تم جس سے محبت کرتے ہو اسکے ساتھ رہو گے

Tum-jis-se-mohabbat-karte-ho-uske-sath-raho-ge

پہلا خطبہ :

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنی محبوب چیزوں کو جنت میں جانے کا راستہ بنایا۔ میں اس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور اس کا بھرپور شکر ادا کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اس نے اپنی محبت والوں کو بقیہ تمام محبت کرنے والوں پر فضیلت بخشی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار، محمدﷺ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں. اللہ نے آپ کو خاص محبوب  اور خلیل بنایا اور آپ کو گواہی دینے والا، خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ درود و سلام اور برکتیں نازل ہوں آپ پر، آپ کے فضیلت والے آل و اصحاب پر، تابعین پر اور درست طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں پر اوربہت زیادہ سلامتی ہو.

اما بعد !!!

اے ایمان والوں! جہاں تک ہو سکے اللہ کا تقوی اختیار کرو. اپنے نبی کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو. اپنے آپسی معاملات کی اصلاح کرو. اپنے اتحاد و اتفاق کی حفاظت کرو. اپنے رب کی خوشنودی سے سرفراز ہو جاؤ گے۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے:

یٰاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اتَّقُوا  اللّٰهَ  حَقَّ  تُقٰتِه وَ  لَا  تَمُوْتُنَّ  اِلَّا  وَ  اَنْتُمْ  مُّسْلِمُوْنَ

آل عمران102

 اے ایمان والوں! اللہ تعالی سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا.

 امت مسلمہ، لگاؤ اور محبت کے بارے میں گفتگو دلوں کو لبھاتی ہے. محبت کے لیے فکری محبوب شعور پایا جاتا ہے. محبت زندگی کو مسرت و فرحت، خوبصورتی و خوشنودی اور روح کو جمال و سرور سے نوازتی ہے. اور محبت، اللہ کی ثابت صفت ہے. اللہ پاک اپنے نیک ، محسن بندوں سے محبت کرتا ہے. وہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے. پاکی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے. پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے. اور صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے. اللہ پاک نے ایمان اور عمل صالح کو اپنی محبت کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے. اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے.

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا

مریم96

بے شک جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ہیں ان کے لیے (اللہ) محبت پیدا کر دے گا۔

 آیت میں آئے لفظ ود کا مطلب خاص محبت ہے اور بندہ نفلی عبادتوں سے اپنے رب کا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے ،

ْْیہاں تک کہ اللہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور جب محبت کرنے لگتا ہے تو جبرائیل کو بلاتا ہے اور کہتا ہے میں فلاں سےمحبت کرتا ہوں. تم اس سے محبت کرو. جبرائیل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں. پھر وہ آسمان والوں میں آواز لگاتے ہیں. فلاں سے اللہ محبت کرتا ہے. تم بھی اس سے محبت کرو. آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں. پھر زمین میں اس کی قبولیت رکھ دی جاتی ہے.ٗٗ

 ایمانی بھائیوں! جب سے آدم صلاۃ وسلام پیدا کیے گئے، محبت ابن آدم کی فطرت ہے اور جب تک انسان روئے زمین پر باقی رہے گا محبت باقی رہے گی. محبت کے محرکات کے حساب سے محبت مختلف ہوتی ہے. جیسے آدمی کی اپنے رب، دین اور نبی سے محبت، اس کی اپنے نفس، والدین، بیوی، بچوں، بھائی اور ساتھیوں سے محبت، وطن اور جائیداد سے محبت اور اس کے ارد گرد موجود رب کی مخلوقات سے محبت.

ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ایاک نعبد وایاک نستعین کی منزلوں میں سے، محبت ایک منزل ہے. انہوں نے اس کے بارے میں کہا یہ ایمان و اعمال اور مقامات کی روح ہے کہ جب یہ ساری چیزیں اس سے خالی ہوں تو یہ اس جسم کی مانند ہوں گے جس میں روح نہ ہو.

