صدقہ و خیرات کے دنیاوی و اخروی  فوائد

صدقہ سے مراد وہ مال ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے غریب لوگوں کو دیا جائے1

امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:

صدقہ وہ مال ہے جس کا ادا کرنا واجب نہ ہو بلکہ خیرات دینے والا اس سے قربِ الٰہی کا قصد کرے2

گویا صدقہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد وہ زائد مال و دولت ہے جسے مستحقین کے درمیان اس طرح خرچ کیا جائے کہ ان کا معاشی تعطل ختم ہو، ان کی تخلیقی جد وجہد بحال ہو اور وہ معاشرے کی ترقی میں مطلوبہ کردار بحسنِ خوبی سرانجام دے سکیں۔

قیامت آنے سے پہلے خرچ کرنا

اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ  وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ

(البقرۃ : 254 )

اے ايمان والوں! جو كچھ ہم نے تمہيں ديا ہے اس ميں سے وہ دن آنے سے قبل اللہ كے راستے ميں خرچ كر لو جس دن نہ كوئى تجارت ہو گى اور نہ ہى دوستى كام آئے گى اور نہ سفارش اور كافر ہى ظالم ہيں

مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق

مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ

( سورۃ الذاریات :19)

اور ان کے اموال میں مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں (دونوں) کا حق ہے۔

محروم سے مراد، وہ ضرورت مند ہے جو سوال سے اجتناب کرتا ہے۔ چنانچہ مستحق ہونے کے باوجود لوگ اسے نہیں دیتے یا وہ شخص ہے جس کا سب کچھ آفت ارضی و سماوی میں تباہ ہو جائے۔

انسانیت کی خدمت اخلاقی فریضہ

ہم انسانوں کو جو بھی عنایات اور بھلائیاں ملتی ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم  ہے لہذا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس عطا کردہ رزق سے غریبوں، مسکینوں، لاچار و مجبور، ضرورت مندوں ، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کریں۔ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامینِ مبارکہ میں صدقہ و خیرات کی فضیلت و اہمیت واضح الفاظ میں بیان کی ہیں۔ ذيل ميں چند ايک شرعى نصوص ذكر كى جاتى ہيں تاکہ  صدقہ و خيرات كى اہمیت ، فضیلت اور اسکی ترغيب  واضح ہو سکے ۔

1۔ صدقہ ایمان کی دلیل

صدقہ ایمان کی دلیل ہے کیونکہ اللہ کے لیے صدقہ وہی کرتا ہے جس کا اللہ پر ایمان ہوتا ہے۔ حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

والصَّلاةُ نُورٌ، والصَّدَقَةُ بُرْهانٌ، والصَّبْرُ ضِياءٌ،

( صحيح مسلم: 223 )

نماز نور ہے۔ صدقہ و خیرات انسان کے مسلم و مومن ہونے کی دلیل ہے اور صبر روشنی ہے۔

2۔ صدقہ کرنے والے کے لیے فرشتوں کی دعا

صدقہ کرنے والے کے لیے فرشتے مال میں برکت کی دعا کرتے ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

ما مِن يَومٍ يُصْبِحُ العِبادُ فِيهِ، إلَّا مَلَكانِ يَنْزِلانِ، فيَقولُ أحَدُهُما: اللَّهُمَّ أعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، ويقولُ الآخَرُ: اللَّهُمَّ أعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا

(صحیح البخاري :1442، ومسلم :1010)

ترجمہ: ہر دن جس میں بندے صبح کرتے ہیں ، دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ، ان میں سے ایک فرشتہ [دعا دیتے ہوئے] کہتا ہے اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کا [بہترین ] بدلہ عطا فرما اور دوسرا فرشتہ [بد دعا دیتے ہوئے کہتا ہے] اے اللہ ! روک کر رکھنے والے [کے مال]کو ضائع کردے ۔

کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو فرشتے کی اس دعا کے مستحق ٹھہرتے ہیں جو ہر صبح اپنی ڈیوٹی پر جانے سے قبل اپنے اہل وعیال کو جائز خرچ کے لیے حسبِ حاجت رقم دیتے ہیں ، اپنے پڑوس میں موجود کسی غریب ، بیوہ ، یتیم اور فقیر و مسکین کی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔ ہر دن کسی مہمان کی آمد کا انتظار کرتے ہیں ، اپنے گھر میں کوئی ایسا نظام رکھتے ہیں کہ ہر روز صبح کو کم یا زیادہ کوئی متعین مبلغ بطورِ صدقہ کے نکال کر رکھ دیتے ہیں جو وقتِ ضرورت صاحبِ حاجت کو دی جا سکے وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہم نے اپنی ایسی عادت بنالی ہے تو ہمیں خوشخبری ہے کہ ہم فرشتے کی اس دعائے خیر کے مستحق ٹھہر رہے ہیں اور کس قدر بد نصیب ہیں وہ لوگ کہ مال کی محبت ان کی رگوں میں رچی بسی ہے ، نہ زکاۃ دیتے ہیں ، نہ ہی اہل و عیال کے واجبی خرچ کا اہتمام کرتے ہیں ، نہ ہی غریبوں ، مسکینوں کے لیے ان کے مال میں کوئی حصہ ہے تو یاد رہے کہ اس حدیث میں وارد بد دعا کا ایک بڑا حصہ ہمارے ساتھ ہے۔

3۔  غضب ِ الہی کا خاتمہ ۔

صدقہ  و خیرات غضبِ الہی یعنی رب کے غصے کو ختم کرتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

صِلَةُ الرَّحِمِ تَزيدُ في العُمْرِ ، و صَدَقةُ السِّرِّ تُطفِئُ غضبَ الرَّبِّ

(صحيح الجامع: 3766 والسلسلة  الصحیحة: 1908)

صلہ رحمی عمر دراز کرتی ہے اور پوشیدہ صدقہ رب تعالیٰ کا غصہ بجھاتا ہے۔

4۔  تمام بیماریوں کے لیے علاج اور شفاء

صدقہ تمام بیماریوں کے لیے علاج اور شفاء ہے۔ حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

دَاوُوا مَرضاكُمْ بِالصَّدقةِ

(صحيح الجامع 3358)

ترجمہ: صدقے کے ذریعے اپنے مریضوں کا علاج کرو۔

5۔عزت اور وقار کی حفاظت

صدقہ و خیرات انسان کی عزت اور وقار کی حفاظت کرتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ذُبُّوا عن أعْراضِكمْ بِأموالِكمْ

(صحیح الجامع  :3426 ، والسلسلة  الصحیحة: 2795)

اپنے مالوں سے اپنی عزتوں کا دفاع کر لیا کرو۔

6۔ جہنم کی آگ سے حفاظت

صدقہ جہنم کی آگ سے محفوظ رکھنے والا عمل ہے۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَا مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ مِنْ عَمَلِهِ وَيَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ وَيَنْظُرُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ 

(أخرجه البخاري :7443، ومسلم :1016)

تم میں سے ہر شخص سے تمہارا رب اس طرح بات کرے گا کہ تمہارے اور اسکے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا وہ اپنے دائیں طرف دیکھے گا اور اسے اپنے اعمال کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا اور وہ اپنے بائیں طرف دیکھے گا اور اسے اپنے اعمال کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا پھر اپنے سامنے دیکھے گا تو اپنے سامنے جہنم کے سوا اور کوئی چیز نہ دیکھے گا۔ پس جہنم سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے ہو سکے۔

معلوم ہوا کہ صدقہ بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ رکھنے والا نیک عمل ہے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرے،

7۔ جہنم کے لیے پردہ

صدقہ جہنم کے لیے پردہ ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

يا عائشةُ استتِري من النَّارِ ولو بشِقِّ تمرةٍ فإنها تسدُّ من الجائعِ مَسدَّها من الشَّبعانِ

(السلسلة الصحيحة.: 2/564.)

