پہلا خطبہ :
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے۔ اسی سے معافی کی امید ہے۔ اس کی ہیبت و شوکت کا خوف ہے۔ اس کے فضل کی طلب ہے اور اس کی مہربانی کی توقع ہے۔ میں اس کی نعمتوں پر شکر کرنے والے اور مزید نعمتوں کی طلب رکھنے والے کی طرح شکر ادا کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ اپنی بلندی میں باوقار ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سر دار اور نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور اس کے چنیدہ ہیں۔
اللہ کا درود و سلام نازل ہو آپ پر ، آپ کے ال پر اصحاب پر اور جو ان سے دوستی کریں ان پر اور بہت زیادہ سلامتی ہو۔
اما بعد !
اللہ کے بندوں ! اللہ کا تقوی اختیار کرو کہ اللہ کا تقوی اگلے پچھلوں کے لئے اللہ کی تلقین ہے ۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے:
وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ۚ
النساء – 131
اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے تھے اور تم کو بھی یہی تلقین کی ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔
مسلمانوں! یہ حقیقت کبھی مسلمانوں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ شیطان ایسادشمن ہے۔ جو تھکتا نہیں اور بندوں کی دشمنی میں کوتاہی نہیں کرتا۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ
فاطر – 6
یاد رکھو شیطان تمہارا دشمن ہے۔ تم اسے دشمن جانو۔
شیطان اپنی پوری قوت سے ہم سے دشمنی کر رہا ہے۔ اس لئے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس کا مقابلہ کرنے میں اپنی پوری قوت طاقت جھونک دیں۔ اور اللہ کا لگا تار ذکر کر کے اس کے مکر سے اپنی حفاظت کریں ۔ اور ہم ان میں سے نہ ہوں۔ جن کے بارے میں اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا :
اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ
المجادلة – 19
ان پر شیطان نے غلبہ حاصل کرلیا ہے، اور انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے یہ شیطانی لشکر ہے۔ کوئی شک نہیں کہ شیطانی لشکر ہی خسارے والا ہے۔
ان باریک مسائل میں سے جو ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں پر مخفی رہ جائیں۔ اور شیطان کے خبیث جالوں اور بڑے مکر و فریب میں سے ان کا شمار ہو۔ وہ یہ ہے کہ شیطان بندے کو حرام کاموں میں ڈالنے پر ہی اکتفا نہیں کرتا۔ بلکہ اسے فرائض کے چھوڑنے کی راہ پر بھی ڈال دیتا ہے۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ بندہ معصیت میں پڑنے کے ساتھ تو بہ سے مایوس ہو جائے۔ اور اپنی حالت سے نکلنے کے معاملے میں خود کو عاجز سمجھے اور یہ چیز اسے تمام طرح کی نافرمانیوں کے ارتکاب کی طرف لے جائے۔ اور اس کا یہ اعتقاد ہو جائے کہ جب تک وہ گناہ کر کے خود پر ظلم کر رہا ہے۔ اس کے لئے تو بہ نہیں، اور اپنے لئے اسے جائز سمجھے کہ اللہ نے اس پر جو فرض کیا ہے اور واجب کیا ہے۔ اس کی ادائیگی سے رکار ہے۔ اس حجت کے ساتھ کہ اس جیسے نافرمان کے لئے درست نہیں کہ وہ نماز پڑھے ،روزہ رکھے، نصیحت کرے، بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور نیکی کے کام انجام دے۔
