پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، تمام تعریفیں میرے رب کے لئے ہیں جس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں، اسی پر میں توکل کرتا ہوں، اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، اور نعمتِ صحت و شباب پر اسی کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کے حکم کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، وہ بہت تیزی کے ساتھ حساب لینے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے فسق اور گالی گلوچ سے منع فرمایا، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور عقل و دانش رکھنے والے صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں ، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
آل عمران – 102
اے ایمان والو! تقوی الہی اختیار کرو، جیسے اختیار کرنے کا حق ہے، اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔
جوانی زمانۂِ نشاط، عصر ِکار کردگی، اور عبادت سے لذت حاصل کرنے کا وقت ہے، تاریخ نے چند نوجوانوں کے زندہ جاوید رہنے والے واقعات بھی محفوظ کیے ہیں، جنہوں نے معرفتِ الہی حاصل کی ، اور اپنے دین پر ڈٹ گئے، تو قرآن کریم نے ان کا تذکرہ محفوظ کر لیا، چنانچہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ
الانبیاء – 60
وہ کہنے لگے:” ہم نے ایک نوجوان کو ان بتوں کا ذکر کرتے سنا تھا جس کا نام ابراہیم ہے”۔
اور اسی طرح اصحاب الکہف کے بارے میں فرمایا:
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى [13] وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِهِ إِلَهًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا
الکھف – 13/14
وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے اور ہم نے انھیں مزید رہنمائی بخشی۔ اور ہم نے ان کے دلوں کو اس وقت مضبوط کردیا جب انہوں نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ: “ہمارا رب تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اس کے سوا کسی اور الٰہ کو نہیں پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو یہ ایک بعید از عقل بات ہوگی”۔
نوجوان ہی امت کا سرمایہ، اور مستقبل کے معمار ہیں، اسلام نے انہیں بہت اہمیت دی ہے، یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالی اپنا سایہ نصیب فرمائے گا، جس دن اس کے سایے کے علاوہ کسی کا سایہ نہیں ہوگا، نبی ﷺکے فرمان کے مطابق ان میں ایسا نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھے بھی شامل ہے۔
نوجوان معاشرے پر بھر پور اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہی عزم و قوت اور نشاط و نو خیزی کا دوسرا نام ہیں، ان صفات کا تقاضا ہے کہ نوجوان اپنی زندگی کو دانا شخص کی طرح چلائیں، اور ہر نوجوان اپنے نفس پر ضبط اور نفسانی جولانیوں کو تھامے، نفس کو خیر و بھلائی کی طرف متوجہ رکھے، اور نفس کے لئے امنگوں بھرے اہداف مقرر کرے، جن کے ذریعے عظمتوں کے زینے چڑھتا جائے، انہی اہداف کو اپنی زندگی میں بھر پور کردار ادا کرنے دے، اور زمین والوں کو اپنا پیغام پہنچائے۔
اور اگر نوجوانوں کی زندگی سے ہدف مٹ جائے تو زندگی رائیگاں ، اور دلچسپی کے امور ناتمام رہتے ہیں
وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
العنکبوت – 64
یہ دنیا کی زندگی ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ، اصل زندگی تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش! وہ لوگ یہ بات جانتے ہوتے۔
جوانی میں وقت قیمتی ترین چیز ہے، اسی وقت میں ہر نوجوان اپنی امنگوں کے بیج بو کر اپنے اہداف حاصل کرتا ہے، جس کے لئے علم نافع، عملِ صالح، عبادت و اطاعت، اور مفید ثقافتی چیزوں کو بروئے کار لاتا ہے، بار آور منصوبوں ، بہترین کار کردگی پر عمل پیرا ہو کر اپنی چال ڈھال، اور زندگی کو پروان چڑھاتا ہے، ایسا پیشہ اپناتا ہے جو اس کی مہارتوں کو چار چاند ، اور روشن مستقبل کی بنیاد ڈالے۔
