دل کی دُرستگی

Dill-Ki-Durusti

پہلا خطبہ :

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، جو ہر کمال میں منفرد اور بیوی اور اہل وعیال سے پاک ہے، میں اس پاک ذات کی اس کی فراواں نعمتوں پر حمد کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بڑا بلند ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندہ اور رسول ہیں، جو نایاب خصلتوں اور بلند اخلاق والے ہیں۔

 اللہ درود و سلام اور برکت نازل فرمائے آپ ﷺ پر ، آپ ﷺ کے آل واصحاب پر ، جو بہتریں ساتھی اور معزز ترین آل ہیں، تابعین پر اور ان کی اچھی طرح پیرونی کرنے والوں پر، ایسا درود و سلام جو شب وروز کی بقا کے ساتھ دائمی ہو۔

اما بعد !

 ” اے لوگو! میں آپ کو اور خود کو اللہ تعالی کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں، اللہ آپ پر رحم کرے، آپ اللہ کا تقوی اختیار کریں اور آرزوؤں اور امیدوں سے دھو کہ کھانے سے بچیں، آپ قریب ہی منتقل اور رخصت ہونے والے ہیں:

 يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسُ قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

الحشر – 18

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے۔ اور ( ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر “۔

 مسلمانو! انسان کے اندر سب سے معزز چیز اس کا دل ہے، دل انسان کے اعضا و جوارح کا سر دار اور رہبر ہے، انسان کے پیکر کی درستی اس کے دل کی درستی سے ہے اور اس کا بگاڑ دل کے بگاڑ سے ہے ، نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ فِي الْحَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الحَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجُسَدُ أَلَا الْقَلْبُ

أخرجه البخاري ومسلم

جسم میں ایک ٹکڑا ہے ، اگر وہ درست ہوا تو پورا جسم درست ہو گا، اگر وہ بگڑا تو پورا جسم بگڑ جائے گا، سنو وہ دل ہے۔

دل قوت و طاقت کا سر چشمہ ، روح کی جائے قرار اور ایمان کا خزینہ ہے ، دل رب کی نظر کی جگہ اور اس کی رضامندی کا مقام ہے ، دل اگر بے عیب اور سلامت رہا، تو وہ مولا کی بارگاہ میں حاضری کے دن انسان کا سروسامان ہو گا، اللہ تعالی نے فرمایا :

يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْب سليم

الشعراء – 89

” جس دن کہ مال اور اولا د کچھ کام نہ آئے گی لیکن ” کہ فائدہ والا وہی ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے”۔

 اور نبی کریم ﷺنے فرمايا:

إن الله لا ينظر إلى صوركم وأموالكم، ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم

صحیح مسلم

اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا، لیکن وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔

اللہ کے بندو! دل کی خبر گیری اور دیکھ ریکھ کرنا، اس کی اصلاح کرنا، اسے پاک کرنا اور اسے بچانا حتمی ذمہ داری اور اللہ کے نزدیک پر عظمت معاملہ ہے، اسی میں بندہ کی کامیابی، سعادت مندی اور خوش عیشی ہے، دل کی آسائش کے سوا کوئی آسائش نہیں اور دل کے عذاب کے سوا کوئی عذاب نہیں۔

 سنو! اس کے کچھ وسائل و اسباب ہیں اور راستے و دروازے ہیں، ان میں پہلا اور سب سے بہتر اللہ تعالی کے لیے اخلاص ہے، بایں طور کہ بندہ دل کو اپنے رب تعالی سے جوڑے اور اسی کے لیے اس کا کہنا اور کرناو چھوڑنا ہو اور اللہ کے سوا تمام مخلوقات سے براءت کا اظہار کرے۔

 “دل کی عین بیماری اس اخلاص و محبت کو ضائع کر دینا ہے جس کے لیے وہ مطلوب ہے، سو تم جان لو! جن چیزوں سے دل کی اصلاح ہوتی ہے، ان میں سے اطاعت کے کاموں ، جیسے فرائض، واجبات اور مستحبات کو انجام دینا ہے، یہ دل کو روشنی اور جلا بخشتے ہیں، اسے ثابت قدم اور مضبوط رکھتے ہیں، اس کے بر عکس نافرمانیاں اور گناہ ہیں، ان سے دل تاریک اور گمراہ ہوتا ہے، بیمار اور ہلاک ہوتا ہے ، مصطفیﷺ نے فرمایا:

تُعرَضُ الفتن على القلوب كالحصير عودًا عودًا، فأي قلب أُشرِبَهَا نُكِتَ فيه نكتة سوداء، وأي قلب أنكرها نُكِتَ فيه نكتة بيضاء، حتى تصير على قلبين على أبيض مثل الصَّفا، فلا تضرُّهُ فتنة ما دامت السماوات والأرض، والآخر أسود مربادا كالكُوزِ مُحَجَّيًا، لا يعرفُ معروفًا ولا يُنكِرُ مُنكَرًا إلا ما أُشرِبَ مِنْ هَوَاهُ.

