دور حاضر میں ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اسلام کے اصولوں کو رائج کرنے کی بجائے غیر شرعی اصولوں کی اسلام کاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چونکہ یہ کہا جاتا ہے کہ مغرب کا صنعتی، سیاسی، معاشرتی انقلاب دنیا پر حاوی ہو چکا ہے۔اس لیے بہت سارے اسلامی مفکرین نے تحریری کاوش کےذریعےاسلام اوراہل مغرب کے نظریات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مغربی فکر و فلسفے سے متاثر مفکرین نے فقہ اسلامی سے ایسے اصول نکال کر پیش کیے جن کے ذریعے مغربی سانچے میں ڈھلی ہوئی سرمایہ کاری، سیاست، معاشرت اسلام کاری کے ذریعے معاون ثابت ہوئی۔ لہذا لامحالہ مسلمان مغرب سے درآمد شدہ نظریات اوران کے فلسفے سے متاثر مفکرین کی بدولت ان کے تجارتی ومعاشرتی لوازمات کی اسلام کاری کرتے نظر آتے ہیں۔ اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ لکھنے سے پہلے میں چند سطور میں اسلام کا معنی و مفہوم اور اس کے تقاضوں کے حوالے سے لکھوں گی۔ اور پھر ان کاموں کا احاطہ کرنے کی کوشش کروں گی جن میں اسلام کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔
لفظ اسلام چار معانی پر دلالت کرتا ہے :
- اسلام کا لغوی معنی خود امن و سکون ، دوسرے افراد کو امن و سکون دینا اور کسی چیز کی حفاظت کرنا ہے۔
- اسلام کا دوسرا مفہوم ماننا، تسلیم کرنا، جھکنا اور خود سپردگی و اطاعت اختیار کرنا ہے۔
- لغت میں بلند و بالا درخت کو بھی السلم کہتے ہیں۔
- اسلام میں تیسرا مفہوم صلح و آشتی کا پایا جاتا ہے۔
یہ س۔ ل۔ م سے ماخوذ ہے۔قرآن حکیم میں اس کی وضاحت یوں ہوئی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
البقرۃ – 208
اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اور صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ آقا علیہ الصلوۃ والتسلیم کا یہ ارشاد گرامی لائے ہیں:
الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ
کتاب الأیمان / حدیث : 10
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان بچے رہیں (کوئی تکلیف نہ پائیں)۔
لہذا وہ نظام زندگی جس کا آئین قرآن و سنت ہے۔ اس پر مکمل ایمان اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنا اسلام ہے۔ اسلامی نظام حیات کا مقصد وحی الہی کی روشنی میں فطرت کی قوتوں کو مسخر کرتے ہوئے انسانوں کی فلاح و بہبود کے کام کرنا ہے۔ جو وحی الہی پر مشتمل اس دین کو دل و دماغ سے تسلیم کرے اور غیر متزلزل ایمان لائے وہ مسلمان کہلاتا ہے۔ اور اس کی سپریم اتھارٹی قرآن و سنت کو حاصل ہے۔اور مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں حدود و قیود شریعت متعین کرتی ہے۔ جس کا ذکر حدیث میں یوں ہوا ہے:
قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّ ھذِہِ لَمَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ اِلَیْنَا، قَالَ: (قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَائِ، لَیْلُهَا کَنَهَارِهَا لَا یَزِیْغُ عَنْهَا بَعْدِیْ اِلَّا هَالِكٌ وَمَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ (فَذَکَرَ نَحْوَ مَا تَقَدَّمَ وَفِیْهِ) فَعَلَیْکُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِیْ، (وَفِیْهِ أَیْضًا) عَضُّوْا عَلَیْهَا بِالنَّوَاجِذِ فَاِنَّمَا الْمُؤْمِنُ کَالْجَمَلِ الْأَنِفِ حَیْثُمَا انْقِیْدَ انْقَادَ
مسند أحمد : 17272
ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ تو الوداعی وعظ ونصیحت ہے، پس آپ ﷺ ہمیں کیا نصیحت کریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تحقیق میں تم کو ایسی روشن شریعت پر چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جس کی رات بھی دن کی طرح ہے، اب اس سے وہی گمراہ ہو گا، جو ہلاک ہونے والا ہو گا، اور جو تم میں سے زندہ رہے گا، (سابقہ حدیث کی طرح روایت کو بیان کیا)، پس تم میری جس سنت کو پہچانتے ہو گے، اس کو لازم پکڑنا، (اور اس میں یہ بھی ہے:) پس تم اس پر سختی سے قائم رہنا، پس مؤمن تو اس نکیل شدہ اونٹ کی طرح ہوتا ہے کہ جس کو جدھر کھینچا جاتا ہے، وہ اُدھر ہی پیچھے پیچھے چل پڑتاہے۔
ان ارشادات گرامی کی روشنی میں ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ ایک مسلمان مطیع و فرمانبردار بن کر کتاب و سنت کے احکامات کی پیروی کرے۔ لیکن اقوام مغرب کی نقالی اورجدت پسندی نےاتنامرعوب کیاکہ مسلمانوں نے شریعت کے واضح احکام کو نظر انداز کرکے مصالحت کاایساپہلو نکال لیا جس سے مقصد بھی پورا ہو گیا اور اسلام کا نام بھی استعمال ہو رہا ہے۔ اسے اصطلاح میں ہم اسلام کاری کہہ سکتے ہیں جو اسلامی اصولوں سے اسلام کا نام لے کر فرار ہونے کا ایک ایجنڈا ہے۔ اس معاملے میں ہمارا رویہ جلال لکھنوی کے اس شعر کے مصداق رہا:
شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی رِند کے رِند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
ہم نے اس اسلام کاری کے ذریعے لوگوں کے جذبات سے کھیلنا شروع کردیا۔ چونکہ اسلام ایک پرامن اور پرسکون مذہب اس لیے ہر شخص کو اس کا نعرہ خوش کن لگتا ہے۔ یہ صرف امت مسلمہ کے اندر ہی نہیں بلکہ غیر متصب غیر مسلم اور خصوصاََ خواتین اس پر یقین رکھتی ہیں کہ اگر امن عالم میں حقوق کی پاسداری کرنے والا کوئی مذہب ہے تو وہ اسلام ہے۔ اس لیے اسلام کا نعرہ لگانے والے کو لوگ اپنا مسیحا خیال کرتے ہیں۔ سو لوگوں نے مسلمانوں کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا اور پھر ان کے جذبات سے خوب کھیلا۔ وہ اسلام کی محبت میں، کبھی جہاد کے نام پر بم دھماکے کر کے حسین جنت کے وارث ہونے کے خواب دیکھنے لگے اور کبھی اسی اسلام کے خوب صورت نعرے کی آڑ میں تجارت اور دیگر ہتھکنڈوں کے نام پر سود کے جال میں پھنسے البتہ مسلمانوں کی اسلام پسندی کا فائدہ اٹھا کر ان کے جذبات سے بھی کھیلا گیا اور ان کو بےوقوف بھی بنایا گیا۔معاملات میں تو ایسا چل ہی رہا تھا۔میدان سیاست میں بھی اسی اسلام پسندی کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر کے جنونی بنایا گیا کہ اسلام ، ختم نبوت اور نبی محترم ﷺ کی ذات اقدس کا سہارا لو، لوگوں کی عقیدتوں کا فائدہ اٹھاؤ اور حکومت کرو۔اس معاملے میں ہمارا رویہ جلال لکھنوی کے اس شعر کے مصداق رہا۔
ذیل میں اس کی کچھ مثالیں آپ کے سامنے رکھوں گی۔
بینکوں کا سودی نظام اور اسلامی بینک:
ہمارے ملک میں سود کا بہت بڑا ذریعہ مروجہ بینک ہیں۔ حالانکہ بالاتفاق سود حرام ہے۔ رب العالمین کا فرمان ہے:
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
البقرۃ – 275
حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔
اور اس سے بڑی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس سودی نظام کی بیخ کنی کے لیے یہ اعلان بھی کیا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ
البقرۃ – 278/279
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
حدیث میں آنے والی سخت وعیدوں کے اور ان سارے احکامات کے بعد ہمیں سود کو چھوڑ کر اللہ کی رحمت کے مستحق بننا چاہیے تھا۔ لیکن ہم نے انداز بدلا اپنی بینکوں کے نام میزان اسلامی، خیبر اسلامی ایچ بی ایل اسلامک بینکنگ کی اصطلاحات متعارف کروا دیں لیکن اصل معاملہ وہی ریا۔
انشورنس اور تکافل:
انشورنس (بیمہ پالیسی) کی تاریخ کے حوالے سے ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا جس اس کا تذکرہ ملا کہ دوسری ، تیسری دہائی میں چائنہ کی تجارتی کمپنیوں کی طرف سے رائج کیا گیا اور باقاعدہ طور پر اس کا آغاز معاہدہ جنیوا کی ایجاد ہے جہاں 1347ء میں پہلی انشورنس پالیسی بنائی گئی۔
