روس اور یوکرائن کے مابین جنگ اور مسلم ممالک کے لئے عبرتناک پہلو

Ukrine and Russia War

روسی فوج  کویوکرین پر حملہ آور ہوئے 8 دن گزرچکے ہیں اور یوں 77 سال کے بعد جنگ کے بادل ایک بار پھر یورپ کی سرزمین پر چھارہے ہیں ۔یورپ کے دہانے پر ہونے والی اس نئی  جنگ نے دنیا کے لئے نئے خطرات پیدا کر دئے ہیں ۔ اگر جلد اس بحران کا کوئی پُرامن حل نہ نکلا تو دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ سکتی ہے ،اور اگر ایسا ہوا تو دنیا میں بہت بڑی تباہی پھیل سکتی ہے جس سے دنیا کا کوئی خطہ اور انسان محفوظ نہیں رہ سکےگا۔

یوکرین میں مسلمانوں کی آبادی

یوکرین میں مسلمانوں کی تعداد اگرچہ زیادہ نہیں ہے۔ لیکن وہ عیسائیوں کے بعد ملک کی دوسری سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ 2016ء کی مردم شماری کے مطابق یوکرین میں مسلمانوں کی تعداد 6 لاکھ کے قریب تھی، جو کل آبادی کا 9 فیصد بنتا ہے۔ یوکرین میں اسلام کی جڑیں بہت قدیم ہیں۔ اس خطے میں اسلام پانچویں صدی ہجری میں ہی پہنچا تھا۔ مسلمانوں کا تعلق تاتار، وولگار تاتار، قوقاز اور ازبک نسل سے ہےیوکرین کی کُل آبادی میں 82  فیصد مسیحی ہیں۔ یوکرین میں اس وقت 160 مساجد ہیں ۔مسلمانوں میں شامل تاتاریوں کی زیادہ آبادی جزیرہ نما قرم میں رہتی ہے ۔روس نے 2014میں اس پر قبضہ کر کے اسے روسی فیڈریشن میں شامل کر لیا تھا۔یوکرین سات ممالک کے بیچ گھرا ہوا ہے ۔یہ1991 میں روسی فیڈریشن سے آزاد ہوا تھا۔

اسلام کا نظریہ جنگ

یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ جنگوں نے انسانی سماج کو ہمیشہ ہی تباہی اور بربادی کے تحفہ دیئے ہیں۔ قوموں کے مابین جنگیں دنیا میں خوفناک صورت حال پیدا کر کے سینکڑوں بحرانوں کو جنم دیتی ہیں ، اس لئے اسلام جنگ کو پسند نہیں کرتا ،چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے جنگوں کی تمنا کرنے سے منع فرمایا،اور ہر حال میں امن وعافیت کو طلب کرنے کا حکم فرمایا ۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 أيُّها النَّاسُ، لا تَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وسَلُوا اللَّهَ العَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، واعْلَمُوا أنَّ الجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، ومُجْرِيَ السَّحَابِ، وهَازِمَ الأحْزَابِ، اهْزِمْهُمْ وانْصُرْنَا عليهم.

صحیح البخاری – 3024

لوگو! دشمن سے جنگ کی تمنا نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو۔ لیکن جب ان سے مڈبھیڑ ہو جائے، تو صبر سے کام لو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے” پھر فرمایا: اے کتابوں کے نازل فرمانے والے رب ، بادلوں کو چلانے والے رب، لشکروں کو شکست دینے والے رب! تو ان لشکروں کو شکست سے دوچار کردے اور ہماری مدد فرما “۔

یہ حدیث صاف بتا رہی ہے کہ جنگ پسندیدہ عمل نہیں ،لیکن جب حالات مجبور کر دیں،دشمن ظلم و بربریت کی آخری حد کو پہنچ جائے،مسلمانوں پر مذہبی مشکلات اور دیگر صعوبتوں کو روا رکھا جائے،ان کے مذہبی شعائر کو تباہ کرنے کی کوشش کی جائے،تو اب اسلام چند شرائط کے ساتھ انہیں جواب دینے کا حکم دیتا ہے۔

