ أحْرُفٍ، فاقْرَؤُوا ما تَيَسَّرَ منه.

(صحيح البخاري: 6936)

ترجمہ :یہ قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے جس طرح آسان لگے پڑھ لو ۔

علامہ شمس الحق ڈیانوی رحمہ اللہ صاحبِ عون المعبود کی ترجیح کے مطابق سات حرفوں سے مراد وہ لغات اور اسالیبِ نطق ہیں جو اہم سات قبائلِ عرب میں مروج تھے۔ ان لوگوں کے لیے اس دور میں کسی دوسرے قبیلے کی لغت اور اسلوب کو قبول کر لینا بعض اسباب کی وجہ سے از حد مشکل تھا۔ وہ قبائل یہ ہیں۔ حجاز۔ ہذیل۔ ہوازن۔ یمن۔ طے۔ ثقیف اور بنی تمیم۔ اوائلِ خلافتِ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک ان قرائتوں میں اور حروف میں قرآن پڑھا جاتا رہا مگر جب مملکتِ اسلامیہ کی حدود از حد وسیع ہو گئیں اور عجم کی کثیر تعداد اسلام میں داخل ہو گئی اور مختلف قرائتوں سے ان کے آپس میں الجھنے کے واقعات میں کثرت آ گئی۔13

چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں (مدینہ منورّہ میں) ایک معلم ایک قرأت کے مطابق قرآن پڑھتا تھا اور دوسرا معلم دوسری قرأت کے مطابق۔ جب بچے آپس میں ملتے تھے تو قرأت میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے اور رفتہ رفتہ اختلاف معلمین تک پہنچ جاتا تھا پھر ان میں بھی اختلاف رونما ہو کر بسا اوقات ایک دوسرے کی تکفیر تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اسکی خبر پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور فرمایا: “تم میرے پاس ہوتے ہوئے اس طرح اختلاف کر رہے ہو تو جو لوگ مجھ سے دور شہروں میں ہوں گے وہ تم سے زیادہ اختلاف کریں گے”۔14

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ خیال بالکل سچ نکلا جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت انس بن  مالک رضی اللہ عنہ  سے اس طرح منقول ہے: کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ جو اس وقت اہلِ عراق کے ساتھ ملکِ شام میں آرمینیۃ اور آزربائیجان کے محاذ پر بر سرِ پیکار تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے۔ انہیں  لوگوں کے اختلافِ قرأت سے بہت تشویش تھی۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے امیرالمؤمنین ! قبل اس کے کہ یہ امت یہود و نصاریٰ کی طرح اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بارے میں اختلافات کی شکار ہو جائے اسکو سنبھال لیجیے۔15

اور فرمایا میں “آرمینیۃ” کے محاذ پر بر سرِ پیکار تھا وہاں میں نے دیکھا کہ شام والے ابی بن کعب کی قرأت پر قرآن پڑھتے ہیں جس کو عراق والوں نے نہیں سنا اور عراق والے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت کے مطابق قرآن پڑھتے ہیں جس کو شام والوں نے نہیں سنا پھر یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگتے ہیں۔16 (فتح الباری:9/21)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پہلے سے اس مسئلہ میں فکرمند تھے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ نے انہیں اور زیادہ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع فرمایا اور اس بارے میں ان سے مشورہ کیا اور فرمایا:  مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری قرأت تمہاری قرأت سے بہتر ہے اور یہ بات کفر تک پہنچ سکتی ہے” صحابہ کرام نے عرض کیا: آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میری رائے ہے کہ ہم لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیں تاکہ ان کے درمیان اختلاف نہ ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنهم نے اس رائے کی تحسین فرما کر اس کی تائید فرمائی۔17

اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ صحیفے (جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے تیار کیے گئے تھے) جو آپ کے پاس موجود ہیں ہمارے پاس بھیج دیں۔ ہم اس کی نقل کروا کر آپکو واپس کردیں گے تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیے۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس اہم کام کی تکمیل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جن کے بنیادی طور پر چار ارکان تھے:

1۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ۔

2۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ۔

3۔ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ ۔

4۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ بن حارث بن ہشام۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انکو اس کام پر مامور فرمایا کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے صحیفوں سے قرآن مجید نقل کروا کر ایسے مصاحف تیار کریں جو سورتوں کے اعتبار سے مرتب ہوں۔18

قرآن کا ہر لحاظ سے معیاری، مستند اور متفقہ نسخہ تیار ہو جانے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور دیگراصحابِ حل و عقد کے مشورے سے ایک قرائت یعنی  قرائتِ قریش پر مصاحف لکھوا کر پوری مملکت میں پھیلا دیے تاکہ امت قرآن میں اختلاف و افتراق سے محفوظ رہے ۔ مسلمانوں کو ایک قرآن پر متحد کرنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سب سے عظیم کام ہے۔ بلا شبہ انکا یہ احسان قیامت تک بھلایا نہیں جا سکتا۔

