قرآن پاک میں گرامر کی غلطی کا دعوی ، عربی گرامر اور کتبِ تفاسیر کی روشنی میں

قرآن پاک میں گرامر کی غلطی کا دعوی ، عربی گرامر اور کتبِ تفاسیر کی روشنی میں

الحمد للہ رب العالمین ، والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین ،و علی آلہ وصحبہ أجمعین ۔ أما بعد !

چند روز قبل کراچی کے ایک معروف عالم دین نے قرآن پاک کی آیت (كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ) (سورۃ العلق: 15) میں لفظ “لَنَسْفَعًا” کی گرامر سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ لفظ لکھنے میں دراصل “لَنَسْفَعًا” نہیں بلکہ “لَنَسْفَعَنْ” ہے یعنی اس کے آخر میں تنوین نہیں بلکہ حرف نون ساکن ہے ، لیکن کاتبِ وحی نے غلطی سے “لَنَسْفَعًا” لکھ دیا یعنی نون کی بجائے تنوین ڈال دی ، نبی کریم ﷺ نے جب قرآن لکھوایا تو چونکہ آپ ﷺ امی تھے ، قرآن پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے تو بعض دفعہ کاتب سے گرامر کی غلطی ہوئی، نبی ﷺ نے اس کی تصحیح نہیں کی کیونکہ آپ ﷺ کو پتا نہیں چلا کہ گرامر کے لحاظ سے یہ غلط لکھا ہوا ہے اور وہ غلطی آج تک چلی آرہی ہے ۔۔۔‘‘معاذ اللہ ۔

قرآنِ مجید ایک معجزاتی کتاب ہے جو چودہ سو سال سے انسانیت کی رہنمائی کرتی آئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، جو نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی اور اسے تمام مخلوقات کے لیے ہدایت کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ قرآن مجید کی زبان فصیح عربی ہے، جو نا صرف اس وقت کے عربوں کی زبان تھی بلکہ آج تک ادب، بلاغت، فصاحت اور گرامر کا بہترین نمونہ سمجھی جاتی ہے۔ بہت سے غیر مسلم مفکرین، ادباء اور علماء نے بھی قرآن کے اس ادبی کمال کو تسلیم کیا ہے۔ تاہم بعض لوگ مستشرقین کی طرف سے قرآن پاک پر اٹھائے جانے والے شبہات سے غلط فہمی کا شکار ہو کر یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں گرامر کی غلطیاں پائی جاتی ہیں(معاذ اللہ)۔

درج ذیل سطور میں عربی گرامر اور تفسیر کی قدیم کتب کی روشنی میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا قرآن مجید میں گرامر کی غلطی ہے ؟ کیا صحابہ کرام نے قرآن پاک کی کتابت میں غلطی کا ارتکاب کیا تھا ؟ لیکن موضوع  سے پہلے چند تمہیدی باتیں ذہن نشین کر لیں تاکہ بات کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔

قرآن مجید گرامر کی سب سے معتبر کتاب

 سب سے پہلے اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید پہلے نازل ہوا ہے اور گرامر اور املاء کے قواعد بہت بعد میں مرتب ہوئے ہیں ۔ یعنی عربی زبان میں گرامر کی جو قدیم ترین کتابیں لکھی گئیں وہ نزولِ قرآن کے دو سو برس بعد لکھی گئیں اور غیر عربوں نے لکھیں۔  لہذاعربی زبان کی قواعد کا سب سے معتبر مأخذ قرآن مجید ہے۔ اس کے بعد جاہلی شعر و نثر کا ذخیرہ ہے۔ اس طرح قرآن مجید کو گرامر کی میزان میں نہیں رکھا جائے گا بلکہ گرامر کو قرآن مجید سے مستنبط اور مستدل کیا جائے گا۔

کفارِ مکہ اور مشرکین عرب نے اعتراض کیوں نہیں کیا ؟

اگر قرآنِ مجید میں گرامر کی غلطیاں ہوتیں تو کفارِ مکہ اور مشرکین اور پوری عرب دنیا خاموش نہ رہتی اور اس غلطی کا بتنگڑ بنا دیتی۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے کے ادباء و فصحاء جو کہ فصاحت و بلاغت میں اپنی مثال آپ تھے، وہ اس غلطی کی نشاندہی ضرورکرتے۔ کیونکہ قرآن کا چیلنج ان کے سامنے موجود تھا  ، لیکن کبھی بھی عرب کے کسی بڑے سے بڑے ادیب اور بڑے سے بڑے شاعر نے قرآنِ مجید کے کسی اسلوب یا انداز کو عربی زبان اور گرامر کے خلاف نہیں کہا اور کبھی قرآن کے گرامر پر اعتراض نہیں کیا ۔ اگر قرآن میں کوئی گرامر کی غلطی ہوتی تو وہ فوراً اعتراض اٹھا دیتے، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے قرآن کی فصاحت و بلاغت کا اعتراف کیا اور بہت سے لوگ اسی کمالِ بیان کی وجہ سے ایمان لے آئے۔

اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ پر بہتان

یہ کہنا کہ قرآن پاک میں گرامر کی غلطی ہے، اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ پر بہت بڑا بہتان ہے کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

