سیرت و کردار سیدنا عثمـان بن عفـان رضی اللہ عنـہ

روم جیسی بڑی سلطنت کے ساتھ مقابلہ ہے، سخت گرمی کا موسم ہے کہ پہاڑ بھی پگھل جائیں، مدینہ سخت خشک سالی سے دوچار ہے اگر مسلمان ایمان کی قوت لے کر دہکتے صہرا پر سے گزرتے ہوئے جہاد کے لئے نکل پڑیں تو سامانِ جنگ اور جہاد کے اخراجات کہاں سے آئیں ؟

ان حالات میں رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کون ہے جو انہیں سامانِ جنگ فراہم کرے؟ اور اللہ کی مغفرت حاصل کرے

ہر ایک نے اپنی وسعت بھر حصہ لیا اور چندہ جمع کیا لیکن اس شخصیت کے کیا کہنے جس نے اپنے محبوب کا اعلان سنتے ہی 940 اونٹ جو ٹاٹ و پلان کے ساتھ تھے اور 60 گھوڑوں کے ساتھ ایک ہزار کی گنتی پوری کی اور دس ہزار دینار اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش میں بکھیر دیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور خوشی سے جگمگا اٹھا اور زبانِ رسالت ﷺ سے الفاظ نکلے ((ما ضر عثمان ماعمل بعد الیوم)) آج کے بعد عثمان جو بھی کریں وہ عمل انہیں (جنت میں جانے سے) نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔1

 بئرِ رومہ

مسلمانوں پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پانی کی قلت تھی، گرمی کی شدت تھی، بچے پیاس سے بلبلا رہے تھے۔ ایک ہی کنواں ہے جہاں سے خرید کر پانی پیا جا سکتا ہے۔ مسلمان اپنا سب کچھ چھوڑ کر مدینے آچکے تھے۔ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے جانثاروں کی پیاس برداشت نہ ہو سکی اور اعلان کیا کون ہے جو جنتی چشمہ کے عوض اس کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے تو سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! میں اسے خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کرتا ہوں۔2

مسجدِ نبوی کی توسیع

صرف یہیں تک ہی بس نہیں۔ جب مسجد کی جگہ لوگوں کے لئے تنگ پڑ گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو رغبت دلائی کون ہے جو مسجد کے ساتھ قطعِ ارض خرید کر مسجد کے لیے وقف کر دے جس کو جنت میں اس سے بہترین جگہ ملے گی۔ پھر وہی پیارا عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ) کھڑا ہوا اور اعلان کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! میں اس کو خرید کر مسجد کے لئے وقف کرتا ہوں پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مال میں سے 25 یا 20 ہزار درہم دے کر اس حصے کو خرید لیا اور مسجدِ نبوی میں شامل کر دیا۔3

جنتی عثمـان بن عفـان رضی اللہ عنـہ

نبی کریم ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام لے کر فرمایا:

عثمان في الجنة

“عثمان رضی اللہ عنہ جنتی ہیں۔”

بدری سیــدنا عثمـان بن عفـان رضی اللہ عنـہ

جب سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی شدید بیماری کے باعث غزوہ بدر میں شرکت نہ فرما سکے تو نبی کریم ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

إن لك أجر رجل ممن شهد بدرا وسهمه

تیرے لیے غزوہ بدر میں حاضر ہونے والے شخص کے برابر اجر اور حصہ ہے۔4

سیـدنا عثمان بن عفـان رضی اللہ عنـہ اور شہـادت کی عظیـم خـوشخبـری:

‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا وَأَبُو بَكْرٍ،‌‌‌‏ وَعُمَرُ،‌‌‌‏ وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ “اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيــقٌ وَشَهِيـــدَانِ”

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکــر، عـــمر اور عثــمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر احــــد پہاڑ پر چڑھے تو احـــد کانپ اٹھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیـــق اور دو شہیــــد ہیں“۔5

سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنـہ اور ان کے ساتھی امت کے امین

سیدنا ابو هريرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

إنكم تلقون بعدي فتنة واختلافا

“بے شک میرے بعد تمہیں فتنوں اور اختلاف کا سامنا ہوگا۔”

لوگوں میں سے کسی نے پوچھا: اے الله کے رسول ﷺ! ہم اس وقت کس کا ساتھ دیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

عليكم بالأمين وأصحابه. وهو يشير إلى عثمان بذلك

“تم اس وقت امانت دار اور اس کے ساتھیوں کو لازم پکڑنا اور آپ ﷺ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ فرما رہے تھے”۔6

