یمن میں حوثی باغیوں کی فساد ریزی اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں

پہلا خطبہ:

یقینا ًتمام تعریفیں اللہ عز وجل کے لئے ہیں، وہی جابر حکمرانوں پر قاہر ہے، اور مکاروں کی مکاریوں کو ہوا کرنے والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ،اولین و آخرین سب کا وہی معبود ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمدﷺ اللہ کےبندے اور اس کے رسول ہیںﷺ، آپ ہی سید الانبیاء و المرسلین ہیں، آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر افضل ترین درود و سلام ہوں۔

حمد و صلاۃ کے بعد!

مسلمانوں!

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی اور اطاعتِ الہی کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ جو شخص اللہ تعالی سے ڈرے تو اللہ تعالی اس کے لئے ہر تنگی و مصیبت سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، اور ہر مشکل کو آسانی میں تبدیل کر دیتا ہے، اسی طرح متقی شخص کے لئے فتح، غلبہ، اپنی تائید اور سلطانی لکھ دیتا ہے۔

مسلم اقوام!

بہت ہی دکھ کی بات ہے کہ ساری دنیا نے عزیز ملک  یمن کے بدلتے حالات کا مشاہدہ کیا، جس یمن کے اور کتاب و سنت پر گامزن اہل یمن کے بارے میں نبی ﷺنے تعریفی کلمات ارشاد فرمائے اور فرمایا:  (ایمان یمنی ہے، اور حکمت بھی یمنی ہے)۔( بخاری)

بہت ہی پریشان کن حالات میں سنگین تبدیلیوں کا عزیز ملک یمن میں مسلمانوں نے مشاہدہ کیا، اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ (حوثی)باغیوں کی طرف سے منتخب قیادت کا تختہ الٹ دیا گیا، اور اہل ِعلاقہ پر دست درازی کی گئی، جس کی وجہ سے گھر بار تباہ، امن و امان تار تار ہو گیا، پر امن لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، بلکہ فساد اور ظلم و زیادتی کا یہ بازار پورے خطے کے امن کے لئے علی الاعلان خطرہ بن چکا تھا، اور ملکِ حرمین شریفین اور یہاں کے لوگوں کے لئے اس کے خطرات خصوصی نوعیت کے تھے۔

دانشمندی اور حکمت پر مبنی رائے شماری بھی ہوئی کہ یمن میں اتحاد ، پائدار امن و استحکام ، پرا من طریقوں اور بات چیت کے ذریعے قائم ہو، اس کے لئے خلیج عرب کی ریاستوں کی جانب سے کی جانے والی کوششیں بھی شامل ہیں۔

لیکن معاملہ مزید سنگین ہوتا گیا، اور حالات اتنے بگڑ گئے کہ یمن میں امن و امان تہ و بالا ہو کر رہ گیا، جس کی وجہ سے جبراً و قہراً (یمن کی)ملکی قیادت منظر سے غائب کر دی گئی، اور حالات مسلمانوں کے علاقوں میں مزید تشویش ناک ہوگئے، جو کہ یمن ، اہل یمن، اور پڑوسی ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی بجانے لگے۔

اہلِ یمن کو ظلم و زیادتی ، اور ملکی قیادت کو مسلسل دشواری کا سامنا تھا، پھر دانشمندانہ طور پر اس بات سے آگاہ کیا گیا کہ یمن کو ٹوٹنے کا خطرہ لاحق ہے، اور یمن میں امن و امان اور استحکام ختم کر کے خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے، جس سے ملک و قوم کو نقصان ہوگا اور پڑوسی ممالک بھی متاثر ہوں گے۔

اسلامی بھائیوں!