  كَانَ يَعْرِضُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ كُلَّ عَامٍ مَرَّةً ، فَعَرَضَ عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ فِي الْعَامِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ1 

ترجمہ : جبریل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے لیکن جس سال رسول کریم ﷺ کی وفات ہوئی اس میں انہوں نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ دو مرتبہ دورکیا ۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآن سناتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سنا کرتے تھے جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سناتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اسے سنا کرتے تھے۔

اب اگر گرامر کی غلطی ہوئی تھی تو جبریل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کو ضرورآگاہ فرماتے کہ فلاں جگہ پر فلاں کلمہ یا لفظ غلط لکھا گیا ہے اس کودرست طریقے سے لکھوائیں۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کے اندر گرامر کی یہ غلطی نہ نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوئی جن پر آسمان سے وحی اترتی تھی، نہ جبریل علیہ السلام کو معلوم ہوئی اور یہاں تک کہ اللہ تعالی کو بھی معلوم نہ ہوسکی ۔ معاذاللہ۔

اگر رسول کریم ﷺ اُمی (بے پڑھے) تھے لیکن اللہ تعالی تو بے پڑھا نہ تھا ۔اگر قرآن پاک میں کہیں گرامر کی غلطی تھی تو اللہ نے اس غلطی سے آگاہ کیوں نہ فرمایا ؟ یہ کہنا کہ آج تک وہ غلطی چلی آرہی ہے  اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کو اس غلطی  کا علم نہیں ہو سکا ۔ یہ اللہ تعالی پر بہت بڑا بہتان ہے ۔

صحابہ کرام پر بہتان

یہ کہنا کہ قرآن پاک میں گرامر کی غلطی ہے، صحابہ کرام پر بھی بہت بڑا بہتان ہے کیونکہ جمع قرآن  کے لئے سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنی جس میں عبداللہ بن زبیر، سعد بن العاص، عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم  شامل تھے۔ کیا یہ غلطی حضرت زید بن ثابت کی کمیٹی کو بھی نظر نہ آئی؟ پھر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں جب اس کے متعدد نسخے تیار کیے گئے تو کیا اس وقت بھی کسی کو یہ غلطی نظر نہ آئی؟۔ نبی کریم ﷺ کو محبت وعقیدت سے دیکھنے والے ، آپ ﷺ کے ارشادات کو نہایت محبت سے لکھنے والے ، آپ کے فرامین پر بڑی محبت سے عمل کرنے والے اور اسکو جوں کا توں ہم تک پہنچانے والے صحابہ کرام کو تنقید کا نشانہ بنانا اپنے ایمان اور عمل کو برباد کرنا ہے ۔

کیا سارے کاتبینِ وحی نے غلطی کی؟

نبی کریم ﷺ پر جب وحی کا نزول شروع ہوا تو اس کو محفوظ کرنے کے لئے حفظ اور کتابت دونوں طریقے استعمال کیے گئے۔ مختلف صحابہ کرام نے کتابتِ وحی کی خدمات سر انجام دیں۔ امام ابن القیم نے اپنی کتاب ’’اعلام الموقعین‘‘ میں کاتبینِ وحی کی تعداد 40 لکھی ہے۔ کتبِ سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے کاتبین کی تعداد عمومی طور پر تینتالیس (43) یا چوالیس (44) سے زیادہ تھی ۔  ڈاکٹر مصطفی الاعظمی نے اپنی کتاب ’’ کتُّاب النبی ﷺ‘‘ میں اکسٹھ کاتبین کا ذکر فرمایا ہے۔2

صرف وحی لکھنے والے کاتبین

نبی ﷺ کے کاتبین میں سے چودہ صحابی صرف اور صرف وحی لکھا کرتے تھے جن کے اسماءِ گرامی یہ ہیں: ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، ابان بن سعید، ابی بن کعب، ارقم بن أبی الارقم، ثابت بن قیس، حنظلہ بن ربیع، أبو رافع القبطی، خالد بن سعید، خالد بن ولید، العلاء بن الحضرمی، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور فتح مکہ کے بعد معاویہ بن ابوسفیان بھی شریک ہوگئے۔3

ایک صحابی سے لکھنے میں غلطی ممکن ہے ، دو صحابیوں سے کتابت میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن تمام کاتبینِ وحی غلطی نہیں کر سکتے۔ لہذا یہ کہنا کہ قرآن پاک میں گرامر کی غلطی ہے ، کاتبینِ وحی پر بھی بہت بڑی تہمت ہے ۔ پھر یہ قراءت قرآن پاک کے دو مقامات یعنی دو سورتوں سورہ علق اور سورہ یوسف دونوں میں موجود ہے ۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کاتبینِ وحی نے دونوں مقامات پر ایک ہی غلطی دو بار کی ہو۔

معیاری عربی زبان کونسی ہے؟

معیاری عربی زبان وہ ہے جو قرآنِ پاک میں بیان ہوئی ہے۔ معیاری عربی زبان وہ ہے جو نبی کریم ﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلی۔ جس کو دشمنوں نے اور اپنے اور  پرائے دونوں نے اعلیٰ ترین معیار قرار دیا۔ جنہوں نے قرآنِ مجید کے ادبی اعجاز کے سامنے سرِِ تسلیم خم کیا۔ لہٰذا اس اصول کی رو سے قرآنِ مجید اور حدیث رسول کی زبان ہی اصل، معیاری اور ٹکسالی عربی زبان ہوگی اور اگر گرامر کی کسی کتاب میں اس کے خلاف لکھا گیا ہے تو غلط لکھا گیا ہے۔

