پہلا خطبہ:
ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو اپنی مخلوق سے واقف ہے، جو اپنی تقدیر میں دور بیں ہے،جو اپنی بخشش میں کرم والا اور اپنی تقدیر میں حکمت والا ہے۔ اُس کی ذات پاک ہے اور اُس کے لئے حمد ہے۔ اُس نے مخلوق کو پیدا کیا تاکہ وہ اُس کی عبادت کرے ،اُن پر انعام کیا تاکہ وہ اُس کا شکر بجا لائیں ۔ میں اُس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور شکر بجا لاتا ہوں۔ اللہ نے ایسے احکامات کو اپنے بندے پر مشروع کیا جو انہیں اُس کے قریب و نزدیک کرتے ہیں اور ایسا خیر و فضل عطا کیا جو اُس کے لئے کافی ہے اور اُسے اللہ کے سوا دوسرے سے بے نیاز کرتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبودِ برحق نہیں ،وہ یکتا ہے کوئی اُس کا شریک نہیں جو کمالِ صفات سے متصف اور خوبصورت نوازشوں سے معروف ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ آپ تمام مخلوق میں سب سے اعلیٰ درجہ اور سب سے معزز مرتبے والے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا درودُ سلام نازل ہو اور اچھی اور ہمیشہ رہنے والی پاک و صاف برکتیں نازل ہوں آپ ﷺ پراورآپ ﷺکے آل و اصحاب پر اور اُ ن پر جو صحیح طریقے سے آپ ﷺ کی پیروی کریں ۔
اما بعد!
اے لوگو ! میں تمہیں اور اپنےآپ کو تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اللہ تم پر رحم کرے۔دنیا پر غمگین نہ ہو اُس کا انجام تو فنا ہونا ہی ہے۔اپنے رب پر بھروسہ کرو وہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہتر کارساز ہے۔اللہ کے ذکر و شکر میں مشغول رہو اور وہ تمہیں اپنی بے شمار بھلائیوں سے نوازے گا۔اور خوب سے خوب استغفار کرو یہ غموں کو زائل کرتا ہے اور جان لو کے اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا کوئی بدل نہیں ہے۔ جو قرآن سے مانوس ہوااُسے کوئی تنہائی وحشت زدہ نہیں کرسکتی ،جس کی امیدیں بڑی ہوں گی اُس کی عبادت اچھی ہوگی۔ ماضی پر افسوس کرنا حاضر کو ضائع کرتا ہے تو جو کسی خیر کو دیکھے تو اُسے چاہیئے کہ اُسے پھیلائے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
النحل – 97
جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے۔
مسلمانو! آپ کے سامنے ایک عظیم سورت ہے ۔ایک ایسی سورت جو خاص ہمارے نبی ﷺ کے لئے ہے ۔ایسی سورت جس میں اللہ عزوجل آپ ﷺ کو تسلی دے رہا ہے اور آپ ﷺ سے خیر ِ کثیر کا وعدہ فرمارہا ہے اور آپ ﷺ کے دشمنوں کو لاوارث اور بے نام و نشاں ہونے سے اور بُرے ٹھکانے سے ڈرارہا ہے ۔اِس کے ساتھ ہی یہ سورت دین و دوعوت کے سلسلے میں ایمان کی زندگی اور اللہ کے دشمنوں اور اللہ کے دین کے دشمنوں کے تعلق سے اُس کے مؤقف کو پیش کررہی ہے ۔یہ عظیم سورت بندے کے تئیں اللہ کی حفاظت و نگرانی اُس کو ثابت قدم رکھنے اور اپنے نبی اور مومنوں کے لئے اچھا وعدہ اور ظالم و کافر ،اللہ اور اُس کےرسول ﷺ کے دشمنوں کےلئے بڑی وعید کو بیان کررہی ہے ۔
یہ چھوٹی سورت قرآن ِ کریم کی سب سے چھوٹی سورت ہے ۔ایک ایسی سورت جو انتہائی خوبصورت اور دل آویز ہے ۔اِس کےفوائد کتنے بھرپور ہیں اور اِس کی برکتیں کتنی زیادہ ہیں ۔یہ سورۃ الکوثر ہے۔
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿١﴾ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿٢﴾ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴿٣﴾
