ویلنٹائن ڈے کی حقیقت اور اس کی قباحتیں

گذشتہ چند سالوں سے پاکستانی معاشرے میں ایک دن ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے نہایت زور وشور اوربڑے اہتمام کے ساتھ منایا جا رہا ہے ، اور نام نہاد مسلمان دیگر رسموں اور عادات کی طرح اپنی وسعت قلبی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اس رسم کو بھی قبول کرتے جا رہے ہیں ، حقیقت میں دیکھا جائے تو اس طرح کی غیر اسلامی رسموں کو قبول کرناوسعت قلبی نہیں بلکہ دینِ اسلام سے جہالت، لا علمی اور اسلام مخالفین کی فکری یلغار سے غیر شعوری طور پر شکست ہے ، یہ رسم جسے ” ویلنٹائن ڈے ” اور “عید محبت” کہا جاتا ہے ، اور اس رسم کو پورا کرنےکے لیے ایک خاص دن ” چودہ فروری “ مقرر ہے ، جس میں اس رسم کی تکمیل کے لیے نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ، بلکہ مرد و عورت ایک دوسرے کو تحفے تحائف دے کر اپنی محبت اور دوستی کااعلانیہ اظہار و اقرار کرتے ہیں اور ناجائز اور حرام تعلقات کا آغاز کرتے ہیں ۔

ویلنٹائین ڈے کی حقیقت

ویلنٹائین ڈے کے متعلق کئی متضاد روایات تاریخی کتب میں موجود ہیں مگر ان میں سے اکثر سے زیادہ من گھڑت قصہ کہانیوں پر مشتمل ہیں۔ بعض روایات معروف تحقیقی ادارے ’’Britannica Encyclopedia‘‘ کے حوالے سے ملتی ہیں جنہیں پڑھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دن عیسائیوں کے کیتھولک فرقے کی مذہبی رسومات کا ایک خاص دن ہے۔ اصل لفظ ’’Valentine Saint ‘‘ہے۔ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ ’’ Saint‘‘کا ترجمہ ’’بزرگ‘‘ ہے جو پادریوں کیلئے بولا جاتا ہے۔ عیسائیوں کے کیتھولک فرقے کے لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر سال 14 فروری کو ’’Valentine‘‘ نامی پادریوں کی روحیں دنیا میں آتی ہیں اس لئے وہ اس دن کے تمام معمولات‘ بشمول عبادات و نذر و نیاز انہی کے نام سے سر انجام دیتے ہیں۔ اس عقیدے کی ابتداء رومیوں سے ہوئی۔ پھریہ دن فرانس اور انگلینڈ میں بھی بطورِ خاص منایا جانے لگا اور اس دن فرانس، انگلینڈ اور دیگر مغربی ممالک میں تعطیل ہوتی ہے اور وہ اس دن اپنی عبادت گاہوں میں خاص قسم کی عبادات سر انجام دیتے ہیں۔ اس رسم کے غیر معقول ہونے اور دنیائے عیسائیت کے معتبر پادریوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ دن بالکل معدوم ہوچکا تھا، چودھویں صدی عیسویں کے ایک متعصب عیسائی اسکالر ’’Henry Ansgar Kelly‘‘نے اپنی ایک کتاب’’Chaucer and the Cult of Saint Valentine‘‘ کے نام سے خاص اسی موضوع پر لکھی اور عشق و محبت کی خودساختہ کہانیوں کے ذریعے اسے محبت کے دن کے نام سے دوبارہ دنیا میں روشناس کروایا۔ اٹھارھویں صدی میں اسے فرانس اور انگلینڈ میں سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ عشق و محبت کا یہ خودساختہ دن دنیا بھر میں ہر سال مزید جدت اور جوش و خروش کے ساتھ منایا جانے لگا ۔  مزید تفصیل کیلئے دیکھئے۔1

