اسلامی بھائیو! قمری سال کے آخری مہینہ کانام ذی الحجہ ہے یہ مہینہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس کو اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی تخلیق ہی کے وقت سے محترم بنا رکھا ہے، اسی مہینہ میں حج جیسا اہم فر يضہ ادا کیا جاتا ہے، پورے عالم اسلام میں قربانی کی جاتی ہے اور سال کا دوسرا اسلامی تہوار منایا جاتا ہے، اس مہینے کے پہلے دس دنوں کی بڑی فضیلت ہے ان دس دنوں میں نیک اعمال دوسرے دنوں کی بنسبت اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہیں۔
فضائل:
کتاب وسنت سے عشرۂ ذی الحجہ کی عظمت وفضیلت واضح ہے۔ فرمان باری تعالی ہے:
وَالفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ
الفجر – 1/2
“ قسم ہے فجر اور دس راتوں کی ”
مشہور مفسر امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر “معالم التنزیل” میں بحوالہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نقل فرماتے ہیں [ولیال عشر] سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائ دس دن ہیں اور یہی قول مجاہد ، قتادہ، ضحاک، سدی اور کلبی رحمہم اللہ تعالی کا ہے۔
دوسری جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ
الحج – 28
“اور معلوم دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں”۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بحوالہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نقل فرمایا ہے کہ ان معلوم دنوں سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائ دس دن ہیں۔1
فرمان نبوی ﷺ ہے:
ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله من هذه الأيام العشر فقالوا يا رسول الله ولا الجهاد في سبيل الله ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا الجهاد في سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله ولم يرجع من ذلك بشيئ2
“ذی الحجہ کے ان دس دنوں سے بہتر ایسا کوئ دن نہیں جس میں نیک عمل اللہ کے نزدیک محبوب ہو، صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، ہاں مگر وہ شخص جو اپنی جان ومال کے ساتھ“ راہ جہاد میں” نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے یعنی اپنی جان ومال اسی راہ میں قربان کردے”۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
ما من عمل أزكى عند الله عز و جل ولا أعظم أجرا من خير يعمله في عشر الأضحى قيل ولا الجهاد في سبيل الله قال ولا الجهاد في سبيل الله عز و جل الا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء3
“یعنی اللہ عزوجل کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ میں نیک عمل کرنے سے زیادہ پاکیزہ اور زیادہ ثواب کا حامل کوئ عمل نہیں ہے، کہا گیا کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، ہاں البتہ اس شخص کا جہاد جس نے اپنی جان ومال کو خطرے میں ڈال دیا اور کچھ بھی واپس نہ لاسکا ”
مذکورہ آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ سے عشرۂ ذی الحجہ کی عظمت وفضیلت روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ اسی بنا پر علمائے محققین فرماتے ہیں کہ عشرۂ ذی الحجہ کے ایام مجموعی طور پر عشرۂ رمضان سے بھی افضل ہیں اس لئے کہ ان میں بہت سی بنیادی عبادتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں جیسے نماز ، روزہ، صدقہ اور حج وغیرہ اور یہ ان کے علاوہ کسی اور دن میں جمع نہیں ہوتیں، اس لئے اللہ کے نیک بندے ان دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرکے زادِ آخرت جمع کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے متعلق نقل کیا ہے کہ جب عشرۂ ذی الحجہ داخل ہوجاتا تو سعید بن جبیر تا حدِ استطاعت عبادت کرتے تھے۔
عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اس کا نواں دن یوم عرفہ ہے، یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالی نے دین اسلام کو مکمل فرمایا اور اہل اسلام پر اپنی نعمت کو پورا فرمایا اور یہی وہ عظیم دن ہے جس میں اللہ تعالی کثرت سے گنہگاروں کو جہنم کی آگ سے آزادی عطا فرماتا ہے، اس لئے ہر مسلمان کو حتی الامکان عشرۂ ذی الحجہ کی قدر کرکے زیادہ سے زیادہ حصول ثواب کی فکر کرنی چاہئے۔
اعمال:
کثرت سے تسبیح وتحمید اور تہلیل پڑھنا:
اس عشرۂ میں تکبیر و تحمید اور تہلیل کا بکثرت ورد کرنا مسنون ہے
مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنْ التَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ4
“ اللہ کے نزدیک ان دس دنوں میں عمل صالح کرنا جس قدر محبوب اور عظیم المرتبت ہے اتنا دوسرے دنوں میں محبوب نہیں ہے اس لئے تم ان دس دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہا کرو”
تکبیر کے کوئ خاص الفاظ و صیغے آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہیں بلکہ جتنے بھی الفاظ و صیغے ہیں وہ صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ماثور و منقول ہیں ۔5
تکبیرات کے صیغے یہ ہیں :
(۱ (الله أكبر الله أكبركبيرا .
