پہلا خطبہ:
تمام تعریف اللہ تعالیٰ کےلیے جس نے اپنی قدرت سے مخلوق کو پیدا کیا اور جسے چاہا اپنی طاعت کی توفیق بخشی،اُس کی ذات پاک ہے اور اُسی کے لیے حمد و تعریف ہےکہ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہےاُسے اُس شخص کی اطاعت فائدہ نہیں پہنچاتی جو اُس کی عبادت کرے اور اُس کا تقرب حاصل کرے اور نہ اُسے کوئی نقصان پہنچتا ہے اُس شخص سے جو اُس کی نافرمانی کرےکیونکہ اُس کی بے نیازی کامل ہےاور اُس کی طاقت عظیم ہے ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ،اُس کا کوئی شریک نہیں ۔ اور گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں اور اُس کی مخلوقات میں سے چنیدہ بندے ہیں۔
اللہ تعالیٰ درود و سلام اور برکت نازل فرمائے آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر ۔بے شمار سلامتی نازل فرمائے۔
اما بعد!
اےمؤمنو جماعت ! میں آپ کو اور خود کو تقویٰ کی وصیت کرتاہوں۔سو آپ طاعتوں پر پائیدار رہ کر اور محرمات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کریں۔اور اپنے رب کے لیے قصد ونیت کو خالص کریں کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔آپ ان چیزوں کی طرف جلدی کریں جنہیں آپ کا مولا پسند کرتاہے اور آپ سے راضی ہوتا ہے۔ہر آدمی کو اُن اعمال پر روکا جائےگاجن کا اُس نے ارتکاب کیا ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا ﴿١٨﴾ وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا
الاسراء – 18/19
جس کا اراده صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائده) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالﺂخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وه برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا۔اور جس کا اراده آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہیئے، وه کرتا بھی ہو اور وه باایمان بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی ۔
اے امت ِ مسلم ! اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا پھر انبیا ء کو بھیجا ،کتابیں نازل کیں تاکہ صرف اُسی کی عبادت کی جائےاور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرایا جائے۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
الذاریات – 56
میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں۔
یہ عبادت اخلاص کے بغیر انجام نہیں پاسکتی کیونکہ بندہ اس عبادت سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہی چاہتا ہے ،جس میں نہ کوئی ریا کاری ہو نہ شہرت کی طلب۔ اخلاص دین کی حقیقت ،اُس بنیاد اور اُس کی قبولیت کی شرط ہے۔اُس کا مقام وہی ہے جو مقام جسم میں روح کا ہے ۔لہٰذا اُس شخص کی کوئی عبادت نہیں جس میں اخلاص نہیں ۔ اخلاص سے درجات بلند کیے جاتی ہیں ،لغزشیں معاف کی جاتی ہیں ،دل مطمئن ہوتا ہے اور ذہن کو سکون ملتاہے۔
اللہ کے بندو! اخلاص بڑا کٹھن ہے۔اس میں جدو جہد اور دائمی احتساب کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ کسی تاریک رات میں سیاہ چکنے پتھر پرچلتی چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے ۔جو عبادت کو فاسد اور اجر کو برباد کردیتا ہے۔اللہ جل و جلالہ بڑا بے نیاز ،لائقِ جلال ،صاحبِ حمد و ثنا و عظمت ہے ۔اُسے پسند نہیں کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے۔پھر بھی اگر بندہ شرک کرے تو اللہ تعالیٰ اُسے اُس کے شرک کے ساتھ اُس کے حال پر چھوڑ دیتاہےاور اُس پر اُس کے عمل کو رد کردیتا ہے ۔
مسندِ امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے اوپر مجھے جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ ہے شرکِ اصغر۔صحابہ کرام نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! شرکِ اصغر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب لوگوں کو اُن کے اعمال کا بدلہ دے گا تو فرمائے گا۔تم اُن کے پاس جاؤ جنہیں تم دنیا میں دکھا تے تھے اور پھر دیکھو کہ کیا تم اُن کے پاس کوئی بدلہ پاتے ہو؟۔
مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴿١٥﴾ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ھود – 15/16
جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہی بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔ ہاں یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کےاعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں۔
ایمانی بھائیو! جو چیزیں اخلاص پر نفس کی تربیت کرنے اور ریاکاری کے اسباب کو دور کرنے میں مددگار ہوتی ہیں اُن میں سے یہ ہے کہ مومن اپنے نفس کے لیے کوئی پوشیدہ نیک عمل مقرر کرے جس پر اللہ عزوجل کے پاس اجر کی امید رکھے اور پوشیدہ نیک عمل رازدرانہ کی جانے والی ہر طاعت ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے سواکوئی مطلع نہ ہو۔جیسے رات کے اندھیرے میں پڑھی جانے والی کچھ رکعات یا قرآن کی تلاوت اور اس کی تکمیل یا پوشیدہ صدقہ یا کسی مصیبت زدہ کی مصیبت دور کرنا یا بیواؤں کی دیکھ بھال یا والدین کےساتھ حسنِ سلوک،رات کے آخری پہر میں استغفار کرنایا غلبے والے اللہ کے ڈر سے تنہائی کے آنسو یا لوگوں کے درمیان رازدارنہ طور پر اصلاح کرنا یا وہ روزہ جس کا علم لوگوں میں سے کسی کو نہ ہو۔
پوشیدہ نیک اعمال میں سے گردشِ شب و روز میں غور و فکر کرنا،اُن کی نشانیوں میں نظر دوڑانا،آسمان و زمین کی تخلیق کے بارے میں سوچنا اور اُن کے خالق کی تسبیح کرنا۔ نیک نیت پوشیدہ نیک اعمال میں سے ہے۔سو جس نے پوشیدہ نیک عمل کا ارادہ کیااور اُسے انجام نہ دے سکاتو اللہ تعالیٰ اپنے پاس اُس نیک پوری نیکی لکھے گا۔اور جو اللہ تعالیٰ سے سچائی کے ساتھ شہادت کا سوال کرے گاتو اللہ تعالیٰ اُسے شہداء کے مقام تک پہنچائے گااگرچہ اُس کی مو ت اپنے بستر پر ہی کیوں نہ ہو۔
سنن ترمذی میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: دنیا چار لوگوں کے لیے ہے۔ ایک وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ مال اور علم سے نوازے اور اُس میں وہ اپنے رب سے ڈرے ،صلہ رحمی کرے اور اُس میں اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانے ۔ تو یہ شخص سب سے افضل مقام پر فائز ہے ۔پھر دوسرا وہ بندہ کہ جسے اللہ تعالیٰ علم سے نوازے پر مال عطا نہ کرے اور وہ سچی نیت کے ساتھ کہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو فلاں آدمی کی طرح عمل کرتا۔تو وہ اپنی نیت کے ساتھ ہے ۔ اور ان دونوں بندوں کا اجر برابرہے۔
پوشیدہ نیک عمل سچائی اور اخلاص کی دلیل ہے ۔اس کے ذریعے بندہ اپنے رب کا تقرب حاصل کرتاہے ۔اپنے نفس کے لیے اُسے جمع کر کے رکھتاہے۔اور امید کرتا ہے کہ اُن لوگوں میں سے وہ جنہیں اللہ تعالیٰ اُس دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ عنایت کرے گا جس دن اُس کے عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔جن کے باے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اور وہ آدمی جو اللہ تعالیٰ کو اکیلے میں یاد کرے اور اُس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ ایک وہ آدمی جسے جاہ و منصب والی عورت دعوتِ گناہ دے مگر وہ کہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔اور ایک وہ آدمی جوکوئی صدقہ کرے اور اُسے چھپائے یہاں تک اُس کا بایاں ہاتھ جان نہ سکے کہ اُس کےدائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔متفق علیہ
پوشیدہ نیک عمل اُس بے عیب دل سے ہی صادرہو سکتا ہے جو اپنے رب سے حسنِ ظن اور اُس کے پاس اجر کی رغبت رکھے۔وہ اپنے عمل کو چھپائے اوراپنے خالق کے لئے اخلاص برتے۔پوشیدہ نیک عمل رکھنے والوں کے چہروں پر نور ہوتاہے اور مخلوق کےدرمیان انہیں مقبولیت اور محبت حاصل ہوتی ہے۔وجہ یہ ہےکہ جب انہوں اللہ عزوجل کے ساتھ تنہائی اختیار کی تواللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی محبت سے نوازا ،انہیں اپنے نور سے منور کیااوراپنی مخلوق کے درمیان اُن کی مقبولیت و محبت لکھ دی۔
عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: جنابِ مالک بن انس جس بلندی پر تھے اُس بلندی پر میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔یعنی کہ لوگوں کے دلوں میں اُن کی محبت و ہیبت تھی۔حالانکہ وہ زیادہ نماز و روزے والے نہیں تھے۔البتہ ضرور پوشیدہ نیک عمل کا معاملہ ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتاہے تو جبریل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ: اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تو تم بھی اُس سے محبت کرو۔ تو جبریل علیہ السلام اُس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔پھر جبریل علیہ السلام آسمان میں آواز لگاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اُس سے محبت کرو۔یوں آسمان والے بھی اُس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں اور زمین والوں میں اُس کی محبت ڈال دی جاتی ہے۔متفق علیہ
امام ابنِ جوزی رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ کی قسم میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو بکثرت نماز وروزہ کرتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں اور اپنے نفس و لبا س میں خشوع کا مظاہر کرتے ہیں مگراُن سے اُڑتے اور لوگوں میں اُن کی قدر اُس مرتبے کی نہیں تھی ۔ اس کے برعکس میں ایسے لوگوں کوبھی دیکھا جو مہنگی اور عمدہ پوشاک پہنتے اوراُن کے پاس نہ زیادہ نوافل ہوتے اور نہ خشوع کا مظاہرہ ہوتا اس کے باوجود لوگوں کے دل اُن کی محبت میں ٹوٹ پڑتے۔ جب میں نے اس کے اسباب پر غور کیا تو مجھے پوشیدہ نیک عمل ملا۔ اس لیے جس نے اپنے باطل کو دُرست کیا تو اُس کے فضل کی خوشبو پھیلی۔ اور اُس کی خوشبو سے دل معطر ہوئے۔سو تم باطل کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔کیونکہ اُس کے بگاڑ کی موجودگی میں ظاہر کی دُرستگی کوئی فائدہ مند ہوگی۔
مؤمنو کی جماعت! تنہائی کی عبادت کے ثمرات میں سے دل کی دُرستگی ،استقامت ،پاکیزگی ،صفائی ،شہوت و شبہات سے اُس کی دوری اور آزمائشوں اور فتنوں کے وقت اُس کی ثابت قدمی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا
المزمل – 5
بیشک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب ہے اور بات کو بہت درست کر دینے والاہے ۔
اس لیے پوشیدہ نیک عمل شیطان کے اوپر سخت ترین اعمال میں سےہیں۔ شیطان بندے کے ساتھ ہمیشہ لگا رہتاہے یہاں تک کہ اُس کے عمل کو رازداری سے اعلان کی طرف،اخلاص سے شرک و ریا کاری ،خودپسندی و شہرت کی طرف منتقل کردیتا ہے۔اور حسنِ خاتمہ پوشیدہ نیک عمل کے ثمرات میں سے ہے۔کیونکہ آغاز انجام کا عنوان ہوتاہے۔جب آدمی صحیح راستے اور اللہ تعالیٰ کے لیے خالص نیک عمل پر ہوتو اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں پر بے حد لطف کرنے والا ہےاس بات سے زیادہ عادل کریم اور مہربان ہے کہ وہ اُس بندے کو چھوڑ دے جس کا یہ حال ہوبلکہ وہ توفیق ،دُرستگی ِ ، ثابت قدمی اچھے انجام کے لائق ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ
ابراھیم – 27
ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی، ہاں ناانصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: لوگوں بظاہر لگتا ہے کہ آدمی جہنمیوں کا عمل کررہا ہےحالانکہ وہ جنتیوں میں سے ہے۔ متفق علیہ
ابن رجب رحمہ اللہ نے کہا: آپ ﷺ کے فرمان ” لوگوں بظاہر لگتا ہے کہ آدمی جہنمیوں کا عمل کررہا ہےحالانکہ وہ جنتیوں میں سے ہے۔” میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اندرونی معاملہ اس کے برخلاف ہوتا ہے ۔چنانچہ وہ جہنمیوں جیسا عمل تو کرتا ہےمگر اُس کے باطن میں خیر کی خصلتوں میں سے کوئی پوشیدہ خصلت ہوتی ہےاور وہ خصلت آخری عمر میں اُس پر غالب آجاتی ہے جو اُس کے حسن ِ خاتمے کا سبب بن جاتی ہے۔
ہمارے اسلاف میں یہ بات بے حد پسندیدہ تھی کہ بندے کا کوئی پوشیدہ عمل ہوجسے اُس کے آل اولاد میں سے بھی کوئی نہ جانتا ہوچہ جائے کہ لوگوں میں سے کوئی اُسے جان پائے۔ حسن بصری رحمہ اللہ نے جن صحابہ و تابعین رحمہم اللہ کو پایااُن کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے کچھ ایسے لوگوں کا پایا ہےجو روئے زمین پر پائے جانے والے کسی ایسے عمل کو علانیہ انجام نہیں دیتے جسے وہ خفیہ طور پر انجام دے سکتے تھے۔
