خطبہ اول:
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے وہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور انہیں اپنی طرف سے عنایت و رحمت کی خوشخبری دیتا ہے اور ان کی تعریف کرتے ہوئےانہیں ہدایت یافتہ قرار دیتا ہے میں اس پاک ذات کی اس کے صبر اور شکر کرنے والے بندوں کی طرح تعریف کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ،اس کا کوئی شریک نہیں۔ ایسی گواہی جس سے ہم قیامت کے دن کامیابی اور نجات کی امید کرتے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار و نبی محمد(ﷺ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول، خاتم النبیین ،امام الصابرین اور روشن اور تابناک لوکوں کے قائد ہیں۔
اے اللہ! درود و سلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر اور آپ کے تمام صحابہ پر اور تابعین پراور تاقیامت ان کی پیروی کرنے والوں پر۔
اما بعد:
اللہ کی بندو اللہ کا تقوی اختیار کرو اس سے ڈرواور جان کہ تمھیں اس سے ملنا ہے اس دن جس دن ہر نفس اپنی ہی بچاؤ کی فکر میں لگا ہو گا اور ہر ایک اس کے کیئے کا بدلہ پورا پورا دیا جائے گا کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا مسلمانوں بندے کے اوپر جو متنوع اور متعدد قسم کی مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ان پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جو تکلیفیں پیدا ہوتی ہیں ان سے زندگی بدمزا ہوتی ہے اور زندگی کی شفافیت گدلی ہوتی ہے ایک ایسی حقیقت ہے جس سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کا اقرار کیے بغیر کوئی چارہ نہیں اس لیے کہ مخلوقات کے سلسلے میں اللہ کی سنتیں ہیں جنہیں نہ کوئی بدل سکتا ہے اور نہ پھیرسکتا ہے ان مصیبتوں کے سامنے لوگوں کا طرز عمل مختلف ہوتا ہے جہاں تک بے صبا اور کمزور ایمان والی اور یقین والے لوگوں کا معاملہ ہے یہ ساری چیزیں انہیں ابھارتی ہیں کہ وہ قضا کی کرواہٹ اور تقدیر کا سامنا جزا اور فضا تاہٹ اور ناراضگی سے کریں جس سے ان کی مصیبت بڑھ جاتی ہے ہے اور اس مصیبت کی چوٹ ان پر اور سخت ہو جاتی ہے یوں یہ مصیبت بھرجاتی اور بڑی ہو جاتی ہے اور اسے برداشت کرنے سے عاجز ا ٓجاتے ہیں کبھی وہ اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں اور ایسے اقوال و اعمال کا ارتکاب کرتے ہیں جن سے اللہ کے نزدیک ان کے گناہوں کا ذخیرہ پڑ جاتا ہے اور اللہ کی ناراضگی میں ان کا حصہ دو چند ہو جاتا ہے بغیر اس کے کہ ان اقوال و اعمال کا مقدر کے بدلنے یا مصیبت کے ختم کرنے میں کوئی کردار ہو۔
جہاں تک عقلمندوں کی بات ہے تو ان کی مصیبتوں کا موقف یہ ہوتا ہے کہ وہ مصیبت پر صبر کرتے ہیں رضامندی دکھاتے ہیں اور انسو بہاتے ہیں وہ وہی اقوال و اعمال انجام دیتے ہیں جنسی اللہ سبحانہ و تعالی خوش ہوتا ہے اجر بڑھتا ہے نفس کو سکون ملتا ہے دل مطمئن ہوتا ہے انہیں اس کی طرف جو چیز بلاتی ہے اور اس پر امادہ کرتی ہے وہ ہے اللہ کی کتاب میں موجود صبر کا ذکر اس کے میٹھے پھل کا بیان اور اس کے عظیمیم اثرات اس میں سے اللہ کی طرف سے صبر کرنے والوں کی یہ تعریف کیہ وہی سچےحقیقی معنوں میں متقی ہے۔
جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ 1
’’جو تنگ دستی اور تکلیف میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں، یہی لوگ ہیں جنھوں نے سچ کہا اور یہی بچنے والے ہیں‘‘۔
اور جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ 2
’’جو صبر کرنے والے اور سچ کہنے والے اور حکم ماننے والے اور خرچ کرنے والے اور رات کی آخری گھڑیوں میں بخشش مانگنے والے ہیں‘‘۔
صبر کے میٹھے پھل اور اس کے عظیم اثرات میں سے یہ ہے کہ صبر کرنے والوں سے اللہ کی محبت واجب ہو جاتی ہے، اللہ کی انہیں معیت حاصل ہوتی ہے جو ان کی حفاظت و نصرت اور قبولیت کا ضامن ہوتی ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ3
’’اور کتنے ہی نبی ہیں جن کے ہمراہ بہت سے رب والوں نے جنگ کی، تو نہ انھوں نے اس مصیبت کی وجہ سے ہمت ہاری جو انھیں اللہ کی راہ میں پہنچی اور نہ وہ کمزور پڑے اور نہ انھوں نے عاجزی دکھائی اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔
اور دوسری جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ4
’’اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
صبر کے میٹھے پھل اور عظیم اثرات میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ نے بتایا ہے کہ صبر کرنے والوں کے لیے خیر ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:
وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ5
’’اور بلاشبہ اگر تم صبر کرو تو یقیناً وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے‘‘۔
’’صبر کے میٹھے پھل اور عظیم اثرات میں سے یہ ہے کہ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے لازما بدلہ ملتا ہے‘‘۔
اللہ کا فرمان ہے:
وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ6
’’اور یقیناً ہم ان لوگوں کو جنھوں نے صبر کیا، ضرور ان کا اجر بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے‘‘۔
صبر کے میٹھے پھل اور عظیم اثرات میں سے یہ ہے کہ صبر کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ7
’’اور یقیناً ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے‘‘۔
صبر کے میٹھے پھل اور عظیم اثرات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ربانی مدد اور الہی نصرت کی ضمانت ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:
بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ9
’’کیوں نہیں! اگر تم صبر کرو اور ڈرتے رہو اور وہ اپنے اسی جوش میں تم پر آپڑیں تو تمھارا رب پانچ ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرے گا، جو خاص نشان والے ہوں گے‘‘۔
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو اس حدیث میں آیا ہے جسے امام احمد نے اپنے مسند میں صحیح سند سے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کی گئی اپنی مشہور وصیت میں فرمایا اور جانوں کی مدد صبر کے ساتھ ہے۔
صبر کے میٹھے پھل اور عظیم اثرات میں سے یہ ہے کہ اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ صبر کرنے والی ہی اہل عظیمت ہے دنیا و آخرت کے ہر بھلائی پانے کے سلسلے میں ان کا حوصلہ سرد نہیں پڑتا۔
اللہ کا فرمان ہے:
وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ10
’’اور بلاشبہ جو شخص صبر کرے اور معاف کردے تو بے شک یہ یقیناً بڑی ہمت کے کاموں سے ہے‘‘۔
اور یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے یہ بتلایا ہے کہ نیک اعمال ان کے بدلی اور اس سے صبر کرنے والے ہی پاتے ہیں۔
اللہ کا فرمان ہے:
وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ11
’’اور ان لوگوں نے کہا جنھیں علم دیا گیا تھا، افسوس تم پر! اللہ کا ثواب اس شخص کے لیے کہیں بہتر ہے جو ایمان لایا اور اس نے اچھا عمل کیا اور یہ چیز نہیں دی جاتی مگر انھی کو جو صبر کرنے والے ہیں‘‘۔
اور اللہ کا فرمان ہے:
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ12
’’اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے‘‘۔
یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے عظیم والے ہیں اور اللہ تعالی کا یہ خبر دینا کہ ان نشانیوں اور عبرتوں سے صبر کرنے والے ہی فائدہ اٹھاتی ہے۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ13
’’(یاد رکھو جب کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ تو اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی میں نکال ،اور انھیں اللہ کے احسانات یاد دلا (٢) بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر صبر شکر کرنے والے کے لئے ‘‘۔
اور جیسا کہ اللہ تعالی نے قوم صبا کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُم مِّنْ آيَاتِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ14
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے درحقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہے‘‘۔
