جدیدیت اور مغربیت سے متاثر نئی نسل کے ذہن میں مختلف قسم کی جو غلط فہمیاں پرورش پارہی ہیں انہی میں سے ایک غلط فہمی ’’شخصی آزادی‘‘ کے تعلق سے بھی موجود ہے ۔ عام طور سے جب لوگوں کو اسلامی احکام وآداب کو برتنے اور تقوی یا دینداری اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو شیطان اس دعوت سے متنفر کرنے کے لیے لوگوں کے ذہن میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ دینداری نام ہے بے پناہ حدود وقیود کا ، اسلامی زندگی عبارت ہے شخصی آزدی سے محرومی سے ، اسے اپنا کر آزادانہ زندگی کی پرکیف لذتوں اور رنگینیوں سے ناطہ توڑ لینا بڑی بیوقوفی اور نادانی کا کام ہے ، اس لیے تم ہر گز اپنے اختیارات سے دست بردار ہونے کے بارے میں نہ سوچنا ۔ الغرض اس طرح کی چکنی چپڑی باتیں انسان کے ذہن میں شیاطین الجن والانس دونوں ڈالتے ہیں ، اور اس قسم کے تصورات کا غلام بن کر ایک بندہ بزعم خویش آزادانہ من مانی زندگی گزارتا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ’’ آزادی ‘‘ کے معنی ومفہوم کو متعین کرنے میں ایسے لوگ زبردست فریب کا شکار ہیں ، حالانکہ معمولی غور وفکر سے ایک عام آدمی ’’ آزادی ‘‘ کی حدودِ اربعہ کی تعیین کر سکتا ہے ۔ عام طور سے فریب خوردہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے ، جیسے چاہے جیے ، اس کی مرضی اور منشا کے مطابق ہی اس کا ہر کام ہو ، اس کے ارادوں اور خواہشوں کی تکمیل کی راہ میں کوئی چیز آڑے نہ آئے ، یہی ہے آزادی اور یہی ہے خود مختاری ۔
آزادی کا یہ مفہوم بظاہر تو بھلا معلوم ہوتا ہے لیکن عملی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس مفہوم کا سقم واضح ہوتا ہے ، مثال کے طور پر آپ اپنی موٹرگاڑی سے جارہے ہیں ، آپ کی خواہش ہے بلکہ ہر سوار کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ پوری تیز رفتاری کے ساتھ چل کر کم سے کم وقت میں منزل مقصود تک پہنچ جائے ، تو کیا ایسی صورت میں آپ راستے میں سامنے پڑنے والے کسی بھی ذی روح کی پرواہ نہ کریں گے ؟ سڑک پر آنے جانے والی دوسری گاڑیوں اور راہ گیروں کا خیال نہ کریں گے ؟ چو راہوں پر نصب کیے گئے برقی اشاروں اور سگنلوں یا ٹریفک پولس کی ہدایتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے چلیں گے ؟ آزادی کو جس معنی میں آج سمجھا جارہا ہے اس کا تو تقاضا بہر حال یہی ہے ، لیکن ہر کس وناکس جانتا ہے کہ اس تقاضے پر عمل کرنے والے سوار کا حشر کیا ہوگا ، ایسا شخص منزلِ مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنی اور بہت سارے بے گناہوں کی جان سے کھیل جائے گا ۔ہلاکت ، تباہی وبربادی اور خسران دائمی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔
یہ مثال اور روز مرہ کی زندگی میں سامنے آنے والی لا تعداد مثالیں اس امر کی وضاحت کرتی ہیں کہ انسان کی آزادی بھی فطری طور پر حدود وقیود کی پابند ہے ۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح آپ انسان ہیں اور آزاد وخود مختار ہیں ویسے ہی دوسرے لوگ بھی انہی صفات سے متصف ہیں ، اگر آپ کی طرح تمام لوگ مزعومہ آزادی سے فریب کھا کر سڑک پر بے لگام چلنے لگیں تو منٹوں میں کیا ہو جائے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا ، عالمی سطح پر آزادی کے نام پر افرا تفری اور بے اعتدالی کا جو دور دورہ ہے وہ اسی فکر سقیم کا لازمی نتیجہ ہے ۔
نام نہاد آزادی کے علمبرداروں سے اگر پوچھا جائے کہ کسی دوکان یا ہوٹل کے لذیذ کھانوں اور مٹھائیوں کو دیکھ کر آپ کے منہ سے رال ٹپکنے لگے اور آپ کا نفس انہیں تناول فرمانے کا شدت سے خواہش مند ہو تو کیا آپ جھٹ اس کھانے پر ہاتھ ماریں گے اور اپنا پیٹ بھر کر چل دیں گے یا اس سے قبل اپنی جیب اور اپنی وسعت کا خیال کریں گے ، ایسے ہی کسی کی کوٹھی ، لباس ، سواری یا اور کوئی چیز آپ کو محبوب ہو اور آپ کا نفس اسے حاصل کرنا چاہے تو بلا کسی عوض معاوضہ کے آپ اسے اپنے قبضے میں کر لینے کو آزادی سے تعبیر کریں گے ؟