قرآن کریم عربی گرامر کی روشنی میں

قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے اور اللہ تعالی کے کلام سے بڑھ کر فصیح اور بلیغ کسی کا کلام نہیں ہے ، جن لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ قرآن میں گرامر کی غلطی ہے تو ان کی تسلی اور تشفی کے لئےعربی قواعد کی طرف رجوع کرتے ہیں اور یہ معلوم کرتے ہیں کہ مذکورہ قراءت کے متعلق عربی قواعد کیا کہتا ہے۔ کیونکہ قرآن پاک عربی گرامر کے خلاف نہیں ہوسکتا ۔ چنانچہ عربی زبان کے قواعد میں بتایا گیا ہے کہ جب فعل کے آخر میں نون تاکید خفیفہ لگتا ہے تو اگر اس سے پہلے والا حرف مفتوح ہو یعنی اس پر زبر ہو تو وقف کی صورت میں اس نون کو الف سے بدل دیا جاتا ہے۔ جیسے : (اضربن زیدا ً) ہے یہاں فعل سے نون خفیفہ ملا ہوا ہے اور اس سے پہلے حرف (الباء ) مفتوح ہے اسے وقف کی حالت میں الف سے بدل دیا جائے گا اس صورت میں (اضربا زیدا) پڑھا جائے گا۔ بالکل اسی طرح (لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ) میں ہوا ۔ یہ   اصل میں (لَنَسْفَعَن) تھا۔ یہاں فعل سے نون خفیفہ ملا ہوا ہے اور اس سے پہلے حرف  مفتوح ہے اسے  وقف کی حالت میں الف سے بدل دیا گیا جس سے (لَنَسْفَعًا) ہو گیا۔ اسی طرح (وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ) (سورۃ یوسف :32) (ولیکونا) اصل میں یہ (وَلَيَكُونَن) تھا۔  یہاں بھی فعل سے نون خفیفہ ملا ہوا ہے اور اس سے پہلے حرف مفتوح ہے اسے وقف کی حالت میں الف سے بدل دیا گیا جس سے(’’ولَيَكُوْنَا‘‘) ہو گیا۔

عربی گرامر کی چند قدیم اور مشہور کتابوں کی عبارت ملاحظہ کیجیے!

نحو كے امام أبو العباس ، المعروف بالمبرد متوفی 285ء کہتے ہیں:

أما الخفیفة فإنها في الفعل بمنزلة التنوین في الاسم فإذا في العمل بشركة التنوين في الاسم فإذا كان ما قبلها مفتوحا أبدلت منها بالألف4

ترجمہ: جہاں تک نون خفیفہ کی بات ہے تو یہ فعل كے اندر اسم میں تنوین کے مقام پر ہوتا ہے چنانچہ جس نون خفیفہ كا ماقبل مفتوح ہوگا تو نون خفیفہ الف سے بدل دی جائے گی۔

مشہور شاعر نابغہ جعدی کا شعر

گرامر کے اسی قاعدے کے مطابق مشہور شاعر نابغہ جعدی کا درج ذیل شعر ہے:

فمن يك لم يثأر بأعراض قومه

فإني ورب الراقصات لأثارا

اس شعرمیں لفظ “لأثارا” اصل میں”لَأثارنْ” تھا جو وقف کی وجہ سے “لأثارا” ہوگیا ۔

بدر الدين محمود بن أحمد بن موسى العيني متوفی 855ء کہتے ہیں:

 في قوله “(لأثارا )” أصله (لأثارن)، فلما وقف عليها أبدلھا ألفا كما يقال: (لنسفعاً) في قوله تعالی( لنسفعا بالناصیة)5

ترجمہ: (لأثارا) اصل میں( لأثارن) تھا لیکن جب نون پر وقف کیا گیا تو اسے الف سے بدل دیا گیا ، جیسے اللہ تعالی کے قول میں (لنسفعا) پڑھا جاتا ہے ۔

امام عبد اللہ بن مالک اندلسی متوفی 672 ھ اپنی مشہور کتاب الفیہ ابن مالک میں لکھتے ہیں :

وأبدلنها بعد فتح ألفا ۔۔۔۔۔ وقفا كما تقول في ’’ قفن‘‘ قفا6 

ترجمہ : نون تاکید خفیفہ جب فتحہ (زبر) کے بعد واقع ہو تو وقف کی حالت میں اسے الف سے بدل دو۔ جیسا کہ تم وقف کی حالت میں (قفن) سے (قفا) پڑھتے ہو۔

علي بن محمد بن عيسى نور الدين اشمونی متوفی 900ء کہتے ہیں :

 وأبدلتها بعد فتح ألفا .. وقفاً7

ترجمہ : اور نون خفیفہ کو فتحہ کے بعد وقف کی حالت  میں الف سے بدل دو۔

عصر جاہلی کے مشہور شاعر امرؤ القیس کے شعر

اور اسی قاعدے کے مطابق عصر جاہلی کے مشہور شاعر امرؤ القیس کے شعر (قفا نبك من ذکری حبیب ومنزل) میں لفظ “قفا” ہے کہ یہ (قفن) سے ہے نہ کہ یہ (قِف، قِف) کا مخفف ہے۔8