أخرجه مسلم

فتنے دلوں پر ڈالے جائیں گے ، چٹائی کے ریشوں کی طرح تنکا تنکا (ایک ایک) کر کے ، اور جو دل ان سے سیراب کر دیا گیا، اس میں ایک سیاہ نقطہ پڑ جائے گا، اور جس دل نے ان کو رد کر دیا، اس میں سفید نقطہ پڑ جائے گا یہاں تک کہ دل دو طرح کے ہو جائیں گے: (ایک دل) سفید، چکنے پتھر کی مانند ہو جائے گا۔ جب تک آسمان و زمین قائم رہیں گے، کوئی فتنہ اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ دوسرا: کالا مٹیالے رنگ کا اوندھے لوٹے کی مانند جو نہ کسی نیکی کو پہچانے گا اور نہ کسی برائی سے انکار کرے گا، سوائے اس بات کے جس کی خواہش سے وہ (دل) لبریز ہو گا”۔

مسلمانو! اللہ کا ذکر دل کی صفائی ہے ، وہ ایسی روح ہے جس سے وہ زندہ رہتا ہے اور ایسا نور ہے جس کی لو سے روشنی حاصل کرتا ہے ، ذکر دل کے لیے ویسے ہی ہے جیسے غذا جسم کے لیے اور پانی کھیتی کے لیے ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:

 أَلا بذكرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ

الرعد – 8

” یادرکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے”۔

 ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا:

يا رسول الله، إنَّ شرائع الإسلام قد كثرَتْ عليَّ، فَأَخْبِرْني بشيءٍ أَتَشَبَّتُ به”، فقال عليه الصلاة والسلام” :لا يزال لسانك رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللهِ”

أخرجه أحمد والترمذي وحسنه

اے اللہ کے رسولﷺ! ! اسلام کے احکام و قوانین تو میرے اوپر بہت ہو گئے ہیں، کچھ تھوڑی سی چیزیں مجھے بتا دیجئے جن پر میں (مضبوطی) سے جمار ہوں، آپ صلی الم نے فرمایا: ”تمہاری زبان ہر وقت اللہ کی یاد اور ذکر سے تر رہے”۔ (اسے احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے حسن کہا ہے) اور تم دل کی بیماری کا علاج کرو اور اس کی ویرانی کو آباد کرو مولا کے ذکر سے، سو تم تسبیح و تہلیل کرو”۔ “

جو ذکر سے غافل ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھے تو وہ زبان پر استغفار کو جاری رکھے ، کیوں کہ وہ گناہ کو مٹانے والا اور دل کو پاک کرنے والا ہے، حق تعالی نے فرمایا:

 وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ

آل عمران – 135

جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجو د علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے”۔

اور نبی اکرم ﷺ نے فرمايا:

إِنَّه ليغان على قلبي، وإِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ الله في اليوم مئةَ مرة

أخرجه مسلم

“میرے دل پر غبار سا چھا جاتا ہے تو میں (اس کیفیت کے ازالے کے لیے) ایک دن میں سو بار اللہ سے استغفار کرتا ہوں”۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے) جب بندہ تلاوت، عمل اور تدبر کے ذریعہ قرآن پر متوجہ ہو گا، تو اس کا دل نرم اور خوشگوار ہو گا اور اسے بھلائی اور روشنی گھیر لے گی۔

ایسا کیوں نہ ہو! جبکہ اللہ کی کتاب ہی گمراہی سے ہدایت ہے، جہالت کی تاریکی کو منتشر کرنے والی ہے ، وہ جسمانی اور دلی بیماریوں سے شفا ہے اور دینی و دنیوی معاملات میں حفاظت و بچاؤ ہے۔

 يَأْيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تَكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ

یونس – 57

 “اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے”۔

 اللہ کے بندو! اللہ سے ڈریں اور جان لیں کہ بندہ کا مقام اس کے رب کے نزدیک اس کے دل کی زندگی کے حساب سے ہے، سو جس قدر بندے کا دل زندہ ہو گا، اسی قدر اپنے مولا سے اس کی قربت ہو گی اور جس قدر بندے کا دل سخت ہو گا، اسی قدر اس کو اپنے رب سے دوری ہو گی۔ قرآن عزیز میں ہے:

رَبِّكُمْ أَعلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِن تَكُونُوا صِلِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا

الاسراء – 25

 ” جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے”۔

 اللہ میرے لیے اور آپ کے لیے قرآن عظیم میں برکت دے اور مجھے اور آپ کو نبی کریم ﷺکے طریقہ سے فائدہ پہنچائے، میں وہ کچھ کہ رہا ہوں جو آپ سن رہے ہیں اور میں اللہ سے اپنے لیے، آپ کے لیے اور باقی تمام مسلمانوں کے لیے ہر گناہ و خطا کی مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ مغفرت طلب کریں، بیشک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ :

 ہر طرح کی تعریف اللہ کے لیے ہے، جو اپنے جلال و عظمت میں منفرد ہے، اپنی مشیئت اور حکمت سے معاملات کی تدبیر کرنے والا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندہ اور رسول ہیں۔

 اللہ درود و سلام اور برکت نازل فرمائے آپ ﷺ پر ، آپ ﷺ کے آل و اصحاب پر اور ان لوگوں پر جو آپ ﷺ کے طریقے اور سنت پرچلیں۔

اما بعد !

مومنو! کائنات میں اللہ کی واضح نشانیاں اور حیرت انگیز معجزے ہیں، جو خالق کی عظمت اور مخلوق کی خوبصورتی کی گواہی دیتے ہیں اور تدبر ، فکر و نظر اور یقین کی دعوت دیتے ہیں۔ کیا آپ لوگوں نے اس زمین کو نہیں دیکھا جس سے آپ پیدا کیے جاتے ہیں، اس پر زندگی بسر کرتے ہیں، اس کی پشت پر چلتے ہیں اور اس کے پیٹ میں دفن کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اسے فرش و بچھونا اور جائے قرار بنایا اور انعام و فضل کے طور پر اپنی قدرت سے اس میں روزیاں اور خوراکیں قدر کیں، پھر اللہ تعالی کی مشیت ہوئی اور اس نے عذر ختم کرنے اور ڈرانے کے لیے اس میں زلزلہ پیدا کیا۔

وَلَقَدْ مَكَنَّكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَيشَ

الاعراف – 10

 اور بے شک ہم نے تم کو زمین پر رہنے کی جگہ دی اور ہم نے تمہارے لئے اس میں سامان رزق پیدا کیا”۔

اللهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فَرَارًا

غافر – 13

الله ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ بنائی”۔

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُم الْأَرْضَ ذَلُولا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رَزْقِهِ، وَإِلَيْهِ النُّشُورُ

الملک – 15

ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو پست و مطیع کر دیا تا کہ تم اس کی راہوں میں چلتے پھرتے رہو اور اللہ کی روزیاں کھاؤ ( پیو) اسی کی طرف (تمہیں) جی کر اٹھ کھڑا ہونا ہے”۔

 سنو! زمین کا ہلنا دل کیے ہلنے اور بیدار ہونے اور سختی کے بعد اس کے نرم پڑنے کا محرک ہے، بایں طور کہ اس میں اللہ کی تعظیم و توقیر ہو، اس کے لیے تواضع اور عاجزی ہو، اس کے محرمات سے دوری ہو اور اس کی خوشنودیوں کی تلاش ہو۔

مسلمانوں کے کچھ ملکوں میں جو تباہ کن زلزے اور خوفناک جھٹکے آئے ان سے لوگ صدمے میں ہیں۔ اللہ نے جو مقدر اور فیصلہ کیا ہے اس پر اللہ کے لیے حمد و تعریف ہے ، وہ خوش حالی اور بد حالی سے آزماتا ہے ، دے کر اور روک کر امتحان لیتا ہے اور صبر کرنے والوں سے رحمت وہدایت اور نوازشوں کا وعدہ کرتا ہے، آزمائشوں اور مصیبتوں میں اللہ کی بڑی حکمت اور بھر پور رحمت ہوتی ہے اور ہم اللہ تعالی سے امید کرتے ہیں کہ وہ ان مصیبت زدہ لوگوں کو اپنے حفظ امان اور اپنی شفقت واحسان کے سایے میں رکھے ، ان کے بیماروں اور زخمیوں کو شفا دے اور ان کے مردوں پر رحم کرے۔

