سنت نبوی ﷺ کا مقام و مرتبہ اوراس کی حجیت

پہلا خطبہ :

بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد بجالاتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں، ہم اپنے نفس کی برائی اور اپنے برے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالی ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ بہت زیادہ درودو سلام نازل ہوں آپ ﷺ پر ، آپ ﷺ کی آل اور صحابہ کرام پر۔

حمد و صلاۃ کے بعد!

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور خلوت و سر گوشی ہر حال میں اس کی نگرانی کا احساس اپنے دل میں قائم رکھو۔

مسلمانو! اللہ نے اپنے رسول محمد علی ایم کو ایسے عہد میں علم نافع اورعمل صالح کے ساتھ مبعوث فرمایا جب رسولوں کے آنے کا سلسلہ بند ہو گیا تھا، آسمانی صحیفے مٹ چکے تھے، اور اللہ کے کلام میں تحریف واقع ہو گئی تھی اور اس کی شریعت کو بدل دیا گیا تھا، چنانچہ آپ کی بعثت سے زمین ظلمت و تاریکی کے بعد روشنی سے جگمگا اٹھی، دلوں میں نفرت و دوری کے بعد محبت والفت نے جگہ لے لی، اللہ نے آپ کے ذریعے اپنے بندوں کو ہدایت کا راستہ دکھایا، راہ راست کی طرف رہنمائی کی، دین حنیف میں پیدا ہونے والی کبھی کو دور کیا، اور صراط مستقیم کو لوگوں کے لیے واضح کر دیا، اور آپ کی اتباع کو ہدایت اور کامیابی کا ضامن اور آپ کی معصیت کو ضلالت اور شقاوت کا سبب قرار دیا۔

 آپ کو کامل ترین رسالت، افضل ترین کتاب اور آخری شریعت دے کر بھیجا، اور ان کے ذریعہ بندوں پر حجت قائم کر دی اور ان کے تمام اعزار کو منقطع کر دیا، اور آپ نے اپنے رب کے پاس سے وحی کا ایسا نور لے آیا جس میں ہر قسم کی تاریکی کا خاتمہ ہے اور لوگوں کے لیے زندگی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِج مِنْهَا

الانعام – 122

ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے ؟ جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا۔

اور حق اور خیر و بھلائی کی طرف تفصیلی رہنمائی وحی کے بغیر نا ممکن ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

 وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلا الإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا

شوریٰ – 52

اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی۔ اس سے پہلے آپ یہ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا چیز ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے اس روح کو ایک روشنی بنا دیا، ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہیں اس روشنی سے راہ دکھا دیتے ہیں۔

اللہ تعالی نے اپنے رسول اکرم ﷺپر دو وحی نازل کی، اور اپنے بندوں پر یہ واجب قرار دیا کہ وہ ان دونوں پر ایمان لائیں اور ان میں موجود تمام امور پر عمل کریں، ( قرآن کی طرح) آپ میلی لی نام کے اقوال و افعال بھی اللہ کی طرف سے وحی ہیں، ارشاد باری تعالی ہے:

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىٰ ‎﴿١﴾‏ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ‎﴿٢﴾‏ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ‎﴿٣﴾‏ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ

النجم – 1/4

ستارے کی قسم جب وہ ڈوبنے لگے پر تمہارے رفیق نہ تو راہ بھولے اور نہ بے راہ چلے ہر وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ بھی نہیں کہتے ہیں جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔

 (اس سے ثابت ہوا کہ) آپ کی سنت قرآن کی طرح وحی ہے، جسے آپ کے پاس روح الامین جبریل علیہ السلام لے کر آئے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ

النساء – 113

اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی ہے اور آپ کو وہ کچھ سکھلا دیا جو آپ نہیں جانتے تھے۔

اور سلف کا اتفاق ہے کہ یہاں حکمت سےمراد سنت ہے۔

اور عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ”جو شخص بھی تم سے یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر جو کچھ نازل کیا تھا، اس میں سے آپ نے کچھ چھپالیا تھا، تو وہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ

المائدۃ- 67

کہ اے پیغمبر !جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے، یہ (سب) آپ (لوگوں تک پہنچا دیں۔

 امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”جب آپ کو رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث مل جائے تو اس کے برخلاف ہر گز کوئی بات نہ کہیں، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ اللہ ہی کا پیغام پہنچانے والے تھے “۔

نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام اور اپنی ساری امت کو ان کے معبود حقیقی اللہ تعالی سے اس قدر واقف کرایا گویا  کہ وہ اللہ کو اس کے صفات کمال اور اوصاف جلال کے ساتھ دیکھ رہے ہوں اور مشاہدہ کر رہے ہوں۔ انبیائے کرام، ان کی قوموں، ان کے واقعات اور ان کا انبیا کے ساتھ جو سلوک ورویہ رہا، ان سب کو اپنی امت سے اس تفصیل کے ساتھ بیان کیا گویاکہ وہ ان کے درمیان ہوں، نیز انہیں خیر وشر کے چھوٹے بڑے تمام راستوں سے اس قدر روشناس کرادیا کہ آپ  ﷺسے پہلے کسی بھی نبی نے اپنی امت کو اس قدر روشناس نہیں کرایا تھا۔

نبی اکرم ﷺ کی اتباع سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے اور گناہ معاف ہوتے ہیں، ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎﴿٣١﴾‏ قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ

آل عمران – 31/32

کہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیر لیں تو بیشک اللہ تعالیٰ کا فروں سے محبت نہیں کرتا۔

انسان ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق و یقین سے اس کا دل معمور نہ ہو جائے، بلا جھجھک آپ ﷺ کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم نہ کر دے اور آپ ﷺ نے جن چیزوں کی خبر دی ہے، ان کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے دل میں کوئی حرج اور تنگی محسوس کرنا نہ چھوڑ دے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

 إِنما الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمَّ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ

الحجرات – 15

 مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر (پکا) ایمان لائیں پھر شک و شبہ نہ کریں اور اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہاد کرتے رہیں یہی نیچے اور راست گو ہیں۔

انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات میں نبی اکرم ﷺ کے تابع ہو جائے، ارشاد باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ

الحجرات – 1

اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو۔

ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” یعنی ان سے پہلے کسی چیز میں سبقت نہ کرو بلکہ تمام امور میں ان کے تابع و فرمانبردار بن جاؤ“۔

بلکہ ایک بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو گا جب تک وہ دین کے ہر چھوٹے اور بڑے معاملے میں آپ ﷺ کی شریعت، سنت اور جو کچھ آپ نے لایا ہے، ان سب کو حاکم نہ بنالے۔ ساتھ ہی ساتھ آپ کے فیصلے کو انشراح صدر کے ساتھ قبول کرے، اس کے متعلق دل میں کسی طرح کی تنگی محسوس نہ کرے اور ان کے ہر حکم کے سامنے پوری طرح سر تسلیم خم کر دے، ارشاد باری تعالی ہے:

فَلا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تسليما

النساء – 65

سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔

حجت کے اعتبار سے قرآن وسنت دونوں یکساں اور برابر ہیں ، جو ان دونوں میں تفریق کرے اور یہ گمان کرے کہ دین کے معاملے میں قرآن ہی اس کے لیے کافی ہے ؛ تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو قرآن کی بعض باتوں پر ایمان رکھتا ہے اور بعض کا انکار کرتا ہے۔اس لیے کہ ان میں سے ایک کی پیروی دوسرے کی پیروی ہے، کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ میں با ہم کبھی بھی اختلاف نہیں ہوتا، جس طرح قرآن کریم کی آیتیں آپس میں متعارض نہیں ہوتیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا

النساء – 82

اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔

 لہذا ہر وہ چیز جس کا رسول الله ﷺ نے حکم فرمایا ہے، یا جس سے منع کیا ہے ، یہ اسی طرح ہے جس طرح اللہ نے حکم فرمایا، یا روکا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے: عنقریب تم میں سے کوئی مجھے جھٹلانے کی کوشش کرے گا، وہ اپنی مسہری پر تکیہ لگائے بیٹھا ہوا ہو گا اسے میری حدیث سنائی جائے گی تو وہ کہے گا کہ: ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ تعالی کی کتاب ہی کافی ہے، ہم جو چیز اس میں حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اور جو اس میں حرام پائیں گے اسے حرام سمجھیں گے ، جان لو کہ رسول اللہ ﷺ کا کسی چیز کو حرام قرار دینا اللہ تعالی کے حرام قرار دینے کی طرح ہے “۔ (امام حمد نے اسے روایت کیا ہے)۔