ابو بکر بن محمد بن ابی طالب قرطبی مالکی کہتے ہیں :

 والوقف عليها من الفتح ما قبلها بالألف9

ترجمہ: اور نون خفیفہ کا ماقبل مفتوح ہو تو پھر الف پر وقف ہوگا۔

أبو جعفر أحمد بن محمد بن إسماعيل المعروف بالنحاس کہتے ہیں :

الوقف بالألف فرقا بینه وبین النون الثقیلة ولأنه بمنزلة قولك : رأیت زیدا10

ترجمہ : نون خفیفہ پر الف کے ساتھ وقف کرنا صرف نون خفیفہ اور نون ثقیلہ کے درمیان فرق کرنے کے لئے ہے کیونکہ یہ “رأیت زیدا” کی طرح ہے ۔ یعنی (زیدا) میں الف پر وقف کیا گیا ہے تاکہ فرق واضح ہو۔

أبو البقاء عکبری کہتے ہیں :

إذا وقف علی هذا النون أبدل منها ألف لسكونها وانفتاح ما قبلها11

ترجمہ : “جب اس نون (تاکید خفیفہ) پر وقف کیا جائے تو اس کو اس کے ساکن ہونے اور اس کے ماقبل کے مفتوح ہونے کی وجہ سے الف سے بدل دیا جائے گا۔”

محی الدین درویش کہتے ہیں :

وكتبت بالألف في المصحف علی حكم الوقف12 

ترجمہ : “اور (نون تاکید خفیفہ کو ) مصحف میں وقف کے حکم کی بناء پر الف کے ساتھ لکھا گیا ہے۔

علم نحو کے ایک قدیم امام ابراہیم الزجاج کہتے ہیں :

الوقف علی هذه النون بالألف تشبیها بالتنوین13

ترجمہ : اس نون پر تنوین کے مشابہ بنا کر الف کے ساتھ وقف کیا گیا ہے۔

شیخ صالح بن عثیمین رحمہ اللہ  نے اپنی تصنیف “شرح ألفيہ ابن مالك” میں لکھتے ہیں:

جب اقلاب یا ادغام کی وجہ سے نون تاکید خفیفہ تلفظ میں میم سے بدل جائے تو لکھنے میں اس نون کو تنوین سے بدل دیا جاتا ہے اور وقف کی صورت میں الف بن جاتا ہے، چنانچہ “لَنَسْفَعَنْ بالناصية” سے “لَنَسْفَعًا بالناصية” ہوگیا ۔  وقف کے وقت “لنسفعَا” اس لئے ہوا کہ یہاں “لَنَسْفَعَنْ” کا نون اقلاب کی وجہ سے میم میں بدل گیا تھا، بالکل اسی طرح سورة يوسف کی آیت نمبر 32 میں ہے ” وَلَيَكُونًا مِنَ الصَّاغِرِينَ” یہاں “َلَيَكُونًا” دراصل “لَيَكُوْنَنْ” نون تاکید خفیفہ کے ساتھ تھا، ادغام کی وجہ سے اس کی آواز میم سے بدل گئی تو نون کی بجائے تنوین کے ساتھ لکھا گیا اور وقف کی صورت میں الف رہ گیا، بالکل “لَنَسْفَعًا اور”لَنَسْفَعَنْ” کی طرح۔14

قدیم کتب تفاسیر کی روشنی میں

درج بالا سطور میں آپ نے عربی گرامر کی قدیم و جدید کتب سے موضوع سے متعلق علماء نحو کی عبارات کا مشاہدہ کیا ۔ اب قدیم کتب تفسیر سے مفسرین کرام کی تفاسیر ملاحظہ فرمائیں ۔

امام طبری رحمہ اللہ سورہ یوسف کی آیت نمبر 32 کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

 وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ (سورہ یوسف: 32) وأما قوله: ( وليكونَن ) فإن الوقف عليه بالألف، لأنها النون الخفيفة , وهي شبيهةُ نون الإعراب في الأسماء في قول القائل: ” رأيت رجلا عندك ” , فإذا وقف على ” الرجل ” قيل: ” رأيتُ رجلا ” , فصارت النون ألفًا. فكذلك ذلك في: ” وليكونًا “, ومثله قوله: لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ * نَاصِيَةٍ ، (سورة العلق: 15، 16) الوقف عليه بالألف لما ذكرت۔ ومنه قول الأعشی: وَصَلِّ عَلَى حَينِ العَشَيَّاتِ والضُّحَى وَلا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ وَاللهَ فَاعْبُدَا ( ديوان الأعشي : 103 ) وإنما هو: ” فاعبدن “، ولكن إذا وقف عليه كان الوقف بالألف15

