بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، والصلاة والسلام على أشرف المرسلين سيدنا محمد وعلى آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، أما بعد
باب الوفاء بالعهد وانجاز الوعد
وعدہ پورا کرنا اور عہد نبھانا
یہ باب وعدہ پورا کرنے اور عہد نبھانے کے بارے میں ہے۔
یہ بھی اعلی اخلاق میں سے ہے کہ انسان جو عہد (وعدہ) کرے اس کو پورا کرے۔
اس باب میں مصنف نے چار آیات ذکر کی ہیں۔
پہلی آیت میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا1
ترجمہ: تم اپنے عہد کو پورا کرو کیونکہ عہد کے بارے میں (قیامت کے دن) سوال ہوگا
دوسری آیت میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَأَوْفُوا۟ بِعَهْدِ ٱللَّهِ إِذَا عَـٰهَدتُّمْ2
ترجمہ: اور اللہ تعالی کے عہد کو پورا کرو جب تم اس سے عہد کرو
تیسری آیت میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ3
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے عہود کو پورا کرو اور جو (مالی معاملات) عقود ہے ان کو نبھاؤ
چوتھی آیت میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَاتَفْعَلُونَ 4
ترجمہ: اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں، الله تعالی کے نزدیک یہ بہت ناراضگی والی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جو تم کرتے نہیں
آخری آیت کا باب سے تعلق یہ ہے کہ انسان جب کسی سے کوئی وعدہ کرے اور اس کو پورا نہ کرے تو یہ درحقیقت ایسی ہی بات ہے کہ انسان ایک منہ سے بات کہہ رہا ہے اور اس پر عمل نہیں کر رہا تو یہ خلاف ورزی ہے۔
پہلی حدیث یہاں پہ ذکر کی ہے. جناب ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اس کے راوی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ5
ترجمہ: منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ،جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اسکے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرتا ہے
اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ :
وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ6
ترجمہ: اگرچہ وہ نماز اور روزہ کا اہتمام کرتا ہو اور یہ گمان کرتا ہو کہ میں مسلمان ہوں
یعنی اس کے اندر اس کے باوجود بھی نفاق کی علامتیں موجود ہیں۔
دوسری حدیث: جناب عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ اس کے راوی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ :
أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ7
ترجمہ: جس میں یہ چار علامتیں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت یا ایک صفت پائی جائے تو اس میں نفاق کی ایک خصلت موجود ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔ وہ چار چیزیں یہ ہیں: جب اسکے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ خیانت کرتا ہے ، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ،جب کوئی عہد کرتا ہے تو اس کو توڑ دیتا ہے اور جب کسی سے جھگڑتا ہے تو گالم گلوچ اور بدتمیزی کرتا ہے
ایک اور حدیث یہاں پہ ذکر کی جناب جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کی۔ وہ اپنا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں وعدے کی پاسداری کے حوالے سے کہ نبی ﷺنے اپنی زندگی میں ایک مرتبہ ان سے کہا :
لَوْ قَدْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ قَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا فَلَمْ يَجِئْ مَالُ الْبَحْرَيْنِ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ أَمَرَ أَبُو بَكْرٍ فَنَادَى مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَةٌ أَوْ دَيْنٌ فَلْيَأْتِنَا فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِي كَذَا وَكَذَا فَحَثَى لِي حَثْيَةً فَعَدَدْتُهَا فَإِذَا هِيَ خَمْسُ مِائَةٍ وَقَالَ خُذْ مِثْلَيْهَا8
ترجمہ: بحرین سے ( جزیہ کا ) مال آیا تو میں تمہیں اس طرح دونوں لپ بھر بھر کر دوں گا (یعنی آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ ملا کر ان کو کہا کہ میں اتنا مال تمہیں دوں گا جتنا ان دو مٹھیوں میں تین بار آجائے) لیکن بحرین سے مال نبی کریم ﷺ کی وفات تک نہیں آیا (حالانکہ آپ ﷺ نے ان سے وعدہ کیا تھا ) پھر جب اس کے بعد وہاں سے مال آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اعلان کرا دیا کہ جس سے بھی نبی کریم ﷺ کا کوئی وعدہ ہو یا آپ ﷺ پر کسی کا قرض(ادھار) ہو تو وہ ہمارے یہاں آجائے(یعنی ہم اس سے وہ وعدہ پورا کریں گے اور اس کا جو ادھار ہے وہ اس کو چکا دیں گے )۔ چنانچہ میں حاضر ہوا۔ اور میں نے عرض کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے یہ باتیں فرمائی تھیں۔ جسے سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا۔ میں نے اسے شمار کیا تو وہ پانچ سو کی رقم تھی۔ پھر فرمایا کہ اس کے دو گنا اور لے لو۔
یعنی پانچ سو دیے، پھر پانچ سو اور پھر پانچ سو۔ تو غالبا پندرہ سو درہم ان کو دیے، تو یہ ایک مثال ہے کہ نبی ﷺ نے جو ان سے وعدہ کیا تھا اس وعدے کو جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے پورا کیا ۔