اور اگر کسی کی زندگی بلند اہداف سے عاری ہو، تو اس کے ذہن میں بیوقوفانہ باتیں آتی ہیں، اور فضول چیزوں میں مشغول ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے منحرف ہونے کے امکانات قوی ہو جاتے ہیں، کیونکہ فراغت گمراہ کن نظریات اور برے خیالات کے لئے بڑی زر خیز زمین ثابت ہوتی ہے۔
خطرناک بات یہ بھی ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے صفحات میں وقت ضائع کر دیا جائے، جو کہ عقیدہ، سلوک ، اخلاقیات، اور خاندانی تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، اور انسان کو دوسروں سے کاٹ کر رکھ دیتے ہیں، اس کے منفی اثرات کسی سے مخفی نہیں ہیں۔
نوجوانوں کو دشمنانِ اسلام کی طرف سے مکر و فریب کا سامنا ہے، اس کے لئے شہوت سے بھری حرام چیزوں کو پیش کیا جا رہا ہے، ان کے جنسی جذبات سے کھیلتے ہوئے مسلم نوجوان کی شخصیت کو نابود ، مستقبل ضائع ، اور جوانی تباہ کی جا رہی ہے، اسے ورطۂِ حیرت، پریشان کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں، اسی طرح بلند اہداف اور قوم و ملت کے امور سے موڑنے کے لئے بھر پور تگ و دو کی جا رہی ہے۔
اس صورت حال میں طریقۂِ نجات یہ ہے کہ : نفسیاتی تربیت قرآن کے ذریعے ہو، دل کو ایمانی غذا دی جائے، نیک لوگوں کے ہم رکاب بنیں، اور نفسیاتی خواہشات کو شرعی طریقوں کے ذریعے پورا کریں، اس سے خوشحالی و سعادت ملے گی۔
شادی جوانوں کے لئے فطری ضرورت ہے، نفسیاتی راحت، اور اخلاقی تحفظ کی ضامن ہے، رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے: (جوانو! جو تم میں سے شادی کے خرچے کی طاقت رکھتا ہے، تو وہ شادی کر لے؛ کیونکہ شادی شرمگاہ کی حفاظت اور آنکھوں میں حیا پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ روزے رکھے، جو اس کی شہوت کمزور کر دیں گے)۔
طاقت رکھنے کے باوجود شادی میں تاخیر کے اخلاقی، نفسیاتی، اور سماجی نقصانات ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کی دینی و اخلاقی حالت تمہیں پسند ہو تو اسے بیاہ دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین پر وسیع فتنہ و فساد بپا ہو جائے گا)۔
نوجوانوں کو اپنی زندگی میں عقل و جذبات کے درمیان توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ جوانی کی حالت میں جذبات اور جوش کی بھر مار ہوتی ہے، اگر انہیں نورِ قرآن حکیم کے تابع نہ کیا جائے تو نوجوان کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لا واعی جو ش و جذبہ بسا اوقات انسان کو افراط و تفریط یا انحراف و غلو میں مبتلا کر سکتے ہیں۔
جوانوں کے پیار و محبت پر مشتمل احساسات کے ساتھ تعامل کے لئے گھرانے کے اندر ہی انس و محبت دیا جائے، انہیں خوب لاڈ اور پیار دیا جائے، ساتھ میں نفسیاتی تربیت کرتے ہوئے عفت، آنکھوں کی حفاظت، اور اللہ تعالی سے حیا کرنے کی ترغیب دلائی جائے۔
چنانچہ جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : “میں نے رسول اللہ ﷺسے اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں استفسار کیا، تو آپ نے مجھے نظر پھیر لینے کے حکم دیا” ترمذی
اسی طرح رسول اللہ ﷺنے فرمایا: (علی! ایک نظر پڑ جانے کے بعد دوسری مت ڈالو، کیونکہ تمہارے لئے پہلی نظر تو ہے، لیکن دوسری نہیں ہے) ابو داود
نوجوانوں کی مضبوط شخصی تعمیر کے لئے ٹھوس سبب یہ بھی ہے کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ان کا گہرا تعلق ہو؛ کیونکہ یہ گھرانہ اس کے لئے ایک قلعہ اور جائے پناہ کی حیثیت رکھتا ہے، یہی وہ تربیت گاہ ہے جہاں پر نفسیاتی استحکام، سکون اور اطمینان ملتا ہے، اسی جگہ سے خیر خواہی و رہنمائی ، ایمانی غذا، اور شخصی عزت ملتی ہے، اگر گھر والوں کے ساتھ تعلق کمزور ہو یا بالکل نہ ہو ، یا بیٹوں کے ساتھ باپ کا رابطہ بالکل کمزور ہو تو اس سے بچے نا معلوم تربیت گاہوں کے اسیر بن جاتے ہیں، جو ان کے دماغ کو چت کر دیتے ہیں اور انہیں تباہی والی وادیوں میں گرا دیتے ہیں۔