ترجمہ: جہاں تک لفظ “وَلَيَكُونَنَّ” کا تعلق ہے، تو اس پر وقف الف کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ یہ نون خفیفہ ہے۔ یہ نون اعراب کے نون کی طرح ہے جو اسماء میں استعمال ہوتی ہے، جیسے کہ کوئی کہے: “رأيت رجلاً عندك” (میں نے تمہارے پاس ایک آدمی کو دیکھا)، اور اگر “الرجل” پر وقف کیا جائے تو کہا جائے گا: “رأيتُ رجلا”۔ اس طرح نون الف میں بدل جاتی ہے۔ اسی طرح “وَلَيَكُونَنَّ” میں یہی بھی ہوا ہے، اور اس کی مثال “لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ” میں ہے۔ اس پر بھی الف کے ساتھ وقف کیا جاتا ہے۔ جس طرح شاعر الاعشی کا یہ شعر ہے ” وَصَلِّ عَلَى حَينِ العَشَيَّاتِ والضُّحَى وَلا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ وَاللهَ فَاعْبُدَا”۔ یہاں ( فاعبدا ) اصل  میں”فاعبدن” تھا، لیکن وقف کی صورت میں الف کے ساتھ لکھا گیا تو( فاعبدا ) ہوگیا  ۔

امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر ’’الجامع لأحكام القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں :

وخط المصحف ” وليكونا ” بالألف وتقرأ بنون مخففة للتأكيد ، ونون التأكيد تثقل وتخفف، والوقف على قوله : ليسجنن بالنون لأنها مثقلة ، وعلى (ليكونا ) بالألف لأنها مخففة ، وهي تشبه نون الإعراب في قولك : رأيت رجلا وزيدا وعمرا ، ومثله قوله : لنسفعا بالناصية ونحوها الوقف عليها بالألف ، كقول الأعشى (وَلا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ وَاللهَ فَاعْبُدَا) أي أراد فاعبدن ، فلما وقف عليه كان الوقف بالألف16

ترجمہ : مصحف میں “وليكونا”  کو الف کے ساتھ لکھا گیا ہے اور تاکید کے لئے نون مخففہ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اور نون تاکید کبھی ثقیلہ اور خفیفہ ہوتا ہے ، “ليسجنن” پر نون کے ساتھ وقف کیا گیا کیونکہ یہ نون مثقلہ ہے جبکہ (وليكونا) پر الف کے ساتھ وقف کیا گیا کیونکہ یہ نون مخففہ ہے۔ یہ نون اعراب کی نون کی طرح ہے جیسے آپ کہیں: “رأيت رجلاً وزيداً وعمراً”۔ اسی طرح قرآن میں “لنسفعا بالناصية” کی مثال ہے اور اس جیسے دیگر مقامات پر بھی الف کے ساتھ وقف کیا جاتا ہے، جیسے کہ شاعر الاعشی کا شعر “وَلا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ وَاللهَ فَاعْبُدَا” ۔ یعنی ( فاعبدا ) اصل میں “فاعبدن” تھا ، لیکن  جب اس پر وقف کیا گیا تو الف کے ساتھ وقف کیا گیا اور( فاعبدا ) ہوگیا  ۔

امام اسماعیل حقی بن مصطفی الحنفی اپنی تفسیر ’’روح البيان في تفسير القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں :

أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ (سورۃ ق: 24)۔۔۔۔ أو على أن الألف بدل من نون التأكيد على إجراء الوصل مجرى الوقف، ويؤيده أنه قرئ ’’ألقين‘‘ بالنون الخفيفة مثل لنسفعن فإنه إذا وقف على النون تنقلب ألفا فتكتب بالألف على الوقف17

 ترجمہ : (أَلْقِيَا) میں جو الف ہے وہ نونِ تاکید کا بدل ہے، جیسے کہ وصل کو وقف کے حکم پر جاری کیا گیا ہو اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ “ألقین” نونِ خفیفہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے، جیسے کہ “لنسفعن”، کیونکہ جب نون پر وقف کیا جاتا ہے تو وہ الف میں بدل جاتی ہے اور وقف کی حالت میں الف سے لکھی جاتی ہے۔”

مولانا حافظ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :

 ’ لَنَسْفَعًا‘‘ اصل میں ’’لَنَسْفَعَنْ‘‘ ہے، جو ’’سَفَعَ يَسْفَعُ‘‘ (زور سے کھینچ کر گھسیٹنا) سے جمع متکلم مضارع معلوم بانون تاکید خفیفہ ہے۔ چونکہ وقف کی حالت میں نون تاکید خفیفہ ’’الف‘‘ کے ساتھ بدل جاتا ہے، جیسا کہ نون تنوین ’’الف‘‘ کے ساتھ بدل جاتا ہے، اس لیے نون تنوین ’’خَبِيْرًا ‘‘ اور ’’بَصِيْرًا‘‘ کی طرح اسے بھی ’’لَنَسْفَعَنْ‘‘ کے بجائے ’’ لَنَسْفَعًا ‘‘ کی صورت میں لکھا گیا ہے اور اس میں مصحف عثمان رضی اللہ عنہ کی پیروی کی گئی ہے۔ ’’ وَ لَيَكُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِيْنَ ‘‘ میں  بھی ایسے ہی ہے۔18