اے عائشہ! جہنم کی آگ سے کوئی رکاوٹ تیار کرلو خواہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو کیونکہ کھجور بھی بھوکے آدمی کو سہارا دے دیتی ہے جو سیراب آدمی کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی اے عائشہ! دوزخ سے پردہ کرو چاہے وہ کھجور کی ایک پھانک ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو۔

علامہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں :

 وفی الحدیث الحث علی الصدقۃ بماقل وماجل وان لا یحتقر ما یتصدق بہ وان الیسیر من الصدقۃ یستر المتصدق من النار3

 یعنی حدیث میں ترغیب ہے کہ تھوڑا ہو یا زیادہ صدقہ بہر حال کرنا چاہیے اور تھوڑے صدقے کو حقیر نہیں جاننا چاہیے کہ تھوڑے سے تھوڑا صدقہ متصدق کے لیے دوزخ سے حجاب بن سکتا ہے۔

8۔ روزِ قیامت سایہ

صدقہ روزِ قیامت  صدقہ کرنے والے کے لیے سایہ بن جائے گا۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:

كلُّ امرئٍ في ظِلِّ صَدَقَتِه حتى يُقْضَى بين الناسِ

(صحيح الترغيب: 872)

’’ہر آدمی اپنے صدقے کے سائے میں کھڑا ہوگا یہاں تک کہ لوگوں کا فیصلہ ہوجائے۔

یعنی صدقہ کرنے والا قیامت کے روز اپنے صدقے کے سائے میں کھڑا ہوگا۔ اس روز گرمی اور تمازت انتہائی درجے کی ہوگی۔ سائے کا نصیب ہونا اس روز بڑی غیر معمولی نعمت ہوگی۔

9۔ رزق اور مال میں برکت کا ذریعہ

صدقہ رزق اور مال میں برکت کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ما نَقَصَتْ صَدَقةٌ مِن مالٍ

(صحيح مسلم: 2588)

صدقہ مال میں کچھ بھی کمی نہیں کرتا۔ بندے کے معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ ہی بلند فرماتا ہے۔

10۔ مال و دولت میں اضافہ

صدقہ مال کو بڑھاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَن تَصَدَّقَ بعَدْلِ تَمْرَةٍ مِن كَسْبٍ طَيِّبٍ، ولَا يَقْبَلُ اللَّهُ إلَّا الطَّيِّبَ، وإنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بيَمِينِهِ، ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ، كما يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ، حتَّى تَكُونَ مِثْلَ الجَبَلِ

( صحيح البخاري: 1410)

جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے تاآنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔

یعنی جب صدقہ نکالا جائے تو اس سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے، اس میں برکت ہوتی ہے، مصیبتیں دور ہوتی ہیں۔ مال کی زیادتی یا تو عدد کے لحاظ سے ہوگی بایں طور کہ اللہ تعالیٰ بندے کے لیے رزق کے دروازے کھولے گا یا کیفیت کے اعتبار سے زیادتی ہوگی بایں طور کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا اور وہ برکت صدقہ کیے گئے مال سے زیادہ ہوگی۔

11۔ دل کی سختی کا علاج

صدقہ دل کی سختی کو ختم کر دیتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنگ دلی کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:

إن أردت تليين قلبك، فأطعم المسكين وامسح رأس اليتيم

(السلسلة الصحیحة  :  2735)

 ”‏‏‏‏اگر تو دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلایا کر اور یتیم پر دستِ شفقت رکھا کر۔“

12۔    قبر کی گرمی اور حرارت سے نجات

صدقہ  قبر کی گرمی اور حرارت سے نجات دیتا ہے۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ الصدقةَ لتُطفئُ عن أهلِها حرَّ القبورِ ، وإنما يستظلُّ المؤمنُ يومَ القيامةِ في ظِلِّ صدقتِه

(السلسلة  الصحیحة : 3484)

بے شک صدقہ صاحبِ صدقہ کو قبر کی گرمی سے بچائے گا اور مومن ہی ہے جو روزِ قیامت اپنے صدقے کے سائے میں ہو گا۔“

13۔ موت کے بعد بھی فائدہ

صدقہ موت کے بعد بھی فائدہ دیتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ

(رواه مسلم :1631).