وعظ و نصیحت نوجوانوں کی زندگی کے لئے روح ، اور دلی خوشحالی کی حیثیت رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ شخصی تعمیر کے لئے وعظ کی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے وعظ و نصیحت کے لئے خوب تاکید کی ہے، چنانچہ لقمان حکیم کی اپنے بیٹے کے لئے کی ہوئی نصیحتوں میں ہے کہ:
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
لقمان – 13
جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا ، بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔
اسی طرح فرمایا:
يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ [16] يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
لقمان – 16/17
پیارے بیٹے! اگر (تیرا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں، اللہ اسے نکال لائے گا۔ اللہ یقینا باریک بین اور باخبر ہے۔ پیارے بیٹے! نماز قائم کرو، نیکی کا حکم کرو اور برے کام سے منع کرو اگر تجھے کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر صبر کرو بلاشبہ یہ سب باتیں بڑی ہمت کے کام ہیں۔
بطورِ ملازمت نوجوانوں کی طرف سے زمین پر جد و جہد اور تگ و دو، انکی شخصیت کے لئے باعث عزت، اور خاندان کے لئے باعث تکریم ہے، بلکہ بہترین ذریعہ معاش ہے؛ رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا گیا: “کونسا ذریعہ معاش اچھا ہے؟” تو آپ ﷺنے فرمایا: (انسان کی اپنے ہاتھ کی کمائی اور ہمہ قسم کے گناہوں سے پاک تجارت) بزار، حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
نیز نبی ﷺنے لکڑیاں جمع کر کے بیچنے کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر قرار دیا، چاہے لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔
عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: “میں کڑیل جوان کو دیکھتا ہوں تو مجھے اچھا لگتا ہے، اور جب مجھے کہا جائے کہ اس کے پاس کوئی ہنر نہیں ہے! تو وہ میری نظروں سے گر جاتا ہے” اسی طرح آپ کہا کرتے تھے: “تلاش معاش کے لئے کوئی یہ کہتے ہوئے سستی مت کرے: “یا اللہ! مجھے رزق عطا فرما” کیونکہ تمہیں پتا ہے کہ آسمان سونا یا چاندی نہیں برساتا”۔
مثبت ذہن والا نوجوان بے روز گاری کو پس پشت ڈال کر کام کی نوعیت کیسی بھی ہو اس میں جُت جاتا ہے، اور کسی بھی پیشے ، یا کام کو حقیر نہیں سمجھتا۔
پورے معاشرے پر روز گار کے مناسب ذرائع مہیا کرنے ذمہ داری عائد ہوتی ہے، تا کہ نوجوان نسل کو خود اپنے اور معاشرے کے لئے مفید فرد بنایا جا سکے۔
نوجوانوں کو سفر و حضر ، اقامت و رحلت میں اپنے دین پر فخر کرنا چاہیے، اپنی پہچان قائم رکھے، اپنے عقیدے کو بلند سمجھے، اور اپنے عقیدے کے اظہار سے شرم نہ کھائے، اس لئے احساسِ کمتری، نقالی، اور غیروں کے پیچھے چلنے سے احتراز کرے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ
المنافقون – 8
اور عزت صرف اللہ، اس کے رسول، اور مؤمنوں کے لئے ہے۔
نوجوان کی شخصیت میں ٹھہراؤ ایک اچھی خصلت ہے، جو کہ ہر نوجوان کے بس کی بات ہے، یہ صفت ایک ایسی طاقت ہے جو دانشمندی کی غمازی کرتی ہے، جبکہ کسی کے ساتھ تعامل کرتے ہوئے حدّت و جذبات سے کام لینا، اور سوچے سمجھے بغیر انتقامی کاروائی کرنا خطرناک شیطانی عادات ہیں، ان کے نتائج نوجوانوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، ان کی توانائی کو ضائع کرتے ہیں، بلکہ بسا اوقات پورے معاشرے کے لئے وبال بھی بن سکتی ہیں۔
نوجوانوں کے لئے جوانی اور نشاط کے مرحلے میں اصول ِزندگی، تبدیل ہوتے حالات، اور گزرتے ایام سے سبق حاصل کرنا چاہیے؛ چنانچہ اپنی جوانی میں بڑھاپے کے لئے، اور صحت کے ایام میں بیماری کے دنوں کے لئے کچھ کر لینا چاہیے، انہیں اپنی حالیہ حالت سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کیونکہ جوانی کے بعد بڑھاپا، قوت کے بعد کمزوری، اور صحت کے بعد مرض کا خدشہ لاحق رہتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ
الروم – 54
اللہ ہی ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمہاری پیدائش کی ابتداء کی پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی، پھر اس قوت کے بعد تمہیں کمزور اور بوڑھا کر دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کے لئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں ، وہ بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے، وہی بدلے کے دن کا مالک ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے، وہی گزشتہ و پیوستہ لوگوں کا معبود حقیقی ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ متقی لوگوں کے ولی ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل ، تمام صحابہ کرام پر رحمت نازل فرمائے ۔
حمدو صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ
البقرۃ – 282
اور اللہ تعالی سے ڈور، تو اللہ تعالی تمہیں مزید تعلیم دے گا۔
مسلم نوجوان کا دل حب الہی اور حب رسول ﷺسے سر شار ہوتا ہے، چنانچہ اگر کوئی گناہ کا کام کر بھی لے تو اس کا دل خوفِ الہی سے کانپنے لگتا ہے، اور اسے گناہ پر ندامت ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: (جس وقت بندہ کوئی غلطی کرے، تو اس کے دل میں سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے، اور اگر وہ گناہ سے ہاتھ کھینچ کر توبہ استغفار کرے تو اس کا دل دوبارہ چمک اٹھتا ہے، بصورتِ دیگر دوبارہ اسی گناہ کا ارتکاب کرے تو اس کی سیاہی مزید بڑھ جاتی ہے ، یہاں تک کہ پورا دل ہی سیاہ بن جاتا ہے، یہی وہ “ران” ہے جس کا ذکر اللہ تعالی کے فرمان میں ہے:
كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
المطففین – 14
ایسا ہرگز نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کا زنگ چڑھ گیا ہے۔
اور کچھ نوجوان اپنی غلطی کا ادراک ، اور گناہوں میں ملوّث ہونے کے باوجود توبہ نہیں کرتے، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ :”توبہ کر ہی لیں گے” یہ جملہ توبہ کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے، بلکہ یہ شیطانی عمل ہے۔
کچھ نوجوانوں کا گناہوں میں بڑھتے چلے جانا؛ انتہائی خطرناک اور وسیع شر ہے، جبکہ عقل مند شخص اپنے آپ کو گناہوں کے چنگل سے بچا کر رکھتا ہے، اس لئے کہ گناہوں کی آگ ؛ راکھ تلے آگ کی طرح ہوتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ بسا اوقات اللہ تعالی کی طرف سے سزا جلدی نہیں ملتی، تو کبھی موت پہلے آ جاتی ہے، رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے: (یقینا اللہ تعالی ظالم کو مہلت دیتا ہے، اور جس وقت اسے پکڑے تو پھر ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں چھوڑتا، پھر آپ ﷺنے یہ آیت پڑھی:
وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ
ھود – 102
اور جب بھی آپ کا پروردگار کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو اس کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے ، بلاشبہ اس کی گرفت دکھ دینے والی اور سخت ہوتی ہے۔
آپ ﷺکا فرمان ہے کہ: (جب تم یہ دیکھو کہ اللہ عز و جل بندے کو دنیا میں گناہوں کے باوجود اس کی من پسند چیزوں سے نوازتا ہے ، تو یہ اللہ کی طرف سے ڈھیل ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ
الانعام – 44
پھر جب انہوں نے وہ نصیحت بھلا دی جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر (خوشحالی کے) تمام دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جو کچھ ہم نے انہیں دیا تھا اس میں مگن ہوگئے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تو وہ (ہر خیر سے) مایوس ہوگئے۔
اللہ کے بندوں!