جس محبت کا یہ مقام ہے تو اسلام نے اس کو مہذب کیا ہے اور اس کے خالق سے اسے جوڑا ہے لہذا محبت کی سب سے عظیم اور بلند ترین منزل اللہ کی محبت ہے اور اس کی محبت ہے جس سے اللہ تعالی محبت کرے.اللہ کے لیے محبت کرنا محبت کے بلند ترین اور عظیم ترین قسموں میں سے ہے یہ سب سے عظیم اور مضبوط ترین رشتہ ہے اور سب سے سچی اور قائم رہنے والی محبت ہے. جو اللہ کے لیے ہوگا وہ پائیدار ہوگا اور جاری رہے گا اور جو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ہو گا وہ ختم ہو جائے گا اور جاری نہیں رہے گا. آدمی اپنے بھائی سے محبت کرتا ہے، محبوب کے اندر پائے جانے والے اللہ کے تقوی اور اچھے اخلاق کی وجہ سے ہر چند کے ان کے جسم الگ ہوں اور ان کے گھر دور ہوں. اللہ کے لیے محبت خالص دوستی اور حقیقی اخوت ہے جو دنیاوی مفادات سے متاثر نہیں ہوتی. اللہ کے لیے محبت کرنے والوں کی مسرت و شادمانی اور فخر و عزت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ عزوجل قیامت کے دن انہیں خود سے قریب کرے گا. انہیں نور کے ممبروں پر بٹھائے گا. ان پر انبیاء و شہداء رشک کریں گے.

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے بندوں میں ایسے لوگ ہیں جو نہ انبیاء ہیں اور نہ شہداء، اللہ کے نزدیک ان کے مقام پر انبیاء اور شہداء قیامت کے دن رشک کریں گے. انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول! ہمیں بتائیں وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے روح اللہ یعنی کتاب اللہ کی وجہ سے بغیر رشتہ داری کے اور بغیر مالی معاملات کے وہاں محبت کی. اللہ کی قسم! ان کے چہرے نور ہوں گے. وہ نور پر ہوں گے. وہ تب نہیں ڈریں گے جب لوگ ڈریں گے اور تب غمگین نہیں ہوں گے جب لوگ غمگین ہوں گے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی۔

اَلَا اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ

یونس 62

 یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔

پیاروں! اللہ کے لیے محبت ایمان کے مضبوط ترین کڑوں میں سے ہے. یہ سچائی کی دلیل اور احسان کی علامت ہے  اور اس سے آدمی ایمان کا مزہ پاتا ہے اور یہ اللہ کے نزدیک محبوب ترین اعمال میں سے ہے اور اس کی محبت و خشنودی کے اسباب میں سے ہے اور جس طرح اللہ کے لیے محبت کرنے والے کو دنیا میں طاعت و بھلائی پر تعاون اور حق و خیر پر باہمی وصیت کا فائدہ پہنچاتی ہے اسی طرح یہ آخرت میں محبت کرنے والے کو اس تک بلند کر دیتی ہے، جو اس سے مقام و ایمان میں اعلی ہوتا ہے اور اس سے زیادہ محنت وعمل والا ہوتا ہے. آدمی قیامت کے دن اس کے ساتھ اٹھایا جائے گا جس سے اس نے دنیا میں محبت کی ہوگی. چنانچہ جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے محبت کرے گا، آپ کی سنت کی تابعداری کرنے والوں سے محبت کرے گا اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرے گا اور اللہ تعالی قیامت کے دن انہی کے زمرے میں اٹھائے گا.

انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں پوچھا اور کہا قیامت کب ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے کہا کچھ نہیں مگر ہاں میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت کرتے ہو. انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ہم کسی چیز سے اتنا خوش نہ ہوئے جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کہنے سے خوش ہوئے کہ تم جس سے محبت کرتے ہو اسی کے ساتھ ہو گے. انس کہتے ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر, عمر سے محبت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان سے محبت کرنے کی وجہ سے ان کے ساتھ رہوں گا. ہر چند کہ میں نے ان کی طرح عمل نہیں کیے ہیں. اور قیامت کے میدان میں جب بھیڑ سخت ہوگی, لوگوں کا قیام لمبا ہو گا, سورج ان کے سروں سے ایک میل کے فاصلے پر ہوگا. اعمال کے بقدر وہ پسینے میں ہوں گے، ایک ایسا دن جو پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا. وہاں پر اللہ تعالی اپنے جلال، عظمت اور خشیت کے لیے باہم محبت کرنے والوں کو آواز لگائے گا. اور کہے گا میرے جلال کے لیے بامحبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انہیں اپنے سایہ تلے رکھوں گا جب میرے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں اور ان سات لوگوں والی حدیث میں جنہیں اللہ اپنے سایہ کے نیچے رکھے گا جس دن سوائے اللہ کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو لوگوں کا ذکر کیا جنہوں نے اللہ کے لیے باہم محبت کی، اسی پر ایک ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے.

