سلامت قدم بھی الله تعالی کی عظیم نعمت ہیں

اعوذ باللہ من شیطان الرجیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم

التین – 4

بے شک یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔

انسان یقینا خالقِ کائنات کی تخلیق کا شاہکار ہے۔

هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ

آل عمران – 6

وہی وہ ذات ہے جو ماں کے رحم میں پانی سے تصویر بناتا ہے پانی پر نقش بھلا رب کے سوا کون بنا سکتا ہے۔

 پانی کے قطرے سے گوشت پوست کا یہ انسان بڑا ہو کر بڑے بڑے پہاڑ زیر کر لیتا ہے لیکن اکثر بلندیوں کی طرف سفر کرتا انسان تکبر کی چادر میں الجھنے لگتا ہے اور اس حقیقت کو بھلا دیتا ہے ۔

ولَا تَمۡشِ فِى الۡاَرۡضِ مَرَحًا‌ ۚ اِنَّكَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَلَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا

الاسراء – 37

اور زمین میں اکڑ اکڑ کے نہ چل نہ تو تُو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوں تک پہنچے گا ۔

حالانکہ بندہ مؤمن کی ساری کامیابیاں اور کامرانیاں اسی خالق کے دیۓ ہوئے ہاتھ پاؤں اور عقلِ سلیم کا نتیجہ ہوتیں ورنہ تو بہتوں کو گدو بندراور بستر مرگ  پر کوئی پوچھنے نہیں آتا۔یوں تو انسان کے سارے اعضاء ہی قیمتی ہیں لیکن ہم صرف قدموں کی بات کریں گے یہ سلامت قدم بھی اللہ کی عظیم نعمت ہیں ۔بچہ سال کا ہو جاۓ والدین اسکے لڑکھڑاتے قدموں پر نظر جماۓ ہوتے ہیں کہ کب چلنے کے قابل ہوگا اور جب چلنے لگتا ہے تو والدین کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی اور تصور میں معاشرے کے ان بچوں کو سامنے رکھ کر جو اپاہج  ہو گۓ یا بیساکھی کے سہارے چلے یا معذوری ان کی زندگی بن گئی رب کا شکر بجا لاتے ہیں ۔والدین کے لئے ننھے قدم بڑی مسرتوں کے باعث ہوتے ہیں  والدین کبھی اس انداز سے بھی خوش ہوتے ہیں۔ ایک موقع پر جب لوگ اسامہ اورانکے والد زید کے رنگ میں فرق کی وجہ سے نسب میں طعن دینے لگے کہ اسامہ زید کا بیٹا نہیں ایک دن اسامہ اپنے والدکے ساتھ ایک ہی چادر میں پورا جسم لپیٹے ہوئے قدموں کو ظاہر کیے ہوئے لیٹے ہوۓ تھے کہ ایک قیافہ شناس نے ان دونوں کے قدموں کو دیکھ کر کہا تھا۔

ان ھذہ الاقدام بعضھا من بعض قال فسر بذالک وأعجبه فأخبربه عائشة

(صحیح بخاری ح3731)

بے شک یہ پاؤں ایک دوسرے میں سے ہیں اس بات کو سن کر آپ علیہ الصلوۃ وسلام بڑے خوش ہوئے اور عجیب جانا اور عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو آکر بتایا۔