یہ مبارک ملک مملکت سعودی عرب اس بڑی مصیبت میں بہترین مدد گار ثابت ہوا، اس نے مدد و عطا کے ہاتھ بڑھائے اور اس مصیبت سے نقصان اٹھانے والوں کے لیے خیر کا باغ اور عطا کے بادل ثابت ہوئے، اللہ خادم حرمین شریفین اور ان کے ولی عہد کی خدمت کو قبول کرے کہ انہوں نے اس کا حکم دیا اور اس کی ہدایت کی، ان کے ساتھ احسان کرے اور انہیں بھر پور اجر و ثواب سے نوازے۔

 اے تو فیق یافتہ بھائیو! اس خیر سے شرفیاب ہونے کا موقع آپ سے فوت نہ ہونے پائے ، آپ سرکاری اداروں کے راستے سے اس حادثے کے شکار لوگوں کی مدد اور تعاون کریں، اللہ بندے کی مدد اس وقت تک کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔ سب سے بہتر عطیہ اور سب سے افضل احسان وہ ہے جس میں پریشان حال کی دادرسی نظر آئے”۔

 اے اللہ! تو درود نازل فرما محمد ﷺ پر اور آل محمد ﷺ پر، جیسے تو نے جہانوں میں درود نازل فرمایا ابراہیم علیہ السلام پر اور آل ابراہیم علیہ السلام پر، بیشک تولا ئق حمد اور صاحب عظمت اور برکت نازل فرما محمد ﷺ پر اور آل محمد ﷺ پر، جیسے تو نے جہانوں میں برکت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام  پر اور آل براہیم علیہ السلام پر ، بیشک تولا ئق حمد اور صاحب عظمت ہے۔

 اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، دین کے قلعہ کی حفاظت کر اور اپنے مؤمن بندوں کی مدد کر۔

 اے اللہ! غم گین مسلمانوں کا غم دور کر، مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت ختم کر، قرضداروں کا قرض ادا کر اور ہمارے بیماروں اور مسلمانوں کے بیماروں کو شفا عطا فرما، اپنی رحمت سے یا ارحم الراحمین۔

 اے اللہ! تو ہمیں ہمارے وطنوں میں امن عطا فرما، ہمارے سر براہوں اور حکمرانوں کی اصلاح فرما، ہمارے امام اور ولی امر کی حق ، توفیق اور درستگی کے ذریعہ تائید فرما۔

اے اللہ! تو انہیں اور ان کے ولی عہد کو ایسے کام کی توفیق دے، جس میں ملک اور بندوں کی بھلائی ہو، یارب العالمین۔

اے اللہ! حدود و سر حدوں پر تعینات ہمارے سپاہیوں کو درستی عطا فرما، اے اللہ ! تو ان کا معین و مددگار بن ، ان کی تائید فرما اور ان کا سہارا بن۔

اے اللہ ! مہنگائی، وبا، سود، زنا، زلزلوں، آزمائشوں اور ظاہر و باطن برے فتنوں کو ہمارے اس ملک خصوصا اور مسلمانوں کے ملکوں سے عموماً دور کر ۔یارب العالمین۔

 اے اللہ! ہم تجھ سے معاملہ میں ثابت قدمی اور رشد و ہدایت پر عزیمت مانگتے ہیں، ہم تجھ سے تیری نعمت پر شکر اور تیری اچھی عبادت کا سوال کرتے ہیں۔ ہم تجھ سے بے عیب دل اور سچی زبان مانگتے ہیں، ہم تجھ سے ہر وہ بھلائی مانگتے ہیں، جسے تو جانتا ہے، ہر اس شر سے تیری پناہ لیتے ہیں جسے تو جانتا ہے اور اس گناہ کی مغفرت طلب کرتے ہیں جسے تو جانتا ہے، بیشک تو غیبوں کو خوب جاننے والا ہے۔

 ” اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچالے”۔

خطبة الجمعة مسجدالحرام: فضیلة الشیخ بندر بلیلة حفظه اللہ
19 رجب 1444 ھ بمطابق 10 فروری 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ بندر بلیلۃ حفظہ اللہ