الکوثر – 1/3
یقیناً ہم نے تجھے (حوض) کوﺛر (اور بہت کچھ) دیا ہے۔ پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔ یقیناً تیرا دشمن ہی ﻻوارث اور بے نام ونشان ہے۔
اِ س معزز سورت میں اللہ عزوجل اپنے نبی و خلیل محمد ﷺ کو عظیم اور خوش کن پیغا م کے ذریعے خطاب فرمارہا ہے ۔ایک ایسا خطاب جو نوازشِ ربانی اور عطاءِ الٰہی پر مشتمل ہے :
إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ
الکوثر – 1
یقیناً ہم نے تجھے (حوض) کوثر (اور بہت کچھ) دیا ہے
کوثر جنت میں ایک نہر ہے جیسا کہ اس تعلق سے صحیح اور صریح حدیث میں وارد ہوا ہے بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نےفرمایا: جنت میں موجود نہر ِ کوثر اُن جملہ خیرِ کثیر میں سے ہے جو اللہ اپنے نبی محمد ﷺکو عطاکیا۔
جب سب سے کم تر جنتی کو جنت میں دنیا کے دس گنا کے برابر عطا کیاجائے گا تو اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں تصور کیجیئے کہ آپ ﷺ کو کتنا ملے گااور کتنا اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لئے جنت میں تیار کررکھا ہے ۔کوثر کثرت سے ماخوذ ہے جو کثیر ،مسلسل جاری اور بغیر رکے ،منقطع ہوئے بغیر جاری رہنے کے معنی میں ہے ۔کوثر ! قرآن ،حکمت ،دین ،حق ،ہدایت اور ہر وہ چیز جس میں دنیا اور آخرت کی سعادت ہے اور خیرِ کثیر ہے ۔ کوثر وہ کہ جس کے جس کے فیض کی کوئی انتہا نہیں کوثر وہ ہے کہ جس کی تعداد کو گنا نہیں جاسکتا اور کوثر وہ ہے کہ جس کے دلائل کی کوئی حد نہیں ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرما یا:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
الکوثر – 2
تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
اللہ نے اپنے نبی محمد ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ اِن دو عظیم عبادتوں نماز و قربانی کو جمع کریں ۔ نماز اور قربانی ایسی معزز عادت ہے کہ جن کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے سب سے معزز بدنی عبادت نماز ہے۔ بندے کےلئے نماز میں جو چیزیں جمع ہوتی ہیں وہ اِ س کے علاوہ کسی دوسری عبادت میں جمع نہیں ہوتیں۔ نماز قلب و جوارح کے خضوع اور عبادتوں کی مختلف اقسام میں منتقل ہونے سے عبارت ہے۔ جیسا کہ صاحبانِ دل و اعلی ٰ ہمت افراد اِس کو جانتے ہیں ۔ قر بانی سب سے معزز مالی عبادت ہے اور قربانی میں اللہ کے لئے ایثار کے ساتھ حسن ِ ظن ،قوت ِ یقین اور اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اُس پر بھروسہ اور یہ ساری چیزیں جس طرح مع ہوتی ہیں وہ ایک عجیب چیز ہےجبکہ اس کے ساتھ ایما ن و اخلاص بھی ملا ہوا ہو۔
نماز اور قربانی کا حکم “فائے عاطفہ ” کے ساتھ آیا ہے کے کہ اسباب پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اہلِ علم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو آپ ﷺ کو حوضِ کوثر اور خیرِ کثیر عطا کیا ہے تو اُس کا شکر بجالانے کا سبب نماز و قربانی ہے ۔
مسلمانو! نبی کریم ﷺ اپنے رب کے حکم کو بجالائے آپ ﷺ بہت زیادہ نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دونوں پاؤں سوج جاتے، آپ ﷺ بہت زیادہ قربانی کرتے یہاں تک کہ حجۃ الوداع کےموقع پر آپ ﷺنے اپنے ہاتھوں سے تریسٹھ قربانی کے جانور ذبح کیے۔ اسی طرح آپ عیدوں میں اور دوسری تقریبات کے موقع پر بھی جانور ذبح کرتے ۔