قرآن کا متواتر رسم الخط

 اسی طرح قرآن سے متعلق ایک بات واضح رہے کہ قرآن کا رسم الخط متواتر ہے لہذا جو قاعدہ قرآن کے رسم الخط سے ٹکرائے وہاں قرآن کو غلط نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کے خلاف وضع کئے گئے گرامر کو غلط کہا جا ئے گا کیونکہ قرآن مجید کا اپنا ایک مخصوص رسم الخط ہے اور وہ اسی کا پابند ہے خواہ عام رسم الخط کے اصول کے موافق نہ ہو ، کیونکہ قرآن کا ثبوت متواتر ہے اور اس کا خط بھی متواتر ہے اس متواتر کو کسی غیر متواتر سے غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔

  امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

القاعدة العربيّة أن اللفظ يُكتب بحروف هجائيّة مع مراعاة الابتداء به والوقف عليه ، وقد مهّد النحاة له أصولًا وقواعد، وخالَفها في بعض الحروف خطُّ المصحف الإمام19

ترجمہ : عربی قاعدہ یہ ہے کہ لفظ کو حروفِ تہجی کے مطابق لکھا جاتا ہے، اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ کہاں سے شروع کیا جائے اور کہاں پر رکا جائے۔ نحویوں نے اس کے لیے اصول اور قواعد وضع کیے ہیں، لیکن مصحفِ امام (یعنی مصحف عثمانی ) کے رسم الخط نے بعض حروف میں ان قواعد کی خلاف ورزی کی ہے۔

غیر قیاسی رسم الخط

رسم المصحف یعنی قرآن کا رسم الخط  ایک ایسا طرزِ تحریر ہے جو قیاسی نہیں ہے ۔ یعنی یہ کسی اصول یا قواعد و ضوابط پر مبنی نہیں ہے، چنانچہ عبداللہ بن جعفر ابن درستویہ اپنی کتاب “كتاب الكُتَّاب‘‘ میں لکھتے ہیں :

ووجدنا كتاب الله – عز وجل – لا يُقاسُ هجاؤه، ولا يُخالف خطُّه، ولكنه يُتَلَقَّى بالقبول على ما أُودع المصحف20

ترجمہ : ہم نے اللہ عزوجل کی کتاب کو پایا کہ اس کے ہجے پر قیاس نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کے رسم الخط کی مخالفت کی جاتی ہے، بلکہ اسے اسی طرح قبول کیا جاتا ہے جیسے مصحف میں درج کیا گیا ہے۔

امام جلال الدين سیوطی اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں :

” أن ابن درستويه قال: “خطان لا يُقاس عليهما؛ خط المصحف والعروض21

ابن درستویہ نے کہا ” دو قسم کے رسم الخط قیاسی نہیں ہیں: ایک قرآن مجید کا رسم  الخط ، دوسرا فنِ عروض کا رسم الخط ۔

یعنی دو قسم کے رسم الخط ایسے ہیں جن پر عام قواعد اور اصولوں کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا: ایک قرآن مجید کا رسم الخط اور دوسرا فن عروض  کارسم الخط ہے ۔

فنِ عروض کا رسم الخظ

فنِ عروض کا خط جس میں اشعار لکھے جاتے ہیں کہ وہ عام اصول رسم الخط کے خلاف ہوتا ہے اور شاعر اپنے کلام کو اسی کے مطابق وزن کے سانچہ میں ڈھال لیتا ہے۔

  رسمِ عثمانی کا اِلتزام

رسمِ عثمانی کے مُجمع علیہ ہونے میں کسی کا اختلاف منقول نہیں کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ مصاحف عثمانیہ کی کتابت کرتے ہوئے بارہ ہزار 12000 صحابہ نے اتفاقِ رائے سے اس رسم کو صحیح اور درست قرار دیا ۔22

شیخ القراء محمد بن علی حداد لکھتے ہیں:

أجمع المسلمون قاطبة علی وجوب اتباع رسم مصاحف عثمان ومنع مخالفته، ثم قال: قال العلامة ابن عاشر ووجه وجوبه ما تقدم من إجماع الصحابة علیه وھم زهاء اثنی عشر ألفاً والإجماع حجة حسبما تقرر في أصول الفقه23

ترجمہ: “تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ عثمانی مصاحف کے رسم الخط کی پیروی واجب ہے اور اس کی مخالفت منع ہے۔ (پھر کہا) علامہ ابن عاشر نے فرمایا کہ اس کے واجب ہونے کی وجہ وہ اجماع ہے جو صحابہ کرام سے منقول ہے، اور ان کی تعداد تقریباً بارہ ہزار تھی، اور اجماع ایک حجت ہے جیسا کہ اصولِ فقہ میں ثابت ہے۔”

خلفائے راشدین کی سنت بھی قابلِ اتباع ہے

رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق خلفائے راشدین کی سنت بھی قابلِ اتباع ہے اور اس کی پیروی ہر مسلمان پر لازم ہے۔ دلیلِ مذکور کی بنیاد پر چونکہ رسمِ عثمانی صحابہ کا مجمع علیہ ہے، لہٰذا اِس کی اتباع اور اقتدا کا حکم تمام دیگر نظریات کے مقابلہ میں راجح ہے۔

 علامہ ابو طاہر السندی رحمہ الله رسمِ عثمانی کے بابت لکھتے ہیں:

وتقلدت الأمة رسمها ، واشتہرت کتابتها بالرسم العثماني ، وأجمع الصحابة رضی اﷲ عنهم علی ذلك الرسم ولم ینکر أحد منهم شیئا منه وإجماع الصحابة واجب الإتباع۔ ثم استمرّ  الأمر علی ذلك، والعمل علیه في عصور التابعین والأئمة المجتهدین، ولم یر أحد منهم مخالفة وفي ذلك نصوص کثیرۃ لعلماء الأئمة24

ترجمہ: امت نے اس رسم الخط کو اختیار کیا، اور اس کی کتابت رسم عثمانی کے مطابق مشہور ہوئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس رسم الخط پر اجماع کیا اور ان میں سے کسی نے اس میں کوئی اختلاف یا انکار نہیں کیا۔ صحابہ کا اجماع واجب الاتباع ہے۔ پھر یہ معاملہ اسی طرح تابعین اور ائمہ مجتہدین کے زمانے میں بھی جاری رہا، اور کسی نے اس کی مخالفت کو جائز نہیں سمجھا۔ اس حوالے سے ائمہ علماء کے بہت سے اقوال موجود ہیں۔”

صحابہ  کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین کا عمل

رسول الله ﷺ کی زیر نگرانی ہونے والی کتابت ہی صحابہ کرام کے لیے قابلِ عمل تھی ۔انہی خصوصیاتِ رسم کے ساتھ عہدِ صدیقی اور پھر عہدِ عثمانی میں مصاحف تیار کروائے گئے۔ چنانچہ اسلام کے ابتدائی دور میں لوگوں کے لیے کتابتِ مصحف کا معیار رسمِ عثمانی تھا اور اکثر صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نے ہمیشہ رسمِ عثمانی کی موافقت کو ہی معیار سمجھا۔

امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ولو لا اعتیاد الناس لذلك في ھذہ الأحرف الثلاثة (الصلوٰۃ، الزکوٰۃ والحیٰوۃ) وما فی مخالفة جماعتھم لکان أحب الأشیاء إليّ أن یکتب ھذا کله بالألف‘‘ 25

ترجمہ : اگر ان تین کلمات صلوٰۃ، زکوٰۃ اور حیٰوۃ کا واؤ کے ساتھ املاء لوگوں میں رائج نہ ہوتا اور ان کے اتفاق کی خلاف ورزی کا خدشہ نہ ہوتا تو میں ان کلمات کو الف سے لکھنا زیادہ پسند کرتا۔

خلاصہ کلام

درج بالا تمام دلائل اور حقائق سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے  آیتِ مذکورہ یا قرآن مجید میں گرامر کی کوئی غلطی نہیں ہے ، نہ کوئی ایسی غلطی پہلے سے تھی جو آج تک چلی آ رہی ہو ، بلکہ قرآن مجید عربی گرامر کے عین مطابق ہے۔ لیکن بعض دفعہ حق بات بیان کرتے ہوئے شیطان ہماری زبان پھسلوا دیتا ہے اور عالم و فاضل ہونے کے باوجود زبان سے ایسی بات نکل جاتی ہے جو اللہ تعالی ، رسول کریم ﷺ اور قرآن مجید کی شان کے خلاف ہوتی ہےاور گستاخی کا سبب بن جاتی ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ایسی غلطیوں سے محفوظ رکھے ۔

سوشل میڈیا پر آنے والے علماء و طلباء سے چند درد مندانہ گذارشات

سوشل میڈیا دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے ایک اہم اور طاقتور ذریعہ بن چکا ہے۔ اس کے صحیح اور مثبت استعمال سے دین کی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ممکن ہو گیا ہے۔ تاہم، اس کا استعمال احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ کیا جانا چاہیے تاکہ اس کے نقصانات سے بچا جا سکے اور اس کے ذریعے دین کی خدمت مؤثر اور کامیاب طریقے سے ہوسکے۔  اس سلسلے میں چند گذارشات پیشِ خدمت ہیں ۔

دین کی خدمت اور عوام کی درست رہنمائی

سوشل میڈیا پر آنے والے علماء و طلباء سے دردمندانہ گزارش ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم کو دین کی خدمت اور عوام کی رہنمائی کے لیے مثبت انداز میں استعمال کریں۔ کیونکہ یہ ایک اہم ذریعہ ہے جہاں بہت سے لوگ دینی تعلیمات اور اسلامی اقدار کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ علماء اور طلباء اپنی بات کو علمی اور تحقیقی معیار کے مطابق پیش کریں۔

مستند اور تحقیقی معلومات

سوشل میڈیا پر آنے والے علماء و طلباء سے دردمندانہ گزارش ہے کہ وہ اس بات کا یقین کریں کہ جو بات آپ کہہ رہے ہیں وہ درست، مستند اور تحقیق پر مبنی ہو۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر غیرمستند معلومات کا پھیلاؤ لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر سکتا ہے۔

جس فن کے آپ ماہر نہ ہوں اس پر بات نہ کریں

 یہ ایک نہایت اہم اور دانشمندانہ اصول ہے کہ انسان کو صرف اس میدان میں بات کرنی چاہیے جس کا اسے علم ہو اور جس میں اس کا تجربہ ہو۔ جس فن یا علم میں آپ ماہر نہیں ہیں، اس پر بات کرنے سے بہت سے نقصانات پہنچ سکتے ہیں ۔ مثلا :