  ان باپ بیٹے کے بارے معاشرے کی چہمہ گوئیوں سے آپ رنجیدہ تھے قیافہ شناس کی تصدیق سے آپ بے حد خوش ہوۓ پھر زندگی پروان چڑھنے لگی اور رفتہ رفتہ  یہ ننھے قدم جسم کا بوجھ اٹھانے لگے اور بڑی پھرتی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے لگے تب حضرت انسان اکثر ان قدموں کے حقیقی مالک کو بھول گیا اور اتنی تیزی سے رب کی مخالف راہ پر چلنے لگتا ہے اور اپنی بے لگام زندگی کے نقش کو صحرا میں ریت پر پڑے ان قدموں سے مترادف سمجھتا ہے کہ راہ چلے اور پیچھے ہواؤں نے نشانات مٹا دیۓ اور گزرنے والوں کی خبروں کو چھپا لیا ہو ہرگز ایسا نہیں ہے وہ پروردگار ہر قدم کی خبر رکھتا ہے۔ جس خالقِ کائنات نے انسان کے پانچ یا چھ فٹ جسم کو ان قدموں پر ٹکایا اور جسم کو قدموں کے تابع کیا ہے وہ ان کی پوری خبرگیری رکھتا ہے اس انداز سے کہ {ونکتب ما قدموا و اثارھم} ہم لکھتے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا اور نشانات کو نشانات سے. مراد یہ ہے کہ قدموں کے نشانات لکھے جاتے ہیں یہ رب العالمین کے کمالات قدرت میں سے ہے کہ وہ نشانات کو کیسے لکھتا ہے جبکہ ایک ہی جگہ پر دن میں ہزاروں قدم پڑھ رہے ہوتے ہیں ۔

یہ محاورہ اکثر سننے کو ملتا ہے ’’اس نے تو قدموں پر پانی ہی نہ پڑنے دیا ‘‘  مطلب یہ کہ اس نے جرم اور غلطی کرکے خود پہ الزام ہی نہ آنے دیا سوئے سے لوگ جان لیں۔

ارشاد باری تعالی ہے :

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

یٰس – 65

ہم آج کے دن ان کے منھ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں گواہیاں دیں گے ان کاموں کی جو وه کرتے تھے۔

ایسے حضرات جو کان پر موبائل فون رکھنے ہوئے اپنے قدموں پر جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں کہ میں تو فلاں جگہ ہوں حالانکہ وہ اس جگہ نہیں ہوتا قدموں کو جھٹلا دینے والوں کے لئے وعیدیں ہے ۔

جس دن انسان کی کھال تک گواہی دے گی قدموں کے نشان انسان کی زندگی کے سفر نامے کو عیاں کردیں گے ۔

ایک لمبا عرصہ زمین کی مٹی سے اپنے قدموں کو غبار آلود کرتا رہا وہ مٹی کا زرہ زرہ خبر دے گا۔

ارشادِ باری تعالی ہے :

وأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا  ‎﴿٢﴾‏  وَقَالَ الْإِنسَانُ مَا لَهَا  ‎﴿٣﴾‏  يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا

الزلزلة – 2/3/4

زمین اپنا بوجھ باہر نکال ڈالے گی اور انسان کہے گا اسے کیا ہوگیا ہے اس دن بیان کرے گی اپنی خبریں۔

اب یہ بندہ مومن پر ہے کہ ان قدموں پر کہاں کا رخ کرتا ہے۔ سیدھی راہ پر چلے گا تو کامرانیاں قدم چومیں گی اور اگر غفلت کی چادر اوڑھے معصیت کی راہ چلے گا تو قدم اکھڑیں گے اور جسموں کو ثبات نہ ملے گا ۔

نیکیاں سمیٹتے سعادت بھرے قدموں کو بھلا کیوں کرعذاب ہوگا جس ذات کی طرف چل رہا ہوتا ہے وہ اب اپنے بندے سے یوں مخاطب ہے۔

 ما يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا

النساء – 147

وہ تمہیں عذاب دے کر بھلا کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بنو اور ایمان لاؤ اللہ تعالی قدردان علم رکھنے والا ہے ۔

یقینا عذاب ان قدموں کا پیچھا بھلا کیوں کرے گا جو قدم {اعملوا آل داود شکرا} کی تفسیر میں عملی شکر بجا لاتے ہیں۔

وہ اس ادنیٰ عذاب جہنم کے جوتوں سے محفوظ کر دیئے جائیں گے جو قدموں میں پہناۓ جائیں تو دماغ ابلنے لگے گا.1