مسلمانو! اس عظیم سورت کا اختتام ایک عظیم مقصد کی تفسیر بیان کررہا ہےاور اِ س کی غایت کو واضح کررہا ہے ۔
إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ
الکوثر – 3
یقیناً تیرا دشمن ہی ﻻوارث اور بے نام ونشان ہے
آپ ﷺ سے بغض رکھنے والا ،نفرت کرنے والا اور آپ ﷺ کو ناپسند کرنے والا ہی ابتر ہے ۔ یعنی ذلیل جڑ کٹا جس کا نہ کوئی وارث ہو اور نہ کوئی نام و نشاں ہو ۔ ابتر ایسا بانج ہے جس سے نہ کوئی خیر نہ کوئی عمل ِ صالح اور نہ کوئی نیک اولاد نکلے ۔ ابتر ہر وہ شخص ہے جو محمد ﷺ سے عداوت اور بغض رکھنے والا، اس دین اور اس کے پیرو کاروں سے دشمنی رکھنے والاہے ۔ جس نے رسول اللہ ﷺ سے بغض و نفرت رکھا اور جس نے آپ ﷺ کی شریعت کو ناپسند کیا تو اللہ تعالیٰ اُس کو ہر خیر سے محروم کردے گا۔ اللہ تعالیٰ اُ س کے نام کو اور اُس کے اہل و مال کو بے نام و نشان کردے گاوہ اپنی دنیا و آخرت میں گھاٹے میں رہے گا۔اُس کی زندگی ایسی ہی بے برکت ہوگی جس سے وہ نہ کوئی فائدہ حاصل کرسکے گا اور نہ کوئی دلی سکون میسر ہوگا۔ چنانچہ وہ نہ تو خیر کو قبول کرے گا۔اورنہ ہی اس کا دل اُسے معرفت و محبت کےلائق بنائےگا۔ اُسے نیک اعمال سے پھیر دے گااور اُسے اس کے انصار ومددگار لوگوں سے محروم کردے گا۔اُسے تقرب اور نیک اعمال سے دور کردے گا۔وہ نہ تو ایمان کا مزہ اور اطاعت کی حلاوت چکھ سکے گا اور اعمال کی اِ ن اعمال کی انجام دہی کی صورت میں بھی اس کے دل پر اس کاکوئی اثر نہیں ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ جو شریعت لے کر آئے اس میں سے بعض کو جس نے ناپسند کیا اور بغض رکھا اور اپنی خواہش کےلئے اپنے پیروں یا اپنے شیخ یا اپنی جماعت کے لئے اُس کو رد کردیا تو وہ لوگوں کے کلام ،علوم و آراء کو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے علوم پر فوقیت دینے والا ہوگا۔اور وہ اس میں داخل ہوگا جو اس دین کے در پر ہوا۔ وہ ناکام ، الگ تھلگ اور جڑ کٹا ہے ۔
اللہ آپ پر رحم کرے ابو بکر بن عیاش رحمہ اللہ کے اِس قول پر غور کریں کہ اُن سے کہا گیا کہ مسجد میں ایک قوم بیٹھتی ہے اور اُن کے پاس دوسر ے لوگ بیٹھتے ہیں تو آ پ نے فرمایا: جو لوگوں کے لئے بیٹھے گاتو لوگ اُس کے پاس بیٹھیں گے لیکن اہلِ سنت مرجاتے ہیں اور اُن کا نام چلتا رہتا ہے اور اہلِ بدعت مرجاتے ہیں اور اُن کا ذکر بھی مرجاتا ہے ۔ اس لئے کہ اہلِ سنت نے اُس چیز کو زندہ کیا جسے رسول اللہ ﷺ لے کر آئے تو اُن کو بھی اللہ تعالیٰ کےاِس قول کا کچھ حصہ نصیب ہوا اور ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا ۔اور اہلِ بدعت انحراف اور اللہ کے رسول ﷺ کی شریعت سےدشمنی رکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کچھ حصہ اُ ن کو بھی نصیب ہوا کہ یقیناً تیرا دشمن ہی لاوارث و بے نام و نشان ہے ۔ محمد ﷺ جو لے کر آئے ہیں اُس سے بغض رکھنے والا اور نفرت کرنے والا ہر محروم و بے نام و نشان کا یہی حال ہے۔
اپنی خواہش یا اپنے مسلک یا اپنے شیخ یا جماعت یا گروہ کی برتری یا دنیا کی رغبتوں پر مشغول رہنے کی وجہ سے مسلمان کو ڈرنا چاہیئے کہ رسول اللہ ﷺ جو شریعت لے کر آئے ہیں اُس میں سے کسی بھی چیز کو ناپسند کرے یا اُسے رد کرے ۔ مسلمان کو چاہیئے کہ وہ سنت اور سیدھی راہ کو لازم پکڑے تاکہ وہ بے اثر و بےنام و نشان نہ رہ جائے اور اُس پر اس کا عمل رد نہ کردیا جائے کیونکہ ہلاک کرنے والی چیزیں تین ہیں : خواہشات کی پیروی کرنا ،مسلک و جماعت کےلئے تعصب برتنا اور دنیا اور اُس کی رغبتوں میں مشغول رہنا ۔