ابلیس کی کتبی بڑی تلبیس ہے اس کے اوپر کہ اس نے اسے یہ بات سمجھا دی کہ وہ اپنے دین اور اپنے اوپر واجب فریضہ سے اپنا رستہ توڑ لے۔ اور یہ اس کی حالت ہوتی ہے۔ جو اس سے ناواقف ہو تا ہے۔ جو گناہ گار کو کرنا چاہیے۔ جیسے تو بہ استغفار اور نماز کی طرف جلدی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف رہنمائی کی ہے ۔ اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ
ھود – 114
دن کے دونوں سروں میں نماز بر پارکھ اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی ۔ یقینا نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔
اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر تم گناہ نہیں کرتے تو اللہ تمہیں ختم کر دیتا۔ پھر ایک ایسی قوم کو لاتا جو گناہ کرتی اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتی۔ اور اللہ انہیں بخش دیتا “۔
اے اللہ کے بندوں! جب کبھی شیطان تمہیں کسی غلطی میں ڈالنے میں کامیاب ہو جائے اور کسی لغزش میں گرا دے۔ تو وہ کرو جس کی طرف نبی اکرم ﷺ نے اپنے اس قول سے تمہاری رہنمائی کی ہے: ”برائی کے بعد بھلائی کرو۔ بھلائی اس برائی کو مٹادے گی “۔
اور اگر ایسا ہو کہ تو بہ کے بعد دوبارہ تم سے گناہ ہو جائے ۔ تو تمہیں دوبارہ اس شفابخش دوا کی طرف لوٹنا چاہیے۔ اور تمہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ شیطان دو دو بار تم پر غلبہ پالے ۔ ایک بار گناہ میں تمہیں ڈال کر اور دوسری بار فرمابرداری سے تمہاری کنارہ کشی سے۔ اور کوشش کر کہ تو اپنے لئے فرمابرداری کا ٹھوس راستہ بنالے۔ جو ترے گناہ میں پڑنے اور معصیت کے ارتکاب کرنے سے متاثر نہ ہو ۔ اور تمہارے اوپر چاہے تمہارا نفس جتنا بھی غالب آجائے۔ تمہیں روزانہ کے ثابت اعمال کو نہیں چھوڑنا ہے۔ جیسے قرآن ،نماز، ذکر اور دعا جو کہ تمہارا ایمانی توشہ ہے اور مضبوط قلعہ ہے ۔ مثال کے طور پر اگر تم ان لوگوں میں سے ہو جو باجماعت نماز کے حریص ہوتے ہیں اور قرآن و ذکر میں تمہارا متعین حصہ ہو اور تم کسی گناہ میں پڑھ گئے تو یہ چیز تمہیں ان نیک اعمال میں سے کسی کے چھوڑنے پر نہ ابھارے جن کے تم عادی رہے ہو۔ اور اس بات سے بچو کہ بد حالت سے بدتر حالت کی طرف جاؤ۔ چنانچہ چھپ چھپا کر گناہ کرنے کی حالت سے علی الاعلان دکھلا کر گناہ کرنے کی حالت کی طرف منتقل مت ہونا۔ لگاتار گناہ نہ کرنے کی حالت سے لگاتار گناہ کرنے کی حالت کی طرف مت جانا ۔ صغیرہ گناہوں کے ارتکاب کی حالت سے کبرہ گناہوں میں پڑنے کی حالت کی طرف مت جانا۔ اور کبیرہ گناہ میں پڑنے کی حالت سے اس شخص کی حالت کی طرف مت منتقل ہونا جو اپنے لئے نافرمانیوں کو جائز سمجھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کن حرمتوں کو پامال کیا، اس کی کو کوئی پر باہ نہیں کرتا۔ اللہ کی پناہ !
