ماہ رمضان کے آخری عشرے کی تیاریاں

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو ہمیں پے درپے نیکیوں کا موسم عطا کرتا ہےمیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے بندے اور اور رسول ہیں ۔ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی اور صاحبِ مرتبہ ہیں۔درود و سلام نازل ہو رسول اللہ ﷺ اُن کے آل و اصحاب او ر ان کے نقشِ قدم  کی پیروی کرنے والوں پر ،ایسا درود جو قیامت کے د ن ہمارے لئے باعثِ نجات ہو۔

اما بعد!

میں خود کو آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کو تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔

یہ دیکھیں آخری عشرے کی ٹھنڈی ہوا چلنے والی ہےاور اُس کی خوشبو سے فضا معطر ہونے والی ہے، اُس کی ر وشنی دکھنے لگی ہےاور نیک لوگ بڑے اشتیاق سے  اُس کی فضیلتوں کی  راہ  تک رہے ہیں  ۔ان راتوں میں بہت سارے قدم کھڑے ہو کر اپنے رب سے سرگوشی کرتے ہیں  اور بہت سے ہاتھ گڑ گڑاتے ہوئے دُعا کے لئے اُٹھے ہوتے ہیں۔

ماہِ رمضان کا آخری عشرہ عبادت کے لئے افضل ترین دس راتیں ہیں۔اور آپ جب ان  راتوں کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کی سنت پر غور و فکر کریں گے تو آپ کو اُن کی قدر کو قیمت کا اندازہ ہوگا۔آپ ﷺ اِن  راتوں میں اس قدر زیادہ عبادت کرتے تھے  جتنی دیگر ایام میں نہیں کرتے تھے  ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ آخری عشرے میں اس قدر زیادہ عبادت کرتے کہ اتنی عبادت دیگر ایام میں نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہا نے اِن دس راتوں میں آپ ﷺ کی حالت اور ان دس راتوں میں نبی کریم  ﷺ کے برتاؤ کو اس طرح  مختصر اور بلیغ انداز میں بیان کیا ہے کہ انسان کے اندر جوش پید اہوجاتاہے ،عزائم میں  مضبوطی آجاتی ہے اور جو کامیابی و کامرانی اور  فتح و نصرت کے نبوی منہج کو بیان کرتا ہے  ۔

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی ﷺ اپنی کمر کس لیتے ،راتوں کو شب بیداری کرتے اور اپنے گھر والوں کو جگاتے ۔کمر کس لیتے یعنی بیویوں سے دوری اختیار کرتے اور اپنے اوقات کو عبادت سے معمور کرتے آپ ﷺ کا دل قبولیت کی معراج پر فائز ہوتا  اور آپ کا نفس دنیاوی تعلقات و  آلائیشوں سے پاک ہوجاتا۔ آپ اپنے گھر والوں کو بیدارکرتے یعنی اپنے گھر والوں کو بھی یاد دلاتے انہیں ابھار تے ،جو سویا رہتا انہیں جگاتے اور جو غفلت میں پڑا ہوتا اُسے آگاہ کرتے تاکہ وہ بھی فضیلتوں کو حاحل کرے اس مبارک ماہِ کے قیمتی ایام کو غنیمت جانے ، اس کی عطر بیزیوں  سے معطر ہواور وہ بھی نیک لوگوں کے قافلے میں شامل ہوجائے۔آپ ﷺ شب بیداری کرتے یعنی رات کا زیادہ تر حصہ یا پوری رات قیام کرتے اپنی روح کو سعادتوں سے بھر دیتے ،سرگوشیوں سے لذت محسوس کرتے اور اپنے رب کی قربت سے لطف اندوز ہوتے جو کہ آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور نفس کی خوشگواری کا ذریعہ ہے۔