”جب انسان مر جاتا ہے تو اسکے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (جن سے اسے مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا ہے): ایک صدقہ جاریہ ہے، دوسرا ایسا علم ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے  جو اسکے لیے دعا کرتی رہے“۔

صدقہِ جاریہ کی صورتیں

 یعنی ایسا صدقہ جس کو عوام کی بھلائی کے لیے وقف کر دیا جائے۔ مثلاً : سرائے کی تعمیر، کنواں کھدوانا، نل لگوانا، مساجد و مدارس اور یتیم خانوں کی تعمیر کروانا، اسپتال کی تعمیر، پل اور سڑک وغیرہ بنوانا، ان میں سے جو کام بھی وہ اپنی زندگی میں کر جائے یا اسکے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ۔ اسی طرح کوئی اچھی کتاب لکھ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں یا ایسے شاگرد تیار کر جائے جو کتاب و سنت کی روشنی میں علم کی اشاعت کریں اور اسے دوسروں تک پہنچائیں۔ یہ سب صدقہِ جاریہ میں شمار ہوں گے اور جب تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اسے ثواب ملتا رہے گا۔

عمر میں اضافہ14

صدقہ عمر میں اضافہ کرتا ہے۔  کثیر بن عبد اللہ المزنی اپنے والد گرامی کے واسطے سے اپنے جدِ امجد (حضرت عمرو بن عوف) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ صَدَقَةَ الْمُسْلِمِ تَزِیْدُ فِي الْعُمْرِ، وَتَمْنَعُ مِیْتَةَ السُّوءِ، وَیُذْهِبُ اللهُ بِهَا الْکِبْرَ وَالْفَخْرَ

(.طبرانی، المعجم الکبیر، 17: 22، رقم: 31)

مسلمان کا صدقہ عمر میں اضافہ کرتا ہے، بری موت کو روکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے تکبر و فخر کو ختم کر دیتا ہے۔

15۔ جنت میں خصوصی دروازہ

صدقہ کرنے والوں کے لیے جنت میں خصوصی دروازہ ہوگا۔  ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن أنْفَقَ زَوْجَيْنِ في سَبيلِ اللہِ نُودِيَ مِن أبْوَابِ الجَنَّةِ: يا عَبْدَ اللَّهِ هذا خَيْرٌ، فمَن كانَ مِن أهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِن بَابِ الصَّلَاةِ، ومَن كانَ مِن أهْلِ الجِهَادِ دُعِيَ مِن بَابِ الجِهَادِ، ومَن كانَ مِن أهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِن بَابِ الرَّيَّانِ، ومَن كانَ مِن أهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِن بَابِ الصَّدَقَةِ

(صحيح البخاري: 1897)

جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے ! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہوگا اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو روزے دار ہوگا اسے باب الريان سے بلایا جائے گا اور جو کوئی صدقہ و خیرات دینے والا ہو گا اسے باب صدقہ (صدقہ و خیرات والے دروازہ) سے پکارا جائے گا۔

16۔ گناہوں کا خاتمہ

صدقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ ایک دن میں صبح کو آپ سے قریب ہوا اور ہم چل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور جہنم سے دور رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم نے ایک بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ آسان کر دے۔ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ألا أدلُّكَ على أبوابِ الخيرِ ؟ . قلتُ : بلَى يا رسولَ اللهِ ! قال : الصَّومُ جُنَّةٌ ، و الصَّدقةُ تُطْفِئُ الخطيئةَ كما يُطْفِئُ الماءُ النَّارَ

 (صحيح الترمذي: 2616 )

کیا میں بھلائی کے دروازوں کا نہ بتا دوں؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ دینا گناہوں کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔

17۔ آفات اور بلاؤں سے چھٹکارا

صدقہ انسان کو آفات اور بلاؤں سے چھٹکارا دلاتا ہے۔ یحییٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:

“وَآمُرُكُمْ بِالصَّدَقَةِ، فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَسَرَهُ الْعَدُوُّ، فَأَوْثَقُوا يَدَهُ إِلَى عُنُقِهِ، وَقَدَّمُوهُ لِيَضْرِبُوا عُنُقَهُ فَقَالَ: أَنَا أَفْدِيهِ مِنْكُمْ بِالْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ. فَفَدَى نَفْسَهُ مِنْهُمْ”

(صحيح الترمذي: 2863)

اور تمہیں صدقہ و زکاۃ دینے کا حکم دیتا ہوں ۔ اس (صدقہ) کی مثال اس شخص کی سی ہے جسے دشمن نے قیدی بنا لیا ہے اور اسکے ہاتھ اسکی گردن سے ملا کر باندھ دیئے ہیں اور اسے لے کر چلے تاکہ اس کی گردن اڑا دیں تو اس (قیدی) نے کہا کہ میرے پاس تھوڑا زیادہ جو کچھ مال ہے میں تمہیں فدیہ دے کر اپنے آپ کو چھڑا لینا چاہتا ہوں پھر انہیں فدیہ دے کر اپنے کو آزاد کرا لیا۔

18۔ بری موت سے حفاظت

صدقہ  بری موت سے بچاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

صَنائعُ المعروفِ تَقِي مَصارعَ السُّوءِ، والصَّدَقةُ خَفِيًّا تُطفئُ غضبَ الرَّبِّ، وصِلةُ الرَّحِمِ زيادةٌ في العُمُرِ، وكلُّ معروفٍ صدَقةٌ

(صحيح الجامع: 3796)

رفاہی کام بُری موتوں، آفتوں اور ہلاکتوں سے بچاتے ہیں اور پوشیدہ خیرات رب کا غضب بجھاتی ہے اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک عمر میں برکت کا باعث ہے اور ہر نیکی صدقہ ہے۔

کیونکہ صدقہ و خیرات کرنا فلاحی و رفاہی کام ہے جو انسان کو مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

19۔ نیک اعمال کی توفیق

صدقہ نیک اعمال کی توفیق دیتا ہے. حضرت حکیم بن حِزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا :

يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ، کُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، مِنْ صَدَقَةٍ، أَوْ عَتَاقَةٍ، وَصِلَةِ رَحِمٍ، فَهَلْ فِيْهَا مِنْ أَجْرٍ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَسْلَمْتَ عَلٰی مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ

( صحیح البخاري : 1369، وصحیح مسلم ، 123)

 اے اللہ کے رسول ! میں نے دورِ جاہلیت میں جو نیکیاں کیں۔ یعنی صدقہ دیا، غلام آزاد کیے اور صلہ رحمی کی تو کیا مجھے اُن کا ثواب ملے گا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی پہلی نیکیوں کی وجہ ہی سے تو تمہیں دولتِ اسلام نصیب ہوئی ہے۔‘‘

20۔ قابلِ رشک عمل

صدقہ و خیرات کرنا قابلِ رشک عمل ہے اور دنیا میں کوئی قابلِ رشک انسان اگر ہے تو  صدقہ و خیرات کرنے والا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

– لا حسدَ إلا على اثنتينِ رجلٌ آتاه اللهُ مالًا فهو ينفقُ منه آناءَ الليلِ وآناءَ النهارِ ورجلٌ آتاه اللهُ القرآنَ فهو يقومُ به آناءَ الليلِ وآناءَ النهارِ

(أخرجه البخاري : 5025، ومسلم: 815 )

ترجمہ: حسد (یعنی رشک) صرف دو آدمیوں پر کرنا چاہیے: ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا تو وہ اسے رات کی گھڑیوں اور دن کے مختلف حصوں میں (راہِ خدا میں) خرچ کرتا رہا اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک عطا کیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرے۔