تو اے خطاکار ”اور ہم سب خطا کرنے والے ہیں “اس شخص کی طرح مت ہو جا۔ جسے شیطان نے زنجیر میں جکڑ دیا ہے۔ اور اسے خیرواحسان سے روک دیا ہے۔ اور اس کی نافرمانیاں حائل ہو گئی ہیں کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح کرے۔ اور اپنی کمی کی تلافی کرے۔ لوگوں میں ایسے ہیں کہ اگر انہیں گناہوں میں سے کچھ چھوڑنے کو کہا جائے تو وہ اڑ جاتے ہیں اور نصیحت قبول نہیں کرتے۔ اس حجت کے ساتھ کہ اس کے اندر ایسی بڑی بڑی نافرمانیاں پائی جاتی ہیں جن سے نصیحت کرنے والا واقف نہیں۔ اور معاملہ صرف اسی مخالفت پر منحصر نہیں۔
اس لئے کہ ہر گناہ کی ایک خاص تو بہ ہے۔ اور ہر ایک گناہ سے توبہ دوسرے گناہوں سے توبہ پر موقوف نہیں ہوتی۔ جیسا ایک گناہ دوسرے گناہ سے جڑا ہوا نہیں ہو تا۔ اور عقل مند کو چاہیے کہ وہ شیطان کی چال میں نہ آئے۔ اور کرم و احسان کرنے والے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ کیوں کہ انسانی نفس میں اچھی فطرت پائی جاتی ہے۔ جو خیر پر آمادہ ہوتی ہے۔ اور اسے پا کر خوش ہوتی ہے۔ شر کو نا پسند کرتی ہے۔ اور برائی کے ارتکاب سے غمگین ہوتی ہے۔ اور حق کے اندر اپنے وجود کی بقا اور حیات کی درستی دیکھتی ہے۔
عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو گم پایا جو ان کے پاس آیا جایا کرتا تھا۔ تو انہوں نے پوچھا کہ فلاں بن فلاں کا کیا حال ہے۔ لوگوں نے بتایا: اے امیر المومنین !شراب نوشی میں لگارہتا ہے۔ راوی کہتے ہیں۔ عمر نے کاتب کو بلوایا اور کہا:
لکھو عمر بن خطاب کی طرف سے فلاں بن فلاں کی جانب ۔ تم پر سلامتی ہو اما بعد! میں تمہارے سامنے اس اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں۔ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ جو گناہوں کو بخشنے والا تو بہ کو قبول کرنے والا سخت عذاب دینے والا اور انعام و قدرت والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ اسی کی طرف واپس لوٹنا ہے۔
پھر اپنے ساتھیوں سے کہا: اپنے بھائی کے لئے دعا کرو کہ اپنے دل سے اللہ کی طرف آئے۔ اور اللہ اس کی توبہ قبول کرے۔ جب اس آدمی کے پاس عمرہ کا خط پہنچا۔ تو اسے پڑھنے لگا اور بار بار دہرانے لگا اور کہنے لگا۔ گناہ کو معاف کرنے والا توبہ قبول کرنے والا سخت عذاب دینے والا اس نے مجھے اپنے عذاب سے ڈرایا اور مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے معاف کر دے گا۔ وہ بار بار خود پر اسے دہراتا رہا۔ پھر رویا پھر شراب نوشی چھوڑ دی۔ اور بہت اچھی طرح چھوڑ دی اور اس کی توبہ بھلی رہی۔
اللہ کے بندوں شیطان دھوکہ باز دشمن ہے۔ وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ بندہ بار بار گناہ کرنے اور خود پر نافرمانیوں سے ظلم کرنے کے بعد اللہ کی رحمت سے ناامیدی اور اپنے رب کے ساتھ سوئے ظن جیسے کبیرہ گناہ میں مبتلا ہو جائے۔ جو اس کے گناہ سے بھی بڑا گناہ ہے۔
اور اسی بڑی خرابی کو دفع کرنے کے لئے لوگوں کو اللہ کی رحمت سے ناامید بنانے اور مجرموں اور گناہ گاروں کو اللہ کی توبہ سے مایوس کرنے سے روکا گیا ہے۔ اور راست طبیعتوں کے لئے یہ عیب کی بات ہے کہ وہ کسی کو اُس کی گمراہی پر عار دلائیں۔
حدیث کے اندر ہے: ” ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم اللہ فلاں شخص کو نہیں بخشے گا۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا کہ کون ہے۔ جو میری قسم کھاتا ہے۔ کہ فلاں کو نہیں بخشوں گا۔ میں اسے بخش دیا اور تمہارے اعمال تباہ کر دیے“ ۔
