روزہ، اعتکاف اور صدقۃ الفطر سے متعلقہ احکام و مسائل

  • جو شخص کسی بیماری کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے ، اس کی دو صورتیں ہیں:
  • ۱۔ عارضی بیماری: ایسا شخص بیماری ختم ہو جانے کے بعد متروکہ روزوں کی قضا کرے گا۔
  • ۲۔دائمی بیماری :ایسا شخص ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو فدیہ کے طور پر کھانا کھلائے گا۔
  • وہ شخص جو سفر کی حالت میں ہو تو اس پر روزہ فرض نہیں رمضان کے بعد ان چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء کرے گا۔(البقرة:185)
  • نوٹ: اگر سفر مشقت وتکلیف والا نہ ہو تو سفر کی حالت میں بھی روزہ رکھا جاسکتاہے۔
  • وہ لوگ جو بڑھاپے (یا مستقل مریض )کے باعث روزہ رکھنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں وہ روزانہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو فدیہ کے طور پر کھانا کھلائیں۔
  • یہ صورت خواتین کے ساتھ خاص ہے یعنی دورانِ حیض و نفاس روزہ فرض نہیں ، جب تک کہ وہ ان دونوں سے فارغ نہ ہو جائیں ۔
  • جماع (ہمبستری) کرنا۔
  • جان بوجھ کر کھانااور پینا۔
  • خون یا کسی اور چیز کی ڈرپ لگوانے کی وجہ سے۔
  • حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کا اگر روزہ رکھنے سے ان پر یا بچے پر نقصان کا خدشہ ہو تو روزہ چھوڑنا ضروری ہے۔ بصورت دیگر روزہ رکھ سکتی ہے۔
  • راجح قول کے مطابق صرف قضاء لازم ہوگی۔ہاں اگر بھولے سے یا غلطی سے یا کسی کے انتہائی مجبور کرنے پر کھانے یا پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتااور نہ ہی اس کا قضاء و کفارہ لازم آتا ہے۔
  • لہٰذاہر وہ چیز جو منہ یا ناک کے راستے معدے تک پہنچے وہ کھانے کی ہو یا پینے کی اور اُن میں وہ فائدہ مند ہو یا نقصان دہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
  • اور اس کے مقابلے میں ہر وہ چیز جو منہ یا ناک کے علاوہ کسی اور جگہ سے معدہ تک پہنچے راجح قول کے مطابق اگروہ کھانے یا پینے یا ان کے حکم میں داخل ہو تواس سے روزہ ٹوٹ جائے گاورنہ نہیں۔ لہٰذا: • خون کی یا کسی اور چیز کی ڈرپ(Drip) لگوانے سےروزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
  • اسی طرح اس میں وہ انجکشنز (Injections)بھی شامل ہیں جو غذا یاطاقت کے طور پر مریض کو دیے جاتے ہیں۔
  • اسی طرح وہ دوائی بھی روزہ توڑ دیتی ہے جو ناک کے ذریعہ انسان کے دماغ یاپیٹ میں پہنچ جاتی ہے
  • آنکھ میں ڈالی جانےوالی دوائی(Eye Drops) سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
  • اسی طرح’’سرمہ ‘‘لگانےسے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا، اور آنکھوں میں لگائی جانے والی وہ تمام اشیاء جو دوائی یا میک اپ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں جیسے Eyeliner, Maskara, Kajal, Lenses وغیرہ ان کا استعمال بھی روزہ میں کیا جا سکتا ہے۔واللہ اعلم مذکورہ تمام روزہ توڑدینے والی صورتوں میں متروکہ یاتوڑےہوئے روزہ کی قضاء لازم آئے گی۔ واللہ اعلم
  • جان بوجھ کرقئے کرنے (خواہ وہ کسی بھی طرح کی جائے )سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور اس کی قضاء لازم آتی ہے۔ جبکہ اگر خودبخود قئے آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
  • جمہور اہل علم کے نزدیک روزے کی حالت میں جماع (ہمبستری) سے روزہ ٹوٹ جاتاہے اور اس پر قضاء اور کفارہ مغلظہ دونوں لازم آتے ہیں۔
  • کفارہ مغلظہ:گردن (ایک غلام)آزاد کرنا ۔
  • اگروہ نہیں پائے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا۔
  • اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو 40 مسکینوں کو کھانا کھلانا۔( اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو توبہ و استغفارکرنا)۔
  • بوس و کنار سے شہوت نہ ابھرتی ہو تو ایسا کرنا جائز ہے اور اگر بوس و کنار سے شہوت ابھرتی ہوتو ایسی صورت میں بوس و کنار بھی حرام ہے۔
  • استمناء سے مراد ہے کہ جان بوجھ کر کسی بھی طریقے سے منی نکالنا، خواہ اکیلے ایسا کرے یا اپنی اہلیہ کے بوس وکنار یا چھونے کی وجہ سے انزال ہو جائے۔ اسی طرح اس میں لڑکا اور لڑکی دونوں برابر ہیں۔ایسی صورت میں وہ روزہ باطل ہو جائے گا اور اس کے بدلے قضاء لازم آئے گی۔
  • مذی سے مراد وہ پانی ہے جو منی سے پہلے لذت کے باعث نکلتا ہے،جس کا احساس عموماً نہیں ہوتا اور اس کے نکلنےسےشرمگاہ کا دھونا واجب ہوجاتا ہے۔
  • جبکہ کپڑوں کا دھونا اس کے لگنے سے ضروری نہیں، بلکہ ان پر صرف چھینٹے مار دینا ہی کافی ہے۔ ایسی حالت میں راجح قول کے مطابق روزہ نہیں ٹوٹتا ۔
  • جسم سے خون نکلنے کی ایک صورت: یہ ہے کہ کسی بھی وجہ سے جسم سےاتنی مقدار میں خون نکل جائےجو معمولی نہ ہو ،جو جسمانی کمزوری کاسبب ہو، وہ کسی حادثہ کے باعث ہو، یا کسی کو خون دینے کی وجہ سے ،اور پھر وہ خون کا عطیہ ضرورةً ہویا بلا ضرور ت ان تمام صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
  • جسم سے خون نکلنے کی دوسری صورت: یہ ہے کہ جسم سے معمولی مقدار میں خون نکلے، جیسے دانتوں سے خون کا آنا (اسے نگلنا نہیں چاہیے بلکہ تھوک دینا چاہیے) اور خارش کی وجہ سے یا زخم کی خرابی یا بگڑ جانے سے ہلکا سا خون کا نکلنا، یا جسم پر کہیں کٹ لگنے یا چوٹ لگنے کی وجہ سے ہلکا سا خون نکلنا اس طرح خون ٹیسٹ کروانے کے لیے معمولی سا خون نکالنا وغیرہ وغیرہ۔ اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا۔ واللہ اعلم
  • مسواک کرنا۔
  • نیند میں احتلام ہو جانا۔
  • غسل کرنا۔
  • حلق میں مکھی یا مچھر کا چلے جانا۔
  • گرد و غبار یا دھواں چلے جانا۔
  • بھانپ کا حلق میں غلطی سے چلے جانا۔
  • ضرورت پڑنے پر ہنڈیاں میں نمک وغیرہ کا چکھنا (بشرط اسے اندر نہ نگلے)۔
  • اسی طرح ماں کا اپنے نومولود کو کوئی چیز چبا کر نرم کر کے دینا۔
  • غلطی سے کلی کرتے ہوئے یا حلق یا ناک میں پانی ڈالتے ہوئے پانی کا دماغ تک پہنچ جانا۔ تھوک کا نگل لینا۔
اس مسئلے میں راجح بات یہی ہے کہ روزے کی حالت مٰیں حجامہ لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
  • اعتکاف ہر اُس مسجد میں کیا جاسکتا ہے جس میں تمام نمازیں باجماعت ادا کی جاتی ہوں۔
  •   البتہ افضل یہ ہے کہ ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جس میں جمعہ کی نماز بھی ادا کی جاتی ہو تاکہ اسے نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد سے نکلنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
  •   اگر اس نے کسی ایسی مسجد میں اعتکاف کر لیا جس میں جمعہ کا اہتمام نہیں، تو پھر اس کے لیے دوسری مسجد میں نماز جمعہ کے لیے جانے میں کوئی حرج نہیں۔
  • دورانِ اعتکاف غسل کر نا جا ئز ہے خوا ہ وہ فرض ہو یا نظا فت و صفا ئی کے حصو ل کے لیے ہو ۔
  • جی ہاں سر میں کنگھی  کر نا اور نا خن کا ٹنا بھی جا ئز ہے۔
  • اختتام اعتکا ف کے مو قع پر دھو م دھا م سے نکلنا یا تصاویر اتروانا بھی ناجائز و حرام ہے ۔
  • خواتین کے لیے مسجد کے علاوہ گھر میں اعتکاف کرنا ثابت نہیں لہٰذا اعتکاف کی خواہشمند خواتین صرف مسجد میں ہی اعتکاف کرسکتی ہیں جیساکہ ازواجِ مطھرات رسول اللہﷺ کی زندگی میں اور آپﷺ کی وفات کے بعد کیا کرتی تھیں۔
