راز کی حفاظت

راز کی حفاظت

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ،‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، والصلاة والسلام على أشرف المرسلين سيدنا محمد وعلى آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، أما بعد

الله تعالیٰ کی توفیق سے کتاب الأدب اور حسن اخلاق کے حوالے سے ہمارا سلسلہ جاری ہے۔

ریاض الصالحین میں کتاب الادب کا دوسرا باب ہے ’’باب حفظ السر ‘‘(راز کی حفاظت کرنا)۔

یہ صفت اعلی اخلاق میں سے  ہے کہ انسان کسی کے راز کی حفاظت کرے۔

راز کی حفاظت کرنے میں دو باتیں شامل ہیں:

1۔انسان اپنے راز کی حفاظت کرے کہ اس کو ہر کسی سے ذکر نہ کرے بالخصوص ایسی باتیں جو معیوب ہوں یا گناہ ہوں۔ اگر انسان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کو کسی سے ذکر نہ کرے بلکہ اس کو پوشیدہ رکھے یہ بھی راز کی حفاظت میں شامل ہے۔

2۔ لوگوں کے راز کی حفاظت کرنا یعنی اگر انسان کو کوئی شخص کوئی راز کی بات بتاتا ہے تو اسکو کسی اور سے ذکر نہ کرے۔ یہ بھی “حفظ السر” میں آتا ہے اور یہ بھی اعلی اخلاق میں سے ہے کہ انسان لوگوں کے راز کی حفاظت کرے کیونکہ اس کا تعلق لوگوں کی عزت و آبرو کے ساتھ ہے۔

دینِ اسلام جن چیزوں کی حفاظت کا درس دیتا ہے اور جن چیزوں کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے ان میں انسان کی جان کی حفاظت، اس کے مال کی حفاظت، اس کی عزت کی حفاظت، اس کی عقل کی حفاظت اور اس کے دین کی حفاظت ہے۔ تو یہ پانچ امور ایسے ہیں جن کی حفاظت کا اسلام درس بھی دیتا ہے اور اسلامی تعلیمات کا خلاصہ بھی یہی ہے یعنی اسلام کی تعلیمات ان پانچ امور کے گرد گھومتی ہیں۔

راز کی حفاظت کا تعلق عزت اور آبرو کی حفاظت سے ہے۔

انسان جب کسی کے راز کو افشاں کرتا ہے تو اسکے دو بنیادی نقصانات سامنے آتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں :

راز کو افشاں کرنے کے دو بنیادی نقصانات:

1۔ایک نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ اسکے اور آپکے درمیان دشمنی قائم ہو جاتی ہے یعنی آپ کے دل میں اسکے لیے یا اسکے دل میں آپ کے لیے نفرت قائم ہو جاتی ہے یا منفی جذبات اس کے دل میں آجاتے ہیں جبکہ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کسی بھی مسلمان کے لیے آپ کے دل میں کوئی منفی جذبات ہوں اور اگر کوئی شخص کسی کے راز کو افشاں کرتا ہے تو یقینی طور پر اس شخص کو یہ بات اچھی نہیں لگے گی کہ اس نے میرے راز کو کیوں پھیلا دیا اورمیری یہ (فلاں )بات کسی اور کو کیوں بتائی، تو اس سے دلوں میں نفرت پیدا ہوگی۔

2۔ اس کا دوسرا نقصان ’’ رسوائی ‘‘ہے یعنی انسان کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یعنی اگر آپ کسی کے راز کو افشاں کر رہے ہیں( بتا رہے یا پھیلا رہے ہیں )تو اس شخص کی عزت مجروح ہوگی کیونکہ بہت سے امور ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق پوشیدہ باتوں سے ہوتا ہے اور یہ ایسے پوشیدہ معاملات ہوتے ہیں کہ اگر وہ لوگوں کے سامنے آجائیں تو انسان کی عزت غیر محفوظ ہو جاتی ہے ۔

اللہ تعالی کا لوگوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ اللہ تعالی لوگوں کے رازوں کو پوشیدہ رکھتا ہے اور انکےعیوب کو ظاہر نہیں کرتا،ورنہ ہر شخص اپنے بارے میں جانتا ہے کہ وہ کتنا پاک و صاف ہے۔ اگر لوگوں کے عیوب لوگوں کے سامنے آ جائیں تو لوگ  ایک دوسرے کا سامنا نہ کر سکیں،  شاعر کہتا ہے کہ:

’’وَاللهِ لو عَلِمُوا قَبيحَ سَريرَتي  لأَبى السَلامَ عَلَيَّ مَن يَلقاني‘‘

’’یعنی اگر میرے عیوب لوگوں کے سامنے آ جائیں تو لوگ مجھے سلام کرنا بھی چھوڑ دیں‘‘

 اس بارے میں مصنف نے کچھ احادیث ذکر کی ہیں:

پہلی حدیث: 

 جناب ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :

إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، الرَّجُلَ يُفْضِي إِلَى امْرَأَتِهِ، وَتُفْضِي إِلَيْهِ، ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا1

 “ترجمہ: قیامت کے دن اللہ کے ہاں لوگوں میں مرتبے کے اعتبار سے بدترین وہ آدمی ہوگا جو اپنی بیوی کے پاس خلوت میں جاتا ہے اور وہ اس کے پاس خلوت میں آتی ہے پھر وہ (آدمی) اس کا راز افشاں کر دیتا ہے‘‘

یعنی جو میاں بیوی کے مابین معاملات ہیں یہ بھی ایک راز ہے اور یہ دونوں کے لیے ہے، میاں کے لیے بھی اور بیوی کے لیے بھی ، دونوں میں سے کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس قسم کے معاملات کو لوگوں میں بیان  کریں اور لوگوں میں اس کا ذکر کریں، یہ انتہائی  راز کے معاملات ہوتے ہیں تو یہی وجہ ہے کہ جو شخص اس کو پھیلائے گا یا اس کو ذکر کرے گا تو قیامت کے دن وہ بدترین لوگوں میں سے ہوگا ۔

اس کے بعد کچھ احادیث ذکر کی گئی ہیں جس میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سے راز کی حفاظت کرنے کی کچھ مثالیں موجود ہیں :

دوسری حدیث: 

جناب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی (حفصہ رضی اللہ عنہا) جو کہ ام المومنین بھی ہیں وہ جب بیوہ ہوئیں تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کا رشتہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کو پیش کیا، تو انہوں نے یہ کہہ کہ معذرت کر لی کہ:’’ ابھی میرا نکاح کرنے کا ارادہ نہیں ہے‘‘ اور رشتہ قبول نہیں کیا ، اس کے بعد یہ رشتہ انہوں نے جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  کوپیش کیا، جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس رشتے کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ، نہ اقرار کیا اور نہ انکار بلکہ خاموش رہے۔ اب عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ اس پر ناراض ہوئے،تو کچھ دنوں کے بعد نبی ﷺ نے حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کیا، تو اس وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا :

أَنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ تَرَكَهَا لَقَبِلْتُهَا2

’’ترجمہ: نبی ﷺ نے ( مجھ سے ) حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تھا ( مجھ سے مشورہ لیا تھا کہ میں ان سے نکاح کرلوں ) اور میں نبی ﷺ کا راز فاش نہیں کرسکتا تھا۔( اگر نبی ﷺ نکاح کر لیتے ہیں تو ٹھیک ہے) اور اگر آپ ﷺ حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دیتے تو بے شک میں ان سے نکاح کرلیتا ‘‘ 

 یہ بات انہوں نے بتائی نہیں جب تک نبی ﷺ نے ان سے نکاح نہیں کرلیا۔ تو یہ بھی راز کی حفاظت کا ایک طریقہ ہے۔

تیسری حدیث: 

 نبی ﷺ کی وفات کے قریب نبی ﷺ کے پاس ان کی ازواج موجود تھیں اور اتنے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا (جو نبی ﷺ کی بیٹی ہیں) آئیں اور ان کی چال نبی ﷺ کی چال کی طرح تھی، جب وہ تشریف لائیں تو نبی ﷺ نے انکو خوش آمدید کہا اور انکو اپنے پاس بٹھا لیا اور پھر ان سے ایک راز کی بات کہی تو وہ رونے لگیں، پھر نبی ﷺ نے جب دیکھا کہ یہ رو رہی ہیں تو ایک اور راز کی بات کہی تو وہ مسکرانے لگیں، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے سیدہ فاطمہ سے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہی ہیں جبکہ آپ کی خصوصیت اور فضیلت تو یہ ہے کہ نبی ﷺ نے آپ سے راز کی بات کہی ہے ، تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا :

مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ3

ترجمہ: میں نبی ﷺکا راز نہیں کھول سکتی

پھر جب نبی ﷺکی وفات ہوگئی تو وفات کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے پھر اصرار کیا کہ آپ مجھے بتائیں کہ آپ ﷺ نے کیا بات کہی تھی، تو انہوں(فاطمہ رضی اللہ عنہا) نے کہا کہ ہاں! اب میں بتا سکتی ہوں کہ وہ بات کیا تھی، فرماتی ہیں:  پہلی بات جو کہی تھی وہ یہ تھی کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