چاہے بندے کی اپنے رب سے دوری کتنی بھی لمبی ہو۔ وہ جب تک مہلت کی مدت میں ہے۔ تو بہ کر سکتا ہے۔
ایک نہایت بُرا شخص اللہ کے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: آپ ﷺ کا اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے سارے گناہ کئے، کوئی بھی گناہ نہیں چھوڑا۔ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم مسلمان ہو گئے؟۔ اس نے کہا: جہاں تک میری بات ہے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! نیکیاں کرو، برائیاں چھوڑ دو۔ اللہ تعالی ان تمام کو تمہارے لئے نیکیاں بنادے۔ اس نے کہا: اور میری غداریاں اور برائیاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اس نے کہا: اللہ اکبر۔ پھر اس وقت تک تکبیر بیان کرتا رہا یہاں تک کہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔
اللہ کے بندوں! بلا شبہ اللہ کا فضل وسیع ہے۔ اسے کوئی عبارت پورے طور پر گرفت میں نہیں لے سکتی۔ اور نہ کوئی شرح بیان کرسکتا ہے۔ اس لئے کسی کو اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ جب کبھی بندے سے کوئی گناہ ہو جائے۔ تو اللہ کے اس قول :
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
222
اللہ تو بہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
کو ہمیشہ یادر کھتے ہوئے تو بہ کرنی چاہیے۔
اس کے اندر دوسرے گناہ میں پڑنے کے بعد دوبارہ تو بہ کرنے سے حرج محسوس کرنے والوں کے دلوں کا دلاسہ ہے۔ جو اللہ کے عظیم معافی کو جان لے گا اور یہ کہ اس کی رحمت انسانوں کے گناہوں سے زیادہ وسیع ہے۔ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہو گا۔ اور وہ بار بار تو بہ کرنے سے نہیں رکے گا۔
حدیث میں مذکور ہے کہ ایک بندے نے گناہ کیا اور کہا: اے اللہ ! میر ا گناہ بخش دے ۔ تو اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا اور اس نے یہ جانا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ کو معاف کرتا ہے اور گناہ پر مواخذہ کرتا ہے پھر اس نے دوبارہ گناہ کیا اور کہا :اے میرے رب ! میرا گناہ بخش دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا اور یہ جانا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ پر گرفت کرتا ہے۔ پھر اس نے کہا : پھر اس نے گناہ کیا اور کہا: اے میرے رب ! میرا گناہ معاف کر دے۔ اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا : میرے بندے نے گناہ کیا پھر اس نے جانا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ پر عذاب دیتا ہے۔ جو جی چاہے کرو میں نے تمہیں معاف کر دیا۔ یعنی جو جی چاہے کرو۔ جب تک تم کوئی نیا گناہ کرو اور اپنے گناہ سے توبہ کر لو اور مغفرت طلب کر لو“ ۔
کسی نے اپنے شیخ سے کہا : میں گناہ کرتا ہوں۔ شیخ نے کہا: تو بہ کر۔ اس نے کہا مجھ سے پھر گناہ ہو جاتا ہے ۔ شیخ نے کہا : تو بہ کر ۔ اس نے کہا: کب تک ؟ شیخ نے کہا : یہاں تک کہ تو شیطان کو غمگین کر دے۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں مایوس نا امید بنادے۔