ویلنٹائن ڈے میں کیا ہوتا ہے ؟

  • اس دن سرخ گلاب کے پھولوں کا تبادلہ ہوتا ہے ، یہ کام بُت پرست لوگ اپنے الٰہ کی محبت اورعیسائی لوگ یومِ محبت کی تعبیر میں کرتے ہیں ، اوراسی لیے اس کا نام بھی عاشقوں کا تہوار رکھا گیا ہے۔
  •  اس دن کی خوشی میں کارڈوں کی تقسیم ، اوربعض کارڈوں میں کیوبڈ کی تصویر ہوتی ہے جوایک بچے کی خیالی تصویربنائي گئی ہے اس کے دوپرہیں اوراس نے تیرکمان اٹھارکھا ہے ، جسے رومی بت پرست قوم محبت کا الٰہ مانتے ہیں ۔
  •   کارڈوں میں محبت وعشقیہ کلمات کا تبادلہ جواشعاریا نثریا چھوٹے چھوٹے جملوں کی شکل میں ہوتے ہیں ، اوربعض کارڈوں میں گندے قسم کے اقوال اورہنسانے والی تصویریں ہوتی ہيں ، اوراکثر طور پراس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ ولنٹائینی بن جاؤ ، جوکہ بت پرستی کے مفہوم سے منتقل ہوکر نصرانی مفہوم کی تمثیل بنتی ہے ۔
  • بہت سے نصرانی علاقوں میں دن کے وقت بھی محفلیں سجائي جاتی ہیں اوررات کوبھی عورتوں اورمردوں کا رقص وسرور ہوتا ہے اوربہت سے لوگ پھول ، چاکلیٹ کے پیکٹ وغیرہ بطورتحفہ محبت کرنے والوں اور، شوہروں اوردوست واحباب کوبھیجتے ہيں ۔

ویلنٹائن ڈے کا مقصد

ویلنٹائن ڈے یا اسی طرح کے خوشی کے دن منانا جس کا وجود اور ثبوت دینِ اسلام میں موجود ہی نہ ہوں اس کا مقصد مسلم ممالک اور مسلم معاشروں پر مغربی اور غیر اسلامی تہذیب کی جنگ مسلط کر نا ہے ۔ گلوبل ویلیج کا نعرہ بھی مغرب سے آیا ہے اور مغرب کے پیروکاروں نے اِسے پھیلایا جس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو ایک تہذیب کے زیر اثر لایا جائے جہاں ایک نظام ہو، ایک تہذیب ہو اور اِس کے ہر رسم و رواج کو دوسری تہذیبیں من وعن قبول کریں اور اِسے اپنی زندگی کا جزوِ لازم بنالیں اور اِسی منصوبے کے تکمیل کیلئے وہ جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اس دن کا  دوسرا مقصد یہ ہے کہ انسان کو شرعی نکاح ، شادی اورمحبتِ زوجیت کے دائرے سے باہر رکھتے ہوئے ایسی محبت کے دلدل اور عشق کےعذاب میں ڈالنا ہے جس کے نتیجے میں زنا اور فحاشی عام ہو. مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ مغرب کی ہر روایت کو اپنانا اپنے لئے باعثِ عزت سمجھتے ہیں اور معاشرے میں ماڈرن اور روشن خیال بن کر اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

ویلنٹائن ڈے کی قباحتیں

عیسایت کی پیروی

نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ان کی امت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اللہ تعالی کے دشمنوں کے بعض شعائر اور دینی علامات وعادات میں ان کی پیروی اوراتباع کریں گے جیسا کہ مندرجہ ذيل حدیث میں سیدنا ابو سعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ ، قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى ، قَالَ : فَمَنْ

یعنی ”تم لوگ پہلی امتوں کے طریقوں کی بالشت بر بالشت اور ہاتھ بر ہاتھ یعنی قدم بقدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے بِل بھی میں داخل ہو جائیں تو تم بھی اس میں داخل ہوجاؤ گے۔ ہم نے پوچھا  اے  اللہ کے رسول ﷺ! کیا پہلی امتوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: پھر کون ہو سکتا ہے؟“2

