قرآن کریم اوصاف اور امتیاز

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام  تعریفیں اللہ  کے لئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد   اللہ کے بندے اور اس کے رسول  ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود  و سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندوں! تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے  خلوت و جلوت میں اسی کو اپنا نگہبان سمجھو۔

مسلمانوں!

اللہ تعالی اپنی ذات اور اسما و صفات  میں کامل ہے، اس کا کوئی ہمسر اور ثانی نہیں ہے، اس کی صفات بھی کامل ترین صفات ہیں، اور کلام کرنا بھی اللہ کی تعالی کی صفت ہے، چنانچہ اللہ تعالی جب چاہے، جو چاہے گفتگو فرماتا ہے، اس کے کلمات کی کوئی انتہا نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا

الکھف – 109

 آپ کہہ دیں: اگر سمندر میرے رب کے کلمات لکھنے کے لیے سیاہی بن جائے تو میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائے چاہے ہم  دگنی سیاہی لے آئیں۔

اللہ تعالی کی گفتگو سب سے اچھی گفتگو ہے، اور کلامِ الہی کی شان ایسے ہی ہے جیسے خالق کی مخلوق پر فضیلت ہوتی ہے، اللہ تعالی کی بندوں پر ہونے والی نعمتیں ناقابل شمار ہیں۔

یہ اللہ تعالی کی حکمت اور مخلوق پر رحمت ہے کہ  اس نے رسولوں کو بھیجا اور ان پر کتابیں نازل کیں، چنانچہ تورات، انجیل، زبور اور ابراہیم و موسی علیہما السلام پر صحیفے نازل فرمائے ، اور اس سلسلے کو قرآن کے ذریعے مکمل فرمایا، جو گزشتہ تمام کتب سے اعلی اور بلند مقام و مرتبہ والا ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید کے نازل کرنے پر خود ستائش کرتے ہوئے فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا

الکھف – 1

 تمام تعریفیں اسی ذات کے لئے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی، اور اس میں کسی قسم کا ٹیڑھ پن نہیں بنایا۔

نیز قرآن مجید نازل کرنے پر اپنی عظمت کا اظہار بھی فرمایا:

تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا

الفرقان – 1

 بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا  تا کہ وہ جہانوں کے لئے ڈرانے والا بن جائے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید کی قسم بھی اٹھائی اور فرمایا:

يٰس (1) وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ

یٰس – 1/2

یٰس۔ قسم ہے حکمت والے قرآن کی۔

 نیز اللہ تعالی نے قرآن مجید  کے بارے میں بھی قسم اٹھائی اور فرمایا:

فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ (75) وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ (76) إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ

الواقعة -75/77

میں قسم اٹھاتا ہوں تاروں کے گرنے کی جگہ کی۔ اگر تم جانتے ہو تو یہ یقیناً بہت بڑی قسم ہے۔ بیشک یہ معزز قرآن کریم ہے۔

قرآن کریم گزشتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور ان پر نگران بھی ہے، قرآن مجید نے سابقہ تمام کتابوں کو منسوخ کر دیا ہے، گزشتہ کتب کی تعلیمات کے سلسلے میں اسی پر اعتماد کیا جاتا ہے ، قرآن مجید کے نازل ہونے سے پہلے ہی انبیائے کرام نے اس کی خوشخبری دی، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ

الشعراء – 196

 بیشک قرآن مجید کا تذکرہ پہلے لوگوں کی کتابوں میں بھی ہے۔

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اس کتاب کا تذکرہ اور بشارت سابقہ آسمانی کتب میں بھی موجود ہے، بلکہ انبیائے کرام سے بھی منقول ہے”۔

ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام  نے اللہ تعالی سے ایسے نبی کی دعا فرمائی جو قرآن مجید کی تلاوت کرے اور اس کی تعلیم بھی دے، انہوں نے کہا تھا:

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

البقرۃ – 129

ہمارے رب! ان میں ایک رسول مبعوث فرما جو انہی میں سے ہو اور ان کے سامنے تیری آیات پڑھے انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے ، یقیناً تو غالب حکمت والا ہے ۔