ابن ابی داود نے بسند صحیح سوید بن غفلہ سے روایت کی انہوں نے فرمایا: علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں خیر ہی کہو کیونکہ انہوں نے مصاحف کے بارے میں جو کچھ بھی کیا صرف اپنی رائے سے نہیں بلکہ ہماری ایک جماعت کے مشورہ سے کیا گیا19 

عثمان رضی اللہ عنہ کو عمل کی کوئی ضرورت نہیں  

عبد الرحمٰن بن سمرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں:

جاءَ عثمانُ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ بألفِ دينارٍ قالَ الحسَنُ بنُ واقعٍ : وفي موضعٍ آخرَ من كتابي ، في كمِّهِ حينَ جَهَّزَ جيشَ العُسرةِ فينثرَها في حجرِهِ . قالَ عبدُ الرَّحمنِ : فرأيتُ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يقلِّبُها في حجرِهِ ويقولُ : ما ضرَّ عثمانَ ما عَمِلَ بعدَ اليومِ مرَّتينِ 20

کہ عثمان رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہزار دینار لے کر آئے (راویِ حدیث کے راوی حسن بن واقع کہتے ہیں: دوسری جگہ میری کتاب میں یوں ہے کہ وہ اپنی آستین میں لے کر آئے)، جس وقت  جیشِ عسرہ کو تیار کر رہے تھے اور اسے آپ ﷺ کی گود میں ڈال دیا۔ عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دیناروں کو اپنی گود میں الٹتے پلٹتے دیکھا اور یہ کہتے سنا کہ آج کے بعد سے عثمان کو کوئی بھی برا عمل نقصان نہیں پہنچائے گا“ ایسا آپ  ﷺ نے دو بار فرمایا۔

تاریخ میں کسی رسول  اور نبی نے اپنی امت کے کسی آدمی کو یہ الفاظ نہیں کہے جو نبی رحمت ﷺ نے عثمان ذو النورین کو کہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ اگر کسی کے لیے استعمال کیے تو صرف عثمان ابن عفان رضی الله عنہ کے لیے استعمال کیے ۔

جنتی خلیفہ   

سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

القائِمُ بعدِي في الجنةِ ، والّذي يقومُ بعدَهُ في الجنةِ ، والثالثُ والرابِعُ في الجنةِ21

‏‏‏‏میرے بعد شریعت پرعمل پیرا ہونے والا جنت میں جائے گا اور اس کے بعد شریعت کو اپنانے والا اور اس کے بعد تیسرے دور کا آدمی اور اسکے بعد چوتھے دور کا آدمی سب جنت میں داخل ہوں گے۔“

اس حدیث سے مراد خلفاءِ اربعہ ہیں اور تیسرے سے مراد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خلفاءِ اربعہ کے لیے ایک بشارت ہے۔ اگرچہ یہ چاروں ان دس افراد میں  شامل تھے جنہیں جنت کی بشارت دی گئی تھی لیکن اس حدیث میں خلفاءِ اربعہ کے لیے ایک اور بشارت دی گئی ہے۔

 فرشتے بھی حیا کرتے ہیں

ام المؤمنیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَلَا أَسْتَحِي مِن رَجُلٍ تَسْتَحِي منه المَلَائِكَةُ

(صحيح مسلم: 2401)

کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے اللہ کے فرشتے حیا کرتے ہیں۔

افضل ترین صحابہ میں تیسرا نمبر

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ

كنا نخير بين الناس في زمن النبي صلى الله عليه وسلم , فنخير ابا بكر، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان رضي الله عنهم

(صحیح البخاری: 3655)

ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں جب ہمیں صحابہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابو بکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پھرعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔

حراء پہاڑ کو حکم اور شہادت کی پیش گوئی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

أنَّ رَسولَ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ كانَ علَى جَبَلِ حِرَاءٍ فَتَحَرَّكَ، فَقالَ رَسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ: اسْكُنْ حِرَاءُ؛ فَما عَلَيْكَ إلَّا نَبِيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ. وَعليه النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَسَعْدُ بنُ أَبِي وَقَّاصٍ، رَضِيَ اللَّهُ عنْهمْ

( صحيح مسلم: 2417)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرا پہاڑ پر تشریف فرما تھے اسی دوران پہاڑ ہلنے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اے حراء ! ٹھہر جاؤ تجھ پر نبی یا صدیق یا شہید کے علاوہ اور کوئی نہیں اور حراء  پہاڑ پر اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے۔

اس حدیث میں واضح ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق ، حضرت عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم شہید ہوں گے۔ آپ ﷺ کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔

اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

أنَّ النَّبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا، وأَبُو بَكْرٍ، وعُمَرُ، وعُثْمَانُ، فَرَجَفَ بهِمْ، فَقَالَ: اثْبُتْ أُحُدُ؛ فإنَّما عَلَيْكَ نَبِيٌّ، وصِدِّيقٌ، وشَهِيدَانِ

(صحيح البخاري: 3675)

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر اُحد پہاڑ پر چڑھے تو اُحد پہاڑ کانپ اٹھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اے اُحد رک رجا تجھ پر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں ۔

اس حدیث میں بھی یہ صراحت ہے کہ سیدنا عمر اور سیدنا عثمان شہید ہوں گے۔ یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔

جنت کی بشارتیں

عثمان رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے کئی موقعوں پر جنت کی بشارتیں عطا فرمائیں ۔حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أبُو بَكرٍ في الجَنَّةِ، وعُمرُ في الجَنَّةِ، وعُثمانُ في الجَنَّةِ وعَليٌّ في الجَنَّةِ22

”ابو بکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہیں، علی جنتی ہیں (رضی اللہ علیہم اجمعین)

سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مدینہ منورہ کے ایک باغ میں موجود تھا کہ ایک شخص نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ رسول الله  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا :

افْتَحْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ، فَإِذَا عُثْمَانُ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَحَمِدَ اللهَ ، ثُمَّ قَالَ : اللهُ الْمُسْتَعَانُ23

 دروازہ کھولیے اور آنے والے کو انہیں پہنچنے والی مصیبت پر جنت کی بشارت دیجیے۔ (میں گیا تو) سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے تھے۔ میں نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی گئی خوش خبری سنائی۔ یہ سن کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اللہ کی تعریف کی اور فرمایا : اللہ مددگار ہے۔

غزوہِ تبوک کے موقع پر جیشِ عسرہ کی تیاری کے وقت مسجدِ نبوی کے اندر جب رسول اللہ ﷺ نے اعلان  فرمایا: جو شخص جیشِ عسره کو ساز و سامان سے لیس کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے توعثمان رضی الله نے ہی اسے مسلح کیا تھا۔ اسی طرح جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص بئرِ رومہ کو کھودے گا اور اسے مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا تو اسے جنت کی بشارت ہے تو حضرت عثمان نے ہی اس کنویں کو کھودا تھا۔24

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا ،

 إذ جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فصافحه، فلم ينزع النبي صلى الله عليه وسلم يده من يد الرجل حتى انتزع الرجل يده ثم قال له‏:‏ يا رسول الله جاء عثمان، قال‏:‏ ‏”‏امرؤ من أهل الجنة‏”‏‏.‏25

اتنے میں ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے مصافحہ کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس وقت تک اپنا ہاتھ اس آدمی کے ہاتھ سے نہیں چھڑایا جب تک اس آدمی نے اپنا ہاتھ نہیں چھڑایا پھر رسول اللہ ﷺ سے کہنے لگے کہ عثمان آگیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ (عثمان) جنتی آدمی ہیں ۔

ہدایت پر قائم رہنے والا

عثمان رضی اللہ عنہ ہدایت پر قائم رہنے والے شخص تھے۔ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:

ذكرَ رسولُ اللہِ صلَّى اللہُ عليهِ وسلَّمَ فتنةً فقرَّبَها فمرَّ رجلٌ مقنَّعٌ رأسُهُ فقالَ رسولُ اللہِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ هذا يومئذٍ علَى الهُدَى فَوثَبتُ فأخذتُ بضَبعَي عثمانَ ثمَّ استقبلتُ رسولَ اللہِ صلَّى اللہِ عليهِ وسلَّمَ فقلتُ هذا قالَ هذا 26

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کا تذکرہ کیا کہ وہ جلد ظاہر ہو گا۔ اسی درمیان ایک شخص اپنا سر منہ چھپائے ہوئے گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شخص ان دنوں ہدایت پر ہو گا“۔ کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں تیزی سے اٹھا اور عثمان رضی اللہ عنہ کے دونوں کندھے پکڑ لیے پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رخ کر کے کہا: کیا یہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں یہی ہیں (جو ہدایت پر ہوں گے)“

اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت اور فتنہ کھڑا کرنے والے حق پر نہ تھے جبکہ عثمان رضی اللہ عنہ حق پر تھے۔

اخلاقِ سیئہ سے پاک

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے دورِ جاہلیت میں بھی کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا نہ کبھی بد کاری کے قریب گئے نہ کبھی چوری کی اور نہ ہی کبھی کوئی جھوٹ بولا۔27

خصوصی دعا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے خصوصی طور پر دعا کی ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور یوں دعا فرمائی :