متفق علیہ

 ان میں سے ہر ایک محب اور محبوب ہے. ان کے دل علام الغیوب کی محبت پر اکٹھے ہوئے. یہ خالص محبت، آدمی اور اسکی محرم خاتون  کے ساتھ ہو سکتی ہے، آدمی اور اسکی بیوی  کے ساتھ ہو سکتی ہے ،عورت اور اسکی بہن کے ساتھ ہوسکتی ہے ،پیاروں! محبوب کے لئے  غائبانہ  احسان اور دعا، دل کی سلامتی  پر دال ہیں اورر یہ محبت اور لگاؤ  کے ثمرات میں سے ہے. دعا کرنے والا اپنے بھائی کی زندگی میں اور موت  کے بعد بھی اس سے بھلائی کرتا ہے ،اور جس نے اپنے بھائی کے لئے دعا کی اس نے اپنے لئے دعا کی ، اپنے بھائی اور خود کو فائدہ پہنچایا اور اللہ کے نزدیک دوستوں میں سب سے زیادہ ثواب والے وہ ہیں جو سب سے زیادہ اپنے دوست کے لئے دعا اور بھلائی کرنے والے ہیں ۔

اللہ کے نبی ﷺ خدیجہ رضی اللہ عنھا کی محبت کا بکثرت ذکر کیا کرتے تھے ،ان کے لئے ان کی موت کے بعد دعا کیا کرتے تھے ،اور مغفرت طلب کیا کرتے تھے ،آپ ﷺ بکری ذبحہ کرتے اس کی بوٹیاں بناتے پھر  خدیجہ کی سہیلیوں کے ہاں بھجواتے ،اور آپ ﷺ کے یہاں مدینہ میں ایک بوڑھی خاتون آئی تو آپ نے اس کی بہت خدمت کی ، آپ ﷺ سے اس سلسلے میں پوچھا گیا تو  آپ نے فرمایا: یہ خدیجہ کے رہتے ہمارے یہاں آیا کرتی تھیں ،اور آپ ﷺ نے فرمایا : حسن عہد، ایمان میں سے ہے ۔

رواہ حاکم

سیدنا صفوان بن عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اور ان کے نکاح میں سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کی بیٹی درداء تھیں، وہ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس شام آیا تو گھر میں سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا تھیں جبکہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ وہاں موجود نہیں تھے۔ سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تم اس سال حج پر جا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! انہوں نے فرمایا: پھر ہمارے لیے بھی خیر کی دعا کرنا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”بلاشبہ مسلمان آدمی کی دعا جو وہ اپنے بھائی کے لیے اس کی عدم موجودگی میں کرتا ہے، وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ جب وہ دعا کرتا ہے تو ایک فرشتہ اس کے سر کے پاس مقرر کر دیا جاتا ہے۔ جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو وہ کہتا ہے: آمین اور تجھے بھی ایسا ہی ملے۔“

مسلم

ائمہ اعلام سے بہت زیادہ منقول ہے کہ وہ اپنے بھائیوں  کے لئے  نمازوں میں دعائیں کیا کرتے تھے ۔

سیر اعلام النبلاء میں ہے: ابو درداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے سجدے میں اپنے سترہ بھائیوں کے لئے مغفرت طلب کرتا ہوں. میں ولدیت کے ساتھ ان کا نام لیتا ہوں ۔

امام احمد بن حنبل نے امام شافعی کے بیٹے سے فرمایا: آپ کے والد ان چھ لوگوں میں سے ہیں جن کے لئے میں اپنی نماز میں دعا کرتا ہوں ۔

