پہلا خطبہ :
بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد بجالاتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں، ہم اپنے نفس کی برائی اور اپنے برے اعمال سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
آل عمران – 102
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور نہ مرو مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
النساء – 1
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں، اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو، بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
الاحزاب – 70/71
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔ تاکہ وہ تمہارے اعمال کو درست کر دے اور تمہارے گناہ معاف کر دے، اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مانا سو اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔
اما بعد !
اللہ کے بندو! بے شک اللہ تعالی کا اپنے بندوں پر فضل و احسان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے دین میں ایسے احکام مشروع کیے ہیں جن سے ان کو بہترین اور عظیم اجر و ثواب ملتا ہے اور ان کے نفس کو پاکیزگی اور بدن کو صحت و عافیت حاصل ہوتی ہے۔ اور سنو! اُس دانا و حکیم رب نے اپنے بندوں پر جو جلیل القدر عبادتیں فرض کی ہیں ان میں سے ایک روزہ بھی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
البقرۃ – 183
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے (اور اس کا مقصد یہ ہے) کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
یہ عظیم آیت مہربان رب کی طرف سے اہل ایمان کے لیے ایک ند اورپکار ہے ، جو متعدد طریقے سے اس فریضے کی عظمت و جلالت کی طرف اہل ایمان کی توجہ مبذول کرا رہی ہے ، ان میں سے کچھ یہ ہیں:
اللہ تعالی نے یہ عبادت سابقہ امتوں پر بھی فرض کیا تھا۔ اللہ کا یہ فرمان اس عبادت کو لازم پکڑنے پر ابھارتا ہے، اس کا فضل و شرف بیان کرتا ہے، اس کی ادائیگی پر بہ کثرت خیر و برکت ملنے پر دلالت کرتا ہے اور اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالی اس عبادت سے اور اسے انجام دینے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اسی وجہ سے اسے اپنے تمام بندوں پر فرض کیا تا کہ وہ اس کی برکات اور اجر سے اپنے دامن مراد بھر سکیں۔
اس فریضے کے جلیل القدر ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اپنے بندوں پر فرض کرنے کا مقصد تقوی کا حصول قرار دیا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا تقوی ہی اس کی وہ وصیت ہے جو اس نے ہمیں کی ہے اور پچھلی امتوں کو بھی کی تھی، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ۚ
النساء – 131
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ تم سے پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی انہیں ہم نے تاکیدی حکم دیا تھا۔ اور تمہارے لیے بھی یہی حکم ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔
اور یہ ایسا کیوں نہ ہو؟ بے شک قرآن کریم کی آیتیں اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ دنیا میں متقیوں کے ہی نیک اعمال قبول ہوتے ہیں اور آخرت میں انھیں ہی نجات ملے گی۔ روزہ چونکہ تقوی کا ذریعہ ہے اس لیے اللہ تعالی نے اسے اگلے پچھلے تمام لوگوں پر فرض کیا۔ اسی سے ایک بیدار مغز انسان کے لیے اس عبادت کی عظمت شان عیاں ہو جاتی ہے جسے رب حکیم نے اسلام کا ایک رکن اور ایک عظیم ستون قرار دیا ہے، پھر اس پر عظیم اجر و ثواب مرتب فرمایا ہے، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالی اس عبادت سے محبت کرتا ہے اور اسے انجام دینے والوں کے لیے ایسے فضائل خاص کیے ہیں جو انھیں اس عبادت سے خوش ہونے اور بکثرت روزہ رکھنے پر ابھارتے ہیں۔