  • صحيح البخاری، الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الاواخر، ح: 2024
  • خواتین کے اعتکاف کے لیے ،غیرشادی شدہ کے لیے اپنے سرپرست اور شادی شدہ کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لینا شرعاً واجب ہے۔جس کے بغیر خواتین کا مسجد میں اعتکاف جائز نہیں ہے۔
  • دورانِ اعتکاف اگر کسی خاتون کے مخصوص ایّام شروع ہوجائیں تو اُس کا اس حالت میں مسجد میں رہنا حرام ہے لہٰذا اُس کا اعتکاف ختم ہوجائیگا اور اگر  اعتکاف کے اختتام سے پہلے مخصوص ایّام ختم ہوجائیں تو دوبارہ اعتکاف جاری کیا جاسکتا ہے۔
  •  صدقہ فطر اس پر بھی واجب ہے جو کسی بیماری یا دیگر وجوہات کی بنا پر روزہ  نہ رکھ سکا ہو۔
  • صدقہ فطر نکالنے والے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ  وہ صاحبِ نصاب بھی ہو،بلکہ جومسلمان بھی عید کےدن اپنے اور اپنے زیرِ کفالت اہل وعیال کے ایک دن اور رات کے کھانے سے زیادہ کا مالک ہو،ا س پر حسبِ استطاعت اپنی طرف سے بھی واجب ہے اور زیر ِکفالت ہر چھوٹے بڑے مسلمان کی طرف سےبھی واجب ہے ۔[1][1] سنن الدار قطنی 2/161،سنن البہیقی 4/161
  •  صدقہ فطر کو  شروع رمضان یا آدھے رمضان کے فوراََ بعد ہی دے دینا جائز نہیں۔
  • 1)صدقہ فطر عید کاچاند نظر آنے سے لیکر عید کی نماز تک کے دوران ادا کیا جاسکتا ہے جبکہ بلا عذر شرعی عید کی نماز کے بعد دیا جانے والا صدقہ فطر شمار نہیں ہوگا۔[1]
  • 2) نیز صدقہ فطر عید سے ایک یا دو  دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ [2]
[1] صحیح بخاری 1509 [2] بخاری 1511
  • صدقہ فطر اشیائے خوردنی یعنی کھانے کی  چیزوں سے ہی نکا لا جائے ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم صدقہ اناج اور کھانے کی چیزوں سے ہی ادا کرتے تھے۔
  • سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کے زمانے میں ہم صدقہ فطر کھانے کی چیزوں سے نکالا کرتے تھے اور ہماراق کھانا جو ،منقہ ،پنیر اور کھجور جیسی چیزیں تھیں۔[1]
  • سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسو ل اللہ ﷺ ہمیں حکم دیتے کہ ہم رمضان کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) کھانے کی چیزوں سے ادا کریں۔[2]
[1] صحیح بخاری : 1510،صحیح مسلم : 958 [2] صحیح ابن خزیمہ 4/88
  • صدقہ فطرکی مقدار ایک صاع نبوی ﷺ (حجازی صاع)ہے[1]
  • اور  اکثر اہل علم اس کی مقدار  تقریباََ ڈھائی کیلو گرام بتلاتے ہیں۔لہذا صدقہ فطر ہر مسلمان زیرِ استعمال غلہ واناج (جیسا خود اپنے گھر میں کھا تا ہو) میں سےفی کس ڈھائی کلو گرام  ادا کرے۔
[1] صحیح بخاری : 1432 الزکاۃ ، صحیح مسلم 984الزکاۃ ،سنن  ابو داؤد : 2340
  • اللہ کے رسولﷺ نے صدقہ کو مسکینوں کا کھانا قرار دیا ہے ۔لہذا راجح اور صحیح قول یہی ہے کہ صدقہ فطر کا حکم مصرف میں عام زکوٰۃ کا نہیں ہے ۔بلکہ یہ صرف فقیر و مسکین کا حق ہے اور انہیں ہی دینے سے ادا ہوگا، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ فقیر ومسکین مسلمان ہوں،  غیر مسلم فقیر و مسکین کو دینا جائز نہ ہوگا۔[1][1] سنن البہیقی وسنن الدار قطنی
  • اس سلسلے میں اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص جہاں( جس شہر میں)موجودہ  ہے اپنا صدقہ فطر اسی جگہ ادا کرے ،کسی اور جگہ نہ بھیجے ،کیونکہ حدیث کے مطابق قریب کے محتاج زیادہ حقدار ہوتے ہیں،لیکن ادا کرنے والا اگر جس جگہ موجود ہو وہاں صاحبِ حاجت نہ ہوں یا کسی جگہ منتقل کرنے میں کوئی دوسری شرعی مصلحت یا سخت ضرورت ہو توا سے اپنی جائےاقامت سے منتقل بھی کیا جاسکتا ہے ۔ واللہ اعلم