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سنت مطہرہ کی حجیت اور شرعی قانون سازی میں مستقل حیثیت ناگزیر دینی ضرورت ہے، اس کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خلفائے راشدین کسی کی بھی بات کو رسول اللہ ﷺ کی سنت پر فوقیت نہیں دیتے تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”میں کسی آدمی کے قول کی وجہ سے سنت رسول ﷺ کو ترک کرنے والا نہیں ہوں۔ اسی درست منہج پر علمائے ربانی عمل پیرا رہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ”مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی سنت واضح ہو جائے، اس کے لیے جائز نہیں کہ اسے کسی کے قول کی وجہ سے چھوڑ دے۔

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ‎﴿٨﴾‏ لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

الفتح – 8/9

 بے شک ہم نے آپ کو گواہ بنا کر بھیجا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا۔ تاکہ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی عزت کرو اور صبح اور شام اس کی پاکی بیان کرو۔ بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کر رہے ہیں“۔

اور جو اعراض کرتے ہوئے، یاکسی دوسری چیز کو ترجیح دیتے ہوئے سنت کو ترک کرتا ہے تو وہ سخت وعید کا مستحق ہو جاتا ہے۔ رسول الله ﷺنے فرمایا: ” جس نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے“۔ (بخاری و مسلم)۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” قرآن میں جس نفاق کا تذکرہ ہے اس سے مرادر سول اللہ ﷺپر خروج ہے“۔

حکم نبوی کی مخالفت دنیا و آخرت کی رسوائی کا باعث ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اور ذلت رسوائی اس کا مقدر بنادی گئی ہے جو میرے طریقہ کی مخالفت کرے“، (امام احمد نے اسے روایت کیا ہے)۔ نیز یہ نقصان اور برے انجام کا سبب ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

 وَمَنْ لَمْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِینَ سَعِيراً

الفتح -13

 اور جو شخص اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو ہم نے بھی ایسے کافروں کے لئے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔

 جو آدمی سنت نبوی ﷺ سے اعراض کرے، یا تکبر کی وجہ سے اس پر عمل نہ کرے، یا آپ ﷺ کے کلام اور شریعت میں شکوک و شبہات پیدا کرے، یا عقل، خیال اور ہو اپر ستی کی بنا پر اعتراض کرے تو وہ قیامت کے دن اپنے کیے پر پشیمان ہو گا، ارشاد باری تعالی ہے:

 يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا

الاحزاب – 66

جس دن ان کے منہ آگ میں الٹ دیے جائیں گے کہیں گے: اے کاش! ہم نے اللہ اور رسول کا کہا مانا ہوتا۔

جس شخص کو کسی کام میں نبی اکرم ﷺ کی سنت کا علم ہو جائے، پھر وہ جان بوجھ کر اسے چھوڑ دے تو یہ دل کی خمیدگی اور کجی کی علامت ہے، ابو بکر رضی اللہ فرماتے ہیں: ” جس چیز کے بارے میں مجھے علم ہو جائے کہ اللہ کے رسول ﷺ اسے کیا کرتے تھے تو میں اس پر عمل کرنا کبھی نہیں چھوڑ سکتا، کیونکہ مجھے خدشہ ہے اگر میں نے آپ ﷺ کی سنت کو ترک کر دیا تو میں راہِ راست سے بھٹک جاؤں گا“۔ (اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے)۔

 ہر وہ کام جو سنتِ نبوی ﷺ کے خلاف ہو ، اس میں بندے کے لیے کوئی خیر و بھلائی نہیں ہے، سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یقینار سول اللہ ﷺ کی ذات مبارک وہ میزان اور کسوٹی ہے جس پر چیزوں کو پیش کر کے پر کھا جاتا ہے، یعنی آپ ﷺ کے اخلاق، سیرت و کردار اورعادات پر، تو جو ان کے موافق ہو گا وہی حق اور سچ ہو گا اور جو ان کے بر خلاف ہو گا وہ باطل و مردود ہو گا“۔