قرآن مجید رب العالمین کا کلام ہے، اس کے ذریعے اللہ تعالی نے حروف اور آواز کیساتھ قابل سماعت حقیقی کلام فرمایا ، قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور آخر کار اسی کی طرف لوٹ جائے گا، قرآن مجید کو اللہ تعالی سے اعلی ترین فرشتے جبریل علیہ السلام نے سن کر نیچے اتارا، اور اشرف الانبیاء تک افضل ترین مہینے کی بابرکت رات لیلۃ القدر میں پہنچایا مزید بر آں کہ بہترین امت کے لئے افضل اور جامع ترین زبان کیساتھ نازل کیا ، اس کتاب کا کوئی ثانی نہیں ہے

أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ

العنکبوت – 51

ان کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جو ان پر پڑھی جاتی ہے۔

نیز اللہ تعالی نے اس امت پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ

آل عمران – 164

 بلا شبہ مسلمانوں پر اللہ تعالی کا احسان ہے کہ اللہ نے انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو اس کی آیات پڑھ کر سناتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔

قرآن مجید آپ ﷺ اور آپ کی امت دونوں کے لئے باعث شرف ہے:

وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ

الزخرف – 44

 بیشک یہ قرآن آپ اور آپ کی قوم کے لئے نصیحت ہے۔

قرآن کریم امت محمدیہ کی روح بھی ہے؛ کیونکہ حقیقی زندگی کا دار و مدار قرآن مجید پر ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ جب انسان اس سے دور ہو تو چلتا پھرتا مردہ  نظر آتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا

الشوریٰ – 52

 اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف روح [قرآن]وحی کی ہے۔

اگر اللہ تعالی قرآن مجید کو کسی پہاڑ پر اتار دیتا  تو پہاڑ بھی اللہ کے خوف اور اطاعت گزاری میں کٹ پھٹ جاتا۔

انسان کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتا جب تک قرآن پر اجمالی اور تفصیلی طور پر ایمان نہ لے آئے، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ

النساء – 136

ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ سمیت اس کتاب پر بھی ایمان لاؤ جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے۔

قرآن مجید آسمان میں

فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ (13) مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ (14) بِأَيْدِي سَفَرَةٍ (15) كِرَامٍ بَرَرَةٍ

عبس – 13/16

 قابل احترام صحیفوں میں درج ہے۔ جو بلند بالا اور پاک صاف ہیں۔ ایسے لکھنے والے [فرشتوں]کے ہاتھوں میں ہے۔ جو معزز اور نیک ہیں۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید نازل کرنے سے پہلے ہی اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا اور فرمایا:

بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ[21]فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ

البروج – 21/22

 یہ قرآن مجید ہے۔ جو لوحِ محفوظ میں ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید کو نزول کے وقت بھی شیاطین سے محفوظ رکھا اور فرمایا:

وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ (210) وَ مَا يَنْبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ

الشعراء – 210/211

 شیاطین قرآن کریم نہیں لائے۔ وہ اس قابل ہی نہیں اور نہ ہی اس کی طاقت رکھتے ہیں۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید نازل کرنے کے بعد اسے ہمیشہ محفوظ رکھنے کی ذمہ داری بھی اٹھائی، فرمانِ الہی ہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

الحجر – 9

 بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

اللہ تعالی نے متعدد نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے سب سے پہلے قرآن مجید کو بیان کیا اور فرمایا:

اَلرَّحْمَنُ (1) عَلَّمَ الْقُرْآنَ

الرحمٰن – 1/2

 رحمٰن۔ اسی نے قرآن سکھایا۔

اللہ تعالی نے اپنے بندوں  کو قرآن مجید سکھایا اور ان کے لئے حفظ، تلاوت، اور اس پر عمل آسان کر دیا، چنانچہ عربی ہو یا کوئی اور مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب سب آسانی سے قرآن مجید یاد کر تے ہیں۔

قرآن مجید کے متعدد نام ہیں اور اسکی بہت سی امتیازی صفات ہیں ، اللہ تعالی نے اسے پوری انسانیت کے لئے ایسے ہی نور  ہدایت بنایا جیسے ہمارے نبی ﷺ کی رسالت سب کے لئے ہے، لہذا یہ کسی خاص طبقے کے لئے نہیں ہے، اس کی آیات ایک دوسرے سے ملتی جلتی اور باہمی تصدیق بھی کرتی ہیں:

كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ

الزمر – 23

 قرآن مجید  کے مضامین ملتے جلتے  اور بار بار دہرائے  جاتے ہیں۔

قرآن مجید سیدھا راستہ ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی ٹیڑھ پن ، اختلاف اور تصادم نہیں ہے:

وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا

النساء – 82

 اگر یہ غیر اللہ کی جانب سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ تصادم پایا جاتا ۔

قرآن مجید بہترین اور افضل ترین کلام ہے:

اَللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ

الزمر – 23

 اللہ تعالی نے احسن ترین کلام نازل کی۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید ہر قسم کے کلام چاہے وہ منزل ہو یا غیر منزل من اللہ  سب سے اعلی ترین کلا م ہے”۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید کو عظمت سے موصوف کرتے ہوئے فرمایا:

وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ

الحجر – 87

اور ہم نے آپ کو بار بار پڑھی جانے والی سات آیات اور قرآن عظیم عطا کیا ۔

نیز قرآن مجید کو فی نفسہ  اور مقام و مرتبے میں بلند قرار دیتے ہوئے فرمایا:

وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ

الزخرف – 4

 قرآن ام الکتاب میں  ہے اور یہ ہمارے ہاں بڑی بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز کتاب ہے۔

قرآن مجید کے الفاظ اور معانی دونوں واضح ہیں، نیز قرآن مجید میں ہر طرح کی رہنمائی موجود ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

هَذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ

آل عمران – 138

 یہ لوگوں کے لئے رہنمائی، جبکہ متقین کے لئے ہدایت اور نصیحت بھی ہے۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ” اللہ تعالی نے ہمارے لیے قرآن مجید میں سب علوم اور تمام چیزیں بیان کی ہیں”۔

کسی قسم کی کمی، زیادتی، تحریف اور تبدیلی اس میں نہیں ہوگی، اللہ تعالی نے اسے جہانوں کے لئے  ہدایت و نصیحت بنایا ہے۔

قرآن مجید ڈرنے والوں کے لئے نصیحت، اور رو گردانی کرنے والوں کے خلاف حجت ہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید کی شان میں متعدد صفات بیان  کیں، اور اسے متعدد ناموں سے موسوم کیا، یہی وہ  حق ہے جس میں کوئی باطل یا شک و شبہ کا امکان نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ

السجدۃ – 3

 بلکہ یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے۔

قرآن حکیم حکمت سے بھر پور ہے نیز اسی سے حکمت حاصل بھی ہوتی ہے۔

تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ

یونس – 1

 یہ حکمت بھری کتاب کی آیات ہیں۔

قرآن کریم  اللہ تعالی کے ہاں مکرّم اور اعلی اخلاقی اقدار کی تعلیم دیتا ہے، اس کی وجہ سے انسان خالق و مخلوق دونوں کے ہاں معزز قرار پاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ

الواقعة – 77

 یقیناً قرآن نہایت ہی مکرّم ہے۔

قرآن مجید ہدایت کے ساتھ  ساتھ رحمت بھی ہے۔

هُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

الاعراف – 52

 ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے۔

قرآن کریم اپنے پیروکاروں کے لئے گمراہی سے تحفظ کا ضامن بھی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم اس پر کار بند رہو گے گمراہ نہیں ہو سکتے وہ ہے :قرآن مجید) مسلم

قرآن کریم عالیشان کتاب ہے، فرمان باری تعالی ہے:

ق  وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ

ق – 1

ق، عالی شان قرآن کی قسم ۔

قرآن مجید انتہائی معزز کتاب ہے، اس کا کوئی ہمسر نہیں ، حتی کہ قرآن مجید کے قریب ہونے والا بھی معزز بن جاتا ہے۔

وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ

فصلت – 41

یہ اعلی ترین کتاب ہے ، اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، اس میں خیر و بھلائی، اور برکت متعدد انداز سے موجود ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ

الانعام – 92

 یہ کتاب ہم نے جو نازل کی ہے بابرکت ہے۔

قرآن کریم کو پڑھ کر عمل کرنے والا اور قرآنی تعلیمات کو دنیا بھر میں پھیلانے والا شخص عزت پاتا ہے اور اسے امن و سکون حاصل ہوتا ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: “عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی مملکت کا دائرہ مشرق و مغرب میں دور دور تک پھیل چکا تھا؛ اس کی وجہ یہ تھی کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے خود بھی قرآن مجید کی خوب  تلاوت کی اور پوری امت کے لئے قرآن جمع کیا اور پھر مطالعۂِ قرآن کو عام بھی کیا “۔

