نبوت کا مشن:علم اور ایمان

نبوت کا مشن: علم اور ایمان

خطبہ اول

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اپنے فضل سے جسے چاہا نعمتوں سے خوب نوازا اور اپنی حکمت و عدل کی بنا پر جسے چاہا محروم کر دیا، کوئی عقل مند اپنی عقل سے اس سے مباحث نہیں کر سکتا اور نہ کوئی مخلوق اللہ کے فیصلے پر سوال اٹھا سکتی ہے۔

 فرمان الہی ہے:

 وہ اپنے کاموں کے لیے جواب دے نہیں اور سب جواب دے ہیں۔

میں اللہ سبحانہ کی تعریف کرتا ہوں اس کا شکر ادا کرتا ہوں جیسا کہ خود اس نے اپنی تعریف کی ہے جس طرح تعریف کرنے والوں نے اس کی تعریف کی ہے، جو اللہ کے راستے پرچلے وہ  گمراہ نہیں ہو گا، اور جو اس کے تقوی کو لازم پکرے وہ معزز ہو گا رسوانہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواء کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسے علم ہے پھر بھی بخشا، اسے پتا ہے پھر بھی پردہ پوشی کرتا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار و نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں،ان کے رب نے ان کو منتخب کیا اور چن لیا، ان کی تقریب کی،اوران کو ہدایت بخشی، اللہ درود و سلام اور برکتیں نازل فرمائے، ان پر جب تک ہوائیں چلتی رہے، اور جب تک پرندے درختوں پر چہچہاتے رہے، اوران کی پاکیزہ آل پر،اور ان کے برگزیدہ مہاجر و انصار صحابہ کرام پر، تابعین پر اور قیامت تک بہترین طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں پر۔

اما بعد:

 ،اللہ کے بندوں !میں خود کو اور آپ کو اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرو اللہ آپ پر رحم کرے، اپنے بدن سے پہلے اپنے دلوں کو، اپنے ہاتھوں سے پہلے اپنی زبانوں کو، پاک کرو لوگوں کے ساتھ معاملہ سن کر نہیں بلکہ انہیں دیکھ کر کرو، اپنے بھائیوں کے بارے میں کوئی بات سنے سے پہلےخود ان سے ہی سن لو،اپنے بھائیوں کے بارے میں حسن  زن رکھو، بد گمانیوں سے بچو،جدائی کے آداب میں سے ہے رازوں کو دفن کرنا، جس نے آپ کے لیے اپنا دروازہ بند کر دیا  ہو اسے مت  کھٹکاؤ اپنے بھائیوں کا دل سچائی خلوص سے جیتو تکلف اور بناوٹ سے نہیں، ہر شخص سے ویسا ہی سلوک کیا جائے گا جیسا اس نے دوسروں کے ساتھ کیا ہے۔

اللہ نے فرمایا:

وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا1

اور میرے بندوں سے کہہ دے وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو، بے شک شیطان ان کے درمیان جھگڑا ڈالتا ہے۔ بے شک شیطان ہمیشہ سے انسان کا کھلا دشمن ہے۔

 مسلمانوں ایمان عبادت زمین کی آباد کاری اور اصلاح سب باہم مربوط عناصر ہیں۔

اللہ نے فرمایا:

مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ2

اس زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوبارہ تم سب (١) کو نکال کھڑا کریں گے۔

ایک مسلمان زمین کو اس لیے آباد کرتا ہے تاکہ اللہ کا قرب حاصل کرے خود کو اور دوسروں کو نفع پہنچائے چنانچہ ہر اس چیز میں سرمایہ کاری کرتا ہے جو قوم اور ملک کے لیے نفاء بخش ہو ہمارے دین میں ایمان کو عمل صالح کے ساتھ ملایا گیا۔

اللہ نے فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ3

بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے۔

اور پڑھائی کو اللہ کے نام سے جوڑا گیا ۔

اللہ نے فرمایا:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ4

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔

اور علم کو خشیت سے مربوط کیا گیا۔

اللہ نے فرمایا:

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ5

’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘

ایمان عقل کا رہنما ہے تاکہ وہ اتنا سرکش نہ ہو جائے کہ خود اپنی عبادت کرنے لگے اور ایمان علم کو منظم کرنے والا ہے تاکہ اس کے منفی کے پہلو ایسا انتشار پیدا نہ کریں جس کے نتیجے میں انسانیت تباہ ہو جائے۔

مسلمانوں قرآن کریم نے پچھلی امتوں کا ذکر کیا اور یہ بیان کیا کہ وہ کس حد تک وہ قوت و تعمیر اور ترقی و خوشحالی کو پہنچ گئی تھی، پھر ان کی ہلاکت و بربادی کے اسباب کو بھی واضح کیا، تاکہ ہم اللہ سبحانہ و تعالی کے دستور کو سمجھیں۔

