ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے جس نے نجات و ہدایت کی راہ بتانے کے لیے اپنے رسولوں کو مبعوث کیا اور اپنی کتابیں نازل فرمائیں اور جسے چاہا احسان و تقوی کی توفیق دی۔ میں اس بڑی شان والے اللہ کی بے شمار اور بے انتہا نعمتوں پر حمد بیان کرتا ہوں اور اس کا شکر بجا لاتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ ایسی گواہی جس سے ہم ہمیشہ رہنے والی نعمت کی امید کرتے ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ خلیلِ مجتبی اور نبیِ مصطفی ہیں۔ درود و سلام اور برکتیں نازل ہوں آپ پر، آپ کے ہمدرد و ہدایت والے آل و اصحاب پر اور ان پر جو درست طریقے سے ان کی پیروی کریں جب تک رات تاریک اور صبح روشن ہو اور ہمیشہ رہنے والی خوب سلامتی ہو ۔
اما بعد !
مومنوں! اللہ کا تقوی اختیار کرو ، اسلام کے مضبوط کڑے کو تھام لو اور جان لو! سب سے اچھی بات اللہ کا کلام ہے اور سب سے اچھا طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑو کہ بلاشبہ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو ان سے الگ ہوا وہ جہنم رسید ہوا۔ اللہ تبارک و تعالی ہماری حفاظت فرمائے۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
(سورۃ النساء :115)
ترجمہ : اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے ، جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دینگے اور قیامت کے دن جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے ۔
کائنات کی تخلیق میں عمدگی اور پختگی
اے امت مسلمہ! اللہ تعالی نے اس کائنات کو جما ل و جلال اور پختگی و کمال سے پیدا کیا ہے۔ ایسی زینت سے جو نگاہوں کو کھینچتی ہے اور ایسی خوبصورتی سے جو غور و فکر کرنے پر ابھارتی ہے۔ جس کے عجائب ختم نہیں ہوتے اور جس کے اسرار کی انتہا نہیں۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ، وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ، تَبْصِرَةً وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ ، وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُّبَارَكًا فَأَنبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ ، وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَّهَا طَلْعٌ نَّضِيدٌ
( سورۃ ق، آیت: 6 تا 11 )
ترجمہ : کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے کس طرح اسے بنایا اور آراستہ کیا اور اس میں کوئی شگاف (بھی) نہیں اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا اور اس میں مضبوط پہاڑ رکھ دیے اور اس میں ہر طرح کی پر بہار چیزیں اگائیں، (ان چیزوں میں) ہر رجوع کرنے والے بندے کے لیے بصیرت اور سبق (حاصل کرنے کا سامان) ہے اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی نازل کیا جس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کیے اور کھجوروں کے بلند و بالا درخت جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں۔
کائنات کی مضبوطی و پختگی کے دلائل
کائنات اپنے آسمانو وزمین نجوم و کواکب لیل و نہار اور شمس و قمر کے ساتھ خالق کی تخلیق کی پختگی پر روشن دلیلیں ہیں۔اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
وَآيَةٌ لَّهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ ، وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ، وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ ، لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ
( سورۃ یس :37 تا 40 )
