پہلا خطبہ
بیشک ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے۔ ہم سب اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے مغفرت مانگتے ہیں۔اور اپنے نفوس کی شرارت اور اپنے ہی برے اعمال سے پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دےسکتا۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں ، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اسی کے رسول ہیں، اللہ تعالی ان پر اور ان کی آل پر اور ان کے صحابہ پر لاتعداد رحمتیں اور سلامتی نازل فرما۔
حمد و ثناء کے بعد:
اللہ کے بندوں! اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے؛ اور اللہ کے پاس متقی لوگوں کے لئے مزید نعمتیں ہیں، اور قیامت کے دن ان کی نجات کی گارنٹی ہے۔
اے مسلمانوں!
اللہ نے مخلوق کو پیدا فرمایا اور ان کے درمیان فضیلتوں کو تقسیم کردیا؛ آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ان کے احترام کے لئے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ۔ پھر انہیں اور ان کی بیوی کو زمین میں اتاردیا، اور ان کی اولاد شہروں میں پھیل گئی اور طویل عرصہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔اللہ نے انہیں زمین میں ایک دوسرے پر فضیلتیں عطا کیں،اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ
الانعام – 165
اور وہی (اللہ) ہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا۔
اور دیگر امتوں کی بہ نسبت اس امت کو اللہ تعالی نے خاص فضیلت و عزت سے نوازا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
هُوَ اجْتَبَاكُمْ
الحج – 75
اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے۔
جامع ترمذی کی حدیث ہے:
أنتم تُتِمُّون سبعين أمَّةً أنتم خيرُها وأكرمُها على الله
رواه الترمذی
اور قرآن میں بھی اس (امت) کی مدح و تعریف آئی ہے،اللہ جل جلالہ نے فرمایا:
آپ پر ستّر امتیں مکمل ہوچکی ہیں اورآپ لوگ اللہ کے نزدیک سب سے بہترین اور عزت دار ہیں۔
لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
الانبیاء – 10
ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے کیا تم نہیں سمجھتے؟
ابن عباس رضی اللہ عنھما نے (اس آیت کی تفسیر میں) فرمایا: تذکرہ کا مطلب ہے تمہارا شرف ( یعنی تمہارا شرف بیان فرمایا ہے)۔
اور اس امت کو بھلائی میں اس لئے دوسری امتوں پرفوقیت حاصل ہے کیونکہ یہ امت دین کی بنیادوں پر قائم ہے۔
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
آل عمران – 110
(مومنوں!) جتنی امتیں (یعنی قومیں) لوگوں میں پیدا ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اوراللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا:یہ اعزاز اس امت کے پاس اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک جب تک وہ اسے (دین کو) قائم رکھیں گے اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے والی صفت ان میں باقی رہے گی۔اور اگر انہوں نے منکر کو بدلنے کی بجائے خود اپنا لیا تو یہ اعزاز ان سے خود بخود چھن جائے گا اور بہترین امت کی جگہ بُری امت کا لقب دیا جائے گا اور یہی ان کی ہلاکت کا سبب بنے گا۔
اسی امت کے مکمل دین اور افضلیت کی وجہ سے اللہ تعالی نے تمام ادیان کومنسوخ کردیا ہے،فرمان الٰہی ہے:
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ
آل عمران – 19
بیشک دین (حق) اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔
اور اللہ اس (دین اسلام) کی جگہ کوئی دوسرا قبول نہیں کرے گا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ
آل عمران – 85
جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا ۔
دوسری امتیں بھی دینِ اسلام کی پابند ہیں اور تمام لوگوں کو اس (دین) پر چلنے کا حکم دیا ہے،اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
والذي نفسُ محمدٍ بيده؛ لا يسمعُ بي أحدٌ من هذه الأمةِ يهوديٌّ ولا نصرانيٌّ ثم يموتُ ولم يُؤمنْ بالذي أُرسِلتُ به إلا كان من أصحابِ النار
رواه مسلم
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں(مجھ) محمد ﷺ کی جان ہے؛ اس امت کا کوئی بھی یہودی یا نصرانی میری نبوت کا سن کرمیرے دین پر ایمان لائے بغیر مر جائےگا تو وہ (جہنم کی ) آگ والوں میں سے ہوگا۔