اللہ کے بندو مطلوب کو پانا محبوب اسے سرفرازی مصیبت سے نجات خوف سے سلامتی اور جنت میں داخلہ یہ سب صبر کرنے والے پائیں گے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ‘‘ ’’ۚسَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ15
’’اور فرشتے ہر دروازے میں سے ان پر داخل ہوں گے۔سلام ہو تم پر اس کے بدلے جو تم نے صبر کیا۔ سو اچھا ہے اس گھر کا انجام‘‘۔
اسی طرح صبر کرنے والے کو دین میں امامت کا درجہ ملتا ہے امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا! صبر اور یقین سے دین میں امامت ملتی ہے پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی،
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ16
’’اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے ‘‘۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ صبر کا وہ عظیم مرتبہ ہے جسے امیر المومنین علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ایمان میں صبر کا وہی مقام ہے جو جسم میں سرکا ہے یاد رہے کہ جس کے پاس صبر نہیں اس کے پاس ایمان نہیں۔
اللہ کے بندو! آدمی سب سے زندگی میں سب سے اچھے عشرت پا لیتا ہے ،امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: سب سے اچھی زندگی ہم نے صبر میں پائی صبر روشنی ہے۔
جیسا کہ رسول ہدایت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس حدیث میں بیان فرمایا صحیح مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور امام احمد نے اپنی مسند میں صبر سب سے اچھا اور سب سے وسیع تحفہ ہے جو کسی بندے کو مل سکتا ہے۔
جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے جسے امام احمد نے اپنی مسند میں اور بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے اور الفاظ امام بخاری کے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاریوں سے فرمایا جنہوں نے آپ سے مانگا اور آپ نے انہیں نوازا پھر انہوں نے مانگا اورپھر آپ نےانہیں نوازا پھر انہوں نے مانگا اور آپ نے پھر انہیں نوازا یہاں تک کہ جو کچھ اپ کے پاس تھا وہ ختم ہو گیا اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جو بھی بھلائی ہوگی میں اسے تم سے بچا کر نہیں رکھوں گا اور جو مانگنے سے بچے گا اللہ اسے اس سے بچائے گا اور دور بے نیازی چاہے گا اللہ اسے بے نیاز کرے گا اور جو صبر کرنا چاہے گا اللہ اسے صبر عطا کرے گا اور کسی کو صبر سے بہتر وسیع کفار نہیں دیا گیا۔
مومن کا ہر معاملہ اس کے لیے خیر ہے اس لیے کہ وہ صبر و شکر کے مقام کے درمیانی گھومتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں آیا جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں اور امام احمد نے اپنی مسندصہیب بن سنان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا کہ مومن کامعاملہ عجیب ہےاس کا ہر معاملہ خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہی ہے کسی اور کے لیے نہیں اگر اسے خوشحالی پہنچتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر تنگی پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور اس کے لیے خیر ہے۔
اللہ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کے طریقے اور اپنے نبی کی سنت سے فائدہ پہنچائے اور میں اپنی یہ بات کہہ رہا ہوں اور مجھے اللہ سے اپنے لیے اور آپ کے لیے تمام مسلمانوں کی مغفرت طلب کرتا ہوں بلاشبہ اور بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
خطبہ ثانی:
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو صبر کرنے والوں کا مددگار ہے میں شکر گزاروں کی طرح اس کی حمد کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اس کا کوئی شریک نہیں ایسی گواہی جس سے ہم قیامت کے دن بدلہ دینے والے رب کو راضی کرتے ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمدﷺ اللہ کی بندے اور اس کے رسول ہیں، پرہیزگاروں کے امام اور عبادت گزاروں کی نمونہ ہے، اے اللہ اپنے بندے اور رسول محبت پر درود و سلام نازل فرما، اور تمام اصحاب پر تابعین پر ہر ان لوگوں پر جو قیامت کے دن تک اچھے سے ان کی پیروی کرے۔
اما بعد:
اللہ کے بندو! اللہ کا فرمان ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ17
’’اور یقیناً ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔‘‘
امام ابن کثیر نے اس ایت کی تفسیر میں فرمایا ! اللہ تعالی نے خبر دی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے یعنی ان کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور ان کا امتحان لیتا ہے۔
جیسے کہ اللہ تعالی نے ایک اور مقام پر پر فرمایا :
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ18
’’اور ہم ضرور ہی تمھیں آزمائیں گے، یہاں تک کہ تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اور صبر کرنے والوں کو جان لیں اور تمھارے حالات جانچ لیں‘‘۔
کبھی راحت کو آسائش سے اور کبھی تنگی و مصیبت سے یعنی تھوڑے بہت خوف اور بھوک کے ذریعے نفس یعنی مال کی کمی سے ساتھیوں میں رشتہ داروں اور دوستوں کی موت سے اور ثمرات یعنی فنوں کی کمی یعنی باغات اور کھیتوں کا اپنے معمول کے مطابق پیداوار نہ دینا اور اسی طرح کی دیگر آزمائشوں کے ذریعے اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے جو شخص صبر کرتا ہے اللہ اسے آجر دیتا ہے اور جو مایوز ہوتا ہے اللہ اسے عذاب سے دوچار کرتا ہے اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔
پھر اللہ تعالی نے واضح کر دیا کہ صبر کرنے والے کون لوگ ہیں جن کی اللہ نے تعریف فرمائی چنانچہ فرمایا:
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ19
’’جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘‘۔
یعنی انہوں نے اس کلمے کے ذریعے مصیبت میں اپنے آپ کو تسلی دی اور جان لیا کہ وہ سب اللہ کی ملکیت ہے وہ اپنے بندوں میں جیسے چاہے تصرف کرے اور یہ بھی جان لیے کہ قیامت میں اللہ تعالی کے یہاں رائے کے برابر بھی عمل ضائع نہیں ہوگا چنانچہ ان باتوں کے ادراک نے انہیں ان باتوں پر امادہ کیا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور وہ آخرت کے گھر میں اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اسی لیے اللہ تعالی نے انہیں اس کا جو بدلہ دیا ہے اس کی خبر دیتے ہوئے یہ فرمایا اللہ کی طرف سے ان کی تعریف ہے سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہا صلوات کا معنی ہے عذاب سے معمول ہونا اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کیا ہی برابر بدلا ہے اور کیا ہی بہترین اضافہ ہے۔
یعنی اللہ تعالی کا فرمان:
أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ20
’’یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں‘‘۔
اس اضافی چیز کو کہتے ہیں جو مساوی چیزوں کے درمیان رکھی جاتی ہے اس سے بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح صبر کرنے والوں کو ان کا پورا اجر دیا گیا اور مزید ہدایت کے نام بھی عطا کیا گیا اسی روایت میں امام حاکم محمد کیا ہے
اللہ کےبندو:اور اللہ سے ڈرو تقدیر کی پرواہٹ پر صابر بن جاؤ گے تمہارا رب قیامت کے دن تمہیں بغیر حساب کے پورا پورا اجر دے گا درود و سلام ہے جو خیر ان سے تمہارے رب نے اپنے معزز کو فرمایا اللہ تعالی اس کے فرشتے اس نبی پر درود بھیج دیں ایمان والے تم بھی ان پر درود بھیجا اور سلام بھی پڑھتے رہا کرو۔
خطبہ جمعہ: مسجد الحرام
04 ذی القعدہ 1446ھجری بمطابق 2 مئی 2025 عیسوی
فضیلۃ الشیخ: د۔اسامہ خیاط حفظہ اللہ
_________________________________________________________________________________________________________________________
- (سورۃ البقرۃ: 177)
- (سورۃ ا اعمران:17)
- (سورۃ ال اعمران:146)
- (سورۃ الانفال:46)
- (سورۃ النحل:126)
- (سورۃ النحل:96)
- (سورۃ البقرۃ:155)
- بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِهِمْ هَٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ8(سورۃ ال اعمران:125)
- (سورۃ الشوری:43)
- (سورۃ القصص:80)
- (سورۃ حم السجدہ:34)
- (سورۃالبراھیم:05)
- (سورۃ لقمان:31)
- (سورۃالرعد:23۔24)
- (سورۃ السجدۃ:24)
- (سورۃ البقرۃ:155)
- (سورۃ محمد:31)
- (سورۃالبقرۃ:156)
- (157:سورۃ البقرہ)