اللهم إني قد رضيتُ عن عثمان، فارضَ عنه، اللهم إني قد رضيت عن عثمان، فارضَ عنه، اللهم إني قد رضيت عن عثمان، فارضَ عنه28

’’اے اللہ میں عثمان ( رضی اللہ عنہ ) سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔ اے اللہ میں عثمان ( رضی اللہ عنہ ) سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔ اے اللہ میں عثمان ( رضی اللہ عنہ ) سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔‘‘

غزوہِ احد کی غلطی معاف

جنگ میں شکست کے بعد بعض مخلص مسلمانوں نے بھی فرار کی راہ اختیار کر لی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے لیكن اللہ تعالیٰ نے انکے لیے معافی کا عام اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللہَ غَفُورٌ حَلِيمٌ

( سورہ آل عمران: 155)

ترجمہ : تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈ بھیڑ ہوئی تھی یہ لوگ اپنے بعض کرتوتوں کے باعث شیطان کے پھسلانے پر آ گئے لیکن یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور تحمل والا ہے۔

غزوہِ اُحد کی تفصیل

ماہِ شوال 3 ہجری میں جب غزوۂِ احد پیش آیا اس جنگ میں پہلے پہل اللہ تعالیٰ کی مدد مسلمانوں کے شامل حال رہی اور وہ مشرکین کو اللہ کے حکم سے خوب کاٹتے رہے حتیٰ کہ جب فتح کے آثار نظر آنے لگے اور مشرکین اور انکی عورتوں نے بھاگنا شروع کر دیا تو پچاس تیر انداز جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی سر کردگی میں ایک پہاڑی پر متعین کیا تھا تاکہ ادھر سے مشرک حملہ آور نہ ہوں۔ ان پچاس آدمیوں میں سے اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نا فرمانی کر کے اپنی جگہ چھوڑ کر مالِ غنیمت کی طرف دوڑ پڑے چنانچہ مشرکین کو پیچھے سے حملہ کرنے کا موقع مل گیا اور مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔

جنگ میں شکست کے بعد بعض مخلص مسلمانوں نے بھی فرار کی راہ اختیار کر لی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے ۔ بالخصوص اس وقت جب آپکی وفات کی افواہ پھیلی تھی اور مسلمانوں کے اوسان خطا ہو گئے تھے۔ اس آیت میں بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا  سے مراد بھی وہی درّہ کو چھوڑنے اور اللہ کے رسول کی نا فرمانی کرنے کی غلطی تھی جو مسلمانوں سے سرزد ہو گئی تھی اور یہ راہِ فرار اختیار کرنا ان مومنوں کے اپنے عزم سے نہ تھا بلکہ یہ ایک شیطانی اغوا تھا ورنہ انکے دل ایمان پر قائم تھے ۔ اور اللہ نے ان کی اس غلطی کو معاف کر دیا ہے ۔

جب اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے معافی کا عام اعلان فرما دیا تو اب کسی کے لیے ان پر طعن و تشنیع کی  کوئی گنجائش نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس عثمان رضی اللہ عنہ پر بعض اعتراضات کیے۔ ایک ان میں سے یہ تھا کہ وہ احد کے دن فرار ہو گئے تھے تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ’’میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔‘‘29

سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کا نام سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں شامل ہے۔ چنانچہ سیرت نگاروں نے اپنی سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ:

كان أول الناس إسلاماً بعد أبي بكر، وعلي، وزيد بن حارثة، فهو رابع من أسلم من الرجال.30

ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر، حضرت علی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم کے بعد اسلام قبول کرنے والے پہلے شخص تھے چنانچہ آپ سب سے پہلے اسلام قبول كرنے والے مردوں میں چوتهے نمبر پر تهے۔

دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے افراد یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ، آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ  اور  چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ (جو نبی کے گھر میں بچوں کی طرح پرورش پا رہے تھے) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی دوست حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔

خاندانِ بنو امیہ کا پہلا مسلمان

درج بالا تاریخی حقائق سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وہ عظیم ہستی ہیں جنہیں  خاندانِ بنو امیہ میں سب سے پہلے اسلام لانے کا اعزاز حاصل ہوا۔

غزوہِ تبوک اور جیشِ عسرہ کی مدد

9ہجری میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ قیصرِ روم عرب پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ اس خبر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت تشویش ہوئی اور صحابہ کرام کو جنگی سامان کے لیے زر و مال سے اعانت کی ترغیب دلائی۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ایک متمول تاجر تھے۔ انہوں نے ایک تہائی فوج کے جملہ اخراجات تنہا اپنے ذمہ لے لیا۔

حضرت عبدالرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ جیشِ عسرہ (غزوہِ تبوک) کے لیے صحابہ کو ترغیب دے رہے تھے ۔