بھائیوں! اس بغض ناپسندیدگی اور نفرت کے مقابلے میں اللہ عزوجل نے اپنے حبیب ،نبی ،خلیل، محمد ﷺ کو اُن کےمتبعین کو اُن کی محبت و سنت کو اختیار کرنے والوں میں سے سچے لوگوں کو یہ کوثر عطا کیا ۔ ان کو دنیا و آخرت کا خیر عطا کیا، اُن کو دنیا میں ہدایت ،تائید ،آنکھوں کی ٹھنڈک ،نفس کی خوشی ،شرح صدر ،اللہ کا ذکر کرنے والا بہترین دل ،اپنی محبت اور ایسی نعمت عطا کی جس کے جیسی اس دنیا میں کوئی نعمت نہیں۔ اسی طرح اپنے نبی کریم ﷺ کو آخرت میں وسیلہ ،مقام ِ محمود ، حوضِ مورود اور شفاعت ِ کبریٰ عطا کیا اور اِس عظیم مقام پر حمد کا پرچم عطا کیا ۔
اے اللہ کے بندو! مسلمان جب اس عظیم کوثر کا تتبہ کرتا ہے جسے اللہ نے اپنے نبی محمد ﷺ کو عطا کیا ہے تووہ اُس کو بنوت اور اُس کی حفاظت میں اور قرآن ِ کریم اور اُس کی حفاظت میں حاصل کرے گا۔اللہ کے دین کی حفاظت میں سنت ِ مطہرہ کی حفاظت میں اور دینِ اسلام کے عظیم پھلاؤ میں پائےگا اور اُن پیروکاروں میں پائے گا جو زیادہ ہورہے ہیں کم نہیں ،مضبوط ہورہے ہیں کمزور نہیں ۔یہ سب کے سب اللہ کے نبیﷺ اور اللہ کے دین کی تعریف میں رطب اللسان ہیں ۔آپ ﷺ سے محبت کرتے ہیں اور آپ ﷺ کی حفاظت کرتے ہیں ، آپ کا دفاع کرتے ہیں آپ کے دین او ر کتاب کی حفاظت کرتے ہیں اور آپ کی شریعت کی تعظیم کرتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذکر کو ،آپ ﷺ کے دین کو اورآپ ﷺ کی شریعت کو تمام لوگوں کے لئے برتر اور برسرِ عام باقی اور ہمیشگی کےلئے تا قیامت محفوظ رکھا ہے ۔آپﷺ پر اللہ تعالیٰ کو درود و سلام ہو اور تاقیامت رہنے والی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔
وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا
النساء – 113
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ورحم تجھ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے تو تجھے بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا، مگر دراصل یہ اپنے آپ کو ہی گمراه کرتے ہیں، یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب وحکمت اتاری ہے اور تجھے وه سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ سب کو قرآن و سنت سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں اپنے لئے اور سب کے لئے مغفرت طلب کرتاہوں بے شک وہ بخشنے والا غفور رحیم ہے۔
دوسراخطبہ:
ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمارے لئے وہ دین مشروع کیا جس کا حکم اپنے بنی اور رسولوں کو دیا۔اس دین کو مکمل فرمایا اور اس کے ذریعے مومنوں کےلئے نعمت کو پورا کیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود ِ برحق نہیں میں حق و یقین کی شہادت دیتا ہوں کہ وہ یکتا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار و نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ،آپ موحدوں کے سردار اور متقیوں کے امام ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا دُرود و سلام اور برکت نازل ہو آپ ﷺ پر اور آپ کے نیک و کار اور پاک باز آل پر ،روشن و چمکدار اصحاب پر جو شریعت کو اٹھانے والے اور دین کے محافظ ہیں ،اور اُن پر جنہوں نے اچھے طریقے سے اُن کی پیروی کی ۔
اما بعد!