ایمانی بھائیوں !جو پیغام ہر ایک مسلمان مرد اور عورت تک اور ہمیشہ گناہ کرنے والے ہر ایک گناہ گار تک پہنچنا چاہیے۔ وہ یہ ہے کہ انسان سیدھی فطرت خیر کی محبت اسے قبول کرنے اور ترجیح دینے پر اور برائی کو نا پسند کرنے اسے دفاع کرنے اور اسے ٹھکرانے کی فطرت پر پیدا کیا گیا ہے ۔ اس لئے اللہ کے ہر نافرمان کو چاہیے۔ کہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے۔ اور اس کے اندر جو خیر کے صفات پائے جاتے ہیں۔
انہیں جمع کرے، مضبوط کرے اور بڑھائے۔ یہ اوصاف جتنا مضبوط ہوں گے۔اس کے نفس کے اندر شر کے نقصانات مدھم پڑیں گے اور معصیت کی راہیں تنگ ہوں گی اور شیطان کے دروازے بند ہوں گے ۔ اسی طرح اسے چاہیے کہ اس نے جو برائیاں کی ہیں۔ انہیں اپنے اور توبہ “ مغفرت طلبی کے درمیان مضبوط دیوار نہ بنائے ۔ اور اسے جاننا چاہیے کہ ارحم الراحمین کی وسیع رحمت گناہ گاہوں کے لئے تنگ نہیں ہوتی۔ اور یہ کہ کوئی بھی کتنا بڑا ہو وہ انسان کو اسے نہیں روکتا کہ وہ گناہ سے بعض آنے کی کوشش کرے۔ تا کہ وہ تو بہ کرنے والوں میں سے ہو۔
یاد کیجیے! اس آدمی کو جس نے سو جانوں کو قتل کر دیا اور باوجود اس کے کہ اس نے بڑے بڑے گناہ کا ارتکاب کیا۔ وہ اپنی حالت سے مایوس نہیں ہوا اور اپنی سر زمین سے تو بہ کرتے ہوئے نکلا۔ اپنے دل سے اللہ کی جانب ملتفت ہوتے ہوئے۔ تو اللہ نے اسے اس سر زمین تک جانے والے راستے میں ہی موت دے دی۔ جہاں جا کر وہ عبادت کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اسے اللہ کی رحمت نے پالیا اور اس کی روح رحمت کے فرشتوں نے نکالی۔
اللہ کے بندوں! جب اللہ کے موحد بندے پر اللہ خیر کا کوئی دروازہ کھولے۔ تو اسے چاہیے کہ اسے لازم پکڑے۔ ہر چند کہ وہ اللہ کی اطاعت میں کو تاہ واقع ہوا ہو۔ آپ ﷺ نے اپنے اصحاب سے جو قصے بیان کئے۔ ان میں سے یہ ہے کہ ایک آدمی نے کبھی کوئی بھلائی نہیں کی۔ اور وہ لوگوں کو قرض دیتا تھا اور اپنے قاصد کہا کرتا تھا۔ جو آسانی سے مل جائے وہ لے لو ۔ اور جسے دینے میں دینے والے کو تنگی ہو اسے چھوڑو اور در گزر سے کام لو۔ امید ہے کہ اللہ ہم سے بھی در گزر فرمائے گا۔ جب وہ فوت ہو گیا تو اللہ نے اس سے کہا: کیا تم نے کبھی بھلائی کی؟ اس نے کہا: نہیں مگر یہ کہ میرا ایک غلام تھا اور میں لوگوں کو قرض دیتا تھا تو جب میں اسے تقعدہ کے لئے بھیجتا تھا۔ تو اس سے کہتا تھا۔ جو آسانی سے مل جائے وہ لو۔ اور جس میں دینے والے کو تنگی ہو۔ اسے چھوڑ دو۔ امید ہے کہ اللہ ہم سے درگزر کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تم سے در گزر کر دیا۔ اسی طرح ہمیں چاہیے کہ ہم اس شفاف فطرت کے گوشوں کو کام میں لائیں۔
مصلحین کو چاہیے کہ وہ لوگوں میں دینی رجحان کو مضبوط جن پر ہر انسان کو پیدا کیا جاتا ہے۔ کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے۔ اور خیر کا بیچ چاہے جتنا کمزور ہو بندے میں موجود رہتا ہے۔ ہر چند کہ بندہ لذت کوشیوں، شہوتوں اور برائیوں میں ڈوبا اورغرق ہو۔ اساتذہ اور کرنے پر کام کریں۔ ان کے نفوس میں پنہاں خیر کو کام میں لائیں۔ اور نافرمانوں کے یہاں جو باقی بچی ہوئی نیکی اور مروت ہے۔ اس کی توجہ اور دھیان سے نگہداشت کریں۔ جیسے انسان سبز چھوٹے پودے کی نگہداشت کرتا ہے۔ تاکہ وہ بڑھے اور بڑا ہو اور اس کے ارد گرد موجود بے کار درختوں کو ختم کر دیتا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ انہوں نے کہا: ایک آدمی اللہ کے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا: فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم جو کہ رہے ہو وہ اسے ایسا کرنے سے روک دے گی۔ “