اے اللہ کے بندو! اپنی زندگی کی کتاب کو کھول کر ٹٹولو اور دیکھو کہ کیا تم اپنے اعمال کے دفتر میں کوئی نیک عمل پاتے ہوجسے تم نے قیامت کے دن کےلیے جمع کررکھا ہو۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ۩ ﴿١٥﴾ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
السجدۃ – 15/17
ہماری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جنہیں جب کبھی ان سے نصیحت کی جاتی ہے تو وه سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ہیں۔ ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وه خرچ کرتے ہیں۔ کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیده کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔
اللہ میرے لیے اور آپ کے لیے قرآنِ عظیم میں برکت دے اور اُس کی آیات اور حکمتوں سے ہم سب کو فیضیاب فرمائے۔میں وہ کچھ کہ رہا ہوں جو آپ سن رہے ہیں۔اور میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور آپ سب کے لیےاور تمام مسلمانوں کےلیے مغفرت طلب کرتاہوں تو آپ بھی اُسی سے مغفرت طلب کریں ۔ بےشک وہ بڑا بخشنے والامہربان ہے۔
دوسرا خطبہ:
فراواں نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کے لیے تمام تعریف ہے۔پے درپے کرم و احسان پر اُس کےلیے شکر ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں،اُس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اُس کےبندے اور رسول ہیں۔ متقیوں کے امام اور اولیاء کے سردار ہیں۔اللہ تعالیٰ درود و سلام اور برکتیں نازل فرمائے آپ ﷺ پر ،آپ ﷺ کے چنیدہ اہلِ خانہ پر اور متقی اصحابِ کرام پر تابعین پر اور تاقیامت اُن لوگوں پر جو اُن کا اچھی طرح اتباع کریں۔
اما بعد!
مؤمنو کی جماعت ! شریعت کے نصوص میں عبادات کو چھپانے پر ابھارا گیا ہے اور نفلی عبادات کو تنہائیوں میں کرنے کو مستحب قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ پوشیدہ صدقہ اعلانیہ صدقے سے زیادہ افضل اور رات کی (نفلی)نماز دن کی (نفلی)نماز سے بہتر ہے۔کیونکہ اس میں ربِ تعالیٰ کی تعظیم ہے ۔بندہ اللہ تعالیٰ کےپاس اجر کی امید رکھتا ہے۔اور نمود و نومائش اورتعریف کی چاہ جیسی گندگیوں سے دل کی پاکی ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
البقرۃ – 271
اگر تم صدقے خیرات کوظاہر کرو تو وه بھی اچھا ہے اور اگر تم اسے پوشیده پوشیده مسکینوں کو دے دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو گھروں میں نوافل پڑھنے کی وصیت فرمائی۔حالانکہ مسجدِ نبوی ﷺ میں پڑھی جانے والی ایک رکعت مسجد حرام کے علاوہ باقی تمام مساجد کی ہزار نماز وں کے برابرہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: بندہ اپنے رب سے رات کےآخری پہر میں سب سے زیادہ قریب ہوتاہے۔اس لیے اگر تم ایسے لوگوں میں سے ہوسکتے ہوجو اِس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتےہیں تو تم اُن میں سے ہوجاؤ۔سنن الترمذی
اس باب میں بہت سی احادیث ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں سے الگ تھلگ رہا جائےیا ہر عبادت کو چھپایا جائے۔کیونکہ کچھ عبادات اور شعائر ایسے ہیں جو بنا کسی اظہار و اعلان کے انجام نہیں پاسکتے ۔ اور اللہ تعالیٰ تمام پوشیدہ باتوں سے باخبر ہے۔اس لیے کتاب و سنت کے نصوص میں جمعہ اور باجماعت نماز میں حاضر ہونے ،صلہ رحمی کرنے ،نیکی و تقویٰ کو اختیار کرنے پر ابھارا گیاہے۔
اللہ کے بندو! مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنے اور اپنے رب کے درمیان کے معاملے کو دُرست کرےاور اُس کا ایسا خفیہ نیک عمل ہو جس پر وہ ثواب کی امید رکھے اور اجر کی امید کرےاور اُس کےذریعے اپنی اندرونی حالت کو دُرست کرلےکیونکہ اندرونی حالات کی دُرستگی دنیامیں دُرستگی اور آخرت میں نجات کا راستہ ہے۔توجس نے اپنی اندرونی حالت کو دُرست کرلیا اللہ تعالیٰ اُس کی ظاہری حالت کو دُرست کردے گا۔اور جس نے اپنے آخرت کے معاملے کو دُرست کرلیااللہ تعالیٰ اُس کی دنیا کو دُرست کردے گا۔اور جس نے اپنے او ر اپنے رب کے درمیان کے معاملات کو دُرست کرلیا تو اللہ تعالیٰ اُس کے اور بندوں کے درمیان کے معاملات کو دُرست کردےگا۔
جنابِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو لکھاکہ: آپ مجھے ایک خط لکھیں کہ جس میں آپ مجھے وصیت کریں مزید کچھ نہ لکھیں۔ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا:
دُعا و سلام کے بعد عرض ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو لوگوں کی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوتو اللہ تعالیٰ اُسے لوگوں کی ناراضگی سے محفوظ رکھے گا۔اور جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں لوگوں کی رضا کا طالب ہو تو اللہ تعالیٰ اُسے لوگوں کے حوالے کردے گا۔والسلام
اے اللہ ! تو درود و سلام نازل فرما محمد ﷺ اور اُن کی آل پر جیسے تونے درود نازل فرمایا آل ابراھیم علیہ السلام پر۔ اور تو برکت نازل فرما محمد ﷺ اور اُن کی آل پر جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی ابراھیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر۔بے شک تو بہت تعریف کے لائق اور صاحب ِ عظمت ہے۔
اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان ہی کے ساتھ ہم سےبھی اپنے جود وکرم سے ۔یا ارحم الراحمین۔
اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو غلبہ دے۔ اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو غلبہ دے۔
اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔
اے اللہ ! مسلمانوں کو متحد کردے ۔
اے اللہ ! اپنے دین اور اپنی کتاب کی مدد فرما اور اپنے نبی کریم ﷺ کی سنت کو غلبہ دے۔
اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔
اے اللہ تو مہنگائی ،سود ،زنا،وباء ،زلزلے ،آزمائشوں ،ظاہر و پوشیدہ باتوں کے شر سے ہمیں محفوظ فرما۔
اے اللہ ! ہم بدبختی کی پہنچ ، بُرے فیصلے اور ہر دشمن سے تیری پناہ لیتے ہیں۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے ہر بھلائی کا سوال کرتے ہیں خواہ وہ جلدی ملنے والی ہو یا دیر سے،خواہ اُس کا علم ہمیں ہو یا نہ ہواور ہر بُرائی سے تیری پناہ مانگتے ہیں خواہ جلدی آنے والی ہو یا دیر سے ، خواہ ہمیں اس کاعلم ہو یا نہ ہو۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے جنت اور اُس سے قریب کرنےوالے قول و عمل کا سوال کرتے ہیں۔اور ہم جہنم اور اُس سے قریب کرنے والے قول و عمل سے تیری پناہ لیتے ہیں۔
اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔
اے اللہ ! دلوں کو تقویٰ دے اوراُن کا بہترین تزکیہ کر تو ہی اُن کا آقا ہے ۔
اے اللہ ! ہمارے دین کی حفاظت فرما اور ہماری دنیا کی حفاظت فرماکہ جس میں ہمارا معاش ہے اورہماری آخرت کوہمارے لیے دُرست کردے۔
اے اللہ ! زندگی کو ہمارے لیے خیر کی زیادتی کا ذریعہ بنا اور موت کو ہر طرح کے شر سے نجات کا ذریعہ بنا۔
اے اللہ ! دین و دنیا کی ذلت سے ہماری حفاظت فرما۔
اے اللہ ! نعمتوں کے زوال سے ہم تیر ی پناہ چاہتے ہیں اور تجھ سے بھلائی کرنے کی توفیق چاہتے ہیں۔
اے اللہ ! تو دین کے دشمنوں کے مقابلےمیں ہمارے لیے کافی ہوجا۔ اے اللہ! تو ہمارے دشمنوں کے مقابلےمیں ہمارے لیے کافی ہوجا۔
اے اللہ ! ہمارے بیماروں کو شفاء ِ کاملہ عطا فرما۔
اے اللہ ہمارے مرحومین پر رحم فرما۔
اے اللہ ! تو فلسطین کی اور اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔
اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ،اگر تو نے ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ً خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھلائی دے ،ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔اور درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر ،آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر اور ہر طرح کی تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ ماھر المعیقلي حفظه اللہ
تاریخ 16 ربیع الاول 1443هـ بمطابق 22 اکتوبر 2021