تو مصنف نے جو باپ قائم کیا ہے
الوفاء بالعهد وانجاز الوعد
عہد پورا کرنا اور وعدہ نبھانا
عہد پورا کرنا اس کو اردو میں ’’ ایفائے عہد ‘‘ بھی کہتے ہیں، اس کا مفہوم اور اطلاق بہت وسیع ہے۔ آسان لفظ میں: ’’ہر وہ ذمہ داری اور ہر وہ پابندی جو انسان پر لاگو ہوتی ہے وہ ایک عہد ہے‘‘ اگرچہ اس پابندی کا اقرار اس نے منہ سے کیا ہو یا نہ کیا ہو دونوں صورتوں میں وہ عہد ہوتا ہے ، اگرچہ انسان پر وہ پابندی شرعی طور پر لاگو ہوتی ہو، اخلاقی طور پر لاگو ہوتی ہے، عقلی طور پر لاگو ہوتی ہو یا کسی بھی طور پر جو پابندی لاگو ہوتی ہے اس کو پورا کرنا اور نبھانا عہد نبھانے میں شامل ہے، جیسے مثال کے طور پہ ایک انسان مسجد میں آتا ہے تو اس شخص پر مسجد کا احترام اور تقدس کا خیال رکھنا لاگو ہو جاتا ہے یعنی وہ اپنے کسی بھی قول اور عمل سے مسجد کے احترام میں کمی واقع نہیں کر سکتا ،اگرچہ وہ منہ سے یہ اقرار نہیں کرتا ہے( یعنی جب وہ مسجد میں داخل ہوتا ہے تو وہ یہ اقرار کر کے داخل نہیں ہوتا بلکہ جیسے ہی داخل ہوگا اس پر یہ پابندی لاگو ہو جائے گی )۔
اسی طرح وعدہ پورا کرنا یعنی انسان جب کسی سے وعدہ کرتا ہے کہ میں آپکا فلاں کام کر دوں گا یا میں آپکے پاس اتنے بجے آ جاؤں گا، یہ وعدہ بھی عہد نبھانے کے اندر شامل ہے۔
اسی طرح امانت کو لوٹا دینا۔ اگر کسی نے انسان کے پاس امانت رکھوائی ہے تو امانت کو پورا پورا لوٹا دینا بھی عہد کی پاسداری ہے۔
تو اسی طرح بہت ساری پابندیاں انسان پر شریعت کی جانب سے ہیں، شریعت نے بہت چیزوں کو حلال کیا ہے اور کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے تو حلال کو اختیار کرنا اور حرام سے بچنا یہ بھی عہد کی پاسداری ہے ۔
اسی طرح معاشرتی طور پر بھی بہت ساری چیزیں انسان پر لاگو ہوتی ہیں ، جیسے انسان کسی ادارے یا جگہ میں کام کرتا ہے تو اس ادارے یا جگہ کے قوانین کا خیال رکھنا (اس کو نہ توڑنا) اس پر ایک عہد ہے ۔
اسی طرح جتنے بھی حقوق انسان پر لاگو ہوتے ہیں ان کو ادا کرنا ضروری ہے۔ جیسے میاں بیوی کے حقوق ہیں۔ اگر کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو اس پر یہ عہد ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرے گا، اگرچہ وہ منہ سے اقرار کرے یا نہ کرے دونوں صورتوں میں اس پر یہ عہد لاگو ہو جائے گا۔
تو عہد کے لفظ کا بہت وسیع مفہوم ہے یعنی ہر وہ ذمہ داری جو بھی انسان پر لاگو ہوتی ہے چاہے وہ شرعی طور پر لاگو ہو، اخلاقی طور پر لاگو ہو یا سوسائٹی میں رہنے کی وجہ سے اس پر لاگو ہو (یعنی سوسائٹی کے قوانین ) یا حکومت کی طرف سے اس پر لاگو ہو تو ان سب کا خیال رکھنا، اس کی خلاف ورزی نہ کرنا یہ سب کے سب عہد کی پاسداری میں شامل ہے ۔
اور وعدہ ایک خاص لفظ ہے یعنی انسان جب کسی شخص سے کوئی وعدہ کرتا ہے تو اس کو پورا کرے ۔
اس باب میں سیکھنے کی چیز یہ ہے کہ: ایک مومن اپنی زبان کا بڑا خیال کرتا ہے یعنی اس کے منہ سے نکلی ہوئی بات کا ایک وزن ہوتا ہے۔ وہ بے وزن بات نہیں کرتا یعنی اگر کوئی بات منہ سے نکل گئی تو اس کا پاس ( خیال) رکھے گا اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرے گا جبکہ منافق اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ منافق کے منہ پر کچھ اور ہوتا ہے اور دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔ وہ منہ سے وعدہ کر رہا ہے کہ میں آپکا فلاں کام کر دوں گا جبکہ اس کے دل میں یہ ہے کہ میں یہ کام نہیں کروں گا تو یہ خلاف ورزی نفاق کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ۔
آخری بات میں عرض کروں گا کہ ایفائے عہد یعنی عہد کو پورا کرنے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ معاشرے میں باہم ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ قائم ہوتا ہے یعنی جب لوگ اپنے عہد کی پاسداری کریں گے، جو بات وہ منہ سے کہہ رہے ہیں اس کو پورا کریں گے تو باہم ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ قائم ہوگا جس سے مسلمانوں کی اخوت کو تقویت ملے گی اور جب یہ عہد کی پاسداری نہیں ہوگی تو لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے اور جب بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے تو لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتماد ٹوٹ جائے گا اور معاشرے میں بہت سارے مسائل اور مشکلات پیدا ہونا شروع ہو جائیں گی۔ جس طرح لوگ اپنے مال کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں کہ ہم کس کو مال دیں اور کس چیز میں انویسٹ کریں، کس جگہ پر اس کو لگائیں کیونکہ لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے اور یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔
تو اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں ایفائے عہد کی صفت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
أقول قولي هذا وأستغفر الله لي ولكم ، وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
___________________________________________________________________________________________________________________________