(بیمہ) دراصل رسک مینجمنٹ کا ایک اہم جز ہوتا ہے جس کا بندوبست مستقبل میں ہونے والے غیر یقینی مالی نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ کسی بھی مالیاتی ادارے کیلئے بیمہ پالیسی بہت اہمیت کی حامل ہے جس کے ذریعے مستقبل قریب میں ہونے والے مالی نقصان کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ بیمہ پالیسی ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں انشورنس کمپنی پالیسی ہولڈر سے اپنی طے شدہ مدت اور شرائط کے مطابق مخصوص صورتوں میں ہونے والے نقصان کی صورت میں طے شدہ رقم ادا کرنے کا وعدہ کرتی ہے۔اس پالیسی کو خریدنے کیلئے پالیسی ہولڈر طے شدہ رقم مخصوص بنیادوں پر اداکرتا ہے جسے پریمیم کہا جاتا ہے۔ نقصان ہونے کی صورت میں پالیسی ہولڈر اپنے مالی نقصان کا کلیم جمع کراتا ہےجس پر انشورنس کمپنی نقصان کی تصدیق کے بعد طے شدہ رقم پالیسی ہولڈر کو ادا کرتی ہے۔ یہ پالیسی بالاتفاق اہل علم کے ہاں حرام ہے۔ اس کے حرام کا علم ہونے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ہم انشورنس سے توبہ کرتے اور اسکی جگہ شرعی طریقے سے اپنے لوگوں کی مدد/ باہمی تعاون کا کوئی پروگرام تشکیل دیتے۔ مگر ہم نے انشورنس کو تکافل کے نام پر مسلمان کرلیا۔ عربی زبان سے معمولی واقف لوگ بھی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ تکافل آپس میں ذمہ داریوں کے تبادلے (باہمی تعاون) کا نام ہے اور عربی نہ سمجھنے والے مسلمانوں کے لیے اس کا نام ’’تکافل‘‘ عربی لفظ ہونا ہی اسلامی ہونے کے لیے دلیل بن گیا ہے۔
ہاؤسنگ سوسائٹیز،الیکٹرونکس کمپنیز کی بینکوں کے ذریعے تجارت:
ہمارے ملک میں اب یہ صورت حال یہ ہے کہ ہم نے آسان قرضوں اور سہولت کے نام پر قسطوں کےذریعے گھر، کاروبار اور یہاں تک کہ الیکٹرونکس کی اشیاء میں بھی سود کو شامل کر لیا ہے۔اور اس کو ہم شریعت کی دی ہوئی سہولت سمجھ کر پروموٹ کر رہے ہیں۔ ان ساری کمپنیوں نے اپنے کسٹمرز کو قرض حسنہ کی طرز کی سہولت دینے کی بجائے بینکوں کو اختیار دے دیا۔ یا بینکوں نے کمپنیوں سے اشیاء لے کر فروخت کرنا شروع کردیں۔کبھی کریڈٹ کارڈ کے جھانسے میں اور کبھی بچت اور سہولت کے نام پر سود کے دروازے نئے طریقوں سے کھول دئیے۔
سیاسی تنظیمیں:
اب رہی سہی کسر ہماری سیاسی و دیگر تنظیموں نے نکال دی ہے۔ اپنے مقا صد کے لیے اسلام کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ۔اسلام کے حسین نعروں کی آڑ میں ،نفاذ شریعت اور ختم نبوت کا نام لے کر سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام تو سارا ہی خوب صورت ہے۔ اور سب جانتے ہیں اسلام کی تعلیمات نے نظر و فکر کی دنیا بدل دی۔ اسلام کی باتیں جو بھی کرے چاہے وہ غیر مسلم ہی ہو وہ خوب صورت ہی ہیں۔ لیکن ہمیں ضرورت اس امر کی تھی کہ ان کی عملی تفسیر لوگوں کو دکھاتے۔
المختصر یہ کہنا چاہوں گی کہ ہم نے اپنے اردگرد کے ماحول میں اسلام کاری کی، یہاں تک کہ ہمارے تجارتی مراکز، ایجوکیشن سنٹرز اور دواخانے تک سب کے سب اسلامی بن گئے لیکن المیہ یہ ہے کہ سب کچھ میں اسلام کاری کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ اسلام کے نفاذ کی اصل ضرورت ہمارے چار، پانچ ، چھ فٹ کے ڈھانچے/ جسم کو تھی اگر اس پہ اللہ کا رنگ چڑھ جاتا تو ہمیں خالی نعروں سے نجات مل جاتی۔ ہمارا معاشرہ جنت کی نظیر پیش کرتا، اور ہم امن کے سائے تلے زندگی گزارتے۔ اب بھی اربابِ اختیار اور عوام الناس سے دردمندانہ التماس ہے:
پاؤ گے اماں دامن اسلام میں آؤ جھلسے ہو بہت سایہ قرآن میں آؤ
وما توفیقی الا باللہ۔