مشہور حنفی عالم مُلّا علی قاری رحمہ اللہ مشکوٰۃ المصابیح کی شرح میں لکھتے ہیں:
‘‘پندرہ شعبان کی رات خاص طور پر فقراء کے لئے ہر قسم کے کھانے تقسیم کرنا، اس بارے میں کوئی حدیث مروی نہیں نہ مرفوع(جس حدیث کی سند کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچے) نہ ہی کسی صحابی کا عمل نہ ہی کوئی صحیح حدیث اور نہ ہی کوئی ایسی قابلِ حجت ضعیف حدیث۔ اور یہ اعتقاد رکھنا کہ اس رات کی روحیں حاضر ہوتی ہیں اور ان کی تکریم کے لئے گھروں کو صاف کرنا ، دیواروں کی ستھرائی، ضرورت سے زیادہ چراغاں، قندیلیں روشن کرنا….. اور اس طرح کے تمام کام گمراہی کے کاموں میں سے ہیں۔
ملاعلی قاری مزید فرماتے ہیں: اسلام میں آتش بازی کی ابتدا [برامکہ] نے کی۔ جو آتش پرست تھے اور جب مسلمان ہوئے تو دین کے لبادے میں انہوں نے آتش پرستی کو بھی اسلام میں داخل کردیا اور جب مسلمانوں کے ساتھ مل کر وہ رکوع و سجود کرتے تو ان کے پیشِ نظر آگ ہوتی تھی اور شریعت میں ضرورت سے زیادہ آگ جلانا کسی مقام پر بھی جائز نہیں ہے۔
ہوسکتا ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ میں ایک عام آدمی ہوں، مجھے دینی مسائل کا کیا پتہ؟ ہوسکتا ہے کہ کہیں آتش بازی عبادت ہی نہ ہو؟ تو پھر آپ ایسا کریں کہ اپنی ہی محلے کی مسجد کے کسی بھی مسلک کے عالمِ دین کے پاس جاکر ان سے یہ سوال کریں کہ
حضرت ! میں نے اپنے مکان کی منڈیر پر ہزار موم بتیاں روشن کیں، شوک میں کھڑے ہوکر پچاس پیکٹ پھل جھڑیوں کے چلائے، اعلیٰ قسم کے پٹاخے سڑک میں پھینکے، پوٹاش اور گندھک ملا بارود خوب چلایا۔ حضرت! اللہ کی قسم میرے پٹاخوں کی جو آواز تھی اس جیسی آواز پورے محلے میں کسی کی نہ تھی، اب بتائیے! کہ ڈھیروں سارے پٹاخے چلانے کا میرے نامہ اعمال میں کیا اجروثواب لکھا جائے گا؟ یقیناً وہ عالمِ دین سمجھے گا کہ یہ شخص یا تو قوف ہے یا میرے ساتھ مذاق کر رہا ہے کوئی شریف آدمی ان پٹاخوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اور نہ ہی یہ کھیل شریف لوگوں کو زیب دیتا ہے ، چہ جائےکہ مذہب اس کی تعلیم دیتا ہو۔
لوگوں کا چین و سکون جو چھین لیا، گھروں میں مریض اور بوڑھے جو بد دعائیں دیتے رہے، راہ میں سے گذرنے والا ان آوازوں سے خوفزدہ جو ہوا وہ ایک طرف۔۔۔
ملکی معیشت اور آتش بازی:
اگر کوئی آدمی دس روپے کا ایک نوٹ جیب سے نکال کر آگ میں جلائے اور اس پر خوش بھی ہو تو لوگ سمجھیں گے کہ اس کے دماغ کو کچھ ہوگیا ہے یہ عوامی ردعمل ہے کہ دس روپے کا نوٹ جلانے والا ان کی نظروں میں پاگل ٹھہرا اور جو ہزاروں روپے آتش بازی کی نظر کردے یا محض چند لمحات کے لئے اپنی اندرونی تخریب کو تسکین پہنچانے کے لئے نوٹوں کی آگ جلا جلا کر تماشہ دیکھے اسے کیا کہا جائے؟ کیا مال و زر کو آگ لگاکر اپنی بربادی کا تماشہ دیکھنا اس وقم کو زیب دیتا ہے جس کا بال بال غیر ملکی قرضوں میں جکڑا ہوا ہو، جس کے کتنے ہی افراد رات کو بھوکے سو رہے ہوں اور جسے غیر مسلم قوتیں مٹانے کے لئے یکجا ہوگئی ہوں پھر اس آتش مجوس سے اڑنے والی چناریوں سے بسا اوقات ملکی کارخانے جل کر خاکستر ہوجاتے ہیں، کتنی ہی آنکھوں نے دیکھا اس آگ سے کسی کے گھر کو آگ لگ گئی تو کسی کا دامن جل گیا۔ مگر کیا عجب پھر بھی کہ قوم مسلم کے عقل و دانش والے لوگ اپنے سرمایہ کو آگ لگاکر اس کے شراروں سے اپنے ہی ملک کو جلا رہے ہیں۔