(2) الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله والله أكبر الله أكبر ولله الحمد.
اور تکبیر دوطرح سے کہنا مشروع ہے۔ (1) تکبیر مطلق۔ (2) تکبیر مقید۔
تکبیر مطلق کا مطلب یہ ہے کہ ہر آن اور ہر لمحہ مسجدوں ، گھروں، بازاروں، گلی کوچوں، راستوں، فرض اور نفلی نمازوں کے بعد اور ہر اس جگہ جہاں اللہ کے ذکر کی اجازت ہے تکبیر کہتا رہے ، یہ تکبیر مطلق ہے اور اس کا وقت ذی الحجہ کا چاند نکلنے ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔
تکبیر مقید یہ ہے کہ عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے تکبیر کہنا شروع کیا جائے اور ایام تشریق کے آخری دن کے نماز عصر تک تکبیر کہتا رہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں تکبیر کی ابتداء اور انتہاء کے بارے میں مختلف اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے اس سلسلہ میں کوئ حدیث ثابت نہیں ہے ، البتہ حضرات صحابہ سے اس سلسلے میں جو کچھ وارد ہیں اس میں سب سے زیادہ صحیح قول حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کاہے کہ تکبیر مقید کا وقت یوم عرفہ کی صبح سے شروع ہوکر منی کے آخری دن تک رہتا ہے، ابن المنذر وغیرہ نے اس کو بیان کیا ہے۔6
ابن قدامہ المقدسی المغنی میں فرماتے ہیں کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ کس حدیث کی بنیاد پر آپ یہ کہتے ہیں کہ تکبیر مقید عرفہ کے دن نماز فجر سے شروع کیا جائے اور ایام تشریق کے آخری دن تک ختم کیا جائے تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا اس پر حضرت عمر، حضرت علی اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع رہا ہے۔ انتہی کلامہ۔7
مرد بآواز بلند تکبیر کہیں گے اور عورتیں آہستہ آہستہ تکبیریں کہیں گی، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ان دس دنوں میں حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما تکبیر پکارتے ہوئے بازار نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کردیتے۔8
مقصد یہ تھا کہ تکبیر سن کر لوگوں کو تکبیر یاد آ جائے اور لوگ بھی تکبیر پڑھنا شروع کردیں ، ہاں ایک بات مد نظر رہے کہ بیک آواز اجتماعی تکبیر نہ پکارا جائے کیوں کہ ایسا کرنا مشروع اور جائز نہیں ہے، بلکہ ہر آدمی علیحدہ علیحدہ تکبیر پکارے۔ آج تکبیر کہنے کی سنت ہمارے درمیان سے ختم ہوتی جارہی ہے، بہت کم لوگوں کو آپ تکبیر کہتے ہوئے سنیں گے، اس لئے سنت کو زندہ کرنے کے لئے ہمیں کثرت سے تکبیرات کا اہتمام کرنا چاہئے، اگر ہم نے اس مردہ سنت کو زندہ کیا تو یقین جانئے اس میں ہمارے لئے عظیم ثواب ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے
من أحيا سنة من سنتي قد أميتت بعدي فإن له من الأجر مثل من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئا9
“ جس نے میری سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد چھوڑ دی گئ تھی تو اس کے لئے ان لوگوں کی مانند ثواب ہے جنہوں نے اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں سے کچھ کم کیا جائے”
اس لئے ہمیں ذی الحجہ کے ان ابتدائ دس دنوں میں کثرت سے اللہ رب العزت کی بڑائ ، بزرگی اور اس کی تحمید و تقدیس بیان کرنی چاہئے۔
یوم عرفہ کا روزہ رکھنا:
اس دن روزہ رکھنے کا بڑا اجر و ثواب ہے اور یہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا:
صيام يوم عرفة إني أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والتي بعده 10