ترجمہ : اور ان کے لیے ایک نشانی رات (بھی) ہے جس کے اوپر سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے اور سورج اپنی مقررہ گزرگاہ پر چل رہا ہے۔ یہ اس سب پر غالب، سب کچھ جاننے والے کا اندازہ ہے اور اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کردیں یہاں تک کہ وہ دوبارہ پرانی (کھجور کی) ٹیڑھی ڈنڈی کی طرح ہوجاتا ہے۔ نہ تو سورج سے یہ ہوسکتا ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب اپنے اپنے مدار پر تیزی سے رواں دواں ہیں۔
ہم جب تخلیق کے نشانات پر غور کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ تقدیر موضوع ہے اور اندازہ پختہ ہے ۔اللہ نے سچ کہا ہے:
إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ
( سورۃ القمر:49)
ترجمہ : ہم نے ہر چیز کو ٹھیک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا
اللہ پاک نے اچھی طرح تخلیق کی، اسے عمدہ بنایا اور خوب پختہ کیا اور اس کو اس کی ہیئت و عمل میں انوکھا بنایا۔ اس نے ہر چیز کو اس طرح شاخ بخشی اور اس کو راستہ بتایا جو اس اعلی و بلند ذات کی حکمت کے مطابق ہے اور کوئی چھان بین کرنے والا محقق کوشش کرے کہ وہ خالق کی صنعت میں کوئی خلل پائے تو اس کی کوشش اس کی طرف ذلیل و خوار اور ضعیف درماندہ ہو کر لوٹ جائے گی ۔اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ، الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ
( سورۃ الملک : 3،2،1 )
ترجمہ : بہت با برکت ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے۔ وہ جس نے سات آسمان اوپر نیچے پیدا فرمائے۔ رحمن کی پیدا کردہ چیزوں میں تو کوئی کمی بیشی نہیں دیکھے گا۔ پس نگاہ کو لوٹا، کیا تجھے کوئی شگاف بھی نظر آ رہا ہے ؟۔
عبادات و معاملات میں عمدگی اور پختگی سنتِ الہٰی
اللہ کے بندوں! یہ سب اللہ کی صنعت کے عجائب میں ہمیں نظر آنے والی ظاہری چیزوں کی پختگی ہے تو ان باطل چیزوں کا کیا عالم ہوگا جنہیں ہم نہیں دیکھ رہے؟ اللہ کا فرمان ہے :
وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ
( سورۃ النمل :88 )
ترجمہ : اور تو پہاڑوں کو دیکھے گا، انھیں گمان کرے گا کہ وہ جمے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادلوں کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے، اس اللہ کی کاری گری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ یقیناً وہ اس سے خوب باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔۔
اور رب تعالی لگاتار لوگوں کے لیے اس کائنات کے اسرار اور نشانیاں اور اپنا ہنر و کاریگری دکھا رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
( سورۃ فصلت: 53)
ترجمہ : عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہوجائے کہ یقیناً یہی حق ہے اور کیا تیرا رب کافی نہیں اس بات کے لیے کہ بے شک وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
اور جب انسان کے نزدیک سب سے قریب ترین چیز اس کی ذات ہے تو اس کے خالق و باری اور فاطر و مصور نے اسے اپنی ذات پر غور و فکر کرنے کی طرف بلایا ہے تاکہ وہ اپنی ذات میں تدبیر کے آثار قائم اور اپنے خالق کی تخلیق کی پختگی کے دلائل کو دیکھ سکے جو مدبر پر گواہ، دلیل اور اس کی طرف راہنما ہے۔
انسان کی حقیقت
اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
( سورۃ الذاریات:21)
ترجمہ : اور تمھارے نفسوں میں بھی (کئی نشانیاں ہیں) تو کیا تم نہیں دیکھتے؟
تو بعد اس کے کہ انسان اپنی خلقت سے قبل کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں تھا۔ وہ خلقت و خوبصورتی میں ایک پختہ اور درست مخلوق بن گیا۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ، ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ، ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
( سورہ المؤمنون : 12 تا 14 )