 سنت نبوی ﷺ کو مضبوطی سے تھامنے اور تمام حالات میں اسی سے چمٹے رہنے سے ہی لوگ اضطراب و بے چینی کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکل سکتے ہیں، فتنوں اور لوگوں کے درمیان بہت زیادہ اختلاف کے وقت سیدھی راہ پر قائم رہنا بھی اسی پر منحصر ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یقینا تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا، چنانچہ ان حالات میں میری سنت اور میرے خلفاء کی سنت اپنائے رکھنا، خلفاء جو اصحاب رشد و ہدایت ہیں، سنت کو خوب مضبوطی سے تھامنا، بلکہ ڈاڑھوں سے پکڑے رکھنا ، نئی نئی بدعات و اختراعات سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا، یقینا ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے“۔ (اسے ابو دود نے روایت کیا ہے)۔

نبی اکرم ﷺ بندوں کو جنت کی طرف بلانے والے تھے، جیسا کہ کچھ فرشتوں نے نبی اکرم ﷺ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ: ” ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور وہاں کھانے کی دعوت کی اور بلانے والے کو بھیجا، پس جس نے بلانے والے کی دعوت قبول کرلی وہ گھر میں داخل ہو گیا اور دستر خوان سے کھایا اور جس نے بلانے والے کی دعوت قبول نہیں کی وہ گھر میں داخل نہیں ہوا اور دستر خوان سے کھانا بھی نہیں کھایا پھر انہوں نے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا کہ گھر تو جنت ہے اور بلانے والے محمد ﷺ ہیں۔ پس جو محمد ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کی اطاعت کرے گا اور جو محمد ﷺ کی نافرمانی کرے گا وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا اور محمد ﷺ اچھے اور برے لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں“۔ (اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے)۔

 اللہ تعالی نے اپنے بعد صرف اور صرف نبی اکرم ﷺ کو ہی قابل اتباع قرار دیا ہے، جس نے نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کی اور آپ ﷺ کی سنت کی پیروی کی تو اس کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ جیسا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا کہ جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔ “ (اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے)۔

آپ ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے پہلے اُس پرندے کے بارے میں بھی اپنی امت کو خبر دے دی ہے جو آسمان میں اپنے پروں سے اڑتا رہتا ہے۔ انہیں سونے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے، پینے سے لیکر قضائے حاجت تک کے آداب بھی سکھلائے ہیں، اور ان کے لیے عرش الہی ، کرسی، آسمان، فرشتے، جنات، جنت، جہنم اور روز قیامت کو ایسی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ جیسے انسان انہیں آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔

روز قیامت بندوں سے نبی اکرم ﷺ سے متعلق پوچھا جائے گا، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے مشقتوں، مصیبتوں اور دعوتی سرگرمیوں سے بھر پور بار برکت زندگی گزارنے کے بعد حجتہ الوداع کے موقع پر لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ”اور تم سے (روز قیامت) میرے بارے میں سوال ہو گا تو تم کیا کہو گے؟ ان سب نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ ﷺ نے اللہ تعالی کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیر خواہی کی۔ پھر آپ ﷺ نےاپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھاتے اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے فرمایا کہ: اے اللہ ! گواہ رہنا، اے اللہ ! گواہ رہنا۔ تین بار یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا (اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔ اور آپ ﷺ کے پروردگار نے بھی گواہی دی کہ آپ ﷺ نے اپنی ذمہ داری کو پورا کر دیا ہے ، اور اس وقت تک آپ ﷺ کو موت نہیں آئی جب تک بندوں پر آپ ﷺ کی حجت قائم نہیں ہوئی۔ ارشاد باری تعالی ہے:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

المائدۃ – 3

آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا۔

مسلمانو! دین اسلام کی اصل بنیاد: اللہ وحدہ کی توحید اور اس کے نبی محمد ﷺ کی رسالت کی ایک ساتھ گواہی دینا ہے، دونوں میں سے ایک کی گواہی دوسری سے کفایت نہیں کرے گی۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:

 فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا

التغابن – 8

تم الله اور اس کے رسول اور اس نور پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل کیا۔

