صراطِ مستقیم کا تعارف

پہلا خطبہ:

ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کےلئے ہے جو کریم و رحیم ہے۔میں اُس کے بھرپور فضل اور بہت زیادہ خیر پر اُس کی حمد بیان کرتاہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کےسوا کوئی معبود ِ برحق نہیں،وہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں،وہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہےاور جسے چاہتا ہے صراطِ مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں  کہ ہمارے سردار ،نبی ، اللہ کے بندے  اور اُس کےرسول ہیں۔ دُرست منہج اور عمدہ اخلاق کے مالک ہیں۔

اے اللہ ! دُرود و سلام نازل فرمااپنے بندے اوررسول محمد ﷺ ،اُن کی آل و اصحاب اور جودُرست طریقے سے اُن کی پیروی کریں اُن پر تا صبحِ قیامت۔

اما بعد!

اے اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرواور اُس سے ڈرو اور یاد رکھوکہ تمہیں اُس کےسامنے کھڑا ہونا ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ

النباٰ – 40

جس دن انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی کو دیکھ لے گا۔

يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ مَا سَعَىٰ

النازعات – 35

جس دن کہ انسان اپنے کیے ہوئے کاموں کو یاد کرے گا۔

يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ وَأَنَّىٰ لَهُ الذِّكْرَىٰ

الفجر – 23

اس دن انسان کو سمجھ آئے گی مگر آج اس کے سمجھنے کا فائده کہاں؟

مسلمانو! در حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والا راستہ ایک ہی ہے،کئی ایک نہیں ۔ اور وہ اُس کا وہ سیدھا راستہ ہے جسے اُس نے مقرر کیا ہے کہ جو اُس پر چلیں وہ انہیں اللہ تعالیٰ اور اُس کی خوشنودی اور جنت تک پہنچائے۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

الانعام – 153

اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راه پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وه راہیں تم کو اللہ کی راه سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے کے لئے واحد کے صیغے کا استعمال کیاکہ وہ اصلاً ایک ہی ہے،کئی ایک نہیں۔جبکہ اُس راستے کے مخالف راستوں کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا کہ وہ ایک سے زیادہ  یعنی متنوع ہیں ۔ جیسا کہ حدیث ِ مبارکہ میں آیا ہےجسے امام احمد نے اپنی مسند میں اور امام دارمی نے اپنی سنن میں حسن سند کےساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ  نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور فرمایا : یہ اللہ کا راستہ  ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اُس لکیر کے دائیں اور بائیں لکیریں کھینچیں اور پھر فرمایا: یہ راستے ہیں اور اِن میں سے ہر ایک راستے پر شیطان بیٹھا ہے جو اُس کی طرف بلا رہا ہے ۔پھر آپ ﷺ نے اِس آیت ِ کریمہ کی تلاوت کی :

وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

الانعام – 153

تو معلوم ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف لے جانے والا راستہ ایک ہی ہے۔اس لئے کہ اللہ پاک حقِ مبین ہے۔اور حق ایک ہے اور اُس کا مرجع ایک ہے اور جہاں  تک گمراہی کی بات ہے تو اُس کا شمار نہیں۔ یہیں سے شریعتوں کے تنوع اور اُن کے اختلاف کا پتہ چلتا ہے۔اگرچہ اُن سب کا مرجع ایک ہی ہےاسی وجہ سے اُن کے معبود اور دین ،دونوں میں وحدت پائی جاتی ہے ۔اسی سلسلے میں وہ حدیث ہے جسے امام بخاری و امام مسلم رحمہما اللہ نے اپنی اپنی صحیح میں ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انبیاء علاتی بھائی ہیں۔ اُن کی مائیں مختلف ہیں پر دین ایک ہیں۔

علاتی بھائی انہیں کہتے ہیں جن کے والد ایک ہوں اور مائیں متعدد ہوں۔اللہ کے رسول ﷺ نے انبیاء کے دین کوایک باپ سے تشبیہ دی اور اُن کی شریعتوں کو متعدد ماؤں سےتشبیہ دی جس سے معلوم ہوا کہ یہ شریعتیں ہر چند کہ متعدد ہوں لیکن اُن کا مرجع ایک ہی باپ ہے۔ اور جب یہ بات طے ہوگئی تو اِن میں سے کچھ وہ ہیں جن کا بنیادی عمل تعلیم و تعلم  کا راستہ ہوتا ہے ۔وہ اللہ عزوجل کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے اُس میں اپنے وقت کو لگاتے ہیں۔ وہ لگاتار علم و تعلیم کی راہ  میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اُس راستے پر چلتے چلتے اللہ رب العالمین تک پہنچ جاتے ہیں ، یا پھر اُس کی طلب کے راستے میں فوت ہوجاتے ہیں اور موت کے بعد مقصد تک رسائی  کی اُن کےلئے اُمید کی جاتی ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ

النساء – 100

اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکی طرف نکل کھڑا ہوا، پھر اسے موت نے آ پکڑا تو بھی یقیناً اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہو گیا ۔

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا بنیادی عمل تلاوتِ قرآن اور ذکر ہوتا ہے، یہی اُن کے اوقات پر غالب رہتا ہے وہ اپنی آخرت کے لئے اُسے توشہ بناتے ہیں،اپنے انجام کے لئے اُسے پونجی بناتے ہیں اور پھر جب اُن سے  اِس عمل کے سلسلے میں کوتاہی ہونے، لگتی ہے تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ دھوکے کا شکار ہوگئے ہیں اور نقصان اُٹھا یا ہے۔

اور لوگوں میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کا بنیادی عمل نماز ہوتی ہے تو جب اُس پر چلنے میں کوتاہی کرتے ہیں اور اِس پر وقت گزرتا ہے اور وہ اُس پر مشغول نہیں ہوتے اس کے لئے مستعد نہیں ہوپاتے تو اُن کا دل تاریک ہوجاتا ہے اور سینہ تنگ ہوجاتا ہے۔

لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جن کا راستہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے اور اُن کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنے کا ہوتا ہے ۔جیسے ضرورتیں پوری کرنا ،مصیبتوں کو دور کرنا ،پریشان حال لوگوں کی مدد کرنا گاہے بگاہے صدقات و خیرات کرنا۔ یہی راہ اُن پر کھولی گئی ہوتی ہےاور وہ اُسی راستے پر چل کر اپنے رب تک پہنچتے ہیں۔

لوگوں میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کا راستہ روزہ ہوتا ہے۔ جب وہ بغیر روزے کے رہتے ہیں تو اُن کے دل بدل جاتے ہیں اور اُن کی حالت خراب ہوجاتی ہے ۔ اور اُن میں سے کچھ ایسے ہیں جن کا طریقہ حج اور عمرہ ہوتا ہےجن کے ذریعے وہ اللہ رب العالمین تک پہنچتے ہیں اور کچھ لوگ اِن تمام اعمال کو جمع کرنے والے ہوتے ہیں ۔

ہر وادی میں اللہ تعالیٰ کی طرف چلنے والے ہوتے ہیں ۔ ہر راستے سے اُس کے لئے جانفشانی کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ بندگی کے وظائف کو اپنے دل کا قبلہ اور اپنانصب العین بنائے رکھتے ہیں۔جہاں بھی ہوں وہ اِسی کا قصد کرتے ہیں ، جہاں بھی جاتے ہیں یہ اُن کے ساتھ ہوتے ہیں، ہر قسم کی عبادت سے اپنا حصہ لیتے ہیں ۔ تو جہاں بھی بندگی ہو آپ انہیں وہاں پائیں گے ۔اگر علم کا معاملہ ہوتو آپ انہیں اہلِ علم میں پائیں گے ۔نماز کا معاملہ ہو تو آپ انہیں خشوع اختیارکرنے والوں میں پائیں گے۔ذکر کا معاملہ ہو تو آپ انہیں ذکر کرنے والوں میں پائیں گے۔ احسان اور رفع کا معاملہ ہو تو آپ انہیں محسنین کے زمرے  میں پائیں گے۔ یا پھر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے،اُس کی محبت میں انابت کا معاملہ ہو تو آپ انہیں انابت اختیار کرنے والے محبین میں پائیں گے۔ وہ بندگی اختیار کرنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں پھر جہاں بھی اُن کاقافلہ چلے اور اُس کی طرف گامزن رہتے ہیں جہاں بھی اُس کے خیمے لگیں ۔