یوکرین کی تاریخی غلطی

یوکرین 1919میں روس کا حصہ بنا ،1991میں اس سے علیحدہ ہوا ۔سوویت یونین كے بكھرنے کے بعد جب یوکرین کو بھی دیگر ملکوں کی طرح آزادی ملی تو وہ ایٹمی طاقت تھا ۔اس کے پاس جوہری ہتھیار اور میزائل تھے ، لیکن 1994میں یوکرین نے روس ،امریکہ اور برطانیہ سے ایک معاہدے کے تحت ایٹمی ہتھیاروں سے دستبرداری اختیار کرلی ،اس معاہدے میں تینوں ملکوں نے یوکرین کو سیکورٹی کی ضمانت دی تھی ۔آج یوکرین کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، یہ اسی غلطی کا خمیازہ ہے ۔ذرا تصور کریں کہ اگر یوکرین اس وقت روس ،امریکہ اور برطانیہ کی باتوں میں نہ آتا ،اوراپنی  ایٹمی صلاحیت کو برقراررکھتا تو کیا روس کے لئے آج یہ ممکن تھا کہ وہ اس پر حملہ کر سکتا، حملہ تو دور کی بات ،روس اپنے پڑوس میں کسی ایٹمی طاقت سے کسی قسم کی کشیدگی کے بارے میں بھی نہ سوچتا۔

علمی طاقتوں کی بد عہدی

 یوکرین کو سیکورٹی کی ضمانت جن تین طاقتور ملکوں نے دی تھی ،آج ان میں سے ایک روس نے خود ہی حملہ کردیا ہے ۔دوسری جانب امریکہ اور برطانیہ ہیں ،جو یوکرین کو صرف دلاسے دے رہے ہیں اور روس سے فقط مطالبات کر رہے ہیں ، پاکستان کو بھی ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار کرانے کے لئے اسی طرح ضمانتیں اور پیکیج دینے کی بہت کوشش کی گئی ،اور اب بھی یہ کوشش جاری ہیں ،لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری قیادت نے ایسی کوئی غلطی نہیں کی ،ورنہ ہم بھی دشمن کے لئے نرم چارہ بن جاتے۔

پاكستان كے لئے سبق

 جولوگ امریکہ، یورپ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے یوکرین کی طرح پاکستان کو بھی اپنے ایٹمی پروگرام سے پیچھے ہٹنے اورا سے منجمد کرنے کے لیے یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ عوام کی خوش حالی اور دولت کی ریل پیل ہی اصل قوت ہوتی ہے۔ آج یوکرین کی رکن پارلیمنٹ جیکی ہینرچ کا ٹویٹ پڑھ لیں کہ کس طرح جیکی ہینرچ فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے رندھی ہوئی آواز  کے ساتھ کہہ رہی تھی کہ یوکرین دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو 1994 تک ایک بہت بڑی ایٹمی قوت تھا لیکن امریکہ‘ برطانیہ اوریورپ کی اس یقین دہانی پر کہ وہ سب مل کر اس کی قوت اور بازو بنیں گے‘ اس نے اپنے تمام ایٹمی اثاثے اور بم متروک قرار دے دیے اور انسانی تاریخ کی یہ اپنی طرز کی وہ پہلی حماقت تھی جس کے نتیجے میں یوکرین تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ فاکس نیوز پر انٹرویو دیتے ہوئے جیکی نے رندھے ہوئے گلے کے ساتھ سوال کیاWhere are those guarantees? Now we are bombed and killed ۔یہ ٹویٹ اور انٹرویو دنیا بھر کی ان کی قوموں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے جو اپنی بندوق دوسرے کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے سمجھ لیتے ہیں کہ وہ اب محفوظ ہیں۔

یوکرین پر روس کے حملے سے پاكستان كے لئے سبق یہ ہے کہ ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ‘‘  لہذا یہ سبق ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا اوراپنی سلامتی کے لئے قرآن پاک کی ہدایت کے مطابق اپنے گھوڑے  تیار رکھنے ہوں گے ۔