مسلمانو! اللہ کا پیمانہ انسان کے پیمانے سے الگ ہے او ر اُس عزیزو کریم کا ترازو کمزو و ناتواں کے ترازوں جدا ہے ۔ غور کرو جب کفار اور اُ ن کے سرداروں نے محمد ﷺ کے بارےمیں کہا اِن کو چھوڑ دو۔آپ لاوارث و بے نشان ہیں ،آپ دنیا سے بغیر وارث کے جائیں گے اور آپ کا معاملہ ختم ہوجائے گا۔ چنانچہ یہ عظیم سورت اِس حقیقت کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی کہ کس کا نام رہے گا اور کون بے نام و بے مراد رہے گا۔کہاں خیر و فیوض ہوں گے اور کہا نُقص ،نقد اور خسارے کی گھاٹیاں ہوں گی۔ کہاں کامیابی ،بلندی ،اقتدار و غلبے کے میدان ہوں گے ۔لوگ دھوکہ کھاتے ہیں فریب کا شکار ہوتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ اُن کے پیمانے اُن کے نظریات اور اُن کے معیار ہی حقیقت کو طے کرتے ہیں اور معاملات میں فیصلہ ساز ہوتے ہیں ۔ بلاشبہ دین حق اور اللہ کی طرف دعوت ممکن ہی نہیں ہے اگر وہ بے نام و نشان ہو۔اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اُس کے علمبرداربے نقشِ پا ہوں بلکہ یہ دعوت تو دین و دنیا میں اقتدار اور رفعت وشوکت اور غلبے سے عبارت ہے۔
اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اللہ تم پر رحم کرے اور جان لو کہ یہ عظیم سورت دین اور اہلِ دین کی نمائندگی کرتی ہے کہ اُن کے اندر کیا چیز پائی جاتی ہے اور ان کےلئے ہدایت ،خیر ،ایمان ،اللہ کی برکتیں اُس کی مدد اور کرم میں سے کیا کیا ہے ۔اور دین کے دشمنوں اور صاحبانِ کفر و ذلالت اور شرک و گمراہی کے لئے کیا ہلاکت و بربادی اور نام و نشان سے محرومی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے مجھ پرایک مرتبہ درود بھیجا اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود بھیجے گا اور اس کی دس برائیاں مٹادے گا۔
اے اللہ تو اپنی رحمتیں اپنی برکتیں سید المرسلین،امام المتقین خاتم النبین ،اپنے بندے اور رسول ﷺ پر نازل فرما جو خیر کے امام اور خیر کے قائد ہیں رسول ِ رحمت ہیں ۔ اے اللہ ! انہیں مقام ِ محمود سے نواز جسے سے اگلے اور پچھلے اُن پر رشک کریں اور اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان سے جو دُرست طریقے سے قیامت تک اُن کی پیروی کریں ۔یاکریم یا وہاب۔
اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔
اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔
اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔
اے اللہ ! تو فلسطین کی اور اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔
اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔
خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشيخ صالح بن حميد حفظه الله
تاریخ 23 شوال 1442هـ بمطابق 4 جون 2021