جو قدم توجہ سے وضو میں دھوئے جاتے ہوں وہ اس عذاب سے محفوظ کر دیے جاتے ہیں

ویل للاعقاب وبطون الاقدام من النار  

(جامع ترمذی :41)

ان ایڑیوں اور قدم کے تلوؤں کے لیے جو وضو میں سوکھی رہ جائیں خرابی ہے یعنی جہنم کی آگ ہے۔

منِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ   

(صحیح بخاری : 907 )

جس کے قدم اللہ کی راہ میں غبار آلود ہو گئے اللہ تعالیٰ اسے دوزخ پر حرام کر دے گا۔

بلکہ وضوء میں توجہ سے دھوئے ہوئے قدم گناہوں کی راہ چلے قدموں کی چھاپ کو بھی مٹانے کا سبب ہوتے ہیں ۔

فرمانِ نبوی ﷺ ہے:

كَفَّارَاتُ الْخَطَايَا إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِعْمَالُ الْأَقْدَامِ إِلَى الْمَسَاجِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ

(سنن ابن ماجہ : 428 )

غلطیوں کے کفارے یہ ہیں: اس وقت کامل وضو کرنا جب دل نہ چاہتا ہو اور مسجدوں کی طرف  ( چلنے کے لیے )  پاؤں کام میں لانا اور نماز کے بعد نماز کا انتظار کرنا ۔

نیکی کے متلاشی قدم اللہ کو بڑے محبوب ہوتے ہیں ان قدموں پر اجور لکھے جاتے ہیں ۔

موذن رسول اللہ ﷺ بلال حبشی کو دیکھیں باوضو رہتے ہیں جتنا میسر آئے قدموں پر کھڑے نفلی نماز ادا کرتے ہیں رب جلیل اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے وقت بلال کے قدموں کی آہٹ جنت میں سنواتا ہے ۔

میں اور آپ کسی کی پستی کا ذکر کریں تو کہیں گے میرے جوتے کی نوک پر ہے۔ نبی آخر الزماںﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا تھا :

أَلَاإِنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِالْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ 

(سنن ابی داود : 1905 )

جاہلیت کے تمام کام میرے قدموں کے نیچے ہیں 

ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن میرے اللہ نے بلال کے قدموں کی پستی کی آہٹ کو جو خود بلال کے کانوں کو نہ چھو رہی تھی اپنے محبوب کو جنت میں سنوائی۔ اسکو ان قدموں کی قدردانی بھی کہیۓ اور نرالی شان بلالی رضی اللہ عنہ بھی کہیے ۔

ان قدموں پر اجور لکھے جاتے ہیں ۔

حدیثِ مبارکہ ہے:

مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَغَسَّلَ وَبَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا أَجْرُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا  

جامع ترمذی : 496

جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور غسل کرایا اور سویرے پہنچا، شروع سے خطبہ میں شریک رہا، امام کے قریب بیٹھا اور غور سے خطبہ سنا اور خاموش رہا تو اسے اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔(

ثواب کی نیت سے پالے ہوئے گھوڑے کے قدموں پر بھی مالک کے لیے اجر ہے ۔2

ثابت البنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں انس رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ بالاخانہ میں تھا کہ اتنے میں موذن نے اذان دی انس رضی اللہ عنہ نیچے اترے میں بھی ساتھ تھا میں نے دیکھا آپ چھوٹے چھوٹے قدم بھر رہے ہیں میں نے وجہ پوچھی تو فرمایا:

میں زید بن ثابت کے ساتھ نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ تھا تو میں نے دیکھا

مشی بھذہ المشیة لیکثر عدد خطانا فی طلب الصلوۃ3

جب نماز کھڑی کر دی جائے تو دوڑ کر نہ آیا کرو بلکہ اس حال میں آؤ کہ تم پر سکون اور باوقار ہو اور(امام کے ساتھ) جتنی نماز مل جائے وہ پڑھ لو اور جتنی رہ جائے وہ بعد میں پوری کر لو ۔