ایک عظیم حدیث قدسی کے اندر اس کے کچھ فضائل سے پردہ اٹھا گیا ہے ، جسے راویوں کے سردار اور ثقات میں سب سے اعلی انسان رسول اللہ ﷺ نے اللہ سے روایت کیا ہے۔ فرمایا: ”ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزہ کے، وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ “ پھر فرمایا: ” اور روزہ ایک ڈھال ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو، تو فحش گوئی نہ کرے اور نہ شور و غل کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا اس سے جھگڑا کرے تو کہہ دے: میں روزہ دار آدمی ہوں۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے! روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشی کے مواقع ہیں جن میں وہ خوش ہوتا ہے: جب وہ روزہ افطار کرتا ہے۔ تو اپنا روزہ کھولنے سے خوش ہوتا ہے، اور جب اپنے رب سے ملے گا تو (اس کی جزاد یکھ کر) اپنے روزے سے خوش ہو گا۔“۔ (بخاری و مسلم بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ)۔
اور صحیح بخاری کی اور ایک روایت میں ہےکہ اللہ تعالی فرماتا ہے : ”وہ میری وجہ سے اپنا کھانا، پینا اور جنسی خواہش چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور (باقی ہر ) نیکی کو دس گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔“ اورصحیح مسلم کی ایک روایت ہے جو اس کی توضیح و تشریح کرتی ہے: ابن آدم کے ہر نیک عمل کو دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: سوائے روزے کے، کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ وہ میری وجہ سے اپنی جنسی خواہش اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے بتلایا کہ روزے دار کے روزے کا ثواب غیر محدود ہے۔ یہ جو اصول ہے کہ نیکیاں دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھادی جاتی ہیں، روزہ اس اصول سے الگ ہے۔ اللہ تعالی مخفی و پوشیدہ انداز میں اس کا بدلہ بغیر حساب کے دے گا، اس لیے کہ روزے دار نے اپنی عبادت کو مخفی رکھا، اسے اپنے رب کے لیے خالص کیا، اس کی رضا کا خواہاں رہا، اس کے ثواب کی امید رکھی، اس کے عذاب سے ڈرتا رہا، اس کی نیت میں ریا کا شائبہ تک نہیں آیا اور لوگوں کی توجہ اور تعریف جیسی دیگر دنیاوی فائدے کی امید نہیں رکھی ۔ اس عبادت کے کیا کہنے جسے اللہ تعالی نے اپنی طرف منسوب کیا ہو اور جس کا اجر و ثواب بھی خود ہی عطا کرے!۔
اس جلیل القدر حدیث میں روزے کے جو فضائل ذکر کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ روزہ ڈھال ہے۔ یعنی روزہ، روزے دار کو جہنم سے بچائے گا اور اس سے محفوظ رکھے گا۔ کیوں کہ جہنم اللہ ہمیں اور آپ سب کو اس سے بچائے۔ شہوتوں سے گھرا ہوا ہے اور شہوت آسودگی و سیرابی سے بھڑکتی ہے اور روزہ دار اپنی شہوت کو چھوڑ دیتا ہے تاکہ اس کا شیطان اور نفس امارہ کمزور پڑ جائے ، پھر اپنے رب کی نافرمانی نہ کرے۔ گویا وہ اس طریقے سے گناہوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے روزہ اس دنیا میں گناہوں سے بچنے کی ڈھال اور آخرت میں جہنم سے بچنے کی ڈھال ہے۔
اس مبارک حدیث میں روزے کی ایک فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بواللہ کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ روزہ دار کے منہ کی یہ بو معدہ خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ بو اس دنیا میں لوگوں کو نا پسند ہے۔ لیکن اللہ کے ہاں پاکیزہ و پسندیدہ ہے، کیوں کہ یہ بو اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا جوئی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، یہ اسی طرح ہے جس طرح شہید کا خون ہے، قیامت کے دن شہید کا خون شکل میں تو خون ہو گا، لیکن اس کی خوشبو مشک کی ہوگی۔
اس مبارک حدیث میں روزہ کی ایک فضیلت یہ وارد ہوئی ہے کہ روزہ دار افطار کے وقت خوش ہوتا ہے اور قیامت کے دن اللہ سے مل کر خوش ہو گا۔ افطاری کے وقت خوشی کی وجہ یہ ہے کہ نفس کھانا، پانی اور جنسی شہوت کی طرف فطری طور پر مائل ہوتا ہے، پس جب اسے کچھ وقت کے لیے اس سے روک دیا جاتا ہے پھر اسے دوسرے وقت میں اس کے لیے حلال کر دیا جا ہے تو وہ اس منع کر دہ چیز کی دوبارہ اجازت ملنے پر خوش ہوتا ہے، بطور خاص جب اسے اس چیز کی سخت ضرورت بھی ہو۔ اس خوشی پر مستزاد یہ کہ اللہ تعالی جلدی افطار کرنے کو بہت زیادہ پسند کرتا ہے اور اس پر بندے کو اجر سے نوازتا ہے؟