اس عرصے میں بندہ اس بات پر اپنے رب کی حمد بجالاتا ہےاور اپنے خالق کی شکر گزاری کرتا ہے کہ اُس نے بندے کی زندگی کو مہلت  دی اور اس کی عمر میں اضافہ کیا تاکہ وہ گذشتہ کوتاہیوں کی تلافی کرسکے ،مزید نیکیوں کے کام کرسکے اور نیکیوں کے عظیم ترین موسم کی بھلائیوں کو جمع کرسکے اور تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کی عمر لمبی ہواور اعمال اچھے ہوں  اور اعمال کا دارو مدار خاتمے پر ہے ۔اور جب ایک مسلمان اس بات سے واقف ہو اور اُسے یقینی طور پر اس بات کا احساس ہوکہ زندگی بہت مختصر ہے ایام تیزی سے گزر رہے ہیں ،موت بالکل قریب ہے اور مواقع بار بار نصیب نہیں ہوتے تو وہ بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتا ہےاور اُسے غنیمت سمجھنے کی پھر پور کوشش کرتا ہے ۔

رمضان کا یہ مہینہ تمام مہینوں کا سردار ہے ،اس کی بھلائیا ں مسلسل اور برکتیں پے درپے نازل ہوتی ہیں ۔جو شخص اس ماہِ مبارک میں نیکی میں  پیش قدمی کرتا ہے وہ اپنی جگہ رکتا نہیں ہے بلکہ مسلسل آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور جو شخص مہینے کی ابتداء میں سستی او ر  غفلت کا شکار رہتا ہے وہ اس عشرے میں تیز قدموں کے ساتھ چلتا ہے تاکہ وہ بھی نیک بختوں کے زمرے میں شامل ہوجائے اور کامیاب ہونے والے لوگوں  کی صف میں اپنی جگہ بھی بنالے ۔اور ایسا کرنے کا موقع دستیاب ہے اور بھر پور امکان موجود ہے اور باتوفیق انسان وہی ہے  جو اپنے جوش کو شعلہ زن کرلے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرکے پر عزم ہوجائے ، مساجد کا رخ کرے نیت کی تجدید کرے اور سستی کا لبادہ اتار پھینکے اس عشر ے میں اپنے دل کو سکون کاموقع فراہم کیجیئے  اور اللہ کے ساتھ ، قرآن کے ساتھ ، قیام کے ساتھ اور ذکر و دُعا کے ساتھ سفر پر نکل جائیے۔ اپنے کندھوں سے زندگی کی مشغولیات کو اتار پھینکیئے اور اپنی رو ح کو ایمانی فضا  اور رحمٰن کی بادشاہت کی سیر کروایئے ۔

یہ مبارک راتیں  محبت کرنے والوں کی سانسوں ،توبہ کرنے والوں کے قصوں ،عاجزی اور انکساری کے ساتھ گناہ گاروں کی آہ بکاہ اور بہنے والے آنسوؤ ں سے معمور ہوتی ہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ

السجدۃ – 16

ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وه خرچ کرتے ہیں۔

حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا بات  ہے کہ رات کو تہجدپڑھنے والوں کے چہرے سب سے زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں  تو انہوں نے جوا ب دیا  کیوں کہ انہوں نے تنہائی میں رحمٰن سے ملاقات کی تو اُس نے انہیں اپنے نور کا لباس پہنادیا ۔ ان راتوں میں لوگ اپنے  کے بل صف بہ صف کھڑے ہوکر آنسو بہاتے ہیں اور اللہ سے اپنے گلو خلاصی کی التجائیں کرتے ہیں ۔کوئی کوتاہیوں پر اپنے آپ کو ملامت کررہا ہوتا ہے کوئی اپنے انجام کی ہولناکیوں پر غور و فکر کررہا ہوتا ہے تو کوئی سمیع و بصیر ذات سے ڈر رہا ہوتاہے اور صبح ہونے تک گریہ زاری کی یہی اے اللہ تو ہمیں معاف فرما ۔ کیفیت جاری رہتی ہے۔