ترجمہ : اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو حقیر مٹی کے ایک خلاصے سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے ایک محفوظ مقام (رحم مادر) میں نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنادیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر ہم نے اسے ایک اور صورت میں پیدا کردیا، سو بڑا با برکت ہے (وہ) اللہ جو سب بنانے والوں سے بہتر بنانے والا ہے۔
قرآن و سنت بھی مضبوط و مستحکم
ایمانی بھائیوں! جب اللہ پاک نے اپنی تخلیق کو انتہائی درجہ میں پختہ بنایا ہے اور اسے آخری درجہ میں مضبوط کیا ہے تو اس کی شریعت بدرجہِ اولی نہایت مضبوط و مستحکم ہوگی۔ قرآن و سنت دونوں کے دونوں مستحکم و مضبوط ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ
( سورۃ ھود :1)
ترجمہ : الۤرٰ۔ (یہ وہ) کتاب ہے جس کی آیات محکم کی گئیں، پھر انھیں کھول کر بیان کیا گیا ایک کمال حکمت والے کی طرف سے جو پوری خبر رکھنے والا ہے۔
اور اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
وَأَنزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَيْكَ عَظِيمًا
( سورۃ النساء :113)
ترجمہ : اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپکو وہ کچھ سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے اور اللہ کا فضل آپ پر ہمیشہ سے بہت بڑا ہے۔
اسی لیے اس نے اپنے بندوں کو پختگی کے ساتھ کام کرنے کا حکم دیا اور اسے پسند کیا اور کام کو پختگی سے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے کامل ترین اور احسن ترین شکل و صورت میں انجام دیا جائے ۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والرب تعالى يحب أسماءه وصفاته ويحب مقتضى صفاته وظهور آثارها في العبد فإنه جميل يحب الجمال عفو يحب أهل العفو كريم يحب أهل الكرم عليم يحب أهل العلم وتر يحب أهل الوتر قوي والمؤمن القوي أحب إليه من المؤمن الضعيف صبور يحب الصابرين شكور يحب الشاكرين وإذا كان سبحانه يحب المتصفين بآثار صفاته فهو معهم بحسب نصيبهم من هذا الاتصاف فهذه المعية الخاصة
(عدة الصابرين وذخيرة الشاكرين ، ص: 48 ط دار ابن كثير)
ترجمہ : رب تعالی اپنے اسماء و صفات کو پسند کرتا ہے اور وہ صفات کے تقاضوں کو پسند کرتا ہے اور پسند کرتا ہے کہ ان کے آثار بندوں پر ظاہر ہوں۔ وہ جمیل ہے اور وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، کریم ہے اور صاحبان کرم کو پسند کرتا ہے ، علیم ہے اور اہل علم کو پسند کرتا ہے، وہ طاق ہے اور طاق والوں کو پسند کرتا ہے، قوی ہے اور قوی مؤمن اس کے نزدیک کمزور مؤمن سے زیادہ محبوب ہے، صبور ہے اور صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، شکور ہے اور شکر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور جب اللہ تعالی اپنی صفات کے آثار سے متصف ہونے والوں کو پسند کرتا ہے تو وہ ان کے ساتھ انکے متصف ہونے کے وقت ساتھ ہوتا ہے اور یہ اس کی معیتِ خاصہ ہے ۔
عمدگی اور پختگی اللہ کا پسندیدہ عمل
اسی سلسلے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
(سورۃ البقرۃ : 195)
ترجمہ : اور اچھا کام کرو یقینا اللہ تعالی اچھے کام کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
آیت میں آئے لفظ احسان کا معنی پختگی اور مضبوطی ہے۔ پتہ چلا کہ کسی کام کو اچھی طرح کرنا اور اسے محکم و پختہ طریقے سے انجام دینا عظیم شرعی تقاضوں میں سے ہے۔
سب سے زیادہ عمدگی اور پختگی کے لائق عمل