نبی کریم ﷺنے جوکچھ بتایا اس کا وقوع ہوچکا ہے اور ان آخری ایام میں مسلمان ممالک میں بہت سے مسلمان اللہ تعالی کے دشمنوں کی بہت ساری عادات اور سلوک اوران کی علامات میں اسلام دشمنوں کی پیروی و اتباع کرنے لگے ہیں اورانہوں نے کفارکے دینی شعائر کی تقلید کرنا شروع کر دی ہے اور ان کے تہوارمیں میں شرکت اور انہيں منانا شروع کردیا ہے ۔ انہی تہواروں میں سے ایک تہوار ویلنٹائن ڈے ہے ۔

شرکیہ تہوار

یہ تہوار اصلا رومی بت پرستوں کا عقیدہ ہے جسے وہ محبت کے الٰہ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کی عبادت بجا لاتے ہیں، لہذا جو بھی اس تہوارکو مناتا ہے وہ ایک شرکیہ تہوار منا رہا ہے اور بتوں کی تعظیم کر رہا ہے ۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:

نَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ

یقین جانو جو کوئی بھی اللہ تعالی کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالی نے اس پرجنت حرام کردی ہے ، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں ہوگا۔

کفار کی مشابہت

ویلنٹائن ڈے کفار پرست رومیوں اور عہد حاضر کے عیسائیوں کا ایک تہوار ہے اور اس تہوار کو منانا یا اس میں شرکت کرنا کفار اور اہل کتاب کی مشابہت اخیتار کرنا ہے ،جبکہ یہود و نصاری اور دیگر کفار و ملحدین کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔حدیث شریف ہے:

من تشبَّهَ بقومٍ فهوَ منهم

جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے۔3

دین میں اضافہ

دین اسلام میں عبادات توقیفی ہیں یعنی اس میں کمی و زيادتی نہيں ہوسکتی اور اسی طرح عمل کرنا ہوگا جس طرح ثابت ہے چنانچہ عیدیں اورتہوار بھی محدود ہیں اس میں زیادہ اور کمی نہيں کی جاسکتی ، ویلنٹائن ڈے دین میں اضافہ ہے جبکہ دین اسلام ہر اعتبار سے ایک مکمل دین ہے اور اللہ تعالی نے اس کی تکمیل کا اعلان اپنی کتاب قرآن کریم میں کردیا ہے ۔اور دینِ اسلام کی تکمیل عقائد وعبادات ،معاملات و اخلاقیات کے ساتھ خوشی کے ایام اور تہواروں کو بھی شامل ہے اور اسلام میں مسلمانوں کے لئے شرعی عیدیں صرف دو ہیں۔ عید الفطر اورعید الاضحی۔ ان کے علاوہ مسلمانوں کی اور کوئی عید نہیں ہے ۔

عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا ، فَقَالَ : مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ ؟ قَالُوا : كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا : يَوْمَ الْأَضْحَى ، وَيَوْمَ الْفِطْرِ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ دور جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔ جب آنحضرت ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطا کر دیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی‘‘ (صحیح سنن نسائی)۔4

دین میں نئی ایجاد

 ویلنٹائن ڈے دین اسلام میں ایک نئی ایجاد ہے اور دین میں نئی ایجاد بدعت کہلاتا ہے اور نبی كرم ﷺ نے بدعت کے متعلق ارشاد فرمایا :

وَإِنَّهُ سَيَخْرُجُ فِي أُمَّتِي أَقْوَامٌ تَتَجَارَى بِهِمْ تِلْكَ الْأَهْوَاءُ كَمَا يَتَجَارَى الْكَلْبُ بِصَاحِبِهِ لَا يَبْقَى مِنْهُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دخَله

اور عنقریب میری امت میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے ان میں یہ بدعات اس طرح سرایت کر جائیں گی جس طرح باؤلے کتے کا اثر کٹے ہوئے شخص کے رگ و ریشے میں سرایت کر جاتا ہے ۔5