 اللہ تعالی نے قوم عاد کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ6

جس کی مانند کوئی قوم ملکوں میں پیدا نہیں (١) ہوئی۔

اس سے ان کی عظمت خوبصورتی اور ترقی کا اندازہ ہوتا ہے

 لیکن ایک اور مقام پر اللہ نے فرمایا:

فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ7

’’اب قوم عاد نے تو بے وجہ زمین میں سرکشی شروع کردی اور کہنے لگے ہم سے زور آور کون ہے؟ (١) کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے اسے پیدا کیا وہ ان سے (بہت ہی) زیادہ زور آور ہے، (٢) وہ (آخر تک) ہماری آیتوں کا (٣) انکار ہی کرتے رہے‘‘۔

ان کو ان کی قوت نے دھوکہ دیا انہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تکبر اور انکار سے کام لیتے ہوئے ایمان کی دعوت کو مسترد کر دیا, جو کوئی اللہ کے ذکر سے منہ موڑتا ہے وہ تاریکیوں میں گرا رہتا ہے چاہے اسے کتنے ہی علوم اور طاقتیں حاصل ہو جائے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ ۗ مَن يَشَإِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَن يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ8

’’اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا وہ بہرے اور گونگے ہیں، اندھیروں میں پڑے ہوئے ہیں، جسے اللہ چاہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے‘‘۔

اللہ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ9

’’الۤرٰ۔ ایک کتاب ہے جسے ہم نے تیری طرف نازل کیا ہے، تاکہ تو لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائے، ان کے رب کے اذن سے، اس کے راستے کی طرف جو سب پر غالب، بے حد تعریف والا ہے‘‘۔

پھر اللہ نے ارشاد فرمایا:

هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ10

’’وہ (اللہ) ہی ہے جو اپنے بندے پر واضح آیتیں اتارتا ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف لے جائے یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نرمی کرنے والا رحم کرنے والا ہے‘‘۔

طاقت عزت ایمان اور تقوی سے حاصل ہوتی ہے فتح یابی اور کامرانی اللہ کے شعائر کی تعظیم سے ملتی ہے علم خواہ کتنا ہی قوی ہو صنعتیں کتنی ہی ترقی اور ایجادات کر لے جائیں، انسان کو وہ حقیقی خوشی نہیں دے سکتی اور نہ مطلوبہ ایمان۔

اللہ نے فرمایا:

وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ11

’’یقیناً ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں اچھا معلوم ہو۔ یہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں‘‘۔

ایسا اس لیے نہیں کہ ہمارے دین میں علوم اور انکشافات کی صنعتوں اور ان کے الات کی ایجادات اور ان میں ترقی کی مذمت ہے اور ان کی قدر و قیمت کی تحقیق ہے بلکہ اس بات پر زور ہے کہ دلوں کی اصلاح کرنے انسانیت کو ہدایت دینے اور راستے کو روشن کرنے کے لیے وحی کا نور ضروری ہے۔

 مسلمانو! انسان کو علم کے ذخیروں نے جو ترقی دے کر، مٹی اوراینٹوں کے گھروں سے نکال کر، فلک بوس اور عالی شان عمارتوں تک پہنچایا ہے۔ اسی طرح نقل حمل کے ذرائع میں جو مختلف ادوار میں ترقی ہوئی، کہ جانوروں کی سواری سے نکل کر گاڑیوں اور ٹرینوں کے دور سے ہوتے ہوئے ہوائی جہاز کی سواری تک پہنچ گئے، اور خط و کتابت کے میدان میں جو ترقی ہوئی کہ قاصد اور کبوتر کی پیغام رسانی سے نکل کر ڈیجیٹل ڈاک تک رسائی ہو گئی، یہ ساری چیزیں اپنی عظیم ایجادات و اختراعات اپنی خوبصورتی اور استعمال کی سہولت کے باوجود ایمان، تزکیہ نفس، احترام انسانیت کا بدیل پیش نہیں کر سکتی، اللہ آپ کی حفاظت فرمائے! اخلاقی میدان، انسانی حقوق جنگوں کی ہلاکتوں، جلا وطنی، ہجرت، غربت، ظلم، و استبداد اور مڈیار کی خرابی کے معاملے میں اس بات کا اندازہ کرو۔ غلبہ اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں ہی کے لیے ہے وحی کا نور سب سے عظیم اور بالاتر اور قیمتی نور ہے مومن پر واجب ہے کہ اپنی قدر و قیمت اور قوت کو پہچانے مادی امور کے سامنے خود کو حقیر نہ سمجھے اور نہ ہی ان کے سامنے کسی طرح کا حرج محسوس کرے۔