اور سب سے پہلی چیز جس میں پختگی اور استحکام کی بندے کو کوشش کرنی چاہیے وہ ہے اللہ جلّ جلالہ کی توحید اور صرف اسی کی عبادت کرنا۔ توحید ہی کے لیے اللہ تعالی نے آسمان و زمین اور جنت و جہنم کو پیدا کیا، اسی کے لیے اللہ نے رسولوں کو بھیجا اور کتابیں نازل کیں اور یہی دین کی اصل اور بنیاد ہے اور اسکا سب سے پہلا رکن ہے اور سب سے پہلی چیز ہے جس کا اللہ نے اپنی کتاب میں حکم دیا ہے اور یہ ایمان کا سب سے بلند شعبہ ہے اور میزان میں سب سے بھاری چیز ہے اور سب سے پہلی چیز ہے جس کے بارے میں قبر میں اور حشر و نشر کے دن پوچھا جائے گا ۔
عقیدہ توحید کی برکت
موحد کے لیے سب سے زیادہ امید ہے کہ وہ اپنے رب کی معافی اور مغفرت سے شاد ہو۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے :
وَمَن لَقِيَنِي بقُرَابِ الأرْضِ خَطِيئَةً لا يُشْرِكُ بي شيئًا، لَقِيتُهُ بمِثْلِهَا مَغْفِرَةً
(صحيح مسلم: 2687)
ترجمہ : اور جو مجھ سے پوری زمین کی وسعت بھر گناہوں کے ساتھ ملے گا اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائے گا، میں اتنی ہی مغفرت کے ساتھ اس سے ملاقات کروں گا ۔
اور جس نے توحید کے تقاضوں کو پورا کیا (تو وہ) اللہ کے نبی (ﷺ) کی شفاعت اور اس جنت سے سرفراز ہوا جس کی چوڑائی آسمان و زمین ہیں اور جس نے تو حید میں گڑبڑ کی ، اللہ تعالی کے ساتھ غیر کو شریک کیا اس کی عبادت کبھی قبول نہیں کی جائے گی۔ اللہ بے نیاز اور عزیز ہے۔ وہ کوئی ایسا عمل قبول نہیں کرتا جس کا مقصد اس کی رضا گوئی نہ ہو۔ اللہ تبارک و تعالی حدیث قدسی میں فرماتا ہے :
أنا أغنى الشركاء عن الشرك ، من عمل عملا أشرك فيه معي غيري تركته وشركه
(صحیح مسلم : 2985)
ترجمہ : شریک بنائے جانے والوں میں سب سے زیادہ میں شراکت سے مستغنی ہوں، جس شخص نے بھی کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک کیا تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیتا ہوں ۔
وضو میں عمدگی اور پختگی
ایمانی بھائیوں ! توحید کے بعد اعمال میں پختہ کاری کا سب سے مستحق عمل وہ ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے۔ اللہ کے نبی (ﷺ) نے وضوء کو اچھی طرح کرنے کی ترغیب دی یہاں تک کہ سردی اور اس جیسی کسی ناپسندیدہ کیفیت میں بھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
أَلا أدُلُّكُمْ علَى ما يَمْحُو اللَّهُ به الخَطايا، ويَرْفَعُ به الدَّرَجاتِ؟ قالُوا بَلَى يا رَسولَ اللهِ، قالَ: إسْباغُ الوُضُوءِ علَى المَكارِهِ
(صحيح مسلم: 251)
ترجمہ : کیا میں تمہاری اس چیز پر راہنمائی نہ کرو ں جس کے ذریعے اللہ تعالی گناہوں کو مٹاتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے، صحابہ نے فرمایا کیوں نہیں اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا: نا گواریوں کے باوجود اچھی طرح وضوء کرنا ۔
آپ ﷺ نے اس میں کوتاہی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ صحیح مسلم میں عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ:
رَجَعْنا مع رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ مِن مَكَّةَ إلى المَدِينَةِ حتَّى إذا كُنَّا بماءٍ بالطَّرِيقِ تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَ العَصْرِ، فَتَوَضَّؤُوا وهُمْ عِجالٌ فانْتَهَيْنا إليهِم وأَعْقابُهُمْ تَلُوحُ لَمْ يَمَسَّها الماءُ فقالَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ: ويْلٌ لِلأَعْقابِ مِنَ النَّارِ أسْبِغُوا الوُضُوءَ
( صحيح مسلم: 241)
ترجمہ : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ سے مدینہ واپس آئے۔ راستے میں جب ہم ایک پانی (والی منزل) پر پہنچے تو عصر کے وقت کچھ لوگوں نے جلدی کی، وضو کیا تو جلدی میں تھے، ہم ان تک پہنچے تو ان کی ایڑیاں اس طرح نظر آرہی تھیں کہ انہیں پانی نہیں لگا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” (ان) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ وضو اچھی طرح کیا کرو۔“