سیــدنا عثمـان بن عفـان رضی اللہ عنـہ اور ان کے ساتھی حق پر

ھذَا وَأَصْحَابُہُ یَوْمَئِذٍ عَلَی الْحَقِّ

ابو قلابہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو ایلیاء میں کچھ خطباء کھڑے ہوئے اور انھوں نے کچھ بیان کیا۔ سب سے آخرمیں سیدنا مرہ بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نامی صحابی کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک حدیث نہ سنی ہوتی تو میں یہاں کھڑا نہ ہوتا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک روز ایک فتنے کا ذکر کیا تھا اور اس کو قریب کر کے بیان کیا (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ فرمانا چاہ رہے تھے کہ وہ بہت جلد نمودار ہو جائے گا) اتنے میں ایک آدمی کا وہاں سے گزر ہوا اس نے کپڑا لپیٹا ہوا تھا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فرمایا: اُن دنوں یہ اور اس کے ساتھی حق پر ہوں گے۔ میں آگے کو چلا اور اس آدمی کے کندھے پکڑ کر اس کا چہرہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف موڑا اور کہا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ کی مراد یہ آدمی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں۔ پس وہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔7

سیــدنا عثمـان بن عفـان رضی اللہ عنـہ اور ان کے ساتھی حق اور ھدایت پر

ھذا یومئذ واصحابہ علی الحق والھدی

یہ شخص اور اس کے ساتھی اس دن (یعنی فتنے کے وقت) حق اور ھدایت پر ہونگے۔8

مندرجہ بالا تینوں روایات کو اگر سامنے رکھا جائے تو ان میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پر کیے گئے ایک اعتراض کا جواب موجود ہے

اعتراض: روافض اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے بعض لوگ کہتے ہیں کے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے گورنروں کی اپنی غلطیاں اور کچھ اسباب تھے جن کی وجہ سے انہیں شہید کیا گیا۔
یہ اعتراض بالکل بے بنیاد اور بغضِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پر مبنی ہے۔ اگر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے گورنروں کی اپنی غلطیاں تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھی (گورنروں ) کو اس وقت حق اور ہدایت پر کہنا اور ان کے ساتھ رہنے کا حکم دینا کیا معنیٰ رکھتا ہے ؟

سیــدنا عثمـان رضی اللہ عنـہ کے متعلق صحابہ کرام کا موقف

محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے دوران درج ذیل آیت پڑھی:

إن الذين سبقت لهم مِنا الحسنى أولئك عنها مبعدون

بے شک جن کے لیے ہماری طرف سے بھلائی مقدر ہو چکی ہے وہ اس (جهنم) سے دور رکھے جائیں گے۔

پھر فرمایا:

عثمان منهم

عثمان بن عفان رضي الله عنه انہی میں سے ہیں۔9

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: اگر سب لوگ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل پر جمع ہوتے تو ان پر اسی طرح پتھر برسائے جاتے جس طرح قومِ لوط پر پتھر برسائے گئے تھے-10

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں: اللہ کی اس پر لعنت ہو جو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پر لعنت کرے۔ اللہ کی قسم وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور جبریل علیہ السلام قرآن کی وحی لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہہ رہے تھے: عثمان لکھو -اور اللہ تعالی یہ مقام اسی کو عطا کرتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے نزدیک مکرم و معزز ہو۔11

سیدنا سعيد بن زيد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

والله لو أن أحدا انقض فيما فعلتم في ابن عفان كان محقوقا أن ينقض

الله کی قسم! تم لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کی وجہ سے اگر اُحد پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سَرک جائے تو وہ اس کے لائق ہے۔12

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا گیا: علی و عثمان کی کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتی تو انس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: لوگ جھوٹ بولتے ہیں ان دونوں کی محبت ہمارے دلوں میں ایک ساتھ جمع ہے۔

(تحریر: حافظ عمر جرار)

  1. ترمذی: 2785
  2. فتح الباری: 5/ 408
  3. صحیح سنن نسائی: 2 /766
  4. صحیح البخاري: 3130
  5. صحیح البخـاري : 3675
  6. مسند الإمام احمد بن حنبل، بتحقیق أحمد شاكر: 8522۔ وسندہ حسن لذاته
  7. مسند احمد : 12246
  8. فضائل الصحابہ: 500/1 اسنادہ صحیح
  9. المصنف لابن أبي شيبة: 32052 ۔ وسندہ صحیح
  10. فضائل الصحابہ (563/1) رقم (746)
  11. (البدایہ والنہایہ : 7/ 219)
  12. تاريخ المدينة لابن شبة النميري : 1241/4۔ وسندہ صحیح

مصنف/ مقرر کے بارے میں

IslamFort