نازک حالات، اور مشکل صورتحال کا بہت سے مسلم ممالک کو سامنا ہے، یہ کسی طور پر بھی دینِ حنیف ، اور بلند اخلاق اقدار کیساتھ بالکل مناسب نہیں ہیں۔

یہ حالات غرور، لالچ، اور عارضی مفاد کے سایے میں پیدا کیے گئے، ان کی وجہ سے ایسے(دشمنان اسلام) ایجنڈوں کی آبیاری ہوتی ہے جو مسلم معاشرے کو تہس نہس کر دیں، ان ایجنڈوں کی ہمارے عقائد سے کھلی دشمنی ہے، انہی کی وجہ سے ہمارے (مسلم)علاقوں (و ممالک) کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور ایسے حالت پیدا کر کے ہمارے وسائل و اسباب کوبھی  لوٹا جا رہا ہے۔

چنانچہ ان حالات و واقعات کے تحت ہمارے حکمرانوں نے کندھوں پر پڑی ہوئی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے (چند اہم)ضروری اسباب و وسائل اختیار کیے ، جو کہ اللہ کے حکم سے ملک و قوم کی حفاظت کے ضامن تھے، اور یہ اقدامات مسلم حکمرانوں پر عائد ذمہ داری میں شامل ہیں تا کہ وہ مسلم معاشروں کے حقوق کا تحفظ کر سکیں، اور علاقائی و عالمی امن و امان اور سلامتی کے لئے کردار ادا کر سکیں، نیز دشمنانِ اسلام کی منصوبہ بندیوں کو ناکام بنائیں، کیونکہ دشمن اپنے منصوبوں کے ذریعے پورے علاقے(یمن ) میں تباہی مچانا چاہتا ہے۔

اور جب پر امن طریقے سے مسئلہ حل نہ ہوا، سیاسی طور پر بات چیت بھی کار گر نہ ہوئی ، اور یمن کے منتخب صدر نے اپنے برادر اسلامی ممالک سے یمنی قوم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے (اور فسادیوں کا قلع قمع کرنے ) کا مطالبہ کیا، تا کہ یمن  (اور اہلِ یمن)کو پر خطر اور پر پیچ حالات سے بچایا جائے۔

پھر(باغیوں کی جانب سےیمن میں  فسادات کے باعث) پوری امت مسلمہ کو سنگین نتائج سے بچانے کے لئے اسلامی ممالک نے خادم الحرمین الشریفین حفظہ اللہ کی قیادت میں یمنی حکومت اور یمنی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا، تا کہ مستحکم ، مضبوط، پائدار امن و امان قائم ہو، اور دھوکے پر مبنی مزعومہ انقلاب کو روکا جا سکے۔

فرمانِ نبویﷺظالم و مظلوم دونوں کی مدد کرو ۔حقیقت میں یہ اقدام اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی عملی صورت ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ

الحجرات – 10

 بیشک تمام مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

اور نبی ﷺکے اس فرمان پر مبنی ہے کہ :

(اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،وہ اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا، نہ ہی اسے رسوا کرتا ہے، اور اسے تنہا نہیں چھوڑتا ) متفق علیہ

امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے  ہیں: ” اسے تنہا نہیں چھوڑتا ” کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے مظلوم بھائی کو ظالم کے رحم و کرم پر تنہا نہیں چھوڑتا ، بلکہ اپنے مظلوم بھائی کی مدد اور اس کا بھر پور دفاع کرتا ہے، یہ درجہ کسی مسلمان کو تکلیف نہ دینے سے بڑا ہے۔

بلکہ اللہ تعالی نے زیادتی کرنے والے کے ہاتھ پکڑنا اور مظلوم کی مدد کرنے کو واجب قرار دیا، اور فرمایا:

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ

التوبة – 71

 مؤمن مرد اور مؤمن خواتین سب ایک دوسرے کے مدد گار ہیں۔

اور ہمارے پیارے پیغمبر ﷺنے فرمایا: (اپنے بھائی کی [ہر حال میں]مدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم) تو ایک آدمی نے کہا: “اللہ کے رسول! اگر وہ مظلوم ہو تو میں اسکی مدد کروں[یہ تو سمجھ میں آتا ہے]، اور اگر  ظالم ہو تو پھر اس کی مدد کیسے کروں؟” آپ ﷺنے فرمایا: (اسے ظلم سے روکو یہی اس کی مدد ہے)۔(بخاری)

(مسلمانوں کی دو جماعتوں میں جھگڑے میں ظالم کے مقابلہ میں مظلوم کے ساتھ)باہمی تعاون ، اسلامی بھائی چارے کا بنیادی حق ، اور اس کا عملی تقاضا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حکم دیتے ہوئے فرمایا:

فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ

الحجرات – 9

اگر [مسلمانوں کی دو جماعتوں میں سے] ایک دوسری پر زیادتی کرے، تو باغی جماعت سےقتال کرو(لڑو)، حتی کہ باغی جماعت اللہ کے حکم کے تابع ہو جائے۔

اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: “عدل کی خوبصورت ترین شکل :مظلوم کی مدد ہے”۔

اور سیدنا زین العابدین -اللہ ان سے راضی ہو- فرماتے تھے کہ:”یا اللہ! میں تجھ سے ایسے مظلوم کے بارے میں معافی چاہتا ہوں جس پر میرے سامنے ظلم ہو لیکن اس کی مدد نہ کر سکوں”۔

(یاد رکھیں)اگرچہ مظلوم شخص غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، مظلوموں کی مدد، اور زیادتی کا شکار لوگوں کیساتھ تعاون کرنا بنیادی اسلامی اصول ہے، چنانچہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “مسلم حکمران پر لازمی ہے کہ اہلِ ذمہ کا تحفظ یقینی بنائے، اور انہیں ظلم و زیادتی کرنے والے مسلمانوں اور کفار سے محفوظ رکھے”۔

(لہٰذا) پوری امت پر ضروری ہے کہ زیادتی کرنے والوں کو روکیں، اور مسلم ممالک کے امن و امان اور استحکام کو مخدوش کرنے والوں کی پیش قدمی کے سامنے بند باندھیں، تا کہ لوگوں کو دین و دنیا کے بارے میں مکمل امن حاصل ہو؛ کیونکہ یہ بھی اس دین کے مقاصد میں سے ایک ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ:(کوئی بھی شخص کسی بھی مسلمان کو ایسی جگہ رسوا کر ے جہاں اس کی ہتک عزت کی جا رہی تھی، اور اسے بے آبرو کیا جا رہا تھا، تو اللہ تعالی اسے ایسی جگہ رسوا کرےگا جہاں وہ اپنی فتح  و کامیابی و عزت چاہتا ہوگا) امام احمد نے اسے صحیح سند کیساتھ روایت کیا ہے۔

آج امتِ اسلامیہ کو موجودہ صورت حال میں بہت سے بیرونی حملوں کا سامنا ہے، جو کہ مختلف صورتوں میں نمودار ہو تے ہیں، لیکن ان میں سے سب سے خطرناک حملہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک کو اندر سے کھوکھلا کیا جائے، کہ (داخلی فسادات و بغاوتیں کرائی جائیں اور لوگ)  وہ خود ہی ایک دوسرے کو مارنے لگیں، اگر پوری قوم و ملت ان دخل اندازیوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑی نہ ہوگی ، تو مسلم ممالک ان کے سامنے ایک لقمہ بن کر رہ جائیں گے، جو اس آگ کے منہ میں یکے بعد دیگر ایک ایک کر کے داخل ہوتے چلے جائیں گے۔

حقیقت میں مکر و فریب پر مشتمل (اسلام ومسلمان)دشمنوں  کی منصوبہ بندی یہی ہے، لہذا حکمران و رعایا سمیت اس (فتنہ و سازش)کے سامنے پوری قوت و طاقت کیساتھ کھڑا ہونا ضروری ہے، تا کہ امت اور مسلم معاشرے ہمہ قسم کے نقصانات اور خطرات سے محفوظ ہو جائیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ

النساء – 71

 اے ایمان والو! اپنا دفاعی [سازو و سامان] ہاتھوں میں رکھو ۔

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ

الانفال – 60

 اور جہاں تک ممکن ہو ان کے مقابلے کے لئے قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو ۔ جن سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دیگر دشمنوں کو خوفزدہ کر سکو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ انہیں جانتا ہے۔

السَّيْفُ أَصْدَقُ إِنْبَاءً مِنَ الكُتُبِ

في حدهِ الحدُّ بينَ الجدِّ واللَّعبِ

تلوار کا وار نجومیوں کی پیش گوئی سے زیادہ سچا ہوتا ہے۔اسی کی تیز دھار سنجیدگی اور مزاح میں فرق ڈالتی ہے۔