مغربی دنیا آزادی کی حمایت میں گلا پھاڑ رہی ہے ، وہی مغربی دنیا جو ایک مدت تک مشرقی دنیا کی گردن میں اپنی غلامی کا طوق ڈالے بے رحمانہ گھسیٹتی رہی ، اپنے جابرانہ تسلط کو قائم ودائم رکھنے کے لیے لاکھوں انسانوں کو خاک وخون میں تڑپایا ، ان کی املاک وجائداد کو خوب خوب لوٹا، ان کے قومی خزانوں کو اپنے یہاں منتقل کرلے گئے ، استغلال واستحصال کی جتنی بھی صورتیں ہو سکتی تھیں بروئے کار لائی گئیں ، اس وقت نہ حقوق انسانی کی پامالی ہوئی نہ انسان کی شخصی واجتماعی آزادی پر کوئی آنچ آئی ، اور اس کے ساتھ ساتھ آج بھی کئیں مسلم ممالک میں جو انسانی جائز حقوق و آزادی کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں دنیا اس سے اچھی طرح واقف ہے لیکن خاموش ہے۔اور اس سب کے باوجود آج وہی مغرب ’’حقوق انسان ‘‘ کا اپنے آپ کو تنہا علمبردار قرار دیتا ہے اور دنیا کی بقیہ قوموں کی انسانی ہمدردی تک کو شک وشبہہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔
اسلام نے پہلے ہی دن سے بنی نوع انسان کو ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کی ، اس کلمہ کا پہلا جزء ’’ لا الہ ‘‘ انسان کو ہر طرح کے قید وبند اورغیر اللہ کی غلامی وبندگی سے آزاد قرار دے کر دوسرے جز ’’ الا اللہ ‘‘ کے ذریعہ اس کو صرف ایک اللہ سے جوڑ دیتا ہے ، اس طرح اس کو زندگی کے ہر شعبہ میں ایسی آزادی عطا کرتا ہے جو دوسروں کی آزادی سے نہ ٹکرائے ۔ ایسی آزادی جو اخلاق وآداب کے تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھے ، ایک انسان اپنی زبان اور اپنے دیگر اعضاء وجوارح کے استعمال میں اسی حد تک آزاد ہے کہ اس آزادی سے دوسروں کی آزادی سلب نہ ہوتی ہو ۔
عہد نبوی میں ایک نوجوان بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر نبی اکرم ﷺ سے زنا کی اجازت طلب کرتا ہے وہاں موجود لوگ اس کی جرأت پر سخت برہم ہوئے اور قریب تھا کہ اس کو کوئی سزا دے بیٹھیں ، نبی ﷺنے انہیں روکا اور اس جوان کو اپنے قریب بیٹھایا اور بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس سے پوچھنا شروع کیا :
بتاؤ کیا تم اس بات کو پسند کروگے کہ کوئی تمہاری ماں کے ساتھ زنا کرے ؟
نوجوان فوراً بول اٹھتا ہے : اے نبیﷺ! میں آپ پر قربان جاؤں ، ایسا ہرگز مجھے منظور نہیں ، آپﷺ فرماتے ہیں : تو ایسے ہی دوسرے لوگ بھی اپنی ماؤں کے ساتھ اس فعل کو پسند نہیں کرتے ، پھر آپﷺ نے دریافت کیا : کیا تمہاری بیٹی کے ساتھ اگر کوئی یہ حرکت کرے تو تمہیں منظور ہوگا ؟ اس کے بعد اس کی بہن ، اس کی خالہ اور اس کی پھوپھی وغیرہ کے بارے میں آپﷺاس سے یہی سوال کرتے گئے اور وہ انکار کرتا رہا ، اور اللہ کے رسولﷺ ہر مرتبہ اس سے یہی کہتے کہ دوسرے لوگ بھی ایسے ہی اس عملِ بد کو پسند نہیں کرتے ۔ یعنی جس طرح تم ہرگز اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ تمہاری ماں ، بہن ، بیٹی وغیرہ کے ساتھ کوئی غلط حرکت کرے ایسے ہی تم اس قسم کی حرکت کسی بنتِ حواء کے ساتھ کروگے تو وہ بھی کسی کی ماں ، بہن ، بیٹی ہوگی اور اس کے بیٹے، اس کے بھائی اور اس کے باپ ہرگز اسے برداشت نہیں کریں گے ۔
کتنے اچھے اسلوب میں نبی آخر الزماںﷺ نے اس نوجوان کو سمجھا دیا کہ دوسروں کے احساسات وجذبات کو ملحوظ رکھنا کس طرح انسان کو غلط کاری سے محفوظ رکھتاہے ، اسی ضمن میں شخصی آزادی کے غلط مفہوم کے سقم کی نشاندہی بھی ہو گئی ، روایتوں میں آتا ہے کہ اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے اس جوان کے لیے دعا فرمائی اور اس طرح جب وہ نوجوان وہاں سے اٹھا تو زنا کی قباحت وشناعت کا نہ صرف قائل ومعترف ہو کر اٹھا بلکہ اس کے نزدیک زنا سب سے مبغوض حرکت قرار پائی ۔ ( رواہ احمد باسنادجید )
اس طرز پر سوچنے ، سمجھنے ، اور سمجھانے کی ضرورت ہے ، آزادی کے غلط مفہوم کا سہارا لے کر طاغوتی طاقتیں اسلام کو مسلمانوں سے اور مسلمانوں کو اسلام سے الگ تھلگ کرنے کی جو سازشیں رچ رہی ہیں انہیں بے نقاب کرنا اور بہکتے ہوئے قدموں کو مزید آگے بڑھنے سے روکنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ، شاعرِ مشرق بہت پہلے ہی ماتم کرچکے ہیں کہ
ہے کس کی یہ جرأت کہ مسلمان کو ٹوکے
حریتِ افکار کی نعمت ہے خداداد
چاہے تو کرے کعبے کو آتش کدۂ پارس
چاہے تو کرے اس میں فرنگی صنم آباد
قرآن کو بازیچہ تاویل بنا کر
چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد
ہے مملکتِ ہند میں اک طرفہ تماشا
اسلام ہے محبوس، مسلمان ہے آزاد