نوٹ: جس نماز کے لیے آنے میں جلدی کرنا اور تیزی برتنا ممنوع ہو اس نماز کے ارکان کو تیزی سے پڑھنا اور کوے کی طرح ٹھونگے مارنا بھلا کیسے جائز ہوگا ۔

اس انداز سے چلنے والا قدموں کی کثرت سے اجر پا لیتا ہے۔

مسجد کے اردگرد جگہ خالی ہوئی تو بنو سلمہ کے لوگوں نے قریب آنے کی خواہش ظاہر کی تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :

یا بنی سلمة دیارکم تکتب آثارکم دیارکم تکتب آثارکم    

(صحیح مسلم : 1519)

اے بنی سلمہ! اپنے گھروں میں رہو تمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں یہ بات دوبارہ فرمائی تو بنو سلمہ کے لوگوں نے اپنا ارادہ بدل لیا اس غرض سے کہ ہمارے قدموں پر اجر لکھا جاتا رہے گا ۔

فرمان نبوی ﷺ ہے:

منْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ خَرَجَ إِلَى تَسْبِيحِ الضُّحَى لَا يَنْصِبُهُ إِلَّا إِيَّاهُ فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلَاةٌ عَلَى أَثَرِ صَلَاةٍ لَا لَغْوَ بَيْنَهُمَا كِتَابٌ فِي عِلِّيِّينَ

(ابو داؤد : 559)

جو اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لیے نکلے تو اس کا ثواب احرام باندھنے والے حاجی کے ثواب کی طرح ہے اور جو چاشت کی نماز کے لیے نکلے اور اسی کی خاطر تکلیف برداشت کرتا ہو تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کے ثواب کی طرح ہے اور ایک نماز سے لے کر دوسری نماز کے بیچ میں کوئی لغو کام نہ ہو تو وہ علیین میں لکھی جاتی ہے۔

جب بندہ ٔ مؤمن اچھا سا وضو بنا کر گھر سے نکلتا ہے ہر اٹھتے قدم پر بلندیاں ملتی ہیں ہر پڑے قدم پر گناہ مٹتے ہیں.4

 یقینا قدموں کی یہ نقل و حرکت بابرکت ہے یہ قدموں کی گتنی گناہوں کے وبال سے زندگی کو ہلکا بنا دیتی ہے ۔(یوں تو مساجد کی طرف اٹھتے قدموں کے بے شمار فضائل ہیں چند ایک اشارتاً  ذکر کیے  ہیں )

اور پھر اگر ان قدموں کی بات کی جائے جوسوءحرم چلے ہیں ہر نماز کے لیے اپنے ہوٹل اور آرام گاہ سے پیدل حرم کو جاتے ہیں مسلسل اپنے قدموں سے اجر کما رہے ہوتے ہیں طواف میں چلتے ہیں زیارات میں چلتے ہیں پھر مقامِ ابراھیم پر بھی تو قدموں کے نشانات کو دیکھتے ہیں پھر صفا مروہ  میں داخل ہوتے ہیں سات چکر پیدل لگاتے ہیں ۔

آہ اماں ہاجر علیہ السلام  تیرے قدموں کی یاد سے صفا اور مروا کو کیسے سجایا گیا ہے کہ تیرے نقش پاء سے آج ہم اجر پاتے ہیں ۔

سامنے صفا مروہ تھا راقم سلامت قدموں پر کھڑا تھا مگر اپنے قافلے کی دو ضعیف العمر خواتین کے لۓ ویل چیئر کے بندوبست اور پھر ویل چیئر کو چلا کر ان کے اقرباء نے انکو جو صفا مروہ کی سعی میں مشقت اٹھائی آج بھی اسکو محسوس کر کے ان سلامت قدموں کا شکرانا ادا کرتے ہیں واقعتا عظیم نعمت ہیں یہ قدم، انہی کی بدولت حج و عمرہ کی سعادتیں ہیں۔