یہ فیصلے ،اقدامات ، اور فوجی مداخلت اس وقت عمل میں لائی گئی ، جب پر امن طریقے سے مسئلے کے حل کا ہر راستہ بند ہو گیا، بلکہ باغیوں کی طرف سے کسی بھی بات کو سننے سے یکسر انکار کر دیا گیا، مزید برآں ایسے اقدامات پر اتر آئے جس سے یمن اور پڑوسی ممالک سمیت سب کو خطرات منڈلاتے نظر آنے لگے، اس وقت اہل حل و عقد اور ذمہ داران کے پاس ایک ہی حل بچا جو کہ ابو تمام نے ذکر کیا ہے:

آج تمام مسلمانوں کے لئے یہ ضروری ہو چکا ہے کہ: تفرّق، اختلاف، اور اپنی صفوں میں دراڑیں پیدا کرنے سے دور ہو جائیں، اور مسلمانوں کے بارے میں کی جانے والی منصوبہ بندیوں سے بچیں، یہ منصوبہ بندیاں صرف مسلمانوں میں اختلافات ، ان کے عقائد سے متعلق زبان درازی ، مسلم اسباب و وسائل پر قبضہ، اور مسلم علاقوں و معاشروں سے امن و امان نا پید کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔

مسلمانوں میں ان منصوبوں کیخلاف بیداری اسی وقت پیدا ہوگی جب تک باہمی تصادم اور ٹکراؤ کے اسباب ختم نہیں ہونگے، ساتھ میں ایسی فضا مہیا کرنا ضروری ہے جس کا مقصد اتحاد، اتفاق ، اور قومی مفاد کو ترجیح دینا ہو، اسی طرح دینی و ملّی مفادات کے سامنے ذاتی مفادات کی قربانی کا جذبہ پیدا ہو، ان تمام امور کا بنیادی مقصد یہ ہو کہ سب سے پہلے دین کی خدمت اور پھر اس کے بعد ملک و وطن کے امن و امان کے استحکام کے لئے کوشش کی جائے، وگرنہ ہماری صورت حال کسی شاعر کے مطابق یوں ہوگی:

أَمَرْتُكَ أَمْراً جَازِمًا فَعَصَيْتَنِيْ

فَأَصْبَحْتَ مَسْلُوْبَ الْإِرَادَةِ نَادِماً

میں نے تمہیں یقینی بات کا حکم دیا تو تم نے میری بات نہ مانی، اب تمہارے پاس حکمرانی نہیں رہی، تو نادم ہو رہے ہو!۔

تمام حکومتوں اور دانشوروں پر لازمی ہے کہ امت کے مسائل اور انکے حل کے بارے میں انکی ایک متفقہ پر عزم رائے ہو، تا کہ ان سے شرعی مقاصد، اور دنیاوی اہداف حاصل کیے جائیں، اور دشمنوں کو اپنے شریر و مذموم اہداف حاصل کرنے کا موقع ہی نہ ملے؛ کیونکہ جب مصیبت آتی ہے تو سب پر آتی ہے، لیکن جب خیر آئے تو عموما مخصوص لوگوں تک محدود ہوتی ہے، اور اللہ تعالی خود سے تباہ ہونے والے کو ہی تباہ فرماتا ہے۔

اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کے لئے آگہی مہم چلائیں، اور انہیں درست تعلیمات سے بہرہ ور کریں، تا کہ حکمران و رعایا کے درمیان (جائز)ہم آہنگی پیدا ہو(اور معاشرہ فتنہ و فساد سے دور رہے)۔

اسی طرح پر فتن حالات میں انفرادی فتووں سے بالکل گریز کریں، کیونکہ زمینی حقائق نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ان میں سے کچھ کے نتائج اچھے اور مثبت برآمد نہیں ہوتے، چنانچہ اس پہلو پر حکمت ، اور فہم و فراست سے کام لینا انتہائی ضروری ہے۔

اسی طرح اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ بات چیت اور عملی مظاہرے میں متوقع نتائج کو پیش نظر رکھیں، تا کہ تمام معاملات خوش اسلوبی کیساتھ مکمل ہوں اور اچھے نتائج کا باعث بنیں؛ کیونکہ مختلف ممالک میں مسلمانوں کو در پیش مسائل پہلے ہی بہت ہیں، جو کہ کسی سے مخفی بھی نہیں ہیں، ان مسائل کی وجہ سے بہت ہی زیادہ نقصانات ہوئے، اور ان نقصانات و تباہی کے اعداد و شمار کے متعلق اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ،اس کے دین و احکامات اورسنتِ نبویہﷺ کی پیروی کریں۔

تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کریں، اسی کے سامنے گڑ گڑائیں، دینِ الہی پر عمل پیرا ہوں، احکامِ الہی کی تعمیل کریں، حدودِ الہی سے تجاوز نہ کریں، گناہوں میں ملوّث نہ رہیں؛ کیونکہ کسی بھی فتنے سے بچاؤ، اور بحران سے نکلنے کا یہی واحد راستہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

فَفِرُّواإِلَى اللَّهِ

الذاریات – 50

 اللہ کی طرف دوڑو۔

اسی طرح فرمایا:

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ

الانعام – 82

 جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کیساتھ ظلم [شرک] کی آمیزش نہیں کی، صرف انہی لوگوں کے لئے امن ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

ایک جگہ فرمایا:

 وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

النور – 31

 اے مؤمنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرو، تا کہ تم ہی فلاح پاؤ۔

مایوس کن فتنے ، مختلف مصائب، بڑے بڑے سنگین مسائل، اور مہلک بیماریاں لوگوں کے گناہوں ، شرعی مخالفتوں، اور سنت محمدیہ ﷺسے ہٹنے کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ

الشوریٰ – 30

 تمہیں کچھ بھی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے اپنےہی اعمال کی وجہ سے پہنچتی ہے۔

اسی طرح فرمایا:

أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

آل عمران – 165

 بھلا جب [احد کے دن] تم پر مصیبت آئی تو تم چلا اٹھے کہ “یہ کہاں سے آگئی؟” حالانکہ اس سے دوگنا صدمہ تم کافروں کو پہنچا چکے ہو  آپ (ﷺ)ان مسلمانوں سے کہہ دیں کہ: “یہ مصیبت تمہاری اپنی ہی لائی ہوئی ہے”، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

علمائے یمن ، حکمران، سیاستدان، اور عوام الناس پر لازمی ہے کہ باہمی اتحاد و اتفاق قائم کریں، تا کہ سنگین خطرات اور بھیانک نقصانات سے اپنے دین و عقیدے اور خطے کی ،کامیابی کیساتھ حفاظت کر سکیں، وگرنہ ان خطرات کا دین و دنیا میں یکساں نقصان ہوگا، ان کے لئے ضروری ہے کہ ہر قسم کی مکاری و عیاری پر مشتمل کسی بھی منصوبہ بندی کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا

آل عمران – 103

 سب کے سب اللہ تعالی کی رسی (کتاب وسنت)کو مضبوطی سے تھام لو، اور تفرقہ نہ ڈالو۔

اسی طرح فرمایا:

وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِيْنَ

الانفال – 46

 آپس میں تنازعات(جھگڑے) مت کھڑے کرو، ورنہ ناکام ہوجاؤ گے، اور تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی، لہذا [اتحاد کے ساتھ]ڈٹے رہو، بیشک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

تمام لوگوں پر واجب ہے کہ اپنے علاقوں اور اسباب و وسائل کی حفاظت کریں، اپنی قوم، معاشرے، اور قومی دھارے کا تحفظ یقینی بنائیں،یمن کے سپوتو پر لازمی ہے کہ خواہشات یا شیطان کی بات مت مانیں، اور اسی طرح دنیاوی و شخصی مفادات کے پیچھے مت لگیں، ورنہ اپنا ملک گنواں بیٹھو گے، اور یہی سب سے بڑی خیانت ہوگی، جو سنگین جرم بھی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

الانفال – 27

 اے ایمان والو! اللہ اور رسول ﷺسےخیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو جبکہ تم جانتے ہو۔

اللہ تعالی میرے اور آپ کے لئے قرآن و حدیث کو بابرکت بنائے، اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے لئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ، ڈھیروں ، پاکیزہ ، اور برکتوں والی تعریفات ہمارے رب کے لئے جیسے اسے پسند ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کےعلاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ دنیا و آخرت میں یکتا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ اُس کے چنیدہ بندے اور برگزیدہ رسول ہیں، اللہ تعالی اُن پر ، اُن کی آل، اور نیکو کار ، متقی صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں، اور سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانوں!