فقال عثمان بن عفان عليّ مائة بعير بأحلاسها وأقتابها، قال ثم نزل مرقاة من المنبر ثم حث فقال عثمان: عليّ مائة أخرى بأحلاسها وأقتابها قال فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول بيده هكذا يحركها ” ما على عثمان ما عمل بعد هذا31

تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے۔ آپ ﷺ نے پھر ترغیب دلائی تو عثمان رضی اللہ عنہ پھر کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں دو سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے۔ آپ ﷺ نے پھر ترغیب دی تو عثمان رضی اللہ عنہ پھر کھڑے ہوئے اور بولے اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ منبر سے یہ کہتے ہوئے اتر رہے تھے کہ ”اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں، اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں“۔

ابنِ سعد کی روایت کے مطابق غزوہِ تبوک کی مہم میں تیس ہزار پیادے اور دس ہزار سوار شامل تھے۔ اس بنا پر گویا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے دس ہزار سے زیادہ فوج کے لیے سامان مہیا کیا اور اس اہتمام کے ساتھ کہ اس کے لیے ایک ایک تسمہ تک انکے روپے سے خریدا گیا تھا۔ اسکے علاوہ ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور سامانِ رسد کے لیے ایک ہزار دینار پیش کیے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اس فیاضی سے اس قدر خوش تھے کہ اشرفیوں کو دستِ مبارک سے اچھالتے تھے اور فرماتے تھے:

ما ضر عثمان ما عمل بعد ھذا الیوم 32

(آج کے بعد عثمان کا کوئی کام اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا)۔

خلافت کی پیش گوئی

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

يا عثمانُ إنَّهُ لعلَّ اللہَ يقمِّصُكَ قميصًا ، فإن أرادوكَ على خَلعِهِ فلا تخلعهُ لَهُم

(صحيح الترمذي: 3705 صحيح)

اے عثمان ! شاید اللہ تمہیں کوئی کرتہ پہنائے اگر لوگ اسے اتارنا چاہیں تو تم اسے ان لوگوں کے لiے ہرگز نہ اتارنا۔

” کرتہ ” سے مراد خلافت ہے کہ اگر منافقین تمہیں خلافت سے دستبردار ہونے کو کہیں اور اس سے معزول کرنا چاہیں تو ایسا مت ہونے دینا کیونکہ اس وقت تم حق پر قائم رہو گے اور دستبرداری کا مطالبہ کرنے والے باطل پر ہوں گے. اللہ کے رسول ﷺ کے اسی فرمان کے پیشِ نظر عثمان رضی الله عنہ نے شہادت کا جام پی لیا لیکن دستبردار نہیں ہوئے۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بر حق تھے اور اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مخالفین کے منافق ہونے کی صراحت بھی ہے۔

باغیوں سے جنگ کیوں نہیں؟

ابو سہلہ رحمہ اللہ مولیٰ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب (باغیوں کے محاصرے والے دنوں میں) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ (ان باغیوں سے) جنگ کیوں نہیں کرتے؟

تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  نے جواب دیا: بے شک رسول اللہ ﷺ نے میرے ساتھ ایک وعدہ کیا تھا اور میں اس پر صابر(شاکر) ہوں۔33

کتابتِ وحی

آپ کی تحریر و کتابت کی مہارت کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپکو کتابتِ وحی پر مامور کیا تھا اور جب کبھی کوئی آیت نازل ہوتی تھی تو آپ کو بلا کر لکھوایا کرتے تھے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ایک دفعہ شب کے وقت وحی نازل ہوئی تو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو لکھنے کا حکم دیا تو انہوں نے اسی وقت حکم کی تعمیل کی۔ 34

عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں قرآن کی آیات

سیدنا حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے سامنے حضرت عثمان کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: یہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ابھی تشریف لا رہے ہیں وہ تمہیں بتائیں گے۔ پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو فرمایا کہ عثمان ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

(سورۃ المآئدۃ: 93)

وہ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے پھر ایمان کے ساتھ تقوے والا راستہ اختیار کیا پھر تقوے اور احسان والا راستہ اختیار کیا اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ 35

کثرت سے قیام اللیل کرنے اور روزہ رکھنے والا انسان

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ قرآن کریم کی درج ذیل آیت کے بارے میں فرماتے ہیں:

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ (الزمر:10) إنّها نزلت في عثمان36

بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں گزراتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں) بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔

یہ آیت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گواہی

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خطبے کے دوران میں یہ آیت پڑھی:

إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ

( سورۃ الأنبیاء :101)

بے شک وہ لوگ جن کے مقدر میں ہماری طرف سے بھلائی ہے وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔

پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:

عثمان منهم 37

عثمان رضی اللہ عنہ انہی لوگوں میں سے ہیں۔

امت کے امین

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کا امین کا لقب سے نوازا  اور فتنوں کے زمانے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پیروی کرنے کی تلقین کی۔ چنانچہ ابو حبیبہ رحمہ اللہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ آپ باغیوں کے محاصرے میں تھے۔ ابو حبیبہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے بعد تم فتنے اور اختلاف میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! پھر ہم کیا کریں؟ آپ ﷺ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:

عليكم بالأمين وأصحابه، وهو يشير إلى عثمان بذلك38

تم اس امین  اور اس کے ساتھیوں کو لازم پکڑ لینا۔

مسجدِ نبوی کی توسیع میں شرکت

ثمامہ بن خزن قشیری کہتے ہیں کہ:

شَهِدْتُ الدَّارَ يَومَ أُصيبَ عُثمانُ، فاطَّلَع عليه اطِّلاعةً، فقال: ادْعُوا لي صاحِبَيكم اللَّذينِ ألَّباكم عَلَيَّ، فدُعِيَا لهُ، فقال: أنشُدُكما اللهَ، تَعْلَمانِ أنَّ رَسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم لَمَّا قَدِمَ المَدينةَ ضاقَ المَسجِدُ بأهلِه، فقال: مَن يَشتَري هَذِه البُقعةَ من خالِصِ مالِه فيَكونُ كالمُسْلِمينَ ولَهُ خَيرٌ مِنها في الجَنَّةِ؟ فاشتَرَيتُها من خالِص مالي فجَعلتُها بَينَ المُسْلِمينَ، وأنتُم تَمنَعوني أنْ أصلِّيَ فيها رَكعَتينِ 39

جس دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے میں وہاں موجود تھا۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے گھر سے جھانک کر دیکھا اور فرمایا: اپنے ان دو ساتھیوں کو بلا کر لاؤ جو تمہیں مجھ پر چڑھا لائے ہیں انہیں بلایا گیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اور مسجدِ نبوی تنگ ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمین کا یہ ٹکڑا اپنے مال سے خرید کر مسلمانوں کے لیے اسے وقف کون کرے گا ؟ اس کا عوض اسے جنت میں بہترین شکل میں عطاء کیا جائے گا“ چنانچہ میں خالص اپنے مال سے اسے خریدا اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا اب تم مجھے اس ہی میں دو رکعتیں پڑھنے سے روکتے ہو؟

بئرِ رومہ کی خریداری اور جیشِ عسرہ کی تیاری

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

أنشُدُكمُ اللهَ أتَعلَمونَ أنَّ رَسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم لَمَّا قَدِمَ المَدينةَ لم يَكُن فيه بِئرٌ يُستَعذَبُ مِنهُ إلَّا بِئرُ رُومةَ، فقال رَسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: مَن يَشتَريها من خالِصِ مالِه فيَكونُ دَلْوُهُ فيها كدِلاءِ المُسْلِمينَ ولَهُ خَيرٌ مِنها في الجَنَّةِ؟ فاشتَرَيتُها من خالِصِ مالي، فأنتَم تَمنَعوني أن أشرَبَ مِنها! ثُمَّ قال: هَل تَعلَمونَ أنِّي صاحِبُ جَيشِ العُسْرةِ؟ قالوا: اللَّهمَّ نَعَمْ 40

پھر فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت سوائے بئرِِ رومہ کے میٹھے پانی کا کوئی اور کنواں نہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے جو اسے خالص اپنے مال سے خریدے اور اپنا حصہ بھی مسلمانوں کے برابر رکھے؟ اور آخرت میں جنت کے اندر بہترین بدلہ حاصل کر لے؟“ چنانچہ میں نے اسے خالص اپنے مال سے خرید کر وقف کر دیا اب تم مجھے اس ہی کا پانی پینے سے روکتے ہو؟ پھر فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ میں غزوہِ تبوک میں سامانِ جہاد مہیا کرنے والا ہوں ۔ لوگ کہنے لگے کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔

اولین شخصیت جس نے ماہِ محرم سے اسلامی سال كے آغاز کا مشورہ دیا

ہجری سال محرم کے مہینے سے شروع ہوتا ہے لیکن اسلام کی آمد سے پہلے صرف عیسوی سال اور مہینوں سے تاریخ لکھی جاتی تھی۔ مسلمانوں میں تاریخ لکھنے کی روایت نہیں تھی۔ سن 17 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف علاقوں میں خطوط جاری کیے جاتے ہیں لیکن تاریخ ان خطوط میں نہیں لکھی جاتی۔ حالانکہ تاریخ لکھنے سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ نے حکم کس دن جاری کیا اور کب پہنچا اور کب اس پر عمل ہوا؟ ان تمام باتوں کو سمجھنا تاریخ لکھنے پر منحصر ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بہت مناسب سمجھا اور فوراً صحابہ کا اجلاس بلایا۔ اس میں مشورہ دینے والے صحابہ کرام کی طرف سے چار قسم کی رائے سامنے آئی۔