اور اللہ نے نبیوں سے یہ وعدہ لیا تھا کہ اگر وہ (محمدﷺ) ان کی زندگی میں آگئے تو وہ سب ان کی ہی پیروی کریں گے۔
پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:
لو أن موسَى كان حيًّا ما وسِعَه إلا أن يتَّبِعَني
رواه أحمد
اگر موسی علیہ السلام زندہ ہوتے تووہ میری ہی پیروی کرتے۔
اور نبی علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ اسلام کونے کونے میں پھیل جائے گا۔اور فرمایا:
إن اللهَ زوَى ليَ الأرضَ فرأيتُ مشارِقَها ومغارِبَها، وإن أمَّتي سيبلُغُ مُلكُها ما زُوِيَ لي منها
رواه مسلم
بیشک اللہ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے مشرق و مغرب کو دیکھا، اور میری امت کی بادشاہت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین میرے لئے سمیٹ دی گئی(یعنی جہاں تک میں نے زمین کو دیکھا ہے)۔
اور اللہ نے روئے زمین پر دین کے پھیلانے کا وعدہ کیا ہے۔
مسند احمد کی حدیث ہے:
ليبلُغنَّ هذا الأمرُ – أي: الدين – ما بلَغَ الليلُ والنهارُ، ولا يترُكُ اللهُ بيتَ مَدَرٍ ولا وبَرٍ إلا أدخلَه الله هذا الدين، بعزِّ عزيزٍ أو بذُلِّ ذليلٍ
رواه أحمد
یہ دین ضرور پھیلے گا جہاں تک رات و دن پہنچتے ہیں، اور اللہ تعالی ہر گاؤں اور ہر شہر کے ہر گھر میں اس دین کو داخل فرمائے گا، عزت دار آدمی عزت سے حاصل کرے گا اور رسوا شخص رسوائی سے(یعنی دین کا چاہنے والا عزت اور خوشی سے دین کو اپنائے گا اور دین سے نفرت کرنے والا دین کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائے گا)۔
اور اللہ نے اس امت کے دین کی حفاظت فرمائی اور اس کے غالب کرنے کا بھی وعدہ کیا۔
اللہ جل جلالہ نے فرمایا:
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ
التوبة – 33
اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دےاگرچہ مشرک بُرا مانیں۔
اس امت کی کتاب قیامت تک قائم رہے گی اور اس (امت) کی کتاب نور، ہدایت اور نصیحت ہے، جو تمام پچھلی کتابوں کی حفاظت بھی کرتی ہے اور ان پر اَمین بھی ہے۔
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ
المائدة – 48
اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے۔
اور یقینا اللہ نے اس دین کو تبدیلی، تحریف اور کمی بیشی سے محفوظ کیا ہوا ہے۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
الحجر – 9
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔
اور سنت بھی قرآن کی طرح ایک وحی ہے جس کی سند اور روایت کی حفاظت قرآن کی حفاظت میں سے ہے۔
ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے فرمایا:
لم يكن في أمةٍ من الأُمم منذ خلقَ الله آدمَ أمَّةً يحفَظون آثارَ نبيِّهم وأنسابَ سلَفهم مثلُ هذه الأمة
جب سے اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا ہے اس وقت سے اب تک کوئی امت ایسی نہیں ہے جو اس امت کی طرح اپنے نبی ﷺ کے اقوال کو یاد کیا اور اپنے سلف (پچھلے لوگ) کے نسب محفوظ کئے۔
نبی علیہ السلام نے فرمایا:
أنا سيدُ ولد آدم يوم القيامة
رواه مسلم
میں قیامت کے دن اولادِ آدم کا سردار ہوں گا۔
اور معراج کی رات تمام نبیوں نے ہمارے پیارے نبی علیہ السلام کے پیچھے بیت المقدس میں نمازش پڑھی، اور انہیں جوامع الکلم ( ایسے جامع اصول جن میں کئی اہم ترین احکامات شامل ہوں)عطا کئے گئے، اور اللہ نے انہیں تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔
اللہ کا فرمان ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ
سبأ – 28
ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے( خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر )بھیجا ہے۔
اور ان پر نبوت ختم ہوگئی۔ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
وإنما حازَت هذه الأمةُ قَصب السَّبق إلى الخيراتِ بنبيِّها محمدٍ – صلى الله عليه وسلم -؛ فإنه أشرفُ خلق الله، أكرمُ الرُّسُل على الله، وبعثَه الله بشرعٍ كاملٍ عظيمٍ لم يُعطِه نبيًّا قبلَه ولا رسولاً من الرُّسُل، فالعملُ على منهاجِه وسبيلِه يقومُ القليلُ منه ما لا يقومُ العملُ الكثيرُ من أعمال غيرهم مقامَه