یہ بات واضح ہے کہ ویلنٹائن کا دن یا محبت کی عید غیر اسلامی دینی تہوار ہے اور اس کو منایا جانا اسلام کی بجائے دوسرے دین کے لیے رضامندی کا اظہار ہے اور اس باطل دین کو پھیلانے کی کوشش اور سبب ہے۔ اور دین  اسلام سے ہٹ کر کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ قبول نہيں کرے گا جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

آل عمران – 85

اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں سے ہوگا۔

اور نبی كریم ﷺ نے بھی واضح فرمایا :

مَن أَحْدَثَ في أَمْرِنَا هذا ما ليسَ فِيهِ، فَهو رَدٌّ

صحيح البخاري : 2697

یعنی جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقہ کے مطابق نہیں ہے وہ مردود ہے۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:

مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ

صحيح مسلم : 1718

یعنی جو شخص دین اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کی فرما نبر داری اور اطاعت کا راستہ چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا یا کسی پہلے راستہ پر چلتا رہے گا تو اس کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں نامراد و ناکام ہوگا۔

اہلِ بدعت سےعلیحدگی کا حکم

دین اسلام اہل بدعت کی محفلوں اور ان کی مجلسوں میں شرکت سے بھی منع کر تا ہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللہِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ إِنَّ اللہَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا

النساء – 140

اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم پر کتاب میں یہ حکم  نازل فرما دیا ہے کہ جب تم کسی مجلس والوں کواللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر کرتے ہوئے اور مذاق کرتے ہوئے سنو تو اس محفل میں ان کے ساتھ مت بیٹھو جب تک کہ وہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کرنے نہ لگیں۔ورنہ تم بھی اس وقت ان کے جیسے ہو جاؤ گے. بے شک اللہ منافقوں اور کافروں سب کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔

 حدیث میں بھی ایسی مجلس میں بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے جہاں اللہ کے حکم کی صریح نافرمانی ہw. چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :

وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَجْلِسْ عَلَى مَائِدَةٍ يُدَارُ عَلَيْهَا بِالْخَمْرِ

جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اس دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چلتا ہو۔6

اور جہاں قرآن و سنت کا مذاق اڑایا جاتا ہو، چاہے وہ کفار و مشرکین کی مجلس ہو یا اہل بدعت اور فساق و فجار کی ہو ایسی مجلس میں شرکت حرام ہے۔منافقین کی یہی روش تھی کہ مسلمانوں کی مجلسوں کو چھوڑ کر یہودیوں اور مشرکوں کی مجلسوں میں شریک ہوتے جہاں آیات الٰہی کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

لَا تُجَالِسْ أَھْلَ الْأَھْوَاء ، فَاِنَّ مُجَالَستَھُمْ مُمْرِضَةٌ لِلْقَلْب

نفسانی خواہشات کے پیروکاروں کے ساتھ مت اُٹھو بیٹھو۔ اس لیے کہ ان کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا دل کو بیمار کر دیتا ہے۔7

امیر المؤمنین عُمرفاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:

أجتنبُوا أعداء اللَّہ فی أعیادھم

اللہ کے دشمنوں سے ان کی عیدوں كے دنوں میں شریک ہونے سےمیں دور رہو ۔8

عبداللہ بن عَمرو العاص رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے:

من بنَى ببلادِ الأعاجمِ ، فصنع نَيروزَهم ومهرجانَهم ، وتشبَّهَ بهم حتَّى يموتَ وهو كذلك ، حُشِرَ معهم يومَ القيامةِ

جس نے کفار کے شہروں میں رہائش گاہیں بنائیں اور ان کے تہوار اور میلے منائے اور ان کی نقالی کی یہاں تک کہ اسی حال میں مر گیا قیامت والے دِن اُس کا حشر اُن کافروں کے ساتھ ہی ہو گا ۔9