ماہِ رمضان میں اورخصوصاً آخری عشرے میں قرآن ِ کریم کی آیتوں سے اپنے کو معمور کیجیئے ، کاموں کو محظوظ کیجیئے اور اپنی زبان کو معطر کیجیئے کیونکہ جو بھی قرآن کریم کے معنیٰ و مفہوم پر غور و فکر کرے گااس کا عقل و دماغ اسی کا اسیر ہوکر رہ جائے گا ۔ چنانچہ قرآن کریم کی کچھ آیتیں آپ کو جنت کی سیر کروائیں گی جن میں اُس کی نعمتوں اور نہروں کی کی تصویر کشی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کبھی  بھی جنت سے دوسری جگہ منتقل نہیں ہونا چاہیں گے ۔پھر کچھ دوسری آیتیں آپ کو دوسرے منظر نامے تک لے جائیں گی ۔ کہیں جہنم اور اس کی ہولناکیوں کا بیان ہے  تو کہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بادشاہت  و قدر ت کا بیان ہے ،کہیں ہمیشہ باقی رہنے والے خالق و مالک کے اعجاز  کا تذکرہ ہے ،کچھ آیتوں میں گذشتہ نبیوں کا اپنی قوموں کے ساتھ  دفاع و مدافعت اور جد و جہد کا بیان  اور پھر انجام کار متقیوں کے حق میں ہونے کا ذکر ہے ۔کچھ آیتوں میں بھٹکی ہوئی اور راہِ راست سے منحرم قوموں  کی حالت اور اُن کے انجام  کا ذکر ہے  تو کچھ آیتیں فانی دنیا کی حقیت اور باقی رہنے والی آخر ت کی قدر و منزلت بیان کرتی ہیں ۔پھر آپ کے کانوں سے ایسی آیتوں کی آواز ٹکراتی ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ِ ظن  اور اللہ کی رحمت و امید پر ابھار تی ہے  جوکہ ہر چیز پر محیط ہے ۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

الزمر – 53

(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت واﻻ ہے

یہ قرآن ِ  مجید ہے کہ جس کی تلاوت جب رات کی تاریکی اور سناٹے میں کی جاتی ہےتو اللہ سے ڈرنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں پھر ان کا بدن اور اُن کا دل اللہ کے لئے نرم پڑ جاتے ہیں یقیناً یہ قرآن ِ کریم ہے جو انسانی وجدان کو جھنجوڑ تا ہے ،بند دلوں کو کھولتا ہے آنکھوں سے آنسؤ ں کا سیل ِ رواں جاری کرتا ہے اور آپ کو اپنے رب سے قریب کرتا ہے اور یہ صورتِ حال آپ کی دُعا کو قوت عطا کرت ہے جو آسمان کے دروازوں کو کھول دیتی ہے  اور نور ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے عفو ورحمت  اور مغفرت کے نزول کاسبب بنتا ہے ۔ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

البقرة – 186

جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعﺚ ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کے اور ہمارے لئےقرآن کو بابرکت بنائے ،اس کی آیتوں اور حکیمانہ  نصیحتوں کو ہمارے لئے مفید و بابرکت بنائے ۔میں اپنی بات کو کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتاہوں آپ بھی اُس سے مغفرت طلب کیجیئے یقیناً وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اُ س اللہ کے لئے ہیں ایسی  تعریف جو کبھی ختم نہ ہو۔انعامات و احسانات پر میں اُس پاکیزہ ذات کا شکر ار حمد و ثنا بجالاتا ہوں میں گواہی دیتا ہوں کے اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اورنہ ہی اس کے علاوہ کوئی رب ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردا ر محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔قیامت تک آپ ﷺپر اور آپ ﷺ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل ہو ۔

حمد و ثنا کے بعد!

میں اپنے آپ کو اور آپ لوگوں کو اللہ تعالی ٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتاہوں ۔اس عشرے میں شبِ قدر ہے اور آپ کو کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے یہ نزول ِ قرآن کی رات ہے۔