اور بندہ (پیارے نبی ) محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی میں اسی وقت سچا تسلیم کیا جائے گا جب وہ آپ ﷺ کی اتباع کرے اور مکمل آپ ﷺ کا تابع فرمان بن جائے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ الله

النساء – 80

 جس نے رسول کی اطاعت کی در حقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” جس نفاق کا قرآن مجید میں تذکرہ ہے وہ نبی اکرم ﷺ کے متعلق نفاق رکھنا ہے “۔ آپ ﷺ کے اقوال و افعال شرعی حجت اور دلیل ہیں، آپ ﷺ کی سیرت اور طریقہ دین ہے جسے بطورِ دین اپنایا جائے گا، اور قبروں میں لوگوں سے ﷺ سے متعلق سوال کیا جائے گا اور آپ  ﷺ کے ذریعہ ہی ان کا امتحان لیا جائے گا۔

وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا ‎﴿٦٩﴾‏ ذَٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ عَلِيمًا

النساء – 69/70

اور جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔ یہ فضل اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ کافی ہے سب کچھ جاننے والا۔

اللہ میرے اور آپ کے لیے قرآنِ عظیم کو بابرکت بنائے۔

دوسراخطبہ :

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اس کے احسانات پر، اور ہر طرح کا شکر ہے اس کی توفیق اور انعامات پر، میں اللہ کی عظمت شان کا اعتراف کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، بے شمار در ورد و سلام نازل ہوں آپﷺپر، آپ ﷺکی آل اور صحابہ کرام پر۔

اما بعد !

 مسلمانو! اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو کیوں کہ یہ اس کی مضبوط رسی ہے، اور اپنے نبی ﷺکی سنت کی تعظیم و توقیر کرو، اور تعلیمات نبویہ ﷺ کو لازم پکڑو، اسی میں فکری بے راہ روی سے تمہاری حفاظت اور انجام کی سلامتی مضمر ہے۔ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” ہمارے علمائے سلف فرمایا کرتے تھے کہ سنت کو مضبوطی سے تھامنے میں نجات ہے“۔ کائنات کا کوئی بھی شخص پیغمبر ِ اسلام محمد  ﷺکی لائی ہوئی شریعت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، اور روئے زمین پر بسنے والے انسان سنتِ نبوی ﷺ کے ایسے ہی محتاج وضرور تمند ہیں جیسے وہ کھانے پینے کے محتاج ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ، اور اہل زمین کی بقا اسی وقت تک ہے جب تک ان میں سنت نبویﷺموجود ہے۔

آخری زمانے میں جب روئے زمین سے پیغمبروں کے آثار و نشانات مکمل طور پر مٹ جائیں گے تو اس وقت عالم علوی و سفلی سب تہس نہس ہو جائیں گے ، اور قیامت برپا ہو جائے گی۔

پھر جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی ﷺ پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہے:

 إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو ! تم ( بھی ) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ ! ہمارے نبی محمد ﷺپر درود و سلام اور پر ربرکتیں نازل فرما۔

اے اللہ ! خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، جنھوں نے حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کیے بلکہ تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، اور اپنے جود و کرم کی بارش برساتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، اے سب سے زیادہ کرم کرنے والے!۔

اے اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت و غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، دشمنانِ دین کو تہس نہس کر دے۔

 اے اللہ ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن و امان اور خوشحالی کا گہوارہ بنادے ۔

 اے اللہ ! ہمارے امام اور ان کے ولی عہد کو اپنے پسندیدہ امور کی توفیق دے، نیکی و تقوی کے کاموں پر لگا دے اور ان کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچا۔

اے سارے جہانوں کے پالنہار! تو مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کو قرآن مجید پر عمل کرنے اور تیری شریعت کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔

اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے ۔

ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف  نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

اللہ کے بندو! اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ وہ اللہ جو عظمت اور جلال والا ہے ، اسے یاد کرو وہ تمہیں یاد کرے گا اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو، وہ تمہیں اور زیادہ عطا کرے گا۔بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے، جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔

خطبة الجمعة مسجد النبویﷺ : فضیلة الشیخ ڈاکٹرعبدالمحسن بن محمد قاسم حفظه اللہ
6 جمادی الثانی 1444 ھ بمطابق 30دسمبر 2022

مصنف/ مقرر کے بارے میں

IslamFort