نماز میں عمدگی اور پختگی
نماز توحید کے بعد عظیم ترین شعار ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اسے اچھی طرح نہ انجام دینے پر ڈرایا بلکہ جس نے اسے اچھی طرح ادا نہ کیا اور اس کے ارکان میں کوتاہی برتی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے نماز نہیں پڑھی۔ صحیحین میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک شخص سے جس نے اچھی طرح نماز ادا نہیں کی تھی، یہ ارشاد فرمایا :
ارْجِعْ فَصَلِّ، فإنَّكَ لَمْ تُصَلِّ
(صحيح البخاري: 757 ، ومسلم :397)
ترجمہ : لوٹ جاؤ اور نماز پڑھو اس لیے کہ تم نے نماز نہیں پڑھی ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی تربیت پختہ کاری پر ہوئی چنانچہ ان میں سے کوئی جب قرآن کریم کی چند آیتیں یاد کرتا تو اس وقت تک دوسری آیتوں کی طرف نہیں بڑھتا جب تک انہیں اچھی طرح سمجھ نہ لیتا اور ان پر عمل نہ کرلیتا۔
قصاص اور حدود میں عمدگی
امت مسلمہ! شریعت میں اچھی طرح پختگی سے انجام دینے کا معاملہ تعبدی شعائر ہی سے منسلک نہیں اور نہ ہی صرف شرعی علوم سے منسلک ہے بلکہ دنیاوی اعمال میں بھی یہ مطلوب ہے۔ اس لیے کہ اچھی طرح پختگی سے انجام دینا کائنات کا قانون اور زندگی کا منہج اور تہذیب کی علامت ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ہر چیز میں اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ اسے اچھی طرح سے پختگی سے انجام دیا جائے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
إنَّ اللہَ كَتَبَ الإحْسَانَ علَى كُلِّ شيءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فأحْسِنُوا القِتْلَةَ، وإذَا ذَبَحْتُمْ فأحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ
( صحيح مسلم: 1955)
ترجمہ : اللہ تعالی نے ہر چیز کے ساتھ سب سے اچھا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے جب تم قصاص یا حد میں کسی کو قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو ۔ تم میں سے ایک شخص جو ذبح کرنا چاہتا ہے وہ اپنی چھری کی دھار کو تیز کرلے اور ذبح کیے جانے والے جانور کو اذیت سے بچائے۔
آپ ﷺ نے یہ چاہا کہ مسلمان اپنے کام کو اچھی طرح پختگی سے انجام دینے کا عادی ہو. ہر چند کہ اس عمل کا کوئی سماجی اثر نہ ہو جیسے مویشی کو ذبح کرنا جو کسی بھی طرح کام ہوجانے سے ختم ہوجائے گا لیکن آپ ﷺ نے مختلف میدانوں میں اچھی طرح پختگی سے انجام دینے کا قصد رکھا۔
عبادات و معاملات میں عمدگی ، رسول اللہﷺ کا پسندیدہ عمل
آپ ﷺ ہنر مندوں میں اچھی طرح اور تخلیقی مہارت کے ساتھ کام انجام دینے والوں کی تعریف کیا کرتے تھے اور ان کے سپرد وہ کام دیا کرتے تھے جنہیں وہ اچھی طرح پختگی سے انجام دینا جانتے ہوں۔ یہ طلق بن علی الحنفی رضی اللہ عنہ ہیں، مدینہ آئے تو نبی (ﷺ) اور صحابہ کرام مسجد نبوی کی تعمیر کر رہے تھے۔ انہوں نے ان کے ساتھ پتھر دھونا چاہا تو نبی ﷺ نے انہیں گارا ملانے پر لگایا کہ وہ اس میں مہارت رکھتے تھے۔ طلق بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
جِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ يَبْنُونَ الْمَسْجِدَ، قَالَ: فَكَأَنَّهُ لَمْ يُعْجِبْهُ عَمَلُهُمْ، قَالَ: فَأَخَذْتُ الْمِسْحَاةَ، فَخَلَطْتُ بِهَا الطِّينَ، فَكَأَنَّهُ أَعْجَبَهُ أَخْذِي الْمِسْحَاة وَعَمَلِي، فَقَالَ: دَعُوا الْحَنَفِيَّ وَالطِّينَ، فَإِنَّهُ أَضْبَطُكُمْ لِلطِّينِ
(مسند احمد: 27896، حسّنه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند: 00/ 31)