اور اس امت کی برتری اور فضیلت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ یہ امت اپنے نبی محمد ﷺ کی متبع ہے؛ کیونکہ وہ اللہ کی سب سے بہترین مخلوق ہیں، اللہ کے سب سے محبوب رسول ہیں،اور اللہ نے انہیں ایسی مکمل اور عظیم شریعت کے ساتھ بھیجا ہے جو کسی نبی اور رسول کو نہیں دی گئی، اور ان کے طریقے اور راستے پر (کیا ہوا ) تھوڑا عمل بھی دیگر امتوں کے بہت سے اعمال سے افضل ہے۔
اور ہمارے نبی ﷺ کے صحابہ کا مقام نبیوں کے بعد سب سے اعلی ہے،نبی علیہ السلام نے فرمایا:
خيرُ الناس قَرْني
رواه البخاری
سب سے بہتر زمانہ میرا ہے۔
جس طرح اللہ نے اپنے دین کی حفاظت فرمائی اسی طرح ان لوگوں کی بھی حفاظت فرمائی جو ہمیشہ سے جگہ جگہ اس دین کو قائم کرتے رہے۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے:
لا تَزالُ طائفةٌ من أمتي ظاهِرين على الحقِّ، لا يضرُّهم من خذَلَهم حتى يأتي أمرُ الله وهم كذلكِ
رواه مسلم
میری امت کی ایک جماعت حق پر قائم رہے گے، اور اگر وہ اسی حالت پر قائم ہوں تو ان کی مخالفت کرنے والا بھی انہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے ۔
اور اس امت کے علماء انبیاء کے وارث ہیں جو گمراہی پر کبھی اتفاق نہیں کرسکتے، اور ہر ایک صدی میں اللہ ایسے شخص کو بھیجے گا جو دین کو دوبارہ سے زندہ کرے گا۔
نبی علیہ السلام کی حدیث ہے:
إن اللهَ يبعثُ لهذه الأمةِ على رأسِ كلِّ مائةِ سنةٍ من يُجدِّدُ لها دينَها
رواه أبو داؤد
بیشک اللہ اس امت کے لئے ہر سو سال کے بعد ایک ایسے شخص کو پیدا فرمائے گا جو اس دین کو دوبارہ عام کرے گا۔
امت ِمحمدﷺکی خصوصیات
۱ـ گواہی:
اور یہ امت دوسری امتوں پر گواہ ہے کہ ان کے رسولوں نے انہیں ڈرایا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ
البقرة – 143
تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ۔
۲ـ اعتدال:
اور یہ امت سب سے بہترین اور معتدل امت ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا
البقرة – 143
اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک توسط (و اعتدال) والی امت بنایا۔
۳ـ مکمل ترین اصول:
اور اس کے قوانین بھی کامل و مکمل اور عین فطرت کے مطابق ہیں، اور اس کے احکام بھی آسانی فراہم کرنے کی بنیاد پر ہیں۔
امت محمد ﷺ کو آسانیاں فراہم کرکے عزت بخشی۔فرمان الٰہی ہے:
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ
البقرة – 185
اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے۔
اور پچھلی امتوں کے احکامات میں کافی سختی تھی جبکہ اس امت کے احکامات کا اللہ نےوسیع و آسان کردیا ہے؛
1) کہیں بھی نماز ادا کرلیں:
جیسا کہ پوری زمین مسجد ہے (یعنی جہاں بھی نماز پڑھ لیں ) اور اسکی مٹی خود بھی پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے،
فأيُّما رجلٍ أدركَتْه الصلاةُ فعنده مسجدُه وطَهورُه
جہاں کہیں بھی نماز کا ٹائم ہوجائے وہی جگہ اس کے لئے مسجد ہے اور وہیں اس کی طہارت (مٹی سے تیمم کرنا ) ہے۔
اوراس امت کی آسانی کے لئے ہی تیمم اور موزوں پر مسح کی سہولت دی گئی ہے، اور اس کی عبادات بھی پچھلی امتوں کی عبادات سے افضل ہیں، اور نمازوں کی تعداد تو پانچ ہے لیکن اجر پچاس نمازوں کا ملتا ہے، اور ان کی صفوں کو فرشتوں کی صفوں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ (فرشتے) اپنے رب کے سامنے پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور بہت پختگی سے صفوں کو درست رکھتے ہیں۔
2) صفوں کی فضیلت اور تیمم جیسی نعمت:
صحیح مسلم کی حدیث ہے:
فُضِّلنا على الناسِ بثلاثٍ: جُعِلَت صُفُوفُنا كصُفُوف الملائِكة، وجُعِلَت لنا الأرضُ كلُّها مسجِدًا، وجُعِلَت تُربتُها لنا طهورًا إذا لم نجِد الماء
رواه مسلم
ہمیں لوگوں پر تین چیزوں کی وجہ سے فضیلت ملی: فرشتوں کی صفوں کی طرح ہمیں صفیں بنانے کا حکم ملا،اور پوری زمین ہمارے لئے مسجد بنادی گئی۔اور اس کی مٹی کو ہمارے لئے پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بنادیا اگر پانی نہ ملے تو(مٹی سے تیمم کر لیتے ہیں)۔
3) کھانے پینے کی چیزیں:
کھانے پینے کی چیزوں میں اللہ نے اس امت کے لئے بہت سی پاکیزہ چیزیں حلال کی ہیں تاکہ اللہ کی اطاعت کرنے میں مدد مل سکے، اور پچھلے لوگوں نے ظلم کیا تھا جس وجہ سے اللہ نے سزا کے طور پر ان کی جائز چیزوں کو بھی حرام کردیا تھا۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ
النساء – 160
سو یہود کے گناہوں کی وجہ سے ہم نے حرام کیں ان پر بہت سی پاک چیزیں جو ان پر حلال تھیں۔
4) بوجھ ختم کردیا:
اور اس امت سے اس بوجھ اور طوق کو بھی ہٹادیا جو سابقہ امتوں پر تھا۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ
الاعراف – 157
اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔
5) توبہ آسان کردی:
اور سابقہ امت کی توبہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو قتل کیا:
اللہ تعالی نے حکم دیا:
فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ
البقرۃ – 54
اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالٰی کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔
اور اس امت کی توبہ تو صرف اتنی ہے کہ گناہوں پر شرمندہ ہوکر چھوڑ دینا اور دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔
6) ظلم کا بدلہ لینے میں اختیار:
اوریہودیوں کے دین میں قتل اور زخم کا بدلہ لینا تورات میں حتمی طور پر تھا اور دیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اور نصاری کے دین میں دیت تھی قصاص نہ تھا۔لیکن اس امت کو اللہ تعالی نے قصاص (بدلہ)، معافی اور دیت میں (کسی ایک کا) اختیار دیا ہے۔ اور فرمایا:
ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ
البقرۃ – 178
یہ پروردگار کی طرف سے (تمہارے لئے) آسانی اور مہربانی ہے۔
7) مال غنیمت جائز کردیا:
اور مال غنیمت بھی اسی امت کے لئے جائز قرار دیا گیا جو کہ پچھلی امتوں کے لئے حرام تھا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا
الانفال – 69
پس جو کچھ حلال اور پاکیزہ غنیمت تم نے حاصل کی ہے، خوب کھاؤ پیو اور اللہ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ غفور و رحیم ہے۔
اور اس امت کے لئے خطا، بھول اور وہ گناہ جو انتہائی مجبوری میں ہوگیا ہو،سب معاف ہیں اور دلوں کے وسوسہ پر اس وقت تک کوئی گناہ نہیں جب تک کہ وہ اس وسوسہ کے مطابق کوئی گناہ نہ کرے یا اس کی بات نہ کرے۔
8) بیماری بھی فضیلت کا ذریعہ:
اور اللہ نے پچھلی امتوں پر عذاب اور آزمائش کے لئے بیماریاں دیں جبکہ اس امت کا کوئی فردِ مومن اگر بیماری کی وجہ سے فوت ہوجائے تو وہ شہید ہے۔
بخاری و مسلم کی حدیث ہے:
الطاعونُ شهادةٌ لكل مُسلمٍ
متفق علیه
طاعون ہر مسلمان کی شہادت ہے۔
9) دوسری امتوں پر رعب:
اگر امت مسلمہ دین کو مضبوطی سے تھام لے تودوسری امتوں پر اس کا ایک رعب بٹھا دیا گیا ہے، جیساکہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:
نُصِرتُ بالرُّعبِ مسيرة شهرٍ
مجھے ایک مہینہ کی مسافت کا رعب عطا کیا گیا۔
اور اس امت کی عزت اور مکمل دین کی وجہ سے عقیدے میں کافروں کی مشابہت سے ممانعت آئی ہے؛ اور قبروں پر عمارت بنانے یا سجدہ گاہ بنانے سے منع کیا گیا ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے:
ألا وإن من كان قبلَكم كانوا يتَّخِذون قبورَ أنبيائهم وصالحِيهم مساجد، ألا فلا تتَّخِذوا القبورَ مساجد، إني أنهاكُم عن ذلك
رواه مسلم
خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور نیک شخصیات کی قبروں کو مسجد بنادیا کرتے تھے، خبردار! تم قبروں کو مسجد نہ بنانا، بیشک میں تمہیں اس سے منع کررہا ہوں۔
اور تصویریں بھی منع ہوگئیں۔ جب ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے ایک کنیسہ (نصاری کی عبادت کی جگہ)دیکھا جس میں تصویریں تھیں تو نبی علیہ السلام نے فرمایا:
أولئكِ إذا ماتَ فيهم العبدُ الصالحُ – أو الرجلُ الصالحُ – بنَوا على قبره مسجدًا وصوَّروا فيه تلك الصُّوَر، أولئكِ شِرار الخلقِ عند الله
رواه البخاری
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کا کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں (نیک لوگوں کی) تصویریں بناتے، یہ اللہ کے نزدیک بدترین لوگ تھے۔
اور ظاہری حالت میں بھی دوسری (غیر مسلم) امتوں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے؛ اسی لئے داڑھی کو بڑھانے (لمبا کرنے)کا حکم ہےاور مونچھوں کو مونڈھنے کا، اور ان کی عبادت میں بھی مشابہت سے بچنا ہے؛ جیسا کہ اہل کتاب کی مخالفت میں سحری کھانی ہے(اہل کتاب سحری نہیں کرتے تھے)، یہاں تک کہ دیہات اور جانوروں کے معاملے میں بھی ان کی مشابہت کرنا منع ہے۔اور اس امت کو صرف دو عیدیں دی گئی ہیں تیسری کوئی عید نہیں۔