اور روزہ دار اپنے رب سے ملاقات کے وقت خوش اس لیے ہو گا؛ کیوں کہ وہ اپنے روزے کا پوری فیاضی کے ساتھ اجر وثواب پائے گا جب کہ وہ اس وقت نیکی کا سب سے زیادہ محتاج ہو گا۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے: ” روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔“ اس کا ایک معنی یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی آدمی قصاص وغیرہ کے ذریعہ روزے دار کا ثواب نہیں لے سکتا، بلکہ اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا اور وہیں اس کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔
روزہ کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ روزہ داروں کے لیے جنت کا ایک دروازہ خاص ہے اس سے ان کے علاوہ کوئی بھی داخل نہیں ہو گا۔ جیسا کہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺنے فرمایا: “جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔ ان کے سوا اس سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اسے بند کر دیا جائے گا۔ چنانچہ کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو گا۔ “ (بخاری و مسلم بروایت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ)۔
روزہ کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ روزہ داروں کے لیے جنت کا ایک دروازہ خاص ہے اس سے ان کے علاوہ کوئی بھی داخل نہیں ہو گا۔ جیسا کہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺنے فرمایا: “جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔ ان کے سوا اس سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اسے بند کر دیا جائے گا۔ چنانچہ کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو گا۔ “ (بخاری و مسلم بروایت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ)۔
صحیحین میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”انسان کے گھر والے ،مال، نفس، اولاد اور پڑوسی سب فتنہ (کی چیز) ہیں۔ اور روزہ، نماز، صدقہ، اچھی بات کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا ان فتنوں کا کفارہ ہیں۔“ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی عموما ابتلا و آزمائش میں مبتلا رہتا ہے، اپنے مال، یا اولاد، اپنے نفس یا اپنے پڑوسی کی وجہ سے فتنے میں پڑ جاتا ہے۔ ان کے واجبی حقوق میں کوتاہی برتا ہے، یا ان کے ساتھ مصروف ہونے کی وجہ سے اللہ کی اطاعت سے غافل ہو جاتا ہے، اگر ایسا ہو جائے تو روزہ اس کا کفارہ بن جاتا ہے۔
اے اللہ! تو نے ہمیں جو شریعت دی ہے، ہدایت دی ہے، ہمارے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں اور ہمیں عظیم خیر وبرکت اور بے شمار نیکیوں والی امت میں پیدا کیا ہے، ان سب پر میں تیری حمد و ثنا بیان کرتا ہوں۔
اللہ عزوجل میرے لیے اور آپ سب کے لیے اپنی کتاب ہدایت اور اپنے نبی کی سنت کو نفع بخش بنائے، میں یہیں سے اپنی بات ختم کرتاہوں اور اپنے لیے اور آپ سب کے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔
دوسرا خطبہ :
پاکیزہ اور کامل تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں اور درود و سلام نازل ہو اللہ کے بندے اور اس کے رسول مجتبیٰ احمد مصطفی ﷺ پر۔
حمد و صلاۃ کے بعد !
مسلمانو! اپنے ساتھ احسان و بھلائی کرنے والے انسان کے لیے یہ کس قدر ضروری ہے کہ وہ اپنی عبادت کو ایسی چیزوں سے محفوظ رکھے جو اسے باطل کر دے یا اس کے ثواب کو گھٹا دے تاکہ وہ اس کا پورا جر پائے، اس کی حلاوت و شیرینی محسوس کر سکے اور اس کے مقاصد سے بہرہ مند ہو جائے۔ اپنے روزے کو سب سے زیادہ محفوظ رکھنے والا وہ آدمی ہے جو اپنی زبان کی سب سے زیادہ حفاظت کرے، جو سب سے زیادہ اپنے رب کی اطاعت میں لگا رہے اور لایعنی چیزوں سے سب سے زیادہ دور رہے۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا جو اپنی امت کے لیے بڑے مہربان تھے: ” پس جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو، تو فحش گوئی نہ کرے اور نہ شور و غل کرے۔“ اسی طرح یہ بھی فرمایا: “اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔“ (بخاری بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ)۔