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے:

وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَه  اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ

التوبہ 71

اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم فرمائے گا۔ بیشک اللہ، غالب، حکمت والا ہے۔

اللہ مجھے اور آپ کو قرآن و سنت میں برکت سے نوازے ،ان میں موجود آیت اور حکمت سے فائدہ پہنچائے ،میں جو کہہ رہا ہوں اور آپ جو سن رہے ہیں ،اور میں اللہ سے اپنے لئے اور آپ کے لئے ہر گناہ سے، خطا سے مغفرت طلب کرتا ہوں. آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں بلاشبہ وہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسراخطبہ :

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے بھرپور نعمتوں پر اور اس کا شکر پے در پے نوازاشوں پر اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد ﷺ، اس کے بندے اور رسول ہیں ۔آپ متقیوں کے امام اور ولیوں کے سردار ہیں ،درود و سلام اور برکتیں نازل ہوں آپ پر، آپ کے مخلص اصحاب پر ، تابعین پر اور تا قیامت درست طریقہ سے ان کی پیروی کرنے والوں پر ۔

 اما بعد !!!

مسلمانوں! ہماری مبارک شریعت نے اللہ کے لئے محبت ،باہمی الفت و موددت پر ابھارا ہے عقل مند آدمی لوگوں کے پاس اچھے اخلاق کے ساتھ، نرمی سے معاملہ کرکے محبوب ہوجاتا ہے ،کیا ہی خبصورت بات ہو کہ آدمی ایسے لوگوں کے بیچ جیئے جو اس سے محبت کرتے ہوں اور وہ ان سے محبت کرتا ہو، وہ ان سے مانوس ہو اور وہ اس سے مانوس ہوں کہ مومن مانوس ہوتا ہے اور مانوس کرتا ہے ، محبت کرتا ہے اور اس سے محبت کی جاتی ہے ، اور اپنے صحابہ کے ساتھ ہمارے نبی ﷺ کی سیرت میں خوشیوں پر مبارک باد دینا اور محبوب اشیا کی بشارت اور خشخبری کی کتنی روشن شکلیں اور  تابناک صفات ہیں ۔ جس سے دلوں میں محبت راسخ ہوتی ہے اور لوگوں میں الفت عام ہوتی ہے ۔

“ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا مجھے سے نبی ﷺنے فرمایا: نیکی میں کسی چیز کو حقیر نہ سمجھو، چاہے یہی ہو کہ تم اپنے (مسلمان) بھائی کو کھلتے ہوئے چہرے سے ملو۔”

مسلم

“عبداللہ بن حارث بن جزء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر مسکرانے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔”

رواہ ترمزی

ہمارے نبی ﷺ کے طریقہ میں سے یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی محبت کا ان سے اظہار کرتے تھے ، انہیں  تلقین کرتے تھے کہ وہ اپنی محبت کا اظہار کریں اور اسے چھپائیں نا کیونکہ اس سے محبت زیادہ باقی رہتی ہے اور مودت زیادہ پا ئیدار ہوتی ہے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اتنے میں ایک آدمی وہاں سے گزرا تو اس شخص نے کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!میں اس آدمی سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ’’کیا تو نے اسے بتایا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا ’’نہیں!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اسے آگاہ کردے۔‘‘ چنانچہ وہ آدمی اس کے پیچھے گیا اور اسے بتایا ’’میں تم سے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کرتا ہوں۔‘‘جواب میں اس نے اسے یہ دعا دی ’’تجھ سے وہ ذات محبت کرے جس کے لئے تو نے مجھ سے محبت کی۔‘

رواہ ابو داؤد

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دونوں ہاتھ پکڑے، اور فرمایا: ”اے معاذ!  اللہ کی قسم! میں تم سے محبت کرتا ہوں“، تو میں نے عرض کیا: اور میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں اللہ کے رسول! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو تم ہر نماز میں یہ دعا پڑھنا نہ چھوڑو {{اللہم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك ٗ}} اے میرے رب! اپنے ذکر اور شکر پر، اور اپنی حسن عبادت پر میری مدد فرما“۔