امت محمدﷺکے اعزازات
۱ـ عمر کم اور ثواب زیادہ:
اور امت محمدﷺ کا اس دنیا میں وقت بہت کم ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:
إنما بقاؤُكم فيما سَلَفَ قبلَكم من الأُمم كما بين صلاة العصر إلى غروب الشمس
رواه البخاری
پچھلی امتوں کے مقابلے میں تمہاری دنیاوی زندگی عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کی طرح (بہت کم ) ہے۔
اور اس امت کے افراد کی زندگی ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہے لیکن بہت بابرکت ہے جس کی مثال نبی علیہ السلام نے بارش سے دی ہے اور فرمایا:
مثَلُ أمتي مثَلُ المطَر
رواه الترمذی
میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے۔(یعنی: بارش کاپانی ہر جگہ پہنچ جاتا ہے اور اس سے فصلیں مکمل طور پرترو تازہ ہوجاتی ہیں اور یہ بابرکت پانی ہے)۔
ثواب میں اضافہ کی مثالیں
۱ـ وہ فضائل جن کا تعلق اوقات سے ہے:
اور صبح سویرے کے کاموں میں برکت رکھی گئی ہے، اور اللہ نے اس امت کے رات اور دن میں بھی برکت رکھی ہے، اور ایک دن یا رات کے نیک اعمال کا ثواب مہینوں اور سالوں کی عبادت سے افضل کردیا ہے؛ جیسا کہ لیلۃ القدر (صرف ایک رات) کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ عرفہ کا روزہ پچھلے اور اگلے ایک سال کے گناہ معاف کرنے کا سبب بنتا ہے۔اور عاشوراء (دس محرم) کے روزے سے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اور ہر مہینے کے تین روزے (۱۳۔۱۴۔۱۵) پورے سال کے روزوں کے برابر ہیں۔
۲ـ وہ فضائل جن کا تعلق جگہ سے ہے:
اور اللہ نے اس امت کو بہت مبارک اور فضیلت والے مقامات عطا کر کے بھی عزت بخشی ہیں؛ جیسا کہ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہےاور مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب دوسری مساجد کے مقابلے میں ایک ہزار نمازوں کا برابر ہے۔اور مسجد اقصی میں ایک نماز پانچ سو نمازوں کے برابر ہے۔
۳ـ نماز باجماعت اور تلاوت قرآن کی فضیلت:
اور چھوٹے چھوٹے اعمال کا ثواب بھی اللہ کے نزدیک بہت زیادہ ہے؛ جیساکہ اگر کوئی شخص عشاء کی نماز باجماعت پڑھتا ہے تو اس کا ثواب آدھی رات کے قیام کے برابر ہےاور اگر اس کے ساتھ فجر بھی باجماعت ادا کرتا ہے تا اس کی فضیلت پوری رات کے قیام کی طرح ہے۔اور جو قرآن کا ایک حرف پڑھتا ہے اسے ہر حرف ہر نیکی ملتی ہے۔
۴ـ زبانی عبادت کے فضائل:
ومن قال: سبحان الله وبحمده مائةَ مرَّة؛ حُطَّت عنه خطاياه وإن كانت مثلَ زبَد البحر
اور جو شخص ’سبحان الله وبحمده‘ سو مرتبہ کہے تواس کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔
ومن قال: سبحان الله العظيم وبحمده غُرِسَت له نخلةٌ في الجنة
اور جو شخص یہ کہتا ہے :سبحان الله العظيم وبحمده۔تو اس کے لئے جنت میں کھجور کا درخت لگادیا جاتا ہے۔
ومن قال: سبحان الله مائةَ مرَّة كُتِبَت له ألفُ حسنةٍ، أو حُطَّت عنه ألفُ خطيئةٍ»، و«من صلَّى اثنتَي عشرة ركعة في يومٍ وليلةٍ بنَى الله له بهنَّ بيتًا في الجنة
اور جو شخص سو مرتبہ سبحان اللہ کہے: اس کے لئے ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں یا ایک ہزار گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔اور جو شخص ایک دن اور رات میں بارہ رکعت (سنت) پڑھتا ہے اس کے لئےجنت میں ایک گھر بنادیا جاتا ہے۔
مزید انعامات
۱ـ جمعہ کا دن:
اس امت کو بھلائی کے بہت زیادہ مواقع فراہم کئے گئے ہیں؛ سب سے افضل ترین دن اسی امت کو عطا کیا گیا، نبی ﷺ نے فرمایا:
هُدِينا إلى الجُمعة وأضلَّ الله عنها من كان قبلَنا
رواه مسلم
ہمیں جمعہ کا دن عطا کیا گیا اور اللہ نے پچھلی امتوں کو اس دن کے حاصل کرنے کا شرف نہیں بخشا۔
۲،۳ـ سلام اور اٰمین: اور سلالم کا لفظ بھی اجرِ عظیم کے ساتھ اسی امت کو عطا کیا گیاجبکہ دوسری امتیں اس سے محروم رہیں۔اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا:
ما حسَدَتكم اليهودُ على شيءٍ ما حسَدَتكم على السلام والتأمين