قرآن مجید دنیا و آخرت  اور  دینی و دنیاوی سب امور کے متعلق نورِ بصیرت  کا حامل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

 قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ

المائدة – 15

 تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور واضح کرنے والی کتاب آ گئی ہے۔

قرآن کریم کے ذریعے ہی روح کو زندگی ملتی ہے، بشرطیکہ قرآن پر عمل کرے:

اِسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ

الانفال – 24

 اللہ اور رسول اللہ کی بات پر عمل کرو جب بھی تمہیں زندگی افزا احکامات کی دعوت دیں۔

اللہ تعالی نے قرآن کریم کو روح کے لئے زندگی بنایا تو جسموں کے لئے شفا بھی قرار دیا، چنانچہ : (ایک آدمی کو بچھو کاٹ گیا تو اس پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا گیا جس سے وہ شفا یاب ہو گیا) بخاری

قرآن کریم مشکلات اور پر فتن دور میں دل کو نصیحت بھی کرتا ہے اور اس کی ڈھارس بھی باندھتا ہے:

 لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ

الفرقان – 32

 تا کہ ہم آپ کے دل کو قرآن کے ذریعے مضبوط کریں۔

قرآن کریم کے ذریعے ہی امت میں اتحاد پیدا ہو سکتا ہے:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا

آل عمران – 103

 اللہ کی رسی [قرآن] کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ واریت میں مت پڑو۔

قرآن کریم کی روشنی میں جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے، اسی میں نجات ہے۔

 كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ

هود – 1

 یہ ایسی کتاب ہے جس کی آیات کو محکم  بنایا گیا ہے اور پھر حکیم و خبیر ہستی کی طرف سے تفصیلاً بیان کی گئی  ہیں۔

اولین و آخرین انسان ہوں یا جن سب کو اللہ تعالی نے قرآن مجید کے ذریعے چیلنج کیا اور فرمایا:

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا

الاسراء – 88

 آپ کہہ دیں: اگر انس و جن اس قرآن کا ثانی لانے کے لئے متحد ہو جائیں، تو باہمی تعاون کے باوجود اس کا ثانی نہیں لا سکیں گے۔

کوئی عقل مند قرآن مجید سننے کے بعد اس کے کلامِ الہی ہونے کی گواہی دیے بغیر نہیں رہ سکتا، چنانچہ جنوں نے قرآن کریم کی تلاوت سنی تو ایک دوسرے کو خاموشی سے سننے کا حکم دینے لگے اور پھر سب کے سب اپنی قوم کے پاس واپس پہنچے تو کہنے لگے:

إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا

الجن – 1

 بیشک ہم نے عجب قرآن سنا ہے۔

قرآن کریم اعلی اور مفید ترین ذکر بھی ہے، اور اس کی تلاوت ایمان میں اضافے کا باعث ہے۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا

الانفال – 2

 یقیناً وہ لوگ مؤمن ہیں جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل پگھل جاتے ہیں، اور جب اس کی آیات پڑھی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔

قرآن کریم کی آیات نے بڑے بڑے لوگوں کو اشکبار کر دیا، چنانچہ ایک بار ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سورہ نساء کی تلاوت کی اور جب آیت:

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا

النساء – 41

 اس وقت لوگوں کا کیا عالم ہوگا جب ہم ہر امت میں سے گواہ لائیں گے اور تمہیں ان لوگوں پر گواہ بنائیں گے۔

پر پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: (بس کرو) پھر جب انکی آپ ﷺ کے چہرے پر نظر پڑی تو آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں” بخاری۔

پر پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: (بس کرو) پھر جب ان کی آپ ﷺ کے چہرے پر نظر پڑی تو آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں” بخاری۔

ابو بکر رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو ان کے رونے کی وجہ سے مقتدیوں کو آواز بہت مشکل سے پہنچتی تھی۔

جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے پاس سورہ مریم کا ابتدائی حصہ پڑھا تو آنسووں سے نجاشی کی ڈاڑھی تر ہو گئی، اور پاس موجود پادری بھی جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور اپنے صحیفے آنسووں سے تر کر دیئے۔

اللہ تعالی نے پناہ لینے والوں کو قرآن کی تلاوت سننے تک پناہ دینے کا حکم دیا اور فرمایا:

وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ

التوبة – 6

 اور اگر ان مشرکوں میں سے کوئی آپ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دیں، تا آنکہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔

قرآن کریم میں جامع  و مفید علوم و معارف یکجا ہیں، قرآن کریم کو سمجھنے والے ہی حقیقی معنوں میں علماء ہیں،  فرمانِ باری تعالی ہے:

بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ

العنكبوت – 49

بلکہ یہ تو واضح آیات ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جنہیں علم دیا گیا ہے۔

قرآن کریم کی تعلیم لینے اور دینے والا بہترین لوگوں میں شامل ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن کریم سیکھے یا سکھائے) بخاری

قرآن کریم میں سچے واقعات ،ٹھوس دلائل و براہین  ، بہترین قصے، خوبصورت حکمت بھری باتیں اور خوبصورت ترین فصاحت و بلاغت موجود ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” قرآنی نظم اور اسلوب کی روح انتہائی خوبصورت اور بدیع ہے، اس کا انداز بیان عام گفتگو جیسا بالکل نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی اس اسلوب کا حامل کلام نہیں لا سکا؛ کیونکہ قرآنی انداز بیان کا تعلق شعر ، رجز، خطابت، خط نویسی کسی سے بھی نہیں ہے، نظم قرآنی  جیسا اسلوب عرب ہوں یا عجم کوئی نہیں بنا سکا، نیز  قرآن مجید کا معنوی اعجاز لفظی اعجاز سے کہیں زیادہ بڑا ہے “۔

قرآن کریم  کے احکامات کامل، فیصلے مبنی بر عدل، اور اوامر و نواہی حکمت سے بھر پور ہیں، قرآن کی ہیبت و جلالت ، قوت و تاثیر  اور جمال بھی کمال  کا ہے، یہ کم بول میں بھی پورا تول رکھتا ہے، بڑے ہی آسان پیرائے میں رہنمائی کرتا ہے، قرآن کریم واضح ترین نشانی  اور عیاں معجزہ ہے، اس پر عمل کرنے والا اجر کا مستحق ٹھہرتا ہے، اس کے مطابق فیصلے کرنے والے کو عادل قرار دیا جاتا ہے، اس پر عمل کرنے والے کو گمراہی سے بچا لیا جاتا ہے اور اس کی اتباع کرنے والا رحمت کا مستحق قرار دیا جاتا ہے:

 فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

الانعام – 155

 تم اس کی اتباع کرو اور تقوی اختیار کرو، تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

قرآن کریم جامع اور مفید ترین ذکر بھی ہے، اللہ تعالی نے قرآن کی تلاوت کرنے والے کی مدح سرائی فرمائی اور اس پر عمل کرنے والوں کی تعریف کرتے ہوئے انہیں مکمل اجر سے بھی زیادہ دینے کا وعدہ دیا:

إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ [29] لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ

فاطر – 29/30

 جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے، نماز قائم کرتے، اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار  ہیں جس میں کبھی خسارہ نہ ہوگا [29] تاکہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالی ان کا پورا پورا اجر دے اور اپنی مہربانی سے کچھ زیادہ بھی دے۔

قرآن کریم کی تلاوت نفع بخش تجارت ہے؛ کیونکہ: (جس شخص نے قرآن مجید کا ایک لفظ بھی پڑھا اسے ایک نیکی ملے گی، اور ہر نیکی کا اجر دس گنا زیادہ ملتا ہے) ترمذی

قرآن مجید کی تعلیم دنیاوی مال و متاع سے کہیں زیادہ بہتر ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی مسجد میں جا کر علم حاصل کرے یا کتاب اللہ سے دو آیتیں ہی پڑھے تو یہ اس کے لئے دو اونٹنیوں سے بہتر ہے، تین آیتیں تین اونٹنیوں سے بہتر ہوں گی، چار آیتیں چار اونٹنیوں سے بہتر ہوں گی، اسی طرح جتنی آیات سیکھو گے اتنی ہی اونٹنیوں سے بہتر ہوں گی ) مسلم