بدکاری کا دروازہ

ویلنٹائن ڈے کو “عاشقوں کے تہوار” کے طور پر منایا جاتا ہے چنانچہ ہر سال 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اسکولوں ، کالجوں ، پارکوں ، کلبوں اور تفریحی مقامات پر اظہار محبت کے کھلے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں. ویلنٹائن ڈے منانے والے اس دن كا مطلب يہ بتاتے ہیں کہ اس موقع پر اپنے محبوب اور محبوبہ کے سامنے کھل کر اظہار محبت کا موقع ملتا ہے اور اظہار محبت کے بہانے ایک دوسرے کے قریب ہونے اور ان تمام نازیبا حرکات کرنے کی آزادی مل جاتی ہے جو دوسرے دنوں میں سر عام نہیں کرسکتے اور بعض مغربی تہذیب سے مرعوب اور فریب خوردہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تو تمام اخلاقی حدود و قیود سے تجاوز کر جاتے ہیں اور شہوانی جذبات کی تسکین کے لئے حیوانیت پر اتر آتے ہیں ۔ جبکہ اسلام جیسا مقدس اور پاکیزہ دین اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا. اسلام تو مسلمان مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنےے کا حکم دیتا ہے-جبکہ ویلنٹائن ڈے بے حیائی اور فحاشی کا دوسرا نام ہے جو معاشرہ کو بدکاری وجنسی بے راہ روی کی طرف لے جاتا ہے اور نوخیز نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو فحاشی وبدکا ری کی طرف دعوت دے رہا ہے جو کہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں حرام ہے ۔

بے حیائی کا فروغ

اسلام تو ”حیا“کی تعلیم دیتا ہے اور اس کی پاسداری کی خوب ترغیب دیتا ہے بلکہ حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیا گیا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہےکہ :

اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَةً وَالْحَیَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْاِیْمَانِ

۔ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے10

اور ایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ :

إنَّ لِكُلِّ دينٍ خُلُقًا، وإنَّ خُلُقَ الإسلامِ الحياءُ

صحيح ابن ماجه: 3390

بے شک ہر دین کی کوئی خاص خصلت (فطرت، مزاج یا پہچان) ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خاص خصلت حیا ہے!۔

یہی وجہ ہے کہ عالم کفر نے اسلام کی پہچان”حیا“ پر حملہ کرکے اپنی دشمنی کا آغاز کیا ۔اور 14  فروری کو بے ہودگی اور بے حیائی کا سیلاب امڈتا چلا آتا ہے۔ نسل نو اپنے مقصد حیات کو چھوڑ کر بے حیائی کا ننگا ناچ کھیلنے لگتی ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی اس بے حیائی کا سبق دیا جانے لگا ہے۔ نہ صرف عیسائی مشنریز کے پابند تعلیمی ادارے بلکہ آج کل مسلم اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں بھی پابندی کے ساتھ ویلنٹائن ڈے منا کر عذاب خداوندی کو دعوت دی جاتی ہے۔

 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشة فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ

النور – 19

جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے!۔

اعلانیہ گناہ

ویلنٹائن ڈے سرعام گناہ کرنے کا دن ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ

الاعراف – 33

یعنی کہہ دو!  میرے پروردگار نے بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی ہو“۔

 لہذا ویلنٹائن ڈے منانا سراسر حرام ہے کیونکہ یہ دن اعلانیہ گناہ اور کھلے عام زنا کرنے کا دن ہے، یہ یوم محبت نہیں بلکہ یوم زنا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سر عام گناہ کرنے کے وبال پر فرمایا :

كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ 

صحيح البخاري : 6069

میری پوری امت معاف کردی جائے گی لیکن کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔“

اختلاط مرد وزن

ویلنٹائن ڈے کھلے عام اور آزاد میل جول اور اختلاط کی راہ ہموار کرتا ہے جبکہ دین اسلا م میں غیر محرم عورتوں کو چھونے ، ان سے مصافحہ کرنے اور ان کے ساتھ میل جول رکھنے کے بارے میں شدید ممانعت آئی ہے. نبی کریم ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں کسی غیر محرم عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا. جب ہاتھ کو چھونا حرام ہے تو جسم کے دوسرے حصوں کو چھونا بالاولیٰ حرام ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔

لا يخلوَنَّ رجلٌ بامرأةٍ إلَّا كانَ ثالثَهما الشَّيطانُ

صحيح الترمذي : 2165

کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت ( تنہائی ) میں ہوتا ہے تو اس کا تیسرا شیطان ہوتا ہے“۔

لَأَنْ يُطعَنَ في رأسِ أحَدِكُمْ بِمَخْيَطٍ من حَدِيدٍ خَيرٌ له من أنْ يَمسَّ امْرأةً لا تَحِلُّ لَهُ

صحيح الجامع: 5045

تُم میں سے کسی کو لوہے کی کنگھی اُس کے جِسم میں داخل کر کے زخمی کر دیا جائے تو یہ اِس سے بہتر ہے کہ اُس کا ہاتھ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں۔

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ چند انصاری عورتوں نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ اے اللہ کےر سول! آئیے ہم آپ کی بیعت کریں.  رسول اللہﷺ نے فرمایا :

إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ!

صحيح النسائي : 4192

کہ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔

اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

واللہِ ما مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ في المُبَايَعَةِ، ما يُبَايِعُهُنَّ إلَّا بقَوْلِهِ: قدْ بَايَعْتُكِ علَى ذَلِكِ

صحيح البخاري : 4891

اللہ کی قسم ! بیعت کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ مُبارک کبھی کسی عورت کے ہاتھ کے ساتھ نہیں چھوا ، رسول اللہ ﷺعورتوں کی بیعت صرف اپنے کلام مُبارک کے ذریعے فرمایا کرتے تھے۔

مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ کسی غیر محرم عورت کو چھونا حرام اور ممنوع ہے۔خواہ دم کی نیت سے چھوا جائے یا پیار دینے کی نیت سے چھوا جائے یا کسی اور نیت سے چھوا جائے۔

کفار سے محبت و دوستی

ویلنٹائن ڈے منانے کا مقصد لوگوں کے مابین محبت کی اشاعت ہے چاہے وہ مومن ہوں یا کافر حالانکہ اس میں کوئي شک وشبہ نہیں کہ کفارسے محبت ومودت اوردوستی کرنا حرام ہے ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے اور تنبیہ ہے۔

لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً  وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ

ایمان والے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگر یہ کہ تم ان سے بچو، کسی طرح بچنا اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اور مزید حکم فرمایتے ہوئےاس حکم کی نافرمانی کا نتیجہ بھی بتا دیا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ  إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

المائدۃ – 24

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، ان کے بعض بعض کے دوست ہیں اور تم میں سے جو انھیں دوست بنائے گا تو یقیناً وہ ان میں سے ہے، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

 ان آیات میں یہود اور نصاریٰ سے موالات و محبت کا رشتہ قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے جو اسلام کے اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اس پر اتنی سخت وعید بیان فرمائی گئی جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہیں میں سے سمجھا جائے گا۔

محفلِ موسیقی

ویلنٹائن ڈے میں جہاں دوسری قباحتیں پائی جاتی ہیں وہیں ایک بڑی قباحت موسیقی اور ناچ گانے کی محفل سجائی جاتی ہے، جبکہ موسیقی کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

لَيَكونَنَّ مِن أُمَّتي أقْوامٌ يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ والحَرِيرَ، والخَمْرَ والمَعازِفَ، ولَيَنْزِلَنَّ أقْوامٌ إلى جَنْبِ عَلَمٍ، يَرُوحُ عليهم بسارِحَةٍ لهمْ، يَأْتِيهِمْ -يَعْنِي الفقِيرَ- لِحاجَةٍ، فيَقولونَ: ارْجِعْ إلَيْنا غَدًا، فيُبَيِّتُهُمُ اللہُ ويَضَعُ العَلَمَ، ويَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً وخَنازِيرَ إلى يَومِ القِيامَةِ.