یہودیوں کو تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں ہوتا جتنا سلام اور آمین پر ہوتا ہے۔
۴ـ دُگنا اجر:
اور اس امت کے اجر کو بھی ڈبل (دُہرا) کردیا گیا۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ
الحدید – 28
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ دے گا۔
نبی علیہ السلام نے فرمایا:
لكمُ الأجرُ مرتين. فغضِبَت اليهودُ والنصارى، فقالوا: نحن أكثرُ عملاً وأقلُّ عطاءً! قال الله: هل ظلمتُكم من حقِّكم شيئًا؟. قالوا: لا، قال: فإنه فضلِي، أُعطِيه من شِئتُ
رواه البخاری
تمہارے لئے دُگنا اجر ہے تو یہود و نصاری غصہ ہوگئے، اور کہنے لگے: ہمارا عمل زیادہ ہے اور ثواب کم! اللہ نے فرمایا: کیا تمہارے حق میں کوئی کمی کی گئی ہے؟ کہنے لگے: نہیں ، اللہ نے فرمایا: یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں عطا کروں۔
۵ـ پچاس صحابہ کا اجر:
اور آخری زمانے میں اس دین پر چلنے والے کا ثواب پچاس صحابہ کے اجر کے برابر ہے، اور صحابہ کا اجر تو اس سے کہیں زیادہ ہے۔اور فتنہ کے دور میں عبادت کا ثواب نبی ﷺ کی ہجرت کے برابر ہے۔
۶ـ دوسری امتوں پر برتری:
اور ہماری امت کے فضائل دوسری امتوں کے درمیان اس طرح بھی واضح ہوتے ہیں کہ امت محمدیہﷺ دوسری امتوں کو اپنے بہترین دین کی دعوت دیتی ہے۔
اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان ہے :
فمن آمنَ كان له أجرُه مرتين
اب جو شخص ایمان لے آیا اس کے لئے دوگنا ثواب ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُؤْمِنُونَ (52) وَإِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ (53) أُولَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ
القصص – 52/54
جس کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عنایت فرمائی وہ تو اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور جب اس کی آیتیں ان کے پاس پڑھی جاتی ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کے ہمارے رب کی طرف سے حق ہونے پر ہمارا ایمان ہے ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہیں۔ یہ دوہرا اجر دیتے جائیں گے۔
اور جس طرح اللہ نے اس امت کو دین کے ذریعہ عزت دی ہے اسی طرح دنیا میں رزق کے بھی ایسے مواقع فراہم کئے جو دوسری امتوں کو عطا نہ کئے گئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وأُعطِيتُ الكَنزَيْن: الأحمر والأبيض – أي: الذهب والفِضة
رواه مسلم
مجھے دو خزانے دیئے گئے: ایک لال اور دوسرا سفید۔ یعنی سونا اور چاندی۔
اور صحیح بخاری کی حدیث ہے:
فبينما أنا نائمٌ أُوتِيتُ بمفاتيح خزائن الأرض فوُضِعَت في يدي
رواه البخاری
میں سورہا تھا مجھے زمین کے خزانے عطا کئے گئے اور میرے ہاتھوں میں رکھے گئے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
وقد ذهبَ رسولُ الله – صلى الله عليه وسلم – وأنتم تمتثِلُونَها”؛ أي: تستخرِجون ما فيها من الخيرات والكُنوز
اللہ کے رسولﷺ تو دنیا سے رخصت ہوگئے اور تم ان خزانوں کونکال کو استعمال کررہے ہو۔
۷ـ بیک وقت پوری امت پر عذاب نہیں آئے گا:
اور اللہ نے اپنے فضل سے ہی اس اکٹھی امت کو(ایک ساتھ) بہت سی ہلاکتوں سے بچایا ہے جن کی وجہ سے دوسری امتیں ہلاک ہوگئیں؛ بھوک کی وجہ سے، غرق ہونے کی وجہ سے، تیز ہوا کی آندھی کی وجہ سے، زمین میں دھنس جانے کی وجہ سے اور چیخ (وغیرہ) کی وجہ سے ۔(مطلب یہ ہے کہ اس امت پر ایک وقت میں ایسا عذاب نہیں آتا جو پوری امت کو تباہ کردے۔
فرمان نبوی ہے:
سألتُ ربي ثلاثًا فأعطاني ثِنتَيْن ومنَعَني واحدةً؛ سألتُ ربي ألا يُهلِكَ أمتي بالسَّنَة – أي: بالجُوع – قأعطانِيها، وسألتُه ألا يُهلِكَ أمتي بالغرَق فأعطانِيها، وسألتُه ألا يجعلَ بأسَهم بينهم فمنَعنيها
رواه مسلم
میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگٰیں تو اس نے مجھے دو تو دیدیں لیکن تیسری سے انکار کردیا؛ ایک دعا میں نے یہ مانگی کہ میری امت کو بھوک سے ہلاک نہ کرنا تو یہ قبول ہوگئی۔ اور دوسری دعا یہ مانگی کہ میری امت کو غرق کرکے ہلاک نہ کرے تو یہ بھی قبول ہوگئی۔ اور تیسری دعا جو قبول نہ ہوئی وہ یہ تھی کہ امت کے افراد کے درمیان لڑائی جھگڑے ہوں۔