نیز فرمانِ نبوی ہے: (قرآن کریم کا ماہر قاری معزز اور مکرّم فرشتوں کیساتھ ہوگا) متفق علیہ قرآن سیکھنے اور سکھانے کی مجالس  میں معلّم اور متعلم دونوں پر رحمت و سکینت نازل ہوتی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ کے کسی بھی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت اور ایک دوسرے کیساتھ مل کر قرآن کا مطالعہ کرنے والوں پر سکینت نازل ہوتی ہے، انہیں رحمت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، اور فرشتے انہیں ڈھانپ لیتے ہیں، نیز اللہ تعالی ان کا تذکرہ اپنے پاس حاضرین میں کرتا ہے ) مسلم

قرآن مجید کی تلاوت سننے سے رحمت ملتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

الاعراف – 204

 اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

نبی ﷺ نے قرآن کریم پر عمل کرنے کی پوری امت کو وصیت فرمائی،  چنانچہ عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ  عنہ سے نبی ﷺ کی وصیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: “آپ  ﷺ نے  قرآن کریم کی وصیت فرمائی” ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: “قرآن کریم کی وصیت سے مراد یہ ہے کہ : قرآن مجید کو یاد کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، بے حرمتی سے بچایا جائے، تعلیمات کو عملی زندگی کا حصہ بنائیں، ہمیشہ  کے لئے اس کی تلاوت، تعلیم و تعلّم کا سلسلہ جاری رکھا جائے”۔

حافظ قرآن زندگی اور موت ہر دو حالت میں معزز شخصیت کا حامل ہے، چنانچہ زندگی میں اس کے بارے میں فرمایا: (لوگوں کو جماعت وہی کروائے جسے سب سے زیادہ قرآن مجید یاد ہے) مسلم، اور وفات کے بعد اعزاز اس انداز سے دیا گیا کہ جب: “نبی ﷺ ایک قبر میں متعدد شہدائے احد کو دفنا رہے تھے تو آپ استفسار کرتے ان میں سے قرآن کسے زیادہ یاد تھا؟ تو بتلانے پر آپ ﷺ اسی کو قبر میں پہلے اتارتے” بخاری

قرآن کے حفاظ بہترین ساتھی ہیں، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ کی مجالس  اور شوری میں قرآن کے حفاظ ہی شامل تھے۔ بخاری

قیامت کے دن قرآن کریم اپنے ماننے والوں کے لئے دلیل بن جائے گا، اس کی شفاعت اللہ کے ہاں مسترد نہیں ہوگی، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (قرآن کی تلاوت کیا کرو؛ کیونکہ یہ قیامت کے دن تلاوت کرنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا) مسلم

حافظ قرآن کو جنتوں میں نعمتوں سے بھر پور بلند درجہ دیا جائے گا: (حافظ قرآن سے کہا جائے گا: پڑھتا جا چڑھتا جا، اور ایسے ہی اس کی تلاوت کر جیسے تم دنیا میں کیا کرتا تھا، جہاں تمہاری آخری آیت ہوگی وہیں تمہاری منزل ہوگی) ابو داود

قرآنی تعلیم دیکر پیدا ہونے والا خوشی کا احساس ایمان کا بلند ترین درجہ ہے، کوئی شخص بھی قرآن سے مستغنی نہیں ہو سکتا، نبی ﷺ کامل ترین عقل و دانش کے حامل تھے، لیکن اس کے باوجود آپ کو درست فیصلوں کے لئے قرآن سے رہنمائی لینا پڑتی تھی،  اللہ تعالی کا فرمان ہے:

قُلْ إِنْ ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَى نَفْسِي وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي

سبأ – 50

 آپ کہہ دیں: اگر میں راہ بھٹک جاؤں تو اس کا وبال مجھ پر ہی ہوگا، اور اگر میں راہ لگ جاؤں تو  یہ میرے رب کی میری طرف وحی کی وجہ سے ہوگا۔

جس قدر انسان قرآن کریم کے قریب ہوگا اس کی خوشحالی بھی اسی قدر ہوگی، قرآن کریم مسلمانوں کی شان و شوکت اور عظمت  کا باعث ہے، تمام نسلوں کے لئے بلندی اور ترقی کا راستہ ہے، پورے معاشرے کے لئے ہمہ قسم کے شر سے تحفظ اور برکت کا باعث ہے، قرآن کریم میں رضائے الہی کیساتھ ساتھ انس اور پیار و محبت بھی پوشیدہ ہے۔

اس تفصیل کے بعد:

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ

یونس – 57

 لوگوں! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت آ چکی،  یہ دلوں کے امراض  کی شفا اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی  بخشش چاہتا ہوں۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد  اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانوں!