1۔  صحابہ کی ایک جماعت کی رائے تھی کہ آپ ﷺ کی ولادت کے سال سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔

2۔ دوسری جماعت کی رائے تھی کہ اسلامی سال نبوت کے سال سے شروع ہونا چاہیے۔

3۔ تیسری جماعت کی رائے تھی کہ اسلامی سال كی ہجرت سے ابتداء کی جائے۔

4۔ چوتھی جماعت کی یہ رائے تھی کہ اسلامی سال کا آغاز آپ ﷺ کے وفات سے ہونا چاہیے۔

ان تمام آراء کو سننے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ سنایا کہ اسلامی سال کا آغاز ہجرت کے سال ہی سے ہو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر تمام صحابہ کرام کا اتفاق اور اجماع اس بات پر ہوا کہ اسلامی سال کا آغاز ہجرت کے سال ہی سے ہو۔ جب تمام صحابہ کرام کا اتفاق اور اجماع اس بات پر ہوا کہ اسلامی سال کا آغاز ہجرت کے سال ہی سے ہو لیکن ایک اور مسئلہ پیدا ہوا کہ سال کا آغاز کس مہینے سے کیا جائے؟ چنانچہ اس بارے میں بھی صحابہ کی مختلف آراء سامنے آئیں ۔ بعض صحابہ  نے یہ مشورہ دیا کہ رجب کے مہینے سے سال کے مہینے کی ابتداء کی جائے۔ بعض نے یہ مشورہ دیا کہ رمضان کے مہینے سے سال کے مہینے کا آغاز ہو کیونکہ رمضان وہ بہترین مہینہ ہے جس میں پورا قرآن نازل ہوا ہے۔ بعض صحابہ نے یہ مشورہ دیا کہ ربیع الاول سے سال کے مہینے کی ابتداء کی جائے کیونکہ اس مہینے میں حضور ﷺ نے ہجرت فرمائی ، آپ  نے ماہِ  ربیع الاول کےابتداء میں مکہ مکرمہ سے سفر کا آغاز فرمایا اور آٹھ ربیع الاول کو مدینہ منورہ پہنچ گئے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مشورہ

لكن عثمان رضي الله عنه أبدى رأيا لم يسبق إليه : فقال أرخّوا من المحرم أول السنة ، وهو شهر حرام و أول الشهور في العدة ، وهو منصرف الناس من الحج ، فوقع الاتفاق على رأيه ، وحسمت مادة خلاف فكان عثمان بسبب ذلك هو أول من اقترح أن يكون مبدأ التاريخ الهجري هو فاتح محرم و أول شهور السنة القمرية41

 لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا مشورہ دیا جو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیا تھا: آپ نے فرمایا: اسلامی سال کا آغاز محرم کے مہینے سے کیا جائے کیونکہ محرم کا مہینہ حرمت کا مہینہ ہے نیز یہ حج سے لوگوں کی واپسی کا مہینہ ہے ۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلامی سال کا آغاز ماہِ محرم سے رکھا کیونکہ یہ وہ مہینہ  ہے جسے عربوں نے اسلام کی آمد سے پہلے اپنے سال کے آغاز کے طور پر منتخب کیا تھا اور پیغمبرِ اسلام ﷺ نے اس کا نام اللہ کا مہینہ رکھا ۔ چنانچہ اس پر تمام صحابہ کا اتفاق اور اجماع ہوا کہ سال کے مہینے کی ابتداء محرم سے ہو۔ اس طرح اسلامی سال کی ابتداء ہجرت سے اور اسلامی مہینے کی ابتداء محرم الحرام سے مان لی گئی۔اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ماہِ محرم سے اسلامی سال کا آغاز کرنے کا مشورہ دیا۔

مظلومانہ شہادت کی پیش گوئی

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :

ذَكرَ رسولُ اللہِ صلى الله عليه وسلم فتنةً فقالَ: يقتلُ فيها هذا مظلومًا. لعثمانَ42

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنے کا ذکر کیا تو فرمایا: ”اس فتنے میں عثمان بھی مظلوم قتل کیا جائے گا“  ( یہ بات آپ نے عثمان رضی الله عنہ کے متعلق کہی )  ۔

شہادت

35ھ میں ذی القعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذو النورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا۔ محاصرے کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کر دیا گیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے رہے ۔ 82 سالہ مظلومِ مدینہ سیدنا عثمان رضی الله عنہ کو جمعۃ المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔43