اور اللہ نے اپنے نبیﷺ کو یہ سہولت دی کہ ان پران کے علاوہ دشمنوں کو مسلط نہیں کرے گا اگرچہ وہ پوری دنیا سے اکٹھے ہوکر آجائیں۔اور اللہ نے امت محمدﷺ کو عذاب سے بچنے کے دو اَمان(حفاظت کا ذریعہ) دیں؛ ایک اَمان نبیﷺ کی حیات طیبہ ہے لیکن یہ امان نبی ﷺ کی وفات کی وجہ سے ختم ہوگئی۔ اور دوسری امان اللہ تعالی سے استغفار(بخشش کی دعا) ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ
الانفال – 33
اور اللہ تعالٰی ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں ۔
اور اس امت کو زندگی میں عزت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ فوت ہونے کے بعد بھی عزت ملی؛ اسی لئے ہمارے لئے لحد ہے اور دوسروں کے لئے گڑھا۔
قیامت کے دن امت محمدﷺ پر انتہائی قیمتی انعامات
۱ـ اور قیامت میں سب سے پہلے ہمارے نبی ﷺ ہی قبر سے نکلیں گے۔
۲ـ اور وہی پہلی شفاعت والے ہیں اور سب سے پہلے انہی کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
۳ـ اور قیامت کے میدان میں تمام امتوں کے درمیان ہی اس امت کو پہچان لیا جائے گاکیونکہ اس کے وضوء کے اعضاء چمک رہے ہوں گے۔
نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:
إن أمتي يُدعَون يوم القيامة غُرًّا مُحجَّلين من آثار الوضوء
رواه البخاری
بیشک میری امت کو قیامت کے دن اس حال میں بلایا جائے گا کہ ان کے پانچ اعضاء (چہرہ، دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں) وضوء کی وجہ سے چمک رہے ہوں گے۔
۴ـ اور ہر نبی کو ایک دعا کا موقع دیا گیا کہ جو مانگیں گے قبول ہوگا، ہمارے نبی ﷺ نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کے لئے بچاکر رکھا ہے؛ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے:
لكل نبيٍّ دعوةٌ مُستجابةٌ، فتعجَّل كلُّ نبيٍّ دعوتَه، وإني اختبأتُ دعوتي شفاعةً لأُمَّتي يوم القيامة، فهي نائلةٌ – إن شاء الله – من مات لا يُشرِكُ بالله شيئًا
متفق علیه
ہر نبی کو ایک قبول ہونے والی دعا کااختیار دیا گیا، اور ہر نبی نے وہ دعا دنیا میں ہی مانگ لی، لیکن میں نے اپنی دعا کوقیامت والے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے بچاکر رکھا ہے، اور یہ إن شاء اللہ ہر اس شخص کو حاصل ہوگی جو اس حالت میں فوت ہو کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو۔
۵ـ اور سب سے پہلے امت محمدﷺ ہی پل صراط سے گزرے گی،
اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:
ويُضربُ الصِّراطُ بين ظهرَي جهنَّم، فأكونُ أنا وأمتي أولَ من يُجيزُ
رواه مسلم
اور پُل صراط کو جہنم کے اوپر درمیان میں رکھا جائے گا، اور میں اور میری امت سب سے پہلے اس کو پار کریں گے۔
۶ـ ہم اخری امت ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے ہوں گے۔ ۷ـ اور ہمارے نبی ﷺ ہی سب سے پہلے جنت دروازہ کھلوائیں گے۔
صحیح مسلم میں ہے:
آتِي بابَ الجنة يوم القيامة فأستفتِحُ – أي: أطلبُ فتحَه -، فيقول الخازِنُ: من أنت؟ فأقول: محمد. فيقول: بك أُمِرتُ، لا أفتحُ لأحدٍ قبلَكَ
رواه مسلم
قیامت کے دن میں جنت کے دروازے پر آکر کھلواؤں گا ـ یعنی اس کو کھولنے کا کہوں گا ـ توخازن (جنت کے دروازے کا پہرہ دار) کہےگا ۔کہ آپ کون ہیں؟ میں کہوں گا: محمدﷺ۔ تو وہ کہے گا کہ آپ کےلئے ہی مجھے (سب سے پہلےدروازہ کھولنےکا) حکم دیا گیا ہے، اور آپ سے پہلے سب کے لئےمنع ہے۔
۸ـ اور سب سے پہلے امت محمدﷺ ہی جنت میں جائے گی،
۹ـ اور وہی سب سے زیادہ جنتی ہوں گے، ان کی اسّی (۸۰) صفیں ہوں گی، اور دیگر تمام امتوں کی کل چالیس صفیں ہوں گی۔ حدیث میں آتا ہے:
أهلُ الجنة عشرُون ومائةُ صفٍّ، وهذه الأمةُ من ذلك ثمانُون صفًّا
رواه أحمد
وفيهم سَبعون ألفًا يدخُلون الجنةَ بغير حسابٍ ولا عذابٍ
متفق علیه
قال – عليه الصلاة والسلام -: «فاستزَدتُّ ربي – عز وجل – فزادَني مع كلِّ واحدٍ سبعين ألفًا»
رواه أحمد
اہل جنت کی ایک سو بیس (120) صفیں ہوں گی، جن میں سے اَسّی (80) صفیں اس امت کی ہوں گی۔
۱۰ـ اور ان میں ستر ہزار افراد ایسے ہوں گے جو بغیر حساب و عذاب کے جنت میں جائیں گے(بخاری و مسلم)۔نبی علیہ السلام نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے اور زیادہ کی دعا کی تو اس نے میرے لئے ہر ایک کے ساتھ ستر ہزار افراد کا اضافہ فرمادیا(مسند احمد)۔
اے مسلمانوں!