میں اپنے آپ کو اور آپ لوگوں کو اللہ تعالی ٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتاہوں ۔اس عشرے میں شبِ قدر ہے اور آپ کو کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا ہے یہ نزول ِ قرآن کی رات ہے   ۔ اس رات میں ہمارے حکم سے ہر معاملے میں حکیمانہ فیصلہ کیا جاتا ہے ۔اس رات  میں روزیاں اور زندگیاں  تقسیم ہوتی ہیں ۔جس انسان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی وہ اس رات میں قدر و قیت والا بن جاتا ہے ۔ اسی رات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے جلیل القدر نبی پر جلیل القدرامت کے لئے ایک جلیل القدر کتاب نازل فرمائی  ہے۔ لیلۃ القدر میں شیطان باہر نہیں نکلتا جیساکہ اللہ کے نبی ﷺ کے ثابت ہے طلوع ِ فجر تک سلامتی نازل ہوتی ہےاور یہ پوری کی پوری خیر کی رات ہوتی ہے طلوعِ فجر تک کوئی شر نہیں ہوتا۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس رات کو پوشیدہ رکھا ہے ۔جس طرح سے دیگر بہت ساری چیزوں کو پوشیدہ رکھا ہے علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے کاموں میں اپنی رضا مندی پوشیدہ رکھی ہے تاکہ لوگ تمام نیکیوں کو انجام دیں ۔گناہوں  میں اپنی ناراضگی کو پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ تمام گناہوں سے اجتناب کریں ۔لوگوں کے درمیان اپنے ولی کو پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ  تمام لوگوں کی تعظیم کریں دُعا میں قبولیت کو پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ تمام دُعاؤں کا اہتمام کریں ۔اسمِ اعظم کو مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ تمام اسماءِ حسنیٰ کی تعظیم کریں درمیان والی نماز کو پوشیدہ رکھاہے  تاکہ لوگ تمام نمازوں کی پابندی کریں توبہ کی قبولیت کو مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ ہر طرح کی توبہ کی پابندی کریں ۔ موت کے وقت کو مخفی رکھاہے تاکہ انسان ڈرتا رہے اسی طرح شبِ قدر کو بھی مخفی رکھا ہے تاکہ لوگ رمضان کی تمام راتوں میں عبادت کریں ۔

شبِ قدر ! یہ رات ہزار مہینوں کے برابر نہیں بلکہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے یہ جلال  و جمال کی رات ہے یہ ان لوگوں کو اپنے آغوش  میں ڈھانب لیتی ہے جو اپنے رب کے لئے سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں جو خشوع و خضو  ع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔ذکر میں مشغول رہتے ہیں جو دُعا کے لئے اپنے ہاتھ اُٹھائے رکھتے ہیں جن کی دُعاؤ ں سے مسجد کے گوشے گونج اٹھتے ہیں اور جو خشوع و خضوع کے ساتھ گریہ زاری کرتے ہوئے یہ دُعا کرتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اور اگر تونے ہیں معاف نہیں کیا او ر ہم پر رحم نہیں کیا تو ہم یقیناً خسارہ اُٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے ۔

اس رات میں آسمان  روشنی سے جگمگا اٹھتا ہے کیونکہ وہاں سے رحمت و مغفرت کے فرشتے جبرایل علیہ السلام کے ساتھ اترتے ہیں تاکہ وہ سب سلامتی والی رات کی سلامتی کا مشاہدہ کریں توبہ کرنے والوں کے کلیجے ٹھنڈے ہوں  گناہ گاروں کے دل سکون محسوس کریں اور ٹوٹے ہوئے دل جڑ جائیں ۔ یہ ایسی رات ہے جو  عفو  و رحمت کی پیاسی اور مغفرت کی متلاشی روحوں کو سیراب و آسودہ کرتی ہےکیونکہ گناہوں  نے انہیں آلودہ اور غفلت نے ان کی روشنی کو ماند کردیا تھا۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

مَن قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إيمَانًا واحْتِسَابًا، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ

جو شخص کی ایمان کی حالت میں او ر لیلۃ القدر کی امید کرتے ہوئے قیام کرتا ہے اُس کے گزشتہ گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی اس حدیث کے معانی پر غور کیا کہ اُس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں یعنی خیانتیں اور گناہ سب مٹا دیئے جاتے ہیں غفلتوں کے سیاہ صفحات لپیٹ دیئے جاتے ہیں۔ گذشتہ زندگی کی ڈگر پر ہم نے جو بھی لغزشیں  او رخطائیں کی تھیں اُن سب کو اللہ تعالیٰ کی عفو و مغفر ت ڈھانپ لیتی ہے ۔گذشتہ تمام سالوں کی کوتاہیوں او ر گمراہیوں کو شبِ قدر کی سلامتی سمیٹ لیتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے  :

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ‎﴿١﴾‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ‎﴿٢﴾‏ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ‎﴿٣﴾‏ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ‎﴿٤﴾‏ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ ‎﴿٥﴾‏

القدر – 1/5

یقیناً ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا۔ تو کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (میں ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل) اترتے ہیں۔ یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک (رہتی ہے)۔