اس ملک میں رہنے والوں پر اللہ کی بے شمار نعمتیں ہیں، ان میں سے ایک نعمت اس ملک کی قیادت ہے، جو کہ نفاذِ شریعت کے اعتبار سے(دیگر ممالک کی نسبت)  منفرد ہے، اس قیادت کی پوری جد وجہد اس ملک کے امن و امان کے استحکام کے لئے ہے، یہ ملک ِحرمین شریفین کی سرزمین ہے، یہی ملک سر زمین رسالت ہے، بلکہ یہ روئے زمین پر موجود ہر مسلمان کا اپنا ملک ہے، اس ملک کا امن ہر مسلمان کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔

ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمارے قائد خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان کی مدد فرمائے، جنکی ذمہ دارانہ زندگی حکمت ، اور دانشمندی سے بھر پور ہے، وہ اتحاد امت کے لئے اپنی سیاسی سرگرمیوں میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آنے دیتے، انکی پوری کوشش ہے کہ امتِ اسلامیہ کا امن و امان مخدوش نہ ہو، پوری امت راحت و استحکام کیساتھ زندگی گزارے۔

یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے، خادمِ حرمین شریفین کا یہ (یمن کے حوالہ سے)اقدام ایک ٹھوس تاریخی اقدام ہے، جو سنہرے لفظوں کیساتھ تاریخ میں لکھا جائے گا، انہوں نے مسلمانوں کے عقائد کے خلاف بنائی جانے والی منصوبہ بندیوں پر یہ قدم اٹھایا ، اور ابو تمام نے اسی قسم کے اقدامات کے بارے میں کہا تھا:

فَتْحُ الفُتوحِ تَعَالَى أَنْ يُحيطَ بِهِ

نَظْمٌ مِن الشعْرِ أَوْ نَثْرٌ مِنَ الخُطَبِ

یہ ایک بہت بڑی فتح ہوگی جسے بیان کرنے کے لئے شعروں کا قصیدہ یا نثری خطبہ ناکافی ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ انہیں اس کا چھا بدلہ عطا فرمائے، اور انہیں مزید کی توفیق دے، اللہ تعالی انکی مکمل معاونت فرمائے، انہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے، ولی عہد اور نائب ولی عہد کی بھی حفاظت فرمائے۔

اس ملک کے تمام افراد یہ جان لیں کہ قرآن و حدیث کی نصوص اور مقاصد شریعت پر عمل پیرا ہوں، تا کہ مفادِ عامہ کا تحفظ ممکن ہو اور کم سے کم نقصانات کا خدشہ بھی باقی نہ رہے، ملک حرمین شریفین کے تحفظ ، اور اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت یقینی بنائی جائے، نیز عالمی امن و امان کے تناظر میں اس خطے کے حکمرانوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہا جائے، ان کا یہ موقف سب کی طرف سے تائید کا مستحق بھی ہے، تا کہ سب کے سب مسلمان ان باغیوں کے شر سے محفوظ رہیں، اور ان کی بے پناہ منصوبہ بندیوں سے تحفظ مل سکے۔

اللہ تعالی ان کی تمام منصوبہ بندیوں کو غارت فرمائے، اور مکر کرنے والوں کے ساتھ مکر فرمائے، اس ملک کے تمام افراد پر لازمی ہے کہ وہ اپنے قائدین کے ساتھ ایک ہی صف میں شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔

اور اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کی صحیح سمت کی جانب رہنمائی کریں، اور نوجوان اپنے قائدین کے ساتھ رہیں، تا کہ امن و امان قائم رہے، اور خطرات ٹل جائیں ۔ ہمیں اللہ تعالی نے ایک بہت بڑے عمل کا حکم دیا ہے اور وہ نبی کریم ﷺ پر درود و سلام ہے:

یا اللہ! ہمارے پیارے نبی ، ہمارے قلب و نظر کی ٹھنڈک محمد پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرما ، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر ، عمر، عثمان ، علی ، آپ کی آل، تمام صحابہ کرام، آل و اہل بیت، تمام تابعین، اور قیامت تک ان کے راستے پر چلنے والے افراد سے راضی ہو جا۔

یا اللہ! اسلام کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! جس نے بھی مسلمانوں پر زیادتیاں کی ، یا اللہ! ان پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! جس نے بھی مسلمانوں پر زیادتیاں کی ، یا اللہ! ان پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! جس نے بھی مسلمانوں پر زیادتیاں کی ، یا اللہ! ان پر اپنی پکڑ نازل فرما۔