مستقبل کا لائحہ عمل

زندہ قوموں کو تاریخ کا یہ سبق ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ کوئی  بھی دوسری قوم آپ کوکوئی تحفظ نہیں دے سکتی، قوموں کو اپنا دفاع اپنے زورِ بازو سے ہی کرنا ہوتا ہے ، لہذا اس نکتے کو ذہن میں رکھ کر اور قرآن کریم میں اللہ کے اس فرمان کو سامنے رکھ کر ہر وقت دشمن سے نمٹنے کے لئے وقت کے تقاضوں کے مطابق تیاری کرتے رینا چاہئے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا  تُظْلَمُونَ

الأنفال – 60

تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنا ہےتا کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا۔

 مذکورہ بالا آیت ِکریمہ فتح و نصرت اورغلبہ و عظمت کی عظیم تدبیر پر مشتمل ہے اور اس آیت کی حقانیت سورج کی طرح روشن ہے جیسے آج کے دور میں دیکھ لیں کہ جس ملک کے پاس طاقت و قوت اور اسلحہ و جنگی سازوسامان کی کثرت ہے اس کا بدترین دشمن بھی اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا ، جبکہ کمزور ملک پر سب مل کر چڑھ دوڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں ،جیسے ایک بڑی طاقت اپنا سب سے بڑا دشمن دوسری بڑی طاقتوں کو سمجھتی ہے لیکن آج تک اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کی کیونکہ اُن کے پاس اس کا دماغ ٹھیک کرنے کے نسخے موجود ہیں لیکن وہی بڑی طاقتیں اور عالمی امن کے جھوٹے دعویدار کمزور ممالک کو طاقت دکھانے میں شیرہیں اور ان ممالک میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اِسی آیت پر کچھ عمل کی برکت ہے کہ پاکستان پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی جسارت کسی کو نہیں ہورہی کیونکہ پاکستان  اللہ کے فضل وکرم سے ایٹمی طاقت ہے ۔اگر مسلمان مل کر اِس آیت پرعمل کریں تو کیا مجال کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو تنگ کرسکے۔

اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں سے فرمایا:

وَأَعِدُّوا

اور تم تیاری کرو۔ یعنی اپنے کفار دشمنوں کے لئے تیار کرو جو تمہیں ہلاک کرنے اور تمہارے دین کے ابطال کے درپے رہتے ہیں۔

مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ

”اپنی بساط بھر قوت‘‘ یعنی قوت عقلیہ، قوت بدنیہ اور مختلف انواع کا اسلحہ، جو دشمن کے خلاف جنگ میں تمہاری مدد کرے۔کفار کے خلاف اس تیاری میں وہ تمام صنعتیں آجاتی ہیں جن سے اسلحہ اور آلات حرب بنائے جاتے ہیں، مثلاً توپیں، مشین گنیں،بندوقیں، جنگی طیارے، بری اور بحری سواریاں، دفاعی قلعہ بندیاں،مورچے اور دیگر دفاعی آلات حرب وغیرہ۔ نیز حکمت عملی اور سیاست کاری میں مہارت پیدا کرنا،جس کے ذریعے سے وہ آگے بڑھ سکیں اور دشمن کے شر سے اپنا دفاع کرسکیں۔ نشانہ بازی، شجاعت اور جنگی منصوبہ سازی کی تعلیم حاصل کرنا۔

 اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

اَلاَ اِنّ الْقُوّةَ الرّمَيُ

صحیح مسلم – 1917

” سن لو ! قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔‘‘

کیونکہ عہد رسالت میں تیراندازی، جنگ کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ نیز ان گاڑیوں کی تیاری، جو جنگ میں نقل و حمل کے کام آتی ہیں، جنگی استعداد میں شمار ہوتی ہیں۔ بنا بریں فرمایا :

وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللہ وَعَدُوَّكُمْ

” اور گھوڑوں کو تیار رکھ کر، کہ اس سے دھاک بٹھاؤ تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر“۔

اس حکم کی علت، اس زمانے میں بھی موجود ہے اور وہ ہے دشمنوں کو مرعوب رکھنا۔ حکم کا دارومدارعلت پر ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں ایسے آلات اور سامان حرب موجود ہوں جن کے ذریعے سے دشمن کو مذکورہ چیزوں سے زیادہ خوف زدہ رکھا جاسکتا ہو۔۔۔ یعنی گاڑیاں اور ہوائی طیارے جو جنگ میں کام آتے ہیں اور جن کی ضرب بھی کاری ہے۔ توان کو حاصل کرکے ان کے ذریعے سے جنگی استعداد بڑھانا فرض ہے۔ حتیٰ کہ اگر اس سامان حرب کو صنعت کی تعلیم حاصل کئے بغیر حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو یہ تعلیم حاصل کرنا بھی فرض ہوگا، کیونکہ فقہی قاعدہ ہے :

مَالَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ اِلاَّ بِه فَھُوَ وَاجِبٌ

’’جس کے بغیر واجب کی تکمیل ممکن نہ ہو تو وہ بھی واجب ہے۔‘‘

وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ

 اس سے مراد مسلمانوں کی صفوں میں چھپے ہوئے کفار کے آلہ کاراور ہمدرد منافق ہیں۔دیکھیے سورۂ توبہ (۱۰۱)

علاوہ ازیں کئی اقوام جو بظاہر اس وقت تمھارے خلاف نہیں، مگر موقع پانے پر دل میں تم سے لڑائی کا ارادہ رکھتی ہیں، تمھاری مکمل تیاری اور ہر وقت جہاد میں مصروف رہنا سب کو خوف زدہ رکھے گا۔ بعض مفسرین نے اس سے جن و شیاطین کے لشکر مراد لیے ہیں، تمھاری تیاری کی بدولت وہ بھی دشمنوں کے دلوں میں لڑائی کے جذبات نہیں ابھار سکیں گے۔

آج اگر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے نوازا ہے تو یہ صلاحیت ملک و قوم کی قوت و طاقت کی علامت بھی ہے اور تمام عالم اسلام کی طرف سے پاکستان کے پاس ایک امانت بھی۔ اگر اس سلسلے میں کسی دباؤ کے تحت ‘ کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ کیا گیا تو یہ اللہ ‘ اس کے دین اور تمام عالم اسلام سے ایک طرح کی خیانت ہوگی۔ لہٰذا آج وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ پاکستانی قوم اپنے دشمنوں سے ہوشیار رہتے ہوئے اس سلسلے میں جرأت مندانہ پالیسی اپنائے ‘ تاکہ اس کے دشمنوں کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی صورت میں قوت مزاحمت کا توازن قائم رہے۔

مغربی میڈیا کا متعصبانہ کردار

روس یوکرین کی جنگ نے مغربی میڈیا، سول سوسائٹی، اور مغربی طاقتوں کی برابری کے حقوق کا پول کھول کر رکھ دیا ہے ۔یورپ اور امریکہ کے میڈیا میں اس وقت یوکرائن کے مظلوم مہاجرین کی جو تصویر پیش کی جا رہی ہے وہ ان کے تکبّر اور دوسروں سے حقارت کی علامت ہے۔ یوکرائن کے شہریوں کو دکھاتے ہوئے، افغانستان، عراق اور افریقہ کے مہاجروں کی بھی ساتھ ہی تضحیک کی جا رہی ہے۔ بی بی سی پر کہا جا رہا تھا ’’یہ مہاجر کوئی افریقی تو نہیں ہیں، یہ تو نیلی آنکھوں، سنہرے بالوں والے سفید فام یورپی ہیں‘‘، ایک اور چینل والے نے کہا کہ ’’یہ لوگ کوئی غیر مہذب اقوام کے افراد نہیں بلکہ یہ مہذب یورپی ہیں، ایک خاتون نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ کوئی غیر ترقی یافتہ یا تیسری دُنیا کا ملک نہیں ہے، بلکہ یہ یورپ ہے، یہ خوش پوش خوشحال لوگ ہیں، پھٹے کپڑوں والے غریب نہیں ہیں‘‘ ۔ ڈیلی ٹیلیگراف لکھتا ہے، یہ تو ہمارے جیسے ہیں واٹس ایپ اور انسٹاگرام استعمال کرنے والے ہیں ،یہ کوئی جاہل افغان یا افریقی تو نہیں ہیں ۔گویا یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ عراق، شام، افغانستان میں بم گرانا جائز تھاجبکہ یوکرائن میں بم گرانا حرام ہے ۔ یورپی یونین کے ممالک نے اعلان کیا ہے کہ ہم ان کے لئے دروازے کھول رہے ہیں، کیونکہ یہ سب تو ہمارے جیسے ہیں ۔اللہ کو ناراض کرنے کے لئے یہ تکبّر کافی ہے۔ اس کی سنت ہے وہ متکبر قوموں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا کرتا ہے۔