نسائی

پیاروں! جو چیزیں مومنوں کے بیچ محبت کو بڑھاتی ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں ،مریضوں کی عیادت،جنازے میں شرکت، ان کی پریشانیوں کو دور کرنا ، تنہا لوگوں پر آسانی کرنا، ان کے عیوب کو چھپانا ، انہیں سلام کرنا ، احباب کی لغزشوں سے تجاوز برتنا ، ان کا عذر قبول کرنا ، ان کے ساتھ حسن ظن رکھنا. یہ سب کے سب محبت کی ہمیشگی کے اسباب میں سے ہیں ، اسی طرح ایک دوسرے کی زیارت کرنا اور باہم رابطہ رکھنا، صحبت و عشرت کے حقوق میں سے ہیں اور اس سے اللہ کی محبت واجب ہوتی ہے  

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی: “ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لیے گیا جو دوسری بستی میں تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے پر ایک فرشتے کو اس کی نگرانی (یا انتظار) کے لیے مقرر فرما دیا۔ جب وہ شخص اس (فرشتے) کے سامنے آیا تو اس نے کہا: کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں اپنے ایک بھائی کے پاس جانا چاہتا ہوں جو اس بستی میں ہے۔ اس نے پوچھا: کیا تمہارا اس پر کوئی احسان ہے جسے مکمل کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، بس مجھے اس کے ساتھ صرف اللہ عزوجل کی خاطر محبت ہے۔ اس نے کہا: تو میں اللہ ہی کی طرف سے تمہارے پاس بھیجا جانے والا قاصد ہوں کہ اللہ کو بھی تمہارے ساتھ اسی طرح محبت ہے جس طرح اس کی خاطر تم نے اس (بھائی) سے محبت کی ہے۔”

مسلم

سچی محبت کرنے والا اپنے بھائی کا آئینہ ہوتا ہے ،اس سے مشورہ طلب کرے تو وہ خیرخواہی کرتا ہے اور اگر وہ غلطی کرے تو وہ اس کا ہاتھ پکڑتا ہے اور اسے یاد دلاتا ہے ،وہ اپنے بھائی کے خلاف شیطان کا مددگار نہیں ہوتا ۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شرابی لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو مارو۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے بعض لوگوں نے تو اس کو ہاتھ سے مارا اور بعض نے جوتیوں سے مارا اور بعض نے کپڑے سے مارا پھر جب مار چکے تو کسی شخص نے اس کو کہا کہ اللہ تجھ کو رسوا کرے (جب یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنے تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوں مت کہو اور (ایسے الفاظ کہہ کر) اس کے خلاف شیطان کی مدد مت کرو۔“

بخاری

پیاروں ہمیں چاہئے کہ ہم ایسے نیک بھائی کو پانے کی کوشش کریں کہ جب ہم ذکر کریں تو ہماری مدد کرے ،ہم بھول جائیں تو ہمیں یاد دلائے ،جب غفلت برتیں تو ہمیں نصیحت کرے ، جب مر جائیں تو ہمارے لئے دعا کرے کیونکہ یہی اس دن باقی رہنے والی محبت ہے جس دن دوستیاں ختم ہوجائیں گی اور قیامت کے دن دشمنیوں میں بدل جائیں گی. اللہ تعالی کا فرمان ہے:

اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ

الزخرف67

اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔

کتنے دوست ہیں جو قیامت کے دن اپنے دوست سے اظہار برات کریں گے اور اس کی دوستی اور صحبت پر نادم ہوں گے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا

الفرقان28-29

اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا ئے گا، کہے گا : اے کاش کہ میں نے رسول کی راہ اختیار کی ہوتی ۔ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا اور شیطان انسان کو مصیبت کے وقت بے مدد چھوڑ دینے والا ہے۔

اور اہل جہنم (اللہ مجھے اور آپ کو بچاے) جگری دوست کی تمنا کریں گے جب وہ اپنے رب کے جلال کے لئے باہم محبت کرنے والوں کو دیکھیں گے کہ بعض، بعض کے لئے شفاعت کر رہے ہیں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تم بھائیوں کو لازم پکڑو وہ دنیا و آخرت میں توشہ ہیں ، کیا تم اہل جہنم کی بات نہیں سنتے کہ اب تو ہمارا کوئی سفارشی بھی نہیں ،اور نہ کوئی سچا غم خار دوست ۔

