ثناء اللہ! تم نے مجھے بہت تنگ کیا ہے

مرشد مخدوم سیدی مولانا ثناء اللہ امرتسری بھی کمال آدمی تھے- بذلہ سنج ایسے کہ محفل لوٹ لیتے- ستم ظریف ایسے کہ جان لے لیتے اور بسمل کو خبر نہ ہوتی کہ کب دل و جان کا سودا ہو گیا ہے- تہذیب کی انتہاؤں کو چھوتے آپ انتہائی باکمال آدمی تھے –

ان کے بارے میں کہنے والے نے کہا کہ اگر رات کو اسلام کے خلاف کوئی نیا فرقہ کھڑا ہو جاتا ہے تو ثناء اللہ اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ صبح دم اس کو جواب دے سکیں –

ایک صاحب تھے محمود – کچھ زیادہ لکھ پڑھ گئے اور لبرل ہو گئے – مگر ہوتے ہوتے آریہ دھرم اختیار کیا – اور اسلام کے خلاف کتاب لکھی “تَرکِ اسلام” ۔ مولانا نے اس کے جواب میں “تُرکِ اسلام ” کے نام سے کتاب لکھی ( ترک کی ت پر پیش ہے )

محمود کہ جو اب دھرم پال ہو چکے تھے لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ کتاب ڈاک سے پائی تو ایک طرف ڈال دی – خیال تھا کہ جس طرح دوسرے مولویوں نے ان کے خلاف فتوے بازی کی ہے ایسے ہی اس مولوی نے بھی کیا ہو گا – کتاب ایک طرح دھری رہی کہ ایک روز فرصت میں ورق گردانی شروع کی تو دھرم پال کہ جو نیم دراز تھے سیدھے اٹھ بیٹھے، چونک سے گئے – تحریر کا انداز ہی جدا تھا – کوئی بدتہذیبی نہ تذلیل ، دشنام نہ تبراء – کتاب پڑھتے چلے گئے اور دل بدلتا چلا گیا –

کہتے ہیں کہ عجب ستم ظریف تھے کہ یہیں پر بس نہ کی – وہ بیمار ہو گئے تو روزانہ امرتسر سے لاہور ان کے ہسپتال آن موجود ہوتے – حتی کہ دھرمپال تندرست ہو گئے – اس اخلاق نے اور دلائل نے دھرمپال کو بہت جلد غازی محمود کر دیا-

لیکن ایک ایسا نصیبوں جلا بھی تھا کہ جس کو مولانا قائل نہ کر سکے – اصل میں ایک فرق بھی تو تھا – غازی محمود اپنی فکر میں گمراہی کے سبب گم کردہ راہ ہوئے اور یہ کم نصیب محض فکری گمراہی پر ہی نہیں تھا ، پے رول پر بھی تھا – سو ہدایت کہاں سے آتی ؟

مرزا غلام احمد قادیانی کو ان کے فرشتے “ٹیچی ٹیچی” نے آ کے خبر دی کہ “اب آپ پنجابی نبی ہیں” – مولانا ان کے تعاقب میں سرگرم اور یہ صاحب آگے آگے – حتی کہ مولانا کو قادیان آنے کا چیلنج دے دیا اور امید کہ کون آئے گا – لیکن وہ بھی مولانا ثناء اللہ تھے – قادیان چلے آئے حالانکہ مرزا صاحب نے ببانگ دہل دعوی کیا تھا کہ مولانا کبھی بھی قادیان نہیں آئیں گے –

اب مرزا بہت تنگ آ گئے اور تنگ آمد بجنگ آمد – مولانا کے خلاف اشتہار جاری کر دیا – بہت برس گزرے کہ ایک روز میں اپنے والد کی کتب کو الٹ پلٹ کر رہا تھا کہ کسی کتاب میں تہہ کیا ہوا کاغذ پڑا نظر آیا- کھول کے دیکھا تو وہی اشتہار تھا – اس کا خلاصہ اگر دو جملوں میں کیا جائے تو بنتا یہی ہے کہ:

ثناء اللہ تم نے مجھے بہت تنگ کیا ہے – میرا پیچھا نہیں چھوڑا – اب میں اکتا گیا ہوں سو دست بدعا ہوں کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جائے اور ہاں مرے بھی یوں یوں یوں یوں”…………

نوٹ : یہ الفاظ میرے ہیں مرزا صاحب کے نہیں۔ صرف مفہوم اپنے لفظوں میں بیان کیا ہے –

اور اسی پر بس نہیں کیا۔ چند دن بعد مرے ہوئے پر سو درے رسید کرتے ہوئے اس کے 6 دن بعد 25 اپریل 1907ء کو قادیانی اخبار بدر قادیان میں مرزا صاحب کی روزانہ کی ڈائری میں شائع ہوا کہ:

”ثناء اللہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔“ (اخبار بدر 25 اپریل 1907 ء)

اب ہوا یہ کہ مرزا صاحب لاہور تشریف لائے اور یہیں بیمار ہو گئے – بیماری نے ایسا زور پکڑا کہ ہلنے جلنے سے معذور ہو گئے – آپ کو اسہال کی بیماری نے آلیا تھا – اور آپ جانتے ہیں کہ اسہال جب جان لیوا ہوں تو بندے کو بیت الخلاء تک جانے کی مہلت نہیں ملتی اور بستر ہی جائے پاخانہ ہو جاتی ہے – عبرت کی حد ہے – مرزا صاحب کی اشتہاری “بد دعا ” قبول ہو رہی تھی – آپ کی موت بہت عبرت ناک تھی –

کہنے والے کہتے ہیں کہ آپ حالتِ غیر میں زمانے سے گئے –

یہ سن انیس سو آٹھ تھا –

دوسری طرف “ستم ظریف ” مولانا اس واقعے کے بعد مدتوں حیات رہے اور پاکستان ہجرت کے بعد سرگودھے میں آ کے داعی اجل کو لبیک کہا۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

ابو بکر قدوسی