اصل دہشت گرد کون

مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان برے لوگ ہیں ،مسلمان متشدد اور جنگجو ،انسانیت کے دشمن ہیں ،امن کے لئے خطرہ اوردنیا کے لئے تباہی کی علامت ہیں ،یہ کتاب سے دور قوم ہے ،یہ تہذیب سے عاری قوم ہے۔ حالانکہ کسی مسلمان ملک نے کہیں پر اب تک کوئی جارحیت کا ارتکاب نہیں کیا ،اس کے برعکس جنگِ عظیم دوّم کے بعد یورپ نے امریکہ کے زیر سایہ ایک منصوبے کے تحت جنگوں کو غریب ممالک کی سرحدوں میں زبردستی دھکیلا اور ان کے خون سے خوب دولت کمائی ،اور اپنے لئے خوشحالی خریدی ۔کوریا میں تین سال (25 جون 1950ء سے 27 جولائی 1953ء تک)، کیوبا میں سول وار (26 جولائی 1953ء سے یکم جنوری 1959ء تک )، الجزائر کی جنگِ آزادی (یکم نومبر1954ء سے 19مارچ 1962ء تک) اور دس سالہ ویت نام جنگ (یکم نومبر1955ء سے 1975ء تک)۔

  افریقہ کا کون سا ایسا ملک ہے جہاں معدنیات پر قبضہ کرنے کے لئے ان لوگوں نے وہاں کے عوام کو آپس میں نہ لڑوایا ہو۔ انگولا، موزمبیق، صومالیہ، ایتھوپیا غرض ان مظلوم ممالک کی ایک لمبی فہرست ہے جہاں تہذیب کا لبادہ اُوڑہے یہ جانور صفت لوگ کشت و خون کے بازار گرم کر کے اُن مفلوک الحال ممالک کے قدرتی معدنیات و ذخائر چراتے رہے۔ پھر آٹھ سال تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ اور اسی دوران افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑائی بھی ایک ساتھ لڑی جاتی رہی ۔ گیارہ ستمبر2001ء کے بعد تو ایسا ہوا کہ جنگ کا جنون امریکہ اور یورپ کے ہر کوچہ بازار میں ایک اجتماعی پاگل پن کی شکل اختیار کر گیا۔ دُنیا بھر میں بسنے والا ہر مسلمان دہشت گرد اور شدت پسند کہلایا۔ افغانستان اور عراق پر یورپ کے سپاہی امریکی افواج کے ساتھ دندناتے ہوئے داخل ہوئے اور انہوں نے بیس سال سڑکوں، گلیوں، گھروں اور بازاروں میں مسلمانوں کا خون بہایا۔ لاکھوں بچے یتیم، عورتیں بیوہ اور مرد شہید ہوئے۔ بھرے پُرے گھر والے خاندان بے گھر ہوئے، ’’عرب بہار‘‘ کے نام پر جب شام، یمن، لیبیا اور مصر میں انہی طاقتوں کا ٹکراؤ ہوا تو ایسی قیامت برپا کی گئی کہ آج تک صرف شام اور یمن میں مرنے والوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے۔