اور انہیں سے روایت ہے کہ آپ ﷺ کے پاس ایک آدمی لایا گیا اور شراب پینے کے معاملہ میں اسے کوڑے لگائے گئے۔ اس پر قوم کے ایک فرد نے کہا: اے اللہ اس پر لعنت کر۔ اللہ کے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس پر لعنت مت بھیجو۔ اللہ کی قسم میں یہی جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اسے کیا ہو گیا ہے، اللہ اسے رسوا کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے بھائی پر شیطان کے مدد گار نہ بنو“۔
اسی طرح گناہ گار بندے کو اللہ تعالیٰ کی مہربانی اپنے آغوش میں لے سکتی ہے۔ اسے ایسی نصیحت پہنچ سکتی ہے۔ جو اس کے دل کے لئے بیداری کا سبب ہو۔ اور اس کی طاقت و صلاحیت کو بھلائی کی طرف پھیر دے۔ اور پاکیزہ نتائج رو نما ہوں۔ عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ ایک مرتبہ کوفہ کے علاقوں میں سے کسی ایک جگہ سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ کچھ فاسق جوان اکٹھے ہیں اور شراب پی رہے ہیں اور ان میں ایک گانے والا بھی ہے۔ اس کا نام زغان تھا۔ وہ موسیقی بجاتا اور گاتا اور اس کی آواز بہت اچھی تھی۔ اس سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا ہی اچھی یہ آواز ہے اگراس سے اللہ کی کتاب کی قرآت ہوتی۔ زغان کے دل میں ان کی بات نے بہت اثر کیا۔ اور ان کی زندگی کے راستے کو بدل کر رکھ دیا۔ انہوں نے توبہ کی اور وہ احسان و بھلائی کے مراتب میں ترقی کرتے چلے گئے ۔ اور پچھلی کو تاہیوں کی تلافی کر لی ۔ یہاں تک کہ توبہ کے بعد محدث اور امام ہوئے ۔ اور یہ کہا گیا کہ وہ بڑے علماء میں سے ایک ہیں رحمہ اللہ۔
اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
الزمر – 53
(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت والاہے۔
میں نے وہ کہا۔ جو آپ نے سنا اور میں اپنے لئے اور آپ سب کے لئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔
دوسرا خطبہ :
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے اور وہی کافی ہے۔ اور درود و سلام نازل ہو اللہ کے چنیدہ رسول ﷺ پر، آپ ﷺکی آل و اصحاب پر اور جنہوں نے ہدایت قبول کی ان پر۔
اما بعد !
اے اللہ کے بندوں! اللہ تم پر رحم کرے۔ جان لو کہ جو چیزیں تمہیں تو بہ کی طرف لے جاتی ہیں۔ ان میں ہمارا تمہارا یہ شعور ہے کہ اللہ نے اپنے اوپر رحمت کو واجب کیا ہے۔ اور اس کی معافی اور مغفرت اس کی تمام مخلوقات پر وسیع ہیں۔ اور یہ کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔ اور اس کے نزدیک توبہ کا دروازہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے وقت سے لے کر آخری زمانے تک کھلا ہوا ہے۔اور اللہ ہم سے چاہتا ہے کہ ہم تو بہ کریں ہدایت پائیں۔ اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ ہم گمراہ اور بخت ہو جائیں۔
حدیث میں ہے شیطان نے کہا۔ تیری عزت کی قسم اے میرے رب! جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی۔ میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا۔ اس پر اللہ عزوجل نے فرمایا : میری عزت و جلال کی قسم اور میں انہیں معاف کرتار ہوں گا۔ جب تک وہ مجھ سے معافی مانگتے رہیں گے۔
اس لئے اللہ کے بندے ! شیطان سے بچ کر رہو۔ اور جس نے اسے پیدا کیا ہے اس کی پناہ میں جاؤ اور اس کی طرف بھا گو کہ وہی اللہ پاک اسے تم سے بھگانے پر زیادہ قادر ہے۔