یہ حدیث اس بات پر واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ اللہ تعالی روزے دار سے صرف یہ نہیں چاہتا ہے کہ وہ حلال کھانا، پانی اور جنسی خواہشات سے باز رہے، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ ناحق ، حرام بات کو بھی چھوڑ دے جیسے : جھوٹی گواہی دینا، جھوٹ بولنا، غیبت و چغل خوری کرنا، ہر اس عمل کو چھوڑ دے جو جھوٹ میں داخل ہو جیسے: خرید و فروخت اور معاملات میں دھو کہ دینا، حرام چیز دیکھنا، اسی طرح جہالت وبے وقوفی والی بات کو چھوڑ دے جیسے : گالی دینا، تہمت باندھنا، فحش گوئی و بد کلامی کرنا۔تو جو روزے کی حالت میں ان سب چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے، اسے ہی روزے کی فرضیت کا مقصد حاصل ہوتا ہے اور وہی اس کے فوائد اور اثرات سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ پھر وہ متقی بن جاتا ہے اور اس کا نفس پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ اس کے اعضا و جوارح ان ہی چیزوں کے لیے حرکت کرتے ہیں جنھیں اللہ پسند کرتا ہے، اس کا نفس اللہ کی رضا کے لیے مطیع و فرماں بردار بن جاتا ہے اور وہی عبادت کی حلاوت کو پاتا ہے ، وہی عبادت سے انسیت حاصل کرتا ہے اور عبادت انجام دینے میں لذت محسوس کرتا ہے۔
مسلمانو! آج کے دن کی بقیہ گھڑیوں میں انس و جن کے امام، نبیوں اور رسولوں کے سردادر پر درود وسلام بھیجا کرو تا کہ رب العالمین کے حکم کی تعمیل ہو جائے اور مخلوق میں سب سے افضل ذات پر دور د بھیجنے کا ثواب مل سکے۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
اے اللہ ہمارے سردار اور امام محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ﷺ پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما ہمیشہ ہمیش جب تک رات و دن کی گردش باقی رہے، اسی طرح آپ ﷺ کی پاک و بزرگ آل پر بھی رحمتیں نازل فرما۔
اے اللہ! چاروں خلفائے راشدین سے راضی ہو جا جو ہدایت یافتہ ائمہ تھے، ابو بکر صدیق سے راضی ہو جا جو آپ ﷺ نام کے یارِغار تھے، عمر فاروق سے راضی ہو جا، جو ملکوں کے فاتح تھے، عثمان سے راضی ہو جا جو گھر پر شہید ہوئے اور علی سے راضی ہو جا، جو نہایت نڈر و بہادر جنگ جو تھے اور اپنے نبی ﷺ کے تمام ساتھیوں سے راضی ہو جا، جو نیک وصالح تھے۔
اے اللہ ! تو اپنے فضل سے ہمارے تمام اعمال کو نیک بنادے، اپنے لیے خالص بنادے، ان میں کسی طرح کے ریا و نمود کی آمیزش نہ ہو۔
اے اللہ! ایمان کو ہمارے لیے محبوب بنادے، اسے ہمارے دلوں میں سجا دے، کفر، فسق اور گناہوں کو ہمارے لیے ناپسندیدہ بنادے، ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل کرلے۔
اے اللہ! ہمیں صحیح سلامت رمضان تک پہنچا، ہمیں تو بہ کرنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔ رمضان میں تو ہمیں اپنی عبادت و بندگی، اجر و ثواب اور مغفرت کا وافر حصہ عطا فرمانا، اے سب سے زیادہ مہربان ذات۔
اے اللہ! تو ہمیں اپنی رحمت کے اسباب اختیار کرنے کی توفیق دینا اور اپنی ناراضی و عذاب کے اسباب سے بچانا۔
اے اللہ! ہمارے تمام فوت شدگان پر رحم فرما، ان سے در گزر فرما، ان کی بہترین ضیافت فرما اور ان کی روحوں کو اعلی علیین میں بھیج دے۔
اے اللہ! اسلام و مسلمانوں کو عزت و قوت عطا فرما، شرک و مشرکین کو ذلیل ورسوا کر دے اور دشمنان دین کو ناکام کر دے۔
اے اللہ ! ہمارے ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن وامان کا گہوارہ بنا دے۔
اے اللہ! ہمارے پیشوا خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق عطا فرما اور نیکی و تقوی کے کاموں پر لگا دے۔
اے اللہ! ان کی اور ان کے ولی عہد کی ایسے کاموں میں مدد فرما جو مسلمانوں کے لیے نفع بخش ہوں اور ملک وملت کے حق میں بہتر ہوں۔ اے فضل و کرم والے!۔
ہمارا رب پاک ہے ان تہمتوں سے جو یہ نادان لگاتے ہیں۔ رحمت و سلامتی نازل ہو تمام رسولوں پر۔ اللہ رب العالمین ہی تمام طرح کی تعریف کا مستحق ہے۔
مسجد النبويﷺ: فضلیة الشیخ خالد المهنا حفظه اللہ
25 شعبان 1444ھ بمطابق 17 مارچ 2023