پہلا خطبہ :
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے، اس نے ہمارے لیے دین کے نشانات واضح کیے اور اپنے نبی اکرم ﷺ پر کھلی کتاب نازل فرمائی جو مسلمانوں کے لیے ہدایت ، رحمت اور بشارت ہے۔ میں اس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ روزی رساں، توانائی والا اور زور آور ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ کو سارے جہان کے لیے رحمت بناکر بھیجا گیا۔
اے اللہ درود و سلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر، آپ ﷺ کی طیب وطاہر آل پر، روشن و بابرکت اصحاب پر، تابعین پر اور تاقیامت درست طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں پر۔
اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور ہر آہ وزاری کرنے والے متقی کی راہ پر چلو جو اپنی دنیا سے اپنی آخرت کا سامان کرتا ہے ، اپنے رب اور آقا کی رضا جوئی چاہتا ہے اور اپنے نفس کی خوشیوں اور خواہشوں پر اسے ترجیح دیتا ہے۔
اللہ کے بندو! اپنے بندوں کے لیے شفیق، ان پر مہربان اور بو قلموں نعتوں کے ساتھ ان سے محبت کرنے والے اللہ کے احسانات میں سے یہ ہے کہ اس نے انہیں ہر اس خیر کا حکم دیا ہے جس سے ان کے نفوس سعادت بخت ہوں، دل مطمئن ہوں، زندگی خوش گوار ہو اور جس سے دنیا وآخرت میں انہیں کامیابی و کامرانی حاصل ہے۔ ان میں سب سے بڑھ کر نفع بخش اور تاثیر کے اعتبار سے سب سے زیادہ قوی اور باقی رہنے والے تین ربانی احکام ہیں ، اللہ کی کتاب میں موجود ایک آیت ان پرہے ، یہ احکام و نواہی کے تمام شرعی قواعد کو جامع ہیں، ایک بھی بھلائی نہیں مگر انہوں نے اس کا احاطہ کر لیا ہے، ایک بھی فضلیت نہیں مگر انہوں نے اس کی طرف رہنمائی کر دی ہے اور ایک بھی قابل قدر کارنامہ نہیں گا اسے پیش کیا ہے اور اس پر متنبہ کیا ہے کیوں کہ یہ تمام مخلوقات کے ساتھ طرز عمل کے قواعد کو مضبوط کرتے ہیں اور ان کے ساتھ احسان کرنے اور انہیں سعادت بخشنے کے طریقوں کو بیان کرتے ہیں اور ان میں سے اہل شر کے شر سے بچنے کے راستوں کو بتلاتے ہیں۔
اور وہ اللہ تعالی کے اس قول میں ہیں جس میں اس نے اپنے معزز ترین مخلوق اور مکرم ترین رسول محمد ﷺکو مخاطب کیا ہے :
خُذِ الْعَفْوَ وَأَمُرَ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ
الاعراف – 199
آپ زائد از ضرورت کو اختیار کریں، نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک گنارہ ہو جائیں۔
اللہ پاک نے نبی اکرم ﷺ کو حکم دیتے ہوئے آغاز کیا کہ لوگوں کے اخلاق و اعمال میں اسے اختیار کریں تو جس کا کہنا لوگوں کے لیے سہل ہو اور کرنا آسان ہو اور جو ان کے نفوس کو گوارا ہو اور جو ان کے بس میں ہو ، شریعت نے سب سے کامل و مکمل کے مطالبہ اور باطن کی چھان بین کے ذریعہ نہ تنگی پیدا کی ہے اور نہ انتہا کو طلب کیا ہے تاکہ حرج دور ہو اور سختی کو دفع کیا جائے۔
پھر نیکی کرنے کا حکم ہوا اور نیکی ہر وہ بھلائی ہے جسے عقل سلیم پہچانتی ہے اور اس کی اچھائی و نفع رسانی کا اقرار کرتی ہے اور اس میں سب سے بلند اللہ کی توحید ہے اور ہر وہ اعمال ہیں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے یا جن کو مستحب قرار دیا ہے ، جیسا کہ اسے ابن جریر رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے اور انہیں میں سے طقع تعلق کرنے والوں سے صلہ رحمی کرنا، نہ دینے والوں کو دینا اور ظلم کرنے والوں سے در گزر کرنا ہے۔
