صدقہ فطر ایک اہم عبادت جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ہر مسلمان خواہ چھوٹا ہو یا بڑا غلام ہو یا آزاد ہر ایک پر فرض ہے ۔ اسے صدقہ الفطر ، زکوۃ الفطر ، ہمارے یہاں فطرہ ، فطرانہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ فطرانہ نماز عید سے پہلے پہلے ادا کرنا ضروری ہے اور ایک دو دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے ، بہت زیادہ دن پہلے ادا کرنے سے بچنا چاہیے ۔
صدقۃ الفطر کی فرضیت کی حکمت :
حدیث رسول ﷺ سے صدقہ الفطر کی دو اہم حکمتیں معلوم ہوتی ہیں ،جوکہ یہ ہیں :
پہلی حکمت:
یہ روزے دار سے ہونے والی اخطاء کمی ، کوتاہی کے کفارے کا سبب بنتا ہے ، جیساکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں اسکی حکمت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
طُهرةً للصَّائمِ مِنَ اللَّغوِ والرَّفَثِ
یعنی روزے دارکو پاک کرنے کے لیے ۔1
اسی حکمت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے امام وکیع بن الجراح رحمہ اللہ اسے سجدہ سہو سے تشبیہ دیتے ہیں وہ فرماتے ہیں
زَكَاةُ الْفِطْرِ لِشَهْرِ رَمَضَانَ كَسَجْدَتِی السَّهْوِ لِلصَّلاةِ، تَجْبُرُ نُقْصَانَ الصَّوْمِ كَمَا یجْبُرُ السُّجُودُ نُقْصَانَ الصَّلاةِ.2
صدقة الفطر سجدة السھو کی طرح ہے ،جس طرح سجدة السھو نماز کی کمی کوتاہی کو دور کردیتا ہے اسی طرح صدقة الفطر روزے کو کمی کوتاہی سے پاک کردیتا ہے۔
دوسری حکمت :
دوسری حکمت حدیث میں طعمۃ للمساکین بیان کی گئی ہے کہ ان کے کھانے کا بندو بست ہوجائے ۔ یہ دونوں حکمتیں بڑی اہم ہیں کہ روزے دار کی کمی کوتاہیوں کی تلافی ہوجائے اور مسکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوجائے۔
کیا صدقۃ الفطر کا کوئی نصاب ہے ؟
صدقہ الفطرکے وجوب کے لیے کسی نصاب کی شرط نہیں لہذا یہ ہر مسلمان پر فرض ہے3
خواہ وہ مالدار ہو یا مسکین چنانچہ ابن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر چھوٹے ،بڑے ، آزداورغلام کی جانب سے صدقہ الفطر ادا کرنے کا کا حکم دیا4
یہی وجہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہا کا اپنا عمل بھی ملتا ہےکہ وہ اپنے زیر کفالت ہر چھوٹے ،بڑے،اپنے غلاموں،اپنی بیوی کے غلاموں کی طرف سے صدقۃ الفطرادا کرتے5 حمل ( پیٹ کے بچے ) کی زکوۃ الفطر ؟
گوکہ بعض اہل علم اسے بھی واجب گردانتے ہیں لیکن جمہور اہل علم کی رائے کے مطابق یہ مستحب ہے ، اس لیے حمل کی طرف سے زکاۃ الفطر ادا کرنا بہتر ہے ، واجب نہیں۔
صدقہ الفطر کسے دیا جائے ؟
حدیث میں موجود ’’طعمة للمساكین ‘‘ یعنی : ’’مسکین کے لئے خوراک ہے۔ ‘‘ کے الفاظ سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ صدقۃ الفطر مساکین کو دیا جائے ۔
صدقۃ الفطر کیسے دیا جائے ؟
احادیث میں اجناس طعام کا ذکر ہے ، چنانچہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ كنَّا نُخرِجُ إذ كان فينا رسولُ الله صلَّى الله عليه وسلَّم زكاةَ الفِطرِ عَن كلِّ صغيرٍ وكبيرٍ، حرٍّ أو مملوكٍ، صاعًا من طعامٍ، أو صاعًا من أقِطٍ، أو صاعًا من شَعير، أو صاعًا من تَمرٍ، أو صاعًا مِن زَبيبٍ ‘‘6
یعنی : ہم ایک صاع خوراک یاایک صاع جویا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع منقی بطور صدقہ فطر دیا کرتے تھے۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں :
’’ كنَّا نُخرِجُ في عهدِ رَسولِ اللهِ صلَّى الله عليه وسلَّم يومَ الفِطرِ صاعًا مِن طَعامٍ. وقال أبو سعيدٍ: وكان طعامُنا الشَّعيرَ والزَّبيبَ، والأقِطَ والتَّمر‘‘
ہم رسول اللہ کے عہد مبارک میں عید الفطر کے دن خوراک میں سے ایک صاع ادا کیا کرتے تھے، ان دنوں ہماری خوراک جو، کشمکش، پنیر اور کھجوریں ہواکرتی تھی۔
لہذا بہتر تو یہی ہے کہ اجناس طعام ہی میں دیا جائے البتہ بعض اہل علم کی رائے کے مطابق نقدی میں دینا بھی جائز ہے۔
صدقۃ الفطر کی مقدار :
جیساکہ بیان ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں ہر فرد کی طرف سے ایک صاع صدقہ فطر ادا کیا جاتا تھا ۔ ایک صاع کی مقدار کے تعین میں اہل علم کا اختلاف نظر آتا ہے ، ایک قول سوا دو کلو ، دوسرا قول ڈھائی کلو ، تیسرا قول تین کلو کا ہے ، اکثر اہل علم کی رائے ڈھائی کلو کی ہے ، لہذا ڈھائی کلو گندم یا چاول یا دیگر اجناس میں سے کچھ بھی ایک فرد کی جانب سے ادا کیا جائے گا۔
صدقۃ الفطر کب واجب ہوتا ہے؟
صدقہ فطر کے وجوب کا وقت عید الفطر کے چاند کا دکھائی دینا ہے،لہذا ہر وہ مسلمان جو شوال کے ہلا لِ نو کےظہورکے وقت بقیدِ حیاۃ ہے۔اس کی طرف سے صدقہ فطر نکالنا واجب ہوگا،چنانچہ اگر کسی کے یہاں بچےکی پیدائش رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے سے چند لمحے پہلے ہو رہی ہے تو اس کی طرف سے صدقہ فطردیاجائےگا۔اسی طرح اگر کسی کا انتقال عید کے چاند دکھائی دینے سے چند لمحہ پہلے ہوجاتا ہے تو اس کی طرف سے صدقہ فطر نکالنا واجب نہ ہوگا۔7‘
صدقۃ الفطر کب ادا کریں؟
1)صدقہ فطر عید کاچاند نظر آنے سےلیکر عید کی نماز تک کے دوران ادا کیا جاسکتا ہے جبکہ بلا عذر شرعی عید کی نماز کے بعد دیا جانے والا صدقہ فطر شمار نہیں ہوگا8
2) نیز صدقہ فطر عید سے ایک یا دو دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ 9البتہ صدقہ فطر کو شروع رمضان یا آدھے رمضان کے فوراََ بعد ہی دے دینا جائز نہیں۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و سنت پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرمائے ۔آمین