ترجمہ : میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ کے صحابہ مسجد کی تعمیر کر رہے تھے۔ طلق بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: گویا انہیں (نبی ﷺ کو) ان (صحابہ) کے کام کا طریقہ پسند نہ آیا۔ میں نے کدال لیا اور اس سے گارا ملانے لگا۔ گویا نبی ﷺ کو میرا کدال لینا اور کام پسند آیا چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: طلق بن علی حنفی کو گارے کے لیے چھوڑ دو، اس لیے کہ گارے کے کام کے لیے وہ تم میں سب سے مضبوط آدمی ہے۔
میت کے تکفین و تجہیز میں عمدگی
بلکہ کام کو اچھی طرح انجام دینے کے معاملے میں اللہ کے نبی ﷺ اس سے بہت اونچی سطح پر گئے۔ آپﷺ نے فرمایا :
إِذَا كَفَّنَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْيُحَسِّنْ كَفَنَهُ
( صحیح مسلم ، کتاب الجنائز : 306)
ترجمہ : جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو کفن دے تو اسے اچھا کفن دے ۔
سیدنا عاصم بن کلیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ ایک جنازے میں شریک ہوئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے قبر میں ایک سوراخ چھوڑ دیا تو آپ ﷺ فرمانے لگے:
سَوُّوا لَحْدَ هَذَا، حَتَّى ظَنَّ النَّاسُ أَنَّهُ سُنَّةٌ، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّ هَذَا لَا يَنْفَعُ الْمَيِّتَ وَلَا يَضُرُّهُ، وَلَكِنَّ اللهَ يُحِبُّ مِنَ الْعَامِلِ إِذَا عَمِلَ أَنْ يُحْسِنَ
( السلسلة الصحيحة (3 / 106) )
ترجمہ : اس کی قبر کو برابر کردو یہاں تک کہ لوگوں نے یہ گمان کیا کہ یہ سنت ہے۔ آپ ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے پس فرمایا: جہاں تک اس (قبر کو برابر کرنے ) کی بات ہے تو اس سے میت کو نہ فائدہ پہنچے گا نہ نقصان لیکن اللہ کام کرنے والے سے یہ چاہتا ہے کہ جب وہ کوئی کام کرے تو اچھی طرح مضبوطی سے اور پختگی سے کرے ۔
مقامِ غور
اللہ آپکی حفاظت کرے۔ غور کیجئے کہ کیسے آپﷺ نے اچھی طرح پختگی سے کام کو انجام دینے کا حکم دیا یہاں تک کہ اس مقام میں بھی جہاں میت کو نہ کوئی نقصان ہو رہا ہے نہ فائدہ۔ یہ دراصل اچھی طرح پختگی سے کام کرنے اور اسے فروغ دینے کا حکم ہے تاکہ یہ کام کو اچھی طرح انجام دینے اور بہتر کرنے کی دعوت کا محرک ہو کہ جب کفن اور قبر کی برابری میں اچھی طرح عمل مطلوب ہے تو جو چیزیں ان دونوں سے بڑی ہیں ان میں بطریق اولی مطلوب ہوگا کیونکہ زندگی نہ نشونما پاتی ہے اور نہ پھلتی پھولتی ہے اور نہ وطن کی تعمیر ہوتی ہے اور نہ وہ ترقی کرتا ہے مگر کاموں کو اچھی طرح پختگی سے انجام دینے سے۔ اس کا تعلق چاہے تعبدی اعمال سے ہو یا برتاؤ سے ہو یا معیشت سے کہ ہر عمل جسے مسلمان عبادت کی نیت سے انجام دیتا ہے اس پر اسے اجر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ
(سورۃ الأنعام :165،164)
ترجمہ : کہہ دو میرا جینا اور مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔
اللہ مجھے اور آپ کو قرآن و سنت میں برکت سے نوازے۔ مجھے ان میں موجود آیات و حکمت سے اور آپکو رفعت سے نوازے۔ میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اپنے لیے اور آپ کے لیے ہر گناہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ آپ بھی اس سے مغفرت طلب کیجئے۔ بلاشبہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور رحیم ہے ۔
دوسرا خطبہ :
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے پیدا کیا اور صحیح سالم بنایا اور جس نے ٹھیک ٹھاک اندازہ کیا اور راہ دکھائی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ بلند و بالا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کا درود و سلام اور برکتیں نازل ہوں آپ کے آل و اصحاب پر اور ان پر جنہوں نے ہدایت قبول کی۔
اما بعد !