صحيح البخاري : 5590

“میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بدکاری، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال ٹھہرا لیں گے۔ ان میں سے کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر واقع اپنے بنگلوں میں رہائش رکھیں گے اور جب کوئی ضرورت مند آدمی ان کے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے جائے گا تو کل آنے کا کہہ کر ٹال دیں گے۔ اللہ تعالی رات کے وقت ہی ان پر پہاڑ کو گرا دے گا اور ایسے ہی کچھ اور لوگوں کو قیامت تک کے لئے بندر و خنزیر بنا دے گا۔”

فضول خرچی

ویلنٹائن ڈے کے موقع پر بے حیائی اور دعوت گناہ دیتے ہوئے آئی لو یو والے سرخ پھول خریدے جاتے ہیں ، سینماؤں میں لوگوں کا ہجوم ، شراب وکباب ، محفل موسیقی اور رقص وسرور کے ساتھ مال ودولت کا بے تحاشا ضیاع ہوتا ہے، جبکہ اسلام نے فضول خرچی کرنے والے شخص کو شیطان کا بھائی قراردیا ہے ۔اس دن کو منانے کے لیے جو کچھ بھی خرچ کیا جاتا ہے وہ قطعا غیر ضروری ہے اور ان غیر ضروری چیزوں پر ایک پائی بھی خرچ کرنا فضول خرچی ہے اور فضول خرچی کرنے والوں کا اللہ کے ہاں کیا رتبہ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے :

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا

الاسراء – 27

بے شک بے جا خرچ کرنے والے ہمیشہ سے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان ہمیشہ سے اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔

بے جا خرچ کرنے والوں کو ہمیشہ سے شیطانوں کے بھائی، یعنی شیطانوں کے ساتھی اور ان جیسے قرار دیا اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ شیطان ہمیشہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں اور صلاحیتوں کی ناشکری کرتے ہوئے انھیں غلط جگہ میں خرچ کرتا ہے، اسی طرح جو شخص مالک کے دیے ہوئے مال کو مالک کی نافرمانی میں خرچ کرتا ہے اس کا بھی یہی حال ہے۔

کفر وشرک اور گناہ وغلاظت کے اس دن کو مناتے ہوئے اگر ایک پیسہ بھی خرچ کیا جائے ، ایک لمحہ بھی خرچ کیا جائے تو وہ سوائے اللہ کے عذاب کےسوا کچھ اور نہیں کمائے گا اور اگر یہی کچھ اگرکسی مسلمان کی مدد کے لیے خرچ کیا جائے یا اپنی اور اپنوں کی کوئی جائز ضرورت پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت کے روز باعثِ نجات ہوگا ۔

علماء کرام کی ذمہ داری

علماء کرام کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس برائی کو روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں۔ لوگوں میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے آگہی پیدا کریں، اس دن اور ایسے دیگر تہواروں کے خرابیوں اور خرافات سے اپنی نوجوان نسل کو آگا کرنے کے ساتھ اسے اس دلدل میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں۔ اگر ہم نے ابھی آنکھیں نہ کھولیں، اپنی روایات کا پاس نہ رکھا اور مغرب کی تقلید میں مست رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اخلاقی زوال میں مغرب سے آگے نکل جائیں۔

  1. Saint Valentine – Wikipedia, the free encyclopedia
  2. صحیح البخاری : 3456- 7320  صحیح مسلم: 2659
  3. صحيح أبي داود : 4031، وأحمد 5114 و قال الالباني حسن صحيح
  4. صحيح أبي داود: 1134، و السلسلة الصحيحة (2021).
  5. صحيح الترغيب: 51، واحمد (4/ 102 ح 17061)،  و ابوداؤد (4597)
  6. صحيح الترمذي.: 2801. صحيح الترغيب: 167. وأحمد: 1/20، ح : 126..
  7. الإبانة الكبریٰ لابن بطة 2 /438 ، الشریعة للآجری: 1/453
  8. تاریخ الكبیر للامام البخاری :1804 ۔ والبیهقی فی الکبریٰ 8940
  9. اقتضاء الصراط المستقيم: لابن تيمية : 1/513
  10. أخرجه البخاري (9)، ومسلم (35)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