وہ خواتین جواپنے  کندھوں پر شوہر کی خدمتوں کا بوجھ لیۓ اور بچوں کی پرورش کا ذمہ لیۓ گھر کے کام کاج میں بالخصوص کیچن کے کام میں ان قدموں کی بدولت وفا کی زندگی نبھا رہی ہوتی ہیں وہ مندرجہ ذیل حدیث کا مصداق بنے سعادت کی زندگی گزار رہیں ہیں ۔

اِذَا صَلَّتِ الْمَرْاَۃُ خَمْسَھَا، وَصَامَتْ شَھْرَھَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَھَا، وَاَطَاعَتْ زَوْجَھَا، قِیْلَ لَھَا: ادْخُلِي الْجَنّة مِنْ اَیِّ اَبْوَابِ الْجَنّة شِئْتِ .

( مسند احمد : 9640)

جب عورت پانچ نمازیں پڑھے، ماہِ رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے تو اس سے کہا جائے گا: جنت کے جس دروازے سے چاہتی ہے داخل ہو جا۔ یہ ساری سعادتیں سلامت قدموں کے مرھونِ منت ہیں۔ ورنہ ایک خاتون ان قدموں کے بنا اپنی زندگی بوجھ بھی نا اٹھا سکے ۔

اس موقع پر مجھے اپنے ہر دل عزیز محترم و محتشم برادرم الشیخ عبدالرزاق دل صاحب کے برادر اصغر نوجوان عالم دین مولانا عبدالحمید دل رحمہ اللہ یاد آئے ہیں۔ کل ہی کی  بات ہے کہ ایک ٹریفک حادثے میں بائیں ٹانگ پنڈلی سے دو جگہ سے ٹوٹنے کی وجہ سے قدم جسم کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوئے اور چند دن ICU جناح ہسپتال کراچی میں گزارنے کے بعد خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

  انا لله وانا الیه راجعون اللھم اغفرله وارحمه اللھم ادخله الجنة الفردوس

 جسموں کا بوجھ ہاتھوں پر لادا گیا ہو اور بے ساکھیاں جن کی زندگی بن گئی ہو ان سے ان قدموں کی قدر جانیے۔ یہ بڑے بڑے عہدوں کے مالک جو آسمانوں پر پرواز کے دعوے کرتے ہیں وہ انہی سلامت قدموں کا نتیجہ ہوتا ہے ورنہ اپاہج لوگ تو بچارے زمین پر چلنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔

الله جانتا ہے کس قدر شکر بجا لانے کو من چاہتا جب کوئی کہیں گھومنے پھرنے یا کسی خوشی میں شرکت یا احباب کی مجلس میں جانے کو کہے اور ہم یکدم سے کھڑے ہوتے ہیں تو جسم کو بنا سہارے ٹکانے کے لۓ قدم سلامت پاتے ہیں ۔تو جان لیجیے ان قدموں کا شکرانا قیام ہے الله کریم کے بارگاہ میں نماز کے لیے کھڑا ہونا ہے اور راہ الله جستجو کرنا ہے۔

آج انہی قدموں کی بدولت اربوں کے برانڈڈ جوتوں کے کارو بار ہیں اچھے اور قیمتی جوتے قدموں کی زینت کے لۓ ہمیں میسر ہیں یہ عجیب بات نہیں کہ ننگے پاؤں پتھریلی زمینوں پر غزوہ ذات الرقاع میں ہمارے اسلاف کیسے کٹے پھٹے قدموں پیدل چل چل کےعہدِ وفا نبھا گۓ۔ ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ۔

فَنَقِبَتْ أَقْدَامُنَا وَنَقِبَتْ قَدَمَايَ وَسَقَطَتْ أَظْفَارِي

(صحیح بخاری : 412)