مومنوں! کام کو اچھی طرح پختگی سے انجام دینا ایک ایسا ہدف ہے جس سے مسلمان بلند ہوتا ہے تاکہ اس کے ذریعے اپنے رب کی خوشنودی اور اس کے لیے اخلاص میں ترقی کرتا جائے۔ اس لیے کہ اللہ تعالی عمل میں سے صرف اسی کو قبول کرتا ہے جو صرف اسی کی رضا جوئی کے لیے ہو اور عمل میں اخلاص اسے اچھی طرح انجام دیے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
( سورۃ الملک:2)
ترجمہ : جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے۔
یعنی سب سے خالص اور سب سے درست خالص اخروی ہے اور درست دنیوی یعنی یہ کہ اچھی طرح پختگی سے انجام دیا جائے
ایمانی بھائیو! ہماری عملی زندگی میں کام کو اچھی طرح پختگی سے انجام دینا مؤکد ہوتا ہے کہ آدمی زندگی کے تمام گوشوں میں تفوق و برتری کے لیے کوشش کرے تاکہ کام کو اچھی طرح پختگی سے انجام دینے کی عادت اس کی شخصیت کی بنیادی شناخت ہو اور اس کے طرزِ زندگی کا وطیرہ ہو جو بندے کی نفع بخشی اور معاشرے کی تعمیر اور کارکردگی کا لازمہ بن جائے بلکہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کے کام کو اچھی طرح پختہ کاری سے انجام دینے کے اقدار پر کریں تاکہ وہ ثمر آور زندگی جی سکیں اور آخرت میں اللہ کی رضا سے سرفراز ہوسکیں۔
عبادات و معاملات میں عمدگی اور پختگی کے فوائد
اللہ کے بندوں! کام کو اچھی طرح پختہ کاری سے انجام دینے پر فرزندوں کی تربیت انکے اندر قوتِ ارادی کو مضبوط کرتی ہے جس سے انکا ایسا حوصلہ مند ذہن بنتا ہے جس سے وہ بلند معاملات کو حاصل کرتے ہیں اور گھٹیا کاموں سے دور رہتے ہیں۔ یوں وہ اپنے آپ کو نفع پہنچاتے ہیں اور اپنے وطن کی تعمیر کرتے ہیں اور کام کو اچھی طرح سے مضبوطی سے انجام دینے پر بچوں کی تربیت میں والدین کو جو چیزیں مدد پہنچاتی ہیں ان میں ان کا شریعت کے احکام کی پابندی ہے۔ مثال کے طور پر نماز ہے کہ بچے کو سات سال کی عمر میں اس کا حکم دیا جائے گا اور دس سال کی عمر میں اسکی پٹائی کی جائے کہ جب مکلف ہونے کے مرحلے کو پہنچے گا تو نما ز کو اچھی طرح قائم کرے گا۔ اس میں عمدگی سے کام لے گا، اس کو مضبوطی سے ادا کرے گا، فرزندوں کی جب نماز پر اس طرح تربیت ہوگی تو وہ کئی مہارتوں میں پختہ ہو جائیں گے جیسے وقت پر نماز قائم کرنا اور اس کے اندر اللہ سے ملاقات کو مستحضر رکھنا، شب و روز میں پانچ مرتبہ اعمال و ارکان میں اطمینان و سکون کے ساتھ انجام دینا اور صفوں کو سیدھا کرنا اور امام کی پیروی کرنا، یہ تمام اعمال کام کو اچھی طرح پختگی سے انجام دینے کی عادت اپنانے کا تقاضہ کرتے ہیں یہاں تک کہ اچھی طرح پختگی سے انجام دینے کی یہ خو نماز کے بقیہ سارے اعمال تک منتقل ہوجائے وہ اعمال دنیوی ہوں یا اخروی۔ اللہ کے نبی ﷺ نے جب فرمایا اور صحیح فرمایا:
أَرَأَيْتُمْ لو أنَّ نَهْرًا ببَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ منه كُلَّ يَومٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ، هلْ يَبْقَى مِن دَرَنِهِ شيءٌ؟ قالوا: لا يَبْقَى مِن دَرَنِهِ شيءٌ، قالَ: فَذلكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ، يَمْحُو اللہُ بهِنَّ الخَطَايَا
( صحيح البخاري :528، و مسلم: 667)
ترجمہ : اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر کوئی نہر جاری ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو تم کیا کہتے ہو کہ ۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کی کہ ایسا کرنے سے کچھ بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گی۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے ، اللہ تعالی ان کے زریعے سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