گزشتہ 25 برسوں میں موزمبیق ،سلواڈور، لبنان، روانڈا، لائیبریا، یوگنڈا، کولمبیا، صومالیہ، کانگو، برونڈی اور ایتھوپیا سمیت کئی ممالک میں جنگوں اور مسلح تصادموں کی وجہ سے دنیائے امن کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ۔لیکن مغرب کی نگاہ میں پھر بھی مسلمان بہت برے ہیں، بہت ظالم ہیں ،یہ دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہیں ،آج دنیا نے دیکھ لیا کہ کون دنیا کے امن کے لئے خطرہ تھا ؟۔کون دہشت گرد ہے؟

جیسا کروگے ویسا بھروگے

آپ میں سے ہر ایک کو یاد ہوگا کہ عراق پر 2003ء میں حملہ کرنے والی افواج میں تیسرا بڑا گروہ یوکرائن کے فوجیوں کا تھا۔ لیکن وہ جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی آیات سےآگاہ ہیں ،وہ جانتے ہیں کہ ہر فرد کے گناہ اور جرم تو روزِ حشر اللہ کے روبرو فیصلے کے لئے پیش ہوں گے، لیکن قومیں جب بحیثیت مجموعی ظلم اختیار کرتی ہیں تو فیصلے اسی دُنیا میں صادر ہوتے ہیں۔ لوگ جلد باز ہوتے ہیں اور فوری نتائج کی تلاش میں اللہ سے شکوہ کرنے لگتے ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا اس کائنات کے لئے ایک قانونِ فطرت ہے کہ جسے وہ تبدیل نہیں کرتا۔اللہ کا ارشاد ہے :

وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ

آل عمران – 140

ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ  قوموں کے اجتماعی گناہوں کا بہت حد تک بدلہ، اسی دُنیا میں ضرور چکاتا ہے۔ اس ’’عذاب‘‘ یا ’’انتقام‘‘ کے پیچھے اللہ کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اس طرح دُنیا میں امن قائم ہو۔ اللہ فرماتا ہے:

 وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ

البقرۃ – 251

’’اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض لوگوں سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا‘‘۔

 پھر فرمایا :

وَكَذَٰلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

الأنعام – 129

اور یوں ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلّط کر دیتے ہیں، ان کے اپنے اعمال کے بدلے۔

پاکستان کو گزشتہ تیس چالیس برسوں سے ایک ہی سبق دیا جارہا ہے کہ اپنی فوج کم کرو‘ اپنا دفاعی بجٹ کم کرو‘ تمہاری غربت کی وجہ یہ نت نئے دفاعی اخراجات ہیں۔ خلیفہ مستعصم کے وزیر ابو علقمی کی طرح ہمارے کچھ سابق حکمران اور لیڈر پارلیمان کی عمارت میں کھڑے ہو کر ملکی دفاعی بجٹ پر بے جا تنقید کرتے ہیں اور ان کے ساتھی‘ بھاڑے کے ٹٹو اور کچھ گوئبلز ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ تواتر سے ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ مہنگائی ‘مہنگی بجلی اور ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت زار کی وجہ سیا ستدان نہیں بلکہ کچھ اور اخراجات ہیں‘جو سب کچھ چاٹ رہے ہیں۔ تمہاری بیماریوں اور تنگدستی کی وجہ بھی یہ ہے کہ تمہارا اسی فیصد بجٹ تو اسی مد میں چلاجاتا ہے۔بھارتی فوج ہم پر اچانک پل پڑنے کیلئے تیار بیٹھی ہوتی ہے اور یہ لوگ اسی طرح ہمیں اپنا دفاعی بجٹ کم کرنے کا کہہ رہے ہیں ۔دنیا کے روز بدلتے حالات کے پیش نظر ایسی غلطی کبھی نہیں کرنی چاہئے ۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