میرے پاؤں بھی پھٹ گئے تھے۔ ناخن بھی جھڑ گئے تھے۔

وہ ان دکھوں میں بھی عہدِ وفا کر گئے اور آج ہم مسرتوں بھری زندگی میں بھی ان سے بہت پیچھے ہٹتے چلے جارہے ہیں الله کریم ہمیں اسلاف کے نقش قدم پہ چلنے کی توفیق دے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تو وہ دور تھا جب چل نا پاتے تو دو کندھوں پر لاد کر نماز کے لیے صفوں میں لائے جاتے تھے مگر رب کریم کا بلاوا ہو قدم سلامت ہوں اور اس کے گھر کی حاضری سے قاصر ہوں ایسا کبھی نہیں ہوا۔

خود سرتاجِ رسل ﷺ کو دیکھیے :

فخَرَجَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ كَأَنِّي أَنْظُرُ رِجْلَيْهِ تَخُطَّانِ مِنَ الْوَجَعِ 

(صحیح بخاری : 664)

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں ۔

نبی علیہ اسلام دو آدمیوں کا سہارا لے کر باہر تشریف لے گئے۔ گویا میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو دیکھ رہی ہوں کہ تکلیف کی وجہ سے زمین پر لکیر کرتے جاتے تھے۔

وہ قدم جو رب کے حضور کھڑے کھڑے ورم بھرے ہو جائیں پھر ان کے لیے نجاشی بادشاہ یہ کیوں نا کہے ۔

وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ ، لَأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ ، وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ  

(صحیح بخاری : 4553)

اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی ۔

نبی کریم ﷺسے محبت کا دم بھرنے والوں کے لیےعملی ترغیب ہے کہ مسجدوں کا رخ کریں۔

الله کے گھروں کی تعمیر کا سبب بنیں

آئیں اپنے قدموں کو روک کر جائزہ لیں یہ کس سمت رواں دواں ہیں کہیں لمبے سفر کے بعد انکا رکنا اندھیروں کی وادی میں نا ہو جہاں سے لوٹنا نا ممکن ہو جائے۔ یہ جا لینا چاہیئے ہر اٹھتا قدم موت کے قریب کررہا ہے احتسابی عدالت کی طرف سفر کر رہا ہے ۔

 أَيُّهَاالْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَا قِيهِ

الانشقاق – 6

اے انسان! بے شک تو چل رہا ہے اپنے رب کی طرف پس عنقریب اس سے ملاقات کرے گا ۔

ان قدموں کا رکنا رب کریم کی عدالت میں اس انداز سے ہوگا ۔

حدیث مبارکہ ہے :

لَا تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ؟ وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ؟ وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ؟ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ؟ وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ

(سلسلہ احادیث صحیحہ : 2690)

قیامت کے دن ابن آدم کے قدم اپنے رب کے پاس سے اس وقت تک حرکت نہیں کریں گے جب تک اس سے پانچ سوال نہ کر لئے جائیں ۔اس کی عمر کے متعلق کہ  کس کام میں ختم کی؟ اس کی جوانی کے متعلق کہ  کس کام میں بوسیدہ کی؟ اس کے مال کے متعلق کہ  کہاں سے کمایا؟ کہاں خرچ کیا؟ اور جتناعلم تھا اس پر کتنا عمل کیا؟

در در کے فقیر کو بڑی جلدی ہم طعنہ دے دیتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں سلامت ہیں کماتا کیوں نہیں ۔

اور اگر الله کی عدالت میں بھری مجلس میں ہم سے یہی سوال ہوا کہ ہاتھ پاؤں سلامت دیے تھے آخرت کمائی کیوں نہیں؟ تو یقینا حسرت و ندامت کے سوا دامن میں کچھ نا ہوگا۔

  1. (صحیح مسلم : 107)
  2. (صحیح بخاری: 2860)
  3. (رواہ البخاری فی ادب المفرد)
  4. (صحیح بخاری: 477)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

Islamfort1