اللہ نے فرمایا:

كِتَابٌ أُنزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُن فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنذِرَ بِهِ وَذِكْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ12

’’یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ ڈرائیں، سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو (١) اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے‘‘۔

 اللہ آپ کو محفوظ رکھے. ایمان ہی عقل کا قائد اور علم کا محافظ ہے جب عقل ایمان سے جدا ہو جائے تو انسانی تعمیر و ترقی زمین بوس ہو جاتی ہے, اور عقل جب علم کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگے تو حق اور باطل ,اچھے اور برے, اور ظلم و انصاف, کے درمیان امتیاز ختم ہو جاتا ہے معیاروں میں خرابی آجاتی ہے اور سیاست اصولی سیاست سے نکل کر مصلحت پسندی کی سیاست میں تبدیل ہو جاتی ہے علم اور ایمان سے ہی تہذیب و تمدن استوار ہوتے ہیں اور گاڑی پٹلی پر چلتی ہے اللہ اپنے فیصلے پر غالب ہے۔

اللہ نے فرمایا:

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ13

’’اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی ، تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے اور لیکن ہم نے اسے ایک ایسی روشنی بنا دیا ہے جس کے ساتھ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھا تے ہیں اور بلاشبہ تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے‘‘۔

اللہ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کے طریقے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے فائدہ پہنچائے میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور عزوجل سے اپنے لیے اور آپ سب کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں بے شک وہ معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔

 خطبہ ثانی :

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے وہ سب ہی کمالات میں یکتا ہے عظیم نوازشیں کرنے والا ہے میں صبح و شام اس کی نعمتوں پر اس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور شکر بجا لاتا ہوں, میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں, اس کا کوئی شریک نہیں, ایسی خالص اورسچی گواہی جو اس دن نجات دلائی گی، جس دن کوئی  تجارت یا دوستی نہ ہو گی، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جو شریف نسب اور بہترین اخلاق والے ہیں اللہ ان پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرمائے اور ان کے بہترین آل و اصحاب پر اور تابعین پر اور ان لوگوں پر جو قیامت تک اچھی طرح ان کی پیروی کریں۔

اما بعد:

 مسلمانوں تعمیر و ترقی اور زوال و بربادی انسان سے منسلک ہے اللہ پاک نے انسان کو زمین میں آباد کاری کا ذمہ دار بنایا ہے اسی وجہ سے معاشرے کی ترقی اور اس کی پسمان دی کہ اسباب بھی باحکم الہی انسان کے اپنے نفس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور خارجی تبدیلی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک نفس میں تبدیلی نہ لائی جائے۔

اللہ کا فرمان ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ14

 ’’بے شک اللہ نہیں بدلتا جو کسی قوم میں ہے، یہاں تک کہ وہ اسے بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے‘‘۔

اور اللہ کا دستور ہے, کہ اچھی چیز پائیدار رہتی ہے کیونکہ اس میں انسانیت کے لیے نفع ہے,اور بری چیز پائیدار نہیں رہتی کتنی اس میں کوئی فائدہ نہیں۔

:اللہ کا فرمان ہے

فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ15

’’پھر جو جھاگ ہے سو بے کار چلا جاتا ہے اور رہی وہ چیز جو لوگوں کو نفع دیتی ہے، سو زمین میں رہ جاتی ہے‘‘۔

اللہ نے فرمایا:

وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُ16

’’اور اگر تم پھر جاؤ گے تو وہ تمھاری جگہ تمھارے سوا اور لوگوں کو لے آئے گا، پھر وہ تمھاری طرح نہیں ہوں گے‘‘۔

سنو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اللہ تم پر رحم کرے اور جان لو کہ اصلاح صرف صحیح ایمان کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے یہی ایمان ہے جو دلوں کو سچائی، اخلاص، امانت داری پاک دامنی، نفس کے محاسبہ، خواہشات پر کنٹرول، حق کی حمایت، دور اندیشی بلندی، ہمت، سخاوت، قربانی،عاجزی، استقامت، قناعت، سمت اور نظام کی پابندی کا عادی بناتا ہے۔ یہ باتیں ہوئی اور درود و سلام بھیجو ہدیہ میں ملی ہوئی رحمت اور عطا کی گئی نعمت اپنے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جس کا حکم آپ کو آپ کے رب نے دیا ہے۔