اس امت کے مومن کی بڑی فضیلت، عزت اور شرف ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی مدد ہے۔اسی کے لئے لائق ہے کہ وہ اپنے دین پر فخر کرے، اور اسے مضبوطی سے تھامے، اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے، اور اہل باطل کی مشابہت سے بچے، اور اس امت کا فرد ہونے پر اللہ کا شکر کرے، اور مزید نیکیاں کرتا رہے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
الانعام – 161
آپ کہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتایا ہے کہ وہ دین مستحکم ہے جو طریقہ ابراہیم (علیہ السلام) کا جو اللہ کی طرف یکسو تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔
اللہ مجھے اور آپ کو قرآن عظیم میں برکت عطا فرمائے، اور اس کی آیات اور حکمت والی نصیحتوں سے ہم سب کو فائدہ پہنچائے۔ میں اپنی بات یہاں ختم کرتا ہوں اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر گناہ کی مغفرت مانگتا ہوں، آپ سب بھی مغفرت کی دعا کریں۔
دوسرا خطبہ
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے خاص ہے اس کی بھلائیوں پر، اور اسی کا شکر ہے اسکی توفیق اور احسانات پر، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں،اسی کی شان کی عظمت بیان کرتا ہوں،اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ ان پر اور ان کے آل پر اور ان کے صحابہ پر بے شمار رحمتیں اور درود بھیجے۔
اے مسلمانوں!
اس امت کا کوئی بھی فرد اس وقت تک عظمتوں کو حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ دین کے اصولوں اوراحکامات کو نہ اپنائے؛ اللہ کی توحید، محمدﷺ کے رسول ہونے کی گواہی کاعملی ثبوت، صحیح عبادت اور مخلوق کے ساتھ نیکی (وغیرہ)۔ اور جو ان بھلائیوں کو حاصل نہیں کرسکا اُسکا اس امت میں شمار ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا
سبأ – 37
اور تمہارا مال اور اولاد ایسی چیز نہیں کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ہاں (ہمارا مقرب وہ ہے) جو ایمان لایا اور عمل نیک کرتا رہا (ایسے ہی لوگوں کو ان کے اعمال کے سبب دگنا بدلا ملے گا اور وہ خاطر جمع سے بالا خانوں میں بیٹھے ہوں گے)۔
اور کچھ لوگوں نے نبی ﷺ کو دیکھا تھا لیکن پھر بھی ایمان نہیں لائے، تو صرف انہیں دیکھنا بھی کسی کام نہ آیا، اور جسے اللہ رسوا کردے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا، اور فضیلت اور عزت تو ایمان، اتباع ، نیکی کے کاموں میں آگے بڑھنے اور فضائل کو حاصل کرنے سے ہی ملتی ہے۔
پھر جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الذِيْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو ۔
یا اللہ! اپنے نبی محمدﷺ پر رحمتیں اور درود نازل فرما، یا اللہ ! ہدایت یافتہ خلفاء ـ ابوبکر، عمر، علی عثمان رغی اللہ عنھم ـ سے بھی راضی ہوجا جنہوں نےحق کے ساتھ فیصلے کئے اور اسی کے ساتھ عدل کیا کرتے تھے، اور تمام صحابہ سے بھی راضی ہوجا، اور اپنے جود و کرم سے ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا، اے سب سے زیادہ کرم کرنے والے۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ اور شرک اور مشرکو ں کو رسوا کردے، اور دین کے دشمنوں کو رسوا کردے،
یا اللہ! اس ملک اور تمام مسلم ممالک کو امن و سکون اور کا گہوارہ بنادے۔
یا اللہ! بیشک ہم قول و عمل میں تجھ سے اخلاص کی دعا کرتے ہیں۔ یا اللہ! ہر جگہ کے کمزور مسلمانوں کی مدد فرما۔
یا اللہ! ان کا حامی و ناصر اور مددگارع معاون بن جا۔ یا اللہ! اے طاقتور! اے غالب ہونے والی ذات! جلد ہی ان کی مدد اور آسانی فرما۔ یا اللہ! اپنے اور مسلمانوں کے دشمنوں کو پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلاء فرمائے۔
یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! مسلمانوں کی بات حق پر جمع فرمادے۔
یا اللہ! یا رب العالمین ! ہمارے امام (امیر) کو ہدایت کی توفیق عطا فرما، اور انہیں اپنی رضا کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور انہیں عافیت اور شفا عطا فرما، اور تمام مسلمانوں کے امیروں کواپنی کتاب پر عمل کرنے اور شریعت کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل – 90
اللہ تعالٰی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔
اللہ کا ذکر کریں جو عظیم و جلیل ہے وہ تمہارا ذکر کرے گا، اور اس کے احسانات اور نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں مزید دے گا، اور اللہ کا ذکر ہی سب سے بڑا ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
***