اللہ آپ پر رحم کرے اور درود و سلام بھیجیے مخلوقات کے سردار اور اہل اسلام کے قدوہ پر کہ اس کا حکم آپکو آپکے رب نے دیا ہے، اس نے کریمانہ بات کہی ہے۔ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والوں! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔
اے اللہ! تو درود نازل فرما محمدﷺ پر اور انکی بیویوں پر اور انکی ذریت پر جیسے تو نے درود نازل فرمایا آل ابراھیم پر اور برکت نازل فرما محمد (ﷺ) پر اور ان کی بیویوں اور ان کی ذریت پر جیسے تو نے برکت نازل کی آل ابراہیم پر۔ بیشک تو ہی بہت تعریف کے لائق اور صاحب عظمت ہے۔
اے اللہ ! تو خلفائےِ راشدین ابو بکر و عمر و عثمان و علی سے اور باقی تمام صحابہ سے اور تابعین سے اور ان لوگوں سے راضی ہوجا جو تا قیامت اچھی طرح ان کی اتباع کریں اور ہم سے بھی اپنے عفو و کرم اور سخاوت سے راضی ہوجا۔ یا ارحم الراحمین۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطاء کر اور اس ملک کو اور مسلمانوں کے سارے ملکوں کو امن و امان کا گہوارہ بنا۔ اے اللہ ! ذو الجلال والاکرام! یا حي یا قیوم! خادم حرمین شریفین کو توفیق یاب کر۔ اے للہ! تو انہیں اور انکے ولی عہد کو اسکی توفیق دے جو تجھ کو پسند ہو اور تو اس سے راضی ہو اور انہیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بہترین بدلہ عنایت کر۔ اے اللہ! ان کوششوں کو با برکت کر اور انکے مقاصد کو پورا کر اور انکا تو حامی و ناصر و مدد گار ہو۔ اے اللہ! مسلمانوں کے غم زدہ لوگوں کے غم کو دور کر۔ پریشان حال لوگوں کی پریشانی کو ختم کر، قرض داروں کے قرض ادا کردے اور ہمارے اور مسلمانوں کے مریضوں کو شفا دے۔ اے اللہ! تیرا پڑوسی معزز ہے اور تیری ثنا بڑی ہے اور تیرے اسماء مقدس ہیں اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے ۔ اے اللہ! تو فلسطین میں ہمارے بھائیوں کے لیے مددگار ہو جا۔ اے اللہ! تو انکے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے اور اوپر سے حفاظت فرما۔ اور ہم تیری عظمت کی پناہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے نیچے سے قتل کیے جائیں۔ اے اللہ! انکی شکستوں کو جوڑ دے اور انکی کمزوریوں پر رحم فرما اور تمام معاملات میں اے رب العالمین ! انکا انجام اچھا کر۔ اے اللہ ! تو اپنے اور انکے دشمن کو پکڑ لے۔ اے اللہ! مسجد اقصی کی حفاظت کر اور اسے تاقیامت پر شکوہ و معزز رکھ ۔ اے اللہ ! تمام معاملات میں ہمارا انجام اچھا کر اور ہمیں دنیا کی خواری اور آخرت کے عذاب سے بچا۔ اے اللہ! ہمارے مریضوں کو شفا دے اور آزمائش میں مبتلا لوگوں کو عافیت دے اور ہمارے مردوں پر رحم کر اور ہم میں سے کمزوروں کا تو مددگار ہو جا۔ اے اللہ! تو ہماری توبہ قبول کر اور ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری دعائیں قبول کر، ہماری حجت کو ثابت کر، ہمارے دلوں کو ہدایت دے، ہماری زبانوں کو درست کر ، ہمارے دلوں سے کینہ نکال دے۔ اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ اور دشمنی نہ ڈال ۔ اے ہمارے رب ! بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں بھی بھلائی عطاء فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔ پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے جو مشرک بیان کرتے ہیں۔ پیغمبروں پر سلام ہے اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے ۔
خطبہ جمعہ، مسجد الحرام
فضیلۃ الشیخ: شیخ ماہر المعیقلی حفظہ اللہ تعالی
30 جمادی الثانی 1445 بمطابق 12 جنوری 2024