اللہ کے بندو! یہی وہ بندے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف چلنے والے ہیں۔حقیقت میں اُس تک اس طرح پہنچنا کہ دل اُس سے متصل ہو جائے اور اِس طرح اُس سے جڑ جائےجس طرح محبت کرنے ولا اپنے محبوب سے جڑ جاتا ہے کہ اِس کے سوا تمام مقاصد سے الگ بھی ہوجائے تو اُسے تسلی ہوجائےاور اُس کے دل میں سوائے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت کے اور کچھ  باقی نہ رہے اور اُس کا انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنے قریب کیا اور اُس کے دل کو اپنی طرف متوجہ کرلیا اور اُس کے تمام معاملاتِ دین و دنیا کی نگرانی کی ،جس نے اُس میں سے کچھ چکھا اوراللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے کو جانا اور پھر اُسے چھوڑ دیا تو اُس کی زندگی عاجزی ،غم اور عذر سے عبارت ہوگی اور اُس کی موت تکلیف اور حسرت ہوگی اوراس کا انجام افسوس و ندامت ہوگا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے اپنے رب کی طرف لے جانے والے راستے کو جانا اور پھر اُس سے منہ موڑ کر ،اپنے منہ کے بل گرتے ہوئے اُسے چھوڑ دیا۔ ایسا آدمی اگر  کچھ  دیر کے لئے لطف اندوز ہو بھی جائے اور اپنی راہ سے کچھ لذت بھی حاصل کرلے تو وہ توحید کی وسعت، اُس کے میدانوں ، محبت کے باغیچوں اور اُس قربت کے دسترخوانوں پر آزادانہ گھومنے سے محروم ہی رہے گا۔

اللہ کے بندو! جس نے بالکل ہی اللہ تعالیٰ سے اعراض برتا تو اللہ تعالیٰ بھی اُس سے بالکل اعراض برتے گا۔اورجس سے اللہ تعالیٰ اعراض برتے تو اُس کے اعمال و افعال میں بدبختی و محرومی لازم آئے گی۔تو معلوم ہوا کہ مکمل محروم وہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والے راستے کو جاناپھر اُس سے اعراض برتا یا اُس نے اللہ تعالیٰ کی محبت کی روشنی کو پایا اور پھر اُس سے محروم کردیا گیا اوراُس کے ذریعے وہ اپنے رب تک نہ پہنچ پایا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سچ فرمایا:

وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ‎﴿١٢٤﴾‏ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ‎﴿١٢٥﴾‏ قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنسَىٰ

طٰه – 124/125/126

اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ وه کہے گا کہ الٰہی! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا۔ (جواب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہئے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ہدایت اور اپنے نبی کریم ﷺ کی سنت سے فائدہ پہنچائے ۔ میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور ہر گناہ پر اللہ عظیم و جلیل سے اپنے لیے اور آپ سب سے کے لیےاور بقیہ تمام مسلمانوں کے لیے بھی بخشش طلب کرتا ہوں۔ بلاشبہ وہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے،وہ اپنی اطاعت کرنے والوں کو عزت دینے والا اور اپنی نافرمانی کرنے والوں کو ذلیل کرنے والا ہے۔میں اُس پاک ذات کی حمد بیان کرتاہوں جس کے سوا کوئی رب نہیں اورجس کا کوئی معبودنہیں ۔اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ رب العز ت کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں وہ اپنی بلندی میں منفرد  ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اورا ُس کےرسول ہیں اور مخلوقات میں اُس کے منتخب کردہ اور پسندیدہ ہیں۔

اے اللہ ! درود و سلام نازل فرمااپنے بندے محمد ﷺ ،اُن کی آل اور اُن کے اصحاب پر اوراُن پر جو قیامت تک اُن کے نقشِ قدم کی پیروی کریں اور اُن کے طریقے کی مطابعت کریں ۔

اما بعد!

اللہ کے بندوں ! جب اللہ تعالیٰ اپنی طرف آنے والے بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اُس بندے کی زندگی روشن ہوجاتی ہے ،اُس کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں اور جلال و جمال کی رونق و شادابی کی شکل میں اُس کے متوجہ ہونے کے اثرات بندے پر ظاہر ہوتے ہیں اور فرشتے محبت و دوستی کے ساتھ اُس کی طرف بڑھتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آقا کے تابع ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے وہ بندہ بھی اُس سے محبت کرتا ہے ۔

جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو وہ جبریلِ امین علیہ السلام کو بلاتا ہے اور کہتا ہے : میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو تم بھی اُس سے محبت کروچنانچہ جبریل علیہ السلام اُس بھی اُسے محبت کرنے لگتے ہیں اور پھر وہ آسمان میں آواز لگاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہےتو تم بھی اُس سے محبت کرو۔پھر اُس کے لئے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے ۔ متفق علیہ