عرفہ 9 ذی الحجہ کے دن کے روزہ کے بارے میں مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ اگلے اور پچھلے دو سال کے گناہ معاف ہو جائیں گے ”
یہ روزہ غیر حاجیوں کے لئے مستحب ہے البتہ حاجیوں کے لئے اس دن کاروزہ رکھنا مسنون نہیں ہے، کیوںکہ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ میں روزہ نہیں رکھا تھا، چنانچہ ام الفضل بنت الحارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ لوگ ان کے پاس جھگڑا کرنے لگے کہ آنحضرت ﷺ نے عرفہ کو روزہ رکھا ہے یا نہیں؟ کچھ نے کہا: آپ روزے سے ہیں اور کچھ نے کہا: نہیں آپ روزے سے نہیں ہیں ، پھر ام الفضل نے دودھ کا ایک پیالہ آپ ﷺ کے پاس بھیجا ، آپ اونٹ پر سوا ر تھے، آپ نے پی لیا۔11
عرفہ کے دن دعا کرنا:
عرفہ کے دن دعا کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي { لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ}
سب سے بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور سب سے افضل دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام نے کی وہ یہ ہے ”
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ یوم عرفہ کی دعا اکثر و بیشتر قابل قبول ہوتی ہے۔12
اس لئے جو لوگ حج پر نہیں گئے ہوں انہیں بھی چاہئے کہ اس عظیم دن میں دعا کا اہتمام کریں اور قبولیت دعا کی امید میں اپنے لئے اور اپنے والدین، بیوی، بچے، تمام مسلمانوں اور دین اسلام کی سربلندی کے لئے دعا کریں۔
حج وعمرہ کرنا:
اس عشرہ میں کئے جانے والے بہترین اعمال میں سے ایک بہترین عمل اللہ کے گھر کا حج بھی کرنا ہے اور جسے اللہ اپنے گھر کے حج کی توفیق دے اور وہ حج کے اعمال کو بحسن و خوبی انجام دے تو اسے نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق جنت ضرور ملے گی۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:
الْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلا الْجَنَّة
“حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے” اعمال صالحہ کا اہتمام: اس عشرہ میں نیک عمل اللہ تعالی کو بہت ہی محبوب ہے اس لئے جو شخص حج پر قادر نہ ہو اسے چاہئے کہ کہ ان سنہرے ایام اور مبارک اوقات کو اللہ کی اطاعت میں لگائے، یعنی نماز، تلاوتِ قرآن، ذکرِ الہی، دعا ، صدقہ، والدین کی اطاعت، صلہ رحمی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر علاوہ ازیں نیکی اور اطاعت کے جو بھی راستے ہوں انکو انجام دے ۔
سچی توبہ:
ویسے تمام ہی اوقات میں مسلمانوں پر توبہ کرنا واجب ہے لیکن سنہرے ایام اور مبارک ساعات و اوقات میں توبہ کرنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے، اس لئے ہمیں اس عشرہ کو باعث غنیمت سمجھتے ہوئے اللہ کے سامنے سچی توبہ کرنا چاہئے اور توبہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے کیوںکہ کوئی نہیں جانتا کہ اسے کس لمحہ موت آجائے اور پھر اسے توبہ کی توفیق نصیب نہ ہو اور اگر کسی مسلمان کو ان سنہرے ایام اور مبارک اوقات میں نیک اعمال کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ توبہ کی توفیق بھی نصیب ہوجائے تو یہ اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔ فرمان الہی ہے:
فَأَمَّا مَنْ تَابَ وَآَمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَى أَنْ يَكُونَ مِنَ المُفْلِحِينَ
القصص – 67
“ ہاں جو شخص توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرے یقین ہے کہ وہ نجات پانے والوں میں سے ہوجائے گا ”۔
دس ذی الحجہ کو قربانی کرنا:
اس دن ساری دنیا کے مسلمان قربانی کرتے ہیں جس کو یوم النحر کہا جاتا ہے، اس دن تمام اعمال سے افضل قربانی کا خون بہانا ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے:
إِنَّ أَعْظَمَ الأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ13
“ تمام دنوں سے بہتر اللہ کے نزدیک قربانی کا دن ہے ، پھر منی میں ٹہرنے کا دن ہے ”
قربانی کا ثبوت قرآن وحدیث اور اجماع امت سے ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے دو مقامات پر نماز اور قربانی کا ایک ساتھ ذکر فرما کر قربانی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ سورۃ الکوثر میں اللہ تعالی نے واضح طور پر نماز کے ساتھ قربانی کا حکم دیا ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
الکوثر – 2
“ پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر ”۔
اس طرح ایک دوسری جگہ نماز اور قربانی کا ذکرساتھ ساتھ کیا گیا ہے ۔ ارشاد الہی ہے:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي للهِ رَبِّ العَالَمِينَ
الانعام – 162
نیز اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے ہجرت مدینہ کے بعد مدنی زندگی میں باقاعدگی کے ساتھ ہر سال قربانی کی اور اپنی امت کو بھی تاکید فرمائی کہ ان کا ہر گھرانہ ہر سال قربانی دے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي14
“ رسول اللہ ﷺ نے دس سال مدینہ میں قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی ”
حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عرفات میں تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
يا أيها الناس إن على كل أهل بيت في كل عام أضحية15
اے لوگو! ہر سال ہر گھر والوں پر قربانی ہے
معلوم ہوا کہ قربانی سنتِ مستمرہ ہے۔ یہ اسلام کا شعار اور اسلامی تہذیب وتاریخ کا ایک بڑا نشان ہے، عہد نبوی ﷺ سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں کا اسی پر عمل رہا ہے اور تا قیامت اس پر عمل رہے گا۔ ان شاء اللہ
جانور کی قربانی کرتے وقت ایک مسلمان کے اندر یہ جذبہ زندہ رہنا چاہئے کہ گرچہ ہم ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربانی کر رہے ہیں لیکن در حقیقت ہم اللہ کے راستہ میں اپنی محبوب سے محبوب ترین شئ کو بھی قربان کرسکتے ہیں ، یاد رکھیں دنیا کا کوئ نظام بغیر ایثار وقربانی کے زندہ نہیں رہ سکتا ، قوموں کے عروج وبقاء کے لئے قربانی ناگزیر اور ضروری ہے، دنیا میں سرداری و سربلندی سے وہی قوم ہمکنار ہوسکتی ہے جس کے اندر ایثار و قربانی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہو۔
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)
_______________________________________________________________________________
- (صحیح بخاری ، کتاب العیدین)
- ( صحیح سنن ابی داؤد)
- (مسند احمد ، دارمی۔ اس حدیث کی اسناد حسن ہے۔ ملاحظہ ہو: ارواء الغلیل ج: 398/3)
- ( مسند احمد ، طبرانی)
- ( ارواء الغلیل ج: 125/3)
- (فتح الباری، ج: 462/2)
- (المغنی : 28933، ارواء الغلیل ج : 125/3)
- (صحیح بخاری کتاب العیدین)
- ( سنن ترمذی ، یہ حدیث اپنی شواہد کی بنا پر حسن ہے )
- (صحیح مسلم)
- (صحیح بخاری وصحیح مسلم )
- (کتاب التمہید ج : 41/6)
- ( سنن ابو داؤد، اس حدیث کی اسناد جید ہے۔ ملاحظہ ہو: تحقیق مشکاۃ ج : 810/2)
- ( سنن ترمذی)
- (سنن ابو داؤد ، سنن ترمذی، الفاظِ حدیث سنن ابی داؤد کے ہیں۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسکو صحیح قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو: صحیح سنن ترمذی ج: 2/93 )