مسلمانو! قرآن کی  پیروی کرنے والا ہی ہدایت پائے گا، جبکہ قرآن سے اعراض کرنے والا تباہی و بربادی میں رہے گا،  الله نے فرمایا:

فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى(123) وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى

طٰه – 123/124

 جس نے میری  ہدایت کی  پیروی  کی  وہ  گمراہ ہوگا اور نہ ہی بدنصیب [123]اور جو میری  نصیحت سے اعراض کرے  گا تو یقیناً  اس کے  لئے زندگی تنگ ہوگی، اور ہم اسے قیامت کے  دن اندھا کر کے  اٹھائیں گے۔

قرآن کے  بغیر ہدایت كا کوئی راستہ نہیں ہے، جس كا دل قرآن سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہا تو اسے کسی  اور چیز سے فائدہ نہیں ہوگا،  الله نے فرمایا:

فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ

الجاثیة – 6

 الله اور اس کی  آیتوں کے  بعد یہ  لوگ کس  چیز پر ایمان لائیں گے؟

جس طرح قرآن صاحب قرآن كو عروج بخشتا ہے،  اسی طرح اپنے مخالف  كو ذلیل و رسوا بھی  کرتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: (یقیناً  الله اس کتاب کی وجہ سے بہت سے لوگوں كو بلند مقام عطا فرمائے گا، اور اس کی  وجہ سے دیگر کئی  لوگوں كو پست  اور ذلیل کر دے گا) مسلم

الله كا کلام سب پر غالب ہے، جو اس کے کسی ایک حرف كا انکار  کرے یا ا س كا مذاق اڑائے تو وہ  كا فر ہے، الله نے فرمایا:

قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ (65) لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ

التوبة – 65/66

آپ [مذاق اڑانے والوں سے ]کہہ دیں کہ الله، الله کی آیتوں اور اس کے رسول كا مذاق اڑاتے ہو۔ تم بہانے نہ بناؤ، یقیناً تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔

جس نے بھی قرآن یا اہل قرآن كا مذاق اڑایا الله نے اسے ذلیل و رسوا کر کے رکھ دیا، اس لئے ہر مسلمان كو چاہیے کہ وہ اپنے رب کی کتاب کے غلبے کے لئے بھر پور کوشش کرے اور اس عمل کو اپنے لیے اعزاز سمجھے، تا کہ اعلی مقام حاصل کر سکے۔

یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور  فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد

 یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے  کرنے والے خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!۔

یا  اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما،  یا اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما،  اور تمام مسلم علاقوں کو امن و امان اور استحکام کا گہوارہ بنا دے، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال اپنے رضا کے لئے مختص فرما، اور تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب کے نفاذ اور شریعت کو بالا دستی دینے کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہمارے سپاہیوں کو کامیاب فرما،  یا اللہ! ان کے قدموں کو ثابت بنا ، یا اللہ! ان کی نشانے درست فرما، اور انہیں تیری مخصوص فوج میں شامل فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو ہی غنی ہے ہم تیرے در کے فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما،  اور ہمیں مایوس مت فرما،  یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر خوب ظلم ڈھائے، اگر تو ہمیں نہ بخشے  اور ہم پر رحم نہ فرمائے  تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النحل – 90

 اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو [امداد] دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے  منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے [قبول کرو]اور یاد رکھو۔

تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ  اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ جسٹس ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

آپ یعنی جناب عبد المحسن بن محمد بن عبد الرحمن القاسم القحطانی کو پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے گریجویشن کیا اور المعہد العالی للقضاء سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مسجد نبوی کی امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ محکمۃ الکبریٰ مدینہ منورہ میں قاضی (جسٹس ) بھی ہیں ۔