 اور اللہ نےفرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا17

’’اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو ‘‘۔

اے اللہ درود و سلام اور برکت نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد پر ان کے آل و اصحاب اور ازواج پر۔ اے اللہ! تو چاروں خلفائے راشدین ابوبکر عثمان علی سے اور تمام صحابہ و تابعین اور قیامت تک درست طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں تمام لوگوں سے راضی ہو جائے، تو اپنے عفو و کرم اور سخاوت سے ان کے ساتھ ہم لوگوں سے بھی راضی ہو جاتا ہے رب العالمین۔

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو رسوا کر، دین کے قلع کی حفاظت کر، اپنے مومن بندوں کی مدد کر، سرکش و ملحدوں اور دین کے تمام دشمنوں کو ذلیل و خوار کر، اے اللہ ! اپنے دین، اپنی کتاب اپنے نبی کی سنت اور اپنے نیک بندوں کی مدد فرما اے اللہ ہمیں ہمارے ملکوں میں امن و امان عطا فرما ہمارے پیشواؤں اور حکمرانوں کی اصلاح فرما اور ہماری سربراہی اسے دے جو تجھ سے ڈرنے والا تقوی شعار اور تیرے رضا کا پیروکار ہو اے رب العالمین

اے اللہ !ہمارے سربراہ اور حکمران کی اپنی توفیق اصلاح اور حق سے مدد فرما، اور ان باتوں کی توفیق دے، جنہیں تو پسند کرے اور جن سے تو راضی ہو، انہیں نیکی اور تقوی کی توفیق دے انہیں نیک مشرکہ عطا فرما ان کے ذریعے اپنے دین کو غلبہ عطا کر، اپنے کلمہ کو بلند فرما انہیں، اسلام اور مسلمانوں کا مددگار بنا، ان کے ذریعے حق و ہدایت پر مسلمانوں کو متحد کر دے، انہیں ان کے ولی عحد کو ان کے بھائیوں اور مددگاروں کو حق و ہدایت اور ہر اس چیز کی توفیق دے جس میں ملک اور بندوں کی بھلائی ہو۔ اے اللہ! مسلمانوں کے حکمرانوں کو تو اپنی کتاب اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرما انہیں تو اپنے مومن بندوں کے لیے رحمت بنا ان کو ہدایت پر متحد کر دے اے رب العالمین۔

 اے اللہ! فلسطین میں ہمارے بھائیوں کی مدد فرما، اے اللہ! ان کا حامی و ناصر اور مددگار بن جا، اے اللہ! ان کے معاملات کو سنبھال لیں، ان کی جماعتوں کو اکٹھا کر دے ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد فرما، اے اللہ! وہ کمزور ہیں ان کو قوت عطا کر وہ بھوکے انہیں کھانا کھلا، وہ بے لباس ہے انہیں لباس عطا کر، وننگے پاؤں ہیں ان کو سواری عطا کر، اے اللہ! ان کے حوصلوں کو مضبوط کر دے، ان کی زبردست مدد فرما اے اللہ!اے قرآن کو نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، گروہوں کو شکست دینے والے، غاصب اور ظالم یہودیوں کو شکست دے، اے اللہ! ان لوگوں نے سرکشی کیا، ظلم کیا، تکلیفیں دی، فساد مچا رکھا ہے۔ اے اللہ! ان کے مکر کو ان پر ڈال دے، ان کی چالوں کواونہی پر پلٹ دے، اے زبردست طاقت والے اے اللہ ہمیں شر پسندوں کے شر سے، فاجروں کی مگر سے، شب و روز کی برائیوں سے محفوظ کر اللہ ہمیں توبہ عنابت کی توفیق عطا فرما، اور ہمارے لیے قبولیت کے دروازے کھول دے، اے اللہ ہماری اطاعت اور دعا قبول فرما سبحان۔

خطبہ جمعہ: مسجد الحرام                                                

تاریخ : 27 شوال 1446ھجریبمطابق  25 اپریل 2025 عیسوی

فضیلۃ الشیخ صالح بن عبداللہ بن حمید

______________________________________________________________________________________________________________

  1. (سورۃ الاسراء:53)
  2. (سورۃ طہ:55)
  3. (11:سورۃ البروج)
  4. (سورۃ العلق:01)
  5. (سورۃ فاطر:28)
  6. (سورۃ الفجر:08)
  7. (سورۃ  حم السجدۃ:۱۵)
  8. (سورۃالانعام:39)
  9. (سورۃ ابراھیم:01)
  10. (سورۃ الحدید:09)
  11. (سورۃ البقرۃ:221)
  12. (سورۃ الاعراف:02)
  13. (سورۃ الشوری:52)
  14. (سورۃ الرعد:11)
  15. (سورۃ الرعد:17)
  16. (سورۃ محمد:38)
  17. (سورۃالاحزاب:56)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ صالح بن حمید حفظہ اللہ