21سات سو گنا اجر و ثواب

ایک صدقے کا سات سو گنا اجر و ثواب ہے۔  خریم بن فاتک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من أنفقَ نفقةً في سبيلِ اللَّهِ كتبت لَهُ بسبعمائةِ ضعفٍ

(صحيح النسائي: 3186)

”جس نے اللہ کے راستے (جہاد) میں کچھ خرچ کیا اس کے لیے سات سو گنا (ثواب) لکھ لیا گیا“۔

22۔ خرچ کرو گے تو مال و دولت ملے گی

خرچ کرو گے تو مال و دولت ملے گی۔ حدیثِ قدسی ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

قالَ اللَّهُ تَبارَكَ وتَعالَى: يا ابْنَ آدَمَ أنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ وقالَ يَمِينُ اللهِ مَلأَى

(صحيح مسلم: 993)

اللہ تعا لیٰ نے فرمایا کہ اے آدم کے بیٹے! تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا اور آپ ﷺ نے فرمایا: ” اللہ کا دایاں ہاتھ (اچھی طرح) بھرا ہوا ہے۔

جب اللہ کے خزانے بے شمار ہیں، بھرپور ہیں، ان میں کمی بھی نہیں ہوتی تو انسان کو چاہیے کہ اپنی ہر حاجت اسی کے سامنے پیش کرے اور سب کچھ اسی سے مانگے کیونکہ جن و انس کے سوا ہر مخلوق اسی سے سوال کرتی ہے اور وہ سب کو دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَسْأَلُهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ

(الرحمن: 29)

آسمانوں اور زمین میں جو بھی مخلوق موجود ہے سب اسی سے مانگتے ہیں۔ وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہے-

23۔ دگنا اجر

صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا عورتیں ” اللہ“ انہیں دگناعنایت کرے گا۔ نیز صدقہ کرنے والا ” اللہ“ کو قرض دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اجرِِ کریم سے ہمکنار فرمائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ

(سورہ حدید :18)

مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقہ کرنے والے ہیں اور جن لوگوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ دیا، وہ ان کے لیے دگنا کردیا جائے گا اور انکے لیے عمدہ اجر ہوگا۔

یعنی فقیر، مسکین، محتاجوں اور حاجت مندوں کو خالص اللہ کی رضا کی جستجو میں جو لوگ اپنے حلال مال نیک نیتی سے راہِ خدا میں صدقہ دیتے ہیں انکے بدلے اللہ تعالیٰ بہت کچھ بڑھا چڑھا کر انہیں عطا فرمائے گا۔ دس گنا اور اس سے بھی زیادہ، سات سات سو تک بلکہ ان کے ثواب بے حساب ہیں۔

قرضِ حسنہ سے مراد

وہ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔2۔ رزقِ حلال سے صدقہ کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ حرام مال سے کیے ہوئے صدقے کو قبول نہیں کرتا۔3۔ صدقہ کرنے والے کا اللہ اور اسکے رسول پر خالص ایمان ہونا چاہیے۔ 4۔ جسے صدقہ دیا جائے نہ اس پر احسان جتلایا جائے اور نہ اسے تکلیف دی جائے۔

24۔ سات سو گنا ثواب

مسلمان کو اس کے دیے ہوئے صدقے پر سات سو گنا ثواب دیا جائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ  وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ 

( البقرۃ:261)

جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے اس کا اجر اس سے بھی بڑھا دیتا ہے اور اللہ بڑا فراخی والا اور بہت جاننے والا ہے۔

25۔ ڈبل واپسی

 جتنا خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ عطا فرمائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

(سبا: 39)

اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو تو وہی اس کی جگہ تمہیں اور دے دیتا ہے اور وہی سب سے بہتر رازق  ہے‘‘

26۔ گناہوں کی بخشش

اللہ تعالیٰ  صدقہ کرنے والے کے گناہوں کی بخشش کرے گا ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِن تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ  وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ

(التغابن :17 )

اگر تم اللہ کو قرضِ حسنہ دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا اور تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا۔ اللہ بڑا قدردان اور بڑا بردبار ہے۔

27۔ دو صدقوں کا اجر

سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الصَّدقةُ على المسْكينِ صدقةٌ، وعلى ذي القرابةِ اثنتان: صدقةٌ وصلةٌ

(صحيح ابن ماجه: 1506)

کسی حاجت مند ، مسکین و فقیر کو صدقہ دینا صرف ایک صدقہ ہے اور رشتے دار کو صدقہ دینا دو صدقات (کے برابر) ہے: ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔

نِعمتوں کو دوام28
صدقہ و خیرات سے نِعمتوں کو دوام ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:( إنَّ لِلّهِ تعالى أقوامًا يختصُّهم بالنِّعَمِ لمنافعِ العبادِ ، ويُقرُّها فيهم مابذلوها ، فإذا منعوها ، نزعها منهم ، فحولَّها إلى غيرِهم))

صحيح الجامع : 2164

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے كچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بندوں كو فائدہ دینے کیلئے نعمتوں سے نوازا ہوتا ہے۔ جب تک وہ لوگ خرچ كرتے رہتے ہیں، اللہ تعالی اُن كیلئے وہ نعمتیں برقرار ركھتا ہے ، لیکن جب وہ خرچ کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالی اُن سے وہ نعمتیں چھین لیتا ہے اور دوسروں كو عطا كر دیتا ہے۔

سب سے افضل صدقہ

صدقہ و خیرات کرنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے بے شمار فوائد ہیں جبکہ  ماہِ رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی فضیلت کا علم ہمیں نبی اکرم ﷺ کی متعدد احادیثِ مبارکہ سے ملتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :

كانَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أجْوَدَ النَّاسِ، وكانَ أجوَدُ ما يَكونُ في رَمَضَانَ

(صحيح البخاري: 3220)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان کے مہینے میں اور بھی بڑھ جاتی تھی ۔

روزہ اور صدقہ موجباتِ جنت ہیں

حافظ ابنِ رجب رحمہ الله فرماتے ہیں:

إن الجمع بين الصيام والصدقة من موجبات الجنة ،كما في الحديث عن علي رضي الله عنه قال : قال رسول اللہ صلی الله علیه وسلم : إنَّ في الجنَّةِ غُرفًا تُرَى ظُهورُها من بطونِها وبطونُها من ظُهورِها فقامَ أعرابيٌّ فقالَ لمن هيَ يا رسولَ اللہِ فقالَ لمن أطابَ الكلامَ وأطعمَ الطَّعامَ وأدامَ الصِّيامَ وصلَّى باللَّيلِ والنَّاسُ نيامٌ) صحيح الترمذي: 1984) وهذه الخصال كلها تكون في رمضان، فيجتمع في المؤمن الصيام، والقيام، والصدقة، وطيب الكلام4

ترجمہ : روزے کے ساتھ صدقات و خیرات کو ملا لینا موجباتِ جنت میں سے ہے۔ جیسا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جنت میں ایسے کمرے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا“ ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کن لوگوں کے لیے ہوں گے؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ان لوگوں کے لیے ہوں گے جو اچھی گفتگو کرے، کھانا کھلائے، پابندی سے روزے رکھے اور رات کو  اس وقت نماز پڑھے جب لوگ سو رہے ہوں “ یہ تمام صفات رمضان المبارک میں پیدا ہوتی ہیں اور مومن کے اندر روزہ، قیام اللیل، صدقہ اور اچھی و نرم گفتگو کی صفات جمع ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔

  1. ( لسان العرب،  لابن منظور،10: 196)
  2. (مفردات ألفاظ القرآن، راغب اصفهانی، ص: 480)
  3. ( فتح الباری )
  4. (لطائف المعارف: ص: 389)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