دین و ایمان کے لئے خطرہ

سوشل میڈیا پر آنے والے علماء و طلباء اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ جس فن کے آپ ماہر نہ ہوں اس پر بات کرنا نہ صرف آپ کے دین ، ایمان اور آخرت کے لئے  نقصان دہ ہو سکتا ہے بلکہ سننے والوں کے لیے بھی گمراہی کا باعث بن سکتا ہے۔جبکہ دین کی طرف دعوت دینے والوں کا کام لوگوں کو گمراہی سے بچانا ہے ۔

غلط معلومات پھیلانے کا سبب

جب آپ کسی فن یا علم میں ماہر نہیں ہوتے اور اس پر رائے دیتے ہیں، تو آپ غلط معلومات پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ علم ایک امانت ہے، اور اگر آپ کو کسی موضوع کا درست علم نہیں، تو خاموشی بہتر ہے، کیونکہ یہ ایک محفوظ راستہ ہے۔

فتنہ و فساد پھیلانے کا ذریعہ

ایسے مسائل یا موضوعات جن کا آپ کو مکمل فہم نہیں، ان پر بات کرنے سے دوسروں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس سے فتنہ پھیل سکتا ہے اور معاشرتی انتشار بڑھ سکتا ہے۔ دین کے ایک داعی اور مبلغ کا کام لوگوں کو فتنہ و فساد میں ڈالنا نہیں بلکہ اس سے بچانا ہے ۔

علمی دیانتداری کا تقاضا:

 علمی دیانتداری کا تقاضا ہے کہ آپ صرف ان موضوعات پر بات کریں جن کا آپ کو گہرا علم ہو۔ ایک عالم یا طالب علم کو اپنے حدود کا ادراک ہونا چاہیے اور یہ جاننا چاہیے کہ کہاں گفتگو کرنا مناسب ہے اور کہاں خاموشی بہتر ہے۔

اعتبار اور ساکھ کا تحفظ:

 اگر آپ ہر موضوع پر بات کرنے لگیں گے، جو آپ کے دائرہ علم میں نہ ہو، تو آپ کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے ۔ لہذا اگر آپ کسی خاص فن یا علم میں ماہر نہیں ہیں، تو بہتر یہی ہے کہ اس پر بات کرنے سے گریز کریں۔ اس طرح آپ اپنا اعتبار اور ساکھ کو برقرار رکھ سکیں گے اور دوسروں کو بھی گمراہی سے بچا سکیں گے۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین ۔

_________________________________________________________________

  1. (صحیح البخاری :4998)
  2. ( الکامل فی التاریخ لابن اثیر، جلد: 2، ص: 213 و الجامع الاحکام القرآن للعلامہ قرطبی، جلد:1، ص:37 و فتح الباری لابن حجر عسقلانی، ج:9، ص: 14)
  3. (علم الرسم – جلد 1  ص:18 ، جامع الكتب الإسلاميہ)
  4. (المقتضب :3/17)
  5. (المقاصد النحویة في شرح شواهد الألفیة المشهور بشرح الشواهد الكبری :4/1812)
  6. (الفیة ابن مالك بیت رقم : 648، و شرح الكافیه الشافیه: 3/1414 )
  7. (شرح الأشموني بحاشیة الصبان :3/226)
  8. (كتاب الأغانی ، أبو الفرج الأصفهاني:3/140، إعراب القرآن وبیانه ، لمحيي الدين بن أحمد مصطفى درويش: 9/292 )
  9. (مشکل إعراب القرآن :2/828، أبو محمد مكي بن أبي طالب القيسي القيرواني (ت ٤٣٧ هـ) ۔
  10. (إعراب القرآن لأبي جعفر أحمد بن محمد بن إسماعيل المعروف بالنحاس، ت:338هـ، :5/163)
  11. (التبیان في إعراب القرآن, لأبي البقاء عبدالله بن الحسين العكبري : 2/290)
  12. ( إعراب القرآن وبیانه، محيي الدين بن أحمد مصطفى درويش (ت 1403 هـ): 10/528)
  13. (معانی القرآن وإعرابه، إبراهيم بن السري بن سهل، أبو إسحاق الزجاج المتوفى: 311هـ:5/345)
  14. (شرح الفیہ ابن مالک بیت نمبر: 648)
  15. (تفسیر جامع البيان عن تأويل آي القرآن، سورۃ یوسف ، الآیة :32)
  16. (تفسیر قرطبي ، سورۃ یوسف ، الآیة :32)
  17. (روح البيان في تفسير القرآن، سورۃ ، ق الآیة:24)
  18. (تفسیر القرآن الکریم :سورۃالعلق :آیت :15)
  19. (الإتقان في علوم القرآن ، للسيوطي ج:2، ص:212)
  20. (كتاب الكُتاب، ص: 16)
  21. (همع الهوامع: 2/ 242)
  22. (رسم المصحف، غانم قدوری :ص:199 ،  وتاریخ القرآن وغرائب رسمه وحکمه: محمد طاہر بن عبدالقادر الکردي المالکي، ص:103)
  23. (النصوص الجلیلة، لمحمد بن علی حداد ، ص:25)
  24. (صفحات في علوم القراءات لأبي طاهر عبد القيوم عبد الغفور السندي، ص:178 )
  25. (أدب الکاتب:ص:253 ، ابن قتیبة الدینوري )

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