اللہ کے بندو! اور جب جاہلوں کی طرف سے اذیت حتمی چیز تھی، جسے ہونا ہی تھا اور جسے روکا نہیں جاسکتا تو تیسر ا حکم یہ آیا کہ جاہلوں سے اعراض کیا جائے ، ان کی جہالت کا جواب نفس کے انتقام اور غیض و غضب کی پیاس بجھانے کے لیے اسی کے جیسی جہالت سے نہ دیا جائے بلکہ ان کی اذیت رسانی پر صبر کریں اور بردباری سے کام لیں اور یہی اچھی حالت اور مثالی طریقہ ہے جس پر اپنے دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ نبی رحمت و ہدایت ﷺ کے حکم کو مانتے ہوئے قائم تھے۔ جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ تعالی نے محمد ﷺ کو حکم دیا کہ جو لوگ صبح و شام اللہ کو پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں انہیں کے ساتھ خود کو رکھا کریں اور یہ کہ آپ ﷺ کی آنکھیں ان سے ہٹنے نہ پائے اور آپ ﷺ کو حکم دیا کہ ان سے زائد از ضرورت کو لیں، ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور اپنے کام میں ان سے مشورہ لیا کریں اور ان کے لیے دعائے خیر کریں اور آپ ﷺ کو حکم دیا کہ جو آپ کی نافرمانی کرے اور پیچھے رہ جائے اسے علاحدہ کر دیں یہاں کہ وہ تو بہ کرلے اور آپ کی اطاعت میں لوٹ آئے جیسا کہ آپ نے ان تین لوگوں کا بائیکاٹ کیا جو جنگ سے پیچھے کردیے گئے تھے۔
اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ ان پر حدود قائم کریں جو ان میں سے ایسے گناہ کا ارتکاب کریں جو حدود کے موجب ہوں اور اس سلسلے میں آپ ﷺ کے نزدیک شریف ورذیل برابر ہوں اور شیاطین وانس میں سے دشمنوں کو دفع کرنے کا حکم دیا کہ وہ انہیں احسن طریقے سے دفع کریں، تو جو کوئی آپ ﷺ کے ساتھ بر اسلوک کرے، آپ ﷺ اس کے ساتھ اچھے سے پیش آئیں، اس کی جہالت کا بر دباری سے ، ظلم کا در گزر سے اور قطع تعلق کا صلہ رحمی سے جواب دیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مطلع کیا کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کا دشمن ایسا ہو جائے گا جیسے کہ وہ بڑا جگری دوست ہو اور شیاطین الجن سے دشمنوں کو دفع کرنے کا حکم دیا کہ ان سے اللہ کی پناہ مانگ کر انہیں دفع کریں اور قرآن کریم میں تین جگہوں پر ان دونوں حکموں کو جمع کیا ۔ اللہ کا فرمان ہے :
خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿١٩٩﴾ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
الاعراف – 199/ 200
“آپ زائد از ضرورت کو اختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہو جائیں۔ اور اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے”۔
اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو جاہلوں کے شر سے اعراض کر کے اور شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگ کر بچنے کا حکم دیا اور اس آیت میں آپ ﷺ کی تعلیم کے لیے اخلاق و اوصاف کریمانہ کو جمع کردیا۔ اس لیے کہ جس کی اطاعت کی جاتی ہے لوگوں کے ساتھ اس کے تین احوال ہوتے ہیں: ضروری ہے کہ اس کا ان لوگوں پر حق ہو جنہیں پورا کرنا ان کے لیے ضروری ہو، اس کا بس چلے اور وہ لوگوں کو حکم دے اور یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کی جانب سے اس کے حق میں کو تاہی اور زیادتی سرزد ہو تو اللہ نے حکم دیا کہ وہ ان سے وہ حق لے جو ان کے نفسوں کے بس میں ہو اور گوارا ہو اور ان پر آسان ہو اور گراں نہ ہو اور وہ زائد از ضرورت حصہ ہے کہ جس کے خرچ کرنے سے انہیں نہ تو نقصان پہنچے گا اور نہ انہیں مشقت لاحق ہو گی۔
اور آپ ﷺ کو حکم دیا کہ انہیں نیکی کا حکم دیں اور جب نیکی کا حکم دیں تو بھلائی کے ساتھ دیں شدت اور سختی سے نہیں اور آپ ﷺ کو حکم دیا کہ ان میں سے جاہلوں کی جہالت کا جواب اس سے اعراض کر کے دیں، اُنہی کے جیسی جہالت سے جواب نہ دیں ، اس سے آپ ﷺ ان کے شر سے محفوظ رہیں گے۔
قُل رَّبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ ﴿٩٣﴾ رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٩٤﴾ وَإِنَّا عَلَىٰ أَن نُّرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ ﴿٩٥﴾ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ ﴿٩٦﴾ وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ﴿٩٧﴾ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ
المؤمنون – 93/98
آپ دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! اگر تو مجھے وہ دکھائے جس کا وعدہ انہیں دیا جا رہا ہے۔ تو اے رب ! تو مجھے ان ظالموں کے گروہ میں نہ کرنا ہم جو کچھ وعدے انہیں دے رہے ہیں سب آپ کو دکھا دینے پر یقینا قادر ہیں. برائی کو اس طریقے سے دور کریں جو سراسر بھلائی والا ہو ، جو کچھ یہ بیان کرتے ہیں ہم بخوبی واقف ہیں. اور دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں. اور اے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں “۔
اور اللہ پاک کا فرمان ہے :
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿٣٤﴾ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٣٥﴾ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
فصلت – 34/36
” نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔ اور یہ بات انہیں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پاسکتا۔ اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کر ویقیناوہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے”۔
یہ ہے انس و جن اور مومن و کافر روئے زمین پر بسنے والوں کے ساتھ نبی اکرم ﷺکا طرز عمل اور ان تمام میں نبی اکرم ﷺ ہی اسوہ ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے :
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
الاحزاب – 21
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔
اللہ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کے منہج اور نبی اکرم ﷺ کی سنت سے فائدہ پہنچائے ، میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ عظیم و جلیل سے اپنے لیے ، آپ کے لیے اور بقیہ تمام مسلمانوں کے لیے ہر گناہ مغفرت طلب کرتا ہوں ، بلاشبہ اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ :
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جو بہت کرم کرنے والا بہت احسان کرنے والا ہے ، میں اس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ انس و جن کا رب ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی اکرم محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ ﷺ اولاد عدنان کے سردار ہیں۔
اے اللہ! درود و سلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر، آپ ﷺ کی آل و اصحاب ، تابعین اور درست طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں پر۔
اما بعد !
اے اللہ کے بندو! جاہلوں یعنی بے وقوفوں سے اعراض ان سے دور رہ کر اور ان سے بحث و مباحثہ نہ کر کے ہو گا اور ان کی اذیت کا اس سے بہتر علاج ، ان کی زیادتی کو اس سے زیادہ زیر کرنے والا اور ان کے دلوں پر اس سے زیادہ گراں اور کچھ نہیں کہ ان سے اعراض کیا جائے اور یہ اعراض اس لیے ضروری ہے کہ جب ان کے پاس حق نہیں ہو تا تو وہ حق کے طالب نہیں ہوتے اور جب حق کو پاتے ہیں تو اپنی خواہشات کے بر خلاف اسے قبول نہیں کرتے ، وہ کسی عہد کا پاس نہیں رکھتے ، نہ کسی دوستی کی حفاظت کرتے ہیں اور صرف اسی نعمت کی شکر گزاری کرتے ہیں جو جاری ہو ، جب وہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو شکر گزاری کفران نعمت میں بدل جاتی ہے ، تعریف مذمت ، رشتہ قطع تعلق اور محبت نفرت کی طرف چلی جاتی ہے۔
اللہ کے بندو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور زائد از ضرورت کو اختیار کرنے ، نیکی کا حکم دینے او جاہلوں سے اعراض برتنے کے الہی حکم پرعمل تمہارے لیے بر بھلائی کو پانے ، ہر برائی کو دفع کرنے ، دنیا میں سعادت، آخرت میں فوزوفلاح اور بلندی کے حصول کا سب سے اچھا ذریعہ ہو۔ اور ہمیشہ یا در کھو کہ اللہ تعالی نے تمہیں خیر الوری ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَبِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيُّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
” اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجوا “۔
اے اللہ !محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ پر جہانوں میں درود نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر درود نازل فرما یا، بلا شبہ تو قابل ستائش اور صاحب شوکت ہے۔ اے اللہ تو برکتیں نازل فرما محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ پر جہانوں میں جیسا کہ تو نے برکتیں نازل فرمائیں ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر، بلاشبہ تو قابل تعریف اور صاحب شوکت ہے۔
اے اللہ! تو راضی ہو جا چاروں خلفا ابو بکر ، عمر ، عثمان اور علی سے اور بقیہ تمام آل و اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین سے اور تا قیامت جو درست طریقے سے ان کی پیروی کریں ان سے اور انہیں کے ساتھ اپنے عفو و کرم اور احسان سے ہم سے بھی اے اکرم المکرمین۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا کر، دین کی حفاظت فرما، اپنے موحد بندوں کی مدد کر، اس ملک کو اور مسلمانوں کے بقیہ تمام ملکوں کو پر امن اور پر سکون بنا۔
اے اللہ !ہمیں اپنے ملکوں میں امن سے نواز، ہمارے سر براہوں اور حکمرانوں کی اصلاح فرما، حق کے ساتھ ہمارے سر براہ اور حکمراں کی تائید کر، انہیں نیک مشیر کار عطا فرما، تو انہیں اس کی توفیق دے جو تیری مرضی و منشا کے مطابق ہو، اے دعا کے سننے والے۔
اے اللہ !تو انہیں اور ان کے ولی عہد کو اس کی توفیق دے جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی ہو اور جس میں ملک اور بندوں کی بھلائی ہو ۔
اے اللہ !ہمارے لیے ہمارے دین کو درست کر جس میں ہمارے معاملے کی حفاظت ہے اور دنیا کو درست فرما جس میں ہماری معیشت ہے اور ہمارے لیے ہماری آخرت درست کر جہاں ہمیں لوٹ کر جانا ہے اور زندگی کو ہمارے لیے ہر خیر میں بڑھوتری کا ذریعہ بنا اور موت کو ہر شر سے راحت کا ذریعہ بنا۔
اے اللہ !تمام معاملات میں ہمارا انجام اچھا کر ، دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے ہمیں بچا، اے اللہ ہم تیری نعمت ختم ہونے ، تیری عافیت کے بدلنے ، اچانک تیرے عذاب اور تیری تمام ناراضگیوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
اے اللہ !ہمیں اور دے اور کم نہ کر ، نواز اور محروم نہ کر ، عزت دے ذلیل نہ کر ، ہمیں ترجیح دے ہمارے اوپر کسی کو تربیچ نہ دے، ہمیں راضی کر اور ہم سے راضی ہو جا۔
اے اللہ !ہماری سنجیدگی اور مذاق، خطا اور جان بوجھ کر کے گئے گناہ اور جو کچھ ہمارے پاس ہے ، سب سے در گزر فرما۔
اے اللہ !جو ہم نے آگے بھیجا اور جو پیچھے کیا، جو ظاہر کیا اور جو چھپایا اور جس سے تو ہم سے بھی زیادہ واقف ہے، ان تمام کو بخش دے۔
اے اللہ !تو ہی آگے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اے رب العالمین! ہمارے اور اپنے دشمن کے مقابلے تو جیسے چاہے ہمارے لیے کافی ہو جا، اے اللہ !ہم اپنے اور تیرے دشمن کے مقابلے میں تجھے رکھتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
اے اللہ !ہمارے مریضوں کو شفا دے، ہمارے مردہ لوگوں پر رحم کر ، اور ہماری جو آرزوئیں تیری مرضی کے مطابق ہوں، انہیں پورا کر ، باقی رہنے والی نیکیوں پر ہمارے اعمال کا خاتمہ کر ، اے اللہ! نفسوں کو تقوی دے ، ان کا تزکیہ کر تو ہی سب سے اچھا ان کا تزکیہ کرنے والا ہے ، تو ان کا مالک اور آتا ہے۔
اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔
اے اللہ !درود و سلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر ، آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر اور ہر قسم کی تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ اُسامه خیاط حفظه اللہ
موافق 11/11/2022