 ’’جبرائیل علیہ السلام ہر سال میرے ساتھ قران کا دور (دہرائی) کرتے ہیں اس سال جبرائیل علیہ السلام نے دو مرتبہ میرے ساتھ قران کا دور کیا ہے اور میرا یہ خیال ہے کہ یہ میری موت کے قریب ہونے کی علامت ہے یعنی میں موت کے قریب ہو چکا ہوں تو لہذا آپ  میری موت كے بعد  جزع اور فزع (رونا دھونا) نہیں كرنا بلکہ صبر کا مظاہرہ کرنا‘‘ اس کو سن کر میں روئی تھی اور جس بات کو سن کر میں مسکرائی تھی وه یہ تھی کہ:

يَا فَاطِمَةُ، أَلاَ تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ المُؤْمِنِينَ4

’’اے فاطمہ! کیا تمہیں یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ آپ مومنین کی عورتوں کی سردار ہوں گی‘‘

 تو اس حدیث کے اندر بھی جہاں اور بہت سی باتیں ہیں وہاں یہ کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وہ بات نبی ﷺ کی زندگی میں نہیں بتائی بلکہ آپﷺ کی وفات کے بعد بتائی۔

چوتھی حدیث: 

اسی طرح ایک اور واقعہ ذکر کرتے ہیں(انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کا ): جناب انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ کھیل رہا تھا بچوں کے ساتھ تو نبی ﷺ نے مجھے سلام کیا اور مجھے ایک کام سے بھیجا، جب میں کام سے گیا تو واپسی میں میں مجھے تاخیر ہو گئی اپنی والدہ کے پاس لوٹنے میں، جب میں آیا تو انہوں نے پوچھا کہ کیوں دیر ہوگئی ، تو میں نے کہا کہ:

قُلْتُ بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَةٍ، قَالَتْ: مَا حَاجَتُهُ؟ قُلْتُ: إِنَّهَا سِرٌّ، قَالَتْ: لَا تُحَدِّثَنَّ بِسِرِّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا5

’’ ترجمہ: مجھے نبی ﷺ نے ایک کام سے بھیجا تھا۔ ان کی والدہ نے پوچھا: کیا کام؟ انہوں نے کہا: یہ تو راز کی بات ہے یہ راز ہے (میں بتا نہیں سکتا کہ کس کام سے بھیجا تھا)، تو ان کی والدہ نے (بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے) کہا کہ: نبی ﷺ کے راز کسی کو نہیں بتاناــ‘‘

یعنی یہ تم نے راز کی حفاظت کر کے بہت  اچھا کام کیا۔

پھر انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے شاگرد ثابت البنانی کو کہتے ہیں :

قَالَ أَنَسٌ: وَاللهِ لَوْ حَدَّثْتُ بِهِ أَحَدًا لَحَدَّثْتُكَ يَا ثَابِتُ

اگر میں کسی کو بتاتا وہ راز تو میں آپ کو ضرور بتا دیتا

یعنی انہوں نے بعد میں بھی کسی کو نہیں بتایا کہ نبی ﷺ نے انکو کس کام سے بھیجا تھا، یعنی  انہوں نے اس راز کی اس قدر حفاظت کی کہ اپنے شاگرد کو بھی نہیں بتایا کہ وہ کون سی بات تھی۔

 تو اس میں ہمارے لیے جو درس ہے وہ یہی ہے کہ راز کی حفاظت کرنا انسان کے اعلی اخلاق سے متصف ہونے کی ایک علامت ہے۔

یہاں پہ ایک بات میں ذکر کروں گا کہ راز کی حفاظت کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان لوگوں کی نجی زندگی میں زیادہ دلچسپی نہ لے، لوگوں کے نجی امور ہوتے ہیں، جیسے: وہ کیا کر رہے ہیں ،کہاں جا رہے ہیں ، کہاں سے آ رہے ہیں ، کون کتنا کماتا ہے، کس کی کتنی تنخواہ ہے تو اس طرح کے امور بھی راز ہوتے ہیں لہذا لوگوں سے یہ باتیں اگلوانا اور یہ باتیں پوچھتے رہنا اور اس میں دلچسپی لینا یہ بھی ان کے راز میں دخل اندازی کے مترادف ہے تو اس سے بھی بچنا چاہیے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ جو کچھ بیان کیا اللہ تعالی سمجھنے کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

أقول قولي هذا وأستغفر الله لي ولكم ، وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين

_________________________________________________________

  1. (صحیح مسلم: 3542)
  2. (صحیح بخاری : 4005)
  3. (صحیح بخاری: 3624)
  4. (صحیح بخاری :6285)
  5. (صحیح بخاری :6378)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ مصعب بن ابرار حفظہ اللہ