قتلِ عثمان رضی الله عنہ سے اعلانِ براءت

سیدنا علی رضی اللہ عنہ دونوں ہاتھ اٹھا کر فرمایا کرتے تھے کہ:

اللهم إني أبرأ إليك من دم عثمان44

اے اللہ میں عثمان (رضی اللہ عنہ) کے خون سے بری ہوں۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی اشاعتِ اسلام کے لیے خدمات تاریخِ اسلام کا لازمی حصہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ و دیگر خلفائے راشدین و صحابہ کرام اور اہلِ بیت رضی اللہ تعالی عنہم کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  1. (رواه الطبراني في الكبير والأوسط 14512وإسناده حسن ( الشريعة للآجري حديث رقم: 1367))
  2. (الشريعة للآجري حديث رقم: 1366 ، وکنز العمال: 36226)
  3. ( المعجم الکبیر للطبرانی : 17/184، برقم: 490)
  4. (رواه الطبراني، وابن عساكر، قال الهيثمي في مجمع الزوائد :حسن بطرقه وشواهده، و الشريعة للآجري، حديث رقم: 1370)
  5. (معجم اوسط،ج4،ص322،حدیث:6116)
  6. (أخرج الإمام أحمد في فضائل الصحابة: 843)
  7. (المعجم الکبير للطبراني:1/ 90، برقم : 143)
  8. (المستدرك على الصحيحين للحاكم: 6849)
  9. (  الکامل في التاریخ لابن الأثير الجزري: 2/ 111)
  10. (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير:1 / 90، برقم : 143)
  11. (صحیح البخاری : 2962)
  12. (صحیح البخاری ،کتاب الجمعة)
  13. (   شرح سنن ابی داود از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث: 1475  )
  14. (فتح الباری:9//22۔ الاتقان:1/131)
  15. (صحیح بخاری۔ فضائل القرآن، باب جمع القرآن:20/4987 )
  16. ( الاتقان في علوم القرآن :1/130، فتح الباری:9/22)
  17. (صحیح بخاری، فضائل القرآن، باب جمع القرآن:4987)
  18. (الاتقان ص: 61)
  19. (صحيح الترمذي: 3701  حسن)
  20. (صحيح الجامع: 4435 : صحيح، والسلسلة الصحيحة: 2319)
  21. (صححه الألباني في صحيح الترمذي:3747)
  22. (صحیح البخاری : 3490، صحیح مسلم : 2403)
  23. ( صحیح البخاری:2772)
  24. (رواه الطبراني في الأوسط والكبير 14530وإسناده حسن‏.‏، وکنز العمال : 36234)
  25. (صححه الألباني في صحيح ابن ماجه: 89 )
  26. ( الریاض النضرۃ في مناقب العشرۃ المبشرۃ ، للإمام محب الدین الطبری، ج2،ص33، وتاریخ ابن عساکر،ج 39،ص227،225)
  27. (رواه ابن عساكر).
  28. (بخاری، المغازی، باب قول اللہ تعالٰی : إن الذین تولوا منکم… : 4066 )
  29. ( السيرة النبوية لابن هشام:1/ 287 – 289)
  30. (سنن الترمذی :3700) (والسيرة النبوية،لابن كثير  ج ٤ ص:٧)
  31. (مستدرک حاکم ج3 : 102)
  32. (مصنف ابن أبي شیبة: 32028 وسندہ صحیح، والترمذی: 3711 وقال: ھٰذا حدیث حسن صحیح)
  33. (کنز العمال، جلد ،ص: 377)
  34. (مصنف ابن أبي شیبة: 32051 ، وسندہ صحیح)
  35. ( تفسیر بغوی:4/63)
  36. (مصنف ابن أبي شیبة: 32043 وسندہ صحیح)
  37. (رواه أحمد :8541، والحاكم :8335، صحَّحه ابنُ كثير في البداية والنهاية:6/212، وصحَّح إسنادَه الحاكم، وأحمد شاكر في تخريج مسند أحمد:16/224، ووثق رجاله الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة:3188)
  38. (حسَّنه الترمذي، والألباني في صحيح الترمذي:3703)
  39. (حسَّنه الترمذي، والألباني في صحيح الترمذي:3703)
  40. ( مجلة دعوة الحق، العدد: 206، صفر 1434ه ۔ ینایر 2013 م ، تحت وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية بالمملكة المغربیة )
  41. (صحيح الترمذي: 3708 : إسناده حسن)
  42. (الخلافة والخلفاء الراشدون، ص222 ، وتاريخ الأمم والملوك للطبري، ج 2/ص 688، الكامل في التاريخ  لابن الأثير، ج 3/ص 69)
  43. (فضائل الصحابة للإمام أحمد: 452/1 رقم الحدیث: 727 وسندہ حسن)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