رسولِ ہُدیٰ پر درود وسلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔
یا اللہ! محمد پر آپ کی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، اور محمد ﷺ پر آپ کی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔
یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی رضی اللہ عنہم سے راضی ہوجا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، اور اپنے رحم و کرم، اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، اور کافروں کے ساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں، اور ہمیں ہر ایسے قول و فعل کی توفیق دے جو ہمیں جنت کے قریب کر دے، یا اللہ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کرے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے لیکر انتہا تک ہر قسم کی خیر کا سوال کرتے ہیں، شروع سے لیکر آخر تک ، اول سے آخر تک ، اور جنت میں بلند درجات کے سوالی ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لئے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے انتہا تک ، اول سے آخر تک ، جلدی ملنے والی ہو تاخیر سے ، ہمیں اسکا علم ہے یا نہیں ہے، ہر قسم کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں، اور ہم ہر قسم کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں، چاہے وہ شر جلدی ملنے والا ہے یا دیر سے، ہمیں اس شر کے بارے میں علم ہے یا نہیں ہے،
یا اللہ! ہم تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت، اور تونگری کا سوال کرتے ہیں۔
یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کو غلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لئے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ ہمیں تیرا ذکر کرنے والا بنا، تیرا شکر گزار بنا، تیرے لئے مٹنے والا بنا، تیری ہی جانب لوٹنے والا اور رجوع کرنے والا بنا۔
یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو ڈال ، ہماری حجت ثابت کر دے، ہماری زبان کی حفاظت فرما، اور ہمارے سینے کی تمام بیماریاں ختم کر دے۔
یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال ، اور عافیت کے خاتمے سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور تیری اچانک سزا سے، تیری ہر قسم کی ناراضگی سے پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہم پر اپنی برکت، رحمت، فضل، اور رزق کے دروازے کھول دے، یا اللہ! ہماری عمر میں برکت فرما، ہماری بیویوں ، اولاد، کاروبار، اور زندگی میں برکت فرما، یا اللہ! ہم جہاں بھی رہیں ہمیں با برکت بنا، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے دین پر ثابت قدمی، بھلائی پر استقامت، ڈھیروں نیکیاں، تمام گناہوں سے تحفظ، جنت میں داخلے، اور جہنم سے آزادی کا سوال کرتے ہیں۔
یا اللہ! غلبہ دین کے لئے کوشش کرنے والوں کی مدد فرما، اور اسلام و مسلمانوں کو رسوا کرنے والوں کو ذلیل فرما دے۔
یا اللہ! اپنے دین، قرآن، سنت نبوی اور تیرے مؤمن بندوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کا حامی و ناصر بن ، یا رب العالمین! یا اللہ! ملک شام میں مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! انکا حامی و ناصر، اور مدد گار بن جا، یا رب العالمین
یا اللہ! یا معبودِ بر حق! یا اللہ! قرآن نازل کرنے والے! بادل چلانے والے! تمام اتحادی فوجوں کو تباہ و برباد فرما دے، اپنے اور دین کے دشمنوں کو شکست فاش دے، اور ان پر مسلمانوں کو غالب فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! یا قوی! یا عزیز! پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا فرما۔
یا اللہ! فوت شدگان پر رحم فرما، بیماروں کو شفا یاب فرما، ہماری مشکل کشائی فرما، قیدیوں کو رہائی نصیب فرما، اور ہمارے معاملات کی باگ ڈور سنبھال، یا رب العالمین!
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، اور تیری راہنمائی کے مطابق انہیں توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کے لئے بنا لے یا رب العالمین!، یا اللہ ! انکے نائب کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے ، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے!
یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب نافذ العمل کرنے کی توفیق عطا فرما، اور شریعت کے نفاذ کی توفیق دے، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! تیرے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، تو ہی غنی ہے ہم سب تیرے در کے فقیر ہیں، ہمیں بارش عطا فرما، اور ہمیں مایوس مت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! اپنے رحمت کے صدقے زحمت سے خالی رحمت والی بارش عطا فرما، جو تباہی، غرق، اور نقصانات کا باعث مت بنے۔ یا اللہ! ایسی بارش ہو جس سے زمین لہلہا اٹھے، اور لوگوں کے لئے پانی میسر آئے، اس سے شہر و دیہات والے سب مستفید ہوں، یا ارحم الراحمین!
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
الاعراف – 23
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
الحشر – 10
اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں, ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے, اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
البقرۃ – 201
ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل – 90
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی چیز ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