اے اللہ! ہم تجھ سے تیری محبت، تجھ سے محبت کرنے والے کی محبت اور تیری محبت قائم کرنے والے عمل کی محبت کا سوال کرتے ہیں ، اے اللہ! تیری عظمت کی بنا پر آپسی محبت کرنے والوں میں سے ہمیں بنا. جن کے لئے تیری محبت واجب ہوگئ ہے . اے اللہ! تو درود نازل فرما محمدﷺ پر اور ان کی بیویوں اور ان کی ذریت پر ،جیسے تو نے درود نازل فرمایا آل ابراہیم پر اور تو برکت نازل فرما محمدﷺ پر اور ان کی بیویوں اور ان کی ذریت پر ،جیسے تو نے برکت نازل فرمائ آل ابراہیم پر. بے شک تو بہت تعریف کے لائق اور عظمت والا ہے ، اے اللہ! تو خلفاء راشدین ابوبکر ،عمر،عثمان اور علی سے اور باقی تمام صحابہ و تابعین سے اور ان لوگوں سے راضی ہوجا جو تا قیامت ان کا اچھی طرح اتباع کریں اور ان کے ساتھ ان سے بھی اپنے عفو و کرم اور سخاوت سے راضی ہوجا ،یا ارحم الراحمین ،اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا کر ،اور اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے ، یاحی یا قیوم! تو خادم حرمین شریفین کو اس کام کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو اور تو اس سے راضی ہو اور انہیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بہترین بدلہ عنایت کر ،اے اللہ ! تو انہیں اور ان کے ولی عہد کو اس کام کی توفیق دے جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی ہو ،اے اللہ! مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کو ان چیزوں کی توفیق دے جنہیں تو پسند کرتا اور جس سے تو راضی ہوتا ہے ،اے اللہ تو انہیں حرمین شریفین اور اس کے زائرین کی خدمت پر بہترین بدلہ عطا فرما ،اے اللہ جو ہمارا اور ہمارے ملک کی سلامتی کا برا چاہے تو اسے اس کے نفس میں الجھا دے ،اس کی چال کو اس پر لوٹا دے ،اور برائی کی گردسش اس پر ڈال دیں ،اے اللہ ہر جگہ مسلمانوں کے حالات سدھار دے، اپنی رحمت سے یا ذوالجلال والاکرام ،اے اللہ! ہم سے مہنگائی، وبا ، سود ، زنا ، زلزلوں ، مصیبتوں، پوشیدہ اور ظاہر سارے فتنوں کو دور کردے ، اے اللہ سخت مصیبت ، بدبختی لاحق ہونے، دشمنوں کی خوشی سے ہم پناہ مانگتے ہیں ، اے اللہ ہم تجھ سے ہر قسم کی خیر مانگتے ہیں جلدی ملنے والی اور دیر سے ملنے والی، وہ بھی جس کا مجھے علم ہے اور وہ بھی جس کا مجھے علم نہیں ہے ، اے اللہ میں ہر قسم کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں ، اے اللہ جلدی آنے والے سے بھی اور دیر سے آنے والے سے بھی ، اے اللہ تو ہماری توبہ قبول فرما کر ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری دعائیں قبول کر، ہماری حجت کو ثابت کر ، ہمارے دلوں کو ہدایت دے ہماری زبانوں کو درست کر ، ہمارے دلوں سے کینہ نکال دے اگر تو ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے ، اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے ، اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں ، اے ہمارے رب! بے شک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے ، اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم  سے نجات دے ،پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے جو وہ شرک بیان کرتے ہیں ،پیغمبروں پر سلام ہے اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے ۔   

خطبة الجمعة مسجد الحرام:  

فضیلة الشیخ ڈاکٹر:ماہر المعیقلی  حفظه اللہ
21 ربیع الاول 1445 ھ بمطابق 06 اکتوبر 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ماھر المعیقلی حفظہ اللہ