اور اللہ تبارک  و تعالیٰ اپنے دوستوں کے دلوں کو ایسا بنا دیتا ہے کہ وہ  محبت و مودت اور رحمت کے ساتھ اُس بندے کی طرف بڑھتے ہیں ۔ اب سوچو اُس کا کیا مقام ہوگا۔جس کی طرف مالک الملک محبت کے ساتھ متوجہ ہو۔ اپنی مختلف انواع کی کرامتوں کے ساتھ اُس کی طرف مائل ہو اور ملاءالاعلیٰ والے فرشتے اور اہلِ زمین اکرام و تعظیم کے ساتھ اُسے دیکھیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے نوازتا ہے اور اللہ تعالیٰ عظٰیم فضل والا ہے ۔

اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور عمل میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اور اللہ کے نبی کریم ﷺ کی پیروی کے بعد ہر اُس چیز پر عمل کرو جس کے ذریعے تم اللہ تعالیٰ کی محبت تک پہنچ سکتے ہو۔ اور درود و سلام بھیجو مخلوقات میں سب سے افضل محمد بن عبداللہ ﷺ پر کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اِس کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

ہماری طرف سے نبی کریم ﷺ اور اُن کے اہلِ خانہ پر درودو سلام ہو ۔لاتعداد و بے شمار کہ اگر گنا جائے تو ختم نہ ہوں۔جس کے سبب ہمارے مالک و خالق کے نزدیک ہمارے درجات بلند ہوتے ہیں جو کہ نجات ہے اور پیشانی پر تمغہ ہے ۔

اے اللہ اپنے نبی کریم ﷺ پر اور ان کی آل پر رحمتیں اور برکتیں اُسی طرح نازل فرما جس طرح تو نے ابراھیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں ہیں۔

 اے اللہ! تو راضی ہوجا ان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان ابو بکر ،عمر،عثمان ،علی  سے اور تمام صحابہ اور تابعین سے اور ان ہی کے ساتھ ہم سے بھی اپنے جود وکرم سے ۔یا اکرم الاکرمین

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو غلبہ دے۔ اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو غلبہ دے۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! مسلمانوں کو متحد کردے ۔

اے اللہ ! اپنے دین اور اپنی کتاب  کی مدد فرما اور اپنے نبی کریم ﷺ کی سنت کو غلبہ دے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔

اے اللہ ! دلوں کو تقویٰ دے اوراُن کا بہترین تزکیہ کر۔ تو ہی اُن کا آقا ہے ۔

اے اللہ! ہمارے دین کی حفاظت فرما اور ہماری دنیا کی حفاظت فرما کہ جس میں ہمارا معاش ہے اورہماری آخرت  کوہمارے لیے دُرست کردے۔

اے اللہ ! زندگی کو ہمارے لیے خیر کی زیادتی کا ذریعہ بنا اور موت کو ہر طرح کے شر سے نجات کا ذریعہ بنا۔

اے اللہ ! دین و دنیا کی ذلت سے ہماری حفاظت فرما۔

اے اللہ! نعمتوں کے زوال سے ہم تیری پناہ چاہتے ہیں اور تجھ سے بھلائی کرنے کی توفیق چاہتے ہیں۔

اے اللہ! تو دین کے  دشمنوں کے مقابلےمیں ہمارے لیے کافی ہوجا۔ اے اللہ! تو ہمارے دشمنوں کے مقابلےمیں ہمارے لیے کافی ہوجا۔

اے اللہ ! ہمارے بیماروں کو شفاءِ کاملہ عطا فرما۔

اے اللہ ہمارے مرحومین  پر رحم فرما۔

اے اللہ ! تو فلسطین کی اور  اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ،اگر تو نے ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ً خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھلائی دے ،ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔اور درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر ،آپ ﷺ کی آل  و اصحاب پر  اور ہر طرح کی تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ  اسامه خیاط حفظه اللہ
تاریخ 2 ربیع الاول 1443هـ  بمطابق 8 اکتوبر 2021

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اُسامہ خیاط حفظہ اللہ

مسجد الحرام کے عظیم المرتبت خطباء میں ایک نام ڈاکٹر اسامہ خیاط کا ہے، آپ 12 فروری 1956ء کو پیدا ہوئے ۔ ام القریٰ یونیورسٹی مکہ المکرمہ سے پی ایچ ڈی کیا اور پھر یہیں تدریس بلکہ کتاب و سنت ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی رہے ۔ آپ ایک بلند پایہ مصنف بھی ہیں اور رابطہ عالم اسلامی کے بنیادی رکن بھی ہیں۔