 اللہ کے بندوں ! نبی ِ ہدایت  محمد رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجوجن پر درود و سلام بھیجتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ تو محمدﷺ کی آل اولاد پر درود نازل فرماجیساکہ تونے ابراھیم علیہ السلام کی آل و اولاد پر درود نازل فرمائیں ۔اے اللہ تو محمد ﷺکی آل اولاد پر برکتیں نازل فرما جیساکہ تو نے ابراھیم علیہ اسلام کی آل و اولاد پر  برکتیں نازل فرمائیں ۔ یقیناً  تو قابلِ تعریف ہے ۔

اے اللہ ! تو تمام صحابہ سے راضی ہوجااور بالخصوص خلفاء راشدین سے  جو کہ ہدایت یافتہ ہیں ان سے راضی ہوجا ، ابو بکر ،عمر ،عثمان، علی رضی اللہ عنہم   جمیعاً اور تابعین اور تبع تابعین سب سے راضی ہوجا اور یا اللہ ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا اپنے فضل و احسان سے اے ارحم الراحمین ۔

اے اللہ ! یقیناً تو معاف کرنے والا ہے معاف کرنے کو پسند کرتا ہے لہٰذا تو ہمیں بھی معاف فرما۔

اے اللہ ! یقیناً تو معاف کرنے والا ہے معاف کرنے کو پسند کرتا ہے لہٰذا تو ہمیں بھی معاف فرما۔

اے اللہ ! تو ہمارے اگلے بچھلے ،ظاہر و پوشیدہ  او رجن کو تو ہم سے زیادہ جانتا ہے تمام گناہوں کو بخش دے  تو ہی آگے کرنے والا اور پیچھے کرنے والا ہے تیرے سوا کوئی سچا معبو د نہیں ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل کا سوال کرتے ہیں اور ہم تجھ سے جہنم اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل سے پناہ چاہتےہیں ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے جلدی اور دیر سے ملنے والی جسے ہم جانتے ہیں اور جسے ہم نہیں جانتے ان  تمام بھلائیوں کا سوال کرتے ہیں    او ر ہم تجھ سے جلدی اور دیر سے آنے والے جنہیں ہم جانتے ہیں اور جنہیں ہم نہیں جانتے ان تمام برائیوں سے تیری پناہ چاہیے ہیں ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے تمام بھلائیوں کے آغاز و انجام اول و آخر  وجامع بھلائیوں کا سوال کرتے ہیں اور ہم تجھ سے جنت میں اعلیٰ مقام کا سوال کرتے ہیں  اے رب العالمین۔

اے اللہ ! ہم تیری نعمتوں کے زوال سے تیری عافیت کے پھر جانے سے تیری اچانک گرفت سے اور تیری ہر قسم کی ناراضگیوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں ۔

اے زندہ و جاویدذات! ہم تیری رحمت سے تیر ی مدد طلب کرتے ہیں تو ہمارے تمام معاملات کی اصلاح فرمااور ہمیں بلک جھپکنے کے برابر بھی ہمارے نفسوں کے حوالے نہ کرنا ۔

اے اللہ ! تو ہمارے بادشاہ کو اپنی پسند اور رضا مندی  کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما اور انہیں اپنی ہدایت کی توفیق دے  انہیں اپنی رضامندی کے کاموں میں لگا اے رب العالمین۔

 اے اللہ تو ان کے ولی عہد کو ہر بھلائی کے کام کی توفیق عطا فرما اے رب العالمین۔

اے اللہ ! اے  ہمارے رب ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اگر تو نے ہمیں معاف نہیں کیا اور ہم پر رحم نہیں کیا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

اے ہمارے رب ! تو ہمیں دنیا  میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھلائی عطا فرمااور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا ۔

یقیناً اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کا ،قرابت داروں کے ساتھ احسان کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتاہے۔وہ تمہیں نصحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ تم اللہ کو یاد کرو وہ تمہیں یاد کرے گا  اس کی نعمتوں پر شکر گزاری کرووہ تمہیں مزید عطا فرمائےگا اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے  اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

خطبة الجمعة مسجدالنبوي ١٨رمضان١٤٤٢​ ھ  فضیلة الشیخ الدکتورعبدالباري الثبيتي

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ 

مسجد نبوی کے معروف خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ داکٹر عبدالباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ کا ہے ، جن کے علمی خطبات ایک شہرہ رکھتے ہیں۔