بعض اسلاف سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے اپنے شاگر د سے کہا: تم شیطان کا کیا کروگے اگر وہ گناہوں کو مزین کر کے تمہارے سامنے پیش کرے۔ شاگرد نے کہا: میں اس سے مقابلہ کروں گا۔ انہوں نے کہا: اگر شیطان پھر آئے؟ شاگرد نے کہا: میں پھر مقابلہ کروں گا۔ انہوں نے کہا: اگر وہ پھر آئے؟ شاگرد نے کہا: میں مقابلہ کروں گا۔ انہوں نے کہا:اس طرح تو یہ لمبا چلے گا ۔ یہ بتاؤ اگر تم بکری کے پاس سے گزرواور کتا تم پر بھوکے اور تمہیں گزرنے سے روکے تو تم کیا کرو گے؟ اس نے کہا: میں اس کا مقابلہ کروں گا اور اپنی طاقت کے مطابق اسے بھگاؤں گا۔ انہوں نے کہا: یہ تو تمہارے لئے بڑا لمبا ہو جائے گا۔ یہ کرو کہ بکری والے سے مدد طلب کرو، وہ اسے تم سے روک دے گا۔
ایمانی بھائیوں! اللہ کے نبی اکرم ﷺ کے اس قول: ” آدم کا ہر بیٹا خطا کار ہے اور خطاکاروں میں سب سے اچھے توبہ کرنے والے ہیں“ سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آدمی گناہ میں پڑ جائے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ گناہوں اور برائیوں کو اچھا سمجھے۔ اور گمراہی کے راستے پر چلتا رہے۔ اور ہدایت کی راہ نہ چلے۔ اور اس میں کوئی خطرہ نہیں کہ آدمی استقامت کے بعد غلطی کر بیٹھے۔خطرہ اس میں ہے کہ وہ اس طرح بیدار نہ ہو جو اسے غلطی کے بعد رب کی طرف لوٹادے۔
اے مسلمان بھائی ! توبہ کرنے میں جلدی کر ۔ پس و پیش میں مت رہ اور نہ ٹال مٹول سے کام لے۔ نہ اپنے رب سے دور ہو۔ اور نہ اپنے آقا سے اپنا رشتہ منقطع کر۔ اور نہ اپنے بارے میں یہ کہ کہ میرے اندر کوئی بھلائی نہیں اور میں توبہ کے لائق نہیں ہوں۔ یہ شیطان کے پوشیدہ راستوں اور اس کے خبیث جالوں میں سے ہے۔ تو ہر وہ شخص جسے شیطان نے بھٹکا دیا ہے اور ہر وہ شخص جو اللہ کے راستہ سے منحرف ہو گیا ہے اور ہر وہ شخص جو اپنے بہت زیادہ احسان کرنے والے رب سے بہت دور ہے اور ہر وہ شخص جس نے نافرمانی کر کے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اور ہر وہ شخص جس کی خطاؤوں نے اسے بھاری کر دیا ہے اور ہر وہ شخص جو مخلوقات کے رب کی رحمت سے مایوس ہو گیا ہے ہر وہ شخص جس پہ اس کی خواہش نفس ہاوی ہے اور اس کا دل تاریک اور اس کا سینہ تنگ ہو گیا ہے اور ہر وہ شخص جس نے یہ گمان کیا ہے کہ اس نے توبہ کی امید کھو دی ہے اور اس کا معاملہ تنگ ہو گیا ہے۔ ان تمام سے میں کہنا چاہتا ہوں کہ یاد رکھو کہ تمہارا رب بہت زیادہ رحم کرنے والا اور بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔ بہت معاف کرنے والا اور بہت قبول کرنے والا ہے۔ جب تم اس کی جانب بڑھو گے۔ وہ تمہیں قبول کرے گا۔ چاہے تمہارے گناہ جتنے بڑے ہوں۔ اور چاہے تمہارا معاملہ جو کچھ بھی ہو۔
حدیث میں ہے اللہ تعالی رات میں اپنا ہاتھ دراز کرتا ہے کہ دن کے گناہ گار توبہ کرلیں اور دن میں اپنا ہاتھ دراز کرتا ہے کہ رات کے گناہ گار تو بہ کرلیں، یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے اس کی طرف جلدی کرو۔ جس کی عفو و معافی پر گناہ گاروں کی لغزششوں نے بھروسہ کیا۔ تو وہ ان کے لئے وسیع ہوئیں۔ اور اس کے کرم سے محسنین کی امیدیں وابستہ ہوئیں تو ان کی امیدیں نہ ٹوٹیں اور توبہ کرنے والوں اور مانگنے والوں کی دعاؤوں نے پے در پے ساتوں آسمانوں کو چیرا۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں سنا۔ وہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ جتنا ایک ماں اپنے بیٹے پر رحم کرنے والی ہے۔ اور اپنے بندے کی توبہ سے اس آدمی سے زیادہ خوش ہونے والا ہے۔