یا اللہ! پوری دنیا میں تمام مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔

یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کی مدد فرما، یا اللہ! انہیں درست فیصلے کی قوت عطا فرما، یا اللہ! انہیں درست فیصلے کی قوت عطا فرما، یا اللہ! ان کی مکمل رہنمائی فرما، اور ان کے ذریعے مسلمانوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ! ہمارے حکمران کے ذریعے ہی دین غالب فرما، یا اللہ! انہی کے ذریعے ملک و قوم کا تحفظ یقینی بنا، یا اللہ! انہی کے ذریعے ملک و قوم کا تحفظ یقینی بنا۔

یا اللہ! تمام مسلم ممالک کی حفاظت فرما، یا اللہ! تمام مسلم ممالک کی حفاظت فرما، یا اللہ! تمام مسلم ممالک کی ہر قسم کے خطرات سے حفاظت فرما، یا اللہ! تمام مسلم ممالک کی ہر قسم کے خطرات سے حفاظت فرما۔

یا اللہ! ملک حرمین کی حفاظت فرما، اور اپنی خصوصی حفاظت کے ذریعے اس کی حفاظت فرما، اور اسے اپنا خصوصی اہتمام و کرم عطا فرما۔

یا اللہ! ہمارے امن و امان اور استحکام کا تحفظ فرما، یا اللہ! ہمارے امن و امان اور استحکام کا تحفظ فرما، یا اللہ! ہم جہاں کہیں بھی رہتے ہیں سب کے امن و امان ، خوشحالی، خوشیوں اور استحکام کا تحفظ فرما۔

یا اللہ!تیری موجود نعمتوں پر شکر کرنے والا بنا، اور مستقبل میں ملنے والی نعمتوں پر ثنا خوانی کرنے والا بنا، اور اپنے فضل و کرم کے صدقے ہمیں تمام نعمتیں عطا فرما، یا اکرم الاکرمین!

یا اللہ! مسلمان مرد و خواتین کی مغفرت فرما، مؤمن مرد و خواتین کی مغفرت فرما، زندہ اور فوت شدہ سب کی مغفرت فرما۔

یا اللہ! ملک شام میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ملک شام میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! شام کے مسلمانوں سے فتنے اور مصیبتیں دور فرما دے، یا اللہ! عراق میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! تونس میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! مصر میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں اپنی خصوصی حفاظت میں محفوظ فرما، یا اللہ! لیبیا اور یمن میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی ساری دنیا میں حفاظت فرما، یا ذالجلال و الاکرام!

یا اللہ! انہیں نعمت امن و امان اور استحکام عطا فرما دے، یا اللہ! پورے عالم اسلام کو امن و امان، استحکام، خوشحالی، غلبہ اور کنٹرول عطا فرما، یا ذالجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہمارے فوجیوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے فوجیوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی مکمل مدد و نصرت فرما، یا اللہ! دشت و دریا اور فضاؤں میں ان کی حفاظت فرما، یا اللہ! دشت و دریا اور فضاؤں میں ان کی حفاظت فرما۔

یا اللہ! ان کی اپنی طرف سے خصوصی تائید فرما، یا اللہ! ان کی اپنی طرف سے خصوصی تائید فرما، یا اللہ! ان کی اپنی طرف سے خصوصی تائید فرما، یا ذالجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہمیں بارش کی نعمت عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش کی نعمت عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش کی نعمت عطا فرما، یا ذالجلال والاکرام!

یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش کا پانی نصیب فرما، یا اللہ! ہمارے علاقے میں بارش نازل فرما، یا اللہ! مسلم علاقوں میں بارشیں فرما۔

یا اللہ! ہم تیرے شکر گزار ہیں کہ توں نے کچھ مسلم علاقوں میں بارشیں نازل کی، یا اللہ! بقیہ علاقوں میں بھی بارشیں نازل فرما کر اپنی نعمت پوری فرما دے، یا اللہ! تمام مسلم ممالک پر اپنی نعمت پوری فرما ، یا حیی !یا قیوم!

اللہ کے بندوں!

اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا کرو اور صبح و شام اسی کی تسبیحات پڑھا کرو!

اور ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ

آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