جس نے ہلاکت خیز زمین میں اپنی وہ سواری کھو دی جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان ہو کیا یہ ہمارے لئے مناسب نہیں اور یہ ہمارے رب کی شان ہے کہ ہم اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس کی طرف لوٹیں اور ہمیں سب سے زیادہ اس کی مغفرت کی ضرورت ہے اور پلک جھپکنے بھر کو ہم اس کی رحمت سے بے نیاز نہیں سکتے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ہمیں ڈرنا چاہیے کہ ہمارے گناہ ہمیں روک دیں۔ اور ہم ہیں کہ ہمارے گناہ ہمیں روک دیں۔ اور ہم اپنے رب پر متوجہ ہونے سے رک جائیں۔ اور ہم معصیت میں اپنی حالت پر بر قرار رہیں۔
اللہ کے بندوں! یہ باتیں رہیں اور درود و سلام بھیجوں۔ اللہ کے بندے اور اس کے بہت زیادہ آہ و گریا زاری کرنے والے اور انابت کرنے والے چنیدہ بندے پر۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالی اس کے فرشتے اپنے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والوں! تم بھی ان کے اوپر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔
اے اللہ! درود و سلام نازل فرما محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ پر۔ جیسا تو نے درود ور حمت نازل فرمائی ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا کر۔ اور کفر اور کافروں کو ذلیل کر۔ دین کے دشمنوں کو تباہ کر۔ اسلام اور مسلمانوں کے ہر دشمن سے ملک حرمین کی حفاظت فرما۔
اے اللہ ! بلاد حرمین کو اور مسلمانوں کے بقیہ تمام ملکوں کو پر امن اور خوشحال بنا۔
اے اللہ! مہنگائی، وبا، بیماریاں، ربا، زنا، زلزلے، آزمائش اور ظاہر و باطن تمام فتنوں کو ہم سے ہمارے اس ملک سے بطور خاص اور بقیہ تمام مسلمانوں کے ملکوں سے دور کر۔
اے اللہ! ہمارے کمزور بھائیوں، تیری راہ میں جہاد کرنے والوں سر حدوں پر تعینات اور ان کی حفاظت کرنے والوں کا تو ہو جا۔
اے اللہ ! تو ان کا حامی و ناصر اور معین و مددگار ہوجا۔
اے اللہ ہمیں ملکوں اور گھروں میں امن سے نواز۔ سربراہوں اور حکمرانوں کی اصلاح فرما اور ہماری سربراہی انہیں دے جو تجھ سے ڈریں، تیرا تقوی اختیار کریں اور تیری خوشنودی کی پیروی کریں۔ اے رب العالمین !
اے اللہ! ہمارے سربراہ کو اس قول و عمل کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو اورجس سے تو راضی ہو۔
اے حی و قیوم! انہیں تو بھلائی اورتقوی کی راہ پر چلا۔
اے اللہ! ہمیں ہدایت دے۔ ہمیں ہمارے نفسوں کی خرابیوں سے بچا۔ اور ہمیں ان میں سے بنا۔ جنہیں تو نے ہدایت دی اور چن لیا۔ اور ان میں سے بنا جنہوں نے برائی کی تو مغفرت طلب کی اور جب ان کی یاد دہانی کرائی گئی۔ تو انہوں نے اسے قبول کیا۔
اے اللہ! ہم شیطان اور اس کے جال سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ اور اس سے تیری پناہ چاہتے ہیں کہ ہم خود اپنے لئے کوئی برائی انجام دیں یا کسی مسلمان تک کوئی برائی لے جائیں اور ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے۔
خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ فیصل غزاوی حفظه اللہ
موافق 14اکتوبر2022